منگل، 14 اپریل، 2020

Collateral Damage. ڈاکٹر صابر حسین خان

" COLLATERAL DAMAGE "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

انگریزی فلموں اور ڈراموں کو دیکھنے والے اس اصطلاح سے بخوبی واقف ہوں گے ۔ اردو میں اس کے کئی معنی بیان کئیے گئے ہیں ۔ گو کوئی بھی اس انگریزی دو لفظی لفظ کے حقیقی معنی نہیں بیان کر پاتا ۔ Damage کا مطلب تو واضح ہے ۔ " نقصان " یا " ٹوٹ پھوٹ " ۔ Collateral کو سمجھنے کے لئیے لغوی معنوں کی مدد لیتے ہیں ۔ ' کے برابر ' ۔ ' کی جگہ '۔
' بدلے میں ' ۔ ' کی بجائے ' ۔ ' امر اضافی ' ۔ اور اس طرح کے کئی اور لفظ آپ کو ڈکشنری میں مل جائیں گے ۔ مگر جب ان دونوں لفظوں کو ملا کر ایک دو لفظی لفظ کی شکل دی جاتی ہے ۔ Collateral Damage تو اس کے معنی بڑے عجیب سامنے آتے ہیں ۔ مثلا ڈکشنری میں ایک جگہ اس کی معنی ' خود کش حملہ ' بھی درج ہیں ۔ اور یا پھر معنوں کی بجائے اصطلاح کی تشریح کی گئی ہے ۔ ' نہ چاہنے والا نقصان ' ۔ اور
' فوجی حملے یا فوجی کارروائی کی صورت میں سویلین جان یا مال کا نقصان یا تباہی ' ۔ اور ' کسی بھی ملٹری ایکشن میں غیر ارادی یا غیر اختیاری عام آبادی کی اموات یا مال و دولت کا نقصان ' ۔ اور ' ہدف یا ٹارگٹ کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کی جان کا ضیاع جو نہ نشانہ ہوں اور نہ برہائے راست مخالف یا دشمن ہوں ' ۔ اور اسی طرح کے کئی اور معنی اور تشریحات ۔ اب بھی مفہوم واضح نہ ہو رہا ہو تو آپ خود ڈکشنری کھول کر اپنے لئیے آسان معنی ڈھونڈلیجیئے گا ۔
نوول کورونا COVID 19 وائرس سے اب تک ( نو اپریل 2020 بوقت رات نو بجے ) لگ بھگ ایک لاکھ کے قریب انسان کولیٹرل ڈیمیج کا شکار ہوچکے ہیں ۔ دنیا بھر کے ہر طرح کے ماہرین اپنی اپنی ماہرانہ رائے میں یہی Forecast کررہے ہیں کہ دنیا کو کم از کم اگلے چار ماہ ( جولائی 2020 ) تک مکمل لاک ڈاون میں رہنا ہوگا ۔ اور 2021 تک بھی دنیا میں کہیں بھی آزادانہ آمد و رفت کا کوئی امکان نہیں ۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کرونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد سوا تین کروڑ تک پہنچ سکتی ہے ۔ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ گلوبل اکنامی کی تباہی کے نتیجے میں غربت اور غربت سے نیچے کی لکیر میں رہنے والے کرونا سے نہیں بلکہ بھوک اور قحط سے موت کے گھاٹ اترنے لگیں گے ۔ اور اس طرح مرنے والوں کی تعداد کا اندازہ چھ تا سات کروڑ لگایا جارہا ہے ۔
خدانخواستہ اتنی بڑی تعداد میں اگر انسان مرتے ہیں ۔ خواہ کرونا سے یا بھوک سے ۔ تو دنیا کی قدیم اور جدید تاریخ کا یہ سب سے بڑا Collateral Damage ہوگا ۔ Massive Genocide ۔ اور وہ بھی ایسی جنگ ، ایسے ملٹری ایکشن کے نتیجے میں ، جس میں بظاہر کسی کو نہیں پتہ کہ یہ جنگ کس نے شروع کی ہے ، یہ جنگ کیوں شروع کی گئی ہے ۔ ہر شخص اپنے علم ، اپنے فہم کے مطابق مفروضوں کے غبارے پھلا کر ادھر ادھر پھیلا رہا ہے ۔
یہاں اگر یہ مفروضہ سامنے رکھا جائے کہ درحقیقت اس جنگ کے پہلے خیالی مرحلے کا آغاز تو ستر سال پہلے ہوگیا تھا اور سن 1990 میں مملکت روس کے حصے بخرے ہونے کے فورا بعد دوسرے عملی مرحلے کو شروع کردیا گیا تھا ۔ پہلی گلف وار ۔ پہلا جارج بش سینئیر ۔ کویت اور عراق کو آمنے سامنے کھڑا کرکے ۔ پھر نائن الیون آگیا ۔ سن 2000 ۔ جنگ کے تیسرے مرحلے کی شروعات ۔ جب بہت سے لوگوں نے شاید پہلی بار کولیٹرل ڈیمیج کی اصطلاح سنی ۔ اور اب سن 2020 ۔ کرونا وائرس کی شکل میں انتہائی خفیہ اور خطرناک جنگ کا چوتھا مرحلہ ۔
اور یہ جنگ ہے کیا ۔ یہ جنگ درحقیقت Specific سے Generalised کی طرف کا سفر ہے ۔ اس کا بنیادی ٹارگٹ یا ہدف شروع کے مرحلوں میں Specified ملک ، قومیں اور آبادیاں تھیں ۔ جن کو تباہ و برباد کرنے کے لئیے جو کچھ کیا گیا ، اس کے نتیجے میں کولیٹرل ڈیمیج کی اصطلاح کو زبان زد کروا کر اپنے Actions کو Justify کیا گیا ۔ مگر اب اس چوتھے مرحلے میں کوئی خاص قوم ، آبادی یا ملک دشمن یا ہدف نہیں ہے ۔ بلکہ اس بار Collateral Damage کو ہی نشانہ بنایا گیا ہے ۔ زیادہ سے زیادہ تعداد میں اپنے اپنے لوگوں کو شکار کرکے ، کرونا کے ذریعے ہلاک کرواکے ، اپنی ڈوبتی ہوئی معیشت کو زیرو پر پہنچا کر ، اس خفیہ جنگ کے پانچویں اور چھٹے مرحلوں کی بنیاد رکھی جارہی ہے ۔
خوف اور دہشت پھیلا کر ذہنوں کو ماوف کیا جارہا ہے ۔ جذبوں کو بند دیواروں کے پیچھے دھکیلا جارہا ہے ۔ روحوں کو دائمی اضطراب اور بے سکونی کی نذر کیا جارہا ہے ۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دنیا بھر کے انسانوں کو مذہب اور انسانیت اور روحانیت سے دور کیا جارہا ہے ۔ Indirectly یہ دکھا کر ، یہ بتا کر اور یہ کرکے کہ نعوذ بااللہ کسی بھی مذہب کا خدا یہ قدرت نہیں رکھتا کہ اپنے پیروکاروں کو ایک وائرس سے بچا سکے ۔
یہی نہیں بلکہ اجتماعی مذہبی عبادات اور دعاؤں پر پابندی لگا کر Collective Spiritual And Mind Powers کا راستہ روک دیا گیا ہے ۔ انفرادی دعا اور اجتماعی دعا میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے ۔ دنیا بھر کے ماہرین نفسیات اور ماہرین روحانیت اس نکتے پر متفق ہیں کہ جتنے زیادہ انسانوں کی ذہنی اور روحانی توجہ اور توانائی ایک خاص وقت پر ایک خاص نکتے ہر ایک خاص دعا ایک خاص خیال کے حوالے سے مرتکز ہوگی ، اتنا زیادہ اس خیال ، اس دعا کے پورے ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ۔
اور صرف یہی نہیں بلکہ مائینڈ پاور بڑھانے کے لئیے بھی مختلف مذاہب اور مختلف ثقافتوں میں گروپ موومنٹ کا Concept ہے ۔ یہ ذہنی قوت ، درحقیقت ہماری چھپی ہوئی Spiritual Energy ہوتی ہے ۔ جو گروہ یا گروپ کی شکل میں زیادہ اور زیادہ بہتر طریقے سے چارج ہوتی ہے ۔ اگر گروپ کے سب اراکین ایک مشترکہ مقصد کے حصول کی طلب کا جذبہ رکھتے ہوں اور مل کر مخصوص اوقات میں مخصوص کلمات یا دعاوں کا ورد کرتے ہوں ۔ اور اپنے اللہ سے ایک ہی فریکوینسی میں ایک ہی دعا مانگتے ہوں ۔ تو اس عمل سے جو Magnetic Field پیدا ہوتی ہے ۔ وہ بہت طاقتور Vibrations کا منبع ہوتی ہے ۔ یہ ارتعاش گروہ کے تمام اراکین کے قلب اور روح کی صفائی Cleansing کا بھی باعث بنتا ہے اور اندرونی قوتوں میں اضافہ بھی کرتا ہے ۔ اور جسمانی ، ذہنی اور روحانی Immunity بھی بڑھاتا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ہر مذہب میں اجتماعی عبادات اور دعاؤں Mass Prayers کو خاص طور پر انسان کی فلاح کے لئیے کسی نہ کسی شکل میں لازمی قرار دیا ہے ۔
نیو ورلڈ آرڈر کے حواریوں نے آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ذریعے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو اسی لئیے پروموٹ کیا ہے کہ کمزور اور بیمار انسانوں کو جلد از جلد دنیا سے رخصت کروانے کے ساتھ ساتھ مضبوط اور صحتمند لوگوں کی جسمانی قوت مدافعت کے ساتھ ان کی ذہنی اور قوت مدافعت اور طاقت کو بھی کمزور کردیا جائے ۔ ایک پنتھ ، کئی کاج ۔ تاکہ تاریخ انسانی کی اس بھیانک ترین سازش اور خفیہ ترین جنگ کے چھٹے اور ساتویں Steps اور Stages کی راہ ہموار ہو سکے ۔
اس مرحلے کو اتنا طول دیا جاسکتا ہے ۔ کہ وائرس سے بچ جانے والے لوگ بھوک اور اپنی دیگر ضروریات سے بلبلا اٹھیں ۔ اور ان پر دنیا اتنی تنگ کردی جائے کہ وہ کھڑکی اور روشن دان کھولنے کے لئیے بھی نیو ورلڈ آرڈر کے Implementers کے محتاج ہوجائیں ۔ اور ان کے احکامات اور اشاروں کے بنا سانس بھی نہ لے سکیں ۔
دنیا کی تاریخ میں پہلی بار Collateral Damage کو باقاعدہ اور باضابطہ نشانہ بنایا گیا ہے ۔ اور یہ کام اس خوبصورتی اور مہارت سے کیا گیا ہے کہ دنیا کے 99.9999 فیصد لوگوں کو کانوں کان خبر نہیں ہوسکی کہ کسی جنگ کا کسی بھی قسم کا کوئی حصہ بنے بنا ان کے لئیے Termination Orders جاری کردئیے گئے ہیں ۔ بڑے بڑے ھائی فائی پڑھے لکھے اور حد سے زیادہ علم اور معلومات رکھنے والے بھی ہزار پردوں کے پیچھے کی اس مذموم حرکت کے اصل Motives کو نہ Read کرپائے ہیں اور نہ Evaluate ۔ اور نہ ہی اس مفروضے کو ماننے پر راضی ہیں ۔
کوئی بھی یہ کیوں نہیں سوچ رہا کہ آخر کیوں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ سائنس اور میڈیسن آج اپنے عروج کی آخری منزل پر ہیں ۔ اور جن لوگوں کے ہاتھوں میں قدرت نے اس عروج کے تاج کو تھمایا ہوا ہے ، وہ بھی کیوں اس شدت سے اس بائیوکیمیکل ویپن کے ہاتھوں بظاہر شکست کھاتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں ۔
And This Is New Meaning Of Collateral Damage In The New Dictionary Of New World Order That This Time , Of All Times , The History Of The World Is To Be Rewritten


" COLLATERAL DAMAGE "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ،
جسمانی ، روحانی ، جنسی اور منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ

www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.drsabirkhan.blogspot.com
www.fb.com/drsabirkhan
www.YouTube.com/DrSabirKhan
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
www.drsabirkhan.wordpress.com

بدھ، 8 اپریل، 2020

آئیے کچھ کرتے ہیں ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

" آئیے کچھ کرتے ہیں "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

آئیے ! کچھ ہٹ کر کرتے ہیں ۔ مل بانٹ کر کرتے ہیں ۔ نیا تو نہیں مگر نئی طرح سے کرتے ہیں ۔ کچھ نیا پڑھتے ہیں ۔ کچھ نیا دیکھتے ہیں ۔ کچھ نیا سوچتے ہیں ۔ جو کام ادھورے تھے ، انہیں پورا کرتے ہیں ۔ کچھ ایسا کرتے ہیں جو اب تک کرنے کا سوچتے رہے ہیں ۔
کچھ نئے خواب بنتے ہیں ۔ کچھ عذاب کم کرتے ہیں ۔ نئی امیدوں کا سودا لاتے ہیں ۔ ایک دوجے کی وحشتوں کو ٹھنڈا کرتے ہیں ۔ آنے والے دنوں کی نئی تصویریں بناتے ہیں ۔ پھر ان میں رنگ بھرتے ہیں ۔ دکھوں کو دور کرنے کا سامان ڈھونڈتے ہیں ۔ ہر دل کے درد کا درماں کھوجتے ہیں ۔
آئیے ! کچھ اس طرح سے کرتے ہیں ۔ کچھ اس طرح سے جیتے ہیں ۔ آج اور کل کے جھگڑوں کو چھوڑ کے ، اپنے حال میں جیتے ہیں ۔ نیلے پیلے ، میرے تمہارے مسئلوں سے جان چھڑا کے انسان بن کے رہتے ہیں ۔ صبر کی چادر اوڑھ کر ، شکر کی تسبیح پڑھتے ہیں ۔ سر جھکا کر عاجزی کو اپناتے ہیں ۔ اپنے مرنے سے پہلے اپنی انا کو مار دیتے ہیں ۔ کیا نسب و نام ، کیا جاہ و جلال ، ہر پگڑی اتار پھینکتے ہیں ۔ اپنے ہاتھوں اپنے قلب سے نفرت و عداوت کو مٹا دیتے ہیں ۔ اسی زندگی میں نیا جنم لے لیتے ہیں ۔ مرنے سے پہلے ذرا دیر کو زندہ ہو لیتے ہیں ۔
آئیے کچھ اس طرح کرتے ہیں ۔ روٹھے ہووں کو منا لیتے ہیں ۔ خود پہل کرلیتے ہیں ۔ دشمن کو دوست بنا لیتے ہیں ۔ جو دور ہیں ، ان کو قریب کرلیتے ہیں ۔ جو پاس ہیں ، ان کو عزیز کرلیتے ہیں ۔ جو تنہا ہیں ، ان کی دوریاں دور کردیتے ہیں ۔ تنہائیوں میں روشنیاں گھول دیتے ہیں ۔ اپنی میٹھی میٹھی باتوں کی خوشبو سے اپنے ماحول کو معطر کرلیتے ہیں ۔ کچھ ذرا زیادہ سن لیتے ہیں ۔ کچھ ذرا زیادہ برداشت کرلیتے ہیں ۔ اپنے غم ، اپنے غصے کو ہنستے کھیلتے ختم کرلیتے ہیں ۔
آئیے ! آج کچھ اس طرح کرلیتے ہیں ۔ اپنا دل بڑا کرلیتے ہیں ۔ اوروں کے کام آکے ، اوروں کا بوجھ ہلکا کرلیتے ہیں ۔ آج کے دن خود سے نیا وعدہ کرتے ہیں ۔ قدرت سے جو مہلت جائے ، آج کے بعد اسے اوروں کی خدمت میں خرچ کرتے ہیں ۔ اپنے وقت کا کچھ حصہ ، بنا کسی توقع کے ، اوروں کے لئیے وقف کرلیتے ہیں ۔ اپنے علم میں اوروں کو بھی شامل کرلیتے ہیں ۔ اپنی محنت ، اپنی عبادت میں سے وقت نکال کر ، کچھ نیا سیکھ کر اوروں کو بھی سکھا دیتے ہیں ۔ اپنی توجہ ، اپنی محبت سے اندھیری رات کے مسافروں کو راستہ دکھا دیتے ہیں ۔
کچھ اس طرح کرتے ہیں ۔ مرنے سے پہلے اپنی زندگی کا حساب کتاب کرلیتے ہیں ۔ آخرت سے پہلے ہی خود کو کٹہرے میں کھڑا کردیتے ہیں ۔ دل اور دماغ کو الگ الگ کرکے اپنا محاسبہ کرتے ہیں ۔ اپنے گناہوں کو یاد کرتے ہیں ۔ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا شمار کرتے ہیں ۔ خود کو کمرے میں بند کرکے روتے ہیں ، گڑگڑاتے ہیں ۔ خالق کل کائنات سے معافیاں مانگتے ہیں ۔ آقائے دو جہاں ، حضور پاک ، حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے اپنی عافیت کی دعا مانگتے ہیں ۔ اپنی بخشش پر اصرار کرتے ہیں ۔ درود ابراھیمی پڑھ پڑھ کر زبان خشک کرلیتے ہیں ۔ استغفار کی تسبیح پڑھتے پڑھتے انگلیوں کو تھکا لیتے ہیں ۔ اپنے رب کے سامنے اپنی ذات کے ساتھ ساتھ پوری امت پر رحم و کرم کی درخواست کرتے ہیں ۔
آئیے ! اپنی روح کو صاف کرتے ہیں ۔ اپنی روحانی قوت بڑھاتے ہیں ۔ اپنی سوچ کو انتشار سے بچاتے ہیں ۔ اپنی فکر کو ایک نکتے پر مرتکز کرتے ہیں ۔ اپنے خیال کو اپنے اللہ کے نور سے شرابور کرتے ہیں ۔ اللہ کی رحمت اور برکت کا انتظار کرتے ہیں ۔ آئیے ! اپنے اللہ سے معافی مانگتے ہیں ۔ مرنے سے پہلے ، آج کے بعد ، اللہ کی رضا پر راضی زندگی گزارنے کا ارادہ کرتے ہیں ۔
آئیے ! آزمائش اور امتحان کے ان لمحوں میں اپنے اللہ کو راضی کرتے ہیں ۔

" آئیے کچھ کرتے ہیں "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ،
جسمانی ، روحانی ، جنسی اور منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ

www.drsabirkhan.blogspot.com
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.fb.com/drsabirkhan
www.YouTube.com/DrSabirKhan
www.g.page/DUAAGO

نمائش ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

" نمائش "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

لمبی چوڑی کہانیوں کا سلسلہ اختتام پر ہے ۔ بہت پھیلاو آگیا تھا زندگی میں ، سکڑنے اور سکوڑنے کی مختصر سی کہانی شروع ہوگئی ہے ۔ زمینی خداوں نے دنیا بھر میں تہلکہ مچا رکھا تھا ۔ آسمانی طاقت نے رسی کھینچ لی ہے ۔ سب کو جس جنگ عظیم ترین کا انتظار تھا ، اس کی شروعات ہوچکی ہے ۔ اب کچھ بھی نہیں بچنے والا ۔ اب کچھ بھی پہلے جیسا نہیں ہونے والا ۔ جن لوگوں نے جو کچھ کرنا تھا ، آج سے بہت پہلے کرلیا ۔ اور اپنے اپنے ہوم ورک کے بعد اب پریکٹیکل شروع کردیا ہے ۔
اور ہم ابھی تک سو رہے ہیں ۔ ایک دوسرے سے امداد مانگ رہے ہیں ۔ ایک دوسرے سے امداد لیکر ایک دوسرے کو بانٹ رہے ہیں ۔ اور نیکیاں کما رہے ہیں ۔ یہ جانے بنا ، یہ سوچے بنا ، یہ سمجھے بنا ، کہ اور کہانیوں کی طرح بہت جلد یہ کہانی بھی ختم ہو جانی ہے ۔ جن کے دلوں پر مھر لگ گئی ہو ، وہ تو قارون کی طرح اپنے خزانوں سمیت زمین میں دفن ہوجائیں گے ۔ آزمائش کے ان دنوں میں چار آنے بھی دینے سے قاصر رہیں گے ۔ اور جو دل پر جبر کرکے نمائشی خیرات میں دو چار سکے بھی دیں گے تو دینے سے پہلے فوٹوگرافی سیشنز کا باضابطہ اہتمام ہوگا ۔ پھر ذاتی میڈیا سیل کے نمائندے امداد بانٹنے کی وڈیوز اور تصاویر کو وائرل کریں گے ۔
ایک طرف کے اسکور بورڈ پر ہر لمحے مرنے والوں کی تعداد کی گنتی جاری ہے ۔ تو دوسری طرف امداد تقسیم کرنے والے اپنے اپنے اسکور کو ھائی لائیٹ کر کر کے ابھی تک زندہ بچ جانے والوں کے سامنے لا رہے ہیں ۔
حد سے بھی زیادہ حد ہوچکی ہے ۔
اللہ کا عذاب نازل ہوچکا ہے ۔ مگر ہم ہیں کہ اب بھی خود کو بدلنے کو تیار نہیں ۔ اللہ تعالی نے وضاحت کے ساتھ ہر شے کی نمائش کی ممانعت کی ہے ۔ اور خاص طور پر امداد ، خیرات ، صدقات ، ذکوات کے حوالے سے تو حکم ہے کہ دایاں ہاتھ دے تو بائیں ہاتھ کو علم نہ ہو ۔ اور ہمارا وطیرہ یہ ہے کہ آزمائش کی اس گھڑی میں بانٹ بعد میں رہے ہیں اور تشہیر پہلے کی جارہی ہے ۔ ہر فرد ، ہر جماعت ، ہر فلاحی ادارہ لوگوں سے امداد مانگ کر لوگوں میں تقسیم کررہا ہے ۔ اور بہت فخر سے ہر لمحے اپنا اسکور کارڈ ، اپ ڈیٹ کرکے لوگوں کے سامنے پہنچا رہا ہے کہ اب تک اتنے لاکھ ، اتنے کروڑ کا راشن بانٹا جا چکا ہے ۔ اور دلیل یہ رکھی جارہی ہے کہ نیکی کے ان کاموں کی تشہیر سے اور لوگوں کو بھی ترغیب ہوتی ہے کہ وہ بھی اس کار خیر میں اپنا حصہ ڈالیں ۔
لیکن کیا سب لوگ عبدالستار ایدھی کو بھول گئے ہیں ۔ ابھی سے ۔ جنہوں نے زندگی بھر نہ ذاتی تشہیر کی اور کروائی اور نہ ہی اپنے فلاحی کاموں کی ۔ وہ تمام عمر پاکستان کی عوام کی ہر طرح خدمت کرتے رہے اور عزت سے اس دنیا سے چلے گئے ۔
اور اب ۔ اب نعوذباللہ یہ عالم ہے کہ گنتی کے چار تھیلے بھی گاڑی میں رکھے ہوں تو بھی چار گھنٹے کی لائیو وڈیو ، سوشل میڈیا پر چل رہی ہوتی ہے ۔
یہ نادان کی دوستی ہے ۔ ہم جانے انجانے میں ، اس طرح کی تشہیر اور نمائش کے ذریعے اور زیادہ اللہ تعالی کے قہر کو آواز دے رہے ہیں ۔ اس کڑے وقت میں جو رہی سہی مہلت ملی ہے ، اسے بھی ضائع کررہے ہیں ۔ کیا کسی نے یہ سوچا ہے کہ جو معصوم ، جو مسکین ، جو نادار یہ نمائشی امداد لینے پر مجبور ہے ، اس کے دل ، اس کی عزت نفس پر کیا گزر رہی ہوگی ۔ اور مستحقین کی مدد کے اس عمل میں جو چور اچکے ہڈ حرام اور فراڈئیے اپنی فنکاری دکھا دکھا کر سال سال بھر کا راشن جمع کرکے دوکانوں پر جا جا کر فروخت کررہے ہیں ، ان کو یہ موقع کس نے فراہم کیا ہے ۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ ہم سب اور ہماری پوری قوم اپنی فطرت میں بھکاری ہے ، بھک منگی ہے ، لالچی ہے ، جاہل ہے ، خود غرض ہے ، مطلبی ہے ، تو بھائی لوگوں اگر لوگوں کی اکثریت کی نفسیات اور شخصیت ایسی ہے تو ایسے لوگوں کی مدد کے طور طریقے بھی نارمل سے ہٹ کر ہونے چاہئیں ۔ بصورت دیگر جن لوگوں کو واقعی اور حقیقی مدد کی ضرورت ہوتی ہے ، وہ اس بھیڑ چال میں ہماری مدد سے محروم رہ جاتے ہیں ۔ یاد رکھئیے حقیقی ضرورت مند ، بہت کم کیمروں کے سامنے اپنا ہاتھ پھیلائیں گے ۔ ایسے لوگوں کو ڈھونڈ کر خاموشی سے ان کی مدد کرنا ہی حقیقی نیکی ہوگی ۔
نوٹ : کوشش ہوگی کہ اب ذرا مختصر اور مختلف تحریر لکھی جائے ۔ کہ کہانیوں کی کہانی ختم ہوگئی ہے ۔ وبا اور آزمائش کے ایسے وقت اگر اب بھی چیزوں کو سمیٹا نہ گیا تو آنے والے وقت اور زیادہ مشکل ہونے والے ہیں ۔ اللہ تعالی ہم سب پر اپنا رحم اور کرم کرے اور ہم سب کا ایمان سلامت رکھے ۔ آمین ۔

" نمائش "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ،
جسمانی ، روحانی ، جنسی اور منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ

www.drsabirkhan.blogspot.com
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.fb.com/drsabirkhan
www.YouTube.com/DrSabirKhan
www.g.page/DUAAGO