بدھ، 19 فروری، 2020

ماضی، حال اور مستقبل ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

" ماضی ، حال اور مستقبل "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون ۔
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان ۔

سال گزشتہ عید قربان کے موقع پر اپنے گھر پر ہونے والی تقریب میں جب میں نے حسب روایت اپنی نئی شائع ہونے والی کتابیں " من قلندر " اور " دل کا نیلم " رشتہ داروں کی نذر کیں اور ان سے گزشتہ کتاب کی بابت پوچھا کہ" آئینے 2 " پڑھی تھی اور اگر پڑھی تھی تو کیسی لگی ۔ کون سا مضمون ، کون سی کہانی اچھی لگی ۔ تو سب نے اپنی اپنی رائے دی ۔ مگر ایک جواب نے مجھے لاجواب کردیا ۔
چھوٹے بھائی طارق کی بیوی ثناء نے کہا کہ اس نے ایمانداری سے بیچ بیچ میں سے کچھ چیپٹرز دیکھے ہیں ۔ مگر سب میں ہی آپ نے اپنا کوئی قصہ یا اپنے کسی کلائینٹ یا دوست ہی کا تذکرہ کیا ہے ۔ کوئی بھی خالص علمی یا فکری مضمون نہیں ۔ جس سے کچھ علم حاصل ہو ۔
" ہاں ں ں ۔ اچھا ۔ ایسا تھا کیا ۔ شاید ایسا ہی ہو ۔ میں پڑھ کر دیکھوں گا ۔ " ثناء نے مجھے ایک ہی جملے میں چت کردیا تھا ۔ اس کی انگریزی سے مجھے ویسے بھی ڈر لگتا ہے ۔ تو اس سے الجھنے کی بجائے میں نے خاموشی میں ہی اپنی عافیت سمجھی ۔ سامنے والا اگر سچ کہہ رہا ہو تو خاموشی سے اس کی بات سن بھی لینی چاہئیے اور مان بھی لینی چاہئیے ۔
ثناء کی بات صحیح تھی ۔ " آئینے 2 " میں شامل ستر کالمز یا مضامین میں کوئی چار چھ ہی ایسے ہوں گے جو خالص دقیق اور علمی و فکری ہوں ، اور یا جن میں ، ' میں ' یا مجھ سے Related کوئی شخص یا بات یا قصہ شامل تحریر نہ رہا ہو ۔
اب موجودہ کالم یا مضمون کو ہی دیکھ لیجئیے ۔ حسب عادت اپنے حالیہ ماضی کی ایک بات سے بات شروع کی ہے ۔ اور اب تک کی اتنی ساری باتوں میں کسی قسم کے لیکچر کا تڑکا نہیں لگا ہے ۔ ہاں البتہ شروع شروع میں جب 1993 میں باقاعدہ کالمز اور مضامین لکھنے کا سلسلہ شروع کیا تھا تو کئی سالوں تک بہت اہتمام اور انتظام سے علم نفسیات ، سماجیات اور عمرانیات کے چیدہ چیدہ نکات نکال کر خالص موٹیویشنل تحریریں عدم سے وجود کی شکل اختیار کرتی تھیں ۔ میری ابتدائی چھ سات کتابیں اسی نوعیت کے مضامین سے لبریز ہیں ۔ جن میں ' میں ' اور میرے حوالے اور میرے قصے شامل نہیں ۔ انتہائی خشک اور آبجیکٹو ٹاپکس ۔ Do'es اور Dont's سے بھرپور ۔ اور ان سب مضمونوں اور کتابوں کا متن ایک جملے میں سم اپ کیا جاسکتا ہے کہ ' اپنی زندگی کو کامیاب بنانے کے طریقے سیکھیں ' ۔ ڈیل کارنیگی کی ٹکر کی تحریریں ۔ ( کم از کم اس وقت میں یہی سمجھتا تھا اور بزعم خود ، بحیثیت ایک ماہر نفسیات کے اس زمانے میں وہ سب کچھ لکھ کر ، خود کو طرم خان کے روپ میں دیکھا کرتا تھا ) ۔ مگر پھر خود احتسابی اور تنہائی اور جدوجہد کے آٹھ دس سالوں نے سارا تکلف اور سارا کلف ، دھوبی پٹڑے مار مار کر اتار ڈالا ۔ دھو ڈالا ۔ اور دھو دھا کر نچوڑ بھی دیا ۔ علم اور فلسفے کے بھوت بھی ڈر کے مارے فرار ہوگئے ۔ روڑوں میں رلتے رلتے ، اوپر نیچے ہچکولے کھاتے کھاتے ، زندگی کے رولے کچھ کچھ سمجھ آنے لگے ۔ علم کی جگہ عمل اور فلسفے کی بجائے انسان اور ذہنی صحت کے ساتھ ساتھ روحانی صحت اور نفسیات اور شخصیت کے پیچھے چھپے روحانی حوالوں اور ہیولوں اور پہلووں اور انسان کے اندر کے آئینوں پر نگاہ جانے لگی ۔ ماضی ، حال میں بدلتا گیا اور حال ، مستقبل کا زاویہ نگاہ طے کرتا گیا ۔
کبھی ، کچھ بھی تو ایک جیسا نہیں رہتا ۔ آنے والا کل ، آج کی شکل اختیار کرتا ہے اور محض چوبیس گھنٹے بعد ماضی بن جاتا ہے ۔ وقت کی بے ثباتی کا جب یہ حال ہو تو کہاں کی دانش وری ، کیسی علامہ گیری ۔ بس پل دو پل کی درویشی بچتی ہے ۔ اور وہ بھی نصیب والوں کے حصے میں آتی ہے ۔ آج اور ابھی جو ہے ، وہ کل نہیں رہے گا ۔ جو کل تھا ، وہ کل نہیں ہوگا ۔ بس بے کلی ، وجود کا حصہ بن کے ساتھ چلتی رہتی ہے ۔ کیا کھویا ، کیا پایا ، کیا صحیح تھا ، کیا غلط تھا ، کبھی طمانیت تو کبھی پشیمانی ۔ امروز و فردا کی چکی کے دو پاٹوں کے بیچ لمحوں کا گھٹالا بنتا رہتا ہے ۔ اپنے فیصلوں کا بوجھ تقدیر کے گلے ڈال کر بھی حتمی سرشاری سے جی شاد نہیں ہو پاتا ۔ حال ، حال نہیں رہ پاتا ۔
جب یہی سچ ہے تو کوئی کیوں کر ، تمام عمر ، ایک ہی ڈگڈگی بجاتا رہے ۔ آج ، سوچ کا جو حال ہے ، وہی آج کے سچ کا آئینہ ہوتا ہے ۔ گزرے ہوئے وقت کی باتوں اور یادوں کے عکس کا ہرکارہ ہوتا ہے ۔
بہت سے لوگ ، بلکہ بہت سے کیا ، زیادہ تر لوگ ابتدائے عمر سے اپنی طبیعت اور فطرت کے مطابق کسی ایک خاص ٹریک کا انتخاب کرلیتے ہیں یا قسمت اور حالات اور واقعات ان کو کسی راستے پر چلنے پر مجبور کردیتے ہیں ۔ پھر تمام عمر وہ ایک ہی طرح کا کام ، ایک ہی طریقے سے کرتے چلے جاتے ہیں ۔ ایک ہی انداز ، ایک ہی پیٹرن میں اپنے حال اور مستقبل کو ماضی میں ڈھالتے چلے جاتے ہیں ۔ بہت کم ، بلکہ بہت ہی کم کم لوگ وقت کے ساتھ اپنے راستے بدلتے ہیں یا اپنے اپنے کاموں میں جدت اور ندرت پیدا کر پاتے ہیں ۔
کام کی نوعیت تو قدرت کی مرہون منت ہوسکتی ہے ۔ مگر کسی بھی کام ہمہ وقت ، مزید بہتری کا امکان موجود ہوتا ہے ۔
کسی بھی کام میں مزید بہتری عام طور پر اسی وقت ہو پاتی ہے ، جب جب ہم شعوری یا لاشعوری طور پر اس بات کی خواہش رکھتے ہوں ، اور اپنے دل اور دماغ کو ہمہ وقت ، ہمہ جہت لرننگ کے لئیے کھلا رکھتے ہوں ۔ اور صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کرنے اور فیصلے کے بعد اس پر عمل کرنے اور قائم رہنے کی کوشش کرتے ہوں ۔ اسی صورت ہمارا ماضی ، حال اور مستقبل ، تینوں طرح طرح کے رنگوں اور رنگ برنگی روشنیوں سے طرحدار اور روشن ہو سکتا ہے اور رہ سکتا ہے ۔ اور زندگی کے ہر مرحلے ، ہر اسٹیج ، ہر جنکشن پر ہمارے لئیے اور دوسروں کے لئیے کچھ نیا اور کچھ بہتر سامنے آسکتا ہے ۔
بصورت دیگر میرے اور آپ کے سامنے بہت سے لوگوں کی زندگی کے بہت سے سال گزرے ہوئے ہیں ، گزر رہے ہیں اور گزر چکے ہیں ۔ ایک ڈگر ، ایک روش ، ایک رنگ میں ان کا ماضی اور ان کا حال دکھائی دیتا ہے ۔ اور ماضی اور حال کا جو حال ہوتا ہے ، وہی عام طور پر مستقبل کی صورت تشکیل دے رہا ہوتا ہے ۔
قدرت کا یہ کلیہ فرد اور خاندان کے ماضی ، حال اور مستقبل پر بھی لاگو ہوتا ہے ۔ اور ملک اور قوم کے حال اور حالت کی بھی عکاسی کررہا ہوتا ہے ۔ ذرا دیر کو اپنی ذات کو بالائے طاق رکھ کر پوری قوم کے ماضی اور حال پر ایک طائرانہ نظر دوڑائیے ۔ ملک کے ہر نظام کو دیکھئیے ۔ کھنگالئیے ۔ ابتر ماضی ، بدترین حال ، منتشر مستقبل ۔ وجوہات پر ہزاروں لوگوں نے اپنے اپنے انداز میں ہزاروں باتیں کی ہیں ۔ اور مستقل کرتے چلے جارہے ہیں ۔ مگر اجتماعی سطح پر ملک و قوم کی حالت بدلنے کا نہ کبھی کسی نے سوچا ، نہ کبھی کسی نے صدق دل سے کوئی عملی قدم اٹھایا ۔ اور نہ ہی اس وطن کے باسیوں نے اپنے ماضی سے کوئی سبق سیکھا ۔ اور نہ ہی یہ قوم اپنا حال بدلنے کی کوئی کوشش کررہی ہے ۔
اس صورتحال میں اس قوم کا کیا مستقبل ہوسکتا ہے ۔ یہ الجبرا کا کوئی پیچیدہ سوال نہیں ۔ جو آج ہمارا حال ہے ۔ اس سے کم از کم دس گنا زیادہ برا حال ہونے والا ہے ۔ اور ہم میں سے کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ۔ ہم میں سے کوئی بھی اپنی حالت زار کو خوشگوار بنانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا ۔ ہم میں سے کوئی اس حوالے سے پہل نہیں کرنا چاہتا ۔ اپنے لگے بندھے ، اچھے برے ، روٹین کو نہیں بدلنا چاہتا ۔ خود کچھ نہیں سوچنا چاہتا ، خود کچھ نہیں کرنا چاہتا ۔ نئے دور کے نئے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوئے بنا ، دوسروں سے امداد اور تعاون کی طلب میں ، غیبی مدد کے انتظار میں ہم سب نے آہستہ آہستہ اپنی زندگی کو اس نہج پر ڈال دیا ہے ، جہاں کسی ترقی ، کسی پروگریس کی توقع نہیں ۔ دن بہ دن ، ہر حوالے سے ہمارا حال ، بد سے بدترین ہورہا ہے ۔ اور ہم خواب سہانے مستقبل کے دیکھ رہے ہیں ۔ دیوانے پن کی انتہا نے ہم سب کے سارے حواس ماوف کردئیے ہیں ۔ ہمارے ماضی کے آئینے پر ہمارے مستقبل کی تباہی کی لکیریں پھیلتی جارہی ہیں ۔ اور ہم ایک دوسرے سے زور آزمائی کے ساتھ ساتھ ہر طرح کے ماضی اور ہر طرح کے مستقبل سے بے نیاز ، اپنے اپنے حال میں مست ، دن و رات بسر کئیے جارہے ہیں ۔
اس سے پہلے کہ ہمارا مستقبل اور ہمارا حال ہمارے ماضی کو اور شکستہ کرے ، کیوں نہ ہم آج سے اپنے حال کو بہتر بنانے کے لئیے ایسے کام شروع کریں جو ہمارے دلوں کو تقویت دینے کے ساتھ ، آنے والے دنوں کو بھی مستحکم کرسکیں اور آنے والی نسلوں کے حال اور مستقبل کو بھی سنوار دیں ۔
ہم سب اگر اپنی اپنی جگہ کچھ اس طرح سوچنے اور کرنے لگیں گے تو پوری قوم کا حال اور مستقبل ، ماضی سے بہتر ہونے لگے گا ۔ لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم اپنی لگی بندھی ڈگر چھوڑ کر زندگی کے نئے معنی اور نئے رنگ تلاش کرنے پر راضی ہوں اور اپنے اپنے کمفرٹ زون میں رہنے کے ساتھ سیکھنے ، سمجھنے اور عمل کرنے کی اہلیت کو پروان چڑھانے کے لئیے دلی طور پر راضی ہوں ۔ بند دل ، بند دماغ ، بند روح ، بند سوچ ہمارے ماضی ، حال اور مستقبل ، تینوں زمانوں کے دروازوں کو بند کرتی ہے ۔ بند رکھتی ہے ۔


" ماضی ، حال اور مستقبل "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ،
جسمانی ، روحانی ، جنسی اور منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ

www.drsabirkhan.blogspot.com
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
www.g.page/DUAAGO 

بدھ، 12 فروری، 2020

میرے مسئلے ۔ دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

" میرے مسئلے "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

آپ کی طرح میں بھی مختلف اوقات میں مختلف مسائل کا شکار رہتا ہوں ۔ اور اللہ تعالی سے ان مسائل کے حل کی دعا مانگتا رہتا ہوں ۔ اور ساتھ ساتھ ان مسائل کے حل کی عملی کوشش بھی جاری رہتی ہے ۔ آپ بھی یقینا اسی طرح کرتے ہوں گے ۔ اپنے مسائل کے حل کی عملی کوشش اور تگ و دو اور ساتھ ساتھ دعائیں ۔ کہ یہی احسن راستہ ہوتا ہے ۔ مگر کبھی کبھی ہم ایسے مسئلے سے اچانک دوچار ہوجاتے ہیں ۔ جس سے باہر نکلنا مشکل بھی ہوتا ہے اور جس کا حل ہمارےگمان سے دور بھی ہوتا ہے ۔ ایسے مسئلوں سے میری طرح آپ بھی اکثر دوچار ہوتے ہوں گے ۔
میرا ایسا ہی ایک بہت پرانا مسئلہ ہے ۔ جس کا ابھی تک تو کوئی حل مجھے سجھائی نہیں دیا ہے ۔ آج ذرا اس مسئلے کو لفظوں کا روپ سنگھار دے کر دیکھتے ہیں ۔ باتوں باتوں میں شاید کوئی حل نکل آئے ۔ آپ بھی سوچئیے گا ۔ اگر آپ کو کوئی حل دکھائی دے ، تو ضرور آگاہ کیجئیے گا ۔ تاکہ میری الجھن بھی دور ہوسکے ۔ اور میں اپنی اصلاح بھی کر سکوں ۔
بہتر ہوگا کہ جب سے اس مسئلے کی شروعات ہوئیں ، اس وقت کا حوالہ بھی دے دیا جائے ۔ اپنی ایک پرانی تحریر میں کسی اور حوالے سے اس واقعہ کا حوالہ بھی دیا تھا ، جس کے بعد میں آہستہ آہستہ اس مسئلے میں الجھتا چلا گیا ۔ اور مرض بڑھتا گیا ، جوں جوں دوا کی ، کے مصداق اب اس مسئلے کا بیج ایک بڑے درخت کی شکل اختیار کر چکا ہے ۔ 1975 کا سال تھا ۔ میں پاپا ( اپنے دادا ) کے ساتھ کراچی کینٹ کے ریلوے اسٹیشن پر تھا ۔ میرپورخاص جانے والی مہران ایکسپریس کے انتظار میں ۔ حسب عادت اور شوق اسٹیشن پر واقع ایک بک اسٹال پر کہانیوں کی کتابیں دیکھ رہا تھا ۔ اسی اثناء شیشے کے فرنٹ شوکیس میں اسی سال کی ایک چھوٹی پاکٹ ڈائری نظر آگئی ۔ خاکی کور میں چھوٹے چھوٹے کورے کاغذ ۔ دن اور تاریخ یاد نہیں ۔ اس دن کہانی کی کوئی کتاب لینے کی بجائے وہ ڈائری لے لی گئی ۔ اور میرپورخاص پہنچتے ہی مذکورہ دن اور تاریخ کے صفحے پر چار پانچ جملوں میں اس دن کی مختصر کہانی لکھی گئی ۔ وہ ڈائری ہنوز موجود ہے ۔ پھر 1983 تک باقاعدہ اور باضابطہ روز کے روز ، روزانہ کی اہم اہم باتیں لکھی جاتی رہیں ۔ ہر سال کی نئی ڈائری میں ۔ تین چار جملوں سے ہوتے ہوتے پورے صفحے کی بیس بائیس سطریں ۔ پڑھنا بڑھتا گیا ۔ سوچنا اور تنہائی کے مزے لوٹنا بڑھتا گیا ۔ سندھ میڈیکل کالج ( موجودہ جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی ) میں گزارے اور گزرے ہوئے سات سال پڑھنے ، لکھنے ، سوچنے ، اور تنہائی کے سمندر میں غوطے لگانے کے نہ ختم ہونے والے سلسلے میں ڈھلتے گئے ۔ نظموں ، نثری نظموں اور نظم نماوں نے ڈائری کی جگہ لے لی ۔ دس برسوں میں لگ بھگ ہزار سے زائد اس طرح کی غیر منظم اور بے ہنگم ذاتی کیفیات اور احساسات کی عکاسی میں لکھی گئی نظم نمائیں اس زمانے میں تو دل و جان سے عزیز ہوا کرتی تھیں ۔ مگر عملی زندگی شروع ہوتے ہی یہ احساس شدت پکڑتا گیا کہ اپنی ذات اور اپنی انا کی اسیری میں لکھی گئی ان نظموں سے کسی اور کی ذات کو رتی برابر فائدہ ملنے کا کوئی امکان نہیں ۔ جونہی اس سوچ نے واضح شکل اختیار کی ، شاعری سے دل اوبھ گیا ۔ اور نثری مضامین یا کالمز کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔ ڈائری اور شاعری کے بعد کالم نگاری ۔ اور مضمون نویسی ۔ نیت یہی رہی کہ ایسا کچھ لکھا جاتا رہے ، ڈائری اور شاعری کے سوا ، جس سے کسی نہ کسی کو کچھ نہ کچھ حاصل ہوتا رہے ۔ اور ان تحریروں کو پڑھنے والوں کی زندگی میں کسی نہ کسی شکل کوئی آسانی ، کوئی سہولت پیدا ہوتی رہے ۔ نفسیات اور شخصیت سے لے کر نفسیاتی ، ازدواجی ، خاندانی ، معاشرتی ، جذباتی مسائل کی بابت بہت سے کالم نما مضامین لکھے ۔ پھر کچھ سالوں کے وقفے اور دیگر معاشی ذمہ داریوں نے کچھ اور پڑھنے اور سوچنے کا موقع فراہم کیا ۔ اس دوران ہر سال دو چار بار ڈائری کے صفحے بھی کالے ، نیلے اور ٹرقوائز ہوتے رہے ۔ کہ اس زمانے میں ایک کمزوری فاونٹین پین کا استعمال بھی تھا ۔ اور پسندیدہ رنگ کی روشنائی پارکر کی ہلکے فیروزی رنگ کی Turquoise Ink ہوا کرتی تھی ۔ پھر اور دلچسپیوں کی طرح یہ ساری عیاشیاں بھی ایک ایک کرکے دل سے اترتی گئیں ۔ ایک اور طرح کی تنہائی نے روح اور قلب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ نفسیاتی مریضوں کی شخصیت اور نفسیات پر غور و فکر بڑھا تو اندازہ ہوا کہ قرآن مجید میں جن اخلاقی اور روحانی بیماریوں اور کجیوں کا ذکر ہے ، ان میں سے اکثر نفسیاتی مریضوں اور ان کے گھر والوں میں پائی جاتی ہیں ۔ پھر ایک نئے زاویے سے جب اپنی پروفیشنل لائف کو گزارنا شروع کیا ۔ اور " راجہ گدھ " کی رزق حرام کی تھیوری کو اشفاق احمد کی گفتگو پر مبنی کتاب " زاویہ " کی تینوں جلدوں کو کئی بار پڑھنے ، پڑھوانے اور ڈسکشن میں لانے کا موقع ملا تو لکھے جانے والے انداز اور الفاظ بھی ایک اور ہی زاویے کی شکل میں ڈھلتے گئے ۔ کئی سالوں کے وقفے کے بعد جب اللہ تعالی نے دوبارہ لکھنے کا سلسلہ شروع کروایا تو اب کی بار رنگ ڈھنگ آہنگ ، سب ہی کچھ بدل چکا تھا ۔ اور ما بعد النفسیاتی اور روحانی معاملات زندگی اور مسائل اور ان مسائل کی مخفی اور اصل وجوہات پر بات چیت کو دل کی زبان ملتی چلی گئی ۔
پڑھنے ، سوچنے اور لکھنے کے چاروں ، پانچویں سلسلوں میں ہمیشہ دل کی حکمرانی رہی ۔ الحمداللہ کبھی بھی لفظوں کی حرمت کو تجارت کی شکل نہ دے سکا ۔ شوق کا نام دیں ، عادت کہہ لیں ، فطرت ثانیہ کا عنوان دے دیں ۔ ڈائری اور شاعری کو ترک کرنے کے بعد گذشتہ تیس برسوں میں جو بھی لکھا ، جیسا بھی لکھا ، جتنا بھی لکھا ، نیت ہمیشہ خدمت خلق کی رہی ۔ یہ اللہ تعالی کا احسان عظیم ہے کہ اس نے ایک شوق ، ایک صلاحیت ، ایک عادت کو اپنی مخلوق کی خدمت کے لئیے وقف کروادیا ۔ تحریر کا رنگ بدلتا رہا ۔ مرکزی خیال یہاں سے وہاں پرواز کرتا رہا ۔ مگر گول واضح رہا ۔ کہ ہر تحریر میں ایسی کوئی چھوٹی بڑی بات ضرور ہو ، جس کے عملی استعمال سے کسی نہ کسی کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور حاصل ہو ۔
اب تک جو سمجھ میں آیا ۔ وہ بہت ہی مختصر سا ایک چھ نکاتی کلیہ ہے ۔ جسے اگر زندگی میں عملی شکل دے دی جائے ۔ یا دینے کی کوشش کرلی جائے تو ہماری زندگی بہت حد تک آسان اور خوشگوار ہوسکتی ہے ۔ درحقیقت ہر کوئی اپنی اپنی جگہ اسی چھ نکاتی فارمولے کے تحت زندگی گزار رہا ہوتا ہے ۔ یا گزارنے کی کوشش کررہا ہوتا ہے ۔ مگر شعوری سطح پر سوچے ، سمجھے اور جانے بنا ۔ جس کی وجہ سے بار بار معاملات بگڑتے رہتے ہیں ۔ اور اکثر یہ نوبت آجاتی ہے کہ معاملات کو سنوارنے کی ہر کوشش رائیگاں چلی جاتی ہے ۔ اور پھر کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ بنتی بات بھی اچانک پٹڑی سے اتر جاتی ہے ۔ اور ہمیں وجہ بھی پتہ نہیں چل پاتی ۔
ایک بہتر ، خوشگوار ، مطمئن اور کامیاب زندگی گزارنے کے لئیے چھ اہم اور بنیادی زاویوں میں تناسب اور یکجائی ضروری ہوتا ہے ۔
عام فہم زبان میں سمجھنے اور سمجھانے کے لئیے ہم زندگی کے ان چھ بنیادی زاویوں یا گوشوں کو یہ نام دے سکتے ہیں ۔
1- جسمانی ( Physical )
2 - جذباتی ( Emotional )
3 ۔ نفسیاتی ( Psychological )
4 ۔ سماجی ( Social )
5 ۔ معاشی ( Economical )
6 ۔ روحانی ( Spiritual )
دنیا کے ہر انسان کی زندگی کا دائرہ ان چھ بنیادی رنگوں کے تانے بانے سے بنا گیا ہے ۔ یہ چھ عناصر اگر ہموار اور متناسب ہوتے ہیں تو ہماری زندگی کی گاڑی روانی سے اپنی ڈگر پر چلتی رہتی ہے ۔ اور جونہی ان کا تناسب بگڑنے لگتا ہے ، ہمارے مسائل بڑھنے لگتے ہیں ۔
ہم سب ان چھ میں سے کسی ایک یا دو یا تین Areas کو زیادہ اہمیت دینے لگتے ہیں ۔ اور ان کی نوک پلک سنوارنے میں زیادہ وقت اور زیادہ توانائی خرچ کرتے رہتے ہیں ۔ یہاں تک کہ پھر ہمارے پاس باقی کے ایریاز کو برقرار رکھنے اور ان سب کے درمیان بیلنس قائم کرنے کا نہ وقت بچتا ہے ، اور نہ اس حوالے سے ہماری توجہ فوکس رہ پاتی ہے ۔
ہم میں سے بہت کم لوگ ہی ایسے ہوں گے جو اپنی جسمانی اور ذہنی صحت کو ہمہ وقت توانا اور متحرک رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے قلبی اور جذباتی معاملات کی کانٹ چھانٹ بھی کرتے ہوں گے ۔ اور یہ ہی نہیں بلکہ اپنے سماجی اور معاشرتی Role کو بھی خوش اسلوبی سے نبھاتے ہوں گے ۔ اور ان چاروں زاویوں کو زندہ رکھتے ہوئے اپنی دنیاوی اور معاشی ذمہ داریوں کو بھی بتدریج کامیابی کی جانب کے سفر پر رواں دواں رکھے ہوئے ہوں گے ۔ اور محض یہی نہیں ، بلکہ مذہبی فریضوں کو نہایت دیانت داری سے پورا کرتے ہوئے اپنی روحانی اور اخلاقی طاقت میں بھی اضافے کی تگ و دو میں مصروف عمل رہتے ہوں گے ۔
روحانی توانائی محض عبادات کی باقاعدگی سے ہی نہیں حاصل ہوتی ۔ سچائی ، ایمانداری اور حسن سلوک بھی ہماری روح کی پیاس بجھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔
دو گھنٹے روزانہ کے فزیکل ورک اپ سے ہی جسمانی صحت برقرار نہیں رہتی ۔ کام اور آرام اور نیند کے ساتھ غذا کا درست انتخاب بھی برابر کا کردار ادا کرتا ہے ۔
اپنے دل کو روشن رکھنے کے لئیے محض خوشگوار جذبات رکھنا ہی کافی نہیں ہوتا ۔ لوگوں کی بھلائی کا سوچنا بھی اہم ہوتا ہے ۔
اپنی ذہنی صحت کو بھرپور رکھنے کے لئیے خاص طور پر کاونسلنگ کے سیشن لینا ضروری نہیں ہوتے ۔ اگر ہم انفرادی سطح پر ہی سیلف مینجمنٹ اور ٹائم مینجمنٹ کا ہنر سیکھ لیتے ہیں تو اسٹریس مینجمنٹ اور اینگر مینجمنٹ کے ذریعے ہم خود کو بہت حد تک غصے اور اعصابی دباؤ سے بچا کے رکھ سکتے ہیں ۔
سماجی اور معاشرتی معاملات کو خوش اسلوبی سے چلانے کے لئیے کسی اسٹیٹ آف دی آرٹ کلیے کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ گھر والوں ، رشتہ داروں ، پڑوسیوں اور دوستوں کے ساتھ متناسب اور متوازن وقت گزارتے رہنے سے ہمارا سوشل سرکل ہموار اور خوبصورت بنا رہتا ہے ۔
اپنی معاشی ضروریات پوری کرنے اور اپنی ذاتی معیشت کو مستحکم کرنے کے لئیے ہمہ وقت آمدنی میں اضافے کا سوچتے رہنے سے معاشی مسائل حل نہیں ہوتے ۔ باقاعدہ بجٹ بنانا پڑتا ہے ۔ کمائی کو اخراجات کے حوالے سے بیلنس کرنے کے لئیے اپنے خرچوں کو کم کرنا پڑتا ہے ۔ تبھی ہم ہاتھ پھیلانے سے خود کو بچا سکتے ہیں ۔
جسمانی ، جذباتی ، نفسیاتی ، سماجی ، معاشی اور روحانی دائرے جب تک اپنی اپنی جگہ Smoothly کام نہیں کریں گے ، اس وقت تک ان دائروں کے درمیان Harmony اور Equilibrium پیدا نہیں ہوگا ۔ اور جب تک یہ دونوں کام ساتھ ساتھ نہیں ہوں گے ، تب تک کسی بھی شخص کی زندگی سکون اور آرام کے ساتھ نہیں گزر سکے گی ۔ اور میرے ، تمھارے اور ہمارے مسئلے بڑھتے چلے جائیں گے ۔
میں اپنے طور پر تو ہر ممکن کوشش کرتا ہوں کہ اپنی اس تھیوری کے مطابق اپنی زندگی کے ان چھ اہم زاویوں اور دائروں کو برابر کی توجہ اور توانائی دے کر ایک خاص تناسب کے ساتھ لے کر چلتا رہوں ۔ کسی روز ، انیس بیس کے فرق سے بیلنس برقرار رہتا ہے اور کسی دن ذرا زیادہ جدوجہد کرنی پڑتی ہے ۔ کوشش یہی رہتی ہے کہ ہفتے یا مہینے کے آخر میں ، کسی دائرے میں جو جو کسر رہ جاتی ہے ، اسے کسی حد تک Compensate کرلیا جائے ۔ اس کے باوجود کہیں نہ کہیں جھول رہ جاتا ہے اور اکثر معاملات الجھ جاتے ہیں ۔ الجھاوں اور مسئلوں کی ڈھیریاں اس بات کی صداقت میں گواہی دے رہی ہوتی ہیں کہ ہم کتنی بھی کوششیں کرلیں ، کتنی بھی تھیوریز بنا کر انہیں عملی شکل میں ڈھال لیں ، ایڑی چوٹی کا زور لگا لیں ، ہم جیتے جی وقتی طور پر Euphoric تو ہوسکتے ہیں مگر مستقل Utopia میں نہیں رہ سکتے ۔ کہ ہم کبھی بھی کلی طور پر اپنے مسائل سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے ۔
حقیقت جب یہ ہی ہو کہ زندگی ایک کے بعد ایک اور مشکل ، ایک اور مسئلے کا سامنا کرنے کا ہی نام ہے تو پھر کیا ہر وقت اپنے مسئلوں کا رونا گانا ۔ اونٹ کی رسی باندھنے کا حکم ہے ۔ حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالی نے لیا ہے ۔ اپنے مسائل کے حل کی ہر ممکن شعوری کوشش کرنا ہماری ڈیوٹی ہے ۔ اور اس مقصد کے لئیے ہر ممکن صحیح طریقے کو استعمال میں لانا بھی ضروری ہے ۔ مگر مسئلوں کا حل ، رب اور قدرت کی رضا اور مصلحت کے بنا ممکن نہیں ۔
صورتحال جب یہ ہی ہو تو ہمارے لئیے Best Option صبر اور شکر کا بچتا ہے ۔ کہ اس صورت بازی ہارنے کے باوجود بھی مات نہیں ہوتی ۔ مسائل برقرار رہنے کے باوجود بھی مسائل کی شدت اور حدت ہماری استقامت میں دراڑیں نہیں ڈال پاتی ۔


" میرے مسئلے "
نیا کالم/ بلاگ / مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ،
جسمانی ، روحانی ، جنسی اور منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ ۔

www.drsabirkhan.blogspot.com
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
www.g.page/DUAAGO