ہفتہ، 30 جون، 2018

"TODAY'S TRUTH " " آج کا سچ " #DUAAGO #DRSABIRKHAN

آج کا سچ . Today's Truth . ڈاکٹر صابر حسین خان . بہت بار دل نے اکسایا ہے کہ عوامی نفسیات اور روز مرہ زندگی کے حالات اور واقعات پر لکھا جائے اور , اور دیگر معاملات زندگی پر جس طرح مختلف زاویہ نظر سے اپنی بات کو اجاگر کیا جاتا ہے , اسی طرح اپنے ارد گرد رہنے والے معصوم انسانوں اور ان کے معصوم کاموں پر بھی اپنی رائے کا اظہار کیا جائے . مگر ایک الگ نظر , ایک مختلف ڈگر سے . یہ اور بات ہے کہ ہر بار دماغ نے دل کو یہ دلیل دے کر خاموش کرا دیا ہے کہ یہ تمھارا کام نہیں , نہ اس کام کا کوئی حاصل , کوئی فائدہ ہے . اور نہ ہی تمھاری باتوں اور تمھارے مشوروں سے کسی کی سوچ میں تبدیلی آئے گی . سب اپنے مقام پر عالم , فاضل اور علامہ ہیں . سب اپنی ذاتی پسند کے مطابق زندگی گزارنے کے عادی ہیں . جذباتی اور لمحاتی زندگی . سطحی اور سماجی زندگی . ایک عام , مطمئین اور لگی بندھی زندگی . ایسی جذباتی قوم کا کوئی کیا بگاڑ سکتا ہے جو دنیا کی دیگر اقوام سے ذہنی اور منطقی سطح پر لگ بھگ دو سو سال پیچھے ہے اور جسے اپنی ذہنی نشونما کی نہ کوئی پرواہ ہے اورنہ اسے اپنی اس کمی کا کوئی احساس ہے . من موجی , ملنگ صفت , ہمہ وقت مرنے مارنے کے لیئے تیار , نہ ماننے والی , نہ جھکنے والی , کھیل کود اور تماشوں کی شوقین , بحث مباحثے اور کھانے پینے اور باتوں کے لشکاروں کی رسیا, دو پیسوں کے وقتی فائدے کے لئیے اپنی بولی آپ لگانے والی , کبھی کچھ نہ سیکھنے والی , بنا مقصد شب وروز ایک ہی روٹین میں رہنے والی . ایسی قوم کو , کون کچھ سمجھا سکتا ہے , کون کچھ بتا سکتا ہے . جس کو کبھی کوئی نہ کچھ سمجھا سکا ہے , نہ اس کی جذباتیت کو ختم کر پایا ہے . ہر چار پانچ سال بعد کسی کھیل کا ورلڈ کپ ہو یا ملک میں سیاسی الیکشن اور لگ بھگ سو کے قریب سیاسی جماعتوں کے ڈرامے . قوم کا بچہ بچہ نعرے لگانے لگتا ہے . میری پارٹی , میری ٹیم آوے ای آوے . جیتے وی جیتے . کہیں کوئی میرٹ نہیں . محض جذباتی وابستگی . ایسے لوگوں کو لوگ ہزاروں بار لوٹتے رہے ہیں اور ایسے لوگ آج بھی لٹنے کے لیئے تیار بیٹھے ہیں . بولی لگانے والے , ہنر مند فنکار , سیاست دان سب اپنے جال بچھا کر اس جذباتی قوم کا شکار کرنے میں مصروف ہیں . یہ بازار پھر سجا ہے . اور پھر اس قوم کو مزید دو سو سال پیچھے دھکیلنے کی سازش تیار ہے . غور کیجئے , کیا آپ بھی اس جذباتی قوم کا حصہ ہیں , یا اپنے بھولپن میں آپ بھی اس قومی جذباتیت کے دھارے میں بہہ رہے ہیں . یاد رکھئیے, قوموں کی تقدیر کے فیصلے کبھی بھی جذباتی نعروں اور جذباتی وابستگی سے وابستہ نہیں ہوتے . بردباری , فہم و فراست , میرٹ اور دیانتداری ہی انفرادی اور قومی و اجتماعی ترقی کی بنیاد بنتی ہے . ہر قوم ہر طرح کے سیاسی و معاشرتی نظام کی متحمل نہیں ہو سکتی . ہر قوم کی نفسیات الگ ہوتی ہے . ہر قوم کا جینیٹک میک اپ الگ ہوتا ہے . ہر قوم کے مسائل اور وسائل الگ ہوتے ہیں . ہر قوم کی ترجیحات الگ ہوتی ہیں . ہر قوم کی تاریخ , ہر قوم کا جغرافیہ الگ ہوتا ہے . اور پھر سب سے بڑی اور واضح بات یہ کہ ہم نے قدرت کے قانون کا یہ بنیادی اصول کیوں بھلا دیا ہے کہ " ایک ہی لاٹھی سے گدھوں اور گھوڑوں کو نہیں ہانکا جا سکتا " ہمارے ملک کے سیاسی اور معاشرتی نظام کی بنیاد ہی غلط ہے تو پھر اس نظام میں کسی فلاح کسی اصلاح کی توقع رکھنا ہی بیکار ہے . معجزوں کے انتظار میں بیٹھی , یہ قوم دن بہ دن ذہنی اور روحانی تنزل کے مراحل طے کر رہی ہے اور چاہ رہی ہے کہ آسمان سے فرشتوں کی فوج اترے اور جادو کی چھڑی پھیر کے اس کے تمام مسائل حل کر دے . کوئی ایک فرد بھی منطقی اور عقلی طور پر اپنی جذباتیت کو جذبے میں بدلنے کی نہ جستجو کر رہا ہے اور نہ ایسا کرنے کے طور طریقے ڈھونڈ رہا ہے . سب نے اپنی سہولت کے لئے , اپنے ضمیر کو مطمئین کرنے کے لیئے اپنی اپنی کھونٹیاں ڈھونڈ رکھی ہیں اور سکون سے اپنے آپ کو ان کھونٹیوں سے لٹکا کر اپنے اپنے راگ الاپ رہے ہیں . آج کا سچ یہ ہے کہ ہم میں سے کچھ جو عقل سمجھ والے تھے , وہ بہت پہلے ہی اس قوم کو اس کے حال پر چھوڑ کر سات سمندر پار جا بسے ہیں. اور جو کچھ نہیں کر پائے وہ اپنے وسائل اور مسائل کی ڈوریاں سلجھانے میں اس طرح مصروف ہیں کہ اس قوم کی جذباتیت کے بیچ رہتے ہوئے خود بھی تحمل اور شعور کی لگام بار بار چھوڑ بیٹھتے ہیں . اور نتیجے میں ایک ہی دائرے میں گھومتے رہتے ہیں . علم کے بنا نہ شعور کا حصول ممکن ہے اور نہ جذباتیت پر قابو پایا جاسکتا ہے . اور علم , تعلیم اور تربیت کی سیڑھی پر چڑھ کر ہی حاصل ہوتا ہے . علم سے مراد وہ علم نہیں جو آج کل کے مروجہ تعلیمی اداروں میں ڈگریوں کی بندر بانٹ تک محدود ہے . علم کے فقدان نے ہی آج ہماری قوم کو اس حال پر پہنچا دیا ہے کہ ہم صحیح اور غلط کے درمیان فرق کو محسوس نہیں کر پاتے . سیاہ کو سفید سے الگ نہیں کر پاتے . اور وقتی , عارضی اور جذباتی فیصلوں سے اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیئے مستقل عذاب پال لیتے ہیں اور بار بار اپنے سروں پر ایسے لوگوں کو مسلط کر لیتے ہیں جو ہم سے تو درکنار خود اپنے آپ کے بھی وفادار نہیں ہوتے . اور ہمہ وقت خود کو ببیچنے کے لیئے تیار رہتے ہیں . بس بولی بڑی اور تگڑی لگنے کی دیر ہوتی ہے . ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ایسے لوگوں کو جانتے بھی ہیں اور پہچانتے بھی ہیں مگر وجدانی اور منطقی علم نہ رکھنے کی وجہ سے جذباتیت اور جذباتی وابستگی کا شکار ہو کر اندھے ہو جاتے ہیں اور خود کو ایسے فنکاروں اور منافقوں کے جذباتی نعروں کے جال میں الجھا بیٹھتے ہیں . اور اپنی بیوقوفی اور جاھلیت کے باعث اپنے ہاتھوں اپنا حال اور مستقبل تباہ کر لیتے ہیں . مشورہ اسے دیا جا سکتا ہے , نصیحت اسے کی جا سکتی ہے , رائے اسے فراہم کی جا سکتی ہے جو فہم رکھتا ہو اور سطحی باتوں اور نعروں سے متاثر نہ ہوتا ہو . جو جذبے کی دولت سے مالامال ہو مگر جذباتیت اور جذباتی فیصلوں سے خود کو دور رکھتا ہو . اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ازخود مشورے کا طلبگار ہو .

ہفتہ، 9 جون، 2018

میرپورخاص سے میرپورخاص تک . پانچویں قسط. DUAAGO#

زندگی کا سفر . پانچویں قسط . ڈاکٹر صابر حسین خان

میرپورخاص کے سفر میں کچھ نئے لوگوں سے ملاقات نے نئی دوستیاں پیدا کیں . اور کچھ پرانے دوستوں سے نئے تعلق استوار ہوئے . زندگی کے سفر میں ایسا ہی ہوتا ہے . ان گنت ساتھیوں کا ساتھ چھوٹتا چلا جاتا ہے . ہمارے نہ چاہنے کے باوجود . اور نئے لوگ ہمارے ساتھ شامل ہوتے رہتے ہیں . پرانی محبتیں دم توڑ دیتی ہیں اور سوکھے پتوں کی طرح مٹی میں مل جاتی ہیں . لیکن بچپن اور لڑکپن کی محبتوں اور دوستیوں کے رنگ ہمارے دلوں میں ہمیشہ کے لیئے محفوظ رہتے ہیں . نئے کام , نئی مصروفیات , نئی ذمہ داریاں , ہمیں نہ صرف اپنے ماضی سے دور کر دیتی ہیں بلکہ ہمیں ہمارے دوستوں سے بھی جدا کر دیتی ہیں . وہ لوگ بہت خوش قسمت ہوتے ہیں جن کا رشتہ اپنے ماضی اور اپنے دوستوں سے سدا جڑا رہتا ہے . اور چونکہ میں کبھی بھی اتنا خوش قسمت نہیں رہا تو میرا یہ خانہ بھی اور دیگر حوالوں کی طرح خالی ہے . اور اس میں قصور قسمت سے زیادہ شاید میرا اپنا ہے . زندگی کبھی ایک نکاتی ایجنڈے پر نہیں گزار پایا . کبھی نصاب اور کتاب تو کبھی خواب اور حساب . سوچ و عمل کا ایک سرا شمال میں تو دوسرا جنوب کی جانب . اور شوق کا کیا کہنا . رنگ یہ ہو تو ڈھنگ ایسا,ہونا چاہئے . نیلا ہے تو پیلا کیوں نہیں . کائنات کے سب رنگ انسان کے لیئے ہیں تو انہیں ہہچاننا بھی چاہیے اور انہیں دیگر انسانوں تک پہنچانے کی سعی بھی کرنی چاہیے . اس چکر میں چکر سے چکر نکلتے رہے اور روٹین کی خوش گپیوں اور دوستوں کی محفلوں کا ساتھ چھوٹتا چلا گیا . ایک سفر کے خاتمے پر دوسرا سفر شروع ہوتا گیا . سمتیں بدلتی گئیں اور راستے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے رہے .
جب آدمی کی دلچسپیوں اور سرگرمیوں کی فہرست لمبی ہو اور اس کی فطرت میں کاہلی , سستی اور آرام طلبی بھی ہو اور اسے حکم 
بھی صبر , شکر اور قناعت کا ملا ہوا ہو تو وہ نئے کاموں کے گرداب میں ایسا پھنستا ہے کہ پرانے سلسلے ختم ہوتے چلے جاتے ہیں .
ایک زمانہ تھا جب ہر ماہ انتہائی باقاعدگی کے ساتھ , نہایت اہتمام کے ساتھ ابن صفی صاحب کا نیا ناول خریدا جاتا اور سب رنگ سمیت لگ بھگ کوئی بارہ ڈائجسٹ اور بھی . آٹھویں جماعت تک تو اقبال بھائی کی کوثر لائبریری , بلاک سی نارتھ ناظم آباد , سے چار تا آٹھ آنے کرائے پر کام چلتا رہا مگر پھر میرپورخاص منتقل ہونے پر پڑھنے کا شوق ماہانہ بجٹ پر بری طرح اثرانداز ہونے لگا . حل یہ نکالا کہ دادی , امی اور چاروں پھوپھیوں سے ماہانہ ایک ایک ڈائجسٹ کے پیسے لینے شروع کر دئیے اور ابن صفی کے ناول اور باقی ڈائجسٹ اپنے پیسوں سے لینا شروع کر دئیے . اپنے پیسے بھی ظاہر ہے کہ اپنے بڑوں سے ہی اینٹھے جاتے حیلوں بہانوں سے . زندگی کے سفر کا کہاں وہ مرحلہ تھا جب کتابی کہانیوں سے جی نہیں بھرتا تھا اور پھر اگلا سفر ذرا سنجیدہ ادب کا اختیار ہوا تو بک اسٹالز سے ڈائجسٹ ہی غائب ہونا شروع ہو گئے . اور اب تیس پینتیس سال سے کسی ڈائجسٹ کی شکل تک نہیں دیکھی .
ہر عمر , ہر عہد کے الگ طرح کے شوق , الگ طرح کے مشغلے ہوتے ہیں . زندگی کا سفر ہمیں کسی ایک مقام پر زیادہ دنوں تک ٹھہرنے کی اجازت نہیں دیتا . جلد یا بدیر ہمیں کسی نہ کسی شکل میں آگے بڑھنے کا حکم ہو جاتا ہے . ہماری خواہش ہو تب بھی , ہم نہ چاہیں تب بھی . ہمارے شوق , ہمارے دوست ہم سے بچھڑنے لگتے ہیں . قدرت کے قوانین ہماری خواہشات , ہمارے خوابوں , ہمارے خیالات , ہمارے احساسات کے تابع نہیں ہوتے . اور پھر سب سے بڑی بات یہ کہ اگر ہم وقت اور حالات کے بدلتے تقاضوں کے مطابق خود کو ایڈجسٹ نہیں کرتے یا نہیں کر پاتے , اپنی شخصیت کو زندگی کے سفر کے ہر نئے مرحلے کے مطابق ٹیون ان نہیں کر پاتے تو ایک وقت آتا ہے کہ ہم پتھر کی مورتیوں اور ماضی کے مزاروں کی صورت آنے والی نسلوں کے لیئے سوچ کا سامان بنا دئیے جاتے ہیں . جسمانی نشونما کے ساتھ ساتھ قلبی , ذہنی اور روحانی گروتھ نہ ہو تو ہماری سوچ بانجھ ہو جاتی ہے , ہماری روحانی قوتیں سلب ہو جاتی ہیں , ہماری شخصیت میں گھن لگ جاتا ہے , ہماری نفسیات ایک نکتے پر منجمد ہو جاتی ہے اور ہم انتہائی تعلیم یافتہ , انتہائی دولت مند , انتہائی شان و شوکت کے مالک ہونے کے باوجود اپنے اپنے کنویں میں تمام عمر گزار دیتے ہیں . زندگی کے سفر کی بدلتی منازل کا ذائقہ چکھے بنا .
المیہ یہ ہے کہ جب ہم اپنے وجود کے چاروں حصوں , جسمانی, ذہنی, قلبی اور روحانی,  کی یکساں توجہ اور انہماک اور وقت اور توانائی کے ساتھ آبیاری کا سلسلہ شروع کرتے ہیں تو لا محالہ ہمیں اپنے بوجھ کو ہلکا کرنا پڑتا ہے . بار بار اپنی ہارڈ ڈسک کو ڈی فرگمنٹ اور فارمیٹ کرنا پڑتا ہے , تبھی نئی باتوں , نئے کاموں , نئے خوابوں کی جگہ نکل پاتی ہے . ہم تمام عمر اگر میٹرک کے نصاب کی کتابیں اپنے بستے میں لے کر پھرتے رہیں گے تو اگلے تعلیمی سالوں کی کتابیں نہ رکھ پائیں گے , نہ پڑھ پائیں گے .

میرپورخاص سے میرپورخاص تک . چوتھی قسط DUAAGO#

زندگی کا سفر . چوتھی قسط . ڈاکٹر صابر حسین خان

ہماری نسل نے ٹانگے کے پہیوں کا گھومنا بھی دیکھا ہے اور ٹانگے کی سواری بھی کی ہے . اور پھر پی تھری کمپیوٹر کے اسکرین سے لے کر اینڈرائیڈ فون کے ایل ای ڈی اسکرین پر انٹرنیٹ اور گوگل کے گھومتے دائرے بھی دیکھے ہیں .
ہماری نسل نے الف لیلہ اور طلسم ہوش ربا پڑھنے کے ساتھ ساتھ ھیری پوٹر اور لارڈز آف دی رنگز جیسی فلمیں بھی دیکھی ہیں . پیری میسن اور ابن صفی سے لے کر جان گراشم , جیفری آرچر اور ڈین براؤن تک کی تخلیقات کا مطالعہ کیا ہے . ٹیسٹ میچ کے صبر آزما چھ دنوں کی ریڈیو کمنٹری سننے کے ساتھ ساتھ کیری پیکر کی رنگا رنگ کرکٹ سے لے کر آج کے ٹی ٹوئینٹی کے چار گھنٹوں کی گہما گہمی اور ہنگاموں میں بھی دل لگایا ہے .
اتنا تنوع , اتنا تضاد , اتنی رنگا رنگی , اتنی ہلچل , اتنی سست روی , اتنی تیزی , اتنی گھمن گھیریاں شاید ہی انسانی تاریخ کی کسی اورنسل نے دیکھی اور برتی ہوں .
زندگی کا سفر جب اس طرح کا ہو کہ ناولوں اور ڈراموں اور فلموں میں جو پڑھا اور دیکھا ہو , وہ سب کا سب ایک عمر میں آ کے حقیقی زندگی کا حصہ بن جائے تو ایک فرد ہو یا پوری کی پوری نسل انسانی , سب کی ذہنی اور قلبی ماہئیت پوری کی پوری بدل کے رہ جاتی ہے . ہم اپنے اندر کے سفر کے تغیر اور طوفان کو روک نہیں سکتے . اور ہم پورے کے پورے بدل جاتے ہیں . اور پھر اس تبدیلی کی سزا ہمارے ساتھ ہماری نئی نسل کو ملنا شروع ہو جاتی ہے .
میں اپنے بیٹے کو کیا بتاتا کہ سائینس اور ٹیکنالوجی کے موجودہ تیز رفتار دور میں دنیا اس بری طرح سمٹ رہی ہے کہ میرے اور اس کے اسکول اور میرے اور اس کے تعلیمی نصاب میں بھی اس طرح کا سکڑاو آ گیا ہے کہ اب کم سے کم اس کی نسل کسی پھیلاؤ کو نہیں

دیکھ سکے گی . اور آج کی نسل کیا , اب شاید ہی کوئی آنے والی نسل ان باتوں , ان یادوں کا ذائقہ چکھ پائے گی جو ہماری نسل نے اپنے بچپن اور لڑکپن میں اپنی زندگی کے سفر میں اپنے ذہن کے نہاں خانوں میں جمع کی تھیں .
میں کیسے اپنے بیٹے اور اس کی نسل کے اور بچوں کو بتا پاوں گا کہ اکیلے گھر کے سناٹے میں , تن و تنہا رات رات بھر جاگ کے آگ کا دریا اور راجہ گدھ اور دی ڈریم مرچنٹس جیسی کتابیں پڑھنا اور سوتے جاگتے خواب دیکھنا دل , دماغ اور روح پر کیا اثرات مرتب کرتا ہے . اور وہ بھی اس وقت جب عمر بیس سال کی ہو اور دل ہجرت کو قبول نہ کر پا رہا ہو . تبدیلی کو قبول نہ کر پا رہا ہو . گھر چھوٹ گیا ہو مگر گھر سے جڑی جڑیں نہ کٹ پا رہی ہوں .
یادوں کے یہ سائے اس وقت بدلی بن کے آنکھوں میں اتر رہے تھے جب میں نیچے کھڑے ہو کر بیٹے کو اوپری منزل کا وہ گھر دکھا رہا تھا , نشتر آباد کے محلے میں , جہاں دادی , دادا اور ریحانہ پھوپھو کے کے ساتھ زندگی کے سفر کے پانچ خوبصورت ترین سال گزرے تھے . تیرہ سال کی عمر سے اٹھارہ سال کی عمر تک کے . جہاں میرے خوابوں نے خراماں خراماں گھٹنوں کے بل چلنا شروع کیا تھا . خواب تو سب دیکھتے ہیں . جاگتی آنکھوں کے خواب . مگر خوابوں کی پرورش اسی زمین پر ہو سکتی ہے , جس پہ محبت , شفقت اور تربیت کا گھنا سایہ ہو . میری زندگی کے سفر
میں قدرت نے اگر ان تین افراد کی محبتوں کی آخر سانس تک نہ ختم ہونے والی روشنی اور توانائی نہ رکھی ہوتی تو شاید نہ میں کبھی کوئی خواب دیکھ سکتا نہ کتاب اور قلم سے رشتہ جوڑ سکتا . ایک بچے کے خوابوں کو پروان چڑھانے کے لیئے ایک قبیلے کی ضرورت ہوتی ہے . اور آج کل سائینسی سہولیات سے بھرپور مصروف دور میں خاندان اور قبیلے کا شیرازہ بکھر چکا ہے .
جن آنکھوں کی محبت بھری سختی نے بچوں کو محض گھور کر راہ راست پر رکھنا ہوتا ہے , وہ آنکھیں ٹی وی کے اسکرین پر ہیں . جن ہاتھوں نے بچوں کا ہاتھ پکڑ کر ان کو کھیلنا سکھانا ہے , ان ہاتھوں میں موبائل فون ہیں . اس صورت آج کی نسل کا کتاب و قلم سے تو کیا , زندگی کے سفر سے بھی کوئی ناطہ نہیں بن سکتا .
آج کی نسل کا ہر تعلق , ہر ناطہ سطحی اور ڈس پوزیبل ہے . اور یہ ایپروچ کچھ جینیاتی ہے اور کچھ اس میں ہماری ٹریننگ کا حصہ ہے . ہم لوگ تو ایک تعلق , ایک رشتے , ایک کتاب , ایک کھیل , ایک مشغلے سے خود کو اس طرح باندھنے اور باندھے رکھنے کے عادی تھے کہ آج تک بنا کسی غرض کے اپنی کمٹ منٹ نبھائے جا رہے ہیں . اپنے اپنے بے پتوں کے شجر کو بے بنیاد آس اور امید کے سہارے پانی دئیے جا رہے ہیں .  چالیس سال قبل چھوڑے ہوئے شہر کے یوں ہی بنا کسی وجہ کے بار بار چکر لگانا کمٹ منٹ کی وحشتوں کا وہ زاویہ ہے جسے نہ سمجھا جا سکتا ہے , نہ سمجھایا جا سکتا ہے .
اس طرح کے تعلق کو صرف محسوس کیا جا سکتا ہے . اور محسوس بھی وہی کر سکتے ہیں جن کو خود بھرے پرے گھر اور محبتوں کے سایہ در شجر چھوڑ کے ہجرت کرنی پڑی ہو .
اپنی توانائیاں ری چارج کرنے کے ساتھ ساتھ میرا ارادہ بچوں کو بھی اپنے چھوٹے سے شہر کے بڑے دل والوں سے ملوانا تھا .

اتوار، 3 جون، 2018

میرپورخاص سے میرپورخاص تک . تیسری قسط DUAAGO#

زندگی کا سفر . تیسری قسط . ڈاکٹر صابر حسین خان

رات میں, تاریکی میں, اندھیرے میں تو ہر شے کی شکل اور ماہیت بدل جاتی ہے . دن کی روشنی میں خط و خال کا صحیح پتہ چلتا ہے . مگر مجھے پتہ تھا کہ اسکول کے حوالے سے میں اپنے بیٹے کی بجائے خود کو ایسا جواز دے رہا ہوں جو شاید دن کی روشنی میں اور شرمندہ ہو جائے . بیٹا مستقل اپنے چار سو گز کی بند بلڈنگ کے اسکول کو , میرپورخاص کے اپنے زمانے کے سب سے اچھے چھ ہزار گز کے رقبے پر پھیلے اسکول سے کمپیئر کر رہا تھا اور اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اسکول اتنے بڑے بھی ہو سکتے ہیں .
آج کل کے بچوں کو نہیں اندازہ کہ چالیس پینتالیس سال پہلے کے سرکاری اسکول کیسے ہوتے تھے . اس وقت کے اساتذہ کیسے ہوتے تھے . اس وقت کی تعلیم , تربیت اور خاندان کا نظم و ضبط کیسا ہوتا تھا .
اس رات کے ان لمحات میں مجھے اس زمانے کا کراچی کا ایک اور بڑا اسکول یاد آ گیا . جہاں میں نے تین سال گزارے تھے . چھٹی , ساتویں اور آٹھویں جماعت میں . بدری سیکنڈری اسکول . بلاک سی . نارتھ ناظم آباد . اس وقت میری یہی عمر تھی جو آج لگ بھگ میرے بیٹے کی ہے . وہ اسکول بھی کھلا اور بڑا اور روشن تھا . آگے پیچھے گراونڈز کے ساتھ . وسیع اور سلیقے سے بنی بلڈنگ . پائوں کے ایکو پنکچر علاج کے لیئے پانچویں کلاس کے بعد ابو نے کراچی بھیج دیا تھا . کچھ دن ابو کے دوست بخاری صاحب کے گھر رہا دادی کے ساتھ . اس وقت یہ پتہ نہیں تھا کہ بائیس سال بعد زندگی کا سفر پھر اسی محلے میں لے آئے گا عین بخاری صاحب کے گھر کے پاس . پھر کچھ دن منی آپا کے گھر رہائش رہی . ابو کی کزن کے گھر . وہ دن بھی آج تک یاد ہیں . نیا تعلیمی سال شروع ہو چکا تھا اور میں منی آپا کے گھر کے گیٹ سے باہر کھڑا ہو کر بچوں کو اسکول جاتے دیکھتا تھا اور روتا تھا کہ میرا کسی اسکول میں داخلہ نہیں ہو پایا . میں کیسے اور کب اسکول جا پاوں گا .
زندگی کے سفر نے تو آگے بڑھنا ہوتا,ہے . آگے بڑھانا ہوتا ہے . قدرت کو رونا پسند نہیں آیا . اور چچا کا ٹرانسفر حیدرآباد سے کراچی ہوگیا . اس وقت اس محکمے کا نام ٹیلیفون اینڈ ٹیلیگراف تھا .  T & T .
جس میں چچا ڈویژنل انجینیئر کے عہدے پر فائز تھے . انہوں نے بلاک سی نارتھ ناظم آباد میں گھر کرائے پر لیا اور میں دادا اور دادی کے ساتھ وہاں چلا گیا . چچا نے اس گھر کے پاس ہی بدری اسکول میں چھٹی جماعت میں داخلہ کرادیا . اسکول کی اس شرط کے ساتھ کہ نیا تعلیمی سال شروع ہوئے چار ماہ گزر چکے ہیں اور اگر بچے نے ششماہی امتحان میں اچھے نمبر نہیں لئیے تو اسے پانچویں جماعت میں بھیج دیا جائے گا اور دوسرا یہ کہ کلاس میں بچے زیادہ ہیں اور بینچیں کم تو آپ نے اسکول کو ایک نئی بینچ دینی ہوگی . جب تک بچے نے زمین پر بیٹھنا ہوگا .
زمین پر بیٹھ کر , ششماہی امتحان میں اچھے نمبر لئیے تو نئی بنچ بن کے آچکی تھی . جو پھر آٹھویں جماعت تک میرے ساتھ رہی . اور پھر نویں جماعت کمپری ھینسو ھائی اسکول میرپورخاص سے زندگی کے سفر کا ایک نیا موڑ شروع ہو گیا .تیسری, چوتھی,اور پانچویں کلاس کا اسکول آج بھی بظاہر اسی شان و شوکت کے ساتھ باہر سے نظر آتا ہے .
مرحبا ہوٹل کے کمرے کی کھڑکی سے اپنے پرائمری اسکول کی بڑی بلڈنگ اور پلے گراؤنڈ کو کئی کئی بار کافی دیر دیر تک دیکھتا رہا مگر وقت کی کمی نے سینٹ مائیکل کانونٹ اسکول کے اندر جانے نہ دیا . زندگی کے موڑ در موڑ مستقل سفر کے اندرونی اور بیرونی زاویوں کے جھٹکوں کا سب سے بڑا نقصان یہی ہوتا ہے کہ ہم سے ہماری فراغت چھن جاتی ہے اور قدرت ہمارے ہاتھوں میں مصروفیت کے جھنجھنے پکڑا دیتی ہے . اور مصروفیت بھی کیسی جو ہماری روح کی بیچینی اور وحشت میں اضافہ کرتی چلی جائے . ہماری نسل کے پاس کم از کم بھاری بھرکم رنگ رنگ کی تہوں میں لپٹا ماضی کا محل ہے . جس کی ہر منزل پر ہمارے لئیے ہمارے حال کی تھکن اتارنے کو کوئی خوشگوار یاد موجود ہے .
بھیانک المیے سے دوچار تو ہماری نئی نسل اور ہمارے بچے ہیں . بند کمروں میں رہنے , پروان چڑھنے , اور تعلیم کے نام پر وہ کچھ پڑھنے والے جس کا عملی زندگی سے کبھی کوئی تعلق نہ بن پائے . گراونڈز اور پارکس میں دوپہریں اور شامیں اور راتیں گزار کر تھک کر گھر واپس آنے کی بجائے چھ چھ گھنٹے موبائیل اور آئ پیڈ اور ٹی وی پر اپنا وقت اپنی توانائی اپنا ذہن کھپانے والے بچوں کی یہ نئی نسل , جس میں میرا بیٹا بھی شامل ہے , اپنے حال میں ایسا کچھ نہیں جمع کر پا رہی , ایسا کچھ نہیں کما پا رہی , ایسا کچھ نہیں دیکھ پا رہی , ایسا کچھ نہیں سیکھ پا رہی , جو زندگی کے سفر میں اس کا زاد راہ بن سکے . دکھ,تکلیف, تھکن اور تنہائی کے جان لیوا لمحات میں خوشگوار یادوں کی برسات کی صورت برس سکے . اور ماضی کے چراغوں کی روشنی میں مستقبل کے راستوں اور منزلوں کے نشان دکھا سکے .
قصور ہمارا ہے . ہمارے بچوں کا نہیں . قصور ہماری نسل کا ہے . نئی نسل کا نہیں .

جمعہ، 1 جون، 2018

SCHIZOPHRENIA.

https://youtu.be/1PYOs3g6IEg

DIL KE BAAT . #DRSABIRKHAN

https://youtu.be/xjHO6nucGmY

میرپورخاص سے میرپورخاص تک . دوسری قسط . ڈاکٹر صابر حسین خان

" زندگی کا سفر " . 2 " . ڈاکٹر صابر حسین خان وحشت جب دل , دماغ کے ساتھ روح کی گہرائیوں میں بھی گھر کرلے تو آدمی کسی ویرانے میں پیپل کے درخت کے نیچے جا بیٹھتا ہے اور گوتم بدھ کی طرح دنیا کو ہمیشہ کے لیئے خیر باد کہہ دیتا ہے . اور اگر یہ وحشت انسان کے اندر کہیں پھنس جائے تو اسے تمام عمر کسی جگہ چین نہیں پڑتا . وہ اپنی وحشتوں کی پھانس کے ساتھ ایسے سفر پر روانہ ہو جاتا ہے جس کی کوئی منزل نہیں ہوتی . پڑاو در پڑاو , در بہ در , چہرہ بہ چہرہ , رنگ بہ رنگ , کا تھکا دینے والا تمام عمر کا سفر اس کے اندر کی پیاس ختم کرنے کی بجائے اور بڑھا دیتا ہے . یہ وحشتیں آدمی کو کبھی فلسفی بنا دیتی ہیں اور کبھی فنکار . کبھی شاعر اور کبھی مصور , کبھی یوگی اور کبھی درویش , کبھی مجرم اور کبھی ناصح , کبھی مولوی اور کبھی گناہ گار , اور اگر کبھی کوئی وحشت روح کی سانس گھونٹ دے تو دیوانگی اور پاگل پن مقدر بن جاتا ہے . دنیا کی تاریخ میں انسان نے جب سے علم کا علم اٹھایا ہے , تب سے ہی اس کی روح میں بےچینی اور اضطراب کے بیج پیدا ہوئے . اور جوں جوں اس کا اکتسابی علم بڑھتا گیا , توں توں اس کی وحشتوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا . اکتسابی علم انسان کو کھوج پر اکساتا ہے اور اسے لامتناہی تجسس کے ایسے دائرے میں لا چھوڑتا ہے , جہاں سے باہر نکلنا آسان نہیں ہوتا . ہر نئے انکشاف کا دھواں روح کے آئینے کو اور دھندلا دیتا ہے . روح کے دھندلے آئینوں کی صفائی کا ایک بہترین ذریعہ فطرت اور قدرت کے حقیقی مناظر کے بیچ خاموشی سے اپنے آپ سے مکالمہ کرنا ہوتا ہے . اور ایک لمبا سفر اس کام کے لیئے بہت موثر ثابت ہوتا ہے . پندرہ دن کے مختصر عرصہ میں میرپورخاص کے دو سفر اس حوالے سے میرے لئیے بھی مفید ثابت ہوئے . عملی طور پر علم کے سفر کے لیئے تو میرپورخاص سے اٹھارہ سال کی عمر میں ہجرت کرنی پڑی تھی لیکن گھر اور دل اگلے دس سال تک میرپورخاص میں ہی تھے . اور پھر اگلے پندرہ سال تک میرپورخاص کی شکل تک نہیں دیکھی . اس دوران زندگی کا سفر کئی اور راستوں پر گامزن رہا . دل , دماغ اور روح کی کئی منازل طے ہوتی رہیں . ہر نئی منزل ایک نئی لکیر روح کے آئینے پر ڈالتی رہی . اور وحشتوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا . ایک وہ زمانہ تھا جب ہر دوسرے تیسرے ماہ کندھے پر بیگ ڈال کے 18 روپے کرائے کے دے کے بذریعہ بس میرپورخاص کا سفر ہوا کرتا تھا . اور پھر قدرت نے سفر کی لکیریں مٹا دیں . اور ایک جگہ اس طرح بٹھا دیا کہ جسمانی سفر نہ ہونے کے برابر رہ گیا اور اندر کے سفر کے دائرہ بڑھتا چلا گیا . سفر تو سفر ہوتا ہے . ہمارے اندر کا ہویا ہمارےباہر .مگر بہترین سفر وہ ہوتےہیں جو بیرونی اور اندرونی دونوں دریائوں میں فطرت کا پانی بھرتے ہیں. اور ایسی خوش قسمتی سے قدرت نے شروع سے محروم رکھا ہے الحمداللہ . اور اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس کے بدلے قناعت اور صبر کی وافر دولت سے مالا مال کیا ہے . بات شروع ہوئی تھی میرپورخاص کے سفر سے اور ہوتے ہوتے کہاں سے کہاں پہنچ گئی . اندر اور باہر دونوں طرف کا سفر اگر ایک ساتھ ہو رہا ہو تو ایسا ہی ہوتا ہے . قدم کہیں رک نہیں پاتے . بات کسی ایک نکتے سے شروع ہو کر کسی دوسرے زاویے میں گھوم جاتی ہے . بات ہو رہی تھی میرپورخاص کی . نوجوانی میں شہر کو جس حال میں چھوڑا تھا , تیس سال بعد اسے بڑے برے حال میں پایا . رات میں ایک چکر اپنے پرانے اسکول کا لگایا . گورنمنٹ کمپری ھینسو ھائی اسکول . اور اس کی حالت دیکھ کر قرتہ العین حیدر کے ناول یاد آتے چلے گئے . وقت کیا سے کیا کر ڈالتا ہے . سنا ہے کہ کمپری ھینسو ھائی اسکول اب کالج ہو چکا ہے . لیکن کالج کے کوریڈور میں بکریاں ٹہل رہی تھیں اور درختوں کی کٹی ہوئی لکڑیوں کے گٹھر جگہ جگہ رکھے ہوئے تھے. کلاس رومز کے فرنیچر سے خالی کمرے گھپ اندھیرے میں سائیں سائیں کر رہے تھے. کھیل کے دونوں میدانوں میں کچرے کے ڈھیر ایسے جمع تھے جیسے برسوں سے بچوں کو کھیل کی ضرورت نہ پڑی ہو. پاکستان اسٹڈیز کے پروفیسر غلام رسول مھر کا کونے والا گھر , جہاں ہم اسکول ٹائمنگ میں جا کر ٹی وی پر پاکستان کے کرکٹ میچ دیکھا کرتے تھے , ویران وبیابان , لائین میں بنے دوسرے گھروں کی ویرانی کو اور زیادہ اجاگر کر رہا تھا . میں گاڑی دائیں بائیں گھماتا جا رہا تھا . اور میرے بیٹے کی آنکھیں بھی حیرت سے چاروں طرف گھوم رہی تھیں . " آپ کا اسکول اتنا بڑا ہے ? " وہ بار بار پوچھ رہا تھا . " مگر یہاں اندھیرا کیوں ہے . یہاں لکڑیاں کیوں پڑی ہیں . یہاں اسکول میں بکریاں کون پالتا ہے . " اس کے سوال ختم نہیں ہو رہے تھے اور میرے پاس ایک ہی جواب تھا کہ ابھی ہم رات میں آئے ہیں تو اس لئیے یہ سب کچھ دیکھنےکومل رہا ہے . پھر کبھی انشاءاللہ دن میں آئیں گے تو اسکول لگا ہوا ہو گا اور بچے اپنے اپنے کلاس رومز میں پڑھ رہے ہوں گے . یہ اور بات ہے کہ مجھے خود اپنے جواب کی سچائی پر یقین نہیں تھا . دل میں تو یہی تھا کہ یہ کونسا وقت ہے