جمعہ، 27 دسمبر، 2019

حماقتیں ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

" حماقتیں "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

کیا آپ کو یاد ہے کہ آپ سے آخری بار کب اور کون سی حماقت سرزد ہوئی تھی ۔ اگر نہیں یاد تو آج ذرا دیر کو اپنی حماقتوں کی فہرست مرتب کریں ۔ بچپن سے لے کر آج تک کی ۔ ہر حماقت کے بعد کیا ہوا ۔ آپ کے ساتھ ۔ اور آپ نے کیا محسوس کیا ۔ یہ بھی ذرا یاد کریں ۔ اور یہ بھی کہ آپ کی حماقت کا نشانہ بننے والوں پر کیا بیتی ۔
بچپن کی معصومانہ شرارتوں کو اس فہرست میں مت ڈالئیے گا ۔ جب آپ کا ذہن اپنی حماقتوں کی فہرست بناتے یا سوچتے ہوئے تھک جائے تو ذرا دیر کو دم لینے کے لئیے رکئیے اور سوچئیے کہ آخری حماقت کیا تھی ۔ اور وہ کب ہوئی تھی ۔ آپ کو اپنے ماضی میں بہت پیچھے جانا پڑے گا ۔ پھر کہیں جاکر شاید آپ کو کچھ یاد آئے گا ۔ والدین ، اساتذہ کی ڈانٹ ڈپٹ ، مار پیٹ اور سرزنش اور تعلیم ، تہذیب اور تربیت کے سفر میں ہم اپنی حماقتوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔ ہمیں سنجیدگی اور رنجیدگی کی منوں مٹی تلے دفن کردیا جاتا ہے ۔ اور ہنسی ہمارے لبوں سے رخصت ہوجاتی ہے ۔
بے ساختہ ہنسی ۔ بے اختیار کھلکھلاتی ہنسی ۔
ہم پھر دوسروں کی حماقتوں پر ہنسنا شروع کردیتے ہیں ۔ مسخروں کو دیکھ کر ۔ لطیفوں کو سن اور پڑھ کر ۔ اپنی فطرت کی معصومانہ حماقتوں کی حس کی تسکین کے لئیے ۔ ہماری ذاتی صلاحیت کو تو ہمارا ماحول ملیا میٹ کرچکا ہوتا ہے ۔ پھر مصنوعی ہنسی ہمارے تلخ تجربات کے درد کا درماں بننے لگتی ہے ۔ بڑے بننے کے سفر میں ، بڑے لگنے اور دکھنے کے چکر میں ہم سنجیدگی اور کرختگی کی ایسی چادر اوڑھ لیتے ہیں جو مرتے دم تک ہماری شخصیت کو ڈھانپے رکھتی ہے ۔ اور مرنے سے بہت پہلے ہی ہمارے اندر کی فطری مسکراہٹ کو ملیا میٹ کردیتی ہے ۔ فطری معصومیت کے ننھے مننے ، ہرے بھرے پودوں کو تواتر سے تہذیب و تمدن اور رسم و رواج کے نام پر جب کڑوا کسیلا پانی ملتا رہتا ہے تو ان کی ماہیت بدلنے لگتی ہے اور تازہ ہوا اور فطری بود و باش سے مسلسل محرومی ان پودوں میں پھل و پھول پیدا کرنے کی بجائے موٹے اور نوکیلے کانٹوں کا جال بچھا دیتی ہے ۔ مزاح کی جگہ طنز اور درگزر کی جگہ طعنے اور عزت کی جگہ حقارت اپنے پنجے گاڑ لیتی ہے ۔
ہنسی اور مسکراہٹ ہمارے اندر تحمل ، برداشت اور بردباری پیدا کرتی ہے ۔ جس فرد اور معاشرے میں سے مسکراہٹ رخصت ہوجاتی ہے ، وہ بہت جلد انتقامی اور ہنگامی ہوجاتا ہے اور عدم برداشت کی بنا لڑنے ، مرنے اور مارنے پر کمر باندھ لیتا ہے ۔ یہ سلسلہ اگر لمبا ہوجائے تو ہماری نئی نویلی نسلیں بھی پیدا ہوتے ہی نارمل سے بہت زیادہ متحرک اور جھگڑالو ہونے لگتی ہیں ۔ گزشتہ چالیس پچاس سالوں میں ہمارا معاشرہ بھی شفیق الرحمن ، ضیاء محی الدین ، مشتاق احمد یوسفی ، کرنل محمد خان ، حسینہ معین ، انور مقصود ، لہری ، جمشید انصاری ، معین اختر ، جیسے نامور ہنسنے اور ہنسانے والوں سے خالی ہوتا جارہا ہے ۔ اور ان کی جگہ بھانڈوں اور پھکڑ بازوں نے لے لی ہے ۔ بے ساختہ اور قدرتی ہنسی کی جگہ ایک دوسرے پر طنز و تحقیر کے تیر چلا کر مصنوعی قہقہے اور شور کے ہنگامے بپا کئیے جارہے ہیں ۔ جو روح کو تقویت دینے کی بجائے اعصاب پر پتھر برسا رہے ہوتے ہیں ۔
فطری حماقتوں کو پاگل پن اور بیوقوفی کا نام دیا جانے لگا ہے ۔ فطری معصومیت کے حامل افراد کو عقل سے عاری ، چغد اور گدھے کے ٹائٹل سے نوازا جارہا ہے ۔ اور مسخروں اور جوکروں کے گلے میں میڈل ڈالے جارہے ہیں ۔ اور فرد اور معاشرے کے ذہنی ، اخلاقی اور جذباتی تنزل کی کمی اور دوری کے اسباب ڈھونڈنے ، تلاشنے اور تراشنے کے لئیے کوئی بھی بڑا ، بچوں کے لیول پر آکر بچہ بننے کے لئیے راضی نہیں ۔ سنجیدگی ، رنجیدگی اور بزرگی کے غلاف اتار کر اپنی فطری معصومیت کو بیدار کرنے کے لئیے آمادہ نہیں ۔ اپنی حماقتوں پر ، اپنے آپ پر ہنسنے ہنسانے کے لئیے تیار نہیں ۔
خیال رہے کہ بیوقوفی اور حماقت میں بال برابر فرق ہوتا ہے ۔ اور یہ بھی خیال رہے کہ حماقتوں پر عام طور پر ریکارڈ بھی لگتا ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ اس طرح ہمارے اندر بڑے غیر محسوس انداز میں قوت برداشت بڑھتی ہے اور ہم ' لوگ کیا کہیں گے ' جیسی بھاری زنجیر کی قید سے بھی آزاد ہونے لگتے ہیں ۔
جس دن ، جس لمحے ' لوگ کیا کہیں گے ' کی زنجیر ہماری سوچ کے پاوں کی جان چھوڑ دیتی ہے ، ہمارے اندر کا معصوم بچہ قلقاریاں بھرتا ہوا ، دوبارہ سے زندہ ہونے لگتا ہے ۔ اور ہم قدرت کی عظیم الشان توانائیوں اور روشنیوں کے ساتھ مربوط ہونے لگتے ہیں ۔ پھر ہمیں کسی کی کسی بھی بات کی پرواہ نہیں رہتی ۔ کسی کی اچھی بری رائے کی فکر نہیں رہتی ۔ کسی مصنوعی سہارے کی محتاجی نہیں رہتی ۔ اور ہم ہر طرح کی حماقت کے لئیے ہر گھڑی تیار ہوجاتے ہیں ۔
مجھے تو جب بھی موقع ملتا ہے ، خود بخود کسی حماقت کو گلے لگا لیتا ہوں ۔ اب آج اور ابھی کی دیکھئیے ۔ میں حسب عادت واک کے لئیے پارک جا رہا تھا ۔ صحن میں نویرا بیٹھی ہوئی تھی ۔ جہاں زیب اور اسعد ادھر ادھر پھر رہے تھے ۔ ایک کرسی پر بچوں کا گٹار پڑا ہوا تھا ۔ گھر سے نکلتے نکلتے میرے منہہ سے نکل گیا ۔ " نویرا ! میرے واپس آتے آتے گٹار بجانا سیکھ لو ۔ واک سے واپس آکر تم نے بجانا ہے ۔ "
آدھے گھنٹے بعد جب واپس آیا تو گٹار ہنوز باہر کرسی پر پڑا تھا ۔ اور نویرا اندر کمرے میں غائب تھی ۔ مجھ سے اور میری فرمائش سے ڈر کر ۔ اندر پہنچ کر سب سے پہلے میں نے نویرا کو آواز دی ۔ باقی سب لوگ میز پر بیٹھ کر کھانا کھا رہے تھے ۔
نویرا کی سب سے اچھی بات یہ لگی کہ اس نے ' نہیں ' نہیں کہا ۔ البتہ گٹار اٹھاتے ہوئے یہ ضرور کہا کہ اس نے بجانا سیکھا نہیں ۔
" کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ بجانے سے ہی آتا ہے ۔ چلو ! شاباش ۔ شروع کرو ۔ میں وڈیو بنا رہا ہوں ۔ "
پھر نویرا کے بعد سب کی باری لگوادی ۔ نویرا کے برابر مامی بیٹھی تھیں ۔ انہوں نے بھی زندگی میں پہلی بار گٹار ہاتھ میں پکڑا ۔ پھر تسلیم ، طارق ، ماموں ، جہاں زیب اور اسعد سب سے ایک ایک منٹ کے لئیے گٹار بجوادیا ۔ اور نویرا سب کی وڈیو بناتی رہی ۔
یونہی بلاوجہ ، بنا کسی مقصد کے ، سوچے سمجھے بنا گٹار کی حماقت سرزد ہوگئی ۔ مگر اس حماقت سے سبھی ہنستے مسکراتے ہوں ہاں کرتے کرتے ، مجھ سمیت ، گٹار کو ہاتھ میں لیتے رہے ۔ کہ میں نے بھی زندگی میں پہلی بار گٹار کے تاروں کو چھیڑنے کے تجربے کی حماقت کر ڈالی تھی ۔
بنا سوچے سمجھے ، کسی خاص مقصد کے بنا ، یونہی ایسی ہی کوئی حرکت ، جس سے اونگھتے ہوئے بور اور بیزار لوگوں کے لبوں پر آپ ہی آپ مسکراہٹ آجائے اور بجھے ہوئے دلوں میں دیا جلنے لگے ، حماقت کہلاتی ہے ۔ یونہی اسی طرح ، جگہ جگہ ، حماقتوں کا جال بچھتا رہے تو فرد کا غبار اور معاشرے کا انتشار کم ہو سکتا ہے ۔
آئیے ۔ آج کے بعد آپ بھی اپنے اپنے ماحول میں یونہی بچوں کے ساتھ بچہ بن کر حماقتوں اور محبتوں کے دئیے جلاتے رہیں ۔ اپنے پن کی خوشبو مہکاتے رہیں ۔ آپ کی ذہنی تھکن دور ہوتی رہے گی ۔ آپ کی روح میں چمک آتی رہے گی ۔


" حماقتیں "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان
ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ،
جسمانی ، روحانی ، جنسی و منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ ۔

www.drsabirkhan.blogspot.com
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
www.g.page/DUAAGO


جمعہ، 20 دسمبر، 2019

سب ٹھیک ہے ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

" سب ٹھیک ہے "
نیا کالم / بلاگ / مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

When it all seems too well , there is always something disastrous waiting for us at the corner.
جب سب ٹھیک دکھائی دے رہا ہوتا ہے تو کوئی نہ کوئی گڑبڑ ہمارا انتظار کررہی ہوتی ہے ۔
یہ بات میں نے ہرگز نہیں گڑھی ہے اور نہ ہی اس بات میں کوئی دقیق فلسفہ پوشیدہ ہے ۔ بڑے بوڑھے اپنے تجربات کا نچوڑ اسی طرح کی چھوٹی چھوٹی باتوں کے ذریعے پیش کرتے آئے ہیں ۔ اس طرح کے حالات میں ، جب سب کچھ اچھا اور بہت ہی اچھا نظر آرہا ہو تو احتیاط اور سوچ لازم ہے ۔ بصورت دیگر کوئی ایسا مسئلہ کئیے کرائے پر پانی پھیر جاتا ہے ، جس کے بارے میں سوچا ہی نہیں گیا ہوتا ۔ مگر ہم میں سے کوئی بھی ، کبھی بھی اس طرح نہیں سوچتا ۔ اچھے حالات میں ہم سب ہر طرف سے ہر طرح کی آنکھیں بند کرکے دونوں ہاتھوں سے مزے لوٹ رہے ہوتے ہیں ۔ اور اس خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ جب ، سب ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے تو ایسا ہی چلتا رہے گا ۔ اور سب کچھ ٹھیک رہے گا ۔
عملی زندگی میں بہت کم ایسا ہوتا ہے ۔ قدرت کا قانون نہ صرف انوکھا ہوتا ہے بلکہ سب کے لئیے یکساں بھی ہوتا ہے ۔ دن رات ، اونچ نیچ ، سیاہ سفید ، گرم سرد ، کی کہانی رواں دواں رہتی ہے ۔ ہر جگہ ، ہر ایک کے لئیے ۔ بنا کسی تفریق کے ۔
بڑے بوڑھے کہہ گئے ہیں کہ اچھے وقتوں میں برے وقت کی تیاری کر رکھنی چاہئیے ۔ اور خراب حالات میں بہتری کی امید برقرار رکھنی چاہئیے ۔ تبھی توازن قائم رکھا جاسکتا ہے ۔ لیکن بڑے بوڑھوں کی کسی بات پر کون کان دھرتا ہے ۔
اچھے اور برے حالات فرد کی زندگی میں بھی آتے رہتے ہیں اور ملک ، معاشرے اور قومیں بھی ہر طرح کی اونچ نیچ سے گزرتے ہیں ۔ ہر دو طرح کے حالات میں سب ٹھیک اسی وقت ہوتا ہے یا رہ سکتا ہے ، جب فرد اور معاشرہ دونوں اس بات کا ادراک رکھتے ہوں کہ کسی بھی طرح کے حالات کبھی بھی ایک جیسے نہیں رہتے اور یہ کہ سب کچھ ٹھیک رکھنے کے لئیے اچھے حالات میں اپنی سوچ ، اپنی خواہشات اور اپنے افعال میں نہ صرف اعتدال رکھنا پڑتا ہے ، بلکہ ہیڈ ڈاون کرکے شب و روز کا شیڈول مرتب کرنا پڑتا ہے ۔ تبھی بہت ٹھیک نہ سہی ، تھوڑے ٹھیک سے بھی گزارا ہوجاتا ہے ۔
جو معاشرہ ، جو فرد اس اصول کے مطابق اپنے راستے منتخب کرتا ہے ، وہ اچھے اور خراب ، دونوں طرح کے حالات میں ٹیون ان کرلیتا ہے اور پریشانی کا شکار نہیں ہوتا ۔ اس کے برعکس جو لوگ ، جو قومیں آنکھیں بند کرکے ' سب ٹھیک ہے ' کا نعرہ بلند کرکے ہر طرح کے موسم ، ہر طرح کے حالات میں ایک ہی ڈگر پر چلنے کے عادی ہوتے ہیں ۔ وہ جلد یا بدیر قدرت کے ایسے گرداب میں جا پھنستے ہیں ، جس سے باہر نکلنا ان کے بس میں نہیں رہتا ۔ نشیب کی جانب ان کا سفر کئی نسلوں ، کئی دہائیوں تک جاری رہتا ہے ۔
آج ہم اور ہمارا معاشرہ بھی اپنی ناعاقبت اندیشی اور نااہلی کی وجہ سے ذلت اور تباہی کی گھاٹیوں میں جا پہنچا ہے ۔ اور ایسا سال دو سال میں نہیں ہوا ۔ پورے پچاس سال لگے ہیں ۔ ہمیں زوال کے اس درجے تک پہنچنے کے لئیے ۔ ہماری آنکھوں پر ' سب ٹھیک ہے ' کی پٹی باندھ کر ، ہمیں آہستہ آہستہ اس مقام تک پہنچایا گیا ہے ۔ بیرونی طاقتوں کے علاوہ ہمارے اپنے ، جو درحقیقت بیرونی طاقتوں کے زر خرید غلام تھے اور ہیں ، ہماری بربادی کے ذمہ دار ہیں ۔ نہ پچاس سال پہلے سب ٹھیک تھا ۔ نہ آج کچھ ٹھیک ہے ۔ مگر ہمارے ادارے ، ہماری بیوروکریسی ، ہماری حکومت اور ہم پر حکومت کرنے والے خفیہ ہاتھ ، سب کے سب ' سب ٹھیک ہے ' کے اسموک اسکرین کے ساتھ ہم سب کو پچاس سالوں سے بیوقوف بنارہے ہیں ۔ اور ہم آنکھیں بند کرکے ان کی نقالی میں ' سب ٹھیک ہے ' کی جگالی کررہے ہیں ۔ اور سب کچھ تباہ و برباد ہورہا ہے ۔
بنیاد میں بگاڑ آجائے تو کچھ بھی ٹھیک نہیں رہ سکتا ۔ نیت میں فتور آجائے تو مضبوط سے مضبوط بنیاد بھی بگڑنے اور لرزنے لگتی ہے ۔ فطرت میں طمع اور لالچ ہو یا خون میں حرام گھلنے لگے تو نیت میں فتور آہی جاتا ہے ۔ اور پھر کہیں بھی کچھ بھی ٹھیک نہیں رہ پاتا ۔ نہ قلب ۔ نہ روح ۔ نہ ذہن ۔ نہ بدن ۔ نہ گھر ۔ نہ معاشرہ ۔ نہ قوم ۔ نہ ملک ۔
یہ حال آج ہم سب کا ہے ۔ اوپر سے نیچے تک ۔ دائیں سے بائیں تک ۔ قوانین قدرت سے بغاوت کی سزا ہماری نسلوں تک پھیلا دی گئی ہے ۔ انفرادی طمع ، ہوس اور لالچ نے اجتماعی بقا کو داو پر لگا دیا ہے ۔ کھوکھلے دعووں کی ہوا سے بربادی کی آگ اور بھڑکتی جارہی ہے ۔ مکر ، جھوٹ اور فریب نے ہماری منافقت کو چار چاند لگا دئیے ہیں ۔ دو دو ، چار چار ، آٹھ آٹھ چہروں کے ساتھ ہم صبح کچھ اور کہتے ہیں اور شام میں کچھ اور کرتے ہیں ۔ ایسے میں کچھ بھی تو ٹھیک نہیں ہوسکتا ۔
ایسے میں اگر ہم محض خود کو ٹھیک کرنے کی سعی میں جت جائیں تو یہ ہی بڑے کمال کی بات ہوگی ۔ ایسے میں اگر ہم اپنی ہی دو رخی اور اپنی ہی شخصیت کے تضادات کو صحیح کرنے کی جستجو اور جسارت کرلیں تو یہ ہی بڑی بات ہوگی ۔ مگر ایسا سب کچھ کرنے کے لئیے ہمیں اپنی توجہ اور اپنی توانائی کو فوکس کرکے جینا ہوگا ۔ اپنی وکٹ سنبھالنی ہوگی ۔ اپنے آپ کو عمل کی حقیقی مثال بنانا ہوگا ۔ ہوسکتا ہے ، اس طرح ہم سے جڑے کچھ اور لوگ بھی ، اپنی اپنی جگہ ، اپنے آپ کو ٹھیک کرنے کرنے کی کوشش کرنے لگیں ۔ باتوں ، دعووں اور نعروں سے کبھی کچھ ٹھیک نہیں ہوسکتا ۔ بحثوں ، تقریروں اور مباحثوں سے کبھی کوئی تبدیلی نہیں آسکتی ۔ تنقیدوں اور تعریفوں کے پہاڑ کھڑے کرنے سے نہ کوئی اصلاح ممکن ہے ۔ نہ کسی فلاح کا امکان ہے ۔
سب ٹھیک کرنے کا سفر اپنی ذات سے شروع ہوکر اپنی ہی زندگی پر ختم ہوتا ہے ۔ اپنے اندر سچائی ، ایمانداری اور انصاف کے عوامل کی پرورش کے بنا کوئی بھی فرد ، ادارہ یا ملک کسی اور کے لئیے کچھ بھی نہیں کرسکتا ۔ قدرت کا قانون ہو یا جنگل کا قانون ۔ یا پھر بدمعاشوں کے ٹولوں کا قانون ۔ جہاں جہاں قانون اور انصاف کی بلا تفریق پابندی رہتی ہے ، وہی جگہ ، وہی گروپ ، صحیح ہو یا غلط ، باقی ماندہ لوگوں سے آگے رہتا ہے اور سب کچھ نہیں تو بہت کچھ ٹھیک رکھتا ہے ۔ اور جب اور جہاں یہ سب نہیں ہوتا اور ہر شخص اپنے اپنے اصول ، اپنی اپنی پسند کے مطابق مرتب کرکے دندنداتے ہوئے زندگی گزارنے کو ترجیح دیتا ہے ۔ وہاں پھر کوئی نظام برقرار نہیں رہ سکتا ۔ وہاں پھر صرف ' سب ٹھیک ہے ' کے کاغذی جھنڈے ٹنگے رہ جاتے ہیں ۔ اور کچھ عرصے بعد وہ بھی چیتھڑے ہوکر قدموں تلے روندے جاتے ہیں ۔ اور کبھی بھی ، کچھ بھی ٹھیک نہیں ہو پاتا ۔


" سب ٹھیک ہے "
نیا کالم / بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ،
جسمانی ، روحانی ، جنسی و منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ

www.drsabirkhan.blogspot.com
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
www.g.page/DUAAGO 

جمعرات، 5 دسمبر، 2019

" منطقی منزل "

" منطقی منزل "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

" روشن منزل " پی ٹی وی ۔ کراچی کی ایک ڈرامہ سیریل تھی جو غالبا 1974 میں ٹیلی کاسٹ ہوئی تھی ۔ میں اس وقت اپنے چچا کے گھر ، دادی اور دادا کے ساتھ رہنے آیا ہوا تھا ۔ نارتھ ناظم آباد ۔ بلاک سی ۔ اور وہیں واکنگ ڈسٹینس پر واقع بدری اسکول کی چھٹی جماعت میں میرا داخلہ کرادیا گیا تھا ۔ اسکول کی سیکنڈری کلاسز فرسٹ فلور پر ہوتی تھیں ۔ کلاس روم کی کھڑکی سے بلاک سی کے عقب میں پہاڑیاں دکھائی دیتی تھیں ۔ جن پر چھوٹے چھوٹے مکان بنے ہوئے تھے ۔ نیچے سے اوپر تک ۔
ان تمہیدی جملوں کی دو وجوہات ہیں ۔ پہلی یہ کہ ڈرامہ سیریل " روشن منزل " کی ایک قسط ، انہی مکانات میں سے ایک مکان میں دیکھی گئی تھی ۔ چچا میاں اپنے کسی جاننے والے کے پاس گئے تھے ۔ میں بھی ساتھ تھا ۔ اور ڈرامہ دیکھنے کے ساتھ ساتھ ، کہ ٹی وی سیٹ آنگن میں رکھا ہوا تھا ، ارد گرد اور پہاڑیوں کے اوپر نیچے بنے مکانات میں جلتی روشنیاں اس طرح ذہن کے اسکرین پر پیوست ہوئیں کہ آج 45 سال بعد بھی جب یہ تحریر لکھنے بیٹھا ہوں تو ہنوز روشن ہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ " روشن منزل " ڈرامے کی کہانی بس اتنی سی یاد ہے کہ کسی گھر کا نام تھا اور اس گھر میں رہنے والے مختلف لوگوں کے مسئلے ہر قسط میں ڈسکس ہوا کرتے تھے ۔
اور دوسری وجہ یہ ہے کہ جب جب بنا کسی کہانی یا قصے کے ، کوئی کالم یا بلاگ یا مضمون لکھا اور اپنی دانست میں بہت عرق ریزی کے بعد لکھا اور دل و دماغ کے تمام روشن دان کھول کر لکھا اور انتہائی سنجیدہ اور اہم موضوعات پر لکھا تو پڑھنے والوں کا کوئی خاص فیڈ بیک نہیں آیا ۔ اور جو تحریریں کہانیوں کی روشنی میں لکھی گئیں ، وہ زیادہ پسند کی گئیں اور زیادہ لوگوں کو سمجھ میں آئیں ۔
ان دو وجوہات کی بنا " روشن منزل " کے عنوان سے جب " منطقی منزل " کی بابت لکھنے کا خیال دل میں پیدا ہوا تو سوچا کہ ہلکی پھلکی ایک دو کہانیوں کا تڑکا بھی لگا دیا جائے تو شاید کچھ زیادہ لوگوں کو کچھ زیادہ سمجھ آسکے ۔ یا کم از کم ان کے لئیے دلچسپی کا سامان پیدا ہوسکے ۔
انسان کی نفسیات کی یہ بہت پرانی کمزوری ہے کہ اسے کسی بھی طرح کے قصوں اور کہانیوں سے لاشعوری دلچسپی رہتی ہے اور اگر قصے کہانیاں سچی ہوں تو یہ دلچسپی اور بڑھ جاتی ہے ۔ تجسس اور ٹوہ کا مادہ انسان کی فطرت میں شامل ہوتا ہے ۔ پردے کے پیچھے کی اور تہہ کے نیچے کی باتوں اور چیزوں سے واقفیت حاصل کرنا ، شاید ہر انسان کی جبلت کا لازمی جز ہے ۔ اور اگر گھر بیٹھے اسے ، گھر گھر کی کہانیاں پڑھنے اور دیکھنے کو مل جاتی ہیں تو اس کی تجسس کی نفسیاتی حس ، مسرور و مطمئن ہونے لگتی ہے ۔ اور اس کے تخیل کی پرواز ، اونچی اڑان لینے لگتی ہے ۔
کہانی کہنے ، کہانی بیان کرنے ، کہانی پیش کرنے ، کہانی کے تانے بانے بننے ، کہانی لکھنے ، کہانی گھڑنے ، فرضی کہانیوں کو حقیقت کی شکل میں ڈھالنے ، سچی کہانیوں کو علامتی پیرائے میں پرونے اور کہانی کو جینے اور برتنے والے ہر دور میں کہانیاں پڑھنے والوں کے ذہنوں کو مسخر کرتے رہے ہیں ۔
سنجیدہ ، فکر آمیز اور خشک تحریر یا ڈرامہ یا فلم بہت کم عوامی پذیرائی کے درجے تک پہنچ پاتی ہے ۔ اعشاریہ صفر صفر ایک فیصد لوگ ہی اس سے استفادہ حاصل کر پاتے ہیں ۔ یا اس کی اہمیت اور افادیت کو سمجھ پاتے ہیں ۔ اور یا پھر ایسی تخلیقات ، انہی لوگوں کی من پسند ٹہرتی ہیں ، جو ذرا من چلے ہوتے ہیں اور مشکل پسند ہوتے ہیں ۔
" روشن منزل " کی کہانی آج سے 45 سال پہلے جانے کس نے لکھی تھی ، مجھے نہیں پتہ ۔ آج کے نوجوانوں کی " منطقی منزل " کی کہانی کے ہزاروں لاکھوں رائیٹرز ، ڈائریکٹرز اور پروڈیوسرز ہیں ۔ اور اس کہانی کا شکار محض چار چھ نوجوان نہیں ہیں ۔ بلکہ دنیا بھر کے لاکھوں کروڑوں نوجوان اپنی اپنی " منطقی منزل " کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں ۔
ابھی گزشتہ ہفتے ایسے ہی دو بیس سالہ نوجوانوں سے ملنے کا اتفاق ہوا ۔ کراچی کی ایک معروف اور بڑی پرائیویٹ یونیورسٹی کے طالبعلم ۔ ملاقات سے چار چھ دن پہلے ان میں سے ایک نے اپنے پروجیکٹ کے لئیے معلومات اکٹھی کرنے کے لئیے وقت لیا تھا ۔ میرے پوچھنے پر بتایا تھا کہ ڈسکشن کے لئیے پانچ بچے آئیں گے ۔ مگر وقت مقررہ سے ڈھائی گھنٹے دیر سے آنے پر علم ہوا کہ پانچ کی بجائے دو لڑکے آئے ہیں ۔ اور باتوں کے بیچ پتہ چلا کہ صرف گروپ لیڈر آیا ہے ۔ باقی کے دو لڑکے اور دو لڑکیاں ڈاج دے گئے ہیں ، یہ کہہ کر کہ تم ریکارڈ کرکے لے آنا ، کام چل جائے گا ۔ گروپ لیڈر کے ساتھ آنے والا دوسرا لڑکا ، اس کا یونیورسٹی فیلو تھا اور دوست تھا اور اسے کمپنی دینے کے لئیے چلا آیا تھا ۔ خود اس کا دور دور تک پہلے لڑکے کے سبجیکٹ اور ٹاپک سے کوئی لنک نہیں تھا ۔
فرض کرلیں کہ گروپ لیڈر لڑکے کا نام وجاہت تھا اور اس کے ساتھ آنے والے دوست کا نام شہزاد تھا ۔
وجاہت کو تین دن بعد اپنی کلاس میں پریزینٹیشن دینی تھی ۔ موضوع " پرسنالٹی ڈس آرڈر " تھا ۔ جو بزنس ایڈمنسٹریشن کی کلاس میں نفسیات پڑھانے والے ٹیچر یا پروفیسر نے اپنی پسند سے اسائین کیا تھا ۔ بزنس کی کلاس میں نفسیات کا سبجیکٹ پڑھانے کا بنیادی مقصد یہی ہوتا ہے کہ طالب علم جب عملی زندگی میں قدم رکھیں تو وہ کسی بھی انسان کی نفسیات اور شخصیت کی بآسانی جانچ کرسکیں اور اس کے مطابق اس سے روابط رکھ سکیں ۔
مگر چونکہ آج کل کے الیکٹرونک اور سوشل میڈیا میں نارمل یا عمومی نفسیات کی بجائے ابنارمل یا بگڑی ہوئی نفسیات و شخصیت کے حوالے سے زیادہ ذکر ہورہا ہے تو شاید اسی وجہ سے پڑھانے اور پڑھنے والوں کا فوکس آف اٹینشن نارمل کی بجائے ابنارمل کی طرف ہوگیا ہے ۔ تبھی وجاہت کے ٹیچر نے بھی عام شخصیت کی نفسیات کی بجائے پرسنالٹی ڈس آرڈر کا اسائنمنٹ دیا تھا ۔
15 منٹ کی بجائے مجھے دونوں بچوں کے ساتھ ساڑھے تین گھنٹے گزارنے پڑ گئے ۔ مجھے ان کی پرسنالٹی کو کھنگالنے اور پرکھنے میں مزہ بھی آرہا تھا اور ان کو یہ سمجھانے میں یہ وقت بھی کم پڑرہا تھا کہ شخصیت اور شخصیت کی مختلف نارمل اقسام کو جانے اور جانچے بنا ہم شخصی بگاڑ یا پرسنالٹی ڈس آرڈر اور اس کی مختلف شکلوں کو نہیں سمجھ سکتے ۔
دونوں بچوں کو لفظ پرسنالٹی کے صحیح معنی بھی صحیح طرح نہیں پتہ تھے ۔ وجاہت کے چکر میں شہزاد ، خواہ مخواہ میرے لیکچر کی لپیٹ میں آرہا تھا ۔ اس بیچارے کا دور دور تک نفسیات کے موضوع سے کوئی واسطہ نہیں تھا ۔ وہ تو ماس کمیونیکیشن میں بیچلرز اور ماسٹرز کرنے کا طلبگار تھا ۔ دوستی نبھانے کے چکر میں پھنس گیا تھا ۔
ایسا بہت بار ہوتا ہے ۔ ہم سب کے ساتھ ہوتا ہے ۔ تعلق اور رشتے نبھاتے نبھاتے ہمارا اپنا تیا پانچہ ہونے لگتا ہے ۔ شہزاد کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہورہا تھا ۔ اس کی منزل منطقی تھی ۔ اور میری گفتگو انتہائی غیر منطقی ۔
" جس بات میں لاجک نہ ہو ، میں اسے مانتا ہی نہیں ۔"
شہزاد کا کہنا تھا ۔ " سائنس اور پروف کے بغیر کوئی بھی بات ، کوئی بھی تھیوری نہیں قبول کرنی چاہئیے "
بیس سالہ شہزاد کی بات منطقی تھی ۔ اس نے اپنے لئیے کم عمری میں ہی " منطقی منزل " کا انتخاب کرلیا تھا ۔ اور مطمئن تھا ۔
" میں مذہب کو نہیں مانتا ۔ میرے ماں باپ دونوں بہت مذہبی ہیں " ۔ دوسری طرف وجاہت کا یہ کہنا تھا ۔
دونوں کی باتیں سن کر مجھے ان کی دوستی کی وجہ کا اندازہ ہورہا تھا ۔ دونوں الگ الگ مضامین کے طالب علم تھے ۔ مگر دونوں کی سوچ کا محور ایک تھا ۔ دل نہیں ، دماغ ۔ جذبہ نہیں ، فکر ۔ ادراک نہیں ، منطق ۔
آج کی ماڈرن اور ایڈوانس پرائیویٹ یونیورسٹی کے دو بیس سالہ نوجوان ۔ جو مذہب کی بجائے منطق اور پروف اور سائینس کو سب کچھ سمجھتے اور مانتے ہیں ۔ مگر اپنے تمام اطمینان کے باوجود اپنے اندر اور اپنے باہر کی ہر شے ، ہر بات ، ہر چیز سے غیر مطمئن اور شاکی اور نالاں ۔ اپنی لاجک پر ہر شے ، ہر رشتہ اور ہر شخصیت کو پرکھنے اور قبول یا رد کرنے کے لئیے تیار ۔ گوگل اور انٹرنیٹ پر دستیاب ہر علم ، اور ہر طرح کی معلومات کو عقل کل اور ہر سوال کا آخری جواب جان کر ہر اس بات سے پیچھا چھڑانے کے لئیے تیار جو بظاہر کسی فائدے کی نہ ہو ۔
آج کا ہر پڑھا لکھا نوجوان کسی " روشن منزل " کا متلاشی نہیں ۔ کتابی علم کی بہتات اور معلومات کی آسان فراوانی نے ذہن اور سوچ کو اپنا اسیر بنا لیا ہے ۔ اور ہر نوجوان کی " منطقی منزل " مادہ ، مادیت اور مادی و دنیاوی فوائد و امارت و شان و شوکت کا حصول ، بن چکی ہے ۔
کوئی بھی قلبی واردات ، کوئی بھی جذباتی تحریک ، کوئی بھی غیر منطقی بات ، کوئی بھی روحانی یا مابعد النفسیاتی حقیقت ، دل کے بند دروازوں کو نہیں کھول سکتی ۔ جو آج کے اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں کی شخصیت کا حصہ ہیں ۔
آج کے نوجوان محدود مطالعے اور محدود مشاہدے کے ساتھ ساتھ محدود سوچ و بچار کے عادی ہیں ۔ وہ ہیش ٹیگ دیکھ کر کوئی بھی کام کرتے ہیں ۔ Labels اور Brands سے ہٹ کر بہت کم کوئی قدم اٹھاتے ہیں ۔ دو چار مخصوص موضوعات کو گرہ سے باندھ کر دیگر تمام موضوعات کے خلاف بات کرنا ان کے فیشن کا حصہ ہے ۔ اور اپنی پسند اور سوچ کے خلاف کوئی بھی بات برداشت نہ کرنا ، ان کی طبیعت کا خاص جز ہے ۔ کم عمری میں اگر ہماری سوچ کسی بھی بند دائرے میں قید ہوجاتی ہے اور ہم مختلف علوم و فنون سے شناسائی حاصل کرنے کی بجائے کسی خاص رنگ کی چادر اوڑھ لیتے ہیں تو پھر تمام عمر ہم اپنے بند دائرے کی قید سے باہر نہیں نکل پاتے ۔
آج کے نوجوان کا المیہ یہی ہے کہ رنگوں اور روشنیوں کی بہتات اور فراوانی اور آسان دستیابی سے اس کی آنکھیں چندھیا گئی ہیں ۔ ہر رنگ ، ہر روشنی ، ہر فکر ، ہر نظریے کی Logic اور دلیل اتنی مضبوط اور بھاری بھر کم ہے کہ یہ سب آپس میں متصادم اور گتھم گتھا دکھائی دیتے ہیں ۔ ایک کو جاننے اور ماننے کا مطلب دوسرے کی ازخود نفی کرنا ہوجاتا ہے ۔ مختلف افکار اور علوم کے مابین Links اور Common Bonds تلاش کرنے کی بجائے ان کے ظاہری اور بیرونی اختلافات اور افراق کی بابت سوچنا اور بات کرنا زیادہ سہل اور آسان ہوتا ہے ۔
آج کا نوجوان چونکہ زیادہ سہل پسند ہوگیا ہے تو وہ ذہن کے راستے پر چلنے کے بھی آسان طریقے اپنانا پسند کرتا ہے ۔ اور ایک بار اسے کوئی ایسا نظام حیات یا نظریہ Appeal کر جائے ، جس کے اپنانے سے اس لی آزادی پر بھی کوئی فرق نہ پڑتا ہو اور اسے عملی شکل میں ڈھالنے کے لئے بھی ہل بیل نہ چلانے پڑتے ہوں ، تو وہ اسے کسی صورت ترک کرنے کی نہیں کرتا ۔ نہ ہی کسی اور بہتر اور بڑے نظریے کی جانب دیکھتا ہے ۔ کہ اس صورت اسے کم یا زیادہ ، کسی نہ کسی قسم کی قربانی دینی پڑ جائے گی ۔
" منطقی منزل " کے متلاشی نوجوانوں کا بھی یہی مسئلہ ہے ۔ باتوں کے علاوہ ان کو کچھ نہیں کرنا پڑتا ۔ ہر طرح کی آزادی حاصل رہتی ہے ۔ چند کتابیں پڑھ کر بحث اور مباحثے کے نشے میں ہر کام کرتے رہتے ہیں ۔ کوئی روک ، کوئی رکاوٹ ، کوئی Hindrance نہیں ہوتی ۔
" روشن منزل " کے حصول کے لئیے بہت طرح کے چراغ جلانے پڑتے ہیں ۔ بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ۔ وسیع النظری کے ساتھ دل اور دماغ کو بھی کشادہ کرنا پڑتا ہے ۔ اختلاف رائے کو برداشت کرنے کی عادت ڈالنی پڑتی ہے ۔ مطالعہ اور مشاہدہ کے ساتھ ساتھ سوچ و فکر کے زاویہ کو بھی وسعت دینی ہوتی ہے ۔ باتوں کے علاوہ عملی کام بھی کرنے پڑتے ہیں ۔ اور سب سے بڑھ کر صبر کی راہ پر چلنا پڑتا ہے ۔ پھر کہیں جاکر منزل کے خدوخال واضح ہوتے ہیں ۔


" منطقی منزل "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی
جسمانی ، روحانی ، جنسی و منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ

www.drsabirkhan.blogspot.com
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
www.g.page/DUAAGO 

پیر، 2 دسمبر، 2019

" جال " ڈاکٹر صابر حسین خان

نیو ورلڈ آرڈر. ڈاکٹر صابر حسین خان

" بلیک ہول " ڈاکٹر صابر حسین خان

" روٹی کپڑا اور مکان " ڈاکٹر صابر حسین خان

#duaago #drsabirkhan #psychiatrist #writer #palmist #columnist

" شادی خانہ بربادی " ڈاکٹر صابر حسین خان

" نام کا کام " ڈاکٹر صابر حسین خان

پیر، 25 نومبر، 2019

" جوکر

" جوکر "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

Every one is a Joker in one way or the other in the eyes of others , but not every Joker is full of jokes . And no one has the time to look beyond the Mask and see the other side .

آپ میں سے اکثر لوگوں نے حال ہی میں ریلیز ہونے والی انگریزی فلم " جوکر " نہیں دیکھی ہوگی ۔ میں بھی نہیں دیکھتا اگر آٹھ دس دن پہلے رات گئے پروفیسر اقبال آفریدی کا فون نہیں آتا ۔ اس فون سے پہلے اس فلم کی بابت میری معلومات بس یہاں تک تھیں کہ دو چار ہفتے پہلے میرے ہی شعبے نفسیات سے وابستہ میری دونوں بیٹیاں یہ فلم دیکھنے گئی تھیں ۔ اور یا اخباروں اور فیس بک کے ذریعے یہ اطلاع مل رہی تھی کہ " جوکر " دنیا بھر میں بزنس کے نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے ۔ مگر چونکہ میں ازخود 500 روپے کا ٹکٹ خرید کر سنیما ہال میں فلم دیکھنے کی عیاشی شاذ و نادر ہی کرتا ہوں اور خاص طور " پبلک " میں سپر ہٹ فلم جو کروڑوں اور اربوں ڈالر کا بزنس کررہی ہو ، کو کمپیوٹر پر بھی دیکھنے سے Avoid کرتا ہوں ۔ تو میرے ذہن کے کسی بھی خانے میں جوکر کا نام محفوظ نہیں تھا ۔
پروفیسر اقبال آفریدی نے مجھ سے نفسیات کے موضوع پر کسی اچھی فلم کا پوچھا ۔ اور بتایا کہ کسی فارماسوٹیکل کمپنی نے اگلے ہفتے مقامی سنیما ہال میں شہر کے تمام سائیکاٹرسٹ اور طبی نفسیات کے ماہرین کی Awareness اور تفریح طبع کے لئیے " جوکر " یا " ٹرمینیٹر " کے دکھانے کا اہتمام کیا ہے ۔ تو کوئی اور اچھی فلم ہے تو اس کا بتائیں ۔ اسی رات ، اسی چکر میں پھر بستر پر لیٹے لیٹے موبائل فون پر دو عدد فلمیں دیکھ لیں گئیں اور ان کے نام آفریدی صاحب کو میسج کردئیے گئے ۔ اور پھر اگلے تین دن تک سب نام ، سب فلمیں ذہن سے محو ہوچکے تھے اور روٹین کا شیڈول شروع ہو گیا تھا ۔
مگر پھر چوتھے روز فارماسوٹیکل کمپنی کا نمائندہ ، کلینک آگیا ۔ " جوکر " کی Invitation لیکر ۔ مذکورہ کمپنی کے کسی نمائندے سے گزشتہ دس بارہ برس سے کبھی کوئی پروفیشنل ملاقات نہیں ہوئی تھی ۔ تو اس کمپنی کا کارڈ دیکھ کر حیرت ہوئی ۔ کہ آج کیسے ۔ پھر اندازہ ہوا کہ آفریدی صاحب نے کہا ہوگا ۔ پروفیسر اقبال آفریدی ان گنت بار اپنی محبت اور خلوص میں ان گنت پروگرامز میں بلاتے رہے ہیں ۔ اور میں ہر بار ڈاج دیتا رہا ہوں ۔ اس لئیے اس بار میڈیکل ریپ سے تو میں نے کچھ نہیں پوچھا ۔ البتہ فلم شو میں آنے پر حامی بھر لی ۔ اگر پروفیسر اقبال آفریدی کا فون نہیں آیا ہوتا ، اور مجھے نہیں پتہ ہوتا کہ اس پروگرام کے پیچھے کون Initiative لے رہا ہے ، تو اس بار بھی میں نے ڈاج دے جانا تھا ۔
اور پھر کچھ یہ بھی تھا کہ بڑے عرصے سے کوئی 'سپر ہٹ عوامی فلم' نہیں دیکھی تھی ۔ سو وقت مقررہ پر حرا اور سعد کو ساتھ لے کر سنیما گھر پہنچ گیا ۔ کمپنی کے نمائندوں نے شہر بھر کے لگ بھگ تمام معروف سینئیر اور جونئیر ڈاکٹر بلائے تھے ۔ جن کا تعلق شعبہ نفسیات سے تھا ۔ کئی ڈاکٹر خواتین اور حضرات اپنے آٹھ دس سالہ بچوں کو بھی ساتھ لائے تھے ۔ جبکہ " جوکر " کو 18 پلس یعنی صرف بالغان کے لئیے Approve کیا گیا ہے ۔ اس حوالے سے شاید کمپنی کے نمائندے Invitation دیتے ہوئے بھول گئے تھے کہ برائے مہربانی کم عمر بچوں کو ساتھ نہ لائیے گا ۔ یہ دیگر بات ہے کہ فلم دیکھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ یہ فلم تو بڑوں کے دیکھنے کے لئیے بھی نہیں ہے ۔
ہر چیز ہر ایک کے لئیے نہیں ہوتی ۔ ہر چیز ہر ایک کے لئیے نہیں بنتی ۔ مذکورہ فلم کا شو شروع ہونے سے پہلے فارماسوٹیکل کمپنی کے نمائندے نے Audience کو بتایا کہ چونکہ اس فلم کی کہانی Mental Health سے متعلق ہے ، اس لئیے ماہرین نفسیات کو یہ خصوصی شو دیکھنے کے لئیے مدعو کیا گیا ہے ۔
پوری فلم دیکھنے کے بعد بھی ذہنی صحت کی بابت کوئی بات پتہ نہیں چل سکی ۔ کیونکہ فلم کا موضوع ، ذہنی صحت نہیں ، بلکہ ذہنی و کرداری و شخصی بگاڑ یا پرسنالٹی ڈس آرڈر Personality Disorder تھا ۔
جب ہم Mental Health کی بات کرتے ہیں تو اس میں کسی بھی ذہنی و نفسیاتی بیماری کی علامات سے لےکر تشخیص اور تشخیص کے بعد اس بیماری کی مینجمنٹ اور ٹریٹمنٹ پلان اور مناسب علاج کے بعد مریض کی Rehabilitation اور معاشرے میں اس کے مفید و موثر کردار کے طریقوں اور دیگر سہولیات سمیت تمام Areas آتے ہیں ۔ بیماری یا بگاڑ کی تصویر کشی الگ بات ہے اور صحت و تعمیر کے پہلو اجاگر کرنا بالکل الگ ہے ۔ تعمیر و اصلاح کے لئیے منفی اور تخریبی نکات کو کسی رنگینی کے بنا ، بیان کرکے پھر ان کے سدباب اور Rectification کے مختلف طریقوں پر مدلل گفتگو کسی بھی انداز اور کسی بھی رنگ میں کرنا اور خواص و عوام کی ذہن سازی کرنا ہر اس فرد اور ادارے کی ذمہ داری ہے ، جو متعلق شعبے سے منسلک ہو اور علم و ادراک رکھنے کے ساتھ خلق کی فلاح کی نیت بھی رکھتا ہو ۔
لیکن اگر Objective محض کمرشل ہو اور لوگوں کی نفسیات کے تاریک اور کمزور پہلووں کو کیش کرواکے شہرت اور دولت کمانا ہو اور Hidden Agenda کے تحت لوگوں کی نفسیات اور شخصیت کو مختلف زاویوں سے Manipulate کرنا ہو تو " جوکر " جیسی فلمیں بنا کر مارکیٹ میں Float کردی جاتی ہیں ۔ جو اپنے وقت میں نام بھی کماتی ہیں اور بزنس بھی ۔ اور دوسری طرف دیکھنے والوں کی سوچ کو پراگندہ بھی کرتی ہیں ۔
نیو ورلڈ آرڈر کے حوالے سے پہلے بھی کئی تحریریں آپ کی نذر کی ہیں ۔ سائیکولوجیکل وار فئیر کے اس ہنگامہ خیز دور میں بین الاقوامی قوتوں کے نیو ورلڈ آرڈر ایجنڈے کا بنیادی نکتہ ایک ہے ۔ دنیا کے ہر کونے ، ہر خطے میں Anarchy اور Chaos پیدا کرنا اور نفرت ، غصے اور قتل و غارت اور تشدد کے جذبات اور خیالات کو ہوا دینا ۔
" جوکر " بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی نظر آتی ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ ننانوے فیصد لوگ اس چھپی ہوئی حقیقت کو دیکھ نہ پائیں اور اس بات سے اتفاق نہ کر پائیں ۔ یہی اس فلم کی اور اس فلم کی طرح کی اور ہزاروں فلموں ، ڈراموں ، ناولوں ، تذکروں ، مباحثوں ، کی خوبصورتی ہے کہ کوئی بھی بین السطور معنوں کو نہ Read کر پاتا ہے ، نہ Decode کر پاتا ہے ۔ اور ان کے تخلیق کار اور ان تخلیق کاروں کے پیچھے ان کے ڈائریکٹر آہستہ آہستہ اپنی منصوبہ بندی میں کامیاب ہورہے ہیں ۔ تفریح کے نام پر ایسی فلمیں اور ایسے ڈرامے تخلیق کئیے جارہے ہیں جو مثبت اور تعمیری انسانی صفات کو Promote کرنے کی بجائے منفی اور تخریبی Elements کو ہیرو کے روپ میں پیش کر رہے ہیں ۔ اور ان گنت ریکارڈ بریک کرکے ، ان گنت ایوارڈز اکٹھا کر رہے ہیں ۔
انسان کی نفسیات کی بنیادی کمزوریوں میں سے ایک کمزوری یہ بھی ہے کہ وہ اپنی فطرت سے مجبور ہو کر کسی بھی منفی جذبے یا خیال یا نظریہ سے بہت جلد متاثر ہو جاتا ہے ۔ اور یہ منفی جذبے ، خیالات اور نظریات جب تواتر سے مسلسل مختلف رنگوں اور پیراوں میں لوگوں کے سامنے لائے جاتے ہیں تو مضبوط سے مضبوط شخصیت و کردار کے قلعے میں بھی دراڑیں پڑنے لگتی ہیں ۔ اعلی تعلیم یافتہ اور مہذب ترین افراد بھی جلد یا بدیر اپنی Productivity اور Proactivity کے دائرے سے باہر نکل کر Reactive اور Destructive ہونے لگتے ہیں ۔
ڈاکٹرز ، پروفیسرز ، وکلاء ، انجینئرز ، ادیب ، شاعر ، صحافی اور ان سب کی طرح سوسائٹی کے دیگر Elites جب صبر ، شکر ، تحمل ، بردباری اور قناعت کو ترک کرکے مادی مفادات اور اپنی ذاتی خواہشات کی تسکین میں مصروف ہوجاتے ہیں تو وہ بھی معاشرے کے عام آدمیوں کی طرح ، ہر طرح کے منفی ایجنڈے اور پروپیگنڈے کے اثرات کے زیر سایہ آجاتے ہیں ۔
اور یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ان کے حقوق کی پامالی ہورہی ہے اور وہ بھی اپنی شناخت کھو کر Mob کا حصہ بن جاتے ہیں ۔
" جوکر " جیسی فلمیں جہاں ایک طرف دنیا بھر کے عام آدمیوں کے ذہنوں کو مسخ کررہی ہیں ۔ وہاں دوسری جانب Intellectuals کی نفسیات میں بھی Drilling کررہی ہیں ۔ سب سے پہلے تو اس فلم کا نام ہے ۔ دنیا بھر کے تمام عام و خواص لوگوں کی تمام زبانوں میں لفظ " جوکر " سنتے یا پڑھتے ہی ایک ایسے کردار کا خاکہ ذہن میں ابھرتا ہے ، جو اپنی مزاحیہ حرکتوں اور باتوں اور اپنے عجیب الخلقت حلیے سے لوگوں کو ہنساتا ہو اور ان کی ذہنی تھکن دور کرتا ہو ۔
جبکہ اس فلم یہ ٹائٹل ، مختلف نفسیاتی الجھنوں میں گرفتار ، پرسنالٹی ڈس آرڈر میں مبتلا ایک ایسے آدمی کو دے دیا گیا ہے جو اپنے بچپن کی محرومیوں اور اپنی ذاتی کمیوں اور کجیوں اور اپنی ذات پر ہونے والی زیادتیوں کی بنا پہلے نفسیاتی اور شخصی عارضے کا شکار ہوتا ہے ۔ اور اس کے علاج کے لئیے کئی طرح کی ادویات کئی سالوں تک استعمال کرتا ہے ۔ اور اس کا علاج کرنے والے ماہرین بھی اس کے اندر پلنے والی ذہنی بیماری کے لاوے کی شدت سے آگاہ نہیں ہو پاتے ۔ اور وہ رفتہ رفتہ انتقامی اور متشدد ہوتا چلا جاتا ہے ۔ اپنی جگہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ معاشرے کے طاقتور اور متمول افراد جب اپنے ارد گرد کے کمزور اور کم حیثیت کے لوگوں کو مستقل Neglect کرتے رہتے ہیں تو وہ عام طور پر Reactive ہوجاتے ہیں ۔ اور ان میں سے کمزور اعصاب کے حامل افراد ، جو پہلے ہی کسی نفسیاتی عارضے یا شخصی کجی کا شکار ہوتے ہیں ، وہ Over Generalization کے نفسیاتی مدافعتی نظام کے پھیرے میں پھنس کر چند لوگوں کے منفی رویوں کا بدلہ پورے معاشرے سے لینے لگ جاتے ہیں ۔ اور انارکی اور افراتفری میں اضافے کا باعث بننے لگتے ہیں ۔ فلم " جوکر " کا مرکزی کردار بھی اپنی عام زندگی میں جوکر کا کردار ادا کرتے کرتے اور بچپن سے ادھیڑ عمر تک پہنچتے پہنچتے ، اپنی کمزوریوں کی وجہ سے لوگوں کی زیادتی کا شکار ہوتے ہوتے اپنے Delusions میں اتنا Intense ہوجاتا ہے کہ پھر وہ ہر اس فرد کو قتل کرنے لگتا ہے ، جسے وہ سمجھتا ہے کہ اس نے اس پر کبھی نہ کبھی ، کسی نہ کسی شکل میں ظلم کیا ہے ۔
اور سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کی مہربانیوں سے اس کی پر تشدد Videos جب Viral ہونے لگتی ہیں تو لوگوں کا جم غفیر ، جوکر کا ماسک چہرے پر لگا کر ، مرکزی منفی کردار کو اپنا آئیڈیل اور ہیرو قرار دے کر شہر کی سڑکوں پر نکل کر ہنگامہ آرائی کرنے میں مصروف ہوجاتا ہے ۔
اور دیکھنے والوں کو یہ Message ملتا ہے کہ یہ غلط طریقہ ہی صحیح طریقہ ہے ۔ کہ آپ اپنے اوپر ہونے والی زیادتیوں کا بدلہ ، بیگناہ لوگوں کو مار کر ، بیگناہ لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچا کر ، اور مروجہ نظام کو Sabotage کرکے ہی حاصل کر سکتے ہیں ۔ یعنی ایک نفسیاتی مریض جو بے بنیاد تخیلاتی مفروضوں یعنی Delusions کی بیماری میں مبتلا ہے ، وہ لیڈر اور ہیرو بنا کر دکھایا جاتا ہے ۔
اور دیگر کسی بھی طرح کے حل کا کسی بھی طرح ذکر نہیں کیا جاتا ۔
دنیا بھر کے کروڑوں لوگ یہ فلم دیکھ چکے ہیں ۔ یہ فلم اربوں روپے کا بزنس کر چکی ہے ۔ اور لاکھوں لوگوں کے ذہنوں کو مسخ اور متاثر کرچکی ہے ۔ تفریح کے نام پر بارود کے ڈھیر میں ایک اور ڈائنامائٹ کا اضافہ کردیا گیا ہے ۔ سائیکولوجیکل وار فئیر کے زمانے کا عجیب ڈھنگ ہے کہ کسی کو بھی نہیں پتہ چل پاتا کہ وہ کس لمحے ، کس انداز ، کس ڈھب میں ، کس ڈھونگ ، کس ڈگڈگی کے تیروں کا نشانہ بن کر جیتے جی مٹی کا مادھو بن جائے گا ۔ اور باقی ساری عمر اپنے اپنے بازی گروں کے ہاتھوں Puppet اور روبوٹ بن کر ان کے اشاروں پر ناچتا رہے گا ۔ بالکل اسی طرح ، جس طرح فلم جوکر کا مرکزی کردار Joaquin Phoenix ، فلم کے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کے اشاروں پر اداکاری کرتا رہا تھا ۔ اور اپنی دانست میں اپنے فرضی کردار میں ڈوب کر بے مثال اداکاری کا مظاہرہ کرتا رہا تھا ۔ آسکر ایوارڈ کی شعوری یا لاشعوری خواہش کے ساتھ ۔
مجھ سمیت ہم سب ہی کسی نہ کسی آسکر ایوارڈ کی تمنا میں ، اپنی دانست میں ، اپنی اپنی محدود زندگی میں کسی نہ کسی " جوکر " کا لازوال کردار ادا کرنا چاہتے ہیں ۔ ہیرو بننا چاہتے ہیں ۔ کسی نہ کسی کام ، کسی نہ کسی شعبے میں Excellence چاہتے ہیں ۔ المیہ یہ ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگ اپنی اس خواہش کے حصول کے چکر میں واقعی " جوکر " بن کر ، انتہائی غیر محسوس طریقے سے ، نظر نہ آنے والی طاقتوں کا آلہ کار بن جاتے ہیں ۔ اور ہمیں پتہ بھی نہیں چلتا ہے ۔ اب اسی بات کو دیکھ لیجئیے ۔ میں بھی Temptation کا شکار ہو کر فلم دیکھنے چلا گیا ۔ جب مجھے Invitation ملی ۔ میں اگر نہیں جاتا تو میری جگہ کوئی اور چلا جاتا ۔ مگر چونکہ مجھے تو شروع سے ہی حماقتیں کرنے اور کرتے رہنے کا شوق ہے ۔ اور میں کسی بھی طرح Invitation دینے اور فلم شو Arrange کرنے اور کروانے والی کمپنی کی Obligation میں نہیں تھا ۔ تو مجھے دو چار گھنٹے کے لئیے " جوکر " بننے میں کوئی مضائقہ نہیں تھا ۔ کہ شاپنگ مال سے مجھے اپنے اور سعد کے لئیے جوتے بھی دیکھنا اور لینا تھے ۔ اور ایک دن کلینک سے ٹائم آوٹ بھی لینے کا دل تھا ۔ یعنی ایک پنتھ ، چار کاج ۔
مجھے نہیں پتہ کہ فلم شو میں آنے والے اور دیگر ڈاکٹر حضرات اور خواتین کا کیا Intention تھا ۔ قوی امکان ہے کہ زیادہ تر شرکاء محض فلم دیکھنے کے لئیے ہی آئے تھے ۔ ہاں البتہ فارماسوٹیکل کمپنی کا مقصد اپنے Customers اور Clients کے لئیے ایسی Activity رکھنا تھا ، جس سے ایک ہی کام سے بہت سے لوگ Satisfy ہوجائیں ۔
مگر اس وقت یہ تحریر لکھتے ہوئے یہ احمقانہ خیال جانے کیوں آرہا ہے کہ مینٹل ہیلتھ پر فلم شو آرگنائزر کروانے کی بجائے اگر کمپنی پانچ لاکھ روپوں سے ایسے دس لوگوں کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے مدد کردیتی ، جو معاشرے کی زیادتی کا شکار ہوکر Reactionary ہورہے ہیں یا ہونے والے ہیں تو شاید زیادہ بہتر ہوتا ۔ شاید دو چار اور لوگ " جوکر " نہ بن پاتے ۔
مگر یہ دور کمرشلائزیشن کا ہے ۔ مارکیٹنگ کا ہے ۔ سائیکولوجیکل وار فئیر کا ہے ۔ آرٹیفیشل سپر انٹیلیجنس کی Implementation کا ہے ۔ نیو ورلڈ آرڈر کے نقار خانے میں " جوکر " کی تو گنجائش ہے ، کسی Ediot کی نہیں ۔ سو دل کی بھڑاس یونہی لکھ کر نکال لینی چاہئیے ۔ شاید روز آخرت یہی دو چار لفظ کسی کام آجائیں ۔ کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ۔ اور اللہ ہم سب کے دلوں کا حال جانتا ہے ۔

" جوکر "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ،
جسمانی ، روحانی ، جنسی و منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ

www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.drsabirkhan.blogspot.com
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
www.g.page/DUAAGO
Instagram @drduaago

اتوار، 17 نومبر، 2019

" بلی چینختی ہے "

" بلی چینختی ہے "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

آپ نے بلی پالی ہو یا نہ پالی ہو ، بلی کیا بلیاں اور بلے تھوک کے حساب سے دیکھے ہوں گے ۔ آپ بلیوں سے انسیت رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں ، زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر ، کسی نہ کسی شکل میں بلیوں سے واسطہ ضرور پڑا ہوگا ۔
دنیا میں ہزاروں نسلوں اور شکلوں کی بلیاں پائی جاتی ہیں ۔ ایرانی ، یونانی ، لبنانی نسل وشکل کی بلیاں لگ بھگ سبھی کو بھاتی ہیں ۔ مہنگے داموں بکتی ہیں ۔ بڑے ناز و نخروں سے پلتی ہیں ۔ پالنے والوں کا دل لبھاتی ہیں ۔ دیسی بلیاں گلیوں میں سڑکوں پر رلتی اور لڑتی اور غراتی رہتی ہیں ۔ گاڑیوں کے نیچے آ آ کر مرتی رہتی ہیں ۔ بنا اجازت گھروں میں گھس کر دودھ اور گوشت پر منہہ مارتی رہتی ہیں اور جوتے کھاتی رہتی ہیں ۔ میاوں میاوں سے لیکر مے آوں اور مآوں تک کی آوازیں نکالتی رہتی ہیں ۔ اور یونہی ادھر ادھر پھرتی رہتی ہیں ۔
مگر جونہی انجانے میں ہمارا پاوں بلی کی دم پر آجائے تو ہر بلی چینختی ہے ۔ اور چاہے کتنی ہی پالتو کیوں نہ ہو ، کتنے ہی ناز و اندام سے رکھی ہوئی ہو ، اس نے غراتے ہوئے پنجہ مارنا ہوتا ہے ۔ یا کاٹنے کی کوشش کرنی ہوتی ہے ۔ یہ ہر بلی کی نفسیات ہے ۔ جب تک آپ اس کے نخرے سہتے رہیں ، وہ آپ کے قدموں سے لپٹتی رہے گی ۔ اور جیسے ہی آپ نے اس سے کنی کترانے کی ، کی ۔ اس نے ہرجائی محبوب کی طرح نظریں چرا لینی ہیں ۔ اور آپ سے دوری اختیار کر لینی ہے ۔
کسی بھی نسل ، کسی بھی شکل کی بلی کبھی بھی کتے اور گھوڑے کی طرح تمام عمر اپنے پالنے والے کی وفادار نہیں رہ سکتی ۔ کتے اور گھوڑے اپنے مالک پر اپنی جان قربان کردیتے ہیں ۔ مگر بلیوں اور بلی جیسے لوگوں کی جب جیسے ہی ذرا سی جان پر پڑتی ہے تو وہ آپ سے جان چھڑا کر اپنی جان بچانے کے چکر میں لگ جاتے ہیں ۔ جب تک آپ ان کے نخرے برداشت کرتے رہیں گے ، ان کی ضروریات کا خیال رکھتے رہیں گے ، وہ دم ہلاتے ہوئے آپ کے آگے پیچھے پھرتے رہیں گے ۔
میاوں میاوں کرتے رہیں گے ۔ مگر اگر کسی وجہ سے آپ مستقل ایسا نہ کرسکیں تو آپ کو ذہنی طور پر تیار رہنا چاہئیے کہ پھر کسی بھی وقت آپ کا ساتھ ایسے لوگوں سے چھوٹ سکتا ہے ۔
انسان ہوں یا جانور اور پرندے یا جانوروں اور پرندوں کی صفات والے انسان ، وفاداری اور کمٹ منٹ نبھانا ہر کسی کا شیوہ نہیں ہوتا ۔ نہ ہی ہر کسی کی فطرت میں ، قدرت نے جانثاری کے جراثیم رکھے ہوتے ہیں ۔ یہ بات البتہ انسان کے لاشعور میں ضرور ہوتی ہے کہ وہ جس جانور ، جس پرندے سے زیادہ لگاو اور انسیت رکھتا ہے ، قدرتی طور پر اس کی فطرت میں اس جانور یا پرندے کی فطرت و خصلت کے کئی عناصر ضرور پائے جاتے ہیں ۔ نہاں یا عیاں ۔ کبھی بہت کبھی کم ۔ مگر اس کی پسند کا Reflection اس کے مزاج اور نفسیات میں ضرور جھلکتا ہے ۔
آپ اپنا جائزہ لیجئیے ۔ ایمانداری کے ساتھ ۔ آپ کو سب سے زیادہ پسند کونسا جانور یا کون سا پرندہ ہے ۔ پالتو یا جنگلی ۔ دور سے دیکھنے کی حد تک یا گھر میں پالنے کے شوق تک ۔ اور یا آپ جانور بیزار ہیں ۔ آپ کو جو پرندہ ، جو جانور بچپن سے اچھا لگتا آیا ہے ۔ اس کی فطرت اور اس کی خصوصیات پر غور کیجئے ۔ اور پھر اپنی نفسیات اور اپنی شخصیت کے نمایاں اور نہاں مثبت اور منفی گوشوں پر تنقیدی نگاہ ڈالئیے ۔ آپ کو اپنے اندر اپنے پسندیدہ جانور یا پرندے کی کئی خصوصیات نظر آئیں گی ۔
اس بات کو اور اچھی طرح سمجھنے کے لئیے اپنے قریبی دوستوں کی شخصیت اور نفسیات کی بابت سوچئیے ۔ آپ اپنے ہم خیال اور ہم مزاج لوگوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے اور نبھانے کو زیادہ پسند کرتے ہوں گے ۔ بہ نسبت آپ کی سوچ سے مطابقت نہ رکھنے والوں کے مقابلے میں ۔ شعوری اور لاشعوری طور پر ہم سب اپنے جیسے لوگوں کی صحبت اور رفاقت چاہتے ہیں ۔ اسی طرح ہماری اصل فطرت میں قدرت نے جو Features رکھے ہوتے ہیں ، وہی ہماری عام زندگی میں مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتے رہتے ہیں ۔ کسی خاص پرندے یا جانور کو پسند کرنا یا اس سے بہت زیادہ قربت محسوس کرنا بھی ہماری فطری جبلت کی خاص جہت کو ظاہر کرتا ہے ۔ اور اس کی بنیاد پر ہم بآسانی کسی بھی شخص کی Profile بنا سکتے ہیں اور اس کی نفسیات کے چند مخصوص پہلووں کی Study کرسکتے ہیں ۔
اب آپ اس حوالے سے اپنی ذاتی پسند ناپسند اور اپنے اردگرد کے لوگوں کی پسند ناپسند کا جائزہ لیجئیے کہ کس کو کون سا جانور یا پرندہ زیادہ اچھا لگتا ہے ۔ پھر جب آپ متعلقہ فرد کی نفسیات و شخصیت کو دیکھیں گے تو آپ کو خود بخود احساس ہونے لگے گا کہ اس فرد میں اس کے پسندیدہ پرندے یا جانور کی کوئی نہ کوئی خاصیت پائی جاتی ہے ۔
کرمنالوجی اور سائیکالوجی کے ماہرین ، ملزموں اور مریضوں کے ذہنی معائنے میں ، ان کی شخصیت کے تضادات اور مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے کے لئیے جہاں اور بہت سے Tools استعمال کرتے ہیں ، وہاں وہ ان کی عادات اور ہر حوالے سے ذاتی پسند ناپسند کے مطالعے کو بھی بہت اہمیت دیتے ہیں ۔ اور اپنی ریسرچ کی بنیاد پر ملزم اور مریض کی شخصیت و نفسیات کی تشخیص کرتے ہیں ۔
ہم اگر چاہیں تو عام زندگی میں بھی لوگوں کی عمومی نفسیات سمجھنے کے لئیے ایسے عام طریقوں کی مدد لے سکتے ہیں اور اپنے علم کی روشنی میں ان کے ساتھ اپنے تعلقات اور معاملات کو خوشگواری سے استوار کر سکتے ہیں ۔ یوں سمجھ لیں کہ اگر ہمیں کسی کی دکھتی رگ کا علم ہو اور ہم اس پر ہاتھ رکھ دیں تو کیا ہوگا ۔
چوہے کو پکڑنے کے لئیے Mouse Trap میں Cheese یا ٹماٹر لگانا پڑتا ہے ۔ دودھ ، مچھلی کی خوراک دے کر بلی پالنی ہوتی ہے ۔ سانپ کو بل سے نکالنے کے لئیے بین بجانی پڑتی ہے یا زندہ چوہوں اور خرگوشوں کا نذرانہ پیش کرنا پڑتا ہے ۔ اسی طرح کسی انسان کی اصل نفسیات کی تہہ تک پہنچنے کے لئیے اسی طرح کی چھوٹی چھوٹی معلومات سے استفادہ حاصل کرنا پڑتا ہے ۔
بڑے بڑے کاروباری افراد اپنی Dealings میں اس بات کا خاص خیال رکھتے ہیں اور ہر شخص کے اندر چھپی بلی کی دم پر پاوں رکھتے ہیں ۔ پھر جونہی بلی چینختی ہے ، وہ اس فرد کی اصل شخصیت کی جانچ کرکے ، اس کی نفسیات کے مطابق ، لالچ یا ڈر خوف کے حربوں سے اپنا مطلب نکال لیتے ہیں ۔
بڑے بڑے کاروباری ادارے اپنے Products کی مارکیٹنگ کے لئیے اسی اصول کا سہارا لیتے ہیں ۔ لوگوں کے لاشعور کو Provoke کرکے ایسی ایسی چیزیں فروخت کر ڈالتے ہیں ، جو دو دن کے بعد کسی کونے کھدرے میں پڑی ہوتی ہیں ۔
بڑے بڑے طاقتور ممالک اپنی فارن پالیسی بناتے ہوئے نفسیات کے اسی گر کا استعمال کرتے ہیں اور کمزور ملکوں کو اور کمزور کرکے اپنے مقاصد کے حصول کے لئیے Exploit کرتے ہیں ۔ ہر قوم کے مزاج کو سمجھ کر اس قوم کے جذباتی Elements کو Explore اور Highlight کرکے Limelight میں لاتے ہیں اور پھر اس قوم اور اس معاشرے کی ساری بلیاں ایک ایک کرکے مار دیتے ہیں ۔ Threshold چیک کرنے کے لئیے دم پر دباو بڑھاتے رہتے ہیں ۔ اور پھر جونہی اس قوم ، اس ملک کے جذباتی لوگوں کی بلی چینختی ہے ، قبضہ گیر ممالک کے Think Tanks ایک سرخ گول دائرہ بنا کر جذباتی گروپ کو Mark کرلیتے ہیں ۔ اور اگلے اسٹیج میں ڈر خوف یا لالچ کے صدیوں پرانے ڈنڈے سے جذبے اور جذباتیت کا بم Diffuse کردیتے ہیں ۔ جو بلی جتنی زیادہ جذباتی ، چنچل اور غصیلی ہوتی ہے ، وہ اتنی ہی جلدی Trap ہوجاتی ہے ۔ اس میں برداشت کا مادہ بہت کم ہوتا ہے ۔ اس کی دم پر ہلکا سا پریشر اسے چینخوا دیتا ہے ۔ اور Policy Makers کا کام آسان ہوجاتا ہے ۔ پھر وہ اپنی مرضی سے اس بلی کے گلے میں طوق ڈال کر اپنے راستے پر لے جاتے ہیں ۔
اب ذرا اپنے چاروں طرف نگاہ ڈالئیے ۔ آپ کو بلیوں کے غول کے غول میاوں میاوں کرتے نظر آئیں گے ۔ مگر وہ لوگ کہیں دکھائی نہیں دیں گے جو دم پر پاوں رکھ کر کھڑے ہیں ۔ کیونکہ ان کی نفسیات بلیوں کی طرح نہیں ہے ۔ بلیوں کو پکڑنے ، نچوانے اور چینخوانے والے لوگوں کے پسندیدہ جانوروں اور پرندوں میں کتے ، گھوڑے ، چیتے ، لومڑی ، بھیڑئیے ، عقاب ، گدھ ، طوطے ، سانپ ، بچھو ، مکڑیاں اور چمگاڈریں شامل ہوتے ہیں ۔ اور ان کی نفسیات میں ان سب کی خصوصیات پائی جاتی ہیں ۔ کتے ، طوطے اور گھوڑے تو جا بہ جا دکھائی دے جاتے ہیں ۔ باقی تو چڑیا گھر اور جنگلوں کے علاوہ ان King Makers کے گھروں میں ہی نظر آسکتے ہیں ۔
اور رہی بلیاں ، تو وہ تو ہر گلی ، ہر سڑک ، ہر کونے میں ادھر سے ادھر پھرتی رہتی ہیں اور میاوں میاوں کرتی رہتی ہیں ۔ اور دم پر پاوں پڑتے ہی چینختی رہتی ہیں ۔
نوٹ : اس تحریر کا عنوان استادوں کے استاد محترم ابن صفی کے ناول " بلی چینختی ہے " سے مستعار لیا گیا ہے ۔ اس امید اور یقین کے ساتھ کہ شاید آج کے دو چار نوجوان محترم ابن صفی کے کچھ ناول پڑھ لیں ۔اور پڑھنے کی Addiction میں گرفتار ہوجائیں ۔ اور باقی کے نوجوانوں کے لئیے مشعل راہ بن جائیں ۔


" بلی چینختی ہے "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ، جسمانی ، روحانی ، جنسی و منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ

www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.drsabirkhan.blogspot.com
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
www.g.page/DUAAGO
Instagram @drduaago 

" ایک تھی لڑکی "

" ایک تھی لڑکی " 
نیا کالم / بلاگ/ مضمون 
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان 

' صدیوں سے دنیا میں یہی تو قصہ ہے ۔ ایک ہی تو لڑکی ہے ، ایک ہی تو لڑکا ہے ۔ جب بھی یہ دونوں ملے ، پیار ہوگیا ' ۔ 
آج شام جب اپنے تین کرسیوں والے برآمدے میں لکھنے بیٹھا تو تین موضوع ذہن میں تھے ۔ سگریٹ سلگائی ۔ دھوئیں کے پہلے باہر نکلتے ہوئے مرغولے کے ساتھ ایک موضوع سے مربوط ، لڑکپن میں سنے ایک گانے کے ابتدائی بول یاد آگئے ۔ شاید آپ نے بھی کبھی یہ گانا سنا ہو ۔ اور اگر نہیں بھی سنا ہے ، تو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ کیونکہ یہ ایک آفاقی حقیقت ہے ۔ صدیوں سے واقعی دنیا میں ایک ہی کہانی ہے ۔ ایک ہی قصہ ہے ۔ ایک ہی سچائی ہے ۔ لڑکی اور لڑکے کی محبت کی کہانی ۔ جنس مخالف سے الفت ، انسیت اور رفاقت کی کہانی ۔ ہر عہد ، ہر دور ، ہر معاشرے ، ہر سماج کی کہانی ۔ ہر گھر ، ہر عمر کی کہانی ۔
دل کی اور دل لگی کی کہانی ۔ کبھی تو پانی کے بلبلے کی طرح پھیلنے اور پل بھر میں پھٹنے کی طرح ۔ اور کبھی عمر بھر کے روگ اور جنجال کی صورت ۔ پیار ، محبت اور عشق کی نہ مٹنے والی کہانی ۔ 
پل پل ساتھ نبھانے اور عمر بھر ساتھ نہ چھوڑنے کے دعووں ، وعدوں اور قسموں کی کھربوں کہانیاں ۔ اور ہر کہانی کا اختتام یا تو مجبوریوں اور سمجھوتوں کی زندگی ۔ اور غم و الم سے بھرپور جدائی اور تنہائی ۔
کہ جو بھی شے ، جو بھی بات Metaphysical ہوتی ہے ، Virtual ہوتی ہے ، محض Emotional ہوتی ہے ۔ اس کا Life span کم ہوتا ہے ، عارضی ہوتا ہے ۔ ایک خاص وقت کے بعد اس کا Footage ختم ہوجاتا ہے ۔ اس کی کشش ، اس کا Charm اپنی آب و تاب کھو دیتا ہے ۔ اور اس کے مدار میں گھومنے والے ، کچھ وقت کے بعد ، سر کے بل لٹک جاتے ہیں ۔ اور تمام عمر لٹکے رہتے ہیں ۔ اپنی باتوں ، اپنے وعدوں ، اپنے دعووں اور اپنی Commitment کے جال میں الجھے رہتے ہیں ۔ 
افلاطونی محبت اور عملی محبت میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے ۔ افلاطونی محبت ، جذباتی اور عام طور پر لمحاتی ہوتی ہے اور Attraction اور Attachment سے شروع ہوکر جسمانی تعلق پر ختم ہوجاتی ہے ۔ اور اگر جسمانی تعلق تک پہنچنے سے پہلے ہی کسی وجہ سے ہوا میں تحلیل ہوجائے یا کسی ایک فریق کی بےوفائی سے اپنے منطقی انجام کو گلے ملنے سے پیشتر ہی مٹی میں مل جائے تو دونوں یا پیچھے رہ جانے والا فرد ، خواہ مرد ہو یا عورت ، جیتے جی زندہ درگور ہوجاتا ہے ۔ اور محبت میں کامیابی سے ناکام ہونے کے بعد یا تو Reactionary ہوجاتا ہے اور خود کو اور اپنے ساتھ اور آمنے سامنے کے لوگوں کو ہمہ وقت Tease کرتا رہتا ہے اور ماحول میں پراگندگی اور انتشار پھیلاتا رہتا ہے ۔ اور یا پھر سب کو اور سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر Missionary بن جاتا ہے اور معاشرے کی تعمیر اور ترقی میں کسی بھی طرح کا کردار ادا کرنے سے قاصر ہوجاتا ہے ۔ 
افلاطونی محبت ، اگر ناجائز جسمانی تعلق قائم کرنے کے درجے تک لے جاتی ہے تو تب بھی دونوں فریقین ، جلد یا بدیر ، Guilt اور Regrets سے دوچار ہوتے ہیں ۔ اور نفسیات اور شخصیت کی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر مختلف طرح کے روحانی ، نفسیاتی ، جذباتی ، خانگی اور ذہنی مسائل اور امراض میں مبتلا ہوکر ساری عمر اپنے کئیے کی سزا بھگتتے رہتے ہیں ۔ 
یہی افلاطونی محبت جب شادی کے بندھن میں ڈھلتی ہے تو دو چار سال تک تو روشن رہتی ہے ۔ پھر جونہی جسمانی کشش کا زور کم پڑتا ہے ۔ اور معاش اور اولاد کی ذمہ داریاں سر اٹھاتی ہیں ، روز کے طعنے ، تشنے اور جھگڑے اگلے دو چار سالوں میں رہی سہی محبت کا بھوت اتار پھینکتے ہیں ۔ محبت کی جگہ نفرت اور حقارت گھر کرلیتی ہے ۔ کبھی تو معاملہ علیحدگی تک جا پہنچتا ہے ۔ تو کبھی اولاد ، پاوں کی زنجیر بن کر زندگی کی گاڑی گھسیٹنا شروع کر دیتی ہے ۔ اور سکون ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہوجاتا ہے ۔ 
عملی محبت اس کے برعکس ہوتی ہے ۔ اور بہت کم ہوتی ہے ۔ مگر جب بھی ہوتی ہے ، Long Lasting ہوتی ہے ۔ زیادہ مدت تک برقرار رہتی ہے ۔ بشرط زندگی ، کبھی کبھی تو بھرپور پرسکون گولڈن جوبلی بھی کرلیتی ہے ۔ کیونکہ عام طور پر عملی محبت یا تو شادی کے بعد پیدا ہوتی ہے ۔ اور یا پھر شادی سے پہلے کی صورت میں اتنی متوازن اور معتدل ہوتی ہے کہ کسی کسی کو ہی اس کا پتہ چل پاتا ہے ۔ اور کبھی کبھی تو دونوں یا دونوں میں سے کسی ایک کو بھی علم نہیں ہو پاتا کہ ان دونوں کے Reciever ایک ہی فریکوینسی پر سیٹ ہوچکے ہیں ۔ یہ فریکوینسی ذہنی ہم آہنگی اور Compatibility کی ہوتی ہے ۔ روحانی Alignment کی ہوتی ہے ۔ اور جس محبت میں ذہنی ہم آہنگی اور روحانی رشتہ ہو ، وہ افلاطونی اور محض دلی و جسمانی محبت سے زیادہ مضبوط اور خوشگوار ثابت ہوتی ہے ۔ اس طرح کی محبت میں زیادہ سچائی ، زیادہ ایثار ، زیادہ قربانی ہوتی ہے ۔ اور Bilateral ہوتی ہے ۔ بولے بنا سامنے والے کو ، سامنے والے کے دل کا حال پتہ چل جاتا ہے ۔ اس کی ہر خواہش ، ہر ضرورت کا اندازہ ہوجاتا ہے ۔ اور پھر اس کے دل کی بات Automatic طریقے سے پوری بھی کردی جاتی ہے ۔ اور چونکہ یہ محبت محض سطحی اور جذباتی نہیں ہوتی تو شادی اور ازدواجی تعلقات قائم ہونے کے بعد بھی اپنی تاثیر نہیں کھوتی ۔ 
ذہنی ہم آہنگی اور روحانی وابستگی ایک ایسا Bond پیدا کردیتی ہے جو تا دم مرگ برقرار رہتا ہے ۔ 
عملی محبت ہر ایک کے نصیب میں نہیں ہوتی ۔ لاکھوں میں کوئی ایک خوش نصیب اس محبت کا ذائقہ چکھ پاتا ہے ۔ سطحی اور جذباتی لوگوں کی قسمت میں افلاطونی اور جسمانی محبت ہی لکھی ہوتی ہے ۔ اور اسی چکر میں گھوم گھوم کر وہ گھن چکر بن جاتے ہیں ۔ پھر وہ نہ گھر کے رہتے ہیں اور نہ گھاٹ کے ۔ گھاٹے کا سودا ان کے گلے کا طوق بن جاتا ہے ۔ جو نہ اتر پاتا ہے ۔ نہ ٹوٹ پاتا ہے ۔ 
' ایک تھی لڑکی ' بھی ایسی ہی لڑکی کی کہانی ہے ۔ جو اپنی محبت کی دلدل میں سر تا پاوں اتنی ڈوبی ہوئی ہے کہ اب دنیا کی کوئی طاقت اسے یک رخی محبت کے جہنم سے باہر نہیں نکال سکتی ۔ ماسوائے کسی معجزے کے ۔ اور معجزے آج کے زمانے میں شاذ و نادر ہی ہوا کرتے ہیں ۔
فرض کر لیتے ہیں ، اس لڑکی کا نام مہرین ہے ۔ ٹی وی ڈراموں میں کام کرنے کا شوق اسے شوبز کی دنیا میں ذرا دیر کو لے گیا ۔ دو تین ڈراموں میں دو چار منٹ کے کردار بھی ملے ۔ پھر جب اس پر سلور اسکرین کی چمک کی حقیقت آشکار ہوئی ۔ کہ آگے بڑھنے کے لئیے اسے اپنے آپ کو داو پر لگانا پڑے گا تو وہ الٹے قدموں واپس ہوئی ۔ واپسی کے سفر میں اس کا نصیب اس کے ساتھ تھا ۔ اور وہ شو بز کے ہی ایک لڑکے پر دل ہار بیٹھی ۔ 
فرض کر لیتے ہیں کہ اس لڑکے کا نام جمیل ہے ۔ مہرین اور جمیل کی افلاطونی محبت سال بھر تک خوب پلی بڑھی ۔ پروان چڑھی ۔ روز کا گھومنا پھرنا ۔ کھانا پینا ۔ عمر بھر ساتھ نبھانے کی قسمیں ۔ شادی کے وعدے ۔ گھنٹوں کی باتیں ۔ ہر دوسرے تیسرے دن ، جمیل ، مہرین کے گھر آتا اور اس کے گھر والوں سے بھی پینگیں بڑھاتا ۔ اگلے ہفتے ، اگلے ماہ ، تین ماہ بعد اپنے گھر والوں کو مہرین کے گھر بھیج کر بات پکی کرنے کا کہتا ۔ مگر بھیجتا نہیں ۔ اور پھر ایک دن خود بھی رسیاں توڑ کر بھاگ نکلا ۔
وجہ کیا تھی ۔ مجھے نہیں پتہ ۔ کہ مہرین نے مجھے یہی بتایا ۔ ویسے عام طور پر ایسے Cases میں کسی کو پتہ نہیں چل پاتا کہ Breakup کی اصل وجہ کیا ہے ۔ 
سال بھر کے پل پل کے ساتھ کے بعد مہرین یکایک اکیلی ہوئی تو جدائی کا صدمہ اس کے لئیے ناقابل یقین اور ناقابل برداشت تھا ۔ اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ختم کرنے کی کوشش نے اسے ICU پہنچادیا ۔ جمیل کچھ ویسے ہی شرم و ندامت کا شکار تھا ۔ پولیس عدالت کے ڈر نے اسے اور چار فٹ دور کردیا ۔ وہ اپنے سارے وعدوں سے پیچھے ہٹ گیا تھا ۔ بقول مہرین کے وہ وجہ بھی کچھ نہیں بتاتا تھا ۔ 
تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی ۔ مجھے تصویر کا ایک رخ پتہ ہے ۔ جو مہرین نے دکھایا ہے ۔ جمیل کے کیا Reasons تھے محبت کے اور اس کی کیا وجوہات تھیں سال بھر کی محبت کے بعد علیحدگی کی ۔ مجھے نہیں علم ۔ اور شاید کبھی علم ہو بھی نہ سکے ۔
لیکن مہرین کے ساتھ ڈیڑھ پونے دو ماہ گزارنے کے بعد ، اس کے دل کے غبار کو ہلکا کرنے کے بعد ، اس کو ہر ممکن Cuhion اور Moral Support فراہم کرنے کے بعد جمیل کے لئیے اس کی محبت کی شدت کا بھی اندازہ ہوا اور اس کی نفسیات اور شخصیت کے کئی ایسے پہلووں سے بھی شناسائی ہوئی ، کہ ، اب یہ بھی کچھ کچھ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جمیل کیوں بھاگا ۔
مہرین یا مہرین جیسے لوگوں کی جو شخصیت اور نفسیات کا جو سانچہ ہوتا ہے ، وہ ایک الگ موضوع ہے ۔
محبت یک طرفہ ہو یا دو طرفہ ، دینے کا نام ہے ۔ محبت افلاطونی اور جسمانی ہو یا عملی اور روحانی ، ہر دو صورتوں میں Give And Take ہوتا ہے ۔ یا یوں کہہ لیں کہ کسی بھی طرح کے Relationship میں اگر باہمی لین دین کی جگہ لینا زیادہ ہو اور دینا بہت کم ۔ تو ایسی کوئی سی بھی محبت ، ایسا کوئی سا بھی تعلق پنپ نہیں سکتا ۔ زیادہ مدت تک کسی بھی طرح Survive نہیں کرسکتا ۔
مہرین کی طبیعت اور مزاج میں کچھ اسی طرح کے عناصر کبھی ڈھکے چھپے تو کبھی کھلے ڈھلے چھلکتے ہیں ۔ عام حالات میں عام لوگوں کے ساتھ جب کسی انسان کا عمومی رویہ و برتاو ایسا ہو تو نفسیاتی نکتہ نظر سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خصوصی حالات میں خصوصی افراد کے ساتھ اس انسان کا رویہ اور برتاو اور زیادہ بے تکلف اور شدید ہوگا ۔ 
محبت افلاطونی ہو یا عملی ، محض مانگنے ، لینے اور بوجھ ڈالنے کا نام نہیں ۔ محبت میں جب تک Sharing نہ ہو ، وہ دو گام بھی نہیں چل سکتی ۔ پھر بات بے بات Rifts پیدا ہونے لگتے ہیں ۔ اور اگر Selfishness ایک آنچ بھی بڑھ جائے تو محبت کا بھوت ہوا ہونے لگتا ہے ۔ اور مستقل دینے والا فریق ، مستقل سامنے والے کی ہر طلب ، ہر ضرورت ، ہر خواہش پوری کرنے والا فریق بھی تھک جاتا ہے اور فرار کے راستے ڈھونڈنے لگتا ہے ۔ 
محبت کیسی بھی ہو ، جب تک ہوش کا دامن ساتھ رہے اور توازن اور پیش بینی اور دانشمندی ہاتھ میں رہے ، تب تک دل کے آنگن میں پھول بھی کھلتے رہتے ہیں اور خوشبو اور رنگ اور روشنی ذہن اور زندگی کو مہکاتے اور چمکاتے رہتے ہیں ۔ جہاں محبت کے لطیف جذبے نے جذباتی ہونا شروع کیا اور تعلق میں جذباتیت کا عنصر غالب آیا ، وہاں گڑبڑ شروع ہو جاتی ہے ۔ ایسی ہر محبت کا انجام درد ناک ہوتا ہے ۔ کبھی ایک تو کبھی دونوں کو رونے پر مجبور ہونا پڑتا ہے ۔
یہاں بہت سے لوگ کہیں گے کہ جب سوچ سمجھ کا معاملہ ہو تو وہ محبت کہاں ہوئی ۔ محبت تو بنا سوچے سمجھے ہوتی ہے اور سود و زیاں سے مبرا ہوتی ہے ۔ کسی حد تک یہ بات مانی جاسکتی ہے ۔ افلاطونی محبت تو پوری کی پوری اس Theory پر پوری اترتی ہے ۔ تبھی اس کے Consequences نہ صرف فریقین بلکہ خاندانوں تک بھی بھاری پڑتے ہیں ۔ 
مہرین نے جب جمیل سے جدائی کے غم میں دنیا تیاگ دی اور خود سے دوسری دنیا جانے کی کوشش شروع کردی تو بھائیوں نے بھی اس سے منہہ موڑ لیا ۔ وہ پہلے ہی اس کے جمیل کے ساتھ آزادانہ گھومنے پھرنے پر نالاں تھے ۔ حالانکہ دونوں بھائی عمر میں اس سے چھوٹے ہیں ۔ مگر باپ کے انتقال کو 20 برس گزرنے کے بعد اب وہ خود کو خاندان کا بڑا سمجھتے ہیں اور صحیح سمجھتے ہیں ۔ پہلے تو وہ بیچارے یہ سمجھتے رہے کہ مہرین کی عمر نکل رہی ہے ۔ اور اگر جمیل سے اس کی Understanding چل رہی ہے اور وہ اس سے شادی کرنا چاہتا ہے اور Serious ہے تو اس کا گھر آنا جانا اور مہرین کے ساتھ گھومنا پھرنا بھی ان کو گوارا تھا ۔ مگر جونہی بظاہر اچانک وہ اسکرین سے غائب ہوا ۔ اور مہرین نے اگلی دنیا میں قدم رکھنے کے لئیے چھلانگ لگائی ، ان کی برداشت ختم ہوگئی ۔ اسے ختم ہونا ہی تھا ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو زیادہ حیرت ہوتی ۔ 
حیرت کی بات تو یہ تھی کہ جمیل کا تو مہرین کے گھر روزانہ کا آنا تھا مگر مہرین اور اس کے گھر والوں کو جمیل کے نہ گھر کا پتہ تھا اور نہ کبھی مہرین اور نہ کبھی اس کے گھر کا کوئی فرد ، جمیل کے خاندان کے کسی فرد سے ملا تھا ۔ 
افلاطونی محبت میں عقل پر ایسے ہی پردہ پڑ جاتا ہے ۔
اور اب چار ماہ بعد بھی مہرین کا یہ حال ہے کہ بات بات پر جمیل اور اس کے وعدوں اور قسموں کو یاد کرکے رونے لگتی ہے ۔ ' کس سے پوچھوں میں تیرا پتہ ' کی جیتی جاگتی تصویر بن گئی ہے ۔ جہاں ذرا سی امید دکھتی ہے ۔ جہاں کوئی شفقت بھری مہربان نظر ڈالتا ہے ۔ اس سے درخواست کر بیٹھتی ہے کہ اگر ہوسکے تو جمیل کے گھر کا پتہ ڈھونڈ دیں ۔ 
دس رشتے آئے مگر سوئی ایک ہی جگہ اٹکی ہوئی ہے کہ شادی ہونی ہے تو جمیل سے ورنہ کسی سے نہیں ۔ اور یہ کہ سال بھر کے ساتھ نے اتنی محبت دے دی ہے کہ اب کسی اور کی محبت کی ضرورت نہیں ۔ اور یہ کہ اللہ کے سامنے میں نے اور جمیل نے عہد و پیمان باندھ لیا تھا اور ایک دوسرے کو میاں بیوی تسلیم کر لیا تھا تو اب شادی پر شادی تو نہیں ہوسکتی نہ ۔ اور یہ کہ جمیل نے اگر بےوفائی کی ہے ، میں تو محبت میں سچی ہوں ، میں کیوں اس کو بھول جاوں ۔
اس طرح کے دس بیس دلائل دے کر مہرین محبت اور جدائی کی آگ خود کو جلا رہی ہے ۔ اور جب اس کے پاس بتانے کی کوئی وجہ نہیں بچتی تو ہر سوال کا جواب یہی ہوتا ہے کہ میرا نصیب ہی ایسا ہے ۔ اور کوئی اپنے نصیب سے تو نہیں لڑ سکتا نہ ۔
نصیب کی جب بات آجائے تو ہر سوال ہر جواب دم توڑ دیتا ہے ۔ پوچھنے والے ، بتانے والے ، سمجھانے والے ، سبھی چپ ہوجاتے ہیں ۔ اور بات وہیں کی وہیں رہ جاتی ہے ۔ مہرین کی بات کی طرح ۔ 
نصیب کی بات کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ کوئی قدم اگر غلط اٹھ جائے ، یا کوئی بات بگڑ جائے ، تو اس پر اٹکے اور لٹکے رہنا اپنی غلطی کو بڑھانے کے مترادف ہوتا ہے ۔ اس میں نصیب کی کوئی غلطی نہیں ہوتی ۔ نہ ہی نصیب میں لکھا ہوتا ہے کہ گڑھے میں گرنے کے بعد تمام عمر گڑھے میں ہی رہنا ہے ۔ کوئی بھی انسان فرشتہ نہیں ہوتا ۔ ہر فرد خطا کا پتلا ہوتا ہے ۔ لیکن اپنی غلطی سے چمٹے رہنا اور دوش نصیب کو دینا اور مہرین کی طرح یہ کہنا کہ یہ میری سزا اور آزمائش ہے ۔ اور سزا اور آزمائش جب ختم ہوگی تو جمیل مجھے مل جائے گا ۔ اور یہ کہ امید پر دنیا قائم ہے ۔ کم از کم یہ سوچ کسی کا بھی نصیب کسی کے ذہن میں Implant نہیں کرتا ۔ نہیں کرسکتا ۔ تاوقتیکہ ہم خوداذیتی میں مبتلا نہ ہوں ۔ اور ہمیں خود کو تکلیف اور اذیت دینے میں مزہ نہ آتا ہو ۔ 
اور دوسری طرف کی حقیقت یہ ہو کہ جمیل کے کام کا ایک جز یہ بھی ہو کہ شو بز کے پروگرامز کے لئیے ماڈل گرلز فراہم کرنا ہو ۔ یعنی معصوم لڑکیوں کو لالچ دے کر انہیں ایسی دلدل میں دھکیل دینا ، جہاں سے کبھی کوئی بھی سالم و ثابت واپس نہ آسکے ۔ اور یہ بات نہ صرف اس کے دوست اور شناسا بتا رہے ہوں بلکہ وہ خود بھی بزبان خود مہرین کو کئی بار بتاتا رہا ہو ۔
ایسے مرد کے عشق میں گرفتار عورت اس سے جدائی کے بعد شکرانے کے نفل پڑھنے کی بجائے محبت نہ پانے کے دکھ میں اگر اپنی جان کے درپے پڑ جائے تو اسے راہ ہدایت محض اللہ تعالی کی رحمت ہی دکھا سکتی ہے ۔ کوئی انسان ، کوئی فرشتہ ، کوئی فرشتہ صفت انسان یہ کام نہیں کرسکتا ۔ 
مہرین کی طرح مگر مہرین سے بالکل الگ نفسیات اور شخصیت کی حامل ایک لڑکی اور تھی ۔ جس سے ساڑھے گیارہ سال پہلے ملاقات ہوئی تھی ۔ اور ساڑھے دس سال پہلے آخری ملاقات ہوئی تھی ۔ فرض کرلیں ۔ اس کا نام نایاب تھا ۔ اس کا بڑا بھائی بھی اس سے نالاں اور خفا تھا ۔ اس کے والد کا انتقال بھی اس کے بچپن میں ہوگیا تھا ۔ وہ البتہ مہرین کی طرح بند اور مردہ نہیں تھی ۔ یونیورسٹی میں ماسٹرز کے آخری سال کا Thesis کررہی تھی اور بڑی زندہ ، بڑی شوخ اور بڑی Social تھی ۔ مگر موڈ ڈس آرڈر کی وجہ سے ہر دو تین ماہ بعد رونے یا ہنسنے کے Phases سے گزرتی تھی ۔ مری ہوئی تو نہ تھی مگر محبت کی ماری ہوئی تھی ۔ باغی تھی ۔ مردوں پر سے اس کا اعتبار اٹھ چکا تھا ۔ فرض کرلیں کہ اس لڑکے کا نام نوید تھا ، جو اسے چھوڑ کر اپنا کیرئیر بنانے میں لگ چکا تھا ۔
چھ سالہ محبت میں نایاب نے نوید کے لئیے بہت قربانیاں دی تھیں ۔ گھنٹوں جائے نماز پر بیٹھ کر رو رو کر اس کے اعلی مستقبل کی دعائیں مانگی تھیں ۔ اس کی پڑھائی کا خرچہ برداشت کیا تھا ۔ روز اس سے ملنے پارک جاتی تھی ۔ اس کے لئیے کھانے بنا کر لے جاتی تھی ۔ اپنے پیسوں سے اس کو سیکنڈ ہینڈ بائیک دلائی تھی ۔ مگر پھر بھی جانے کیا ہوا کہ وہ اس سے الگ ہوتا چلا گیا ۔ ایک کے بعد دوسری نوکری میں مصروف ہوتا گیا ۔ اور اپنے سارے وعدے بھولتا چلا گیا ۔ اور اپنی والدہ کو نایاب کے گھر بھیجنے کی بجائے شادی سے انکاری ہوگیا ۔ اور پھر چھ ماہ تک نایاب بھی مہرین کی طرح بستر سے لگ گئی تھی ۔ 
یہ اور بات ہے کہ Recovery کے بعد اس کی محبت انتقامی ہوگئی اور وہ Reactionary بنتی چلی گئی ۔
اس کے اندر کا دکھ دیکھ کر Out Of The Way جا کر نوید کو کلینک بلا کر اس کے سامنے بٹھا دیا ۔ 14 اگست کے چھ گھنٹے دونوں میں صلح صفائی کی بھرپور کوشش کی جاتی رہی ۔ مگر صاف دکھ رہا تھا کہ جس محبت کی شدت کی کہانی نایاب نے سنائی تھی ، وہ اب موجود نہ تھی ۔ 
افلاطونی محبت تو سدا سے لمحے کی محتاج رہی ہے ۔ سورج کے ڈوبتے ہی ، لمحے کے گزرتے ہی ڈوب جاتی ہے ۔ چوسے ہوئے آم کی طرح ہوجاتی ہے ۔ پچکی ہوئی ۔ کبھی دوبارہ اپنی پرانی شکل میں نہ آنے کے لئیے ۔ رس اور خوشبو سے عاری ۔ 
نایاب کے ساتھ بھی یہی ہوا ۔ چھ آٹھ ہفتے گزر گئے ۔ مگر نوید دوبارہ نہیں پلٹا ۔ اور نایاب پہلے سے زیادہ تند اور لالچی ہوگئی ۔ محبت کو دولت سے Compensate کرنے کی تگ و دو میں لگ گئی ۔ اور پھر مجھے نہیں پتہ کہ کیا بنا اس کا ۔ کہ حکم ہے کہ ایسے لوگوں کو پھر ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہئیے ۔ جو ہر طرح کی کوشش کے بعد بھی اپنے آپ کو اندر سے بدلنے پر راضی نہ ہوں ۔ اپنی غلطی کو مان کر صحیح راستے کا انتخاب نہ کریں ۔ اپنی ہر بات کو صحیح جان کر اپنی من مانی میں لگے رہیں ۔ 
نایاب ہو یا مہرین ۔ یا ان جیسی ہزاروں لاکھوں لڑکیاں ۔ جب تک سطحی محبت کے جال بچھتے رہیں گے اور عملی محبت کی تعلیم ، تلقین اور تربیت کی جگہ ہمارا لٹریچر ، ہمارا میڈیا ، ہماری فلمیں ، ہمارے ڈرامے ایک تھی لڑکی اور ایک تھا لڑکا کی کہانیوں کو Promote کرتے رہیں گے ۔ تب تک ناآسودہ خواہشات کی پراگندگی ہمارے معاشرے کے نوجوانوں کی توانائی سلب کرتی رہے گی ۔ اور ان کی نفسیات کو مسخ کرتی رہے گی ۔ 
یادش بخیر بچپن میں آٹھ نو برس کی عمر میں میرپورخاص کے فردوس سنیما میں جیدی ماموں کے ساتھ ایک فلم دیکھی تھی ۔ " ایک تھی لڑکی " ۔ اس کی کہانی تو اب یاد نہیں مگر اس کا نام ، نام اور چہرے بدل بدل کر ان گنت لڑکیوں اور ان کی کہانیوں کی صورت سامنے آتا رہا ہے ۔ نایاب اور مہرین کی کہانیوں کی طرح ۔ سچ مچ کی فلمی کہانیوں کی صورت ۔ رانی اور شاہد کی وہ فلم تو ان دونوں لڑکیوں کی پیدائش سے چودہ پندرہ سال پہلے ریلیز ہوئی تھی ۔ ان دونوں کے فرشتوں کو بھی اس فلم کا نام نہیں پتہ ہوگا ۔ مگر بچپن کی محرومی اور والد کی عدم موجودی نے ان دونوں کو جس محبت کے سراب میں الجھایا ، وہ ان کی باقی ماندہ زندگی کو جہنم بنا گیا ۔ 
ایسی محبت کے ڈسے ہوئے لوگ تمام عمر پیاسے کے پیاسے رہتے ہیں ۔ دنیا کی لاکھ نعمتوں کے حصول کے باوجود شکایتی اور نا شکرے سے رہتے ہیں ۔ 
اور یہی بات دونوں طرح کی محبتوں کو Differentiate کرتی ہے ۔ عملی محبت ہمیشہ روحانی سکون اور دلی اطمینان کا باعث بنتی ہے ۔ اور انسان کو ہمہ وقت شکر اور شکریے ہر اکساتی رہتی ہے ۔ اور افلاطونی محبت بے سکونی اور انتشار ذہنی میں مبتلا کرتی ہے ۔ اور شک ، شکوے اور شکایت کے کلمات کہلواتی رہتی ہے ۔ 
دیکھئیے ۔ آپ کی محبت کا حاصل کیا ہے ۔ اگر سکون اور شکر ہے تو آپ کامیاب ہیں ۔ اور معاملہ برعکس ہے تو کہیں نہ کہیں آپ سے ضرور کوئی گڑ بڑ ، کوئی غلطی ہوئی ہے ۔
دل کے آئینے پر گر ایک بار بال آجائے تو وہ آہستہ آہستہ پھیل کر ہر جذبے ، ہر محبت کے عکس کو دھندلا دیتا ہے ۔ پھر ماضی کی لکیروں کے سوا کچھ اور دکھائی نہیں دیتا ۔
میرے سامنے نایاب نے سسکتے ہوئے ، روتے ہوئے نوید کو معاف تو کردیا تھا اور بند آنکھوں سے ایفائے تجدید عہد و محبت کرتے ہوئے کہا بھی تھا کہ Yes I Will Marry You اور نوید نے بھی وعدہ کیا تھا کہ وہ اگلے ہفتے ہی اپنی والدہ کو نایاب کے گھر بھیج دے گا شادی کا Proposal لے کر ۔ مگر مغرب کی اذان کے ساتھ ساتھ میرے اندر کہیں آواز آرہی تھی کہ بظاہر تو یہ دونوں دو سال کی جدائی کے بعد آج ملے ہیں اور اپنے رشتے کو آگے بڑھانے کی باتیں بھی کر رہے ہیں ۔ لیکن ان کا رونا ، ان کی باتیں ، ان کے وعدے روح سے خالی ہیں ۔ اور Ventilator پر اپنی مرتی ہوئی محبت کو ڈال کر کچھ اور دن خوش گمانیوں میں گزارنا چاہتے ہیں ۔ 
میرے سامنے مہرین نے روتے ہوئے ، سسکتے ہوئے کہا تھا کہ وہ جمیل کے سوا کسی اور سے شادی نہیں کرسکتی ۔ اور وہ اس کے نام پر ساری عمر گھر بیٹھی رہے گی ۔
نہ نایاب کو نوید مل سکا ۔ نہ مہرین کی شادی جمیل سے ہونے کا امکان ہے ۔ ان دو لڑکیوں کی طرح ہزاروں لاکھوں لڑکیاں ہمارے چاروں طرف بکھری ہوئی ہیں ۔ ہر لڑکی کی کہانی انیس بیس کے فرق سے ایک جیسی ہے ۔ صدیوں سے دنیا میں ایسا ہی چل رہا ہے ۔ اور ایسا ہی چلتا رہے گا ۔ ایک تھی لڑکی کی کہانی جاری رہے گی ۔ دلوں کے آئینے ٹوٹتے رہیں گے ۔ اور ان آئینوں کی کرچیاں آس پاس کے سبھی لوگوں کو زخمی کرتی رہیں گی ۔ 

" ایک تھی لڑکی " 
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون 
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان 
ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ،
جسمانی ، روحانی ، جنسی و منشیات 

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ 

www.fb.com/Dr.SabirKhan 
www.fb.com/duaago.drsabirkhan 
www.drsabirkhan.blogspot.com 
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan 
www.g.page/DUAAGO 

Instagram @drduaago

بدھ، 23 اکتوبر، 2019

" دیتے ہیں دھوکا " ڈاکٹر صابر حسین خان

" دیتے ہیں دھوکا "

نیا کالم / بلاگ/ مضمون

دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ہم دھوکے کے زمانے میں زندہ ہیں ۔ ڈھول ، ڈھکوسلے اور دھوکے ۔ ہر شخص ایک دوسرے کو چونا لگانے میں مصروف ہے ۔ کیا چھوٹا ، کیا بڑا ۔ کیا اچھا ، کیا برا ۔ اپنی اپنی بساط اور استطاعت کے مطابق ہم سب ہر وقت اپنا الو سیدھا کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ جب جس کو جیسے ہی کوئی موقع ملتا ہے ، وہ دیر نہیں کرتا ۔ پلک جھپکتے ہی ہاتھ صاف کرڈالتا ہے ۔ اور اپنے آپ کو صحیح اور درست بھی ثابت کرتا ہے ۔ تاکہ ضمیر پر کوئی بوجھ نہ پڑے ۔ ہر کسی نے اپنے ہر عمل کے حق میں چار چھ دلائل تیار کر چھوڑے ہوتے ہیں ۔ مگر سب سے زیادہ خطرناک ، پیچیدہ اور شریفانہ دھوکے ہوتے ہیں ، جن کی تہہ تک پہنچنے میں کافی وقت لگ جاتا ہے اور اس وقت تک کافی نقصان ہوچکا ہوتا ہے ۔ پھر ان کا ازالہ بھی ممکن نہیں ہوتا ۔ اور دھوکہ دینے والوں کے معصوم چہرے دیکھ کر اور ان کے دائیں بائیں کے دلائل سن کر ، ان کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کو بھی جی نہیں چاہتا ۔ اور کبھی دھوکے بازوں کا بھرم اور رکھ رکھاو اور طاقت و اختیار دیکھ کر ہمت نہیں پڑتی کہ ایک دھوکہ تو کھا لیا ، اب اگر کچھ کرنے کا سوچا تو اپنا ہی وقت اور مزید پیسہ برباد ہوگا ۔ ڈرپوک اور شریف اور کم ترین دھوکے باز اسی لئیے بار بار دھوکے اور دھکے کھاتے رہتے ہیں ۔ اور اپنے اپنے حلقوں میں بوں باں کرکے چپ ہولیتے ہیں ۔
دھوکہ اور فراڈ محض فرد اور افراد کے درمیان نہیں چل رہا ہوتا ۔ بلکہ ہر چھوٹی بڑی کمپنی ، ادارہ ، گروپ ، خواہ نجی ہو یا سرکاری ، اپنی اپنی سطح پر اپنے کسٹمرز کو حیلوں بہانوں سے لوٹ رہا ہوتا ہے ۔ کبھی اعلانیہ تو کبھی مخفی ۔ سوسائٹی کے کسی بھی شعبے کو دیکھ لیں ۔ ہمیں ڈرامے بازیاں نظر آئیں گی ۔ زیادہ سے زیادہ منافع کی لالچ میں بھائی ، بھائی کا گلا کاٹتا ہوا ملے گا ۔ کئی جگہوں پر تو دکھائی دینے والے دھوکوں سے تو ہم اپنا دامن بچانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ۔ مگر ان گنت موقعوں پر ان سے بچنا ممکن نہیں ہوتا ۔
دھوکے کھا کر نقصان اٹھانے والے افراد کی نفسیات شکست و ریخت کا شکار ہونے لگتی ہے ۔ اور ہر جگہ ، ہر محکمے کے ہاتھوں لٹنے کے بعد اس بری حالت میں ہوجاتی ہے کہ پھر وہ کسی بھی فرد ، کسی بھی ادارے پر تمام عمر کسی بھی طرح کا اعتبار نہیں کر پاتے ۔ اور خود بھی اپنے لیول پر اوروں کو دھوکہ دینے لگ جاتے ہیں ۔ یوں ایک فرد ، ایک ادارے کی دھوکہ بازی پورے معاشرے میں فساد اور شر پھیلا دیتی ہے ۔ اور در در ، گھر گھر ، فراڈ اور دھوکہ دہی کی وارداتوں کا سلسلہ رواں دواں ہوجاتا ہے ۔
کوئی بھی انسان نہ فرشتہ ہوتا ہے ، نہ فرشتہ بن سکتا ہے ۔ ہر انسان ، دیگر انسانوں اور پورے معاشرے کے عمومی رویوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے رویوں کا حامل ہوتا ہے ۔ معاشرے کا Mirror Image ہوتا ہے ۔
شریف سے شریف انسان کے ساتھ بھی اگر دس بار Cheating ہو ، تو موقع ملتے ہی ایک بار اس نے بھی اپنے سے کم تر کو Cheat کر ڈالنا ہوتا ہے ۔ عام طور پر عام اور معصوم لوگ ہی بار بار کے دھوکوں کا شکار ہوتے ہیں ۔ لیکن ایک وقت ایسا آتا ہے جب زیادتیوں کے مارے لوگوں کے پاس مزید لٹانے کے لئیے کچھ نہیں بچتا تو وہ بھی بحالت مجبوری ، اپنے آس پاس کے لوگوں کو لوٹنے لگتے ہیں ۔
میرے ایک دوست عبدالروف آرائیں کا کہنا ہے کہ Trust But Verified اور ایک دوسرے دوست افتخار احمد نے اپنی حالیہ گفتگو میں کہا کہ Never Trust A Person Until And Unless Proven Otherwise . دونوں نے اپنے اپنے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں فریب ، فراڈ اور دھوکہ دہی کی موجودہ عمومی فضا اور ماحول کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی اپنی بات کی ۔ اور اپنی اپنی جگہ بالکل درست بات کی ۔ دونوں دوست انتہائی ایماندار اور سچے اور کھرے انسان ہیں ۔ کبھی کسی کو دھوکہ نہ دینے والے ۔ اپنے کام سے کام رکھنے والے ۔ اپنے اپنے مقام پر معاشرے میں عزت و اعلی مقام رکھنے والے ۔ مگر چونکہ انہوں نے معاشرے سے جو کچھ سیکھا ، اس کی سمری اپنے الفاظ میں بیان کردی ۔ یعنی زندگی کے اس مقام پر آکر ان کے نزدیک خواہ دوست ہو یا سگا بھائی ، کوئی بھی Blind Trust کے قابل نہیں ۔
اس حوالے سے میرے یہ دونوں دوست مجھ سے ہزار گنا بہتر ہیں اور بہت سے ایسے گہرے اور کاری نقصانات سے بچتے رہے ہیں ، جن کا سامنا مجھے اکثر کرنا پڑتا ہے ، اپنی حماقتوں کے باعث ۔ سوچے سمجھے ، جانے بوجھے ، آنکھیں بند کرکے ، جانچے پرکھے بنا کسی پر بھی اعتماد کرکے ۔ الحمداللہ آج تک سو میں سے ننانوے لوگوں نے اعتماد کو ٹھیس ہی پہنچائی ہے ۔ اب تک کا تجربہ اور مشاہدہ یہی رہا ہے کہ بنا کسی مطلب ، غرض اور فائدے کے شاید ہی کوئی قریب آیا ہو ۔ کچھ دینا تو درکنار ، لین دین یا کسی ظاہری یا مخفی لالچ و طلب کے بنا شاید ہی کسی نے محبت یا دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہو ۔
یہاں تک تو بات پھر بھی سمجھ میں آتی ہے کہ آج کے زمانے کا دستور یہی ہے ۔ مگر ، اگر اپنی زندگی کا طائرانہ جائزہ لیتا ہوں تو کئی مقامات ایسے پاتا ہوں ، جب مطلب اور غرض سے بڑھ کر بات باقاعدہ فریب اور دھوکے تک گئی اور مادی حوالوں سے مجھے نقصان بھی اٹھانا پڑا ۔ مطلبی اور خود غرض دوستوں اور لوگوں کا کیا ذکر کہ مجھ سمیت ہم سب ہی اپنی زندگی میں ان کی محبتوں میں مبتلا ہو کر اپنا نقصان کرتے ہیں ۔ مگر سرکاری ، نیم سرکاری اور نجی اداروں کا فریب اور فراڈ ایسا ہوتا ہے ، جو بنا کسی تفریق کے اور بنا ہماری محبت کے ، ہم سب کو لوٹ رہا ہوتا ہے اور ہم چوں بھی نہیں کرسکتے ۔
پانی آتا نہیں ۔ اور ہمیں ہر ماہ پانی کے بل بھرنے پڑتے ہیں ۔ گٹر ابل رہے ہیں ، کچرے کے ڈھیر ہزاروں بیماریاں پیدا کررہے ہیں ۔ اور ہمیں KMC کے بل موصول ہورہے ہیں ۔ KE کے سپر فاسٹ میٹر ، بجلی استعمال ہو یا نہ ہو ، مستقل چل رہے ہیں اور Unit بڑھ رہے ہیں ۔ سال بھر سے فلیٹ بند ہے ، نہ کوئی بندہ ہے ، نہ کوئی بندے کی ذات ہے ۔ مگر سال بھر پہلے کی ایوریج پر بنا میٹر چیک کئیے سوئی گیس کے بل آرہے ہیں ۔ مہینے میں 20 دن PTCL فون اور براڈبینڈ انٹرنیٹ بند رہتا ہے ۔ مگر بل پورے مہینے کا بھرنا پڑتا ہے ۔ اور سونے پر سہاگہ یہ کہ تنگ آکر جب فون اور انٹرنیٹ کنکشن بند کروایا جائے تو REUTERS اور وائی فائی ڈیوائس ، جو ہم نے PTCL سے باقاعدہ خریدی ہوئی ہوتی ہے ، اس کو واپس کئیے بنا کنکشن بند نہیں کیا جاتا ۔ اور اس کے پیسے بھی ہمیں واپس نہیں کئیے جاتے ۔ موبائل فون کمپنیز کا کیا کہنا کہ دس طرح کے ٹیکس کے بعد کمپنی کے نمائندے سے بات کرنے کے چارجز الگ اور کال سیٹ اپ چارج الگ ۔ اور اگر کسی موبائل کمپنی کی ڈیٹا انٹرنیٹ ڈیوائس لے لی اور چار چھ ماہ استعمال نہ کی تو ڈیٹا نمبر آپ کے نام سے غائب اور ڈیوائس بیکار اور کباڑ ۔ نئی ڈیوائس خریدیں اور پھر پیسے بھریں ۔
متعلقہ افراد سے بات کی جائے تو ایک ہی جواب ۔ کمپنی کی پالیسی ہے ۔ پاکستان ریلوے ہو یا PIA یا کوئی بینک یا پوسٹ آفس ۔ اور یا پھر سروسز کا کوئی نجی ادارہ ۔ After Sale Services ہمیں کہیں بھی نظر نہیں آتیں ۔ کیا ہسپتال ، کیا کالج ، کیا یونیورسٹی ۔
کیا Peon کیا Director . اوپر سے نیچے تک آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے ۔ رشوت اور کرپشن تو بہت بعد کی باتیں ہیں ۔ ہر محکمے کے ہر نظام میں Underhand فریب اور دھوکہ دہی عام ہے ۔
اور ہمارے کیا ، ہر دین ہر مذہب میں یہ سب حرام ہے ۔ مگر کیا خاص کیا عوام ، ہم سب اس معاشرتی عارضے کا شکار ہیں ۔ آپ کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں ۔ خود سوچیں ۔ آپ کے اپنے پروفیشن ، اپنے کام میں کتنی طرح کی دو نمبری چل رہی ہے ۔ ذرا دیر کو تنہائی میں خود سے سچ بول کر دیکھئیے ۔ آپ کی گردن شرم و ندامت سے جھکتی چلی جائے گی ۔ آپ کے سامنے آپ کے اپنے فراڈ نمایاں ہوتے چلے جائیں گے ۔
کوئی کم ، کوئی زیادہ اور کوئی بہت زیادہ ، اپنے اپنے مقام پر دوسروں کو دھوکہ دینے میں مصروف ہے ۔
اپنے اپنے فریبوں کو Justify کرنے کے لئیے ہم سب نے ان گنت Reasons کاڑھ لئیے ہیں ۔ جو ہم خود کو بھی دے رہے ہوتے ہیں اور کوئی پوچھے تو اس کو بھی بتا رہے ہوتے ہیں ۔
میرے ساتھ تو جب بھی کبھی اس طرح کی ہوتی ہے اور کوئی شخص یا کوئی ادارہ کوئی چکر چلا کر ، میرے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتا ہے تو مجھے بہت خوشی ہوتی ہے ۔ میں دل ہی دل میں اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں ۔ شکرانے کے نفل پڑھتا ہوں ۔ اپنا دامن جھاڑتا ہوں ۔ اور سکون سے سو جاتا ہوں ۔ ہر مادی نقصان مجھے بتاتا ہے ، خبردار کرتا ہے ۔ کہ تمھیں ذرا دیر کو رک کر اپنا محاسبہ کرنا ہے ۔ اپنے آپ کو کٹہڑے میں کھڑا کرنا ہے ۔ اور ایمانداری سے اپنا اور اپنے اعمال اور افعال کا جائزہ لینا ہے ۔
کہیں نہ کہیں ، کسی نہ کسی شکل میں یا تو مجھ سے کوئی گڑبڑ ہوئی ہے ، یا نا دانستگی میں کسی کے ساتھ کوئی زیادتی ، یا زکوات و صدقات میں کمی ، یا کوئی ناجائز آمدنی ، یا انجانے میں کسی کا دل دکھایا ہوگا ، یا اپنی مصروفیت کی وجہ سے کسی سائل کا مسئلہ حل نہیں کر پایا ۔ یا کوئی اور لغزش یا کوتاہی ۔ اور یا پھر کسی بڑے انعام سے پہلے کی آزمائش اور امتحان ۔
ہر دو صورتوں میں دل کو اطمینان ہوجاتا ہے کہ شکر ہے اسی دنیا میں اور ابھی جیتے جاگتے جو غلطیاں ہوئی ہیں ، اللہ تعالی کی رحمت نے اس بظاہر بنا کسی وجہ کے نقصان کی صورت ، توبہ تلافی کا ایک اور موقع عطا کردیا ہے ۔ اپنی اصلاح کے لئیے کچھ اور مہلت دے دی ہے ۔
کئی بار دل نے اور دوستوں نے بدلے اور انتقام کے لئیے اکسایا ۔ مگر ہر بار آخری فیصلہ ، ہجرت کا ہوا ۔ اس کام ، اس شخص ، اس جگہ ، اس سروس سے خاموشی سے رخصت لے لی ۔ کسی شکایت ، کسی شکوے کے بنا ۔ کہ سب سے بہترین منصف اللہ تعالی کی ذات ہے ۔
اللہ کا فیصلہ سب سے اعلی ہوتا ہے ۔
بس ذرا صبر کرنا پڑتا ہے ۔ اپنے دل پر جبر کرنا پڑتا ہے ۔
بڑے سے بڑے نقصان کا ازالہ ممکن ہے ۔ ایمان کے زوال کا کوئی ازالہ نہیں ۔ شرط صرف ایک ہے ۔
اور وہ یہ کہ ہم ٹھان لیں کہ کوئی ہمیں کتنا بھی دھوکہ کیوں نہ دے ۔ ہمارا کتنا بھی نقصان کیوں نہ ہو جائے ۔ ہم نے کسی کو دھوکہ نہیں دینا ۔ ہم نے کسی کے ساتھ فراڈ نہیں کرنا ۔ ہم نے اپنے کام ، اپنے کاروبار کی بنیاد سچ پر رکھنی ہے ۔ اپنے کام کے پھیلاؤ کی نہیں بلکہ اپنے رزق میں حلال اور برکت کی دعا مانگنی ہے ۔
When We Don't Cheat , We Wouldn't Be Cheated
کیونکہ پھر اللہ تعالی کی رحمت ہمیں اپنے سائے میں رکھتی ہے اور ہمیں دھوکے اور فریب سے بچا کر رکھتی ہے ۔

" دیتے ہیں دھوکا "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ،
جسمانی ، روحانی ، جنسی و منشیات ۔

www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.drsabirkhan.blogspot.com
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
www.g.page/DUAAGO

Instagram @drduaago 

اتوار، 20 اکتوبر، 2019

" کبھی کبھی " ڈاکٹر صابر حسین خان

" کبھی کبھی "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

کبھی کبھی کچھ موسم ، کچھ مخصوص ماہ یا دن یا کوئی خاص وقت ہمیں کسی خاص کیفیت میں لے جاتے ہیں ۔ کوئی پرانی یاد ، کوئی پرانا واقعہ ، کوئی پرانی بات ، کوئی دوست ، کوئی چہرہ ، بیٹھے بیٹھے ہمیں ماضی اور اداسی کے سفر کی جانب کھینچ لیتا ہے ۔ ہم نہ چاہتے ہوئے بھی بیتے ہوئے دنوں کو یاد کرنے لگتے ہیں ۔ بیٹھے بیٹھے کھو جاتے ہیں ۔ یہ خاص کیفیت کبھی تو کچھ لمحوں کی ہوتی ہے ۔ اور کبھی اس کا دورانیہ کچھ گھنٹوں اور بہت ہی کبھی کبھی کچھ دنوں یا ہفتوں تک پھیل جاتا ہے ۔ عام طور پر تنہائی کے انمول لمحات میں ہمارا دل اور ہمارا ذہن اس طرح کی فضا میں اچانک جا نکلتا ہے ۔ سکون اور سناٹا ہو تو کبھی کبھی کی یہ خاص کیفیت اور مزہ دیتی ہے ۔ دل چاہتا ہے کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر خود کو ماضی کے خوبصورت دنوں کے سپرد کردیا جائے ۔ ہر مسئلہ ، ہر غم بھلا کر یادوں کی سنہری دھوپ میں پاوں پسار کر آنکھیں بند کر لی جائیں ۔ جو ہو رہا ہے ، اسے ہونے دیا جائے ۔ جیسا چل رہا ہے ، چلنے دیا جائے ۔
کوئی آواز ہمارے آرام میں خلل نہ ڈالے ۔ کوئی کام ہمارے اس اہم کام میں رکاوٹ نہ ڈالے ۔
مگر افسوس کہ یہ کیفیت مستقل نہیں رہتی ۔ ہمیں ہر حال ، اپنے حال میں لوٹنا پڑتا ہے ۔ حال کے حاشیوں اور حوالوں کو نپٹنا پڑتا ہے ۔ اور جیسے تیسے زندگی کی گاڑی کو آگے کھینچنا پڑتا ہے ۔ ہمارا حال ، ماضی میں بدلتا جاتا ہے ۔ کوئی طریقہ ، کوئی کوشش گزرتے ہوئے لمحوں کو روک نہیں سکتی ۔
انسان کی نفسیات میں قدرت نے بڑی عجیب صلاحیت رکھی ہے ۔ ماضی کی تلخ اور نا خوشگوار باتیں ہماری یادداشت کے عقبی خانوں میں جمع ہوتی ہیں ۔ جبکہ پسندیدہ اور خوشگوار یادیں عام طور پر ذہن اور سوچ کے حاضر حصوں میں رہتی ہیں ۔ کبھی بھی ، ذرا سی ہلچل سے ہم ان یادوں کا میلہ سجا لیتے ہیں ۔ سجا سکتے ہیں ۔ البتہ وہ لوگ جو ذہنی ، نفسیاتی اور شخصی عارضوں کا شکار ہوتے ہیں ، ان کی سوچوں کا نظام برعکس ہوتا ہے ۔ عام طور پر منفی یا تخریبی ہوتا ہے ۔ ایسے متاثرہ افراد ، ماضی کی تلخ اور ناپسندیدہ اور ناخوشگوار باتوں کو بھلا نہیں پاتے ۔ اور کبھی کبھی کسی خاص موڈ ، مزاج ، ماحول یا موسم کی بجائے ہر وقت یا زیادہ تر وقت اپنے ماضی میں کھوئے رہتے ہیں اور تکلیف دہ یادوں کی جگالی کرتے رہتے ہیں ۔ حال کی ہر بات ان کو کسی نہ کسی حوالے سے ماضی میں لے جاتی ہے ۔ اپنے ہر موجودہ ایشو کو کسی نہ کسی بہانے ماضی سے منسلک کرنے میں یہ لوگ دیر نہیں لگاتے ۔ چاچھ ہو یا لسی ، دودھ ہو یا یخنی ، ہر شے کو اتنا پھونک پھونک کر پیتے ہیں کہ ٹھنڈا ، گرم ہوجاتا ہے اور گرم ، ٹھنڈا ۔
ہماری سوچ اور ہمارا سوچنے کا انداز ہمیں معاشرے میں ایک خاص مقام عطا کرتا ہے ۔ نہ صرف معاشرے میں ، بلکہ ہمارے ہر عمل ، ہر رد عمل اور ہر رویے پر ہماری سوچ کا اثر پڑ رہا ہوتا ہے ۔ اگر ہماری سوچ ، ماضی کے واقعات اور حادثات اور خیالات کے تابع ہوگی تو ہمارے حال پر اس کے اثرات مناسب اور متوازن اور متناسب نہیں ہوں گے ۔ اور ہمارے آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے مواقع کم سے کم ہوتے چلے جائیں گے ۔
ماضی کے تجربات سے سیکھنا ، دانشمندی ہے ۔ ماضی میں کھوئے ہوئے رہنا بیوقوفی ہے ۔ آپ کا واسطہ اکثر ایسے لوگوں سے پڑتا ہوگا جو بات بات پر اپنے یا اپنے آباواجداد یا نسل و قوم کے شاندار و سنہری ماضی کی مثالیں دیتے دکھائی دیں گے ۔ اور جب آپ ان کی حالیہ ذاتی زندگی کو دیکھیں گے تو وہ ہر حوالے سے زوال پذیر دکھائی دے گی ۔
اسی طرح جب آپ ماہرین نفسیات کے کلینکس جا کر وہاں آنے والے مریضوں کی ہسٹری سنیں گے تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ نوے فیصد نفسیاتی مریض کسی نہ کسی اچھے یا برے حوالے سے ہنوز اپنے ماضی اور ماضی کی تلخ اور ناپسندیدہ یادوں سے جڑے ہوئے ہیں ۔ اور ان سے پیچھا چھڑانے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے ہیں ۔ اور ان کے نفسیاتی خلفشار اور جذباتی الجھنوں کو برقرار رکھنے میں گہرا ہاتھ ، ماضی سے چپکے رہنا ہے ۔ جس کی وجہ سے اپنے حال اور موجودہ حالات سے ان کی مطابقت نہیں ہو پاتی ۔ اور اس تضاد اور ٹکراؤ کے نتیجے میں ان کے اعصاب جواب دے جاتے ہیں ۔
اپنے گزرے ہوئے کل کو اپنے آج سے ہمہ وقت Compare کرتے رہنے اور دس ، بیس ، پچاس ، سو سال پہلے کے رواجوں اور طریقوں کو آج کے لائف اسٹائل میں ایک حد تک تو بلینڈ کیا جاسکتا ہے ، اور وہ بھی بہت ہی معمولی حد تک ۔ ایک مخصوص حد کے بعد ماضی کی کوئی بھی بات آج کے فریم میں کسی صورت سیٹ نہیں ہوسکتی ۔
ہزاروں مثالیں موجود ہیں مگر کروڑوں لوگوں کے دلوں اور دماغوں میں ہنوز ماضی کے مزار دفن بھی ہیں اور شب و روز ان پر چراغ جلاتے رہنا اور لکیروں کو پیٹتے رہنے کا سلسلہ زور و شور سے جاری و ساری بھی ہے ۔ اس صورت ہر طرح کی پروگریس رک جاتی ہے ۔
کبھی کبھی کا Nostalgia یا ماضی کی یادوں کا جھونکا تو آدمی کو ترو تازہ اور ریفریش کرتا ہے ۔ لیکن یادوں کا جنگل اور پرانی باتوں کا چنگل آدمی کو کسی کام کا نہیں چھوڑتا ۔
آج کی تاریخ میں اگر کوئی آپ سے کہے کہ وہ پیدل یا اونٹ پر حج کے سفر کو نکل رہا ہے تو دل ہی دل میں تو آپ اس کے ایمان کے درجات کو سراہیں گے مگر آپ کی سوچ میں یک لخت اس آدمی کی دماغی صحت کی بابت سوالیہ نشان پیدا ہوجائے گا ۔ آج کے دور میں کروڑوں میں کوئی ایک ہی ایسا صاحب ایمان و علم ملے گا ، جس نے اپنی تقاریر میں مائیک اور لاوڈ اسپیکر کی مدد نہ لی ہو یا اپنی تحاریر کو لوگوں تک پہنچانے کے لئیے اخباروں اور کتابوں کا سہارا استعمال نہ کیا ہو ۔
یا کوئی آپ سے کہے کہ وہ دشمنان دین سے جہاد کے لئیے سامان حرب جمع کررہا ہے اور اسے اس ضمن میں گھوڑے ، تیر کمان ، تلواریں ، ڈھالیں ، وغیرہ درکار ہیں اور اتنے لاکھ پہلوان اور شہہ سوار تو آپ اسے کسی ماہر نفسیات کا پتہ بتائیں گے یا اس کے لشکر کا سپہ سالار بننا پسند کریں گے ۔ پہلی صورت میں آپ اسے قائل کرنے کی کوشش کریں گے کہ آج کی جنگیں اس طرح نہیں لڑی جاتیں ، نہیں لڑی جا سکتیں ۔ اور دوسری صورت میں آپ کی اپنی ذہنی حالت مشکوک ٹہرے گی ۔
یہاں تک تو آپ سب ہی متفق ہوں گے ۔ مگر اس کا کیا حل ہو کہ جب جگہ جگہ یہ سننے کو ملتا رہے کہ ' ہمارے یہاں تو ایسا نہیں ہوتا ، ہمارے یہاں تو ویسا ہوتا ہے ، ہمارے باپ دادا نے تو کبھی ایسا نہیں کیا ، ہمارے خاندان میں اس کا رواج نہیں ، ہماری سات نسلوں نے کبھی یوں نہیں سوچا تھا ، '
اور یا پھر یہ کہ ' اتنے سو سال پہلے تو یہ کام ایسے ہوتا تھا ، فلاں فلاں کے زمانے میں تو شیر اور بکری ایک گھاٹ سے پانی پیتے تھے ، فلاں بزرگ تو اتنی صدیاں پہلے ایسی زندگی گزارتے تھے ، گزرے وقتوں میں تو یہ بات ایسے ہوتی تھی ، '
سوچ کی سوئی اگر شمال جنوب کی جانب ہو اور عملی زندگی کے معاملات اور تقاضے مشرق مغرب کی سمت میں جھکاؤ دے رہے ہوں تو کیا فرد ، کیا قوم ، کیا ملک ، سب نے ہی ٹوٹ کر بکھر جانا ہوتا ہے ۔ خاص طور پر اس وقت ، جب تصادم ، ماضی اور حال کے مابین ہو ۔
اپنے آپ کو حال میں رکھنے کی عادت ڈالئیے ۔ کبھی کبھی ماضی کے جھرونکوں میں جھانک کر دل خوش کر لیا کیجئیے ۔ مگر کبھی بھی اپنے ماضی کو اپنے حال پر حاوی نہ ہونے دیجئیے ۔
ہمارے معاشرتی انتشار اور بگاڑ کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے ۔ اپنی ذاتی زندگی کو خوشگوار اور کامیاب بنانے کے لئیے اپنی سوچ میں سے ماضی کی تلخ اور نا خوشگوار یادوں کی صفائی کی مہم چلائیے ۔ اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو آپ اپنے مستقبل کو بھی اپنے ہاتھوں قتل کرتے رہیں گے ۔ اور تمام عمر گئی باتوں اور گزری راتوں کا رونا روتے رہیں گے ۔


" کبھی کبھی "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ،
جسمانی ، روحانی ، جنسی و منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ شاعر ۔ بلاگر ۔ پامسٹ

www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.drsabirkhan.blogspot.com
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
www.g.page/DUAAGO

Instagram @drduaago 

جمعرات، 17 اکتوبر، 2019

" جال " ڈاکٹر صابر حسین خان

" جال " 
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون 
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان 


" یار ؛ تم اس بار بھی پیسے لینے آگئے ۔ سوچا بھی نہیں کہ پورے مہینے کتنے دن نیٹ آن رہا ہے ۔ اتنے پیسے تو تمہیں کالز اور میسج کرنے میں خرچ ہوگئے ہوں گے ۔ ہاں ، پچھلے پانچ دن سے صحیح چل رہا ہے ۔
جب سے تم نے سیٹنگ تبدیل کی ہے "
پہلی تاریخ کو دروازے پر ساجد کی شکل دیکھتے ہی میری شکایت شروع ہوگئی ۔ 
گزشتہ سال ، اپریل مئی میں کیبل نیٹ کا تجربہ شروع کیا تھا ۔ کئی سال تک Qubee کے ساتھ رہنے کے بعد ، جب اس کے سگنلز کمزور ہونا شروع ہوئے اور پھر اس کا قریبی آفس بھی بند ہوگیا تو کئی ماہ ڈونگل پر کام چلانے پر جب زیادہ گھچ پچ ہونے لگی تو نئے تجربے کا سوچا گیا ۔ قرعہ فال ، فاریہ نیٹ ورک کے زیر سایہ چلنے والے ایک قریبی کیبل پروائیڈر کے نام نکلا ، جس کا انٹر نیٹ گلی کے کئی گھروں میں چل رہا تھا ۔ 
انٹرنیٹ کے بہانے ساجد سے پہلی ملاقات ہوئی ۔ جو پی ایم ایس نیٹ ورک کے نام سے کیبل نیٹ کا کام کررہا تھا ۔ 
بہت سالوں سے یہ بات میرے مشاہدے میں آئی ہے کہ بہت سے لوگ مجھ سے ملنے سے پہلے کچھ اور ہوتے ہیں اور مجھ سے جدا ہونے کے بعد ان کی زندگی اور طور طریقوں میں پلس یا مائینس ، اچھی یا بری ، کوئی نہ کوئی واضح تبدیلی ضرور آجاتی ہے ۔ 
ساجد کے لڑھکتے پڑھکتے انٹرنیٹ کے ساتھ ڈیڑھ سال گزارنے کے بعد اب کی بار میں نے یہ بھی کہا کہ بھائی اب تم کوئی اور کام کرنے کا سوچو ۔ یہ کام تمھارے بس کا نہیں رہا ۔ ان اٹھارہ مہینوں میں کوئی ماہ ایسا نہیں رہا کہ ساجد کی انٹرنیٹ سروس نے تنگ نہ کیا ہو ۔ کبھی صبح ، کبھی دوپہر ، کبھی شام تو کبھی رات کے آخری پہر ۔ ساجد کا نیٹ کبھی بھی اچانک جواب دے دیتا ہے ۔ کبھی تو کئی کئی دن مستقل پہیہ گھومتا رہتا ہے یا Internet may not be available 
کا میسج آتا رہتا ہے ۔ بیچ میں ایک ماہ کے لئیے تنگ ہو کر میں نے PMS Network کی سروس بند بھی کروادی ۔ لیکن کبھی کبھی ، جب کبھی کسی محنتی اور باہمت نوجوان سے محبت ہوجاتی ہے ۔ تو اس کی سروس پس پشت چلی جاتی ہے اور انسان کا دل اور جذبہ ہماری لاجک سے چپک جاتا ہے ۔
ساجد بھی ایک ایسا ہی دل والا ، جذبے والا ، محبت کرنے والا ، خیال رکھنے والا ، محنتی اور باہمت نوجوان ہے ۔ اور مجھے بھی اس کی محنت اور لگن کی وجہ سے اس سے دلی انسیت ہوگئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پورے ماہ نیٹ بند ہے کا میسج کرتا رہتا ہوں اور جب وہ پیسے لینے آتا ہے تو اس کو جھاڑتا بھی ہوں ، کہتا سنتا بھی ہوں اور ' اگلے ماہ ایسا نہیں ہونا چاہئیے ' کہہ کر بات ختم بھی کردیتا ہوں ۔
محلے میں اور بھی دو چار انٹر نیٹ سروس پروائیڈر موجود ہیں ۔ مگر ساجد سے محبت کی بنا اب تک کسی اور سے کوئی بات نہیں کی ہے ۔ 
ہوسکتا ہے ، ان کی سروس ، ساجد کی سروس سے بہتر ہو ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کا معیار اور زیادہ خراب ہو ۔ سروس نہ بدلنے کی ایک وجہ تو ساجد ہے ۔ ہر بات مان لیتا ہے ۔ اپنی غلطی تسلیم کرلیتا ہے ۔ دن ہو یا رات ، کمپلین دور کرنے خود آجاتا ہے ۔ رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئیے ہر طرح کی جگاڑ کرلیتا ہے ۔ سب سے بڑی بات یہ کہ انتہائی ادب ، احترام اور بہت دھیمے لہجے میں بات کرتا ہے ۔ کبھی الجھتا نہیں ۔ کبھی تیز آواز سے نہیں بولتا ۔ زیادہ تعلیم یافتہ نہیں مگر تہذیب اور شائستگی میں بڑے بڑے اعلی ڈگری یافتہ اور مجھ جیسے بڑی عمر کے لوگوں سے بھی زیادہ آگے ہے ۔ بہت چھوٹی عمر سے کام کررہا ہے اور واقعی خون پسینہ ایک کرکے رزق کما رہا ہے ۔ اور نہ صرف اپنی بلکہ مرحوم بھائی کی فیملی کو بھی سنبھال رہا ہے ۔ ہر وقت ہر نئی بات سیکھنے کے لئیے تیار رہتا ہے ۔ اسے چھبیس ستائیس سال کی عمر میں ہی اس بات کا ادراک ہوچکا ہے کہ کاروبار میں بھی جب تک ، ایک خاص وقت کے بعد ، نئی اور موثر تبدیلی نہ لائی جائے تو وہ پہلے Stagnant ہوجاتا ہے اور پھر تنزلی کا شکار ہونے لگتا ہے ۔ وہ کئی بار مجھے بھی انٹرنیٹ کو فائبر ٹیکنالوجی پر Convert کرنے کو کہہ چکا ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ فی الحال میرا بجٹ اس اضافی خرچہ کو برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔
اور اس ماہ بھی جب میں نے اس سے کہا کہ انٹرنیٹ سروس چلانا تمہارے بس کا روگ نہیں ، کچھ اور کرنے کا سوچو ۔ تو اس کا جواب بہت خوبصورت تھا ۔
" جی انکل : آپ صحیح کہہ رہے ہیں ۔ انٹرنیٹ وائرنگ کا زمانہ پرانا ہوگیا ۔ دو چار ماہ میں بند ہوجانا ہے اس نے ۔ اپنے محلے میں بھی فائبر آگیا ہے ۔ انڈر گراؤنڈ ۔ جگہ جگہ گڑھے کھد چکے ہیں ۔ آپ نے بھی دیکھے ہوں گے ۔ میں بینک سے گاڑی نکلوا چکا ہوں ۔ 2007 کی کورے ۔ Careem میں چلانے کے لئیے ۔ ساڑھے سات لاکھ میں ۔ بس اب وہ شروع کردینا ہے ۔ دسمبر ، جنوری تک یہ سب ختم ہوجانا ہے "
میں نے تو اپنی دانست میں ساجد کو باؤنسر مارا تھا ۔ مگر اس نے ہک کرکے گیند باؤنڈری کے باہر پھینک دی ۔
ایسے سمجھدار اور حوصلے و جذبے والے نوجوان آج کل کہاں ملتے اور دکھتے ہیں ۔ 
ساجد کی یہ بات سن کر مجھے اعظم یاد آگیا ۔ ہمارے محلے کی Mono Video کا پروپرائیٹر ۔ آج سے کوئی 24 سال پہلے اس کی دکان سے روزانہ پلس گلوبل کی اردو ترجمے کے ساتھ انگریزی فلموں کے وڈیو کیسٹ 20 روپے کرائے پر لیا کرتا اور VCR پر دیکھا کرتا ۔ اس وقت اعظم کی عمر یہی کوئی بیس بائیس سال ہوگی ۔ اور وہ اپنے ماموں اور بھائی اور بھانجوں کی مدد سے ایک فل فلیج رننگ کاروبار کررہا تھا ۔ پھر پانچ سال بعد کمپیوٹر عام ہونا شروع ہو گیا ۔ اور VCR قصہ پارینہ بن گیا ۔ 
ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھنا اعظم کی سرشت میں شامل نہیں تھا ۔ اس نے لاکھوں روپے کے وڈیو کیسٹ ، کوڑیوں کے بھاو ، ردی والے کو فروخت کیں اور پہلے CD اور پھر DVD کرائے پر دینا اور فروخت کرنا شروع کردیں ۔ 
مزید پانچ سال بعد جب انٹرنیٹ اور کیبل ٹی وی نیٹ شروع ہوا تو اعظم کو پھر ردی والے کی مدد لینی پڑی ۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے مونو وڈیو شاپ ، مونو گفٹ شاپ میں تبدیل ہوگئی ۔ چین سے کنٹینر بھر کر خوبصورت کھلونوں اور دیگر گفٹ آئیٹمز کے ڈھیر آنا شروع ہوگئے ۔ اور اس کی دوکان پر رش کا وہی عالم دوبارہ شروع ہو گیا جو دس بارہ سال پہلے تھا ۔ 
مگر قدرت نے اعظم کو اگلے پانچ سال بعد کسی اور تبدیلی کا موقع نہیں دینا تھا ۔ 
مجھے نہیں پتہ کہ وہ کب ، کیوں اور کس طرح کولڈ ڈرنکس کی ایڈیکشن کا عادی ہوا ۔ مجھے اس کی اس لت کا اس وقت پتہ چلا جب وہ اچانک عباسی ہسپتال میں ایڈمٹ ہوا ۔ اور چار چھ گھنٹوں میں اللہ کو پیارا ہوگیا ۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ ایک عرصے سے روزانہ ڈیڑھ لیٹر کی دو کولڈ ڈرنکس کی بوتلیں پیا کرتا تھا اور کبھی تو اس سے بھی زیادہ ۔ آخری دن اس کی شوگر چھ سو سے زیادہ تھی اور اس کے گردے مکمل فیل ہوچکے تھے ۔ اس وقت کوئی علاج کارگر ثابت نہیں ہوا ۔ اور وہ بھرے پرے کاروبار زندگی کو چھوڑ کر عدم کے سفر پر روانہ ہو گیا ۔
پھر ایک آدھ سال میں اس کی مونو گفٹ شاپ بھی بند ہوگئی ۔ اور آج اس کے گھر والوں کے سوا ، مجھ جیسے کچھ لوگ ہی اس کے کام اور اس کے نام سے واقف ہوں گے ۔
کام کوئی سا بھی ہو ، کچھ عرصے کے بعد تجدید کا متقاضی ہوتا ہے ۔ بہت کم نوجوان ، بہت کم لوگ بدلتے موسموں کے مزاج کو سمجھ پاتے ہیں ۔ وقت کے ساتھ اپنے آپ کو ، اپنے کام کو بدل پاتے ہیں ۔ ہجرت کر پاتے ہیں ۔ ہر کوئی اعظم اور ساجد کی طرح دل گردہ نہیں رکھتا اور نہ ہی ہر کسی کا Vision اتنا واضح ہوتا ہے اور نہ ہی قدرت ہر کسی کو Wisdom عطا کرتی ہے ۔
وژن اور وزڈم کی نعمت ہمت والوں ، جذبے والوں کو ملتی ہے ۔ کہیں نہ ٹہرنے والوں کو ملتی ہے ۔
وقت کی ضرورت سمجھنے والوں کو ملتی ہے ۔ تمام عمر ایک ہی Cycle میں ایک ہی طریقہ سے ایک ہی طرح کے کام کرتے رہنے سے ہم کبھی بھی اپنے اندر کے خزانے سے واقف نہیں ہوسکتے ۔ ہمارے Hidden Treasure کبھی بھی Routine اور Rituals کو Follow کرنے سے باہر نہیں آ پاتے ۔ ہر نیا کام ، ہر نیا Venture ہمارے Latent Potential کو Activate کرتا ہے ، بیدار کرتا ہے ۔ اور ہمارے وژن اور وزڈم میں اضافہ کرتا ہے ۔ ہر نیا تجربہ ، ہر نیا مشاہدہ ، ایک نئی راہ دکھاتا ہے ۔ ہر نیا قدم ، ایک نئی منزل کی راہیں استوار کرتا ہے ۔ 
مگر ہم میں سے اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو کوئی بھی نیا قدم اٹھانے سے گھبراتے ہیں ، ڈرتے ہیں ۔ حالات بد سے بدتر کیوں نہ ہوجائیں ، ہم اپنے آپ کو ، اپنے کام کو ، اپنی اپروچ کو بدلنے پر راضی نہیں ہوتے ۔ ہم میں سے کوئی بھی اپنا اپنا Comfort Zone چھوڑنے پر تیار نہیں ۔ ہمارے پاس ایسا نہ کرنے کے ہزاروں جواز ہوتے ہیں ۔ کچھ نیا نہ کرنے کی ان گنت تاویلیں ہوتی ہیں ۔ اور سب سے بڑی دلیل یہ ہوتی ہے کہ نئے کام کا ہمارے پاس کوئی تجربہ نہیں ۔ ہم نہیں کرسکتے ۔ اور اگر بنا تجربے کے کریں گے تو ناکام ہوجائیں گے ۔ ہمارا وقت ضائع ہوگا ۔ ہمارے پیسے ڈوب جائیں گے ۔
اس سوچ کے باوجود ہمارا وقت ضائع ہوتا رہتا ہے ۔ ہمارے وسائل کم پڑنے لگتے ہیں ۔ ہمارے مسائل بڑھنے لگتے ہیں ۔ اور ہم اچھے وقتوں کے انتظار میں ، خالی ہاتھ بیٹھے دعائیں مانگتے رہتے ہیں ۔ اس کائناتی حقیقت سے نظریں چرا کر ، کہ ، پہلے عمل ہوتا ہے ، پھر دعا مانگنے کا جواز پیدا ہوتا ہے ۔ ہم نماز پڑھنے کی بجائے مصلی بچھا کر آلتی پالتی مار کر ، بیٹھ کر گھنٹوں دعائیں مانگتے رہنے کے عادی ہو چکے ہیں ۔ Professional Beggars بن چکے ہیں ۔ نئی راہیں تلاشنے ، فکر اور عمل کے نئے زاوئیے تراشنے اور نئی منزلیں ڈھونڈنے کی بجائے ہم اسی جانور کے تھنوں کو نچوڑنے میں لگے رہتے ہیں ، جس کے دودھ کو خشک ہوئے زمانہ گزر گیا ہوتا ہے ۔ 
انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر آج ہماری بدحالی اور بے مائیگی کی یہی ایک بنیادی وجہ ہے ۔ پانی سروں سے اوپر ہورہا ہے ۔ ہمارا ڈوبنا ، لوح تقدیر پر لکھا واضح نظر آرہا ہے ۔ ہر نیا دن ہماری مشکلات میں اضافہ کررہا ہے ۔ مگر ہم میں سے شاید ہی کوئی اختیاری تبدیلی کو دلی اور ذہنی Level پر Accept کرنے کے لئیے رضا مند ہوگا ۔ ہر کسی کی دلی خواہش ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہوجائے اور کچھ بھی نہ کرنا پڑے ۔ باتوں اور نعروں کے قلزم بہا دئیے جائیں اور کشمیر فتح ہوجائے ۔ ملک کی لاکھوں مسجدوں میں کروڑوں لوگ گزشتہ ستر سالوں سے دعائیں مانگتے مانگتے ابدی نیند سوچکے ہیں مگر ' دشمنان اسلام ' اور ' کفار ' ہیں کہ دن دونی رات چوگنی ترقی کررہے ہیں ۔ 
وجہ بہت سادہ ہے ۔ ہمیں ہمہ وقت باتوں کے جال بننے کی عادت ہے ۔ باتیں ، اور باتیں ، اور پھر باتیں ۔ جھوٹی باتیں ۔ سچی باتیں ۔ اور زندگی عمل اور ترتیب اور ترکیب سے عاری ہے ۔ کھوکھلی باتوں کے جال بھی کھوکھلے ہوتے ہیں ۔ مخالف کے ایک ہلکے سے عملی جھٹکے سے ٹوٹ جاتے ہیں ۔ انٹرنیٹ کے کیبل کی تاروں کے جال کی طرح ۔ بارش کا ایک ہلکا سا Spell پورے نیٹ ، پورے نیٹ ورک کے بخیئے ادھیڑ دیتا ہے ۔ اور پہیہ گھومتا رہتا ہے ۔ گھومتا جا رہا ہے ۔ تاروں کا جال چاروں طرف بچھے ہونے کے باوجود کبھی یہاں کبھی وہاں ، کبھی میں اور کبھی آپ یہی شور و غوغا مچا رہے ہوتے ہیں کہ ہم پیسے تو بھر رہے ہیں مگر نیٹ پھر بھی نہیں چل رہا ۔ 
نیٹ ہو ، نیٹ ورک ہو یا کسی اور طرح کا جال ہو ، جب تک کڑی ، کڑی سے منسلک اور مربوط نہیں ہوگا ، نہ انٹر چل پائے گا ، نہ نیٹ ورک بن پائے گا ، نہ کوئی کام ہو پائے گا ۔ باتوں کے بڑے بڑے جال بننا اور بنانا چھوڑ کر ، نئے کام تلاش کیجئیے ۔ پرانے کاموں میں جدت اور ندرت کے سامان پیدا کیجئیے ۔ سو باتوں میں سے ایک بات پر بھی عمل شروع کردیں گے تو یقین کیجئیے کہ آپ کے نیٹ کا پہیہ گھومتے گھومتے رک جائے گا اور آپ کا نیٹ ورک چلنے لگے گا ۔ اپنے باتوں کے جال میں عمل کی آہنی کڑیاں لگانا شروع کر دیجیئے ۔ آپ کے رکے کام ، بننے سنورنے لگیں گے ۔ یاد رکھئیے ۔ There Is Always A First Time For Everything . 


" جال " 
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون 
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان 

ماہر نفسیات و امراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی 
جسمانی ، روحانی ،جنسی اور منشیات 

مصنف ۔ کالم نگار ۔ شاعر ۔ بلاگر ۔ پامسٹ 

www.drsabirkhan.blogspot.com 
www.fb.com/Dr.SabirKhan 
www.fb.com/duaago.drsabirkhan 
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan 
www.g.page/DUAAGO 

Instagram @ drduaago

منگل، 1 اکتوبر، 2019

مقدر کا سکندر . ڈاکٹر صابر حسین خان

" مقدر کا سکندر "

" مقدر کا سکندر "

نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ایک بار کا ذکر ہے ۔ کوئی ڈھائی ہزار سال پہلے کی بات ہے ۔ ملک یونان کی کہانی ہے ۔ دنیا کے ہر تھوڑے بہت پڑھے لکھے انسان کو اس کہانی کا تھوڑا بہت ضرور پتہ ہے ۔ سکندر یا Alexander نامی یونان کا شہزادہ جب بادشاہ بنا اور اس کے لشکر نے اس زمانے کے ملک ملک فتح کر ڈالے اور آدھی سے زیادہ دنیا پر اپنے جھنڈے گاڑ دئیے تو بادشاہ کو دنیا والوں نے آنے والی صدیوں تک کے لئیے سکندر اعظم کا ٹائٹل دے دیا ۔ Alexander The Great ۔ فاتح دنیا ۔
مزے کی بات یہ ہے کہ یہ وہ بادشاہ تھا ۔ جس کے ہاتھ میں ، ابتدائی عمر میں ، بادشاہت کی کوئی لکیر نہ تھی ۔ مگر قدرت نے اسے دنیا کی بادشاہت دینی تھی ۔ سکندر اعظم کے بارے میں تو بہت سے لوگوں کو پتہ ہے ، مگر اکثر لوگوں کو یہ نہیں پتہ کہ دنیا کا ایک عظیم فلاسفر اور عالم ، سکندر اعظم کا استاد اور اتالیق تھا ۔ ارسطو ۔ Aristotle ۔ آج کی عمرانیات اور منطق اور فلسفے کا بانی ۔ عہد حاضر کے تمام سماجی علوم کی بنیاد فراہم کرنے والا ۔ افلاطون Plato کا شاگرد ۔ مشہور زمانہ سقراط Socrates کے شاگرد کا شاگرد ۔
لوگوں کو زیادہ تر افلاطون ، سقراط اور سکندر اعظم کا نام یاد ہے ۔ سقراط بھی اس لئیے کہ اس نے اپنے سچ پر سمجھوتہ نہیں کیا تھا اور حاکمین وقت کی دی ہوئی سزا قبول کر کے زہر کا پیالہ پی لیا تھا ۔ سقراط نے کوئی کتاب نہیں لکھی مگر اس کی تعلیمات ، اس کے فلسفے ، اس کے نظریات نے جدید دور کے علم کی وہ بنیاد فراہم کی ، جسے اس کے بعد افلاطون اور پھر ارسطو نے واضح عملی شکل دی اور ایسے Manuals مرتب کئیے ، جن کی روشنی میں آج کا تمام تر سماجی اور عمرانی اور اخلاقی فلسفہ حیات مختلف تہذیبوں میں مختلف شکلوں میں رائج ہے ۔
ارسطو کے نام کے ساتھ البتہ ایک سیاہ دھبہ اس شکل میں ضرور لگا کہ وہ ایک بادشاہ کا استاد تھا اور وہ بھی اس وقت ، جب بادشاہ ، بادشاہ نہیں بنا تھا ، محض ایک شہزادہ تھا ۔ اور ارسطو کے زہر سایہ اس نے اپنی ابتدائی زندگی گزاری تھی ۔ اور بادشاہ بھی کیسا کہ محض ملک یونان کا نہیں ۔ بلکہ آدھی سے زیادہ دنیا میں اس نے اپنی فتح کے جھنڈے گاڑ دئیے تھے ۔ فاتح عالم بننے کے لئیے لا محالہ ہزاروں لاکھوں انسانوں کا خون بہانا پڑتا ہے ۔ سکندر اعظم بھی قدرت کے اس قانون سے مبرا نہیں تھا ۔
اور اس کے اس جرم میں کسی حد تک ارسطو کا بھی ہاتھ رہا تھا ۔ وہ کیسے ؟ ۔ وہ ایسے ۔ کہ ایک بار اپنی ابتدائی زندگی میں سکندر بھاگا بھاگا اپنے استاد کے پاس پہنچا اور ہڑبڑاتی آواز میں اس سے کہا کہ بادشاہ وقت نے اسے ولی عہد نامزد کیا ہے ۔ مگر وہ روایتی بادشاہ نہیں بننا چاہتا ۔ محض اپنے ملک کا ۔ بلکہ وہ پوری دنیا کا بادشاہ بننا چاہتا ہے ۔
ارسطو کچھ دیر تک خاموشی سے سکندر کو دیکھتا رہا ۔ پھر اس نے سکندر کے دونوں ہاتھ ، اپنے ہاتھوں میں لئیے اور کئی گھنٹوں تک اس کے ہاتھوں کی لکیروں کا معائینہ کرتا رہا ۔ سکندر بےچینی اور اضطرابی حالت میں اپنے استاد کی لب گوئی کا انتظار کرتا رہا ۔
" کیا میرے ہاتھوں میں بادشاہت کی لکیر ہے ؟ " سکندر سے رہا نہ گیا ۔ جب ارسطو نے اس کے ہاتھ دیکھنا چھوڑ دئیے تھے اور آنکھیں بند کرکے کسی گہری سوچ میں غرق ہو گیا تھا ۔
" ہاں بھی اور نہیں بھی " ۔ ارسطو نے بند آنکھوں سے جواب دیا ۔
" کیا مطلب؟ " ۔ سکندر کی ساری خوشی ہوا ہوگئی تھی ۔ وہ تو اپنے استاد کو خوشخبری سنانے آیا تھا اور متوقع تھا کہ ارسطو اسے گلے لگا لے گا ۔ اور اسے کہے گا کہ ہاں اس کی دنیا پر بادشاہت کی خواہش پوری ہوگی ۔ مگر ارسطو تو اس کے ہاتھوں کی لکیریں دیکھ کر چپ ہوگیا تھا ۔
کچھ دیر کی گہری خاموشی کے بعد ارسطو گویا ہوا ۔
" تمھارے ہاتھ میں بادشاہت کی لکیر تو ہے مگر وہ اس جگہ آکر ختم ہو رہی ہے ۔ تم زیادہ سے زیادہ ملک یونان کے بادشاہ بن سکتے ہو ۔ ہاں البتہ اگر تمھاری یہ لکیر یہاں سے یہاں تک ہوتی اور گہری ہوتی تو تمھارے سر پر دنیا کی بادشاہت کا تاج سج سکتا تھا " ۔
ارسطو یہ کہہ کر خاموش ہوگیا ۔ سکندر اس کا ایک عزیز اور فرمانبردار شاگرد تھا ۔ اور اس کا دل ٹوٹتے ہوئے اسے بھی دکھ ہورہا تھا ۔ مگر وہ اپنے استاد کے استاد سقراط کی تعلیمات سے بے پناہ متاثر تھا اور سچ کے سوا اس کے پاس کچھ اور بتانے اور پڑھانے کو نہیں ہوتا تھا ۔ اسے اپنے استاد افلاطون کی بہت سی باتوں سے بھی اختلاف رہتا تھا ۔ کیونکہ افلاطون نے کئی جگہوں پر سچ میں جھوٹ اور جھوٹ میں سچ کی آمیزش کرکے اپنے دور کے حاکمین اور اعلی مرتبے کے حاملین سے اپنے لئیے خصوصی رعایات حاصل کی تھیں ۔ اپنے استاد سقراط کا انجام دیکھ کر ۔ افلاطون کو اپنے منفرد فلسفوں اور بادشاہت و حکومت کے انوکھے طور طریقوں کو عوامی سطح پر مقبولیت دلوانے کا شوق تھا اور اپنی زندگی میں ہی شہرت پانے کا جنون تھا ۔ اس کو یہ بات سمجھ آگئی تھی کہ جب تک حاکم وقت کا ہاتھ دانشور کے سر پر نہیں ہوگا ، اس وقت تک وہ مشہور نہیں ہوسکتا ۔ خواہ اس کی دانش سچی اور کھری کیوں نہ ہو اور خاص و عام کے لئیے ہر طرح مفید کیوں نہ ہو ۔
افلاطون کو اس بات کی بھی سمجھ آگئی تھی کہ محض سچ اور صحیح کی بنیاد پر نہ کوئی حکومت زیادہ عرصے تک چل سکتی ہے اور نہ ہی خواص و عوام نے اسے خوش اسلوبی سے چلنے دینا ہوتا ہے ۔ اور عالم و دانشور کو عزت ، شہرت اور دولت اسی وقت مل سکتی ہے ، جب وہ خواص و عوام ، دونوں طبقات کا رانجھا راضی رکھ سکتا ہو ۔
ارسطو نے افلاطون سے بہت کچھ سیکھا مگر اس کی فطرت اور شخصیت نے اسے کلی طور پر افلاطون کی سچی جھوٹی تمام تعلیمات کو دل سے قبول نہ کرنے دیا ۔ یہی وجہ تھی کہ وہ مروجہ رواج کے مطابق شہزادوں کا استاد اور اتالیق تو مقرر ہوا مگر وہ جھوٹ و سچ کے ملفوظات گھڑنے کی بجائے انفرادی زندگی کو اعلی و ارفع اخلاقی اقدار کے مطابق ڈھالنے کی کوشش میں لگا رہا اور اخلاقیات کو اپنی تعلیم کی بنیاد بنا کر ، اپنے شاگردوں کی تربیت کرتا رہا ۔
اس کا کام اپنے پیروکاروں سے زیادہ مشکل تھا ۔ سقراط کا کڑوا سچ اور افلاطون کا مصالحتی سچ و جھوٹ ، دونوں کی تقلید اور تلقین اس کے لئیے ناممکن تھا ۔ انسان دوستی نے اس کی مدد کی ۔ اور وہ فلسفے ، عمرانیات اور اخلاقیات کے میدان میں ایک معتدل اور متوازن شکل پیش کرنے میں کامیاب ہوگیا ۔ خواص اور عوام کی ناراضی اور خفگی اور ناپسندیدگی کے بنا ۔
جب سکندر نے اس سے اپنے مستقبل کی بابت سوال کیا تو اپنی فلاسفی کے مطابق اسے سچ بھی کہنا تھا اور اپنے شاگرد کا دل بھی نہیں توڑنا تھا اور اسے مایوس بھی نہیں کرنا تھا ۔
" تم ایک دن بادشاہ تو ضرور بنو گے مگر دنیا پر بادشاہت کے لئیے اس لکیر کو یہاں سے یہاں تک ہونا ضروری ہوتا ہے ۔ اور تمہارے ہاتھ میں یہ لکیر آدھے مقام پر آکر ختم ہورہی ہے ۔ " ارسطو نے اپنے تئیں سکندر کو سچ بھی بتا دیا اور اسے مایوس ہونے سے بھی بچا لیا ۔
لیکن سکندر کے مقدر میں قدرت نے رہتی دنیا تک کے لئیے کچھ اور لکھا تھا ۔ اور جن کے مقدر میں ، مقدر کا سکندر بننا ، لکھا ہوتا ہے ، وہ اپنے ہاتھوں پر اپنے ہاتھوں سے آدھی ادھوری لکیریں ، پوری کر چھوڑتے ہیں ۔
سکندر کی قسمت میں محض یونان کی سلطنت نہیں تھی ۔ اس نے سکندر اعظم کا خطاب پانا تھا ۔ ارسطو کے جواب پر وہ سر جھکا کر واپس نہیں پلٹا ۔
" استاد محترم ! میری رہنمائی کیجئیے ۔ آپ نے کیا بتایا ۔ یہ لکیر کہاں سے کہاں ہونی چاہئیے تھی ۔ جو پوری دنیا کی بادشاہت کی نمائندگی کرے ۔ " سکندر نے ذرا توقف کے بعد ارسطو سے پوچھا ۔
ارسطو نے اپنے علم کی روشنی میں اپنی انگلی سے سکندر کی ہتھیلی پر ایک فرضی لکیر کھینچ کر دکھایا کہ اگر یہ لکیر یہاں سے یہاں تک ہو تو وہ آدمی بہت سی فتوحات حاصل کرسکتا ہے ۔
سکندر نے سکندر اعظم کا روپ دھارنا تھا ۔ گو اس وقت تک اسے بھی اس بات کا علم نہیں تھا ۔ مگر اس کی خواہش کی شدت نے اس سے وہ قدم اٹھوادیا ، جو آنے والے دنوں میں تاریخ کا حصہ بن گیا ۔
سکندر نے اسی لمحے اپنے لباس کی ڈوری سے لٹکا خنجر نکالا اور اپنی ہتھیلی میں عین اسی مقام پر ایک گہری لکیر بنا ڈالی ، جس جگہ ارسطو نے اسے پادشاہت کی فرضی لکیر بنا کر دکھایا تھا ۔
کہا جاتا ہے کہ سکندر نے اپنی ہتھیلی پر اپنے خنجر سے جو لکیر بنائی تھی ، اس کا زخم ، اس کی آخری سانس تک ہرا رہا تھا ۔ کہ وہ لکیر اتنی گہری تھی کہ گوشت کٹ کر ہاتھ کی ہڈی تک پر ضرب آئی ہوئی تھی ۔
یہ اور بات ہے کہ سکندر بہت کم عمری میں یونان کی سلطنت سنبھال کر اپنی فوجوں کو ہندوستان اور ایران تک کی سرحدوں کے اندر لے آیا تھا اور ملتان کے کسی مقام پر کسی زہریلے تیر یا تلوار کے زخم نے اس کی جان لے لی تھی ۔ اس وقت کی آدھی سے زیادہ دنیا پر اس کا جھنڈا لہرا رہا تھا ۔ جب وہ محض تینتیس سال کی عمر میں دنیا چھوڑ گیا ۔
یہ بھی اور بات ہے کہ آج تک دنیا بھر کے ملکوں کی افواج کے جرنیل اور لیڈر ، سکندر اعظم کی جنگی تیکنک اور مختلف ثقافتوں اور تہذیبوں پر فتوحات حاصل کرنے کے طریقوں کو اپنا آئیڈیل مانتے ہیں اور اپنے اپنے جنگی نصاب میں اس کے جنگی نقشوں کو بھی شامل رکھتے ہیں ۔
سکندر ، سکندر اعظم ، بظاہر اپنی ہتھیلی پر اپنے استاد کی بتائی ہوئی فرضی لکیر پر اپنے خنجر سے حقیقی لکیر کھینچنے سے بنا ۔ لیکن درحقیقت یہ اس کا اپنے استاد کی تعلیمات پر اندھا اور پختہ یقین اور ایمان تھا ۔ جس نے اسے ہزاروں سال تک کے لئیے دنیا کے ہر خطے ، ہر ملک کے لئیے مثالی بنا دیا ۔
اور یہ بھی ایک بات ہے کہ سکندر اعظم اور ارسطو کا زمانہ ، نہ صرف اسلام بلکہ عیسائیت سے بھی پہلے کا تھا ۔ کسی مذہب کا نہیں بلکہ علم فلسفہ کے مذہب کا زمانہ تھا ۔
زمانہ کوئی سا بھی ہو ، مذہب کچھ بھی ہو ، تہذیب اور ثقافت کسی بھی طرح کی ہو یا رہی ہو ۔ اپنے اپنے وقت کے مقدر کا سکندر وہی قرار پاتا ہے ، جو بنا کسی خوف ، تردد ، سوال اور تمہید کے اپنے استاد کی تعلیمات اور فلسفہ حیات پر آنکھیں بند کرکے یقین رکھتا ہو اور اس کے ایمان کی سطح اتنی بلند ہو کہ خود تقدیر ، اس کے جذبے کی قدر کرکے اسے اتنی ہمت اور صلاحیت عطا کردے کہ وہ اپنے ہاتھوں اپنے وجود اور بدن پر شگاف ڈال کر ، اپنا لہو بہا کر ، اپنے مقصد کے حصول کے لئیے شب و روز ایک کردے ۔
اس کے لئیے مسلمان یا عیسائی یا یہودی یا ہندو یا بدھ ہونا ضروری نہیں ۔ اپنے اپنے ایمان اور یقین کی پختگی اور منافقت اور دورنگے پن سے دوری کا ہونا ، لازمی جز ہوتا ہے ۔ مقدر کا سکندر بننے کے لئیے ۔
اور مقدر کا سکندر بننے کے لئیے دنیا ، فتح کرنے کی بھی ضرورت نہیں ۔ دلوں کی سلطنت کا بادشاہ بننا اور دلوں کو فتح کرتے چلے جانا ، وہ فتح عظیم ہوتی ہے ۔ جو ملکوں اور قوموں کو اپنا مفتوح بنانے سے بڑا رتبہ رکھتی ہے ۔
آج ارسطو کا نام بھی زندہ ہے اور سکندر اعظم کا بھی ۔ مگر الگ الگ حلقوں میں ۔ الگ الگ حوالوں سے ۔ اپنے اپنے ایمان کی تجدید کیجئیے ۔ اپنے اپنے یقین کے کے خنجر سے اپنے وجود اور اپنی سوچ میں چیرا لگائیے ۔ ذرا خود کو تکلیف میں ڈالئیے ۔ دو رنگی زندگی سے پیچھا چھڑائیے ۔ منافقت کو خیرباد کہئیے ۔ اور کھیل جائیے زندگی کی بازی ۔ کہ موت سے نہیں بچ سکتے ۔ ہاں! موت سے پہلے کسی نہ کسی حوالے سے مقدر کا سکندر ضرور بن سکتے ہیں ۔ بس خود کو ڈر ، خوف اور مصلحت کی منطق سے دور کرلیجئیے ۔ اور جو کرنا چاہتے ہیں ، وہ کر گزرئیے ۔ کہ وقت ، برف کی مانند پگھل رہا ہے ۔ اور حتمی حساب کتاب کا وقت آیا ہی چاہتا ہے ۔
سقراط کی طرح زہر کا پیالہ پینا ہے ۔ یا افلاطون کی طرح پر اطمینان زندگی گزارنا ہے ۔ یا ارسطو کی طرح اعتدال اور توازن کے ساتھ چل کر انسان اور اخلاقیات سے محبت کرنا ہے ۔ یا پھر سکندر اعظم کی طرح جینا اور مرنا ہے ۔
کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑے گا ۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ کر ہاتھوں کی لکیروں کو نہیں بدلا جاسکتا ۔ اپنی تقدیر کے لکھے کو نہیں مٹایا جاسکتا ۔ اپنے اپنے وقت کو بہتر اور موثر نہیں کیا جاسکتا ۔ کچھ کرلیجئیے ۔ نہیں تو کہیں بھی نہیں رہیں گے ۔ نہ تاریخ میں ۔ نہ جغرافیہ میں ۔ نہ ذہنوں میں ۔ نہ دلوں میں ۔ نہ وقت کی تحریروں میں ۔ اور کھربوں لوگوں کی قبروں کی طرح نہ نام بچے گا ۔ نہ نشان بچے گا ۔
ذرا رکئیے ۔ کہانی ابھی ادھوری ہے ۔ منظر آپ نے پڑھا ۔ پس منظر اور پیش منظر بھی پڑھ لیجئیے ۔
سکندر جب ارسطو کے پاس بھاگم بھاگ اپنی خواہش کے سوال کا بوجھ لے کر پہنچا تھا تو اس کی سانس پھولی ہوئی تھی ۔ وہ اپنے استاد کو درسگاہ اور دیگر جگہوں پر ڈھونڈتا پھر رہا تھا مگر ارسطو اپنی مخصوص جگہوں پر حاضر نہیں تھا ۔ پھر کسی طالب علم نے بتایا کہ استاد ، ساحل سمندر پر پائے جاتے ہیں ۔
سکندر جب بتائی ہوئی جگہ پر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ ارسطو آنکھیں بند کرکے ساحل پر دراز ہے ۔ اس طرح کہ اس کے بدن پر سورج اپنی بھرپور آب و تاب سے روشنی ڈال رہا ہے ۔ اور سمندر کی لہریں اس کے جسم کو بھگو کر واپس سمندر میں پلٹ رہی ہیں ۔
سکندر ، ارسطو کے سر کی پشت کی جانب کھڑا ہوگیا اور اپنے استاد کی آنکھیں کھلنے کا انتظار کرنے لگا ۔ اس نے اپنی دانست میں اپنے استاد اور سورج کے درمیان اپنے بدن کا پردہ ٹانگ دیا تھا ۔ تاکہ سورج کی تپش ، ارسطو کے بدن تک براہ راست نہ پہنچ سکے ۔
کچھ دیر میں جب ارسطو کو سورج کی حدت اور گرمی محسوس نہ ہوئی ، تو اس نے آنکھیں کھولیں ۔ سکندر ہاتھ باندھے ، اس کے اور سورج کے بیچ کھڑا تھا ۔
" تم یہاں کہاں ؟ ۔ ابھی تو درس کا وقت نہیں ہوا ہے ۔"
ارسطو نے نیم چندھیائی آنکھوں کو جھپکتے ہوئے پوچھا ۔
" مجھے پدر محترم نے ولی عہد نافذ کردیا ہے ۔ اور میں آپ کے پاس ایک بہت ہی اہم سوال لے کر آیا ہوں ۔ سوال اتنا اہم ہے کہ تدریس کے مخصوص وقت کا انتظار نہیں کر پایا ۔ تو آپ کے آرام میں خلل ڈال رہا ہوں ۔ " سکندر نے نظریں جھکا کر بات کی ۔
" کیا وہ سوال اتنا اہم ہے کہ میرے دھوپ اور پانی ، گرمی اور خنکی کے مراقبے کے بیچ کیا جائے ۔ اور اگر واقعی وہ سوال اتنا اہم اور ضروری ہے تمہارے لئیے تو برائے مہربانی میرے اور سورج کے درمیان سے ہٹ کر کھڑے ہو ۔ تاکہ میں بھرپور شعائی توانائی لے سکوں ۔"
ارسطو نے ریت پر لیٹے لیٹے بات کی ۔
سکندر ، فورا سورج کے سامنے سے ہٹ گیا اور مودبانہ بولا " میں یونان کا بادشاہ نہیں بننا چاہتا ۔ میرے خواب بلند ہیں ۔ میں دنیا فتح کرنا چاہتا ہوں ۔ "
ارسطو کا خمار اتر چکا تھا ۔ وہ کہنیوں کو ریت میں گھسا کر ترچھا ہوا اور پوچھا " بہت خوب ۔ تمہارا خواب واقعی بڑا ہے ۔ لیکن پہلے میرے ایک سوال کا جواب دو ۔ تو پھر میں تمہارا ہاتھ دیکھتا ہوں کہ اس میں دنیا کی بادشاہت کی لکیر ہے یا نہیں "
جی پوچھئیے " سکندر اب مطمئن تھا کہ اس نے استاد کی پوری توجہ حاصل کرلی ہے ۔
" یہ بتاو کہ دنیا فتح کرلینے کے بعد کیا کرو گے ۔ پھر تو کچھ بھی کرنے کے لئیے باقی نہیں بچے گا " ارسطو نے زیر لب مسکراتے ہوئے سکندر سے سوال کیا ۔
ارسطو کا سوال سن کر سکندر کی رہی سہی پریشانی بھی ختم ہوگئی ۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ ارسطو اس سے فلسفے یا منطق کا کوئی مشکل ترین سوال پوچھے گا ۔
" اس کا تو بہت آسان جواب ہے ۔ دنیا فتح کرلینے کے بعد پھر میں بھی آپ کے ساتھ ، اسی طرح ساحل سمندر پر ریت ، دھوپ اور پانی میں لیٹوں گا ۔ غوطے لگائوں گا ۔ آپ کی طرح سوچ و بچار کروں گا ۔ "
سکندر نے سکون کی سانس لیتے ہوئے جواب دیا ۔ اسے اطمینان تھا کہ اب اسے اس کے سوال کا جواب بھی مل جائے گا ۔
مگر ارسطو کے اگلے جملوں نے سکندر کو چپ کرادیا ۔
" بیوقوف ! ساحل سمندر پر لیٹ کر دھوپ سینکنے اور ریت کی تپش اور سمندر کے پانی کی ٹھنڈی لہروں میں گرم و سرد کا بیک وقت مزہ لینے کے لئیے ، دنیا فتح کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔ آو ! اور ابھی میرے ساتھ لیٹ جاو ۔ میرے برابر میں ۔
آرام و سکون تمہیں یونہی مل رہا ہے ۔ تو دنیا فتح کرنے کی تگ و دو اور جدوجہد کے بعد کا انتظار کیوں ۔
اپنے آج کو مطمئن بنا لو ۔ ہر طرح کے جھنجھٹ سے آزاد ہو جاو گے "
مگر سکندر کے مقدر میں مقدر کا سکندر بننا لکھا تھا ۔ اس نے اپنے استاد کی یہ بات نہ مانی ۔
اپنی خواہش ، اپنے خواب کو مقدم رکھا اور پھر اگلی عمر کے تیرہ برس ، بیس تا تینتیس سال ، دنیا فتح کرتے رہنے کی جدوجہد میں گزار دئیے ۔ اپنے ہاتھ سے اپنی ہتھیلی پر بادشاہت کی لکیر کھینچنے اور پھر اس کے مطابق اپنی مختصر سی زندگی گزارنے کے باوجود سکندر اس دنیا سے خالی ہاتھ واپس گیا ۔

" مقدر کا سکندر "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون

دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی
جسمانی ، روحانی ، جنسی و منشیات ۔

مصنف ۔ کالم نگار ۔ شاعر ۔ بلاگر ۔ پامسٹ ۔

www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.drsabirkhan.blogspot.com
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
www.g.page/DUAAGO

Instagram @drduaago