پیر، 24 دسمبر، 2018

" وقت کم, مقابلہ سخت " ڈاکٹر صابر حسین خان

" وقت کم مقابلہ سخت "

دعاگو . ڈاکٹر صابر حسین خان

اتنے مہینوں سے میرے سامنے بابا محمد یحیحی خان کی 1100 صفحات پر مشتمل " لے بابا ابابیل " رکھی ہوئی ہے. دو بار شروع کرنے کی ہمت کر چکا ہوں. مگر مکمل فراغت کے باوجود چار چھ بار پڑھنے کے بعد رکھ دی ہے. سوچتا ہوں, ذرا اور سکون مل جائے تو پڑھوں گا. نہ اور سکون مل پاتا ہے, نہ کتاب مکمل ہو پاتی ہے. یہ بات نہیں کہ طبیعت ضغیم کتابوں کے مطالعے سے گھبراتی ہے. بابا محمد یحیحی خان کی گزشتہ 3 کتابیں بھی کم بھاری بھرکم نہیں ہیں. لیکن جن دنوں میں, جس موسم میں, وہ کتابیں سامنے آئیں. وہ وقت انتہائی مصروفیات کے باوجود شاید اتنا سخت اور سنجیدہ نہیں تھا. تبھی وہ تینوں یکے بعد دیگرے مھینے ڈیڑھ مھینے میں ختم کر لی گئیں. مگر اب لگتا ہے کہ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت. وقت اور فراغت ہونے کے باوجود. اتنی موٹی کتاب میں جذب ہونے سے گھبراہٹ ہوتی ہے.
ایسی کیفیت محض مجھ اکیلے کی نہیں ہے. ہم سب اول تو مطالعے سے اور دوئم لگن اور توجہ سے پڑھنے اور بہت زیادہ پڑھنے سے اب کترانے لگے ہیں. ہر شے جدید سے جدید تر ہوتی جا رہی ہے اور اس کا سب سے زیادہ اثر ہمارے وقت پر پڑا ہے. ایک وقت تھا جب ہمارے تمام کام ہو جاتے تھے اور پھر بھی ہمارے پاس وقت بچ جاتا تھا اور ہم سکون کی نیند سوتے تھے. دور جدید کے تیز رفتار وقت کا اب یہ حال ہے کہ تمام تر مشینی سھولیات میسر ہونے کے باوجود ہمارے کام ختم نہیں ہو پاتے اور ہمارے پاس فارغ وقت بھی نہیں بچ پاتا. اور ہم بے سکونے رہتے ہیں.
مقابلے, مسابقت, کامیابی, ترقی کے درجات اور معیارات اس درجہ بدل چکے ہیں کہ اب ہمارا مقابلہ آس پاس کے انسانوں کے ساتھ بھی نہیں ہے. بلکہ ہر لحظہ ہمیں اپنی ہی ایجاد کردہ مشینوں سے مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے. ہمیں کسی اور سے نہیں, خود اپنے آپ سے جنگ لڑنی پڑ رہی ہے. اس دو طرفہ لڑائی نے ہمارے قدموں کے نیچے سے زمین کھینچ لی ہے. اور ہمیں ہوا میں معلق کر دیا ہے. دور جدید نے ہماری سوچ کے زاوئیے اور ہماری منزل کے راستے بدل دئیے ہیں. ہماری ترجیحات, ہماری سمتیں تبدیل ہو گئی ہیں. سکون اور تنہائی کے لمحات ہمیں کھلنے لگے ہیں. محفلوں کا شور اور غل غپاڑہ ہمیں اچھا لگنے لگا ہے. ہماری دلچسپیوں اور تفریحات کے محور بدل گئے ہیں. خوشگوار, بھرپور اور کامیاب زندگی سے متعلق بنیادی فلسفے اور نظریات کے رنگ ڈھنگ بدل چکے ہیں.
یہاں تک کہ ہماری جینیاتی ساخت تک تبدیل ہو رہی ہے اور ہمیں کوئی ہوش نہیں ہے.
ان سب تبدیلیوں سے, بلکہ کسی بھی تبدیلی سے کوئی فرق نہیں پڑتا, اگر آج ہم مطمئن اور پر سکون زندگی گزار رہے ہوتے. مسئلہ تو یہ ہے کہ دور جدید کے مسائل اور وسائل کے انبار نے انسان کو بونا بنا دیا ہے. اور اس بوجھ سے سب سے زیادہ نقصان ہماری فطرت, ہماری نفسیات اور ہماری روح کو ہوا ہے. ہماری تنہائی ہم سے روٹھ گئی ہے. فارغ وقت میں کچھ نہ کرنے کا سکون ہم سے چھن چکا ہے. ہمارے سر پر ہمہ وقت کاموں اور ذمہ داریوں کی تلوار لٹکی رہتی ہے. ایک کے بعد ایک اور مصروفیت ہمارے دروازے پر دستک دیتی رہتی ہے. ہر نیا دن ہمارے لئیے نیا چیلنج لے کر آتا ہے. صبح کا سنہرا پن اور راتوں کا نیلگوں فسوں, کسی افسانے کی داستان لگتا ہے.
یہ نہیں کہ فطرت کے عناصر آج موجود نہیں. مگر ان سے توانائی حاصل کرنے والی آنکھیں خود تماشا بن چکی ہیں. اور جب تماشائی, تماشا بن جاتے ہیں تو قدرت اپنے ہاتھ کھینچ لیتی ہے. دینا بند کر دیتی ہے. نوازنا چھوڑ دیتی ہے.
قدرت کی تقسیم انسانوں کی سمجھ میں بہت کم آتی ہے. ہم ایک دوسرے کو دیکھ کر رشک, حسد اور جلن کا شکار ہو جاتے ہیں. مقابلے کی دوڑ میں, ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں اپنا خون جلاتے ہیں. معاشرے میں اعلی سے اعلی مقام حاصل کرنے کی تگ و دو کرتے ہیں. بڑھیا سے بڑھیا چیزیں جمع کرتے ہیں. ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں. اور ان سارے چکروں کے بیچ اپنے آپ کو, اپنی اصلیت کو, فطرت اور قدرت کے اشاروں اور تقاضوں کو اس بری طرح مجروح کر بیٹھتے ہیں کہ ہماری زندگی معصومیت سے عاری اور ہماری روح زندگی سے خالی ہو جاتی ہے. اور ہم وقت کم ہے اور مقابلہ سخت کی تسبیح پڑھنے لگ جاتے ہیں.
ہم نے خود کو وقت کی تنگی اور مقابلے کی سختی کی زنجیروں میں باندھ کر یہ حقیقت فراموش کر دی ہے کہ زندگی درحقیقت بہت آسان اور خوشگوار ہے. قدرت کی رعنائیوں, رونقوں اور نعمتوں سے لبا لب بھری ہوئی. اگر ہم خود کو مقابلے اور مسابقت کی بھاگم بھاگ سے آزاد کر لیں اور اپنے نصیب پر قناعت کرلیں تو یہ سب خوشیاں اور رعنائیاں ہمیں ازخود ملنا شروع ہو جائیں گی.
پھر نہ ہمیں وقت کی کمی کا احساس ہو گا. نہ ہمارا کسی سے مقابلہ رہے گا. پھر ہمارا کامیابی اور ترقی کا زاویہ نگاہ بھی بدل جائے گا. اور ہم سکون اور طمانیت کی دولت سے مالا مال ہوتے چلے جائیں گے.

دعاگو .  ڈاکٹر صابر حسین خان