ہفتہ، 24 نومبر، 2018

پل بھر کی کہانی

" پل بھر کی کہانی "  ( 13/01/1983 )

ڈاکٹر صابر حسین خان

تم نے تو مجھ سے
میرا فون نمبر
کبھی پوچھا ہی نہیں
مگر میں کیسے یقین کرلوں
تم نے میرے بارے
کبھی سوچا ہی نہیں
کہ وہ لمحہ پل بھر میں
ساری کہانی کہہ دیتا ہے
جس لمحے ایک پل کو
ہم دونوں
آنکھیں چار کرکے
نظریں چرا لیتے ہیں
راز دل کہہ کر بھی
حال دل چھپا لیتے ہیں

بساط

" بساط "    02/12/1982

ڈاکٹر صابر حسین خان

سوچ کی بساط پر
لفظوں کے مہرے
ادھر ادھر کرتا رہتا ہوں
خود کو حریف جان کر
چالیں چلتا ہوں
اپنے آپ سے کھیلتا رہتا ہوں
جب کبھی تنہا ہوتا ہوں
( اور اکثر ہی تنہا رہتا ہوں )
کہ شاید کبھی
کوئی شبیہ بن جائے
کاغذ سیاہ ہوتے رہتے ہیں
سیاہی ختم ہوجاتی ہے
مگر کسی صورت
مات نہیں ہو پاتی
کوئی صورت دکھ نہیں پاتی
بازی ختم نہیں ہو پاتی

جمعہ، 2 نومبر، 2018

ڈاکٹر صابر حسین خان .مصنوعی ذہانت . Artificial Intelligence

ARTIFICIAL SUPER INTELLIGENE

" غیر معمولی مصنوعی ذھانت "

دعاگو  .  ڈاکٹر صابر حسین خان .


مجھے بہت سی باتوں کی سمجھ بہت دیر میں آتی ہے. مگر کبھی نہ کبھی آ ہی جاتی ہے. کبھی خود بہ خود اور کبھی ٹھوکریں کھا کر. اور کبھی کچھ سن کر یا کچھ پڑھ کر. اگر اپنا احتساب خود کروں تو میں اپنی ذہانت کو اوسط درجے کا پاتا ہوں. ایمانداری سے دیکھا جائے تو میرا شمار ذہین لوگوں میں نہیں ہوتا. کبھی کبھی کچھ باتوں کو سمجھنے میں اتنی دیر ہو جاتی ہے کہ اچھا خاصا نقصان بھی برداشت کرنا پڑتا ہے.
میرے خیال میں یہ مسئلہ بہت سے لوگوں کا بھی ہے. خاص طور پر وہ لوگ جو پیدائشی اور جینیاتی طور پر دل سے سوچتے ہیں اور سوچے سمجھے بغیر قدم اٹھا لیتے ہیں. اور پھر ردعمل کے بعد سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ اب کیا کریں. ہم جیسے کم اور کمزور ذھانت والے لوگ عام طور پر جذباتی ہوتے ہیں اور مستقبل کے حوالے سے لائحہ عمل ترتیب دینے اور منصوبہ بندی سے عاری زندگی گزارنے کے عادی ہوتے ہیں.
اس کے برعکس ذھین اور بہت زیادہ ذھین افراد اپنے وقت کا بھرپور اور موثر استعمال بھی کرتے ہیں اور مستقبل کے پل پل کی پہلے سے تیاری کرکے رکھتے ہیں. اور اپنی ذھانت سے زینہ بہ زینہ ترقی اور کامیابی کی منازل طے کرتے چلے جاتے ہیں. ایسے لوگوں کی ذھانت کا بڑا حصہ موروثی ہوتا ہے. مگر ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جن کے آباواجداد نھایت کم عقل اور ناسمجھ ہوتے ہیں مگر وہ خود عمر کے ابتدائی سالوں سے ہی نھایت ذھانت کا ثبوت دیتے ہیں اور اپنے ساتھ کے لوگوں میں شروع سے ہی انفرادی مقام بنا لیتے ہیں. یہ لوگ بنا مبالغہ قسمت کے دھنی ہوتے ہیں. کہا جاتا ہے کہ ایسے لوگوں کی ذھانت میں صدیوں کا سفر شامل ہوتا ہے. کئی نسلوں کی عقل سمجھ اور اجتماعی ذھانت کا خمیر ایسے خوش قسمت لوگوں کی ذھانت کا حصہ بنتا ہے.
ایسی ذھانت اور کسی بھی طرح کی اور شدید ذھانت کی پہلی اور سب سے نمایاں علامت یہ ہوتی ہے کہ اس ذھانت کے حامل افراد سوتے جاگتے ہمہ وقت اپنی ذھانت بڑھانے اور استعمال کرنے میں مصروف رہتے ہیں. یہ ذھین لوگ میری اور آپ کی طرح تمام عمر ایک ہی دائرے کے اندر چکر لگاتے ہوئے نہیں گذارتے, نہیں گزار سکتے. ظاھری طور پر میری اور آپ کی طرح دکھنے والے یہ لوگ میری اور آپ کی طرح بار بار غلطیاں بھی کرتے ہیں مگر اپنی ہر غلطی اور ناکامی سے کوئی نہ کوئی سبق سیکھتے ہیں اور بہت ہی کم اپنی کسی غلطی کو دہراتے ہیں. میں اور آپ تو بار بار ایک ہی طرح کی غلطی کرتے ہیں, نادم ہوتے ہیں, توبہ کرتے ہیں اور کچھ دنوں بعد وہی غلطی دوبارہ کرتے ہیں. ذھین وفطین لوگ بار بار کی ایک جیسی غلطی سے بار بار بچتے ہیں اور ایسی نت نئی راہیں تراشتے اور تلاشتے رہتے ہیں جو ان کی غلطیوں کے امکانات کو کم اور کامیابی کے مراحل طے کرتے رہنے کے مواقع کو بڑھانے میں معاون ہوں. ان کا ہر نیا تجربہ نئے انداز کا ہوتا ہے. اور نئے نتائج سے بھرپور ہوتا پے.
ذھین افراد تجربات کرنے سے نہیں ڈرتے. اپنے آپ کو اور اپنے ماحول کو بدلنے اور بدلتے رہنے سے نہیں گھبراتے. ان کی گھٹی میں بہتر سے بہترین تک پہنچنے کی فطری مجبوری موجود ہوتی ہے اور وہ اپنی طے شدہ منزل تک پہنچنے سے پہلے تھک کر نہیں بیٹھ پاتے.
دنیا کے بیش بہا کارناموں اور ان گنت ایجادوں کے پس منظر میں انہی ذھین لوگوں کا ہاتھ ہوتا ہے. نئے زاویے، نئی جہتیں، نئے نظریے، نئے امکانات، نئی فکر، نئے خیال، زیادہ تر ذھین افراد کے مرہون منت ہوتے ہیں.
بہت زیادہ ذھین افراد بہت زیادہ بیوقوف لوگوں کی طرح معاشرے کے متوسط ذھانت کے حامل افراد کے ساتھ عام طور پر گھل مل کر نہیں رہ پاتے. اور نہ ہی کوئی نارمل عمومی ذھانت والا آدمی بہت زیادہ ذھین افراد کو بہت زیادہ دیر تک برداشت کر سکتا ہے. ہم میں سے شاید ہی کوئی بہت زیادہ ذھین اور بہت زیادہ بیوقوف آدمی کے ساتھ بہت زیادہ وقت گزار سکتا ہو. ہر دو صورتوں میں ایک محدود وقت کے بعد ہمارے پر جلنے لگتے ہیں. کم عقل اور ناسمجھ اور نادان کے ساتھ چند گھنٹے گزارنے کے بعد ہمیں ایسا لگتا ہے کہ اگر دو منٹ مزید بھی اس صحبت میں گزر گئے تو ہمارا اپنا دماغ کھوکھلا ہو جائے گا. اور ہمیں نفسیاتی علاج کی ضرورت پڑ جائے گی. اسی طرح ضرورت سے زیادہ ذھین اور سمجھدار لوگوں کی صحبت بھی کچھ مدت بعد ہمیں کھلنے لگتی ہے. کیونکہ ان کی باتیں جونہی ہمارے اوپر سے گزرنا شروع ہوتی ہیں تو ہمارے فیوز اڑنا شروع ہو جاتے ہیں. اور ہمیں ایسا لگتا ہے کہ ہم بہت کمتر اور بیوقوف ہیں، ہمیں کچھ نہیں آتا جاتا اور جو تھوڑا بہت آتا بھی ہے، وہ بھی اتنی مشکل باتوں اور اتنے پیچیدہ فلسفوں اور نظریوں کے بوجھ تلے دب کر ملیا میٹ ہو جائے گا. لہذا ہم جیسے درمیانے درجے کی ذھانت والے لوگ نہ ببانگ دہل حماقتیں اور بیوقوفیاں کر پاتے ہیں اور نہ ہی کبھی اپنی ذھانت اور عقل کی چمک دکھا پاتے ہیں. اور اپنے جیسے لوگوں کے بیچ رہتے ہوئے ایک طے شدہ عام سی زندگی گزارتے رہتے ہیں.
بہت زیادہ ذھین افراد ایسی زندگی نہیں گزار سکتے. نہ گزارتے ہیں. ان کی بہت زیادہ ذھانت ان کو عام طور پر نارمل سے زیادہ خود غرض, لالچی, موقعہ پرست اور جذبات سے عاری بنا دیتی ہے. وہ ہر شے, ہر بات, ہر کام, یہاں تک کہ ہر تعلق, ہر رشتے کو بھی فائدے اور نقصان کے پیمانے پر ناپنے تولنے کے عادی ہو جاتے ہیں. بہت زیادہ ذھین افراد اپنا وقت ضائع نہیں کر پاتے. اپنا وقت ضائع نہیں کرتے. وہ اپنے مطلب کے لئیے انتہائی بیوقوف لوگوں سے بھی روابط روا رکھنے میں کوئی حرج نہیں محسوس کرتے. اور انتہائی ذھین لوگوں کی صحبت میں بھی بہت مطمئن اور خوش رہتے ہیں. کیونکہ ان کا فوکس, ان کی توجہ پوری کی پوری اپنے مقصد پر مرتکز ہوتی ہے. خواہ اس کے لئیے ان کو کیچڑ میں سے موتی ڈھونڈنا پڑے یا پہاڑ کی چوٹی پر سے کوئی جڑی بوٹی توڑ کر لانی پڑے. وہ اپنی ذھانت سے اپنے راستے کی رکاوٹیں دور کرنے اور مستقل حرکت میں رہنے سے کبھی نہیں گھبراتے.
بہت زیادہ ذھین افراد گو اندرونی طور پر بہت زیادہ حساس اور انا پرست بھی ہوتے ہیں لیکن اپنے کام اور اپنے مشن کی مصروفیت کے دوران ان کو ارد گرد کے لوگوں کی باتوں اور تنقید کی رتی برابر پرواہ نہیں ہوتی. کبھی کبھی تو یہ مغالطہ بھی ہونے لگتا ہے کہ بہت زیادہ ذھانت کے پیچھے کہیں بہت زیادہ بیوقوفی تو پوشیدہ نہیں. اور ایک خاص نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ بات بھی توجہ طلب ہے.
بہت زیادہ ذھانت اور بہت زیادہ بیوقوفی کی دو انتہائیں درحقیقت ایک ہی جہت کے دو رخ ہوتے ہیں. فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ بیوقوفی کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا. جبکہ ذھانت کی ہر حماقت کی ابتدا اور انتہا کسی نہ کسی مقصد کو سمیٹے ہوتی ہے.
جدید علم نفسیات کے آغاز سے ماہرین نفسیات انسانی ذھن کی ان دو انتہاوں کے مطالعے اور مشاہدے میں مصروف عمل ہیں. اور انسانی ذھن کے گوناگوں کونوں کھدروں اور پوشیدہ گوشوں کو کھنگال رہے ہیں. اب تک کی تحقیق کے بعد ہزاروں نفسیات دان ایک ایسا نکتہ تلاش کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں جس پر سبھی ماہرین متفق ہیں. ایسا نکتہ جس کی بنیاد پر ہم سب بآسانی بہت زیادہ ذھین اور کم ذھین اور بیوقوف افراد کی ذھانت کے لیول اور معیار کی جانچ کر سکتے ہیں.
بہت زیادہ ذھین افراد کو قدرت کی طرف سے مستقبل میں جھانکنے اور مستقبل کو اپنی پسند, اپنی خواہش, اپنے مقصد کے مطابق ڈھالنے کی صلاحیت ودیعت کی گئی ہوتی ہے. ان کی نگاہ آنے والے وقت اور آنے والے وقت کے تقاضوں اور ضروریات پر رہتی ہے. ان کا ہر قدم, ان کا ہر عمل, حال کی بہتری کے ساتھ ساتھ مستقبل کے استحکام اور مضبوطی کے لئیے ہوتا ہے. ان کے دائرہ نگاہ کی وسعت روز مرہ کے معمولات اور روایتی کاموں کی حد تک نہیں ہوتی. وہ موزمبیق میں آنے والے زلزلے سے اندازہ لگا لیتے ہیں کہ اب برازیل میں سونامی آنے والا ہے. اور برازیل کے سونامی سے امریکہ اور برطانیہ کے اسٹاک ایکسچینج کا گراف کتنا اوپر نیچے چلا جائے گا.
عام متوسط ذھانت کے حامل افراد کسی ایک بات, کسی ایک واقعے سے مستقبل کی پیش بینی نہیں کر سکتے. اور نہ ہی اپنے آس پاس کے حالات اور واقعات میں رونما پذیر کسی تغیر اور تبدیلی سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس کے اثرات آنے والے دنوں میں کیا پڑیں گے.
رہا سوال انتہائی کم عقل لوگوں کا, تو ان معصوموں کو تو حال کی خیر خبر نہیں ہوتی. وہ اپنے روزمرہ کے مسائل کے حل میں اتنے الجھے رہتے ہیں کہ ان کو اردگرد اور حالات واقعات کی کسی بڑی سے بڑی تبدیلی تک کا بھی پتہ نہیں چل پاتا.
مختلف حوالوں سے انسانی نفسیات اور ذھانت کے انہی رنگارنگ پہلوؤں اور زاویوں پر صدی بھر کی ریسرچ اور نئے دور کی جدید ترین ایجاد کمپیوٹر کے ملاپ نے ایک نئی طرح کی ذھانت کو جنم دیا ہے. جو ہزارہا انتہائی ذھین ترین افراد کی مجموعی ذھانت سے بھی کئی گنا زیادہ ذھانت کی حامل ہے. جدید ٹیکنالوجی اور کمپیوٹنگ کی کوکھ سے پیدا ہونے والی اس ذھانت کو آج کے ماہرین سائنس اور ماہرین معاشرت اور ماہرین نفسیات نے " مصنوعی ذھانت " یا
" آرٹیفیشل انٹیلیجنس " کا نام دیا ہے.
گزشتہ 40 سالوں سے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر کے ماہرین, ذھانت کے اس نئے میدان میں اپنی ذھانت کے گھوڑے دوڑا رہے ہیں. اور ماہرین نفسیات کی مدد سے جانوروں, انسانوں اور مختلف ٹارگٹ گروپس کے ساتھ ساتھ مختلف ملکوں میں " مصنوعی ذھانت " کے تجربات کرتے کرتے اب گزشتہ 15 سے 20 سالوں میں اس سے بھی زیادہ ایڈوانس اور خطرناک دائرے میں قدم رکھ چکے ہیں. 
اور وہ دائرہ ہے " آرٹیفیشل سپر انٹیلیجنس " کا. یعنی " غیر معمولی مصنوعی ذھانت ".
" مصنوعی ذھانت " سے کمپیوٹر اور ٹیکنالوجی کی مدد سے انسانوں کے کام آسان کرنا اور انسانوں کی جگہ کمپیوٹر اور ٹیکنالوجی کی سہولیات سے کام لینا ہوتا ہے. سو لوگوں کا کام ایک مشین سے لینا یا ایک سوفٹ وئیر کی مدد سے گاڑیوں, جہازوں, کارخانوں کو بآسانی چلانا آج مصنوعی ذھانت کی وجہ سے نھایت آسان ہو گیا ہے اور عملی زندگی میں جگہ جگہ اس کا مظاہرہ بھی ہو رہا ہے.
لیکن جو چیز لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہے, وہ آرٹیفیشل سپر انٹیلیجنس کا خفیہ اور خطرناک استعمال ہے. جہاں ایک طرف آرٹیفیشل انٹیلیجنس کو اب کھلے عام, عام انسانوں کے استعمال میں دے دیا گیا ہے. وہاں دوسری طرف آرٹیفیشل سپر انٹیلیجنس کو عام انسانوں کی نفسیات اور شخصیت اور رویوں اور جذبات اور خیالات اور نظریات اور احساسات اور ذھانت کو مخصوص شکل میں ڈھالنے, موڑنے اور بدلنے کے لئیے انتہائی پوشیدہ اور خفیہ طریقوں سے برتا اور استعمال کیا جا رہا ہے.
ہم میں سے بہت کم لوگوں کو پتہ ہے یا پتہ چل پاتا ہے کہ ہم کتنا اور کس حد تک آرٹیفیشل سپر انٹیلیجنس کے ایجنڈے اور منصوبے کے مطابق زندگی گزارنے پر مجبور ہیں. اس ضمن میں بہت سی مثالیں موجود ہیں اور دی جا سکتی ہیں مگر کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ آپ خود اپنی اپنی ذھانت کو حرکت میں لا کر اپنے چاروں طرف نظر دوڑائیں, گزشتہ 5 تا 10 سالوں میں دنیا کے ملکوں میں اچانک رونما پذیر ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں سوچیں, مختلف علاقوں میں آنے والے زلزلوں اور سمندری طوفانوں کا جائزہ لیں, کھیلوں کے بڑے بڑے ٹورنامنٹس کے نتائج سے لے کر جگہ جگہ ہونے والے سیاسی اور سماجی احتجاجوں اور ان کے نتیجے میں آنے والے انقلابات کی بابت غور کریں. آپ کو خود بخود سمجھ آنے لگے گا کہ ان سب کے پیچھے اور ان سب میں آلہ کار بننے والے لوگوں کی سوچ اور عمل میں اچانک تبدیلی آنے کی کونسی وجوہات ہیں اور ان وجوہات سے کس کس کے کون کون سے مطالیب اور مقاصد پورے ہوئے ہیں یا ہو رہے ہیں.
عقل مند کیلئے اشارہ کافی ہوتا ہے. اس مضمون کو پڑھ کر آپ بھی اپنی ذھانت آزما کر دیکھئیے. یہ دور اور آنے والا دور
" آرٹیفیشل سپر انٹیلیجنس " کا ہے. جو لاکھوں کروڑوں ذھین ترین انسانوں کی مجموعی ذھانت کا مرکب ہے. اسے سمجھنے کے لئیے, اسے اپنے ذھن اور شخصیت پر حاوی نہ ہونے دینے کے لئیے, اس سے نبردآزما ہونے کے لئیے, اس کی خفیہ چالوں کو جاننے کے لئیے, اور اس کی چالوں کے جواب میں زیادہ بہتر چالیں چلنے کے لئیے مجھے اور آپ کو اپنے اپنے کمفرٹ زون کو چھوڑنا ہوگا. اپنی اہلیت اور اپنی ذھانت کو ہر پل پروان چڑھاتے رہنا ہوگا. اور ہمہ وقت مصنوعی ذھانت اور غیر معمولی مصنوعی ذھانت کو فطرت اور قدرت کی ودیعت کردہ حقیقی ذھانت پر حاوی ہونے سے روکتے رہنا ہوگا.
کہ فطری اور حقیقی ذھانت ہر حال میں مصنوعی ذھانت سے افضل ہوتی ہے. لیکن اگر ہم اسے استعمال کرنا چھوڑ دیں اور اپنے خول اور اپنے خوابوں میں زندگی بسر کرتے رہیں تو وہ وقت اب زیادہ دور نہیں جب ہمارا ذکر پھر محض تاریخ کی کتابوں میں ملے گا.

دعاگو .  ڈاکٹر صابر حسین خان