بدھ، 23 اکتوبر، 2019

" دیتے ہیں دھوکا " ڈاکٹر صابر حسین خان

" دیتے ہیں دھوکا "

نیا کالم / بلاگ/ مضمون

دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ہم دھوکے کے زمانے میں زندہ ہیں ۔ ڈھول ، ڈھکوسلے اور دھوکے ۔ ہر شخص ایک دوسرے کو چونا لگانے میں مصروف ہے ۔ کیا چھوٹا ، کیا بڑا ۔ کیا اچھا ، کیا برا ۔ اپنی اپنی بساط اور استطاعت کے مطابق ہم سب ہر وقت اپنا الو سیدھا کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ جب جس کو جیسے ہی کوئی موقع ملتا ہے ، وہ دیر نہیں کرتا ۔ پلک جھپکتے ہی ہاتھ صاف کرڈالتا ہے ۔ اور اپنے آپ کو صحیح اور درست بھی ثابت کرتا ہے ۔ تاکہ ضمیر پر کوئی بوجھ نہ پڑے ۔ ہر کسی نے اپنے ہر عمل کے حق میں چار چھ دلائل تیار کر چھوڑے ہوتے ہیں ۔ مگر سب سے زیادہ خطرناک ، پیچیدہ اور شریفانہ دھوکے ہوتے ہیں ، جن کی تہہ تک پہنچنے میں کافی وقت لگ جاتا ہے اور اس وقت تک کافی نقصان ہوچکا ہوتا ہے ۔ پھر ان کا ازالہ بھی ممکن نہیں ہوتا ۔ اور دھوکہ دینے والوں کے معصوم چہرے دیکھ کر اور ان کے دائیں بائیں کے دلائل سن کر ، ان کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کو بھی جی نہیں چاہتا ۔ اور کبھی دھوکے بازوں کا بھرم اور رکھ رکھاو اور طاقت و اختیار دیکھ کر ہمت نہیں پڑتی کہ ایک دھوکہ تو کھا لیا ، اب اگر کچھ کرنے کا سوچا تو اپنا ہی وقت اور مزید پیسہ برباد ہوگا ۔ ڈرپوک اور شریف اور کم ترین دھوکے باز اسی لئیے بار بار دھوکے اور دھکے کھاتے رہتے ہیں ۔ اور اپنے اپنے حلقوں میں بوں باں کرکے چپ ہولیتے ہیں ۔
دھوکہ اور فراڈ محض فرد اور افراد کے درمیان نہیں چل رہا ہوتا ۔ بلکہ ہر چھوٹی بڑی کمپنی ، ادارہ ، گروپ ، خواہ نجی ہو یا سرکاری ، اپنی اپنی سطح پر اپنے کسٹمرز کو حیلوں بہانوں سے لوٹ رہا ہوتا ہے ۔ کبھی اعلانیہ تو کبھی مخفی ۔ سوسائٹی کے کسی بھی شعبے کو دیکھ لیں ۔ ہمیں ڈرامے بازیاں نظر آئیں گی ۔ زیادہ سے زیادہ منافع کی لالچ میں بھائی ، بھائی کا گلا کاٹتا ہوا ملے گا ۔ کئی جگہوں پر تو دکھائی دینے والے دھوکوں سے تو ہم اپنا دامن بچانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ۔ مگر ان گنت موقعوں پر ان سے بچنا ممکن نہیں ہوتا ۔
دھوکے کھا کر نقصان اٹھانے والے افراد کی نفسیات شکست و ریخت کا شکار ہونے لگتی ہے ۔ اور ہر جگہ ، ہر محکمے کے ہاتھوں لٹنے کے بعد اس بری حالت میں ہوجاتی ہے کہ پھر وہ کسی بھی فرد ، کسی بھی ادارے پر تمام عمر کسی بھی طرح کا اعتبار نہیں کر پاتے ۔ اور خود بھی اپنے لیول پر اوروں کو دھوکہ دینے لگ جاتے ہیں ۔ یوں ایک فرد ، ایک ادارے کی دھوکہ بازی پورے معاشرے میں فساد اور شر پھیلا دیتی ہے ۔ اور در در ، گھر گھر ، فراڈ اور دھوکہ دہی کی وارداتوں کا سلسلہ رواں دواں ہوجاتا ہے ۔
کوئی بھی انسان نہ فرشتہ ہوتا ہے ، نہ فرشتہ بن سکتا ہے ۔ ہر انسان ، دیگر انسانوں اور پورے معاشرے کے عمومی رویوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے رویوں کا حامل ہوتا ہے ۔ معاشرے کا Mirror Image ہوتا ہے ۔
شریف سے شریف انسان کے ساتھ بھی اگر دس بار Cheating ہو ، تو موقع ملتے ہی ایک بار اس نے بھی اپنے سے کم تر کو Cheat کر ڈالنا ہوتا ہے ۔ عام طور پر عام اور معصوم لوگ ہی بار بار کے دھوکوں کا شکار ہوتے ہیں ۔ لیکن ایک وقت ایسا آتا ہے جب زیادتیوں کے مارے لوگوں کے پاس مزید لٹانے کے لئیے کچھ نہیں بچتا تو وہ بھی بحالت مجبوری ، اپنے آس پاس کے لوگوں کو لوٹنے لگتے ہیں ۔
میرے ایک دوست عبدالروف آرائیں کا کہنا ہے کہ Trust But Verified اور ایک دوسرے دوست افتخار احمد نے اپنی حالیہ گفتگو میں کہا کہ Never Trust A Person Until And Unless Proven Otherwise . دونوں نے اپنے اپنے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں فریب ، فراڈ اور دھوکہ دہی کی موجودہ عمومی فضا اور ماحول کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی اپنی بات کی ۔ اور اپنی اپنی جگہ بالکل درست بات کی ۔ دونوں دوست انتہائی ایماندار اور سچے اور کھرے انسان ہیں ۔ کبھی کسی کو دھوکہ نہ دینے والے ۔ اپنے کام سے کام رکھنے والے ۔ اپنے اپنے مقام پر معاشرے میں عزت و اعلی مقام رکھنے والے ۔ مگر چونکہ انہوں نے معاشرے سے جو کچھ سیکھا ، اس کی سمری اپنے الفاظ میں بیان کردی ۔ یعنی زندگی کے اس مقام پر آکر ان کے نزدیک خواہ دوست ہو یا سگا بھائی ، کوئی بھی Blind Trust کے قابل نہیں ۔
اس حوالے سے میرے یہ دونوں دوست مجھ سے ہزار گنا بہتر ہیں اور بہت سے ایسے گہرے اور کاری نقصانات سے بچتے رہے ہیں ، جن کا سامنا مجھے اکثر کرنا پڑتا ہے ، اپنی حماقتوں کے باعث ۔ سوچے سمجھے ، جانے بوجھے ، آنکھیں بند کرکے ، جانچے پرکھے بنا کسی پر بھی اعتماد کرکے ۔ الحمداللہ آج تک سو میں سے ننانوے لوگوں نے اعتماد کو ٹھیس ہی پہنچائی ہے ۔ اب تک کا تجربہ اور مشاہدہ یہی رہا ہے کہ بنا کسی مطلب ، غرض اور فائدے کے شاید ہی کوئی قریب آیا ہو ۔ کچھ دینا تو درکنار ، لین دین یا کسی ظاہری یا مخفی لالچ و طلب کے بنا شاید ہی کسی نے محبت یا دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہو ۔
یہاں تک تو بات پھر بھی سمجھ میں آتی ہے کہ آج کے زمانے کا دستور یہی ہے ۔ مگر ، اگر اپنی زندگی کا طائرانہ جائزہ لیتا ہوں تو کئی مقامات ایسے پاتا ہوں ، جب مطلب اور غرض سے بڑھ کر بات باقاعدہ فریب اور دھوکے تک گئی اور مادی حوالوں سے مجھے نقصان بھی اٹھانا پڑا ۔ مطلبی اور خود غرض دوستوں اور لوگوں کا کیا ذکر کہ مجھ سمیت ہم سب ہی اپنی زندگی میں ان کی محبتوں میں مبتلا ہو کر اپنا نقصان کرتے ہیں ۔ مگر سرکاری ، نیم سرکاری اور نجی اداروں کا فریب اور فراڈ ایسا ہوتا ہے ، جو بنا کسی تفریق کے اور بنا ہماری محبت کے ، ہم سب کو لوٹ رہا ہوتا ہے اور ہم چوں بھی نہیں کرسکتے ۔
پانی آتا نہیں ۔ اور ہمیں ہر ماہ پانی کے بل بھرنے پڑتے ہیں ۔ گٹر ابل رہے ہیں ، کچرے کے ڈھیر ہزاروں بیماریاں پیدا کررہے ہیں ۔ اور ہمیں KMC کے بل موصول ہورہے ہیں ۔ KE کے سپر فاسٹ میٹر ، بجلی استعمال ہو یا نہ ہو ، مستقل چل رہے ہیں اور Unit بڑھ رہے ہیں ۔ سال بھر سے فلیٹ بند ہے ، نہ کوئی بندہ ہے ، نہ کوئی بندے کی ذات ہے ۔ مگر سال بھر پہلے کی ایوریج پر بنا میٹر چیک کئیے سوئی گیس کے بل آرہے ہیں ۔ مہینے میں 20 دن PTCL فون اور براڈبینڈ انٹرنیٹ بند رہتا ہے ۔ مگر بل پورے مہینے کا بھرنا پڑتا ہے ۔ اور سونے پر سہاگہ یہ کہ تنگ آکر جب فون اور انٹرنیٹ کنکشن بند کروایا جائے تو REUTERS اور وائی فائی ڈیوائس ، جو ہم نے PTCL سے باقاعدہ خریدی ہوئی ہوتی ہے ، اس کو واپس کئیے بنا کنکشن بند نہیں کیا جاتا ۔ اور اس کے پیسے بھی ہمیں واپس نہیں کئیے جاتے ۔ موبائل فون کمپنیز کا کیا کہنا کہ دس طرح کے ٹیکس کے بعد کمپنی کے نمائندے سے بات کرنے کے چارجز الگ اور کال سیٹ اپ چارج الگ ۔ اور اگر کسی موبائل کمپنی کی ڈیٹا انٹرنیٹ ڈیوائس لے لی اور چار چھ ماہ استعمال نہ کی تو ڈیٹا نمبر آپ کے نام سے غائب اور ڈیوائس بیکار اور کباڑ ۔ نئی ڈیوائس خریدیں اور پھر پیسے بھریں ۔
متعلقہ افراد سے بات کی جائے تو ایک ہی جواب ۔ کمپنی کی پالیسی ہے ۔ پاکستان ریلوے ہو یا PIA یا کوئی بینک یا پوسٹ آفس ۔ اور یا پھر سروسز کا کوئی نجی ادارہ ۔ After Sale Services ہمیں کہیں بھی نظر نہیں آتیں ۔ کیا ہسپتال ، کیا کالج ، کیا یونیورسٹی ۔
کیا Peon کیا Director . اوپر سے نیچے تک آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے ۔ رشوت اور کرپشن تو بہت بعد کی باتیں ہیں ۔ ہر محکمے کے ہر نظام میں Underhand فریب اور دھوکہ دہی عام ہے ۔
اور ہمارے کیا ، ہر دین ہر مذہب میں یہ سب حرام ہے ۔ مگر کیا خاص کیا عوام ، ہم سب اس معاشرتی عارضے کا شکار ہیں ۔ آپ کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں ۔ خود سوچیں ۔ آپ کے اپنے پروفیشن ، اپنے کام میں کتنی طرح کی دو نمبری چل رہی ہے ۔ ذرا دیر کو تنہائی میں خود سے سچ بول کر دیکھئیے ۔ آپ کی گردن شرم و ندامت سے جھکتی چلی جائے گی ۔ آپ کے سامنے آپ کے اپنے فراڈ نمایاں ہوتے چلے جائیں گے ۔
کوئی کم ، کوئی زیادہ اور کوئی بہت زیادہ ، اپنے اپنے مقام پر دوسروں کو دھوکہ دینے میں مصروف ہے ۔
اپنے اپنے فریبوں کو Justify کرنے کے لئیے ہم سب نے ان گنت Reasons کاڑھ لئیے ہیں ۔ جو ہم خود کو بھی دے رہے ہوتے ہیں اور کوئی پوچھے تو اس کو بھی بتا رہے ہوتے ہیں ۔
میرے ساتھ تو جب بھی کبھی اس طرح کی ہوتی ہے اور کوئی شخص یا کوئی ادارہ کوئی چکر چلا کر ، میرے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتا ہے تو مجھے بہت خوشی ہوتی ہے ۔ میں دل ہی دل میں اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں ۔ شکرانے کے نفل پڑھتا ہوں ۔ اپنا دامن جھاڑتا ہوں ۔ اور سکون سے سو جاتا ہوں ۔ ہر مادی نقصان مجھے بتاتا ہے ، خبردار کرتا ہے ۔ کہ تمھیں ذرا دیر کو رک کر اپنا محاسبہ کرنا ہے ۔ اپنے آپ کو کٹہڑے میں کھڑا کرنا ہے ۔ اور ایمانداری سے اپنا اور اپنے اعمال اور افعال کا جائزہ لینا ہے ۔
کہیں نہ کہیں ، کسی نہ کسی شکل میں یا تو مجھ سے کوئی گڑبڑ ہوئی ہے ، یا نا دانستگی میں کسی کے ساتھ کوئی زیادتی ، یا زکوات و صدقات میں کمی ، یا کوئی ناجائز آمدنی ، یا انجانے میں کسی کا دل دکھایا ہوگا ، یا اپنی مصروفیت کی وجہ سے کسی سائل کا مسئلہ حل نہیں کر پایا ۔ یا کوئی اور لغزش یا کوتاہی ۔ اور یا پھر کسی بڑے انعام سے پہلے کی آزمائش اور امتحان ۔
ہر دو صورتوں میں دل کو اطمینان ہوجاتا ہے کہ شکر ہے اسی دنیا میں اور ابھی جیتے جاگتے جو غلطیاں ہوئی ہیں ، اللہ تعالی کی رحمت نے اس بظاہر بنا کسی وجہ کے نقصان کی صورت ، توبہ تلافی کا ایک اور موقع عطا کردیا ہے ۔ اپنی اصلاح کے لئیے کچھ اور مہلت دے دی ہے ۔
کئی بار دل نے اور دوستوں نے بدلے اور انتقام کے لئیے اکسایا ۔ مگر ہر بار آخری فیصلہ ، ہجرت کا ہوا ۔ اس کام ، اس شخص ، اس جگہ ، اس سروس سے خاموشی سے رخصت لے لی ۔ کسی شکایت ، کسی شکوے کے بنا ۔ کہ سب سے بہترین منصف اللہ تعالی کی ذات ہے ۔
اللہ کا فیصلہ سب سے اعلی ہوتا ہے ۔
بس ذرا صبر کرنا پڑتا ہے ۔ اپنے دل پر جبر کرنا پڑتا ہے ۔
بڑے سے بڑے نقصان کا ازالہ ممکن ہے ۔ ایمان کے زوال کا کوئی ازالہ نہیں ۔ شرط صرف ایک ہے ۔
اور وہ یہ کہ ہم ٹھان لیں کہ کوئی ہمیں کتنا بھی دھوکہ کیوں نہ دے ۔ ہمارا کتنا بھی نقصان کیوں نہ ہو جائے ۔ ہم نے کسی کو دھوکہ نہیں دینا ۔ ہم نے کسی کے ساتھ فراڈ نہیں کرنا ۔ ہم نے اپنے کام ، اپنے کاروبار کی بنیاد سچ پر رکھنی ہے ۔ اپنے کام کے پھیلاؤ کی نہیں بلکہ اپنے رزق میں حلال اور برکت کی دعا مانگنی ہے ۔
When We Don't Cheat , We Wouldn't Be Cheated
کیونکہ پھر اللہ تعالی کی رحمت ہمیں اپنے سائے میں رکھتی ہے اور ہمیں دھوکے اور فریب سے بچا کر رکھتی ہے ۔

" دیتے ہیں دھوکا "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ،
جسمانی ، روحانی ، جنسی و منشیات ۔

www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.drsabirkhan.blogspot.com
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
www.g.page/DUAAGO

Instagram @drduaago 

اتوار، 20 اکتوبر، 2019

" کبھی کبھی " ڈاکٹر صابر حسین خان

" کبھی کبھی "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

کبھی کبھی کچھ موسم ، کچھ مخصوص ماہ یا دن یا کوئی خاص وقت ہمیں کسی خاص کیفیت میں لے جاتے ہیں ۔ کوئی پرانی یاد ، کوئی پرانا واقعہ ، کوئی پرانی بات ، کوئی دوست ، کوئی چہرہ ، بیٹھے بیٹھے ہمیں ماضی اور اداسی کے سفر کی جانب کھینچ لیتا ہے ۔ ہم نہ چاہتے ہوئے بھی بیتے ہوئے دنوں کو یاد کرنے لگتے ہیں ۔ بیٹھے بیٹھے کھو جاتے ہیں ۔ یہ خاص کیفیت کبھی تو کچھ لمحوں کی ہوتی ہے ۔ اور کبھی اس کا دورانیہ کچھ گھنٹوں اور بہت ہی کبھی کبھی کچھ دنوں یا ہفتوں تک پھیل جاتا ہے ۔ عام طور پر تنہائی کے انمول لمحات میں ہمارا دل اور ہمارا ذہن اس طرح کی فضا میں اچانک جا نکلتا ہے ۔ سکون اور سناٹا ہو تو کبھی کبھی کی یہ خاص کیفیت اور مزہ دیتی ہے ۔ دل چاہتا ہے کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر خود کو ماضی کے خوبصورت دنوں کے سپرد کردیا جائے ۔ ہر مسئلہ ، ہر غم بھلا کر یادوں کی سنہری دھوپ میں پاوں پسار کر آنکھیں بند کر لی جائیں ۔ جو ہو رہا ہے ، اسے ہونے دیا جائے ۔ جیسا چل رہا ہے ، چلنے دیا جائے ۔
کوئی آواز ہمارے آرام میں خلل نہ ڈالے ۔ کوئی کام ہمارے اس اہم کام میں رکاوٹ نہ ڈالے ۔
مگر افسوس کہ یہ کیفیت مستقل نہیں رہتی ۔ ہمیں ہر حال ، اپنے حال میں لوٹنا پڑتا ہے ۔ حال کے حاشیوں اور حوالوں کو نپٹنا پڑتا ہے ۔ اور جیسے تیسے زندگی کی گاڑی کو آگے کھینچنا پڑتا ہے ۔ ہمارا حال ، ماضی میں بدلتا جاتا ہے ۔ کوئی طریقہ ، کوئی کوشش گزرتے ہوئے لمحوں کو روک نہیں سکتی ۔
انسان کی نفسیات میں قدرت نے بڑی عجیب صلاحیت رکھی ہے ۔ ماضی کی تلخ اور نا خوشگوار باتیں ہماری یادداشت کے عقبی خانوں میں جمع ہوتی ہیں ۔ جبکہ پسندیدہ اور خوشگوار یادیں عام طور پر ذہن اور سوچ کے حاضر حصوں میں رہتی ہیں ۔ کبھی بھی ، ذرا سی ہلچل سے ہم ان یادوں کا میلہ سجا لیتے ہیں ۔ سجا سکتے ہیں ۔ البتہ وہ لوگ جو ذہنی ، نفسیاتی اور شخصی عارضوں کا شکار ہوتے ہیں ، ان کی سوچوں کا نظام برعکس ہوتا ہے ۔ عام طور پر منفی یا تخریبی ہوتا ہے ۔ ایسے متاثرہ افراد ، ماضی کی تلخ اور ناپسندیدہ اور ناخوشگوار باتوں کو بھلا نہیں پاتے ۔ اور کبھی کبھی کسی خاص موڈ ، مزاج ، ماحول یا موسم کی بجائے ہر وقت یا زیادہ تر وقت اپنے ماضی میں کھوئے رہتے ہیں اور تکلیف دہ یادوں کی جگالی کرتے رہتے ہیں ۔ حال کی ہر بات ان کو کسی نہ کسی حوالے سے ماضی میں لے جاتی ہے ۔ اپنے ہر موجودہ ایشو کو کسی نہ کسی بہانے ماضی سے منسلک کرنے میں یہ لوگ دیر نہیں لگاتے ۔ چاچھ ہو یا لسی ، دودھ ہو یا یخنی ، ہر شے کو اتنا پھونک پھونک کر پیتے ہیں کہ ٹھنڈا ، گرم ہوجاتا ہے اور گرم ، ٹھنڈا ۔
ہماری سوچ اور ہمارا سوچنے کا انداز ہمیں معاشرے میں ایک خاص مقام عطا کرتا ہے ۔ نہ صرف معاشرے میں ، بلکہ ہمارے ہر عمل ، ہر رد عمل اور ہر رویے پر ہماری سوچ کا اثر پڑ رہا ہوتا ہے ۔ اگر ہماری سوچ ، ماضی کے واقعات اور حادثات اور خیالات کے تابع ہوگی تو ہمارے حال پر اس کے اثرات مناسب اور متوازن اور متناسب نہیں ہوں گے ۔ اور ہمارے آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے مواقع کم سے کم ہوتے چلے جائیں گے ۔
ماضی کے تجربات سے سیکھنا ، دانشمندی ہے ۔ ماضی میں کھوئے ہوئے رہنا بیوقوفی ہے ۔ آپ کا واسطہ اکثر ایسے لوگوں سے پڑتا ہوگا جو بات بات پر اپنے یا اپنے آباواجداد یا نسل و قوم کے شاندار و سنہری ماضی کی مثالیں دیتے دکھائی دیں گے ۔ اور جب آپ ان کی حالیہ ذاتی زندگی کو دیکھیں گے تو وہ ہر حوالے سے زوال پذیر دکھائی دے گی ۔
اسی طرح جب آپ ماہرین نفسیات کے کلینکس جا کر وہاں آنے والے مریضوں کی ہسٹری سنیں گے تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ نوے فیصد نفسیاتی مریض کسی نہ کسی اچھے یا برے حوالے سے ہنوز اپنے ماضی اور ماضی کی تلخ اور ناپسندیدہ یادوں سے جڑے ہوئے ہیں ۔ اور ان سے پیچھا چھڑانے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے ہیں ۔ اور ان کے نفسیاتی خلفشار اور جذباتی الجھنوں کو برقرار رکھنے میں گہرا ہاتھ ، ماضی سے چپکے رہنا ہے ۔ جس کی وجہ سے اپنے حال اور موجودہ حالات سے ان کی مطابقت نہیں ہو پاتی ۔ اور اس تضاد اور ٹکراؤ کے نتیجے میں ان کے اعصاب جواب دے جاتے ہیں ۔
اپنے گزرے ہوئے کل کو اپنے آج سے ہمہ وقت Compare کرتے رہنے اور دس ، بیس ، پچاس ، سو سال پہلے کے رواجوں اور طریقوں کو آج کے لائف اسٹائل میں ایک حد تک تو بلینڈ کیا جاسکتا ہے ، اور وہ بھی بہت ہی معمولی حد تک ۔ ایک مخصوص حد کے بعد ماضی کی کوئی بھی بات آج کے فریم میں کسی صورت سیٹ نہیں ہوسکتی ۔
ہزاروں مثالیں موجود ہیں مگر کروڑوں لوگوں کے دلوں اور دماغوں میں ہنوز ماضی کے مزار دفن بھی ہیں اور شب و روز ان پر چراغ جلاتے رہنا اور لکیروں کو پیٹتے رہنے کا سلسلہ زور و شور سے جاری و ساری بھی ہے ۔ اس صورت ہر طرح کی پروگریس رک جاتی ہے ۔
کبھی کبھی کا Nostalgia یا ماضی کی یادوں کا جھونکا تو آدمی کو ترو تازہ اور ریفریش کرتا ہے ۔ لیکن یادوں کا جنگل اور پرانی باتوں کا چنگل آدمی کو کسی کام کا نہیں چھوڑتا ۔
آج کی تاریخ میں اگر کوئی آپ سے کہے کہ وہ پیدل یا اونٹ پر حج کے سفر کو نکل رہا ہے تو دل ہی دل میں تو آپ اس کے ایمان کے درجات کو سراہیں گے مگر آپ کی سوچ میں یک لخت اس آدمی کی دماغی صحت کی بابت سوالیہ نشان پیدا ہوجائے گا ۔ آج کے دور میں کروڑوں میں کوئی ایک ہی ایسا صاحب ایمان و علم ملے گا ، جس نے اپنی تقاریر میں مائیک اور لاوڈ اسپیکر کی مدد نہ لی ہو یا اپنی تحاریر کو لوگوں تک پہنچانے کے لئیے اخباروں اور کتابوں کا سہارا استعمال نہ کیا ہو ۔
یا کوئی آپ سے کہے کہ وہ دشمنان دین سے جہاد کے لئیے سامان حرب جمع کررہا ہے اور اسے اس ضمن میں گھوڑے ، تیر کمان ، تلواریں ، ڈھالیں ، وغیرہ درکار ہیں اور اتنے لاکھ پہلوان اور شہہ سوار تو آپ اسے کسی ماہر نفسیات کا پتہ بتائیں گے یا اس کے لشکر کا سپہ سالار بننا پسند کریں گے ۔ پہلی صورت میں آپ اسے قائل کرنے کی کوشش کریں گے کہ آج کی جنگیں اس طرح نہیں لڑی جاتیں ، نہیں لڑی جا سکتیں ۔ اور دوسری صورت میں آپ کی اپنی ذہنی حالت مشکوک ٹہرے گی ۔
یہاں تک تو آپ سب ہی متفق ہوں گے ۔ مگر اس کا کیا حل ہو کہ جب جگہ جگہ یہ سننے کو ملتا رہے کہ ' ہمارے یہاں تو ایسا نہیں ہوتا ، ہمارے یہاں تو ویسا ہوتا ہے ، ہمارے باپ دادا نے تو کبھی ایسا نہیں کیا ، ہمارے خاندان میں اس کا رواج نہیں ، ہماری سات نسلوں نے کبھی یوں نہیں سوچا تھا ، '
اور یا پھر یہ کہ ' اتنے سو سال پہلے تو یہ کام ایسے ہوتا تھا ، فلاں فلاں کے زمانے میں تو شیر اور بکری ایک گھاٹ سے پانی پیتے تھے ، فلاں بزرگ تو اتنی صدیاں پہلے ایسی زندگی گزارتے تھے ، گزرے وقتوں میں تو یہ بات ایسے ہوتی تھی ، '
سوچ کی سوئی اگر شمال جنوب کی جانب ہو اور عملی زندگی کے معاملات اور تقاضے مشرق مغرب کی سمت میں جھکاؤ دے رہے ہوں تو کیا فرد ، کیا قوم ، کیا ملک ، سب نے ہی ٹوٹ کر بکھر جانا ہوتا ہے ۔ خاص طور پر اس وقت ، جب تصادم ، ماضی اور حال کے مابین ہو ۔
اپنے آپ کو حال میں رکھنے کی عادت ڈالئیے ۔ کبھی کبھی ماضی کے جھرونکوں میں جھانک کر دل خوش کر لیا کیجئیے ۔ مگر کبھی بھی اپنے ماضی کو اپنے حال پر حاوی نہ ہونے دیجئیے ۔
ہمارے معاشرتی انتشار اور بگاڑ کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے ۔ اپنی ذاتی زندگی کو خوشگوار اور کامیاب بنانے کے لئیے اپنی سوچ میں سے ماضی کی تلخ اور نا خوشگوار یادوں کی صفائی کی مہم چلائیے ۔ اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو آپ اپنے مستقبل کو بھی اپنے ہاتھوں قتل کرتے رہیں گے ۔ اور تمام عمر گئی باتوں اور گزری راتوں کا رونا روتے رہیں گے ۔


" کبھی کبھی "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ،
جسمانی ، روحانی ، جنسی و منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ شاعر ۔ بلاگر ۔ پامسٹ

www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.drsabirkhan.blogspot.com
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
www.g.page/DUAAGO

Instagram @drduaago 

جمعرات، 17 اکتوبر، 2019

" جال " ڈاکٹر صابر حسین خان

" جال " 
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون 
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان 


" یار ؛ تم اس بار بھی پیسے لینے آگئے ۔ سوچا بھی نہیں کہ پورے مہینے کتنے دن نیٹ آن رہا ہے ۔ اتنے پیسے تو تمہیں کالز اور میسج کرنے میں خرچ ہوگئے ہوں گے ۔ ہاں ، پچھلے پانچ دن سے صحیح چل رہا ہے ۔
جب سے تم نے سیٹنگ تبدیل کی ہے "
پہلی تاریخ کو دروازے پر ساجد کی شکل دیکھتے ہی میری شکایت شروع ہوگئی ۔ 
گزشتہ سال ، اپریل مئی میں کیبل نیٹ کا تجربہ شروع کیا تھا ۔ کئی سال تک Qubee کے ساتھ رہنے کے بعد ، جب اس کے سگنلز کمزور ہونا شروع ہوئے اور پھر اس کا قریبی آفس بھی بند ہوگیا تو کئی ماہ ڈونگل پر کام چلانے پر جب زیادہ گھچ پچ ہونے لگی تو نئے تجربے کا سوچا گیا ۔ قرعہ فال ، فاریہ نیٹ ورک کے زیر سایہ چلنے والے ایک قریبی کیبل پروائیڈر کے نام نکلا ، جس کا انٹر نیٹ گلی کے کئی گھروں میں چل رہا تھا ۔ 
انٹرنیٹ کے بہانے ساجد سے پہلی ملاقات ہوئی ۔ جو پی ایم ایس نیٹ ورک کے نام سے کیبل نیٹ کا کام کررہا تھا ۔ 
بہت سالوں سے یہ بات میرے مشاہدے میں آئی ہے کہ بہت سے لوگ مجھ سے ملنے سے پہلے کچھ اور ہوتے ہیں اور مجھ سے جدا ہونے کے بعد ان کی زندگی اور طور طریقوں میں پلس یا مائینس ، اچھی یا بری ، کوئی نہ کوئی واضح تبدیلی ضرور آجاتی ہے ۔ 
ساجد کے لڑھکتے پڑھکتے انٹرنیٹ کے ساتھ ڈیڑھ سال گزارنے کے بعد اب کی بار میں نے یہ بھی کہا کہ بھائی اب تم کوئی اور کام کرنے کا سوچو ۔ یہ کام تمھارے بس کا نہیں رہا ۔ ان اٹھارہ مہینوں میں کوئی ماہ ایسا نہیں رہا کہ ساجد کی انٹرنیٹ سروس نے تنگ نہ کیا ہو ۔ کبھی صبح ، کبھی دوپہر ، کبھی شام تو کبھی رات کے آخری پہر ۔ ساجد کا نیٹ کبھی بھی اچانک جواب دے دیتا ہے ۔ کبھی تو کئی کئی دن مستقل پہیہ گھومتا رہتا ہے یا Internet may not be available 
کا میسج آتا رہتا ہے ۔ بیچ میں ایک ماہ کے لئیے تنگ ہو کر میں نے PMS Network کی سروس بند بھی کروادی ۔ لیکن کبھی کبھی ، جب کبھی کسی محنتی اور باہمت نوجوان سے محبت ہوجاتی ہے ۔ تو اس کی سروس پس پشت چلی جاتی ہے اور انسان کا دل اور جذبہ ہماری لاجک سے چپک جاتا ہے ۔
ساجد بھی ایک ایسا ہی دل والا ، جذبے والا ، محبت کرنے والا ، خیال رکھنے والا ، محنتی اور باہمت نوجوان ہے ۔ اور مجھے بھی اس کی محنت اور لگن کی وجہ سے اس سے دلی انسیت ہوگئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پورے ماہ نیٹ بند ہے کا میسج کرتا رہتا ہوں اور جب وہ پیسے لینے آتا ہے تو اس کو جھاڑتا بھی ہوں ، کہتا سنتا بھی ہوں اور ' اگلے ماہ ایسا نہیں ہونا چاہئیے ' کہہ کر بات ختم بھی کردیتا ہوں ۔
محلے میں اور بھی دو چار انٹر نیٹ سروس پروائیڈر موجود ہیں ۔ مگر ساجد سے محبت کی بنا اب تک کسی اور سے کوئی بات نہیں کی ہے ۔ 
ہوسکتا ہے ، ان کی سروس ، ساجد کی سروس سے بہتر ہو ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کا معیار اور زیادہ خراب ہو ۔ سروس نہ بدلنے کی ایک وجہ تو ساجد ہے ۔ ہر بات مان لیتا ہے ۔ اپنی غلطی تسلیم کرلیتا ہے ۔ دن ہو یا رات ، کمپلین دور کرنے خود آجاتا ہے ۔ رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئیے ہر طرح کی جگاڑ کرلیتا ہے ۔ سب سے بڑی بات یہ کہ انتہائی ادب ، احترام اور بہت دھیمے لہجے میں بات کرتا ہے ۔ کبھی الجھتا نہیں ۔ کبھی تیز آواز سے نہیں بولتا ۔ زیادہ تعلیم یافتہ نہیں مگر تہذیب اور شائستگی میں بڑے بڑے اعلی ڈگری یافتہ اور مجھ جیسے بڑی عمر کے لوگوں سے بھی زیادہ آگے ہے ۔ بہت چھوٹی عمر سے کام کررہا ہے اور واقعی خون پسینہ ایک کرکے رزق کما رہا ہے ۔ اور نہ صرف اپنی بلکہ مرحوم بھائی کی فیملی کو بھی سنبھال رہا ہے ۔ ہر وقت ہر نئی بات سیکھنے کے لئیے تیار رہتا ہے ۔ اسے چھبیس ستائیس سال کی عمر میں ہی اس بات کا ادراک ہوچکا ہے کہ کاروبار میں بھی جب تک ، ایک خاص وقت کے بعد ، نئی اور موثر تبدیلی نہ لائی جائے تو وہ پہلے Stagnant ہوجاتا ہے اور پھر تنزلی کا شکار ہونے لگتا ہے ۔ وہ کئی بار مجھے بھی انٹرنیٹ کو فائبر ٹیکنالوجی پر Convert کرنے کو کہہ چکا ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ فی الحال میرا بجٹ اس اضافی خرچہ کو برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔
اور اس ماہ بھی جب میں نے اس سے کہا کہ انٹرنیٹ سروس چلانا تمہارے بس کا روگ نہیں ، کچھ اور کرنے کا سوچو ۔ تو اس کا جواب بہت خوبصورت تھا ۔
" جی انکل : آپ صحیح کہہ رہے ہیں ۔ انٹرنیٹ وائرنگ کا زمانہ پرانا ہوگیا ۔ دو چار ماہ میں بند ہوجانا ہے اس نے ۔ اپنے محلے میں بھی فائبر آگیا ہے ۔ انڈر گراؤنڈ ۔ جگہ جگہ گڑھے کھد چکے ہیں ۔ آپ نے بھی دیکھے ہوں گے ۔ میں بینک سے گاڑی نکلوا چکا ہوں ۔ 2007 کی کورے ۔ Careem میں چلانے کے لئیے ۔ ساڑھے سات لاکھ میں ۔ بس اب وہ شروع کردینا ہے ۔ دسمبر ، جنوری تک یہ سب ختم ہوجانا ہے "
میں نے تو اپنی دانست میں ساجد کو باؤنسر مارا تھا ۔ مگر اس نے ہک کرکے گیند باؤنڈری کے باہر پھینک دی ۔
ایسے سمجھدار اور حوصلے و جذبے والے نوجوان آج کل کہاں ملتے اور دکھتے ہیں ۔ 
ساجد کی یہ بات سن کر مجھے اعظم یاد آگیا ۔ ہمارے محلے کی Mono Video کا پروپرائیٹر ۔ آج سے کوئی 24 سال پہلے اس کی دکان سے روزانہ پلس گلوبل کی اردو ترجمے کے ساتھ انگریزی فلموں کے وڈیو کیسٹ 20 روپے کرائے پر لیا کرتا اور VCR پر دیکھا کرتا ۔ اس وقت اعظم کی عمر یہی کوئی بیس بائیس سال ہوگی ۔ اور وہ اپنے ماموں اور بھائی اور بھانجوں کی مدد سے ایک فل فلیج رننگ کاروبار کررہا تھا ۔ پھر پانچ سال بعد کمپیوٹر عام ہونا شروع ہو گیا ۔ اور VCR قصہ پارینہ بن گیا ۔ 
ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھنا اعظم کی سرشت میں شامل نہیں تھا ۔ اس نے لاکھوں روپے کے وڈیو کیسٹ ، کوڑیوں کے بھاو ، ردی والے کو فروخت کیں اور پہلے CD اور پھر DVD کرائے پر دینا اور فروخت کرنا شروع کردیں ۔ 
مزید پانچ سال بعد جب انٹرنیٹ اور کیبل ٹی وی نیٹ شروع ہوا تو اعظم کو پھر ردی والے کی مدد لینی پڑی ۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے مونو وڈیو شاپ ، مونو گفٹ شاپ میں تبدیل ہوگئی ۔ چین سے کنٹینر بھر کر خوبصورت کھلونوں اور دیگر گفٹ آئیٹمز کے ڈھیر آنا شروع ہوگئے ۔ اور اس کی دوکان پر رش کا وہی عالم دوبارہ شروع ہو گیا جو دس بارہ سال پہلے تھا ۔ 
مگر قدرت نے اعظم کو اگلے پانچ سال بعد کسی اور تبدیلی کا موقع نہیں دینا تھا ۔ 
مجھے نہیں پتہ کہ وہ کب ، کیوں اور کس طرح کولڈ ڈرنکس کی ایڈیکشن کا عادی ہوا ۔ مجھے اس کی اس لت کا اس وقت پتہ چلا جب وہ اچانک عباسی ہسپتال میں ایڈمٹ ہوا ۔ اور چار چھ گھنٹوں میں اللہ کو پیارا ہوگیا ۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ ایک عرصے سے روزانہ ڈیڑھ لیٹر کی دو کولڈ ڈرنکس کی بوتلیں پیا کرتا تھا اور کبھی تو اس سے بھی زیادہ ۔ آخری دن اس کی شوگر چھ سو سے زیادہ تھی اور اس کے گردے مکمل فیل ہوچکے تھے ۔ اس وقت کوئی علاج کارگر ثابت نہیں ہوا ۔ اور وہ بھرے پرے کاروبار زندگی کو چھوڑ کر عدم کے سفر پر روانہ ہو گیا ۔
پھر ایک آدھ سال میں اس کی مونو گفٹ شاپ بھی بند ہوگئی ۔ اور آج اس کے گھر والوں کے سوا ، مجھ جیسے کچھ لوگ ہی اس کے کام اور اس کے نام سے واقف ہوں گے ۔
کام کوئی سا بھی ہو ، کچھ عرصے کے بعد تجدید کا متقاضی ہوتا ہے ۔ بہت کم نوجوان ، بہت کم لوگ بدلتے موسموں کے مزاج کو سمجھ پاتے ہیں ۔ وقت کے ساتھ اپنے آپ کو ، اپنے کام کو بدل پاتے ہیں ۔ ہجرت کر پاتے ہیں ۔ ہر کوئی اعظم اور ساجد کی طرح دل گردہ نہیں رکھتا اور نہ ہی ہر کسی کا Vision اتنا واضح ہوتا ہے اور نہ ہی قدرت ہر کسی کو Wisdom عطا کرتی ہے ۔
وژن اور وزڈم کی نعمت ہمت والوں ، جذبے والوں کو ملتی ہے ۔ کہیں نہ ٹہرنے والوں کو ملتی ہے ۔
وقت کی ضرورت سمجھنے والوں کو ملتی ہے ۔ تمام عمر ایک ہی Cycle میں ایک ہی طریقہ سے ایک ہی طرح کے کام کرتے رہنے سے ہم کبھی بھی اپنے اندر کے خزانے سے واقف نہیں ہوسکتے ۔ ہمارے Hidden Treasure کبھی بھی Routine اور Rituals کو Follow کرنے سے باہر نہیں آ پاتے ۔ ہر نیا کام ، ہر نیا Venture ہمارے Latent Potential کو Activate کرتا ہے ، بیدار کرتا ہے ۔ اور ہمارے وژن اور وزڈم میں اضافہ کرتا ہے ۔ ہر نیا تجربہ ، ہر نیا مشاہدہ ، ایک نئی راہ دکھاتا ہے ۔ ہر نیا قدم ، ایک نئی منزل کی راہیں استوار کرتا ہے ۔ 
مگر ہم میں سے اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو کوئی بھی نیا قدم اٹھانے سے گھبراتے ہیں ، ڈرتے ہیں ۔ حالات بد سے بدتر کیوں نہ ہوجائیں ، ہم اپنے آپ کو ، اپنے کام کو ، اپنی اپروچ کو بدلنے پر راضی نہیں ہوتے ۔ ہم میں سے کوئی بھی اپنا اپنا Comfort Zone چھوڑنے پر تیار نہیں ۔ ہمارے پاس ایسا نہ کرنے کے ہزاروں جواز ہوتے ہیں ۔ کچھ نیا نہ کرنے کی ان گنت تاویلیں ہوتی ہیں ۔ اور سب سے بڑی دلیل یہ ہوتی ہے کہ نئے کام کا ہمارے پاس کوئی تجربہ نہیں ۔ ہم نہیں کرسکتے ۔ اور اگر بنا تجربے کے کریں گے تو ناکام ہوجائیں گے ۔ ہمارا وقت ضائع ہوگا ۔ ہمارے پیسے ڈوب جائیں گے ۔
اس سوچ کے باوجود ہمارا وقت ضائع ہوتا رہتا ہے ۔ ہمارے وسائل کم پڑنے لگتے ہیں ۔ ہمارے مسائل بڑھنے لگتے ہیں ۔ اور ہم اچھے وقتوں کے انتظار میں ، خالی ہاتھ بیٹھے دعائیں مانگتے رہتے ہیں ۔ اس کائناتی حقیقت سے نظریں چرا کر ، کہ ، پہلے عمل ہوتا ہے ، پھر دعا مانگنے کا جواز پیدا ہوتا ہے ۔ ہم نماز پڑھنے کی بجائے مصلی بچھا کر آلتی پالتی مار کر ، بیٹھ کر گھنٹوں دعائیں مانگتے رہنے کے عادی ہو چکے ہیں ۔ Professional Beggars بن چکے ہیں ۔ نئی راہیں تلاشنے ، فکر اور عمل کے نئے زاوئیے تراشنے اور نئی منزلیں ڈھونڈنے کی بجائے ہم اسی جانور کے تھنوں کو نچوڑنے میں لگے رہتے ہیں ، جس کے دودھ کو خشک ہوئے زمانہ گزر گیا ہوتا ہے ۔ 
انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر آج ہماری بدحالی اور بے مائیگی کی یہی ایک بنیادی وجہ ہے ۔ پانی سروں سے اوپر ہورہا ہے ۔ ہمارا ڈوبنا ، لوح تقدیر پر لکھا واضح نظر آرہا ہے ۔ ہر نیا دن ہماری مشکلات میں اضافہ کررہا ہے ۔ مگر ہم میں سے شاید ہی کوئی اختیاری تبدیلی کو دلی اور ذہنی Level پر Accept کرنے کے لئیے رضا مند ہوگا ۔ ہر کسی کی دلی خواہش ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہوجائے اور کچھ بھی نہ کرنا پڑے ۔ باتوں اور نعروں کے قلزم بہا دئیے جائیں اور کشمیر فتح ہوجائے ۔ ملک کی لاکھوں مسجدوں میں کروڑوں لوگ گزشتہ ستر سالوں سے دعائیں مانگتے مانگتے ابدی نیند سوچکے ہیں مگر ' دشمنان اسلام ' اور ' کفار ' ہیں کہ دن دونی رات چوگنی ترقی کررہے ہیں ۔ 
وجہ بہت سادہ ہے ۔ ہمیں ہمہ وقت باتوں کے جال بننے کی عادت ہے ۔ باتیں ، اور باتیں ، اور پھر باتیں ۔ جھوٹی باتیں ۔ سچی باتیں ۔ اور زندگی عمل اور ترتیب اور ترکیب سے عاری ہے ۔ کھوکھلی باتوں کے جال بھی کھوکھلے ہوتے ہیں ۔ مخالف کے ایک ہلکے سے عملی جھٹکے سے ٹوٹ جاتے ہیں ۔ انٹرنیٹ کے کیبل کی تاروں کے جال کی طرح ۔ بارش کا ایک ہلکا سا Spell پورے نیٹ ، پورے نیٹ ورک کے بخیئے ادھیڑ دیتا ہے ۔ اور پہیہ گھومتا رہتا ہے ۔ گھومتا جا رہا ہے ۔ تاروں کا جال چاروں طرف بچھے ہونے کے باوجود کبھی یہاں کبھی وہاں ، کبھی میں اور کبھی آپ یہی شور و غوغا مچا رہے ہوتے ہیں کہ ہم پیسے تو بھر رہے ہیں مگر نیٹ پھر بھی نہیں چل رہا ۔ 
نیٹ ہو ، نیٹ ورک ہو یا کسی اور طرح کا جال ہو ، جب تک کڑی ، کڑی سے منسلک اور مربوط نہیں ہوگا ، نہ انٹر چل پائے گا ، نہ نیٹ ورک بن پائے گا ، نہ کوئی کام ہو پائے گا ۔ باتوں کے بڑے بڑے جال بننا اور بنانا چھوڑ کر ، نئے کام تلاش کیجئیے ۔ پرانے کاموں میں جدت اور ندرت کے سامان پیدا کیجئیے ۔ سو باتوں میں سے ایک بات پر بھی عمل شروع کردیں گے تو یقین کیجئیے کہ آپ کے نیٹ کا پہیہ گھومتے گھومتے رک جائے گا اور آپ کا نیٹ ورک چلنے لگے گا ۔ اپنے باتوں کے جال میں عمل کی آہنی کڑیاں لگانا شروع کر دیجیئے ۔ آپ کے رکے کام ، بننے سنورنے لگیں گے ۔ یاد رکھئیے ۔ There Is Always A First Time For Everything . 


" جال " 
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون 
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان 

ماہر نفسیات و امراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی 
جسمانی ، روحانی ،جنسی اور منشیات 

مصنف ۔ کالم نگار ۔ شاعر ۔ بلاگر ۔ پامسٹ 

www.drsabirkhan.blogspot.com 
www.fb.com/Dr.SabirKhan 
www.fb.com/duaago.drsabirkhan 
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan 
www.g.page/DUAAGO 

Instagram @ drduaago

منگل، 1 اکتوبر، 2019

مقدر کا سکندر . ڈاکٹر صابر حسین خان

" مقدر کا سکندر "

" مقدر کا سکندر "

نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ایک بار کا ذکر ہے ۔ کوئی ڈھائی ہزار سال پہلے کی بات ہے ۔ ملک یونان کی کہانی ہے ۔ دنیا کے ہر تھوڑے بہت پڑھے لکھے انسان کو اس کہانی کا تھوڑا بہت ضرور پتہ ہے ۔ سکندر یا Alexander نامی یونان کا شہزادہ جب بادشاہ بنا اور اس کے لشکر نے اس زمانے کے ملک ملک فتح کر ڈالے اور آدھی سے زیادہ دنیا پر اپنے جھنڈے گاڑ دئیے تو بادشاہ کو دنیا والوں نے آنے والی صدیوں تک کے لئیے سکندر اعظم کا ٹائٹل دے دیا ۔ Alexander The Great ۔ فاتح دنیا ۔
مزے کی بات یہ ہے کہ یہ وہ بادشاہ تھا ۔ جس کے ہاتھ میں ، ابتدائی عمر میں ، بادشاہت کی کوئی لکیر نہ تھی ۔ مگر قدرت نے اسے دنیا کی بادشاہت دینی تھی ۔ سکندر اعظم کے بارے میں تو بہت سے لوگوں کو پتہ ہے ، مگر اکثر لوگوں کو یہ نہیں پتہ کہ دنیا کا ایک عظیم فلاسفر اور عالم ، سکندر اعظم کا استاد اور اتالیق تھا ۔ ارسطو ۔ Aristotle ۔ آج کی عمرانیات اور منطق اور فلسفے کا بانی ۔ عہد حاضر کے تمام سماجی علوم کی بنیاد فراہم کرنے والا ۔ افلاطون Plato کا شاگرد ۔ مشہور زمانہ سقراط Socrates کے شاگرد کا شاگرد ۔
لوگوں کو زیادہ تر افلاطون ، سقراط اور سکندر اعظم کا نام یاد ہے ۔ سقراط بھی اس لئیے کہ اس نے اپنے سچ پر سمجھوتہ نہیں کیا تھا اور حاکمین وقت کی دی ہوئی سزا قبول کر کے زہر کا پیالہ پی لیا تھا ۔ سقراط نے کوئی کتاب نہیں لکھی مگر اس کی تعلیمات ، اس کے فلسفے ، اس کے نظریات نے جدید دور کے علم کی وہ بنیاد فراہم کی ، جسے اس کے بعد افلاطون اور پھر ارسطو نے واضح عملی شکل دی اور ایسے Manuals مرتب کئیے ، جن کی روشنی میں آج کا تمام تر سماجی اور عمرانی اور اخلاقی فلسفہ حیات مختلف تہذیبوں میں مختلف شکلوں میں رائج ہے ۔
ارسطو کے نام کے ساتھ البتہ ایک سیاہ دھبہ اس شکل میں ضرور لگا کہ وہ ایک بادشاہ کا استاد تھا اور وہ بھی اس وقت ، جب بادشاہ ، بادشاہ نہیں بنا تھا ، محض ایک شہزادہ تھا ۔ اور ارسطو کے زہر سایہ اس نے اپنی ابتدائی زندگی گزاری تھی ۔ اور بادشاہ بھی کیسا کہ محض ملک یونان کا نہیں ۔ بلکہ آدھی سے زیادہ دنیا میں اس نے اپنی فتح کے جھنڈے گاڑ دئیے تھے ۔ فاتح عالم بننے کے لئیے لا محالہ ہزاروں لاکھوں انسانوں کا خون بہانا پڑتا ہے ۔ سکندر اعظم بھی قدرت کے اس قانون سے مبرا نہیں تھا ۔
اور اس کے اس جرم میں کسی حد تک ارسطو کا بھی ہاتھ رہا تھا ۔ وہ کیسے ؟ ۔ وہ ایسے ۔ کہ ایک بار اپنی ابتدائی زندگی میں سکندر بھاگا بھاگا اپنے استاد کے پاس پہنچا اور ہڑبڑاتی آواز میں اس سے کہا کہ بادشاہ وقت نے اسے ولی عہد نامزد کیا ہے ۔ مگر وہ روایتی بادشاہ نہیں بننا چاہتا ۔ محض اپنے ملک کا ۔ بلکہ وہ پوری دنیا کا بادشاہ بننا چاہتا ہے ۔
ارسطو کچھ دیر تک خاموشی سے سکندر کو دیکھتا رہا ۔ پھر اس نے سکندر کے دونوں ہاتھ ، اپنے ہاتھوں میں لئیے اور کئی گھنٹوں تک اس کے ہاتھوں کی لکیروں کا معائینہ کرتا رہا ۔ سکندر بےچینی اور اضطرابی حالت میں اپنے استاد کی لب گوئی کا انتظار کرتا رہا ۔
" کیا میرے ہاتھوں میں بادشاہت کی لکیر ہے ؟ " سکندر سے رہا نہ گیا ۔ جب ارسطو نے اس کے ہاتھ دیکھنا چھوڑ دئیے تھے اور آنکھیں بند کرکے کسی گہری سوچ میں غرق ہو گیا تھا ۔
" ہاں بھی اور نہیں بھی " ۔ ارسطو نے بند آنکھوں سے جواب دیا ۔
" کیا مطلب؟ " ۔ سکندر کی ساری خوشی ہوا ہوگئی تھی ۔ وہ تو اپنے استاد کو خوشخبری سنانے آیا تھا اور متوقع تھا کہ ارسطو اسے گلے لگا لے گا ۔ اور اسے کہے گا کہ ہاں اس کی دنیا پر بادشاہت کی خواہش پوری ہوگی ۔ مگر ارسطو تو اس کے ہاتھوں کی لکیریں دیکھ کر چپ ہوگیا تھا ۔
کچھ دیر کی گہری خاموشی کے بعد ارسطو گویا ہوا ۔
" تمھارے ہاتھ میں بادشاہت کی لکیر تو ہے مگر وہ اس جگہ آکر ختم ہو رہی ہے ۔ تم زیادہ سے زیادہ ملک یونان کے بادشاہ بن سکتے ہو ۔ ہاں البتہ اگر تمھاری یہ لکیر یہاں سے یہاں تک ہوتی اور گہری ہوتی تو تمھارے سر پر دنیا کی بادشاہت کا تاج سج سکتا تھا " ۔
ارسطو یہ کہہ کر خاموش ہوگیا ۔ سکندر اس کا ایک عزیز اور فرمانبردار شاگرد تھا ۔ اور اس کا دل ٹوٹتے ہوئے اسے بھی دکھ ہورہا تھا ۔ مگر وہ اپنے استاد کے استاد سقراط کی تعلیمات سے بے پناہ متاثر تھا اور سچ کے سوا اس کے پاس کچھ اور بتانے اور پڑھانے کو نہیں ہوتا تھا ۔ اسے اپنے استاد افلاطون کی بہت سی باتوں سے بھی اختلاف رہتا تھا ۔ کیونکہ افلاطون نے کئی جگہوں پر سچ میں جھوٹ اور جھوٹ میں سچ کی آمیزش کرکے اپنے دور کے حاکمین اور اعلی مرتبے کے حاملین سے اپنے لئیے خصوصی رعایات حاصل کی تھیں ۔ اپنے استاد سقراط کا انجام دیکھ کر ۔ افلاطون کو اپنے منفرد فلسفوں اور بادشاہت و حکومت کے انوکھے طور طریقوں کو عوامی سطح پر مقبولیت دلوانے کا شوق تھا اور اپنی زندگی میں ہی شہرت پانے کا جنون تھا ۔ اس کو یہ بات سمجھ آگئی تھی کہ جب تک حاکم وقت کا ہاتھ دانشور کے سر پر نہیں ہوگا ، اس وقت تک وہ مشہور نہیں ہوسکتا ۔ خواہ اس کی دانش سچی اور کھری کیوں نہ ہو اور خاص و عام کے لئیے ہر طرح مفید کیوں نہ ہو ۔
افلاطون کو اس بات کی بھی سمجھ آگئی تھی کہ محض سچ اور صحیح کی بنیاد پر نہ کوئی حکومت زیادہ عرصے تک چل سکتی ہے اور نہ ہی خواص و عوام نے اسے خوش اسلوبی سے چلنے دینا ہوتا ہے ۔ اور عالم و دانشور کو عزت ، شہرت اور دولت اسی وقت مل سکتی ہے ، جب وہ خواص و عوام ، دونوں طبقات کا رانجھا راضی رکھ سکتا ہو ۔
ارسطو نے افلاطون سے بہت کچھ سیکھا مگر اس کی فطرت اور شخصیت نے اسے کلی طور پر افلاطون کی سچی جھوٹی تمام تعلیمات کو دل سے قبول نہ کرنے دیا ۔ یہی وجہ تھی کہ وہ مروجہ رواج کے مطابق شہزادوں کا استاد اور اتالیق تو مقرر ہوا مگر وہ جھوٹ و سچ کے ملفوظات گھڑنے کی بجائے انفرادی زندگی کو اعلی و ارفع اخلاقی اقدار کے مطابق ڈھالنے کی کوشش میں لگا رہا اور اخلاقیات کو اپنی تعلیم کی بنیاد بنا کر ، اپنے شاگردوں کی تربیت کرتا رہا ۔
اس کا کام اپنے پیروکاروں سے زیادہ مشکل تھا ۔ سقراط کا کڑوا سچ اور افلاطون کا مصالحتی سچ و جھوٹ ، دونوں کی تقلید اور تلقین اس کے لئیے ناممکن تھا ۔ انسان دوستی نے اس کی مدد کی ۔ اور وہ فلسفے ، عمرانیات اور اخلاقیات کے میدان میں ایک معتدل اور متوازن شکل پیش کرنے میں کامیاب ہوگیا ۔ خواص اور عوام کی ناراضی اور خفگی اور ناپسندیدگی کے بنا ۔
جب سکندر نے اس سے اپنے مستقبل کی بابت سوال کیا تو اپنی فلاسفی کے مطابق اسے سچ بھی کہنا تھا اور اپنے شاگرد کا دل بھی نہیں توڑنا تھا اور اسے مایوس بھی نہیں کرنا تھا ۔
" تم ایک دن بادشاہ تو ضرور بنو گے مگر دنیا پر بادشاہت کے لئیے اس لکیر کو یہاں سے یہاں تک ہونا ضروری ہوتا ہے ۔ اور تمہارے ہاتھ میں یہ لکیر آدھے مقام پر آکر ختم ہورہی ہے ۔ " ارسطو نے اپنے تئیں سکندر کو سچ بھی بتا دیا اور اسے مایوس ہونے سے بھی بچا لیا ۔
لیکن سکندر کے مقدر میں قدرت نے رہتی دنیا تک کے لئیے کچھ اور لکھا تھا ۔ اور جن کے مقدر میں ، مقدر کا سکندر بننا ، لکھا ہوتا ہے ، وہ اپنے ہاتھوں پر اپنے ہاتھوں سے آدھی ادھوری لکیریں ، پوری کر چھوڑتے ہیں ۔
سکندر کی قسمت میں محض یونان کی سلطنت نہیں تھی ۔ اس نے سکندر اعظم کا خطاب پانا تھا ۔ ارسطو کے جواب پر وہ سر جھکا کر واپس نہیں پلٹا ۔
" استاد محترم ! میری رہنمائی کیجئیے ۔ آپ نے کیا بتایا ۔ یہ لکیر کہاں سے کہاں ہونی چاہئیے تھی ۔ جو پوری دنیا کی بادشاہت کی نمائندگی کرے ۔ " سکندر نے ذرا توقف کے بعد ارسطو سے پوچھا ۔
ارسطو نے اپنے علم کی روشنی میں اپنی انگلی سے سکندر کی ہتھیلی پر ایک فرضی لکیر کھینچ کر دکھایا کہ اگر یہ لکیر یہاں سے یہاں تک ہو تو وہ آدمی بہت سی فتوحات حاصل کرسکتا ہے ۔
سکندر نے سکندر اعظم کا روپ دھارنا تھا ۔ گو اس وقت تک اسے بھی اس بات کا علم نہیں تھا ۔ مگر اس کی خواہش کی شدت نے اس سے وہ قدم اٹھوادیا ، جو آنے والے دنوں میں تاریخ کا حصہ بن گیا ۔
سکندر نے اسی لمحے اپنے لباس کی ڈوری سے لٹکا خنجر نکالا اور اپنی ہتھیلی میں عین اسی مقام پر ایک گہری لکیر بنا ڈالی ، جس جگہ ارسطو نے اسے پادشاہت کی فرضی لکیر بنا کر دکھایا تھا ۔
کہا جاتا ہے کہ سکندر نے اپنی ہتھیلی پر اپنے خنجر سے جو لکیر بنائی تھی ، اس کا زخم ، اس کی آخری سانس تک ہرا رہا تھا ۔ کہ وہ لکیر اتنی گہری تھی کہ گوشت کٹ کر ہاتھ کی ہڈی تک پر ضرب آئی ہوئی تھی ۔
یہ اور بات ہے کہ سکندر بہت کم عمری میں یونان کی سلطنت سنبھال کر اپنی فوجوں کو ہندوستان اور ایران تک کی سرحدوں کے اندر لے آیا تھا اور ملتان کے کسی مقام پر کسی زہریلے تیر یا تلوار کے زخم نے اس کی جان لے لی تھی ۔ اس وقت کی آدھی سے زیادہ دنیا پر اس کا جھنڈا لہرا رہا تھا ۔ جب وہ محض تینتیس سال کی عمر میں دنیا چھوڑ گیا ۔
یہ بھی اور بات ہے کہ آج تک دنیا بھر کے ملکوں کی افواج کے جرنیل اور لیڈر ، سکندر اعظم کی جنگی تیکنک اور مختلف ثقافتوں اور تہذیبوں پر فتوحات حاصل کرنے کے طریقوں کو اپنا آئیڈیل مانتے ہیں اور اپنے اپنے جنگی نصاب میں اس کے جنگی نقشوں کو بھی شامل رکھتے ہیں ۔
سکندر ، سکندر اعظم ، بظاہر اپنی ہتھیلی پر اپنے استاد کی بتائی ہوئی فرضی لکیر پر اپنے خنجر سے حقیقی لکیر کھینچنے سے بنا ۔ لیکن درحقیقت یہ اس کا اپنے استاد کی تعلیمات پر اندھا اور پختہ یقین اور ایمان تھا ۔ جس نے اسے ہزاروں سال تک کے لئیے دنیا کے ہر خطے ، ہر ملک کے لئیے مثالی بنا دیا ۔
اور یہ بھی ایک بات ہے کہ سکندر اعظم اور ارسطو کا زمانہ ، نہ صرف اسلام بلکہ عیسائیت سے بھی پہلے کا تھا ۔ کسی مذہب کا نہیں بلکہ علم فلسفہ کے مذہب کا زمانہ تھا ۔
زمانہ کوئی سا بھی ہو ، مذہب کچھ بھی ہو ، تہذیب اور ثقافت کسی بھی طرح کی ہو یا رہی ہو ۔ اپنے اپنے وقت کے مقدر کا سکندر وہی قرار پاتا ہے ، جو بنا کسی خوف ، تردد ، سوال اور تمہید کے اپنے استاد کی تعلیمات اور فلسفہ حیات پر آنکھیں بند کرکے یقین رکھتا ہو اور اس کے ایمان کی سطح اتنی بلند ہو کہ خود تقدیر ، اس کے جذبے کی قدر کرکے اسے اتنی ہمت اور صلاحیت عطا کردے کہ وہ اپنے ہاتھوں اپنے وجود اور بدن پر شگاف ڈال کر ، اپنا لہو بہا کر ، اپنے مقصد کے حصول کے لئیے شب و روز ایک کردے ۔
اس کے لئیے مسلمان یا عیسائی یا یہودی یا ہندو یا بدھ ہونا ضروری نہیں ۔ اپنے اپنے ایمان اور یقین کی پختگی اور منافقت اور دورنگے پن سے دوری کا ہونا ، لازمی جز ہوتا ہے ۔ مقدر کا سکندر بننے کے لئیے ۔
اور مقدر کا سکندر بننے کے لئیے دنیا ، فتح کرنے کی بھی ضرورت نہیں ۔ دلوں کی سلطنت کا بادشاہ بننا اور دلوں کو فتح کرتے چلے جانا ، وہ فتح عظیم ہوتی ہے ۔ جو ملکوں اور قوموں کو اپنا مفتوح بنانے سے بڑا رتبہ رکھتی ہے ۔
آج ارسطو کا نام بھی زندہ ہے اور سکندر اعظم کا بھی ۔ مگر الگ الگ حلقوں میں ۔ الگ الگ حوالوں سے ۔ اپنے اپنے ایمان کی تجدید کیجئیے ۔ اپنے اپنے یقین کے کے خنجر سے اپنے وجود اور اپنی سوچ میں چیرا لگائیے ۔ ذرا خود کو تکلیف میں ڈالئیے ۔ دو رنگی زندگی سے پیچھا چھڑائیے ۔ منافقت کو خیرباد کہئیے ۔ اور کھیل جائیے زندگی کی بازی ۔ کہ موت سے نہیں بچ سکتے ۔ ہاں! موت سے پہلے کسی نہ کسی حوالے سے مقدر کا سکندر ضرور بن سکتے ہیں ۔ بس خود کو ڈر ، خوف اور مصلحت کی منطق سے دور کرلیجئیے ۔ اور جو کرنا چاہتے ہیں ، وہ کر گزرئیے ۔ کہ وقت ، برف کی مانند پگھل رہا ہے ۔ اور حتمی حساب کتاب کا وقت آیا ہی چاہتا ہے ۔
سقراط کی طرح زہر کا پیالہ پینا ہے ۔ یا افلاطون کی طرح پر اطمینان زندگی گزارنا ہے ۔ یا ارسطو کی طرح اعتدال اور توازن کے ساتھ چل کر انسان اور اخلاقیات سے محبت کرنا ہے ۔ یا پھر سکندر اعظم کی طرح جینا اور مرنا ہے ۔
کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑے گا ۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ کر ہاتھوں کی لکیروں کو نہیں بدلا جاسکتا ۔ اپنی تقدیر کے لکھے کو نہیں مٹایا جاسکتا ۔ اپنے اپنے وقت کو بہتر اور موثر نہیں کیا جاسکتا ۔ کچھ کرلیجئیے ۔ نہیں تو کہیں بھی نہیں رہیں گے ۔ نہ تاریخ میں ۔ نہ جغرافیہ میں ۔ نہ ذہنوں میں ۔ نہ دلوں میں ۔ نہ وقت کی تحریروں میں ۔ اور کھربوں لوگوں کی قبروں کی طرح نہ نام بچے گا ۔ نہ نشان بچے گا ۔
ذرا رکئیے ۔ کہانی ابھی ادھوری ہے ۔ منظر آپ نے پڑھا ۔ پس منظر اور پیش منظر بھی پڑھ لیجئیے ۔
سکندر جب ارسطو کے پاس بھاگم بھاگ اپنی خواہش کے سوال کا بوجھ لے کر پہنچا تھا تو اس کی سانس پھولی ہوئی تھی ۔ وہ اپنے استاد کو درسگاہ اور دیگر جگہوں پر ڈھونڈتا پھر رہا تھا مگر ارسطو اپنی مخصوص جگہوں پر حاضر نہیں تھا ۔ پھر کسی طالب علم نے بتایا کہ استاد ، ساحل سمندر پر پائے جاتے ہیں ۔
سکندر جب بتائی ہوئی جگہ پر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ ارسطو آنکھیں بند کرکے ساحل پر دراز ہے ۔ اس طرح کہ اس کے بدن پر سورج اپنی بھرپور آب و تاب سے روشنی ڈال رہا ہے ۔ اور سمندر کی لہریں اس کے جسم کو بھگو کر واپس سمندر میں پلٹ رہی ہیں ۔
سکندر ، ارسطو کے سر کی پشت کی جانب کھڑا ہوگیا اور اپنے استاد کی آنکھیں کھلنے کا انتظار کرنے لگا ۔ اس نے اپنی دانست میں اپنے استاد اور سورج کے درمیان اپنے بدن کا پردہ ٹانگ دیا تھا ۔ تاکہ سورج کی تپش ، ارسطو کے بدن تک براہ راست نہ پہنچ سکے ۔
کچھ دیر میں جب ارسطو کو سورج کی حدت اور گرمی محسوس نہ ہوئی ، تو اس نے آنکھیں کھولیں ۔ سکندر ہاتھ باندھے ، اس کے اور سورج کے بیچ کھڑا تھا ۔
" تم یہاں کہاں ؟ ۔ ابھی تو درس کا وقت نہیں ہوا ہے ۔"
ارسطو نے نیم چندھیائی آنکھوں کو جھپکتے ہوئے پوچھا ۔
" مجھے پدر محترم نے ولی عہد نافذ کردیا ہے ۔ اور میں آپ کے پاس ایک بہت ہی اہم سوال لے کر آیا ہوں ۔ سوال اتنا اہم ہے کہ تدریس کے مخصوص وقت کا انتظار نہیں کر پایا ۔ تو آپ کے آرام میں خلل ڈال رہا ہوں ۔ " سکندر نے نظریں جھکا کر بات کی ۔
" کیا وہ سوال اتنا اہم ہے کہ میرے دھوپ اور پانی ، گرمی اور خنکی کے مراقبے کے بیچ کیا جائے ۔ اور اگر واقعی وہ سوال اتنا اہم اور ضروری ہے تمہارے لئیے تو برائے مہربانی میرے اور سورج کے درمیان سے ہٹ کر کھڑے ہو ۔ تاکہ میں بھرپور شعائی توانائی لے سکوں ۔"
ارسطو نے ریت پر لیٹے لیٹے بات کی ۔
سکندر ، فورا سورج کے سامنے سے ہٹ گیا اور مودبانہ بولا " میں یونان کا بادشاہ نہیں بننا چاہتا ۔ میرے خواب بلند ہیں ۔ میں دنیا فتح کرنا چاہتا ہوں ۔ "
ارسطو کا خمار اتر چکا تھا ۔ وہ کہنیوں کو ریت میں گھسا کر ترچھا ہوا اور پوچھا " بہت خوب ۔ تمہارا خواب واقعی بڑا ہے ۔ لیکن پہلے میرے ایک سوال کا جواب دو ۔ تو پھر میں تمہارا ہاتھ دیکھتا ہوں کہ اس میں دنیا کی بادشاہت کی لکیر ہے یا نہیں "
جی پوچھئیے " سکندر اب مطمئن تھا کہ اس نے استاد کی پوری توجہ حاصل کرلی ہے ۔
" یہ بتاو کہ دنیا فتح کرلینے کے بعد کیا کرو گے ۔ پھر تو کچھ بھی کرنے کے لئیے باقی نہیں بچے گا " ارسطو نے زیر لب مسکراتے ہوئے سکندر سے سوال کیا ۔
ارسطو کا سوال سن کر سکندر کی رہی سہی پریشانی بھی ختم ہوگئی ۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ ارسطو اس سے فلسفے یا منطق کا کوئی مشکل ترین سوال پوچھے گا ۔
" اس کا تو بہت آسان جواب ہے ۔ دنیا فتح کرلینے کے بعد پھر میں بھی آپ کے ساتھ ، اسی طرح ساحل سمندر پر ریت ، دھوپ اور پانی میں لیٹوں گا ۔ غوطے لگائوں گا ۔ آپ کی طرح سوچ و بچار کروں گا ۔ "
سکندر نے سکون کی سانس لیتے ہوئے جواب دیا ۔ اسے اطمینان تھا کہ اب اسے اس کے سوال کا جواب بھی مل جائے گا ۔
مگر ارسطو کے اگلے جملوں نے سکندر کو چپ کرادیا ۔
" بیوقوف ! ساحل سمندر پر لیٹ کر دھوپ سینکنے اور ریت کی تپش اور سمندر کے پانی کی ٹھنڈی لہروں میں گرم و سرد کا بیک وقت مزہ لینے کے لئیے ، دنیا فتح کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔ آو ! اور ابھی میرے ساتھ لیٹ جاو ۔ میرے برابر میں ۔
آرام و سکون تمہیں یونہی مل رہا ہے ۔ تو دنیا فتح کرنے کی تگ و دو اور جدوجہد کے بعد کا انتظار کیوں ۔
اپنے آج کو مطمئن بنا لو ۔ ہر طرح کے جھنجھٹ سے آزاد ہو جاو گے "
مگر سکندر کے مقدر میں مقدر کا سکندر بننا لکھا تھا ۔ اس نے اپنے استاد کی یہ بات نہ مانی ۔
اپنی خواہش ، اپنے خواب کو مقدم رکھا اور پھر اگلی عمر کے تیرہ برس ، بیس تا تینتیس سال ، دنیا فتح کرتے رہنے کی جدوجہد میں گزار دئیے ۔ اپنے ہاتھ سے اپنی ہتھیلی پر بادشاہت کی لکیر کھینچنے اور پھر اس کے مطابق اپنی مختصر سی زندگی گزارنے کے باوجود سکندر اس دنیا سے خالی ہاتھ واپس گیا ۔

" مقدر کا سکندر "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون

دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی
جسمانی ، روحانی ، جنسی و منشیات ۔

مصنف ۔ کالم نگار ۔ شاعر ۔ بلاگر ۔ پامسٹ ۔

www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.drsabirkhan.blogspot.com
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
www.g.page/DUAAGO

Instagram @drduaago