جمعرات، 31 مئی، 2018

MATRIMONIAL LIFE and Mental, Emotional and Spiritual Compatibility

https://youtu.be/rIkW4DlWcCk

میرپورخاص سے میرپورخاص تک .پہلی قسط . ڈاکٹر صابر حسین خان

 " زندگی ایک سفر ہے سہانا, یہاں کل کیا ہو کس نے جانا "
اس گانے کے بول چند لمحوں کے لیئے ذہن میں آئے , اس وقت جب گاڑی حیدرآباد سے میرپورخاص کی سڑک پر نکلی , اور پھر چند لمحوں میں ہی ذہن سے محو ہو گئے . ان چند لمحات نے چند لمحوں کے لیئے 1972 کے ایک سفر کو یاد دلا دیا . وہ سفر بھی حیدرآباد سے میرپورخاص کا تھا . ابو نے برما شیل کے ایک پیٹرول پمپ پر گاڑی روکی تھی اور پچھلی سیٹ پر بیٹھے بابر سے کہا تھا کہ وہ یہ گانا سنائے . بابر چھوٹی امی کا چھوٹا بھائی تھا . آج بابر کہاں ہے اور چھوٹی امی کا کیا حال ہے, مجھے نہیں پتہ . 2018 مارچ کی 23 تاریخ کو گاڑی کا اسٹیئرنگ وھیل میرے ہاتھ میں تھا . سفر حیدرآباد سے میرپورخاص تک کا تھا . گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیوی اور بیٹی کے ساتھ میرا چھوٹا بیٹا بیٹھا ہوا تھا . چار سال بعد اپنے آبائی شہر کو جانا ہو رہا تھا . گھر سے یہ کہہ کر نکلنا ہوا تھا کہ بس یونہی موٹروے کی سیر کر کے , حیدرآباد میں مچھلی کھا کے واپس آ جائیں گے . مگر دل کی خواہش کچھ اور ہی تھی . جس کا اظہار حیدرآباد کے پاس پہنچ کر کیا تو سننا پڑا کہ نکلنے سے پہلے بتانا تھا . تاکہ اسی حساب سے کپڑے رکھے جاتے. مگر اس طرح کے اچانک سفر کا مزہ کچھ اور ہی تھا .
سوچ سمجھ کر, باقاعدہ پلاننگ سے تو عام طور پر سفر ہوتے رہتے ہیں . کبھی کبھی بنا سوچے سمجھے یونہی نکل کھڑے ہونے کا لطف ذرا دوسری طرح کا ہوتا ہے .
گزشتہ 12 برس میں میرپورخاص کا یہ تیسرا سفر تھا . پچھلے دو سفروں میں اپنے شہر کا جو حال دیکھا تھا وہ تباہی و بربادی سے اتنا بھرپور تھا کہ اس کا احوال بیان کرنے کی ہمت بھی نہیں ہوئی .
مگر اس سفر میں لگا کہ کچھ کام ہو رہا ہے . پہلی خوبصورتی تو حیدرآباد سے میرپورخاص تک دو رویہ موٹروے تھی . دونوں اطراف باغات اور درمیان میں جگہ جگہ رنگا رنگ پھولوں کی کیاریاں . بارہ برس پہلے جو سفر ڈھائی گھنٹے میں ہوتا تھا, وہ 80-90 کی رفتار پر سوا گھنٹے میں ہی پورا ہوگیا . بڑی گاڑی اور 120 کی رفتار پر 40 سے 45 منٹ میں پورا ہو جانے والا سفر , آسانی  سہولت اور نظر کو سیراب کردینے والے سبزے کی وجہ سے بڑا دلفریب اور Relaxing تھا .
جونہی گاڑی میرپورخاص کی حدود میں داخل ہوئی , لڑکپن کی یادیں بیدار ہونے لگیں . ڈی سی آفس کے بعد گاما اسٹیڈیم اور درمیان میں بائیں جانب, ذرا پیچھے شاہ لطیف سائنس کالج اور پھر گلستان بلدیہ کا خوبصورت چھوٹا سا باغ اور باغ میں لگے جھولے اور سڑک کے ساتھ نیا بنا ہوا میرپورخاص پریس کلب . اور ذرا آگے دائیں جانب امریکن ہسپتال اور اس کے ساتھ سینٹ مائیکل کانونٹ اسکول کی بلڈنگ اور اس کے ساتھ سٹیزن جیمخانہ کلب . اور اس کے سامنے بائیں جانب گزشتہ 46 سال سے موجود کیفے شیراز .
گزشتہ سفروں کی طرح اس بار بھی پہلا اسٹاپ کیفے شیراز ہی تھا . جہاں شام 5 بجے بھی تازہ کھانا اور گرم روٹیاں , وافر پیاز اور سلاد کے ساتھ دستیاب تھیں . 40 -45 سال پہلے ابو تمام بہن بھائیوں کو رات میں کیفے شیراز لاتے تھے . Benz مینگو جوس پینے کے لیئے . کھڑکی سے جھانکنے پر بالکل سامنے سڑک کے پار سٹیزن جیمخانہ کلب کا کھلا گیٹ نظر آرہا تھا . جہاں اکثر رات گئے ابو کے ساتھ کیرم کھیلنے جانا ہوتا تھا . اور کیرم کے ساتھ انڈوں کے سینڈوچ کھانے کی لالچ , شوق کے ساتھ لے جایا کرتی تھی . 40 - 45 سال پہلے کے وہ سب منظر,  حال کے کھانے کے لقموں کے ساتھ خون میں شامل ہو رہے تھے .
وہ دن گزر گئے. یہ دن بھی گزر جائیں گے. سب دن گزر جاتے ہیں. سبھی کے دن گزر جاتے ہیں. عمر تمام ہو جاتی ہے. ایک کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد پھر تیسری نسل اپنے حال میں اپنے ماضی کی یادوں اور خوابوں کے ساتھ اپنے اپنے دن گزارنے پر مجبور ہو جاتی ہے. زندگی کا سفر کہیں رکے بنا جاری رہتا ہے . نام , کردار اور چہرے بدلتے رہتے ہیں لیکن زندگی کبھی کسی کے لیئے رکتی نہیں. راستے وہی رہتے ہیں مگر مسافر بدل جاتے ہیں. ہر مسافر کی اپنی کہانی ہوتی ہے. ہر سفر کی اپنی داستان ہوتی ہے . وقت کے ساتھ مقام اور منزلوں کے نشان بھی بدلتے رہتے ہیں. مگر سنگ میل اپنی جگہ برقرار رہتے ہیں .
چون برس پہلے میرپورخاص کے جس امریکن ہسپتال میں جنم لیا تھا,وہ آج بھی اپنی جگہ موجود ہے. مگر اس کے سامنے پہلی منزل پر واقع مرحبا ہوٹل چار سال پہلے اپنا وجود نہیں رکھتا تھا. ایک وقت وہ تھا جب میرپورخاص اپنا شہر تھا اور رہنے کو ایک نہیں, دو گھر تھے . اور دونوں گھروں میں کسی بادشاہ کی طرح زندگی بسر ہوتی تھی. اور اب زندگی کاسفر کسی اجنبی کی طرح دو راتوں کے لیئے مرحبا ہوٹل کے کمرہ نمبر پانچ میں لے آیا تھا . شوق جنوں آدمی کو کہاں سے کہاں لے جاتا ہے . کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا . اور فطرت میں اگر آشفتہ سری بھی ہو تو آدمی کسی بھی وقت ہر طرح کی بادشاہت کو چھوڑ کے اپنا خاکی پیراھن پہن کر خود کو ایک نئے سفر کے سپرد کر دیتا ہے .