جمعرات، 29 اگست، 2019

" نام کا کام " ڈاکٹر صابر حسین خان

" نام کا کام "

نیا کالم/ بلاگ/ مضمون

دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

اگر آپ یہ کالم پڑھ رہے ہیں تو آپ میرے نام سے واقف ہوں گے ۔ اور آپ میں سے کئی پرانے لوگ میرے کام سے بھی واقف ہوں گے ۔ میں آپ میں سے بہت سے لوگوں کو نہیں جانتا ۔ سو مجھے نہ آپ کے نام کا علم ہے اور نہ آپ کے کام کا ۔ گزشتہ سینتیس سال سے میں جو کچھ لکھ رہا ہوں ، یا لکھنے کی کوشش کررہا ہوں ، یہ میرا کام نہیں ۔ یہ نام کا کام ہے ، جو شوق میں شروع ہوا اور اب لگتا ہے زندگی کا ایک حصہ بن گیا ہے ۔ آپ کی زندگی میں بھی ایسے کچھ کام ہوں گے ، جو شوق ہی شوق میں آپ کے شانہ بشانہ چل رہے ہوں گے ۔ آپ کے بچپن یا لڑکپن کی کوئی دلچسپی ، کوئی مشغلہ ، کوئی Hobby ، جو آج بھی آپ کو Inspire کرتی ہو اور آپ آج بھی اس میں اسی جنون اور جذبے سے دلچسپی لیتے ہوں جو بچپن یا لڑکپن میں موجود تھا تو وہ شوق ، وہ دلچسپی آپ کے لئیے نہ صرف باعث مسرت بنتی ہے بلکہ کبھی کبھی آپ کے بنیادی کام کے ساتھ ساتھ آپ کے نام کا ایک لازمی جز بن کر نام کا کام بن جاتی ہے ۔ آپ کے نام کا کام کہلانے لگتی ہے ۔
گزشتہ سال مارچ میں بھائی عبدالرحمن نے میری ملاقات ایسے ہی ایک اٹھاون سالہ نوجوان سے کروائی تھی ، جو آہستہ آہستہ قریبی اور دلی دوستوں کی فہرست میں شامل ہوتے گئے ۔ جن کے نام کا کام ، آج ، ان کے بنیادی کاموں سے زیادہ بڑھ چڑھ کر بول رہا ہے ۔
محمد نواز خان ۔ پاک گرین فاونڈیشن کے چئیرمین اور روح رواں ۔ میرے آبائی شہر میرپورخاص کی معروف سماجی شخصیت ۔
نواز بھائی کا ذریعہ معاش تو اللہ تعالی نے کچھ اور رکھا ہے مگر ان کی وجہ شہرت ، پودوں اور درختوں سے ان کی بے پناہ محبت ہے ۔ پاکستان کے چپے چپے کو ازسرنو ہرا بھرا بنانا ان کا مشن ہے ۔ اس سال یوم آزادی پر نواز بھائی کا پلان چودہ اگست تک چودہ ہزار شجر کا تھا ۔ جو انہوں نے بڑی محنت اور دلجمعی سے پورا کیا ۔ ان کے ہاتھ کے لگائے ہوئے پودے اب الحمداللہ درخت بن چکے ہیں ۔ میرپورخاص سے کراچی تک ، صوبہ سندھ کے لگ بھگ تمام شہروں میں نواز بھائی کی پاک گرین فاونڈیشن کے تحت لاکھوں پودے تقسیم ہوئے اور لگائے گئے ہیں ۔
بنا کسی غرض ، بنا کسی لالچ کے اللہ کی مخلوق کی خدمت دنیا کا وہ عظیم ترین کام ہوتا ہے جو ہر کسی کے نصیب میں نہیں آتا ۔ نواز بھائی کا نام کا کام افضلیت کے دوگنے درجے پر آتا ہے ۔ پودے اور درخت ، اللہ تعالی کی جان دار مخلوق ہیں ۔ ان کی پرورش ، ان کی دیکھ بھال ، ان کی نشونما کا انتظام ، بذات خود اپنی جگہ باعث سعادت ہے ۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ یہ سب کرنےکی نیت اس سے بھی زیادہ افضل ہو ۔ اشرف المخلوقات کی بھلائی ، آسانی اور خدمت ۔ لوگوں کو تازہ ہوا اور صحت کی فراہمی کے لئیے زیادہ سے زیادہ شجر کاری اور شجر کاری کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ لوگوں میں شعور اور واقفیت اور آگاہی پیدا کرنے کی ان مٹ خواہش اور ان تھک جدوجہد ۔
اپنے کام کے کام پس پشت ڈال کر ، اپنے نام کے کام کے لئیے چوبیس گھنٹے وقف کردینا آسان نہیں ہوتا ۔ بڑے بڑے نامور اور نامدار کچھ ہی عرصے میں سب کچھ بھول بھال کر ، سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر دو دونی چار اور چار دونی آٹھ کی گنتی پڑھنے لگ جاتے ہیں ۔ دو چار سال میں ان کے سارے شوق ہوا ہوجاتے ہیں ۔ اور معاش اور معاشرت کی دلدل ان کو اپنے اندر اتار لیتی ہے ۔ نواز بھائی نے اپنے جذبے اور امنگ کی تسکین کے سالوں پر محیط سفر کے دوران لاکھوں کا نقصان برداشت کیا ، بڑے دھوکے کھائے مگر کوئی بھی نقصان ، کوئی بھی دھوکہ ان کے شوق و یقین کی دیوار میں دراڑ نہیں ڈال پایا ۔ ابھی دو تین ماہ پہلے ہی ان کے ساتھ وہی سلوک ہوا جو عام طور پر دل و جذبے کے مسافروں کے ساتھ ہوتا ہے ۔
نواز بھائی نے بہت سالوں سے میرپورخاص کا عید گاہ گراونڈ گود لیا ہوا تھا ۔ اور اپنی محنت ، اپنے وسائل اور اپنے خرچے سے اسے نہ صرف مکمل ہرا بھرا کردیا تھا ، بلکہ انواع و اقسام کے پودوں کی نرسری لگا کر پورے شہر اور پورے صوبے میں ان کی مفت تقسیم اور باقاعدہ جگہ جگہ جاکر اپنے ہاتھوں سے ان پودوں کو زمین میں لگانے کا مستقل سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا ۔ گزشتہ سال دسمبر کی ایک سہ پہر اور شام ، میں نے بھی اس سبزے کی بہار کے بیچ مراقبہ اور قیلولہ کرتے گزاری تھی ۔
سرسبز عید گاہ گراونڈ میں روزانہ سو دو سو خواتین اور بچے فجر کے بعد چہل قدمی کرنے آیا کرتے اور تازہ ہوا میں تازہ دم ہوکر گھروں کو لوٹتے ۔ شام میں مرد حضرات کی باری ہوتی ۔ بیس سال میں ہزاروں لوگوں نے نواز بھائی کی محبت اور محنت سے استفادہ حاصل کیا ۔ مگر پھر وہی ہوا ، جو ہوتا ہے ۔ کہا جانے لگا کہ عید گاہ میں ہر سال دو نمازیں ہوتی ہیں ۔ اور نواز بھائی کا مالی غیر مسلم ہے ۔ تو اس سے عید گاہ کا تقدس متاثر ہوتا ہے ۔ اور دوئم روزانہ اتنی بڑی تعداد میں جو لوگ یہاں آکر واک کرتے ہیں اور بچے کھیلتے ہیں تو اس سے بھی مذہبی تاثر مجروح ہوتا ہے ۔ اس سے پہلے کہ بات بڑھتی ، نواز بھائی نے عید گاہ کی انتظامیہ سے استعفی دے دیا اور اپنی نرسری وہاں سے منتقل کرلی ۔
یہ ابھی حال ہی کی بات ہے ۔ اب عید گاہ پر تالہ لگ چکا ہے ۔ اور سبزہ ، خشک ہورہا ہے ۔ جبکہ نواز بھائی پہلے جیسی لگن اور خلوص سے پورے شہر میں پودے لگاتے پھر رہے ہیں ۔
نام کا کام جب کام کے کام سے زیادہ قلبی اور روحانی بنیادوں پر پرورش پاکر پروان چڑھتا ہے تو لوگوں کی حمایت یا مخالفت کا محتاج نہیں ہوتا ۔ اور جب اس کام میں خلوص نیت بھی شامل ہو تو فرزانوں کے بیچ ، دیوانے کے رنگ کچھ اور ہی آن بان اور شان دکھا رہے ہوتے ہیں ۔
نواز بھائی اور نواز بھائی جیسے لوگ اس مردہ اور بے حس معاشرے کی تاریکی دور کرنے کے آخری چراغ ہیں ۔ جو چاہیں تو اپنے تمام وسائل اپنے کاروبار کو پھیلانے میں خرچ کردیں ۔ مگر نام کے کام کے نام لیوا اپنے کام کے کام سے جو کماتے ہیں ، اس کا بیشتر حصہ اپنے نام کے کام پر خرچ کر ڈالتے ہیں ۔ اور اگر نام کا کام ، خلق خدا کی خدمت کی کوئی صورت ہو تو نواز بھائی اور ان جیسے دیگر لوگ اپنی تمام تر مالی کمزوریوں کے باوجود ذہنی سکون اور دلی اطمینان اور روحانی سرشاری سے ہمہ وقت بھیگے رہتے ہیں ۔
آپ بھی ذرا دیر کو اپنی ذات کے پوشیدہ گوشوں کو کھنگالئیے ۔ اپنے کام اور اپنے کام کے کاموں میں سے وقت نکالئیے ۔ اور اس وقت کو اپنی پسند کے کسی ایسے نام کے کام میں استعمال کیجئیے ۔ جس سے کسی بھی شکل میں دوسروں کا کچھ بھلا ہو ۔
کام ہو یا نام کا کام ، وہی کام بھلا ہوتا ہے جو فلاح ، بہبود اور بھلائی کا باعث بنے ۔ باقی کے سارے کام ، یونہی دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور کہانی ختم ہوجاتی ہے ۔

" نام کا کام "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان ۔

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ،
جسمانی ، روحانی ، جنسی و منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ شاعر ۔ بلاگر ۔ پامسٹ

www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.drsabirkhan.blogspot.com
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan

Instagram @drduaago

" شادی خانہ بربادی " ڈاکٹر صابر حسین خان

" شادی خانہ بربادی "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون

دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان ۔

آج آپ سے چند سوال کرنے ہیں ۔ ضروری نہیں کہ آپ ان سوالوں کے جواب مجھ تک پہنچائیں ۔ البتہ اتنا ضروری ہے کہ آپ کے جواب ، خود آپ تک پہنچ جائیں اور نہ صرف پہنچیں بلکہ پوری ایمانداری سے پہنچیں ۔
پہلا سوال تو یہی ہے کہ اس کالم کا عنوان پڑھ کر آپ کے ذہن میں کیا تاثر پیدا ہوا ؟ ۔ موجودہ تحریر کا موضوع کیا ہوگا ؟ ۔ طنزیہ ؟ مزاحیہ ؟ فکاہیہ ؟ سنجیدہ ؟ بیانیہ ؟ یا کچھ اور ۔ کیا کچھ اور ؟
دوسرا سوال ہے کہ آپ نے یہ دونوں باتیں سنی ہوں گی ، شادی خانہ آبادی اور شادی خانہ بربادی ۔ آپ کیا سمجھتے ہیں ، کون سی بات زیادہ وزنی اور منطقی ہے ؟
تیسرا سوال ، اگر آپ شادی شدہ ہیں تو کیا مطمئن اور بھرپور ازدواجی و خاندانی زندگی گزار رہے ہیں ؟
چوتھا سوال ، اگر آپ غیر شادی شدہ ہیں تو کیا آپ شادی کرنا چاہتے ہیں ؟ اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو کیوں ؟ اور اگر نہیں میں ہے تو کیوں نہیں ؟
پانچواں سوال ، اپنی شادی شدہ زندگی میں ، اگر آپ شادی شدہ ہیں ، اب تک کتنی بار آپ کے دل میں دوسری شادی کا خیال پیدا ہوا ہے ؟ اگر ایسا ہوا ہے تو کیوں ؟ اور اگر نہیں تو کیوں ؟
چھٹا سوال ، ہمیں شادی کی ضرورت کیوں پڑتی ہے ؟
ساتواں سوال ، شادی بڑوں کی پسند سے کرنا چاہئیے یا اپنی ذاتی پسند اور محبت سے ؟
آٹھواں سوال ، ان بن ، لڑائی جھگڑے اور عدم مطابقت کی صورت میں کیا دونوں فریقین کو سمجھوتے والی لاچار زندگی گزارتے رہنا چاہئیے یا علیحدگی اختیار کر لینا چاہئیے ؟
نواں سوال ، ناکام شادیاں ، خواہ طلاق یا خلع کی شکل اختیار کریں یا مجبوری و سمجھوتے کی ، ہر دو صورتوں میں بچوں کی نفسیات اور شخصیت پر کیا کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ؟ اور ان اثرات کا سدباب کیسے ممکن ہے ؟
دسواں سوال ، شادی خواہ ذاتی پسند اور محبت کی ہو یا گھر والوں کی مرضی کے مطابق ، اسے کیسے اور کیونکر تمام عمر کامیاب اور متوازن اور پرسکون رکھا جا سکتا ہے ؟
یہ دس سوال آپ نے پڑھے ۔ ان کے ایماندارانہ جوابات آپ کی اپنی شخصیت اور نفسیات کی نمائندگی کریں گے ۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ ضروری نہیں کہ آپ ان سوالوں کے جوابات مجھ تک ارسال کریں ۔ لیکن آپ کم از کم اپنی اور اپنے اردگرد رہنے والوں کی زندگی میں بڑی آسانیاں پیدا کرسکتے ہیں ، اگر آپ سنجیدگی سے ان سوالوں کے جوابات سوچیں اور ان جوابوں کی روشنی میں اپنی ذاتی ازدواجی زندگی میں تبدیلی لانے کی کوشش کریں ۔ اور ساتھ ساتھ اپنے ساتھ کے لوگوں کی گھریلو زندگی کی ناچاتیوں اور کمیوں کو بھی کم کرنے کی بھی تگ و دو کریں ۔ آپ کے گھنٹے دو گھنٹے کی یہ سوال جواب کی مشق اور مشقت یقینی طور پر کم از کم ایک اور زیادہ سے زیادہ بہت سے لوگوں کی زندگی کو بہتر بنادے گی ۔ اور اس کا سب سے بڑا فائدہ ہمارے خاندانی نظام کو پہنچے گا ، میرے اور آپ کے بچوں کو پہنچے گا ۔ اور اس فائدے در فائدے کے Chain Reaction سے پورا معاشرہ ، پورا ملک استفادہ حاصل کرسکے گا ۔
یہ سوال اور ان سے منسلک کئی اور سوال ، ذرا زیادہ وضاحت کے ساتھ گزشتہ کچھ دنوں میں سوچ کے پردے پر ابھرے ۔ سوچا آپ سب سے بھی کیوں نہ ان سوالوں کے جواب لئیے جائیں ۔ درحقیقت ان سوالوں کے بیدار ہونے کی بڑی وجہ مکرم ہے ۔ ایک ستائیس سالہ خوبصورت اور توانا نوجوان ۔
مکرم سے پہلی ملاقات آج سے سولہ برس پہلے ہوئی تھی ۔ واضح رہے کہ مکرم فرضی نام ہے اور آگے چل کر آنے والے تمام کرداروں کے نام بھی فرضی ہیں ۔ اس وقت وہ تیرہ چودہ سال کا بچہ تھا ۔ پھر بیچ میں تین چار بار اس سے یونہی سرسری ملاقات رہی ۔ ابھی کوئی ایک ماہ پہلے اس کا بڑا بھائی عمران ، اسے خاص طور پر کاونسلنگ کے لئیے میرے پاس لایا ۔ اور کاونسلنگ کی بنیادی وجہ یہ بتائی کہ دو ماہ بعد مکرم کی شادی کی تاریخ طے ہے اور وہ بھی اس کی پسند اور محبت کی ۔ دونوں گھروں میں شادی کی تیاریاں زوروں پر ہیں ۔ مگر اب اچانک مکرم کا خیال ہے کہ اسے شمسہ سے شادی نہیں کرنی چاہیئے ۔ اس کے ساتھ بن نہیں پائے گی ۔ کچھ دونوں خاندانوں کے رہن سہن کے طور طریقے الگ ہیں اور کچھ شمسہ کا مزاج غصیلا ہے ۔ اور وہ فیصلہ نہیں کر پارہا ہے ۔
اب تک مکرم سے چار ملاقاتیں ہو چکی ہیں ۔ دو ملاقاتوں میں شمسہ بھی شامل تھی ۔ شمسہ ، مکرم سے عمر میں دو سال بڑی ہے ۔ مگر عمر چور ہے ۔ بظاہر سولہ اٹھارہ سال سے زیادہ کی نہیں لگتی لیکن ذہنی عمر ، جسمانی عمر سے کچھ زیادہ ہی ہے ۔ شمسہ معصوم بھی ہے اور خوبصورت بھی ۔ اور اللہ تعالی نے اسے ذہانت بھی دی ہے ۔ والد کی بیماری اور مشکل معاشی حالات کی وجہ سے تعلیم کا سلسلہ گریجویشن کے بعد جاری نہیں رہ سکا ۔ اور نوجوانی سے ہی کچھ کچھ معاشی ذمہ داری کا بوجھ بھی اٹھانا پڑا ۔ بچپن سے حساسیت ، جذباتیت ، ضد اور خودسری کے عوامل بھی شامل شخصیت ہوتے رہے ۔ اور پھر کچھ خاندانی اور موروثی جینز ، کچھ ذہنی و نفسیاتی عارضوں کی بھی ٹرانسفر ہوئیں ۔ ان سب عناصر کی موجودی اور پرورش نے شمسہ کی طبیعت ، شخصیت ، نفسیات اور مزاج کو چار دھاری تلوار بنا دیا ہے ۔ جو ہوا کے جھونکوں کے مقابلے میں بھی ہمہ وقت نیام سے باہر رہتی ہے ۔ ہر وہ شے ، ہر وہ بات ، ہر وہ شخص جو شمسہ کی پسند اور مزاج کے مطابق نہیں ہوتا یا نہیں رہ پاتا ، شمسہ کی نظر نہ آنے والی تلوار کی زد میں آجاتا ہے ۔ اور پھر دے مار ساڑھے چار ۔ ہواوں میں چار دھاری ننگی تلوار لہراتے رہنے کا سب سے زیادہ نقصان ، کسی اور کا نہیں ہوتا ۔ تلوار لہرانے والے کا ہوتا ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ اسے جوش جنوں میں اپنے لہو لہان ہونے تک کا علم نہیں ہو پاتا ۔ ایسا فرد ، خواہ مرد ہو یا عورت ، نادانی اور نادانستگی میں اپنے لئیے تو راستے بند کرتا ہی کرتا ہے ، اپنے چاہنے والوں اور اپنے ساتھ رہنے والوں کی زندگی بھی اجیرن کرتا رہتا ہے ۔ مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ خود وہ ان سب باتوں سے لاعلم رہتا ہے اور اسے آخر وقت تک ادراک نہیں ہوتا کہ اس سے کیا کیا گڑبڑ ہورہی ہے ۔ کیونکہ اسے ہمشیہ یہ یقین ہوتا اور رہتا ہے کہ وہ ہر معاملے میں صحیح ہے ۔ اور اسی مغالطے میں اس سے ایک کے بعد ایک اور حماقت ہوتی چلی جاتی ہے ۔ اور سب سے بڑی حماقت عام طور پر زیادہ بولنا اور سوچے سمجھے بنا بولنا ہوتا ہے ۔
پانچ سالہ دوستی اور ڈھائی سالہ محبت کے بعد گزشتہ سال مکرم اور شمسہ کے گھر والوں نے منگنی کی رسم ادا کرکے شادی کی تاریخ طے کردی ۔ مگر اب کچھ ماہ سے مکرم کو محسوس ہونے لگا کہ شمسہ کی عمر بھی زیادہ ہے ، اس کے گھر والوں کا کلچر بھی مختلف ہے کہ ان کا تعلق دوسری کمیونٹی سے ہے ۔ تو اسے یہ شادی نہیں کرنی چاہیئے ۔ اس کی اس بات پر اس کے گھر والے بھی پریشان ہو گئے اور شمسہ اور شمسہ کے گھر والے بھی حیران ہوگئے ۔
مکرم خود بہت پریشان ہوا کہ یہ اسے کیسے خیالات آرہے ہیں ۔ وہ تو شمسہ سے شدید محبت کرتا ہے ، پھر کیوں اس کے حوالے سے منفی سوچ اس کے دل میں آگئی ۔ مکرم کا تعلق بھی ایک ایسے متوسط گھرانے سے ہے ۔ جس کے کئی افراد زندگی کے کسی نہ کسی حصے میں نفسیاتی طور پر ڈسٹرب رہے مگر شعور اور علم رکھنے کی وجہ سے بروقت نفسیاتی پروفیشنل مدد اور مشاورت سے اللہ تعالی ان کے مسائل دور کرتا رہا ۔ اور اب گھرانے کے سب سے چھوٹے فرد مکرم کو شادی کرنے ، نہ کرنے کے دو رخی خیال نے سائیکوتھراپی لینے پر ماہرانہ مشاورت کے لئیے آنا پڑا ۔
قدرت ہر فرد ، ہر خاندان ، ہر معاشرے کے لئیے الگ الگ طرح کی آزمائش رکھتی ہے ۔ وہ فرد ، وہ خاندان ، وہ معاشرہ اپنی اپنی آزمائش سے سرخرو ہوکر نکلتا ہے جو صبر و شکر سے اپنی حالت اور اپنے حالات کو دلی طور پر نہ صرف قبول کرتا ہے ، بلکہ اپنی حالت اور اپنے حالات کو دلی طور پر بدلنے کی بھرپور کوشش بھی کرتا ہے ۔ جو لوگ ، جو معاشرے ، اپنے حال کو قبول نہیں کر پاتے اور آنکھیں بند کرکے ، خود کو اور اپنے حالات کو ازخود بدلنے کی تگ و دو نہیں کرتے ، وہ زوم آوٹ ہوتے ہوتے اسکرین سے غائب ہو جاتے ہیں اور کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا ۔ حد تو یہ ہے کہ غائب ہونے والوں کو بھی یہ علم نہیں ہو پاتا کہ وہ اب نہ کسی کی نظر میں ہیں اور نہ ہی کسی منظر میں ۔
مکرم اور اس کا خاندان اپنی آزمائش سے واقف بھی ہے اور اپنے حالات کو دلی طور پر بدلنے کے لئیے تیار بھی ۔ شاید یہی وجہ رہی ہو کہ مکرم کو شادی سے دو ماہ پہلے شادی نہ کرنے کا خیال آیا ہو ۔ کہ اس کے خیال میں اس کی پسند اور محبت اپنی جگہ ، لیکن شمسہ اور اس کا مزاج اور اس کے گھر والوں کے رہن سہن کے مختلف طور طریقے ، مکرم کے خاندان کے مزاج سے میچ نہیں کرتے ۔
دو چار دن بھی شمسہ سے رابطہ نہ ہو تو مکرم اداس ہوجاتا ہے ۔ اور اپنے کام سمیت زندگی کے ہر رنگ میں اپنی دلچسپی کھو بیٹھتا ہے ۔ شمسہ کی محبت تو اور شدید ہے اور اس میں نارمل سے زیادہ حدت اور شدت پائی جاتی ہے ۔ وہ تو چار گھنٹے بھی مکرم سے جدائی برداشت نہیں کر سکتی ۔ مکرم کسی بات پر خفا ہوتا ہے تو بلیڈ سے اپنے بازو پر کٹ لگانا شروع کر دیتی ہے ۔
مگر اس میں اور مکرم کی شخصیت کا واضح فرق یہ ہے کہ مکرم یہ جانتا بھی ہے اور مانتا بھی ہے کہ اس کے کچھ مسائل کی بنیاد ذہنی و نفسیاتی بھی ہے ، جس کا علاج ضروری ہے ۔ جبکہ شمسہ سمجھتی ضرور ہے کہ اس کے مزاج کا اتار چڑھاؤ اور تغیر اور شدت کی وجہ نفسیاتی بیماری ہے مگر وہ اپنے آپ کو اس حوالے سے بیمار نہیں سمجھتی اور نہ ہی کسی پراپر علاج کے لئیے راضی ہے ۔
اب آپ سب سے آخری سوال ، مجھے مکرم اور اس کے بھائی کو کیا مشورہ دینا چاہئیے ، یا دینا چاہئیے تھا ۔ اپنے وقت پر شادی کرنے کا یا شادی سے انکار کردینے کا ۔ اس سوال کا جواب آپ میں سے وہی لوگ بہتر دے سکیں گے جو اس تحریر کی ابتدا میں درج دس سوالوں کی اہمیت اور معنویت کو اچھی طرح سمجھے ہوں گے اور اپنے تئیں ان کے ایماندارانہ جوابات دئیے ہوں گے ۔
شادی ، خانہ آبادی اور خوشی کا نام ہے ۔ ازدواجی رفاقت اور ذہنی ہم آہنگی کا نام ہے ۔ دو خاندانوں کے گھلنے ملنے کا نام ہے ۔ تمام عمر محبت اور برداشت کا نام ہے ۔ بچوں کی بھرپور تربیت اور نگہداشت کا نام ہے ۔ ان میں سے کوئی بھی فیکٹر ، مسنگ ہوگا تو شادی ، خانہ بربادی میں بدل جاتی ہے ۔ اور ہم میں سے کوئی بھی نہیں چاہتا کہ ایسا ہو ۔ ماسوائے اس وقت جب ہماری عقل پر پردے پڑ جائیں اور ہم اپنی تمام تر محبت اور گھر والوں کی عزت کے احترام میں اپنی ازدواجی زندگی داو پر لگا دیں ۔ شومئی قسمت سے ہماری سوسائٹی میں ایسے بزرجمہروں کی کمی نہیں ۔ جو جذباتی محبت اور خاندان کی شان و شوکت برقرار رکھنے کے چکر میں نہ صرف اپنی اور اپنے شریک زندگی کی پوری زندگی اجیرن کر بیٹھتے ہیں ۔ بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کی بھی نفسیات اور شخصیت ، مسخ و تباہ کر ڈالتے ہیں ۔
ہماری معاشرتی زندگی کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ شادی کے وقت ہم باقی ہر طرح کی اونچ نیچ دیکھ لیتے ہیں مگر Compatibility اور ذہنی ہم آہنگی کو کسی گنتی میں نہیں لاتے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج ، طلاق اور خلع کے Cases سے بہت سے وکیلوں کی آمدنی میں دن دونی رات چوگنی اضافہ ہورہا ہے ۔ اور اب ہمارے معاشرے میں بھی Broken Families اور نفسیاتی مسئلوں اور عارضوں میں گرفتار بچوں اور بچیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے ۔
شادی سے پہلے اگر دونوں فریقین اور ان کے گھر والے دل سے اپنی اپنی ذہنی و نفسیاتی ساخت و شخصیت کا ایماندارانہ تجزیہ کروا لیں اور پرسنالٹی اسیسمنٹ کے ساتھ ساتھ آپس کی ہم آہنگی کو بھی Objectively اور Professionally Evaluate کروالیا کریں تو بہت ممکن ہے کہ بہت سے خاندان ممکنہ بربادی سے بچ جایا کریں ۔

" شادی خانہ بربادی "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات و امراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی
جسمانی ، روحانی ، جنسی اور منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ

www.drsabirkhan.blogspot.com
www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
https://g.page/DUAAGO

Instagram @drduaago

منگل، 20 اگست، 2019

" حقیقی فرضی " ڈاکٹر صابر حسین خان

" REAL FICTION "
" حقیقی فرضی "

نیا کالم/ بلاگ/ مضمون

دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان ۔

اگر میں آپ سے یہ کہوں کہ حالیہ طوفانی بارشیں تھیں تو قدرتی مگر Engineered تھیں تو آپ نے میری ذہنی صحت پر شک کرنا شروع کردینا ہے ۔ میرا یہ بھی کہنا ہو کہ گزشتہ بیس پچیس سالوں میں ہم سب کی سوچوں اور رویوں میں جو تبدیلیاں آئی ہیں ، وہ کچھ تو حالات و واقعات کے زیر اثر ہیں اور کچھ Induced ہیں تو آپ کا میرے بارے میں شک ، کچھ کچھ یقین میں ڈھلنے لگے گا ۔ اور پھر میں یہ بھی کہوں کہ دنیا کے ایک خطے میں جو کچھ ہورہا ہے ، اس کے اثرات جلد یا بدیر دوسرے خطے میں ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں ۔ جبکہ ان دو خطوں کا آپس میں نہ کوئی جوڑ ہوتا ہے نہ ہی کوئی میل ۔ تو آپ کا یقین پکا ہونے لگے گا ۔
اگر میرا Hypothesis یہ ہو کہ آج سے پچیس سال پہلے فیصلہ ہوچکا تھا کہ امریکہ ، انڈیا اور پاکستان میں آج کے خاص وقت میں ا
طنہی مخصوص لوگوں کی حکومت ہوگی ، جن کی اس وقت ہے ۔ تو آپ نے اسے دیوانے کی بڑ اور بکواس ہی سمجھنا ہے ۔
پھر میرا یہ خیال بھی ہو کہ جنگیں اب گولہ بارود سے کم اور ففتھ کالم اور سائکلوجیکل وار فئیر اور معاشی دباو اور دھمکیوں سے زیادہ لڑی اور جیتی جاتی ہیں تو ہوسکتا ہے کہ میرے بارے میں آپ کے یقین کی دیواروں میں دراڑیں پڑنے لگیں ۔ کیونکہ سوشل میڈیا کی فراوانی سے آپ بھی ان الفاظ اور ان کے معنوں سے واقف ہوگئے ہیں اور آپ میری اس بات کی مکمل تائید بھی نہ کرپائیں مگر اس کو مکمل رد بھی نہیں کرسکیں گے ۔
لیکن میرے اس خیال پر آپ نہ صرف چونکیں گے بلکہ ہوسکتا ہے کہ سیخ پا بھی ہوجائیں کہ مملکت خداداد پاکستان کی حکومت گزشتہ بیس برسوں سے غیر محسوس طریقے سے بین الا قوامی منصوبہ بندی کے بچھائے ہوئے جال میں گرفتار ہے اور انٹرنیشنل ایجنڈے کے آخری مراحل کی تکمیل کے لئیے حالیہ حکومت کے نمائندوں کو سامنے لایا گیا ہے ۔
کسی بھی فرد ، خاندان ، معاشرے ، قوم یا ملک کو نیست و نابود اور تباہ و برباد کرنے کے لئیے زیادہ نہیں ، صرف چند اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے ۔
اول ، نوجوان نسل کو مذہب اور اعلی معاشرتی اقدار سے متنفر کرکے غصیلا ، باغی اور ضدی بنا دیں ۔ دوئم ، لوگوں کے اندر سے صبر ، شکر ، قناعت ختم کرکے ان کے اندر مادی چیزوں کی محبت اور طلب پیدا کردیں ۔
سوئم ، محنت ، لگن اور امنگ کی جگہ لالچ اور خودغرضی اور حرام طریقوں سے مال و دولت کمانے کے نظریات عام کردئیے ۔
جائیں ۔
چہارم ، انفرادی اور اجتماعی سطح پر بے شرمی اور بے حیائی کے کلچر کو فروغ دے دیا جائے ۔
پنجم ، احترام ، عزت نفس اور قوت برداشت کا خاتمہ کرکے فرد کو فرد سے ، خاندان کے افراد کو ایک دوسرے سے اور ملک و قوم کے مختلف قبیلوں اور طبقوں کو آپس میں لڑنے جھگڑنے ، مرنے مارنے پر اکسا دیا جائے ۔ طب

ششم ، انفرادی اور قومی معیشت کو آہستہ آہستہ اس بری طرح کچل دیا جائے کہ اگلی سات نسلیں بھی اپنے پیروں پر کھڑی نہ ہوسکیں ۔
ہفتم ، ہر برائی اور خرابی کو وقت حاضر کی اہم ضرورت بنا کر پیش کیا جائے کہ لوگ آسان شادی کرنے کی بجائے زنا اور بد کاری اور آزادانہ مخلوط تعلقات کو اپنے لئیے زیادہ سہل سمجھنے لگیں اور حلال کاروبار کی بجائے سود اور رشوت اور کمیشن کو ہی اپنی آمدنی بنانے لگیں ۔
ہشتم ، مطالعے ، مشاہدے ، مراقبے اور تجربے کے ماحول کی جگہ مباحثوں ، تقریروں ، تنقیدوں ، مذاکروں سے لبریز ایسا نظام رائج کرنا جس میں ہر شخص خود کو ہیرو اور باقی سب کو ویلن سمجھ کر گھنٹوں بولتا جائے اور کسی کی کچھ نہ سنے ۔
نہم ، سوسائٹی کے چیدہ چیدہ مخصوص لوگوں کو بھاری قیمت یا لالچ دے کر خریدا جائے اور پھر ان کے ذریعے ملکی مفادات کا سودا کیا اور کروایا جائے اور ان کو رول ماڈل بنا کر اس طرح ان کو Portrait کیا جائے کہ ان کے پیچھے سادہ لوح اور بھولے بھالے ، کچھ نہ جانتے ہوئے لوگوں کا ہجوم جمع ہوجائے ۔
دہم ، ذرائع ابلاغ کے تمام پہلووں اور اداروں کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں کے تمام درجات میں مخصوص صحافیوں اور استادوں کے ذریعے ملک اور معاشرے کی بنیادی مذہبی ، اخلاقی ، ثقافتی سوچ اور آئیڈولوجی کو خاموشی سے ضربیں پہنچواتے رہنا ۔
مندرجہ بالا دس نکات کی روشنی میں ماضی کے بیس سالوں کا جائزہ لیجئیے ۔ اور دیکھئے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی سطح پر کہاں سے کہاں آگئے ہیں ۔
کیوں آگئے ہیں ۔ اس کی وجہ بھی آپ نے پڑھ لی ۔ کیسے آگئے ہیں ۔ اس کا آپ کو ابھی شاید اندازہ نہیں ۔
یہی اندازہ ، ایک مختلف انداز میں آپ تک پہنچانے کے لئیے مجھے اپنے خیالات آپ کے سامنے لانے پڑے ۔ مجھے اس بات سے دلچسپی نہیں کہ آپ میرے خیال سے متفق ہوں یا متنفر یا آپ سمجھیں یا نہ سمجھیں ۔ اتفاق ، اختلاف ، سمجھ ، نا سمجھ سے حقائق نہیں بدلتے ۔ ہم مانیں یا نہ مانیں ۔
میری بہت سی باتیں آپ کو بظاہر فکشن لگیں گی ۔ کسی ناول یا فلم یا ڈرامے کا پلاٹ محسوس ہوں گی ۔ آپ کو ان میں Conspiracy Theories ٹائپ کی کہانیاں نظر آئیں گی ۔ اور یا پھر آپ مجھے فائرالعقل قرار دے کر مطمئن ہوں جائیں گے ۔ مگر انیس بیس کے فرق سے Facts برقرار رہیں گے ۔ Reality آہستہ آہستہ سامنے آتی رہے گی ۔ یہ اور بات ہے کہ اس وقت تک اور دیر ہو چکی ہوگی ۔ اور جب دیر ہوجاتی ہے تو بچا کھچا بھی رخصت ہوجاتا ہے ۔
آج سے ہزار بارہ سو سال پہلے جب الف لیلہ کی کہانیاں کہی گئی تھیں ، افراسیاب جادوگر اور عمرو عیار اور امیر حمزہ کے قصے سنائے گئے تھے تو وہ مکمل فکشن تھا ۔ مگر آج ان قصوں کہانیوں کی بیشتر باتیں حقیقت کا روپ دھار چکی ہیں ۔
آج سے پینتالیس پچاس سال پہلے جیمز بانڈ کی جو فلمیں بنی تھیں اور ان میں جن سائنسی ایجادات کو دکھایا گیا تھا ، آج وہ ہماری زندگی کا حصہ ہیں ۔ اسی وقت اور دور میں محترم ابن صفی نے جو شہرہ آفاق جاسوسی ناول لکھے تھے اور ان میں جو منظر کشی کی تھی ، وہ آج بچے بچے کے نہ صرف علم میں ہے بلکہ ان ناولوں میں لکھی جانے والی ان گنت اشیاء آج ہم سب کے عام استعمال میں ہیں ۔ کمپیوٹر سے لے کر واچ ٹرانسمیٹر ۔ ڈارٹ گن سے لیکر وائس چینجر ۔
یہ مثالیں تو فکشن سے رئیلٹی تک کے ارتقاء کی ہیں ۔
الف لیلہ کی کہانیوں کو حقیقت کی شکل میں آنے تک ہزار سال لگے ۔ جیمز بانڈ اور عمران سیریز اور جاسوسی دنیا کے سائنس فکشن کو عملی زندگی میں قدم رکھنے کو پچاس برس لگے ۔
اور جو بات ، بظاہر تخیلاتی ، تصوراتی ، غیر حقیقی ، افسانوی ، فلمی ، ڈرامائی ، غیر ماورائی بات میں آپ کے سامنے لا رہا ہوں ، اس کے عملی مظاہر ہمارے سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں ۔
دنیا کے آبی و غذائی وسائل بہت تیزی کے ساتھ ختم ہو رہے ہیں ۔ جبکہ آبادی میں بہت تیزی کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے ۔ ہم جیسے جذباتی اور مطلق جاہل لوگ ، دنیا کی کیا ، اپنی ذاتی اور خاندانی زندگی کو کسی بھی نظام اور توازن اور پیش بینی کے بنا گزارنے کے عادی ہیں ۔ لیکن جو لوگ اس وقت دنیا پر حکمرانی کررہے ہیں ، وہ گزشتہ اسی نوے سالوں سے ، اگلے دو سو سالوں کی مضبوط اور مربوط پلاننگ میں مصروف ہیں ۔ اور اب وہ اس نہج پر آچکے ہیں ، کہ جب ان کے مذموم ارادوں میں محض کسی ایک ملک یا محدود خطے پر حکمرانی نہیں ، بلکہ پوری دنیا پر اپنی حاکمیت کا سکہ بٹھانا اور چمکانا شامل ہوچکا ہے ۔
نیو ورلڈ آرڈر کا پہلا پلان دنیا کی آبادی کو کم سے کم کرکے ، دنیا کے ان علاقوں کو اپنی کمانڈ میں لینا ہے ، جہاں قدرتی آبی و غذائی وسائل کثرت سے موجود ہیں ۔ نیز ان خطوں اور زمینوں پر قبضہ حاصل کرنا ہے ، جہاں اگلے کئی سو سالوں تک قدرتی قیمتی دھاتیں اور پتھر اور ایندھن کے ذخائر ملتے رہنے کے امکانات روشن ہیں ۔
نیو ورلڈ آرڈر کے ایجنڈے کا دوسرا اہم نکتہ اپنے تمام مخالفین اور ممکنہ دشمنوں کو ختم اور کمزور ترین کردینا ہے ۔ اس کے لئیے خواہ جنگ چھیڑنی پڑے یا جنگ چھڑوانی پڑے ۔ اور یا برین واش کرکے اپنے مخالفین کے نظریات اور خیالات کو بدل ڈالا جائے ۔
نیو ورلڈ آرڈر ڈاکٹرائن کا تیسرا اہم جز گلوبل ہارمونائزیشن ہے ، جس کے تحت Robotic اور Mechanized انسانوں کی تشکیل اور تدوین ہے ۔ جس کو کچھ لوگ Modern Scientific Slavery کا نام دیتے ہیں ۔
یہ موضوع بذات خود اتنا مشکل اور طویل ہے کہ اس پر موجودہ تحریر میں اتنی ہی بات بتانا مناسب ہے ۔ ورنہ بات کہیں سے کہیں اور نکل جائے گی ۔
اب ایک نظر آپ اپنے ملک کے موجودہ حالات پر ڈالئیے اور ذرا دیر کو سوچئیے کہ ہم ہر حوالے سے آج جس حال میں ہیں ، کیا ایک دن یا چند ماہ میں ہم اس حال میں پہنچے ہیں ۔ نہیں نہ ۔ پھر غور کیجئے کہ حالات کی بدتری کا آغاز کب سے اور کیسے شروع ہوا تھا ۔ آپ کی نظروں کے سامنے سے پرتیں ہٹنا شروع ہو جائیں گی ۔ اور پھر جب آپ ، ملک کے ساتھ ساتھ دنیا کے دیگر ممالک میں ہونے اور آنے والی تبدیلیوں پر ذرا سوچیں گے تو مزید کئی اور سچائیاں آپ کے سامنے آنا شروع ہو جائیں گی ۔
نیو ورلڈ آرڈر صرف اور صرف سیاہ اور سفید کو مانتا ہے ۔ کوئی اور رنگ ، کوئی اور نظریہ ، کوئی اور فلسفہ اس کے نصاب کا حصہ نہیں ۔
Either You Are In Or You Are Out , There Is No In Between , There Is No Middle Space.
کسی بھی امتحان میں جب سو فیصد پاسنگ مارکس رکھ دئیے جائیں گے تو لامحالہ پاسنگ ریشو کم سے کم ہوتا چلا جائے گا ۔ اور آخر میں صرف انتہائی ذہین ، انتہائی طاقتور ، انتہائی امیر ، اور انتہائی کام والے لوگ اس Criterion کو پا سکیں گے ۔
گزشتہ بیس سال سے ہم اور ہمارا ملک اس Criteria سے گزارے جارہے ہیں ، گزروائے جارہے ہیں ۔ ہم میں سے اہل ترین اور بین الاقوامی قوتوں کے نظریات سے قریب ترین کا سلیکشن ہورہا ہے اور باقی کے نوے فیصد لوگوں کو سائیڈ لائن کیا جارہا ہے ، مستقبل قریب میں کرش کرنے لے لئیے ، روبوٹک اور میکانائزڈ بنانے کے لئیے ۔
آپ اس بات سے بھی نا آشنا ہوں گے کہ 2005 کا تباہ کن زلزلہ بھی قدرتی کم اور انجینئیرڈ زیادہ تھا ۔ آپ کی سمجھ میں اب تک یہ بھی نہیں آیا ہوگا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو پر کس اسنائپر نے گولی چلائی تھی اور ان کی شہادت کے بعد اتنے بڑے پیمانے پر اچانک کیسے ملک گیر ہنگامے شروع ہوگئے تھے ۔ تیس برس پہلے سندھی مہاجر بھائی بھائی ، یہ تیسری قوم کہاں سے آئی کا نعرہ بلند کرکے جس لسانی پارٹی نے پٹھانوں کے خلاف طبل جنگ مچایا تھا ، آج اس کے بانی کیوں اور کیسے اور کس کی ایما پر مظلوم پٹھانوں کے حق میں آوازیں اٹھا رہے ہیں ، تقریروں پر تقریریں کررہے ہیں ۔ اور ان کے پیروکار اچانک ماضی حال مستقبل بھول کر پھر سے پچاس سالہ پرانا سندھی مہاجر کا گانا ، گانا شروع کررہے ہیں ۔
آپ کی معصوم سمجھ میں کچھ نہیں آئے گا کہ پنجابی ، پٹھان ، سندھی ، مہاجر اور بلوچ کو کیوں ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کیا جاتا رہا ہے ۔
آپ کی سمجھ میں یہ بھی نہیں آپائے گا کہ 72 سال پہلے آزادی کے وقت جس قوم نے سب سے زیادہ مسلمانوں پر ظلم ڈھائے تھے اور کھلے عام قتل عام کیا تھا ، آج وہی سکھ پوری دنیا میں کیوں کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کی آواز بلند کررہے ہیں ۔
آپ کچھ نہیں سمجھ پائیں گے ۔ کیونکہ آپ منطقی نہیں ، جذباتی سوچ رکھتے ہیں ۔ آپ کبھی بھی آزاد نہیں ہو پائیں گے ، کیونکہ آپ کبھی بھی آزاد نہیں رہے ہیں اور نہ رہ سکتے ہیں ۔ آپ کبھی بھی ترقی نہیں کرسکتے ، کیونکہ آپ ہمیشہ بکنے کے لئیے تیار رہتے ہیں اور کوئی بھی کبھی بھی محض جھوٹے وعدوں اور نعروں سے آپ کو خرید لیتا ہے ۔ آپ کبھی بھی سچ کو نہیں جان سکتے ، کیونکہ آپ کو سچ اور جھوٹ اور صحیح اور غلط میں تفریق کرنا نہیں آتا ۔ آپ کبھی بھی Fiction میں چھپی Reality کو نہیں پہچان سکتے ، کیونکہ آپ نے کبھی ما بعدالسطور پڑھنے کی کوشش ہی نہیں کی ۔
آپ کو کبھی بھی پتہ نہیں چل پائے گا کہ اس وقت آپ جو کچھ سوچ رہے ہیں ، اس سوچ میں آپ کی اپنی کتنی سوچ شامل ہے اور کتنی سوچ ایسی ہے جو آپ کے ذہن میں Implant کی گئی ہے ۔
آپ کو یہ بھی نہیں پتہ چلے گا کہ ایک مصنوعی حقیقت ، ایک مصنوعی طاقت اس لمحے ، اس وقت آپ کے ذہن کو کنٹرول کررہی ہے ۔ آپ کا ہر Response ، آپ کا ہر Reaction اس مصنوعی طاقت کے تابع ہے ۔ آپ کے جذبات ، آپ کا غصہ ، آپ کا غم ، آپ کی بے نام اداسی ، آپ کے اندر کا خالی پن ، آپ کی بوریت اور بیزاری ، آپ کی ہیجانی کیفیت ، یہ سب کچھ فطری ہیں اور کچھ آپ کے اندر وقتا فوقتا Induce کی جاتی رہی ہیں اور یہ عمل تھما نہیں ، جاری و ساری ہے ۔
یہ مصنوعی حقیقی قوت جہاں ایک طرف انسانوں کے موڈ ، مزاج ، جذبات اور خیالات کو Govern کررہی ہے ، وہاں دوسری طرف یہ ماحول اور موسم اور موسمیاتی تغیر کو بھی اپنی مرضی ، اپنی خواہش کے مطابق Control کررہی ہے ۔ زلزلہ ، سیلاب ، بارش ، ان سب قدرتی آفات کو کم زیادہ اور کسی خاص حصے کی جانب منتقل کرنے کی اہلیت کو بار بار چیک کیا جارہا ہے اور اپنے سسٹم کی خرابیوں کو Rectify کیا جارہا ہے ۔
لیکن آپ کو اس سے کیا ۔ آپ کو تو یہ بھی نہیں پتہ کہ آپ اس مصنوعی حقیقی قوت کی تجربہ گاہ کے Guine Pigs ہیں ۔
کیا آپ کو پتہ ہے کہ آپ کا ملک ، آپ کا خطہ زمین پوری دنیا میں ایک منفرد اور اعلی ترین مقام رکھتا ہے ۔ شاید ہی دنیا کا ایسا کوئی اور ملک ہو ، جہاں پہاڑوں کی بلند ترین چوٹیوں پر سارا سال برف جمی رہے ، جہاں قدرتی آبشاروں کے پانی کو کسی فلٹر کی مدد کے بغیر سارا سال پینے کے لئیے اور فصلوں کی پیداوار کے لئیے استعمال کیا جاسکے ۔ جہاں کے دریاؤں کے بہاو کا رخ ایسا ہو ، جو ملک کے چپے چپے تک پانی پہنچ سکتا ہو ، جہاں کے جنگلات ہر طرح کی لکڑی کے لئیے مشہور ہیں ، جہاں صحرا بھی ہیں اور نیلگوں سمندر بھی اور دنیا کا سب سے بڑا ساحل بھی ۔ جہاں قیمتی دھاتوں اور پتھروں کے نہ ختم ہونے والے ذخائر بھی ہیں اور کوئلہ ، قدرتی گیس اور تیل کے خزانے بھی ۔ ایسی سرزمین قسمت والوں کو ملتی ہے جو ہر طرح کی قدرتی نعمت میں خود کفیل ہو ۔
اب آپ خود سوچئیے ، کہ آپ کو کچھ بھی نہیں پتہ اور آپ دنیا کے عظیم ترین قدرتی خزانوں کے مالک بنے بیٹھے ہیں ۔ لیکن جن قوتوں کو یہ سب پتہ ہے ، وہ ان کو گولے بارود سے تباہ و برباد بھی نہیں کرسکتے اور نہ کرنا چاہتے ہیں ۔ وہ قوتیں ، ہم سب کو اور ہماری سات نسلوں کو اپنا غلام بنا کر ہمارے پہاڑوں ، ہمارے ساحلوں ، ہماری زمینوں ، ہمارے معدنی و دھاتی خزینوں ، ہمارے میدانوں ، ہمارے جنگلوں ، ہماری وادیوں پر قابض ہونا چاہتی ہیں ۔ کیونکہ یہ بقا کا معاملہ ہے اور ان کا علم ہماری معلومات سے کئی سو گنا زیادہ ہے اور ان کا عمل ہماری باتوں سے لاکھوں گنا زیادہ ہے ۔ اور جن قوموں ، جن قوتوں کا علم و عمل ، دونوں زیادہ ہوں ، وہ اسی طرح چھوٹے بڑے ہر طرح کے محاذ پر پیش رفت کرتی رہتی ہیں ۔
موسم کے تغیر سے لیکر لوگوں کی سوچ اور موڈ پر بھی ان کا کنٹرول ہوتا ہے ۔ آہستہ آہستہ وہ اس ہوشیاری اور چالاکی سے Mind Manipulation کی جدید سائنسی اور نفسیاتی Techniques کو استعمال کرتی چلی آئی ہیں کہ اب فصل پک کر تیار کھڑی ہے ۔ اور آپ اب بھی اس ساری کہانی کو فکشن سمجھ رہے ہیں ۔ کیونکہ آپ کو کچھ بھی نہیں پتہ ۔ کیونکہ آپ کنوئیں کے مینڈکوں کی طرح دو فٹ گہرے پانی میں رہتے ہوئے ، چھلانگیں لگاتے ہوئے ، ٹرٹرٹرٹر کرتے ہوئے اسی طرز زندگی کے عادی ہوچکے ہیں ۔ اب آپ کو کسی بات سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا ۔ کیا پتہ ہے ، کیا نہیں پتہ ، کیا پتہ ہونا چاہیے ، کچھ پتہ چل جائے تو کیا کرنا چاہیے ۔ کیونکہ اب آپ کا دل ، آپ کا ذہن آپ کا نہیں رہا ۔ اس پر کسی اور مصنوعی حقیقی قوت کا کنٹرول ہے ۔
اور یہ بات آپ کو کسی ناول کا پلاٹ لگے گی ۔ کسی فلم کی کہانی لگے گی ۔ کسی ڈرامے کا تھیم لگے گی ۔ یہ حقیقی فرضی Theory ہے ۔ بظاہر میں اور آپ اسے کسی لیبارٹری میں کنفرم نہیں کرسکتے ۔ مگر سچ یہی ہے ۔ الف لیلہ ، جیمز بانڈ اور عمران سیریز کی کہانیوں کی طرح ۔ جو اپنے اپنے وقتوں میں جھوٹی اور فرضی تھیں ۔ مگر آج کے بچوں اور جوانوں کے لئیے وہ Childish اور فضول ہیں ۔ کیونکہ آج ان کے پاس اور ان کے اردگرد ان دیومالائی اور سائنسی کہانیوں میں بیان کردہ چیزوں سے زیادہ ایڈوانس چیزیں موجود ہیں ۔
کیا Real ہے ، کیا Fiction ، کیا Real Fiction ہے اور کیا Fictional Reality ، ان سب کو جاننے اور سمجھنے کے لئیے دقیق مطالعے اور مشاہدے کی بھی ضرورت ہے اور ریسرچ اور Experiments کی بھی ۔
میں نے تو اب تک کی متھا ماری سے جو تھوڑا بہت اخذ کیا ، وہ اس Raw Theory کے ذریعے آپ کے سامنے پیش کر دیا ۔ مجھے بالکل بھی دلچسپی نہیں کہ آپ اسے سمجھیں یا نہ سمجھیں ۔ کہ یہ میرا کام نہیں ۔ کہ ہوتا وہی ہے جو اللہ کو منظور ہوتا ہے ۔
البتہ اگر آپ کچھ بھی پتہ کرنا نہیں چاہتے اور ایسی ہی زندگی گزارتے رہنا چاہتے ہیں اور خود کو علم اور عمل سے خالی رکھنا چاہتے ہیں تو کم از کم اپنے دل اور دماغ کو کسی بیرونی مصنوعی حقیقی قوت کا آلہ کار بننے سے تو روک لیجئیے ۔ اس کے لئیے آپ کو کسی پہاڑ کی چوٹی سر نہیں کرنی پڑے گی ۔ نہ ہی کسی ویرانے میں جاکر چلہ کاٹنا پڑے گا ۔
آپ جہاں ہیں اور جیسے ہیں اور جو بھی ہیں ، بس روزانہ سو بار درود ابراھیمی اور سو بار استغفار کا ورد شروع کردیں ۔ انشاءاللہ دو ماہ کے بعد آپ کو اپنے اندر اور باہر کی دنیا بدلی ہوئی ملے گی ۔ اور پھر اگر تمام عمر آپ یہ کام کرتے رہے تو آپ اپنے دل اور اپنے ذہن کو اپنے قابو میں رکھ سکیں گے ۔

" حقیقی فرضی " ( Real Fiction )
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان ۔

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی
جسمانی ، روحانی ، جنسی و منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ شاعر ۔ بلاگر ۔ پامسٹ

www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.drsabirkhan.blogspot.com
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
https://g.page/DUAAGO

Instagram @drduaago