جمعرات، 30 جنوری، 2020

ھوم لینڈ ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

" ھوم لینڈ "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان


کل دوپہر Homeland کے ساتویں سیزن کی آخری قسط دیکھی ۔ جو 2018 میں ٹیلی کاسٹ ہوا تھا ۔ رات میں کافی دیر تک سوچتا رہا کہ اب کیا شروع کرنا ہے ۔ کوئی کتاب یا کوئی اور سیزن ۔ پھر خیال آیا کہ گزشتہ دنوں Blacklist کا آخری سیزن ختم کرنے کے بعد بھی Frederick Forsyth کی 2014 میں شائع ہونے والی The Kill List پڑھی تھی ۔ تو کیوں نہ اب بھی کوئی کتاب نکالی جائے ۔
تنہائی ، فرصت اور ڈپریشن کے لمحات مزیدار سردیوں میں اور بھی سرد مہری برتنے لگتے ہیں ۔ اور سوچ کے پر جل جل کر پگھلنے لگتے ہیں ۔ ایسے سمے دل چاہتا ہے کہ کچھ دیر کو تخیل کی کھڑکیاں کھول کر خود کو کھلا چھوڑ دیا جائے ۔ ایسے سمے حقیقت اور حقیقی مسائل کی تلخیوں کو وقتی طور پر فراموش کرکے ہی اندر کی طاقت کو Restore کیا جاسکتا ہے ۔
ایسے سمے کتاب اور کہانی کی رفاقت ، تنہائی کے احساس کو Sideline کرکے نئے خوابوں کے سفر پر روانگی کو ممکن بناتی ہے ۔ اس بار کے سفر کا قرعہ فال ، ابن صفی کی جاسوسی دنیا کے نام نکلا ۔ بستر کے سرہانے بنی دیوار کی الماری کے ایک خانے میں رکھا گتے کا ایک بڑا ڈبہ ۔ جس میں جاسوسی دنیا کا پورا سیٹ رکھا ہوا ہے ۔ اس میں سے Random Pick میں دو کتابیں نکال لیں ۔ اور نمبر 70 اور 71 والی کتاب پڑھنی شروع کردی گئی ۔ آج سے 63 سال پہلے 1957 میں یہ دونوں حصے شائع ہونے تھے ۔
' جاپان کا فتنہ ' اور ' دشمنوں کا شہر ' ۔ گو پہلے بھی دو تین بار یہ کتابیں پڑھی جاچکی ہیں ۔ مگر اس بار پھر وہی لطف اور اسی دلچسپی کا رنگ تھا جو ماضی میں رہا تھا ۔ لطف ، تفریح اور دلچسپی کے ساتھ ساتھ ابن صفی کی عمران سیریز کے 122 اور جاسوسی دنیا کے 127 ناولوں کا مرکزی خیال ہمیشہ اپنے وطن کے خلاف سازش میں ملوث اور قانون اور اخلاق کی دھجیاں بکھیر دینے والے مجرموں کو کیفر کردار تک تک پہنچاتے ہوئے دکھانا ہوتا تھا ۔ اور ہر کہانی میں جیت قانون کے رکھوالوں کی ہوا کرتی تھی ۔ معمولی نوعیت کے جرائم سے لیکر بین الاقوامی لٹیروں کے کرتوت ، سبھی ، ان کی کہانیوں کا حصہ ہوتے تھے ۔ اور ہر کہانی کا اختتام ، حق اور سچ کی جیت پر ہوتا تھا ۔ تجسس اور تفریح کے امتزاج کے ساتھ شاندار اور جاندار ادب کی تخلیق اپنی جگہ ۔ ایسا ادب جس نے بلا مبالغہ اردو زبان سے شد بد رکھنے والی پانچ نسلوں کو کسی نہ کسی شکل میں Inspire اور متاثر کیا اور کررہا ہے ۔
تحیر ، تجسس ، جستجو ، اور نامعلوم اور مخفی رازوں اور باتوں کی تلاش اور تحقیق اور ان سب پر سے پردہ اٹھانے کی تگ و دو کی حس ، کچھ کم کچھ زیادہ ، دنیا کے ہر انسان کی جبلت اور نفسیات کا حصہ ہوتی ہے ۔
سسپنس ، ایڈونچر ، اور فوق الفطرت واقعات پر مبنی کہانیاں اور داستانیں اسی وجہ سے تاریخ کے ہر دور میں مشہور اور مقبول ہوئی ہیں ۔ خواہ وہ مکمل فرضی اور تخیلاتی ہوں یا حقیقت اور حقیقی زندگی پر مبنی ۔ ایسی کہانیوں کے تانے بانے ، جب جب ، دل میں اتر جانے والے انداز اور الفاظ میں باندھے گئے ، انہوں نے شہرت اور مقبولیت کے نئے جھنڈے گاڑ دئیے ۔ اور ان میں سے کچھ تو کئی سو سالوں تک زندہ اور متحرک بھی رہیں ۔
وہی کہانیاں عرصہ دراز تک اپنی شگفتگی اور تازگی برقرار رکھ پاتی ہیں ۔ جو انسان کی بنیادی نفسیات کے تضادات اور انسان کے خوابوں ، خیالوں ، جذبوں اور خواہشوں کی سچی نمائندگی کرنے کے ساتھ ، ہر عمر اور ہر دور کے انسان کو وقتی طور پر زندگی کے تلخ مسائل سے دور کرکے ، اسے ذہنی سکون اور دلی اطمینان کی ایسی کیفیت سے ہمکنار کرتی ہوں جو اسے ازسرنو ترو تازہ ، توانا اور شاداب کردے اور اس کی ذہنی و جسمانی تھکن دور کرکے ، اسے دوبارہ سے زندگی کے مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لئیے تیار کردے ۔
اور اس کے تخیل کی پرواز بڑھا کر ، اسے نئے اور بھرپور آئیڈیاز سے روشناس کرا سکیں ۔
جو کہانیاں ، اس معیار پر پورا نہیں اتر پاتیں ، وہ قلیل عرصے میں نام اور دام کما کر لوگوں کے ذہنوں اور دلوں سے محو ہوجاتی ہیں ۔ زیادہ مدت تک اپنی دلچسپی برقرار نہیں رکھ پاتیں ۔ اپنے اپنے وقتوں میں بڑے بڑے نامور لکھاری آئے ، انہوں نے بہت کچھ لکھا ، نام بھی کمایا ، پیسہ بھی کمایا ۔ مگر آج ان کی تحریروں کو پڑھنے والا یا ان کے شہہ پاروں کو دیکھنے والا کوئی بھی نہیں ۔ یہاں تک کہ ان کے نام اور ان کے کام سے بھی زیادہ لوگوں کو شناسائی نہیں ۔ ساٹھ ، پینسٹھ سال پہلے کے ادبی کاموں اور فلموں کو ہی دیکھ لیجئیے ۔ آج کی نسل کو ابن صفی کی کتابوں سے نہ سہی ، کم از کم ان کے نام سے آگاہی ضرور ہے ۔ جبکہ ان کے ہم عصر قلم کاروں میں سے شاید ہی کسی کسی کا نام کسی کو پتہ ہو ۔
آج کی نسل بہت ذوق و شوق سے " ھوم لینڈ " یا " بلیک لسٹ " یا " ہاوس آف کارڈز " جیسے انگریزی ڈرامے اور سیزن دیکھ رہی ہے ۔ لیکن قوی امکان اس بات کا ہے کہ " دی سینٹ " یا " دی پرسیوڈرز " یا " سکس ملین ڈالر مین " کے چالیس ، پینتالیس سال پرانے ڈراموں کی طرح ایک وقت ایسا آئے گا ، جب آج کے " سیزن " بھی پرانے ہو جائیں گے ۔ اور آنے والے وقتوں کے لوگ ان کے نام سے تو ہوسکتا ہے واقف رہیں مگر ان کو دیکھنے میں دلچسپی رکھنے والے لوگ نہیں ہوں گے ۔ یہ قدرت کا قانون بھی ہے ۔ اور یہ ہر زمانے ، ہر وقت کے اپنے اپنے معیار بھی ہیں ۔ کہ بہت ہی کم کم انسانی تخلیقات ایسی ہوتی ہیں یا ہوسکتی ہیں جو ہر زمانے کے انسانوں کی ذہنی تفریح اور دلچسپی کا باعث بن سکیں ۔ اور ہر موسم ، ہر سیزن میں اپنی کشش برقرار رکھ سکیں ۔
درحقیقت وہی تحریر یا آج کل کے زمانے کے طور طریقوں کے حوالے سے اسی ڈرامہ یا فلم کا لکھا گیا اسکرپٹ لمبی عمر پا سکتا ہے ، جو سماجیات ، عمرانیات ، معاشرت ، اخلاقیات ، نفسیات ، روحانیت اور انسانیت کے ہر اینگل ، ہر زاویے ، ہر نکتے پر ممکنہ حد تک Non Controversial ہو اور اسے پڑھنے ، دیکھنے اور سننے والے معاشرے کے ہر طبقے سے تعلق رکھتے ہوں ۔ اور ہر مکتبہ فکر کا فرد اس میں اپنی ڈوب کر اپنی روح کی تنہائی کو دور کرسکتا ہو اور اپنی توانائی کو ری چارج کرسکتا ہو ۔ خواہ وہ دس سال کا ہو یا اسی سال کا ۔ مرد ہو یا عورت ۔ انگوٹھا چھاپ جاہل مطلق ہو یا پانچ مضامین میں پی ایچ ڈی ۔
کسی بھی رنگ و نسل کا ہو ۔ اس کی مادری زبان کچھ بھی ہو ۔ جھونپڑی میں رہتا ہو یا کسی محل کا مکین ہو ۔ شریف ہو یا بدمعاش ۔ دھوکے باز ہو یا ایماندار ۔ کسی گاوں دیہات کا باسی ہو یا شہر کا رہائشی ۔ اسے وہ تحریر ، وہ ڈرامہ ، وہ فلم اپنی اپنی سے لگے ۔ اس میں اسے اپنی روح یا اپنے خوابوں کا عکس چھلکتا ہوا دکھائی دے ۔ اور کچھ دیر کو وہ اپنی زندگی کے تمام مسائل بھول سکے ۔ کسی ایک خاص مکتبہ فکر یا نظریہ یا خیال کے تحت لکھا جانے والا ادب ہو یا اسکرپٹ ہو یا ڈائیلاگ ، اپنے زمانے کے پڑھنے اور دیکھنے والوں میں اونچا مقام تو ضرور پاتا ہے مگر اسے خاص و عام میں یکساں پذیرائی نہیں حاصل ہو پاتی ۔ شیکسپیئر ہو یا ورڈزورتھ ، گورکی ہو یا ٹالسٹائی ، خلیل جبران ہو یا غالب ، سعدی ہو یا رومی ، سب کے نام اور کام آج بھی زندہ ہیں ، مگر مخصوص حلقوں میں ۔
آج کا قاری ، آج کا ناظر ، آج کا سامع ، آج کا انسان ہے ۔ آج کے انسان کی نفسیاتی شخصیت کا حامل ۔ آج کی ضرورتوں ، خواہشوں ، آج کے خوابوں ، جذبوں کا قیدی ۔ آج کے ماحول کا اسیر ۔ ہزار برس بعد پھر ایک بار داستان گوئی کے زیر حصار ۔ پڑھنے سے زیادہ ناٹک دیکھنے اور کہانی سننے کا اشتیاق ۔
مگر برسوں پرانی وہ کہانیاں آج بھی اپنا طلسم رکھتی ہیں ، جو اگر سنائی اور سنی جائیں تو دل میں اترتی چلی جائیں ۔ اور جن کو اگر ڈرامائی اور فلمی شکل دی جائے تو آج کے انسان کو لگے کہ یہ تو آج ہی کا قصہ ہے ۔ یہ تو آج ہی کی کہانی ہے ۔ ہیری پوٹر اور داستان الف لیلہ میں کوئی زیادہ فرق تو نہیں ۔ لارڈ آف رنگز ہو یا طلسم ہوش ربا ، ایک ہی رنگ اور انداز کا بیان ہے ۔ یہ تو وہ دو چار نام ہیں جو دنیا کے کونے کونے کے پڑھنے اور دیکھنے والوں کے علم میں ہیں ۔ اپنے اپنے علاقوں اور خطوں کی اپنی اپنی صدیوں پرانی داستانیں ہیں جو اپنے اپنے علاقوں میں زندہ اور تابندہ ہیں ۔ ہر ملک ، ہر ھوم لینڈ کی اپنی تاریخ ، اپنی تہذیب ، اپنی ثقافت کی طرح اپنا ادب ہے ۔
اسرائیل کی ایک ڈرامہ سیریز سے لئیے گئے مرکزی خیال کو امریکہ کے ایک ٹی وی چینل نے " ھوم لینڈ " کے نام سے ڈرامہ سیریز تشکیل دی ۔ جس کا آٹھواں سیزن غالبا اس سال ٹیلی کاسٹ ہونے جارہا ہے ۔ اپنے ملک اور اپنے ملک کی پالیسی کو صحیح دکھانے کے لئیے ایسی فرضی کہانیوں کا جال ، جو درحقیقت ، امریکہ کی حقیقی پالیسیوں کی نشاندہی کررہا ہے ۔
اور اس نوعیت کی ہزاروں فلمیں اور دیگر ڈرامے اور ناول ۔ جو تفریح کے ساتھ آج کے انسان کی صحیح غلط ذہن سازی کررہے ہیں ۔ آج کے ادب کی ایک انتہائی خطرناک اور بگڑی ہوئی صورت ہیں ۔ جو دنیا کے کونے کونے میں پڑھے اور دیکھے جارہے ہیں ۔ اور شہرت اور مقبولیت پارہے ہیں ۔ کیونکہ ان کی اکثریت متنازعہ خیالات کی بھی عکاسی کررہی ہے اور اپنے ٹارگٹیڈ قارئین اور ناظرین اور سامعین کو نفرت ، انتقام اور ظلم اور تشدد پر بھی اکسا رہی ہے ۔ اور جھوٹ اور فریب کے ایسے پروپیگنڈے کو بھی ہوا دے رہی ہے ، جو سچائی اور حقیقی معاملات کو توڑ مروڑ کر دنیا کے مختلف مذاہب اور مختلف قوموں اور مختلف تہذیبوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرکے کبھی نہ ختم ہونے والی جنگوں کے سلسلے کو دراز کررہا ہے ۔
المیہ یہ ہے کہ پروپیگنڈے پر مبنی اس تحریری اور بصری لٹریچر کے توڑ میں کچھ بھی تخلیق نہیں کیا جارہا ۔ ہمارے نوجوانوں کو اس خاموش سیلاب کے سپرد کردیا گیا ہے ۔ ہمارے یہاں ادب اور ادبی اصناف کے نام پر جو کچھ بھی لکھا یا فلمایا جارہا ہے ، اس کا زمینی حقائق سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ۔ یا تو فکشن برائے فکشن ہے ۔ اور یا موروضی حقائق کے نام پر محض سیاست اور سیاست دانوں کی ریشہ دوانیوں اور کرتوتوں کی کہانیوں پر گرما گرم بحث ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ خالص تفریحی ادب بھی ناپید ہوچکا ہے ۔
یو ٹیوب ، وی لاگ اور بلاگ کے چکر میں آکر بڑے بڑے نامور ادیب اور دانشور بھی چکرا چکے ہیں ۔ اور ہنس کی چال چلنے کی کوشش میں اپنی فطری صلاحیت کو اپنے ہاتھوں قتل کرچکے ہیں ۔ اپنی جگہ ان کا یہ قدم کچھ ایسا غلط بھی نہیں ۔ ہمارے یہاں لکھنے والوں کو Taken As Granted لیا جاتا ہے ۔ ماسوائے ان کے ، جو اپنے منہہ اپنی قیمت لگاتے ہیں اور چمک دمک کے عوض اپنے آپ کو پورے کا پورا بیچنے کی اہلیت رکھتے ہیں ۔ اور ایسے لکھاری کبھی بھی نان کمرشل ادب تخلیق نہیں کر پاتے ۔ کیونکہ ان کے لکھے ہوئے اور کہے ہوئے لفظ ، روح سے خالی ہوتے ہیں ۔ روح سے عاری کوئی بھی تحریر لمبی عمر نہیں پا سکتی ۔ اور جو اپنے خون سے خواب بنتے اور دکھاتے ہیں ، ان کی قدر یہ بے قدر اور بے حس معاشرہ نہیں کر پاتا ۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم سب ایسی تحریروں کو ترس رہے ہیں جو انسانیت اور اخلاقیات کے اعلی و ارفع مشن کو مدنظر رکھتے ہوئے لکھی گئی ہوں ۔ یا انسان کو تفریح اور سہولت فراہم کررہی ہوں ۔ اور یا کچھ اور نہیں تو ، ملک اور وطن کی سالمیت اور بقا کو ہائی لائٹ کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہوں ۔ اور یا یہ بھی نہ ہو تو کم از کم کسی نہ کسی شکل میں انگریزی زبان کے پروپیگنڈا ناولز اور فلموں اور ڈراموں کے اسکرپٹس کا مقابلہ کرتے ہوئے نظر آتی ہوں ۔
جب یہی تلخ سچائی ہو تو ہمارے نوجوان اپنے ہوم لینڈ کی محبت میں ملوث ہونے کی بجائے یہاں سے ہجرت ہی کے بہانے ڈھونڈتے رہیں گے ۔ اور بیرون ملک آباد ہوکر ہنسی خوشی ہر طرح کی گالیاں برداشت کرتے ہوئے اپنی معیشت بہتر بنانے میں لگے رہیں گے ۔ اور جب ان کے پاس اپنی زبان میں پڑھنے اور دیکھنے کو مضبوط اور متحرک لٹریچر نہیں ہوگا تو یہ خلا بھی ایسے منفی اور پروپیگنڈے سے لبریز جھوٹے ، غیر حقیقی ادب سے ہی بھرے گا ، جس میں بات بے بات اور ہر بات پر اسلام اور مسلمانوں کو مورود الزام ٹھہرایا جارہا ہے ۔ اور پاکستانیوں سمیت ہر محب وطن مسلمان کو Terrorist اور فسادی قرار دیا جارہا ہے ۔ یہ ذہنی زہر آہستہ آہستہ اتنی ہوشیاری اور چالاکی سے تفریح کے نام پر نوجوانوں کو پلایا جارہا ہے کہ نہ پینے والوں کو کچھ پتہ چل رہا ہے ، نہ پلانے والوں کی آخری صفوں میں کھڑے لوگوں کو کچھ اندازہ ہے کہ وہ پردے کے پیچھے کھڑے اصل کھلاڑیوں کے کس مقصد کو اپنی لالچ یا نادانی کے سبب پورا کررہے ہیں ۔ تفریح اور ادب کے نام پر دنیا کے چپے چپے میں ، دنیا کے ہر فرد کے ذہن کو پراگندہ کیا جارہا ہے اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کے بیج بوئے جارہے ہیں ۔ اور ہر مذہب ، ہر قوم ، ہر ملک ، ہر تہذیب کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کھڑا کیا جارہا ہے ۔
اور ہمارے سچے اور سگے مسلمان ادیب ، دانشور ، صحافی ، شاعر ، بلاگرز ، وی لاگرز ، ڈرامہ رائیٹرز ، اسکرپٹ رائیٹرز ، پروڈیوسرز ، ڈائریکٹرز ، اینکرز ، صرف اور صرف اپنے اپنے نام کے دام کھرے کرنے میں مصروف ہیں ۔ کوئی ایک بھی ایسا نہیں نظر آتا جو دل سے نوجوانوں کے معصوم اور شفاف دلوں کی ذہن سازی کررہا ہو یا کرتا ہوا دکھائی دے رہا ہو ۔ اپنا خون پلانا پڑتا ہے ۔ پھر کہیں جاکر نسلوں کی آبیاری ہوتی ہے ۔ پھر کہیں جاکر یہ تصور ، یقین کی صورت بچے بچے کے دل و دماغ میں جگہ پاتا ہے کہ " ھوم لینڈ " کہتے کسے ہیں ۔ مذہب اور وطن کی سالمیت اور حرمت ہوتی کیا ہے اور کیسے اس محبت کا شجر سینچا جاتا ہے ۔

" ھوم لینڈ "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ،
جسمانی ، روحانی ، جنسی و منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ شاعر ۔ بلاگر ۔ پامسٹ

www.drsabirkhan.blogspot.com
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
www.g.page/DUAAGO 

بدھ، 15 جنوری، 2020

مجھے غصہ کیوں آتا ہے ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

" مجھے غصہ کیوں آتا ہے ؟ "
نیا کالم / بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان


" البرٹ پنٹو کو غصہ کیوں آتا ہے " یہ جاننے کے لئیے آپ کو انیس سو اسی کی دھائی کے ابتدائی سالوں میں ریلیز ہونے والی انڈین آرٹ فلم دیکھنی ہوگی ۔ سچ یہ ہے کہ دنیا کے ہر انسان کو غصہ آتا ہے اور وہ اسے نکالنے پر مجبور ہوتا ہے ۔ اور دنیا کا ہر ذی ہوش انسان اپنے غصے کی ہزاروں تاویلات دیتا ہے ۔ ہر انسان اپنے اپنے غصے کو Justify کرتا ہے اور اپنے اپنے غصے کی ان گنت وجوہات بتاتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کے غصے کو صحیح سمجھا جائے اور غصے کی حالت میں اس کے رویوں اور غصے کی کیفیت میں اس سے سرزد ہونے والی حرکتوں اور باتوں کو درگزر کردیا جائے ۔ خواہ اس سے دوران غصہ ، سنگین سے سنگین جرم ہی کیوں نہ ہوگیا ہو ۔
درحقیقت غصے کی کیفیت انسان کے دماغ کو ماوف کردیتی ہے اور اس کے سوچنے سمجھنے کی اہلیت کو سلب کردیتی ہے ۔ اس کی وجہ دماغ کے اندر رونما پذیر کیمیائی تبدیلیاں ہوتی ہیں ۔ چند خاص ھارمونز ، چند خاص نیورو ٹرانسمیٹرز معمول کی مقدار سے کہیں زیادہ بننے لگتے ہیں ۔ جو پورے بدن اور دماغ کی کیمسٹری اور فزیالوجی کو یکسر تبدیل کر ڈالتے ہیں ۔ اور ہم غصے کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ کوئی فرد واحد یہ نہیں کہہ سکتا کہ اسے غصہ نہیں آتا یا اسے کبھی غصہ نہیں آیا ۔ جب بھی خلاف مرضی یا خلاف خواہش کوئی بات ہوتی ہے یا ایسی کوئی بات جو ہمارے جذبات کو مجروح کرے یا ہمارے کسی بھی طرح کے نقصان کا باعث بنے ، ہمیں غصہ دلا دیتی ہے ۔
انسانی نفسیات کی ان گنت اشکال کی طرح غصے کی بھی کئی قسمیں ہوتی ہیں ۔ کسی کو بہت زیادہ غصہ آتا ہے ۔ کسی کو کم کم ۔ کسی کا غصہ بہت دیر تک رہتا ہے ۔ اور کسی کا غصہ بہت جلد ٹھنڈا پڑ جاتا ہے ۔ کسی کو بہت دیر میں غصہ آتا ہے ۔ اور کسی کو بات بات پر غصہ آجاتا ہے ۔ کسی کا غصہ ذرا نرم اور ملائم ہوتا ہے ۔ اور کسی کا غصہ بے حد گرم اور آگ لگا دینے والا ہوتا ہے ۔
مومن خان مومن کا مشہور شعر شاید آپ کی نگاہ سے گزرا ہو ۔ ' ان کو آتا ہے پیار پر غصہ ۔ ہم کو غصے پر پیار آتا ہے ' ۔ اس نوعیت کی کیفیت عام طور پر اردو کے رومانی ناولوں اور فلموں میں دیکھنے میں آتی ہے ۔ عام زندگی میں غصے پر غصہ ہی آتا ہے ۔ اور جب سے توزن اور احترام اور برداشت ہمارے اندر سے رخصت ہوا ہے ۔ تب سے تو اینٹ کا جواب پتھر سے نہیں ، بلکہ پہاڑ سے دینے اور دلانے اور مزہ چکھانے کا مزہ ہر ایک کو لگ چکا ہے ۔ بدلے اور انتقام کو ہم نے چھوٹے سے چھوٹے معاملے سے لےکر بڑے بڑے معاملات کا بنیادی جز بنا دیا ہے ۔ اور غصے کا برملا اور کھلم کھلا اظہار ہمارے کردار کا امتیازی نشان بن چکا ہے ۔
کسی کی باضابطہ بدتمیزی اور زیادتی پر تو غصے کا آنا اور غصے کا اظہار ایک حد تک منصفانہ کہا جاسکتا ہے ۔ مگر چونکہ غصہ ایک ایسا منفی جذبہ ہے جو پل بھر میں جنون کی شکل اختیار کر جاتا ہے اور پھر جنون کے بے قابو جن کو ہم سمیت کوئی بھی اپنے اپنے نفس کی بوتل میں دوبارہ بند نہیں کرسکتا ۔ تو مظلوم کو ظالم بنتے دیر نہیں لگتی ۔ اور نہ ختم ہونے والی ایک ایسی داستان شروع ہو جاتی ہے ۔ جو فرد سے فرد کے جھگڑے کو معاشرتی فساد اور انارکی میں بدل دیتی ہے ۔ گھر کے گھر ، خاندان کے خاندان تو کیا ، کبھی کبھی تو پوری کی پوری قوم اور سارے کا سارے ملک ایک ایسی گھٹن زدہ ، دھوئیں آلود فضا میں رہنے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔ جو معصوم اور مظلوم کی شناخت کئیے بنا ہر ایک کی نفسیات اور شخصیت میں اتنی زیادہ توڑ پھوڑ مچا دیتی ہے کہ کئی کئی نسلیں اپنا قصور جانے بنا کسی ایک فرد کی ضد ، انا ، تکبر ، غصے اور نفسیاتی بیماری کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں ۔
اسی وجہ سے نہ صرف ہمارے مذہب اسلام میں بلکہ ہر مذہب میں غصے کو حرام اور ممنوعہ قرار دیا گیا ہے ۔
مگر چونکہ دنیا کے ہر فرد نے اپنے اپنے مذہب کی روح کو اپنے اندر اتارے بنا مذہبی عبادات اور معاملات کو رسومات کی شکل میں ڈھال دیا ہے ۔ تو کوئی بھی اس نکتے کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا کہ مذہب سے لیکر نفسیاتی امراض کے ماہرین تک ، ہر ذی ہوش اور دانش مند فرد کسی کی بھی شخصیت اور نفسیات کا جائزہ لیتے وقت کیوں غصے کے جذبے اور غصے کے اظہار کی علامات کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے ۔ اور کیوں غصے کی موجودی یا غیر موجودی کی بنیاد پر ہر حساس سرکاری ادارے یا کسی بھی بڑی آرگنائزیشن میں Selection یا Rejection کے فیصلے کئیے جاتے ہیں ۔ بہت سی جگہوں پر تو ابتدائی انٹرویوز میں آنے والے امیدواروں کو جان بوجھ کر غصہ دلایا جاتا ہے ۔ اور ان کے Threshold کا اندازہ لگا کر ان کو اگلے مرحلے کے لیے پاس یا فیل کیا جاتا ہے ۔
اسی طرح ان گنت دیگر اداروں کی Key Posts کے لئیے انہی افراد کا انتخاب کیا جاتا ہے جو اپنے غصے کو کنٹرول کرنے کا فن جانتے ہیں ۔
آپ کو جب غصہ آتا ہے تو آپ کیا کرتے ہیں ۔ اپنا غصہ کس طرح اتارتے ہیں یا کیسے اسے ٹھنڈا کرتے ہیں ۔ غصہ پی لیتے ہیں یا چنگھاڑنا شروع کر دیتے ہیں ۔ اپنا خون جلا کر اپنے آپ کو نقصان پہنچاتے ہیں یا دوسروں کے رونگٹے کھڑے کر دیتے ہیں ۔ خاموش اور خفا ہوجاتے ہیں ۔ یا دل میں کدورت اور کینہ پالنا شروع کر دیتے ہیں ۔ بدلے کی سوچتے ہیں یا غصہ دلانے والے کو معاف کردیتے ہیں ۔
غصے کی بات پر غصہ آنا نارمل ہے ۔ بلاوجہ بار بار کا غصہ ابنارمل اور دیوانے پن کی نشانی ہے ۔ ہر چھوٹی چھوٹی بات پر غصے میں آجانا ، کمزور اعصابی نظام کی موجودگی کا پتہ دیتا ہے ۔
مضبوط اور توانا اعصابی نظام کے حامل افراد ہی غصے ، بلکہ شدید ترین غصے کی حالت میں بھی فوری طور پر React کرنے سے گریز کرتے ہیں ۔ اور اپنے غصے پر قابو پانے اور اسے قابو میں رکھنے کی قدرت رکھتے ہیں ۔ کچھ لوگ قدرتی طور پر مضبوط اعصاب کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں ۔ کچھ لوگوں کے اعصاب ، وقت اور عمر کے ساتھ کمزور پڑتے چلے جاتے ہیں ۔ کچھ لوگوں کے حالات زندگی اور ان کو درپیش مسائل اور ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور رہنے والوں کے سلوک اور رویے ان کے اعصاب کو توڑ پھوڑ کر ان کے اندر کے غصے کو ہوا دیتے رہتے ہیں ۔ کچھ لوگ پیدائشی طور پر کمزور اعصاب کے مالک ہوتے ہیں ۔ بہت ہی کم لوگ اپنی زندگی کے آخر تک اپنے اعصاب کو یکجا اور یکسو رکھ پاتے ہیں ۔
غصے کی کوئی سی بھی صورت ہو ۔ اعصاب کی کیسی بھی حالت ہو ۔ ہم چاہیں تو کافی حد تک اپنے اعصاب کو مضبوط کرنے اور اپنے غصے کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں ۔ یہ اسی وقت ممکن ہے ، جب ہم نہ صرف اپنے اندر کے غصے سے اچھی طرح واقف ہوں بلکہ اس بات کی شعوری خواہش بھی رکھتے ہوں کہ ہمیں اپنے غصے کو اپنے اوپر کبھی حاوی نہیں ہونے دینا ۔
ایک زمانہ تھا جب مجھے بہت کم غصہ آتا تھا ۔ اور اگر آتا بھی تھا تو زیادہ تر خاموش رہ کر اور اپنے غم و غصے کو اپنے اندر ہی اتار کر کام چلا لیا کرتا تھا ۔ پھر مجھے بھی غصہ آنے لگا ۔ اور اب گزشتہ دس پندرہ سالوں سے تو بہت زیادہ غصہ آنے لگا ہے ۔ مجھے تو میرے غصے کو پیدا کرنے والی وجوہات کا بڑی حد تک علم ہے ۔ اور بڑی حد تک میری کوشش بھی رہتی ہے کہ میں ان وجوہات کو ، جو میرے اختیار میں ہیں ، کم کرنے کی مستقل کوشش میں لگا رہوں ۔ لیکن بہت سی وجوہات ایسی بھی ہیں جو قدرت کی پیدا کردہ ہیں اور ان پر میرا کوئی اختیار نہیں ۔ ان وجوہات پر مجھے صبر کرنا پڑتا ہے ۔ شکر کرنا پڑتا ہے ۔ تنہائی کے خول میں خود کو بند کرکے مراقبہ کرنا پڑتا ہے ۔ تب کہیں جا کر 24 گھنٹوں میں لوٹ پوٹ کر غصہ ٹھنڈا پڑتا ہے ۔ آپ بھی سوچیں کہ آپ کن باتوں پر سیخ پا ہوتے ہیں اور آپ کا غصے کا لائف اسپین کتنا ہے ۔ جس غصے کی معیاد ہفتے سے زیادہ ہونے لگے ، وہ کمزور اعصاب کی نشانی ظاہر کرتا ہے ۔ اور اگر کسی بھی معمولی یا شدید بات پر آنے والا غصہ مہینے سے زیادہ برقرار رہے تو انتہائی کمزور اعصابی نظام اور کمزور شخصیت کی عکاسی کرتا ہے ۔ اور جن لوگوں کا غصہ سالوں رہتا ہے ، اور وہ بدلے اور انتقام کے درپے رہتے ہیں یا اس حوالے سے پلان بناتے رہتے ہیں ، وہ کمزور اعصابی نظام اور کمزور شخصیت کے ساتھ ساتھ کھوکھلی روح اور کینہ پرور اور سیاہ قلب کے مالک ہوتے ہیں ۔ ماہرین نفسیات بھی ایسے لوگوں کا کچھ خاص نہیں بگاڑ پاتے ۔
ہم اور آپ اگر دل سے چاہیں تو اپنے غصے کو ذرا ملائم ، ذرا دھیما ، ذرا ٹھنڈا کر بھی سکتے ہیں اور رکھ بھی سکتے ہیں ۔ آئیے کچھ آسان اور آزمودہ طریقوں کو Revise کرکے Revive کرتے ہیں ۔ جن کی مدد سے ہم غصے کو فہم کی لگام دے سکتے ہیں ۔ آپ بھی ان طریقوں سے ضرور واقف ہوں گے ۔ کسی بھی بات کی تکرار اور خصوصا اچھی بات کی بار بار تکرار اسے ہمارے لاشعور کا حصہ بنا دیتی ہے ۔ تو آج اپنے اپنے غصے کے روک تھام کے چند طریقوں کو دہرا کر دیکھتے ہیں ۔
1۔ درود ابراھیمی کا کثرت سے ورد ۔ جب جب وقت ملے اور وقت تو ملتا ہی رہتا ہے ۔ ہمیں درود ابراھیمی پڑھتے رہنا چاہیئے ۔ اس عمل کے ہزاروں فوائد میں سے ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ ہمارے اعصاب مستقل تقویت اور توانائی پاتے رہتے ہیں ۔ اور ہمارا غصہ اس حد تک کم ہوجاتا ہے کہ جہاں جہاں غصے کے اظہار کی واقعی ضرورت ہوتی ہے ، وہاں بھی ہم چاہنے کے باوجود غصہ نہیں کر پاتے ۔
2 ۔ زیادہ سے زیادہ پیدل چلنا ۔ ننگے پاؤں یا فلیٹ سول شوز میں ۔ ھیل کے بغیر ۔ سادہ جوگرز کے جوتوں کے ساتھ ۔ پیدل چلنے کا عمل ، بدن اور دماغ کے اندر خون کے بہاو کو بڑھاتا ہے ۔ تازہ اور آکسیجن سے بھرپور خون جب دماغی خلیات کو سیراب کرتا ہے تو مقوی نیورو ٹرانسمیٹرز بنتے ہیں اور پرانے اور خراب اور ٹوٹے پھوٹے کیمیائی اجزاء ، پیشاب اور پسینے کی شکل میں خارج ہوتے رہتے ہیں ۔ خون اور دماغ میں جب طاقتور نیورو ٹرانسمیٹرز کی مقدار بڑھتی ہے تو اعصاب کو تقویت ملنا شروع ہوجاتی ہے ۔ اور غصہ ٹھنڈا پڑنے لگتا ہے ۔
3 ۔ گوشت اور کھانے پینے کی دیگر گرم اور مضر صحت اشیاء سے گریز ۔ مثلا چاول ، ڈبل روٹی ، بسکٹ ، لال مرچ ، کولڈ ڈرنکس ، چکنائی ، مٹھائی وغیرہ ۔ یہ سب چیزیں خون میں فاسد مادے پیدا کرکے ، دماغ تک پہنچنے والے خون کو کثیف اور آلودہ کرتی ہیں ۔ اور اعصاب کو کمزور کرتی ہیں ۔ ان چیزوں کو ضرورت سے زیادہ استعمال کرنے والے لوگ عام طور پر غصے سے بھرے رہتے ہیں ۔ ان کے برعکس پھل ، سبزیاں اور دالیں استعمال کرنے والے افراد کے اعصاب زیادہ مستحکم ہوتے ہیں ۔ اور ان کو غصہ بھی کم آتا ہے ۔
4 ۔ بھرپور اور پرسکون 6 سے 8 گھنٹے کی نیند ۔ مخصوص اور صحتمند نیورو ٹرانسمیٹرز کو پیدا کرنے اور خون اور دماغ میں ان کے تناسب کو برقرار رکھنے کے لئیے ضروری ہوتی ہے ۔ اور اعصابی نظام کو شکست و ریخت سے بچاتی ہے ۔
5 ۔ دھوپ اور تازہ ہوا ۔ دھوپ میں بیٹھنے سے وٹامن ڈی کی مقدار میں اضافہ ہوتا ہے ۔ جو بدن کے دیگر حصوں کے ساتھ ساتھ خون ، دل اور دماغ کو بھی فریش اور متحرک رکھتا ہے ۔ اسی طرح تازہ ہوا اعصابی نظام کے لئیے ٹانک کا کام دیتی ہے ۔
6 ۔ ہنسنا ۔ مسکرانا ۔ قہقہے لگانا ۔ اعصابی دباؤ کو کم کرکے ہلکا پھلکا کرتا ہے ۔ اینڈورفنز پیدا کرتا ہے ۔ اور غصے کی کیفیت کو ختم کرتا ہے ۔ کامیڈی فلم ہو یا طنز و مزاح پر مبنی کتابوں کا مطالعہ ۔ اور مختلف اوقات میں ان میں محو ہونے کی عادت ۔ قوت برداشت اور تحمل میں اضافے کا باعث بنتی ہے ۔
7 ۔ ڈائری لکھنا ۔ یا اپنے جذبات ، خیالات اور احساسات کو کاغذ و قلم کے سپرد کرنا ۔ یا مصوری اور رنگوں کا استعمال ۔ اندرونی اعصابی دباؤ میں کمی لاتا ہے ۔ اور غصے کے اظہار کو Mould اور Modify کرکے تخلیقی شکل دیتا ہے ۔
8 ۔ غصے کی حالت میں پانی پینا ۔ یا کسی کو غصے میں شرابور دیکھ کر اسے پانی پلانا ۔ خون کو پتلا کرنے میں مدد دے کر دماغ تک پہنچانے کے عمل کو بڑھاتا ہے ۔
9 ۔ تفریح اور مصروفیت میں تناسب ۔ فطرت کے مظاہر میں وقت گزاری ۔ وہ عوامل ہیں جو اعصاب کو دباؤ اور کھنچاؤ سے دور کرتے ہیں ۔ اور غصے کی حالت میں جانے سے روکتے ہیں ۔ مصروفیات کی زیادتی ہو یا بالکل فراغت ۔ دونوں چیزیں آہستہ آہستہ اعصاب کو کمزور کرتی رہتی ہیں ۔ اور انسان کے اندر غصہ جمع ہوتا رہتا ہے ۔
10 ۔ بوریت اور یکسانیت سے اجتناب ۔ روٹین لائف ہو یا روزمرہ کے مخصوص کاموں کی ایک ہی نہج پر ادائیگی ۔ نیورونز اور نیورو ٹرانسمیٹرز پر اچھا اثر نہیں ڈالتی ۔ نتیجے میں اعصابی کمزوری اور پھر اس کے بعد غصہ کے بڑھ جانے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ۔
تنوع اور رنگا رنگی اور Multitasking اعصاب کو انرجی فراہم کرتے ہیں ۔
ان دس باتوں کے علاوہ اور ہزار باتیں بھی ایسی ہیں جو اعصابی نظام کو مضبوط بنا کر غصے کے امکانات کو کم کرتی ہیں ۔ ان ہزار باتوں کو جاننے کے لئیے آپ کو اپنا مطالعہ اور مشاہدہ بڑھانا ہوگا ۔ جوں جوں آپ کی عقل اور سمجھ کا دائرہ وسیع ہوتا جائے گا ۔ آپ کی گفتگو کم ہوتی چلی جائے گی ۔ جوں جوں آپ کی باتوں کی لت میں کمی آئے گی ۔ آپ کا غصہ ، آپ سے ڈر کر دور بھاگتا جائے گا ۔ آزما کر دیکھئیے گا ۔ ان سب باتوں کے استعمال کے باوجود بھی اگر آپ کے غصے میں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ تو پھر کسی ماہر نفسیات کی مدد لینے میں ہی آپ کا ، آپ کے اردگرد کے لوگوں کا ، آپ کے ماحول اور محلے کا ، آپ کی قوم اور آپ کے ملک کا فائدہ ہے ۔ غصے کی فراوانی نے ، جذباتیت کے ہیجان نے ، انفرادی اور اجتماعی عقل اور فہم کو سولی پر لٹکا دیا ہے ۔ غصے اور جذباتیت میں اٹھایا جانے والا ہر قدم نئی تباہی ، نئی بربادی کی جانب لے جارہا ہے ۔ اور ہماری باتوں کے دریا بہے جارہے ہیں ۔ بڑھتے جارہے ہیں ۔

" مجھے غصہ کیوں آتا ہے؟ "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ،
جسمانی ، روحانی ، جنسی و منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ ۔

www.drsabirkhan.blogspot.com
www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
www.g.page/DUAAGO

جمعرات، 2 جنوری، 2020

اندھیرے کا سفر ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

" اندھیرے کا سفر "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

آج پھر وہ آئی تھی ۔ کئی ماہ کے بعد ۔ اپنے دل کا غبار ہلکا کرنے کے لئیے ۔ ڈھائی گھنٹوں میں Dun Hill کا آدھا پیکٹ دھوئیں کی نذر کرکے ، گزشتہ کئی ماہ کی روداد سنا کر چلی گئی ۔ میں کبھی کرسی کی پشت سے ٹیک لگاتا رہا ۔ کبھی دونوں ہاتھ میز پر رکھ کر اس کی آنکھوں میں جھانکتا رہا ۔ کبھی یوگا اور جم وزن کم کرکے باڈی کو شیپ میں لانے کی باتیں ۔ کبھی اس کے خاندان میں ہونے والی شادی کا ذکر ۔ کچھ شوہر کی معاشی تنگ دستی کا حال ۔ کچھ بڑھتی ہوئی مہنگائی سے گھر کا بجٹ آوٹ ہونے کا احوال ۔ کچھ اپنی جاب کی پریشانی ۔ کچھ اپنی اعلی تعلیم کے حصول میں درپیش مشکلات کی فکر ۔ کچھ اپنے بچوں کی تعلیم کی راہ میں حائل پیسوں کی کمی کا خیال ۔ کچھ بیرون ملک منتقل ہونے کے پلان ۔ اور کچھ دوسری شادی کا ارادہ ۔ مگر ہر بات ، ہر ارادہ آدھا اور ادھورا ۔ کچھ Grandiosity , کچھ Paranoia , کچھ Narcissum اور باقی کی پوری شخصیت پر
جنون و یاسیت Bipolar Disorder کے چمکتے اور بجھتے رنگ ۔ شوہر ان پڑھ ۔ خود سوشل اور اس حد تک دوستیاں کہ مرد اس کی خاطر ایک دوسرے کو مارنے اور مرنے پر تیار ۔
یہ ایک ایسی پڑھی لکھی ورکنگ وومن کی آدھی ادھوری کہانی ہے جسے جاننے اور چاہنے کے باوجود پوری بیان کرنا کردار اور اختیار سے باہر ہے ۔ اور یہ کسی ایک عورت کی کہانی نہیں ۔ ہمارے معاشرے کی ان گنت عورتیں ، آزادی نسواں کے نام پر اس حد تک آزاد ہوچکی ہیں کہ ان کی آزاد روی کی ہر کہانی ناقابل بیان ہوجاتی ہے ۔ کہ ان گنت خاندانوں کے شیرازے بکھرنے کا ڈر ان کہانیوں کو کہنے اور لکھنے سے روک دیتا ہے ۔ یہاں تک کہ فرضی نام اور دیگر حوالے بھی اسی احتیاط اور احترام کی نذر کردینے پڑتے ہیں کہ کہیں کوئی ذرا سا اشارہ بھی پردہ نہ اٹھا دے ۔ اور بھرے مجمع میں کسی کی عزت پر انگلیاں نہ اٹھنے لگیں ۔
جب اللہ تعالی پردے میں رکھنا پسند کرتا ہے تو ہم کون ہوتے ہیں پردہ ہٹانے والے ۔ ایسے میں مرکزی کردار کی چند چیدہ چیدہ ایسی مخصوص باتیں ہی ہائی لائٹ کرنی ہوتی ہیں ۔ جن سے اور کچھ لوگ استفادہ حاصل کر سکیں اور بروقت اپنی زندگی میں بہتر تبدیلیاں لا سکیں ۔
آج کی کہانی کی مرکزی کردار ہماری پیپ پڑی سوسائٹی کی عکاسی کرتی ہے ۔ اس طرح کی کئی عورتیں اپنی اپنی کہانیاں اپنے اپنے وقتوں میں بیان کرتی رہی ہیں ۔ ان کی خوبصورتی ، ان کا انداز ، ان کی دل لبھاتی باتیں ، ان کا Superficial Charm , ان کی ذاتی ازدواجی زندگی کی خود ساختہ مظلومیت اور محرومیوں کے قصے ، ان کی ذہانت ، ان کی تقاریر ، موٹی موٹی کتابوں پر ان کے تبصرے ، سیاست اور معاشرت پر مباحثے ، کسی بھی عالم فاضل ، دانشور ، لکھاری ، مقرر ، سیاست دان ، ادیب ، شاعر ، صحافی ، اینکر پرسن ، پروفیسر ، پروفیشنل کو چنملاقاتوں میں کلین بولڈ کرسکتے ہیں ۔ اور کسی بھی مرد کو اپنی زلفوں کا اسیر بنا سکتے ہیں ۔
دروازہ کھلا ہو تو کوئی بھی اندر داخل ہو سکتا ہے ۔ بند دروازے پر دستک ہو تو گھر کے مکین کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ دروازہ کھولے یا نہ کھولے ۔ مقفل دروازوں پر شاذ و نادر ہی کوئی دیوانہ دستک دیتا ہے ۔
عورت کی جب ہر شے ، ہر بات کھلی ڈھلی ہو ، کیا چہرہ ، کیا زیبائش ، کیا دل ، کیا زبان ، کیا ناز ، کیا انداز تو اس سے ملنے والا ہر مرد ہی اس کے سحر میں گرفتار ہوجاتا ہے ۔ ڈرپوک اور کم ہمت دل ہی دل میں اس عورت کی مورت کو مورتی بنا کر پوجنا شروع کردیتے ہیں ۔ اور کردار و تربیت سے عاری حضرات ببانگ دہل محبت کے دعوے اور نعرے بلند کر اٹھتے ہیں ۔ اور جو بہت ہی ٹیڑھے اور پٹڑی سے اترے ہوئے ہوتے ہیں ، ہاتھ پاوں دھو کر کھلی ڈھلی عورت کے جسم کو فتح کرنے کی تگ و دو میں لگ جاتے ہیں اور اپنی ہوس کو عشق و محبت کے ذرا مہذبانہ الفاظ کا پیراہن پہنا دیتے ہیں ۔ اور جو کسی بھی طرح کے معاشرتی اور اخلاقی دباؤ کے زیر اثر نہیں ہوتے ، وہ زور زبردستی پر اتر آتے ہیں ۔
یوں کھلی ڈھلی عورت ، ڈھکی چھپی دعوت عام دے کر ، اپنی خود ساختہ مظلومیت کا رونا گانا گا کر اپنے گرد مردوں کا ہجوم جمع کرلیتی ہے ۔ اور جب ان مردوں میں سے کوئی ایک یا دو چار کسی بھی طرح کی پیش رفت کرتے ہیں تو ایسی عورت کو اپنے اوپر ہونے والی نادیدہ زیادتیوں کا ڈھول اور زور و شور سے پیٹنے کا موقع مل جاتا ہے ۔ اور وہ ایک کے بعد ایک اور مرد کا شکار کرکے آگے بڑھتی جاتی ہے ۔ اور لوگوں کی نظروں میں معصوم اور مظلوم ہی رہتی ہے ۔
ایسی عورتیں معاشرتی نفسیات کا بھرپور فائدہ اٹھاتی ہیں ۔ ایک طرف تو ان کو آزادی نسواں کے نام نہاد نعروں کا تحفظ مل جاتا ہے ۔ اور دوسری طرف ، بحیثیت عورت ہونے کے ناطے Certified اور دائمی مظلوم ہونے کا سچ جھوٹ ۔
حقیقت اس کے برعکس بھی ہوسکتی ہے ۔ دنیا میں محض مرد ہی ہمیشہ ظالم اور سنگ دل نہیں ہوتے ۔ عورتوں کی زیادتیاں منظر عام پر نہیں آتیں ۔ اور نہ ان کی ریشہ دوانیاں کسی کے علم میں آپاتی ہیں ۔
درحقیقت کسی بھی معاشرے میں جب جب بگاڑ پیدا ہوا ہے ، اس کے پیچھے مردوں کا کم ، عورتوں کا زیادہ عمل دخل ہوتا ہے ۔ خواہ گھر کے اندر بچوں کی تربیت میں کوتاہی اور غفلت کی صورت یا بے جا لاڈ پیار اور کھلی چھوٹ کی بابت ۔ اور یا پھر شوہروں اور خاندان کے دیگر بڑوں کے ساتھ زبان درازی اور بدتمیزی ۔ شکر اور سلیقہ مندی سے خالی ہوکر بھی بڑبولا پن اور اپنی غلطی نہ ماننے کی عادت سے لیکر فضول خرچی اور بات بات پر غصہ اور رونا دھونا ۔ یہ سب باتیں معاشرتی پراگندگی کا باعث بنتی ہیں ۔ گھر ، گھر داری اور گھر والی کے پریشر سے پریشان مرد کبھی بھی معاشرے کا کارآمد رکن نہیں بن سکتا ۔ نتیجہ میں جہاں جہاں وہ مرد جائے گا ، اپنی ذہنی اور جذباتی کثافتوں سے ماحول اور آس پاس کے دیگر لوگوں کو متاثر کرے گا ۔
اور گھر سے باہر رہنے والی عورتیں اگر اپنی معاشی مجبوریوں کو ڈھال بنا کر ، اپنی خود ساختہ مظلومیت اور خوبصورتی و ذہانت کی تلواروں سے ادھر ادھر وار کرتی رہیں گی تو گھروں اور خاندانوں کے ٹوٹنے اور بکھرنے کا عمل تیز ہوتا چلا جائے گا ۔
یہ عمل تیز سے تیز تر ہوتا چلا جارہا ہے ۔ طلاق اور خلع کی تعداد میں دن دوگنی رات چوگنی اضافہ تو ہو ہی رہا ہے ۔ اس سے بڑھ کر بھیانک حالات تو یہ ہوچکے ہیں کہ گھروں سے باہر پھرنے اور پھیلنے والی عورتوں کی بہتات نے حلال اور شرم و حیا اور شریعت اور اخلاقی اقدار کا بھی جنازہ نکال دیا ہے ۔
مردوں کی عیاشی کے واقعات تو سب کی زبان پر ہیں ۔ کھلی ڈھلی اور آزاد خیال عورتوں نے جس دھڑلے اور بیباکی سے اپنے شوہروں کے نکاح میں رہتے ہوئے بھی دوسرے مردوں سے ہر طرح کے پوشیدہ ذہنی ، دلی اور جسمانی تعلقات قائم کر رکھے ہوئے ہیں اور ان پر کسی قسم کی ندامت بھی نہیں ۔ اس کا کھلے عام بیان ممکن نہیں ۔ کسی بھی مذہب ، کسی بھی تہذیب ، کسی بھی ثقافت میں Infidelity کی نہ تو گنجائش ہے ، نہ اجازت اور نہ ہی اس عمل کو کہیں بھی قانونی تحفظ حاصل ہے ۔
اس کے باوجود ایسی شادی شدہ خواتین کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے جن کو نہ اپنی عزت کا پاس ہے اور نہ اپنے شوہروں اور بچوں کے نام اور ناموس کی کوئی قدر ہے ۔ محبت یا ضد یا مجبوری کے نام پر انہوں نے رشتہ ازدواج میں رہتے ہوئے بھی غیر مردوں سے تعلقات استوار کررکھے ہیں ۔ اور بدنامی محض مردوں کے کھاتے میں لکھی اور پڑھی جارہی ہے ۔ عورت ہو یا مرد ، ہر دو کے لئیے خالق کائنات نے زندگی کا واضح اور باضابطہ نظام نافذ کیا ہوا ہے ۔ جو روشن اور باعث رحمت و برکت ہے ۔ مگر دور حاضر میں لوگوں کی اکثریت ' اندھیرے کا سفر ' طے کررہی ہے ۔ اور وہ بھی کسی مجبوری میں نہیں ۔ بلکہ اپنی مرضی اور پسند سے ۔ اندھیرے کا یہ سفر ایک تاریک منزل کی جانب لے جا رہا ہے ۔ اور کوئی بھی اپنا راستہ بدلنے پر راضی نہیں ۔

" اندھیرے کا سفر "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی
جسمانی ، روحانی ، جنسی و منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ

www.drsabirkhan.blogspot.com
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
www.g.page/DUAAGO