جمعرات، 26 مارچ، 2020

لاک ڈاون ۔ چوتھی قسط ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

" لاک ڈاون " چوتھی قسط
" Economical Pandemic "

نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

جی ہاں ! دنیا بھر کے لوگوں کو اپنا غلام بنانے کے لئیے ضروری تھا کہ ان کی آزادی سلب کرلی جائے ۔ نیو ورلڈ آرڈر کے ایجنڈے کا دوسرا خطرناک حربہ اور اس مقصد کے حصول کے لئیے کرونا وائرس کی شکل میں ہولناک حملہ ۔ فرد ہو ، خاندان ہو ، قوم ہو یا ملک ، ہر ایک کی آزادی اس کی معاشی طاقت اور اس کے معاشرتی وسائل پر Dependent ہوتی ہے ۔
سائیکولوجیکل وار فئیر کے ساتھ ساتھ اگر انفرادی اور اجتماعی معیشت پر ضرب لگائی جائے اور مستقل لگائی جاتی رہے تو جلد یا بدیر ہر فرد ، ہر ملک نے گھٹنے ٹیک دینے ہیں ۔ اور چاہنے نہ چاہنے کے باوجود حملہ آور طاقتوں کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا پڑتا ہے ۔
کرونا وائرس کے ذریعے جہاں ایک طرف زمین کا بوجھ ہلکا کرنے کی سازش ہے کہ دنیا بھر میں کمزور قوت مدافعت والے اور بوڑھے ، ضعیف اور بیمار لوگ جو کسی نہ کسی شکل میں Economy پر Burden ہیں ، انہیں آخرت کا پروانہ تھما کر دوسری دنیا کے سفر پر روانہ کردیا جائے ۔ وہاں دوسری طرف دنیا کے ہر ملک کا معاشی طور پر بھٹہ بٹھا دیا جائے ۔ مکمل لاک ڈاون کرکے ۔ معیشت اور معاشرت کے پہیے کو روک کر ۔ ہر کمزور فرد ، ہر کمزور قوم ، ہر کمزور ملک کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود کر کے ۔
اور باقی بچ جانے والوں کو باضابطہ یا بلا ضابطہ اپنے شکنجے میں جکڑ کر اپنا پابند کرکے ۔ اپنا Official یا Unofficial غلام بنا کر ۔ پوری دنیا کے ملکوں کو اپنا اسیر بنا کر ایک نئی Global State یا کالونی کی تشکیل کرکے ۔ کمپیوٹرائزڈ اور ڈیجیٹل ۔ آرٹیفیشل انٹلیجنس کی زیر نگرانی ۔ اور غلاموں کی طرح کی زندگی ۔ باقاعدہ راشن سسٹم کے تحت محض دو وقت کا محدود کھانا کہ اگلے دن نیو ورلڈ آرڈر کے کام کئیے جاسکیں ۔ کوئی آواز بلند کئیے بنا ۔
کورونا وائرس کی وجہ سے حالیہ گلوبل لاک ڈاون ، درحقیقت آئیندہ سالوں میں سامنے آنے والی زندگی کی پریکٹس ہے ۔ لوگوں سے کٹ کر ۔ لوگوں سے دور رہ کر ۔ جانوروں اور غلاموں کی طرح اپنے اپنے کھوکھوں اور پنجروں میں بند ۔ آرٹیفیشل انٹلیجنس کی الف بے جان کر اپنے اپنے گھروں سے اپنے کمپیوٹر یا موبائل فون پر کچھ دو پیسے کما سکتے ہو تو کمالو ۔ ورنہ دنیا سے منہہ موڑ لو ۔
نیو ورلڈ آرڈر میں کمزور ، غریب ، بیمار ، معذور ، کم عقل ، ضعیف اور بیوقوف کی کوئی جگہ نہیں ہے ۔ صرف اور صرف Fittest , Strongest , Intelligent , Powerful , Richest ۔ مارو گے تو خود کو بچاو گے ۔ مار دو یا مر جاو ۔
یہ ایجنڈا ہے نیو ورلڈ آرڈر کا ۔ اور ہم سب سو رہے ہیں ۔ دور جدید کی اس خطرناک جنگ کا مقابلہ کئیے بنا ، سائیکولوجیکل وار فئیر اور بائیوکیمیکل ہتھیاروں کے خفیہ ہاتھوں کو جانے بنا ، ہر چیز ہر بات کو تقدیر کے کھاتے میں ڈال کر ، کسی دوا ، کسی علاج کا سوچے بنا ہر مسئلے ، ہر بیماری ، ہر وبا ، ہر نئے حملے کا حل دعاوں میں ڈھونڈتے ڈھونڈتے خاک میں دفن ہو رہے ہیں ، ہوتے چلے جارہے ہیں ۔
بیشک رزق اور موت اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے ۔ لیکن خودکشی کو حرام قرار دیا گیا ہے ۔ اور حلال رزق کے لئیے گھر بیٹھنے کی بجائے باہر نکل کر محنت اور جستجو کا حکم ہے ۔
اور سب سے بڑھ کر اپنی خودی ، خود داری ، اور آزادی کو زندگی کی آخری سانس تک برقرار رکھنے کی ہدایت ہے ۔
ایمانداری سے سوچئیے ۔ کم از کم اپنے قلب ، اپنے ذہن اور اپنی روح کو لاک ڈاون ہونے سے بچائیے ۔ ہم میں سے کتنے لوگ نیو ورلڈ آرڈر کے ایجنڈے سے واقف ہیں ۔ ہم میں سے کتنے لوگ سائیکولوجیکل وار فئیر کے طور طریقوں کو جانتے ہیں ۔ ہم میں سے کتنے لوگ آج کی جنگ لڑنے اور لڑ کر جیتنے کی اہلیت رکھتے ہیں ۔ ہم میں سے کتنے لوگ آرٹیفیشل انٹلیجنس اور آرٹیفیشل سپر انٹیلیجنس کی ریشہ دوانیوں اور سازشوں سے نپٹنے کے لئیے Equipped اور تیار ہیں ۔
ایک دوسرے کی مدد بہت ضروری ہے ۔ مگر اس نئے محاذ پر لڑنے کی تیاری بھی اتنی ہی ضروری ہے ۔ اپنے پیروں پر کھڑا رہ کر دوسروں کو بھی ان کے پیروں پر کھڑا کرنے کی بھی ذمہ داری ، ضروری ہے ۔
ایک ایسا سرکل ، ایک ایسا گروپ بنانا بھی ضروری ہے جو تن من دھن سے نیو ورلڈ آرڈر اور سائیکولوجیکل وار فئیر اور آرٹیفیشل انٹلیجنس کے Attacks کو Counter کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہو ۔ اور اپنے مذہب ، اپنی قوم ، اپنے ملک کا دفاع کرنے کی Expertise رکھتا ہو ۔
واضح رہے کہ ہر فرد ہر کام نہیں کرسکتا ۔ ہر فرد ہر کام کی اہلیت نہیں رکھتا ۔ آپ کچھ بھی کرتے ہوں ۔ آپ کچھ بھی کرسکتے ہوں ۔ آپ بہت کچھ کرسکتے ہیں ۔ بس آپ کی نیت میں اخلاص ہونا ضروری ہے اور خود آگہی اور حال اور حالات حاضرہ سے آگاہی ہونا ضروری ہے ۔
گلوبل لاک ڈاون تو اب ہوا ہے ۔ مگر نیو ورلڈ آرڈر کے حوالے سے میں گزشتہ ڈیڑھ دو سال سے گاہے بگاہے انہی صفحات میں آپ سب کو آگاہ کرنے کی کوشش کرتا رہا ہوں ۔ اپنی تمام ذمہ داریوں کو کسی Aid یا کمک کے بنا ، محض اللہ تعالی کی رحمت کے سہارے اپنی پروفیشنل فیلڈ سے ہٹ کر نبھانے کی کوششوں کے بعد جو وقت بچ جاتا ہے ، وہ اسی طرح دیکھنے ، سوچنے اور لکھنے میں گزرتا ہے کہ جو کام میں اکیلے نہیں کرسکتا یا جن کاموں کی مجھ میں اہلیت نہیں ، وہ آپ میں سے کوئی اپنے ذمے لے کر اس کام کو آگے بڑھا سکے ۔
اس موضوع پر انشاء اللہ ، بشرط زندگی ، اور بھی لکھتا اور کہتا رہوں گا ۔ اس موضوع پر پرانی تحریریں پڑھنے کے لئیے یا تو امت کے Archive کی مدد لیں یا میرے سوشل میڈیا کے ان صفحات پر ڈال لیں ۔ وہ بھی اسی وقت ، اگر آپ نئے دور کے نئے تقاضوں کے مطابق اپنے مذہب ، اپنے وطن اور اپنے لوگوں کی بقا کی نیت رکھتے ہوں ۔
آپ ان Links پر گزشتہ Articles پڑھ سکتے ہیں ۔
www.drsabirkhan.blogspot.com
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
اور پھر اس حوالے سے میرے علم میں اضافے کے لئیے ، آپ کے ذہن میں جو کچھ ہو ۔ کوئی بات ، کوئی خیال ، کوئی سوچ ، کوئی آئیڈیا ، کوئی سوال یا جو خواب میں نے آپ کے سامنے رکھا ہے ، اس کے حوالے سے کوئی مشورہ یا پلان ۔ تو مجھ سے ضرور Share کیجئیے گا ۔ اس بہانے مجھے یہ پتہ چل جائے گا کہ جذباتیت اور جذباتی پن کی فضا میں Logical لوگ کتنے فیصد ہیں اور Logician کتنے ۔
وقت ختم ہورہا ہے ۔ آخرت سر پر کھڑی ہے ۔ اللہ تعالی نے ہماری نیت اور ہمارے اعمال کی سچائی کو دیکھنا ہے ۔ ہمارا کام کوشش کرنا ہے ۔ رزلٹ کا فیصلہ ، اللہ کے پاس ہے ۔

" لاک ڈاون " ۔ چوتھی قسط
" ECONOMICAL PANDEMIC "
نیا کالم / بلاگ / مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ،
جسمانی ، روحانی ، جنسی اور منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ

www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.drsabirkhan.blogspot.com
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.g.page/DUAAGO 

۔ لاک ڈاون۔ دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

" لاک ڈاون "
نیا کالم/ بلاگ / مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

' موج بڑھی ، دل ڈوب گیا ، اس دل کو ڈوب ہی جانا تھا ۔ لوگ کہتے ہیں ، یہ قصہ بہت ہی پرانا تھا ' ۔ آج جب ، کچھ دنوں کے وقفے کے بعد کچھ لکھنے بیٹھا ، تو اپنے سینئیر دوست اور استاد ڈاکٹر باقر رضا کا ایک شعر یاد آگیا ۔ جو 35 برس پہلے زمانۂ طالب علمی میں ان کی زبانی سنا تھا اور یاد رہ گیا تھا ۔ کچھ باتیں کتنی بھی پرانی کیوں نہ ہوجائیں ، کسی نہ کسی شکل میں یادداشت کا حصہ بنی رہتی ہیں ۔ اور کبھی کبھی کسی اور حوالے سے خود بخود یاد آجاتی ہیں ۔
کراچی کے رہائشی ، ہماری نسل نے اپنی نوجوانی اور جوانی میں 1985 سے 1995 تک اور پھر 2007 تا 2014 تک ان گنت لاک ڈاون دیکھے اور Face کئیے ہیں ۔ مخصوص علاقوں سے لیکر پورے شہر کی بندش اور قتل و غارت اور دہشتگردی کے چھوٹے اور بڑے واقعات کو دیکھا ، سنا ، بھگتا اور برداشت کیا ہے ۔ کئی کئی دن گھروں میں بند ہوکر گزارے ہیں ۔ کرفیو سے لیکر ہڑتالوں اور آرمی کی گاڑیوں اور دہشت گردوں کی گولیوں سے آنکھ مچولی کھیلنے کا شاید ہی کسی اور پاکستانی کو اتنا تجربہ ہو ۔ جتنا کہ کراچی کے باسیوں کو ہوگا ۔
یہی وجہ ہے کہ وہ 2020 کے لاک ڈاون کو بھی بچوں کا کھیل تماشا سمجھ رہے ہیں ۔ البتہ پاکستان کے دیگر شہروں اور علاقوں کے رہنے والوں کے لئیے یہ شاید پہلا موقع ہوگا ۔ کہ انہیں فی الحال 15 دن تک ( اور نہ جانے کتنے اور دن تک ) Self Quarantine کے لاک ڈاون میں رہنا پڑے گا ۔ کھیل تماشوں ، سیر سپاٹوں ، بازاروں ، بازاری کھانوں اور دوستوں اور محفلوں کے دلدادہ لوگوں کے لئیے تنہائی اور گھر کی قید کا لاک ڈاون موت کی سزا سے کم نہیں ۔ ممکنہ موت سے بچنے کے لئیے اپنی تمام سماجی اور معاشی و معاشرتی سرگرمیوں کو وقتی طور پر معطل کرکے اپنے اپنے گھروں میں بند ہوکر بیٹھ جانا کسی صورت گھاٹے کا سودا نہیں ۔ مگر یہ Logic ، جذباتی پاکستانی عوام کی عقل و سمجھ میں نہیں آرہی ۔ اور شاید کبھی بھی نہ آسکے ۔
دنیا نے بڑی بڑی جنگیں دیکھی ہیں ۔ لاکھوں ، کروڑوں لوگ ان جنگوں میں مرے ہیں ۔ دنیا میں لاکھوں ، کروڑوں بار چھوٹے بڑے قدرت کے عذاب آئے ہیں ۔ اور ان عذابوں اور قدرت کے قہروں نے بھی لاکھوں ، کروڑوں لوگوں اور ہزاروں تہذیبوں اور قوموں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا ہے ۔
لیکن Novel COVD 19 نامی MEN MADE وائرس نے دنیا کی تاریخ میں پہلی بار دنیا کی آٹھ ارب آبادی کے ہر ملک ، ہر تہذیب ، ہر قوم ، ہر فرد کے ہوش اڑا دئیے ہیں ۔ حواس ٹھکانے لگا دئیے ہیں ۔ گو اس سے پہلے بھی مختلف بیماریوں نے بیک وقت دنیا کے لاکھوں ، کروڑوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے ۔ مگر وہ قدرت کی پیدا کردہ تھیں اور ہیں ۔
کرونا وائرس ، نزلہ اور نمونیا کی اس بگڑی ہوئی ناقابل علاج بیماری کو پیدا کرتا ہے ، جس کے پیدا کرنے میں قدرت کا عمل دخل نہ ہونے کے برابر ہے ۔ اس مہلک وائرس کی موجودہ شکل کے ذمہ دار میرے اور آپ جیسے انسان ہیں ۔
موجودہ All Around The World گلوبل لاک ڈاون کے ذمہ دار اور قصور وار چند ہزار ایسے لوگ ہیں ، جن کو میں اور آپ نہیں جانتے اور شاید کبھی جان بھی نہ پائیں ۔ ہماری معلومات بس اتنی ہیں کہ سو برس پہلے 1919 میں پہلی بار اٹلی میں Simple Flu کی ایک جان لیوا بیماری نے جنم لیا تھا جس کو پھیلانے والے وائرس کو ' کرونا ' کا نام دیا گیا تھا ، کیونکہ وہ اٹلی کے شہر Corona میں شدومد سے پھیلا تھا ۔
سو برس بعد Pandemic یعنی دنیا بھر میں پھیلنے اور پھیلاو کا حجم رکھنے والے اس Lethal Virus کو Novel Corona Virus کا ٹائٹل دیا گیا ہے ۔
سو برس پہلے قدرت نے اس وائرس کو انسانوں کے اندر بیماری پیدا کرنے کے لئیے پیدا کیا تھا ۔
مگر پھر پچھلے سو برسوں سے انسانوں کے مخصوص گروپ ، اور ہزاروں ، لاکھوں Viruses اور Bacterias کی طرح کرونا وائرس کی بھی Genetic Mutation میں مصروف رہے ۔ تاکہ اسے بنی نوع انسان کے لیئے اور زیادہ Fatal اور جان لیوا بنا سکیں ۔
دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ Atom Bombs کے استعمال نے کیا تھا ۔ تیسری جنگ عظیم کی شروعات ، کرونا وائرس کی شکل میں وبائے عظیم کے پھیلاؤ سے ہوا ہے ۔ اس بار کی جنگ ، دنیا کی گزشتہ چھوٹی بڑی جنگوں سے Entirely Different ہے ۔
انسانی ذہن اور ذہانت نے لاکھوں سالوں کی Genetic گروتھ کے بعد سائینس اور ٹیکنالوجی کے پردے میں وہ Achievement حاصل کرلی ہے ، جس کا ایک چھوٹا سا ٹریلر ، میں اور آپ ، اس وقت کرونا وائرس کی تباہ کاریوں کی صورت میں دیکھ رہے ہیں ۔
سائیکولوجیکل وار فئیر کے اس دور جدید میں پہلی بار کھلم کھلا Biological Weapon کا استعمال کیا گیا ہے ۔ جس کا Objective محض کسی خاص ملک ، قوم یا تہذیب کے خلاف طبل جنگ بجانا نہیں ہے ۔ بلکہ مکمل طور پر پوری دنیا کو New World Order کے ضابطوں کا پابند بنانا ہے ۔
نیو ورلڈ آرڈر کا قصہ آج کا نہیں ، بہت پرانا ہے ۔ اور گزشتہ 70 سال سے Step By Step مختلف تجرباتی مرحلوں سے گزر کر اور گزار کر آج کے گلوبل لاک ڈاون کے Stage تک پہنچا ہے ۔ یہ سب تجربے اور مراحل اتنی چالاکی اور خاموشی سے عملی شکل میں ڈھالے گئے ہیں کہ شاید ہی کسی ملک کے سوچنے اور سمجھنے والوں کو کچھ پتہ چل پایا ہو ۔ دل کا معاملہ ہو یا دنیا کا ، قصہ پرانا ہوجائے ، اور اس قصے میں سازش شامل ہوجائے تو دل اور دنیا دونوں کے ڈوبنے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے ۔
دنیا بھر کے لوگوں کا دل ان دیکھے دشمن کے مہلک وار سے ڈول رہا ہے ۔ اور دنیا ڈوب رہی ہے ۔

" لاک ڈاون " ۔ دوسری قسط ۔

نیو ورلڈ آرڈر کا ایجنڈا ہم سب کے علم میں ہونا چاہئیے ۔ دشمن سامنے ہو ، دیکھا بھالا ہو تو فرد ہو یا ملک ، اپنی طاقت اور استطاعت کے مطابق تیاری کرتا ہے اور اس کے حملے پر مقابلہ کرتا ہے ۔ لیکن ان دیکھے دشمن کا مقابلہ کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے ۔
نیو ورلڈ آرڈر ، ہم سب اور دنیا کے سب لوگوں کا وہ نادیدہ دشمن ہے ، جو On Screen ہمارے سامنے کچھ اور پیش کررہا ہے اور اسکرین کے پیچھے اس کا مذموم خفیہ طریقہ واردات Multi Layered ہے ۔ اور Multi Targeted ہے ۔ نیو ورلڈ آرڈر کی سازش کے جال کو سمجھنے کے لئیے Multi Faceted ہونا ضروری ہے ۔ کسی ایک میدان کے نام گرامی شہ سوار کے لئیے ممکن نہیں کہ وہ نیو ورلڈ آرڈر کی ہر چال کو جان پائے اور سمجھ پائے ۔ دنیا کے ہر حالیہ اور تاریخی ، عیاں اور نہاں ، انسانی اور الہامی ، منطقی اور غیر منطقی ، سائینسی اور غیر سائینسی ، اکتسابی اور جذباتی ، کتابی اور قلبی ، علم و فکر سے تھوڑی بہت آگاہی اور شناسائی ہو تو حالیہ حالات کا کچھ کچھ ادراک ممکن ہے ۔
اور یا پھر Common Goal رکھنے والے زندگی کے مختلف شعبوں اور علوم کے Masters کا مخصوص گروپ ہو ، جو اپنی اپنی Fields سے متعلق Expertise ایک Pool میں جمع کرکے Inferences نکالنے کی مہارت رکھتے ہوں ۔ اور اپنے تئیں اتنے خود مختار ہوں کہ پھر نیو ورلڈ آرڈر کے ہر ظاہری اور خفیہ Move کو اپنی صلاحیتوں اور اپنے وسائل کی مدد سے Counter کرسکیں ۔
جب تک اس طرح کے Multi Dimensional لوگ یا لوگوں کا گروپ نئی طرح کی جنگوں اور نئی طرح کے حملوں کی صورت میں اپنے لوگوں اور اپنے ملک کے دفاع کی Strategy نہیں بنائیں گے ، تب تک دل ڈوبتے رہیں گے ۔ دنیا یونہی تباہ ہوتی رہے گی ۔
طبل جنگ بج جانے کے بعد بھی جو لوگ ، جو ملک ، خواب خرگوش میں ڈوبے رہتے ہیں ، اپنے Fixed Patterns اور Rituals اور Routines کو ختم کرنے پر راضی نہیں ہوتے ، اپنے Comfort Zones سے باہر نہیں نکلتے ، نہ نکلنا چاہتے ہیں ۔ ان کا اللہ تعالی بھی حافظ نہیں رہتا ۔ قدرت انہی لوگوں کی مدد کرتی ہے جو اپنی مدد آپ کے تحت زندگی بسر کرتے ہیں اور اپنے علم اور وسائل سے ان لوگوں کی مدد میں مصروف رہتے ہیں ، جن کو قدرت نے اپنی مصلحت کے تحت کمزور اور مجبور رکھا ہوا ہوتا ہے ۔
آج کے دور کے تقاضوں اور ان کے حساب سے خود کو علمی اور فکری سطح پر مضبوط اور مربوط نہ رکھنے والے لوگ اور ملک ، سبھی بتدریج کاغذ کے ٹکڑوں کی طرح لیرہ لیرہ ہوکر ہوا میں اڑنے رہے ہیں اور اڑتے چلے جائیں گے ۔ پھر نہ مال و دولت نے بچنا ہے ، نہ حسب و نسب اور جاہ و جلال نے ، نہ بلند و بالا عہدے اور مرتبے کچھ کام آئیں گے اور نہ عالی شان محلات اور جائیدادیں ہماری حفاظت کرپائیں گے ۔
بنا لڑے ، مقابلے اور جنگ کی تمنا رکھے بنا ، ہتھیار اٹھائے بنا ہتھیار ڈال دینا اور ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر مرنے کا انتظار کرنا کیا کسی ایمان والے کا وطیرہ ہوسکتا ہے ؟ ۔ کیا ہمارا مذہب اس اجتماعی خودکشی کی اجازت دیتا ہے ؟ ۔
اگر ایسا ہے تو پھر سب ٹھیک ہے اور سب ٹھیک ہورہا ہے ۔ اور اگر اسلام اور دیگر مذاہب میں انفرادی اور اجتماعی خودکشی کی ممانعت ہے تو پھر کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے ، کچھ بھی ٹھیک نہیں ہورہا ہے ۔
آج ، ہمارا دشمن ہماری نظروں کے سامنے نہیں ہے ۔ آج کی جنگ روایتی نہیں ہے ۔ آج کی جنگ کے حریف اور حلیف ایک دوسرے کے سامنے نہیں ہیں ۔ بلکہ اپنے اپنے مفادات کی Policies کی Implementation کے لئیے Hidden اور خود غرضانہ قدم اٹھا رہے ہیں ۔
اس صورتحال میں ذرا سوچئیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ۔
سچی بات تو یہ ہے کہ موجودہ حالات میں ہم کھڑے تو کیا بیٹھنے اور لیٹنے کی حالت میں بھی نہیں ہیں ۔
جس قوم اور ملک کے نوے فیصد بالغ افراد کی سوچ ہی کشکول زدہ ہو ، کیا عام اور کیا خاص ، کیا غریب کیا امیر ، وہ تو جیتے جی ہی زندہ درگور ہوتی ہے ۔ اور باقی کے دس فیصد دل والے ، دل و جان سے ، جان ہتھیلی پر رکھ کر ، ہمہ وقت ، ہمہ تن ہوکر نوے فیصد لوگوں کی جان بچانے اور انہیں ہر ایمرجنسی میں پیٹ بھر کر کھانا کھلانے میں مصروف رہ کر آخرت کما رہے ہیں ۔ سچ ہے کہ دنیا میں نیکی کمانے کا یہ بہترین ، موثر ترین اور آسان ترین راستہ ہے ۔ Simple And Surest And Shortest Way To Jannat .
مگر فلاح انسانیت اور خدمت خلق میں جوش و خروش سے ملوث و مصروف ادارے اور افراد بھی مملکت پاکستان کی تاریخ کے 73 برسوں میں نوے فیصد عوام کے نو فیصد طبقے کو بھی جدید سائنسی دور اور اس کے مطابق اپنی اور اپنی ذات سے منسلک دیگر لوگوں کو اپنی اپنی زندگیاں بنا کسی مدد اور سہارے کے ، گزارنے کا سلیقہ اور طریقہ نہیں سکھا سکے ۔ اور نہ ہی کسی بھی سطح پر آج تک ایسا کوئی سرکاری یا نجی ادارے یا گروپ کی باضابطہ تشکیل ہو پائی جو آج نیو ورلڈ آرڈر اور اس کے Implementers اور اس کے حملوں اور حربوں کا ، اس کے Level پر آکر اس کا مقابلہ کرسکتا ۔
واضح رہے کہ So Called نیو ورلڈ آرڈر کی ھسٹری 70 سال پرانی ہے ، یہ کوئی دو چار سالہ پرانا منصوبہ نہیں ۔ لگ بھگ پانچ نسلوں نے اپنے اپنے وقت اور اپنے اپنے عہد میں اس ایک نکاتی منصوبے کو آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے ۔ اور کسی Reward یا نام و نمود کی خواہش کے بغیر اپنی پوری پوری زندگیاں اپنے مشن کو پروان چڑھانے میں خرچ کردی ہیں ۔ اور اب دنیا کے اس Elite Group کی لیڈر شب ایسے سرپھروں کے ہاتھ میں ہے جو پوری دنیا پر حکمرانی کے خواب دیکھ رہے ہیں ۔ اور ہماری طرح جذباتیت کے شیرے میں شرابور ہوکر نہیں ۔ بلکہ Logical اور سائینٹیفک گروانڈ پر ۔ Step By Step ۔ ٹھوس اور عملی اور کرخت ۔ Blind And Blunt ۔ ہر قدم باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ ۔ ہر نیا قدم ، پچھلے قدم سے Aligned اور اگلے دس یا بیس یا تیس سال کے بعد کی پراپر Virtual تصویر کشی کے ساتھ ۔
دنیا کے مکمل خاتمے اور آخرت کے قیام سے پہلے ، پوری دنیا پر Hold ۔ اور اس مقصد کے لئیے ہر ممکنہ اور نا ممکنہ طریقے سے دنیا کی آبادی کم سے کم کرکے ، باقی رہ جانے والوں کو Civilized Slaves کی صورت دے کر اپنے مقاصد کے لئیے استعمال کرنا ہے ۔
آج کی جنگ ، اب تک کی جنگوں سے بالکل مختلف اس لئیے ہے کہ اس کے سپریم کمانڈرز ، انسان نہیں بلکہ انسان کے تخلیق کردہ Computers اور کمپیوٹرائزڈ سوفٹ ویئرز ہیں ۔ جن کی مدد سے دنیا کے ذہین ترین انسانوں کی Collective Intelligence سے کئی سو گنا زیادہ ' مصنوعی ذہانت ' کے Softwares کو عملی شکل دی گئی ہے ۔ اور یہی مصنوعی ذہانت یا Artificial Intelligence ، نیو ورلڈ آرڈر کا سب سے خفیہ اور سب سے خطرناک ہتھیار ہے ۔ جس کا ایک ٹریلر ہم سب کرونا وائرس کے دنیا بھر میں پھیلاو کی صورت دیکھ رہے ہیں ۔


" لاک ڈاون " تیسری قسط

نیو ورلڈ آرڈر اور مصنوعی ذہانت کی اصطلاحات مختلف پیراوں میں استعمال کی جارہی ہیں ۔ یا یوں کہہ لیں کہ ' کروائی جارہی ہیں ' ۔ عام تو عام ، خاص الخاص لوگوں کو بھی اس بات کا علم نہیں کہ ایک ہی لفظ یا ایک ہی خیال کو کون کون سے نفسیاتی طریقوں سے انسانی ذہنوں میں پیوست کیا جاتا ہے اور پس پردہ کیا مقاصد چھپے ہوتے ہیں ۔ دراصل اس طرح لوگوں کو Immune کیا جاتا ہے ، مخصوص خیالات اور اصطلاحات کا عادی بنایا جاتا ہے ، Indirect Communication سے Brain Wash کیا جاتا ہے ۔
اور پھر کچھ عرصے بعد ان باتوں یا نظریوں کو اس خاموشی اور خوبصورتی سے زندگی کا حصہ بنا دیا جاتا ہے کہ کیا مخالف ، کیا ہمنوا ، سبھی ان چیزوں کو Part Of The Package جان کر Adopt کرلیتے ہیں یا ان کے استعمال پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔
اسی بات کو لے لیں اس بات کو سمجھنے کے لئیے کہ گزشتہ 3 ماہ میں ، یعنی 26 دسمبر 2019 تا 26 مارچ 2020 تک پوری دنیا میں کرونا وائرس کے Attack سے لگ بھگ 19 ہزار کچھ سو اموات ہوئی ہیں ۔ اور اس وقت یہ وائرس Pandemic کے Status کا حامل ہے ۔ میرے علم میں تو نہیں اور نہ مجھے یہ جاننے کی جستجو کرنی ہے کہ گزشتہ 3 ماہ میں پوری دنیا میں اندازنا کل کتنے لوگ مرے ہوں گے ۔ اور ان سب کی موت کے کیا Causes ہوں گے ۔ یا کون کون سی بیماریاں یا وجوہات ان کی موت کا سبب بنی ہوں گی ۔ آپ میں سے کوئی ضرورت سے زیادہ سرپھرا اگر ہو تو وہ انٹرنیٹ کے ذریعے ذرا یہ Data حاصل کرے اور پھر گزشتہ 3 ماہ میں پوری دنیا میں ہونے والی اموات اور ان کی وجوہات کی Figures کو اسٹڈی کرے تو اسے چند سیکنڈ میں اندازہ ہوجائے گا کہ فی الوقت ، اموات کی وجوہات میں کرونا وائرس کی کیا پرسنٹیج ہے یا کیا Percentile بنتا ہے ۔
حقیقت جان کر آپ کے چودہ طبق روشن ہوجائیں گے ۔ یہ نیو ورلڈ آرڈر کے ان گنت Tools کا سب سے کارگر وار ہے ۔ جسے Psychological Warfare کے خانے میں ڈال کر سمجھا جا سکتا ہے ۔
سائیکولوجیکل وار فئیر ، یعنی اپنے مطلب اور مقصد کے حصول کے لئیے مختلف نفسیات کے حامل افراد کو ان کی نفسیاتی ساخت کے مطابق اس طرح Mould کرنا کہ وہ یہ سمجھیں کہ جو وہ سوچ رہے ہیں ، وہ ان کی اپنی سوچ ہے ۔ اور وہ کسی بیرونی طاقت کے پابند یا غلام نہیں ہیں ، بلکہ ہر طرح سے آزاد ہیں ۔ جبکہ درحقیقت ان کے خیالات اور نظریات ، Computerised نفسیاتی مخصوص نظریے کے تابع ہوچکے ہوتے ہیں ۔ بڑی اور بیرونی قوتیں اس نفسیاتی جنگ کے حربے استعمال کرکے دنیا کی دیگر قوموں کے لوگوں کو اپنے مفادات کے لئیے Use اور Manipulate کر رہی ہیں ۔ اور نیو ورلڈ آرڈر کے ایجنڈے کو کسی جگہ براہ راست اور کسی جگہ Indirect Approach کے ذریعے نافذ کیا جارہا ہے ۔ اور ہر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ یہ سب اس کی بھلائی میں ہورہا ہے یا کیا جارہا ہے ۔
نیو ورلڈ آرڈر کے سائیکولوجیکل وار فئیر کا بنیادی مقصد دنیا بھر کے لوگوں کے ذہنوں کو ڈر ، خوف اور دہشت سے اتنا ماوف اور کمزور کردینا ہے کہ اس جنگ کے اگلے مرحلے میں زندہ بچ جانے والے لوگ ، چوں و چراں کئیے بنا ، نیو ورلڈ آرڈر کے ہر Order کو آنکھیں بند کرکے ماننے پر مجبور ہوجائیں ۔ اور دنیاوی خداوں کی اطاعت میں ہی اپنی عافیت سمجھیں ۔
کیا آپ میں سے کوئی بتا سکتا ہے کہ چین کے شہر ووہان میں پھیلنے والا کورونا وائرس ، ایک ماہ تک محض ووہان میں ہی کیوں رہا ۔ چین کے دیگر بڑی آبادی والے شہروں میں اس کا اثر نہ ہونے کے برابر کیوں رہا ۔ پھر ایک ماہ کے بعد ایک ساتھ اٹلی اور ایران میں کیسے اور کیوں پھیلنے لگا ۔ اور پھر مزید ایک ماہ کے بعد امریکہ ، یورپ ، اور دنیا کے دیگر ممالک میں کیسے نمودار ہوا ۔ کسی کے پاس ان سوالوں کا تسلی بخش جواب نہیں ہوگا ۔
اپنے اپنے قیاس کے گھوڑے دوڑاتے رہیئیے ۔ غور کیجئیے ۔ اس Sequence اور اس Sequel کو Analyse کیجئیے ۔ اگر آپ ایک فیصد بھی مصنوعی ذہانت کے ہم پلہ ہوئے تو کچھ وقت بعد بات کی تہہ تک پہنچ ہی جائیں گے ۔
تین اشارے آپ کے سوئے ہوئے ذہنوں کے لئیے مفت حاضر ہیں ۔ نمبر ایک ۔ ووہان ، چین کا سب سے بڑا انڈسٹریل حب ہے یا یوں کہہ لیں کہ کورونا کی وبا سے پہلے تھا ۔ نمبر دو ۔ اٹلی اور ایران ، مذہبی زیارتوں اور مقدس مقامات کے حوالے سے سال کے ہر موسم میں بیرون ملک سے آنے والے زائرین اور سیاحوں سے بھرے ہوتے ہیں ۔ سوری ۔ وبا سے پہلے بھرے رہتے تھے ۔ نمبر تین ۔ امریکہ اور یوروپی یونین کی معیشت اندرون خانہ ، وبا سے پہلے دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گئی تھی ۔

( جاری ہے )

" لاک ڈاون "
نیا کالم / بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ،
جسمانی ، روحانی ، جنسی اور منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ

www.drsabirkhan.blogspot.com
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
www.g.page/DUAAGO


جمعہ، 6 مارچ، 2020

PROVOCATION. ڈاکٹر صابر حسین خان

" Provocation "
نیا کالم / بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

آج کی تحریر کا عنوان سوچ سمجھ کر ، جان بوجھ کر انگریزی زبان میں لکھا ہے ۔ گو اردو میں بھی اس لفظ کے معنوں کے اعتبار سے کئی متبادل الفاظ سامنے رکھے جاسکتے تھے ۔ اس بات کی کئی وجوہات ہیں ۔ ایک وجہ تو آپ سے شئیر کرلیتا ہوں ۔ دیگر خاص وجوہات کو سوچنا آپ کا کام ہے ۔
ان چند جملوں میں اردو دانوں کے ساتھ آپ سب کو بھی ، جان بوجھ کر ، میں نے کم از کم دو بار Provoke کیا ہے ۔ یا یوں کہہ لیجئیے کہ اشتعال دلایا ہے ۔ یا یوں کہہ لیجئیے کہ میں جان بوجھ کر اشتعال انگیزی کا مرتکب ہوا ہوں ۔ اور اس کی کیا وجہ یا وجوہات ہوسکتی ہیں ۔ یہ بھی آپ سوچئیے گا ۔ میری خوش گمانی تو یہ ہے کہ تحریر کے اختتام تک آپ سب کو نہ سہی ، کچھ کو ضرور میری دانستہ اشتعال انگیزی کے کچھ نہ کچھ اسباب سمجھ آجائیں گے ۔ اور اگر آپ پھر بھی کچھ نہ سمجھ پائے تو سمجھ لیجئیے گا کہ اشتعال انگیزی کا مقصد پورا ہوگیا ہے یا یہ کہ اسی کا نام اشتعال انگیزی یا اکسانا یا طیش دلانا ہوتا ہے ۔
دراصل یہ مارچ کا مہینہ ہے ۔ گزشتہ دوچار سالوں سے ، دس بارہ سالوں سے لائم لائیٹ میں رہنے والا فروری کا ویلنٹائن ڈے ذرا پھیکا اور پھسپھسا جارہا ہے ۔ اور اس نوعیت کے دنوں اور راتوں کو ہمارے مذہب ، ہماری معاشرت ، ہماری تہذیب اور ہماری ثقافت میں زبردستی گھسیٹنے اور گھسیڑنے والوں کے دلوں پر چھریاں چل رہی ہیں ۔ لہذا فروری کا پیچھا چھوڑ کر اب وہ سب مارچ کے پیچھے پڑگئے ہیں ۔
پچھلے زمانوں میں لانگ مارچ اور شارٹ مارچ ہوا کرتے تھے ۔ جو کسی نہ کسی صورت کوئی نظریہ ، کوئی فکر ، کوئی ایجنڈا رکھا کرتے تھے ۔ مگر اب گزشتہ دو چار سالوں سے صنف نازک کے کاندھوں پر مارچ کا بوجھ لادنے کی کوشش جاری ہے ۔ یوں کہہ لیجئیے کہ اپنا الو سیدھا کرنے کے لئیے معصوم فطرت عورت کو الو بنایا جارہا ہے ۔ اور عورت چونکہ فطری طور پر مرد کی بہ نسبت کم عقل و فہم رکھتی ہے ، تو وہ آسانی سے مردوں کے ہاتھوں بیوقوف بن جاتی ہے ۔
فروری کی چودہ تاریخ ہو یا مارچ کی آٹھ ۔ چھری خربوزے پر گرے یا خربوزہ چھری پر ، ہر دو میں نقصان عورت کا ہوتا ہے ۔ اور صدیوں سے ہوتا چلا آرہا ہے ۔ کیا مغرب ہو ، کیا مشرق ، ہر دو خطوں میں Eventually آخری ضرب عورت پر ہی پڑتی ہے ۔ اور اپنی کم فہمی اور کم عقلی کی بنا ہر ضرب کے بعد عام طور پر ہر عورت اور زیادہ جذباتی پن اور حماقتوں میں مبتلا ہوجاتی ہے ۔ اور اس کے استحصال کے سلسلے دراز ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ اور چونکہ عام طور پر عورت نہ تو دور اندیش ہوتی اور نہ ہی معاملہ فہم ، تو ہر استحصالی حملے کے بعد وہ اور زیادہ منتقم مزاج اور متکبر ہوجاتی ہے ۔
اور یہیں سے Provocation کا نہ ختم ہونے والا تباہی کا سفر شروع ہوجاتا ہے ۔
مرد و زن کے جس مقدس رشتے میں وفا ، حیا ، محبت اور قربانی کا جو دو طرفہ Bond ہوتا ہے ، وہ ٹوٹ جاتا ہے ۔ دونوں کا ایک دوسرے پر سے اعتبار اٹھ جاتا ہے ۔ خاندانوں کا شیرازہ بکھر جاتا ہے ۔ سو برس پہلے مغرب سے شروع ہونے والی عورتوں کی تحریک تباہی نے اب مشرق میں بھی قدم گاڑنے کی تیاری پکڑ لی ہے ۔ فرنٹ پر معصوم عورتوں کو رکھ کر ، ان کے ہوائی حقوق کی باتیں کرکے ، ان کی نسوانیت کو ٹھیس پہنچا کر ان کی نام نہاد آزادی کے نعرے بلند کرکے ، پس پردہ قوتوں کی لگام ان مردوں کے ہاتھوں میں ہے ، جو مرد کہلانے کے بھی لائق نہیں ۔
عورتوں کو اکسا کر مردوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کی بجائے ، ان کو مردوں کے خلاف کیا جارہا ہے ۔ بھولی بھالی خواتین کو اس کھوکھلی تہذیب کے گڑھے میں دھکیلنے کی کوشش کی جارہی ہے ، جو اب خود اتنی تعفن زدہ ہوچکی ہے کہ اسے دفنانے کے لئیے بھی کوئی آگے نہیں بڑھ پا رہا ۔ صرف یہی نہیں کہ آزادی نسواں کے نام پر ، بے حیائی ، بدتمیزی اور بیہودہ گوئی کی ترغیب دی جارہی ہے ۔ بلکہ ناسمجھ اور نادان بچیوں اور لڑکیوں کے کچے ذہنوں کو گھر ، خاندان ، رشتوں ، ناطوں اور مذہب و مشرقی تہذیب کے خلاف ڈھالنے کی کوشش جاری ہے ۔
دس فیصد ایسے مردوں کے ناقابل قبول اور مکروہ اعمال اور افعال اور رویوں کو بنیاد بنا کر تمام مردوں کے Image کو مسخ کیا جارہا ہے ، جو یا تو نفسیاتی مریض ہوتے ہیں اور یا پرسنالٹی ڈس آرڈر کا شکار ہوتے ہیں ۔ صحتمند اور نارمل سوچ و خیالات کے مالک لوگ کبھی بھی شریعت ، اخلاقیات اور انسانیت کے دائرے سے باہر نہیں نکل سکتے ۔ ایک صحیح الدماغ اور با کردار مرد کبھی بھی Sexual Harassment کا نہیں سوچ سکتا ۔ نہ اپنے گھر کی عورتوں پر کسی بھی قسم کا ظلم اور تشدد کرسکتا ہے ۔ نہ اپنے فرائض اور اپنی ذمہ داریوں سے رو گردانی کرتا ہے ۔ نہ بنا کسی واضح اور بہت بڑی وجہ کے اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے ۔ وہ کبھی بھی جوش میں ہوش نہیں کھوتا ۔ گھر اور خاندان کو تحفظ فراہم کرتا ہے ۔ مگر یہ سب کچھ اسی وقت تک خوش اسلوبی سے چلتا ہے ، جب تک اس کی بیوی یا اس کے گھر کی دیگر عورتیں یا باہر کی خواتین اسے Provoke نہیں کرتیں ۔ اسے اشتعال نہیں دلاتیں ۔ اسے مقابلے پر نہیں اکساتیں ۔ اس سے زبان درازی اور بدتمیزی نہیں کرتیں ۔ اس کی اطاعت نہیں کرتیں ۔
باعزت ، با غیرت ، باشعور ، اور بڑے سے بڑا بااخلاق مرد بھی اس صورت طیش میں آجاتا ہے ۔ اور پھر معاملات بگڑنے لگتے ہیں ۔
اکسانے اور اشتعال دلانے کی ایک اور بھی خطرناک قسم ہوتی ہے ۔ جس کے نتیجے میں بسا اوقات برسوں کی ریاضت اور عبادت کا بھٹہ بیٹھ جاتا ہے ۔ بازاروں اور دفتروں میں بناو سنگھار کرکے جب خواتین ایسے ملبوسات میں گھومتی ہیں ، جو ان کے جسم کو ڈھانپنے کی بجائے اور نمایاں کرتے ہیں تو Indirect Provocation جنم لیتی ہے ۔ اور بہت سے شریف مرد بھی شرافت کا دامن چھوڑ بیٹھتے ہیں ۔
فطرت نے مرد کو عورت کی بہ نسبت کئی گنا زیادہ Sexuality دی ہے جو بڑی عمر تک برقرار رہتی ہے ۔ اور اپنی اسی Sexual Energy کو چارج اور ری چارج کرکے وہ ذہنی اور جسمانی سطحوں پر بڑی عمر تک Productive رہتا ہے اور مختلف محاذوں پر لڑتا رہتا ہے ۔ اسی وجہ سے دین فطرت نے مرد کو Multiple Marriages کی نہ صرف اجازت دی ہے بلکہ معاشرتی برائیوں سے بچنے اور بچانے کے لئیے ایک وقت میں دو تا چار عورتوں کو اپنے نکاح میں رکھنے کو Encourage بھی کیا ہے ۔ تاکہ زیادہ عورتوں کو گھر اور تحفظ حاصل ہو اور مردوں کی Latent جنسی توانائی کی فائرنگ کے ساتھ ان کی فطری خواہشات بھی پوری ہوتی رہیں ۔
اتنا Logical اور Scientific Solution کسی اور مذہب یا تہذیب میں نہیں دکھائی دیتا ۔ جو گناہوں سے پاک حلال راستے آسان بنا کر مرد و زن کو پیش کرتا ہو ۔
المیہ یہ ہے کہ ہم سب فطرت اور دین فطرت کی حکمت اور فراست کو سمجھنے اور عملی زندگی میں Apply کرنے کی بجائے بے جا تاویلات ، تشریحات اور مباحثات میں بنیادی انسانی مسائل کے آسان حل سامنے لانے کی بجائے ہر مسئلے کو پہاڑ بنا لیتے ہیں ۔اور پھر جب مسائل بڑھتے ہیں اور ایک مسئلے کی کوکھ سے سو مسئلے جنم لیتے ہیں تو یا تو سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں اور یا پھر ایک دوسرے کا سر پھاڑنے لگتے ہیں ۔
اگر آئین اور قومی قانون میں یہ شق شامل کردی جائے کہ بلوغت کے بعد ، پانچ سال کے اندر اندر ہر لڑکے اور ہر لڑکی کی شادی لازمی ہے تو کم از کم ہمارے معاشرے میں سے بہت سی خرابیاں خود ختم ہوجائیں گی ۔ اور اس طرح نام نہاد ڈگریوں کی بندر بانٹ کا چکر بھی کم ہوجائے گا ۔ اور گھر اور خاندان کے معاشی استحکام کے لئیے مرد زیادہ دل سے محنت کرسکیں گے اور خواتین اپنے بچوں کی پرورش میں زیادہ جذبے سے حصہ ڈال سکیں گی ۔
یہ اور اس نوعیت کے دیگر عملی اقدامات اٹھائے بنا ہم یونہی آپس میں الجھتے رہیں گے اور ایک دوسرے کو Provoke کرتے رہیں گے ۔ اور باہمی محبت اور اتفاق کی دھجیاں اڑاتے رہیں گے ۔
یہ بات مت فراموش کیجئیے گا کہ جب جب جس نے ، خواہ وہ مرد ہو یا عورت ، ملک ہو یا مذہب ، تہذیب ہو یا ثقافت ، فطرت اور دین فطرت کو Provoke کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اور دانستہ یا نادانستہ ، قدرتی قوانین اور اصول توڑنے پر قدم بڑھایا ہے اور معاشرے میں بگاڑ اور انتشار پھیلانا چاہا ہے ، تو ، اسے کبھی بھی معافی نہیں ملی ہے ۔
یہی Law Of Nature ہے ۔ شرانگیزی پھیلانے والوں ، اشتعال دلانے والوں ، اکسانے والوں ، فساد کرنے اور کرانے والوں ، اور فطرت سے لڑنے اور لڑوانے والوں کو کبھی بھی نہ پناہ ملی ہے اور نہ امان ملی ہے ۔ انہوں نے اسی زندگی ، اسی دنیا میں اپنے کرتوتوں کی سزا بھگتی ہے ۔

" PROVOCATION "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، اعصابی ، دماغی ، جسمانی ، روحانی ، جنسی اور منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ ۔

www.drsabirkhan.blogspot.com www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.g.page/DUAAGO 

بدھ، 4 مارچ، 2020

خلا اور خالی پن ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

" خلا اور خالی پن "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

خلیل جبران کے نام سے وہ سب لوگ ضرور واقف ہوں گے جو کتابوں سے دلچسپی رکھتے ہیں اور پڑھنے پڑھانے کے جذبے سے سرشار رہتے ہیں ۔ وجہ شہرت ، فلسفہ اور فلسفہ حیات ہے ۔ زندگی کیا ہے اور زندگی کیسی اور کیسے گزارنی چاہئیے ۔ دنیا اور رشتوں کی اصل حقیقت کیا ہے ۔ اور ان سب سے ملتے جلتے نظریات اور خیالات اور حیات و ممات کی نہ سلجھنے والی تہہ در تہہ گتھیاں ۔ دنیا کے ہر کونے میں لٹریچر سے شغف رکھنے والے ہر قاری نے اپنے مطالعے کے سفر میں کبھی نہ کبھی ضرور خلیل جبران کے اسٹیشن پر تھوڑی دیر کا پڑاو ضرور ڈالا ہے ۔
دائمی بقا ، فنا کے بنا ممکن نہیں ۔ خوشی کی تلاش ، سراب کے سوا کچھ نہیں ۔ زندگی کا اصل سچ ، غم ہے ۔ سچ کے علاوہ کوئی اور شے دل کو سکون نہیں دے سکتی ۔ جیتے جی موت کی حقیقت پا لینا ، درحقیقت دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے ۔ خود اختیاری تنہائی کی خواہش اور پھر اس خواہش کی تکمیل ہی دراصل انسان کو انسان بناتی ہے ۔ اور دوسرے انسانوں کو انسان سمجھنے کی سمجھ عطا کرتی ہے ۔ جس شخص کو اس سچ کی سمجھ مل جاتی ہے ، وہ ابدی اطمینان پا لیتا ہے ۔ مگر چونکہ تنہائی کو تن من دھن سے اپنالینا آسان نہیں ہوتا ، لہذا شاذ و نادر ہی کوئی کوئی ، زندگی کے سب سے بڑے سچ کو گلے لگا پاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ساری دنیا اضطرابی حالت میں ہے اور ہر شخص ، خوشی اور سکون کی تلاش میں اپنی ساری عمر گزار دیتا ہے ۔ لوگوں میں ، محفلوں میں ، باتوں میں ، وقتی خوشی اور عارضی اطمینان ڈھونڈتا رہتا ہے اور بوقت مرگ اس آگہی سے دوچار ہوتا ہے کہ آنکھیں بند ہونے کے بعد ازلی اور ابدی تنہائی ہی اس کا مقدر ہے ۔ اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے ۔ اس نے جیتے جی تنہائی کو اپنانے کی عادت ہی نہیں اپنائی ہوتی ۔ روح کو جو لبادہ ، زندگی میں پہنایا جاتا ہے ، موت کے ہاتھ ، پل بھر میں اسے پھاڑ پھینکتے ہیں ۔ نہ چاہنے کے باوجود مرنا پڑتا ہے ۔ اور مرتے ہی سب لوگوں ، سب باتوں کا ساتھ چھوٹ جاتا ہے ۔ اگر زندگی میں تنہائی کا تجربہ رہتا ہے تو موت کے بعد کا سفر آسان ہوجاتا ہے ۔
بعد کے سفر میں آسانی اور روانی رکھنے کے لئیے سفر کی شروعات کی صعوبتیں ، تکلیفیں اور مشکلات برداشت کرنا پڑتی ہیں ۔ سفر ، خواہ کسی بھی نوعیت کا ہو ۔ اور جو سفر جتنا زیادہ لمبا ہوتا ہے ، تیاریاں بھی اسی حساب سے رکھنی اور کرنی پڑتی ہیں ۔
مگر انسان ، قدرت کی عجیب مخلوق ہے ۔ مختصر سے وقفے کو پوری زندگی سمجھتا ہے ۔ اور ابدی زندگی کے سفر کے لئیے اس کی تیاری نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے ۔
خاک اور خاکستر ہوجانے والے جسم کو سنوارنے کے لاکھوں جتن کرتا ہے ۔ ہمیشہ رہنے والی روح کو نکھارنے کے لئیے اس کے پاس وقت نہیں ہوتا ۔
روح نے سدا ساتھ نبھانا ہے ۔ بدن نے مٹی میں مل جانا ہے ۔ مگر فہم و فراست کی دولت کی وافر موجودی کے باوجود انسان ، گھاٹے کا سودا کرتا ہے اور بدنی زندگی کی بے سکونی کے ساتھ روحانی زندگی کی ابدی بے چینی کو بھی اپنے جی کا جنجال بنا لیتا ہے ۔
اپنے تمام علم اور عقل کے باوجود انسان یہ نقصان اس لئیے اٹھاتا ہے کہ وہ تنہائی سے گھبراتا ہے ۔ کنی کتراتا ہے ۔ کیونکہ تنہائی کے تانے بانے ، خلا اور خالی پن سے ملے ہوتے ہیں ، جڑے ہوتے ہیں ۔ اور تنہائی سے کہیں زیادہ جان لیوا ، خلا اور خالی پن کی دوسراہٹ ہوتی ہے ۔
تنہائی کا سفر ، آہستہ آہستہ ، انسان کے اندر صفائی اور ستھرائی کا پہیہ گھمانے لگتا ہے ۔ جس کے نتیجے میں روح کا سناٹا گونجنا شروع کردیتا ہے ۔ خلا پیدا ہونے لگتا ہے ۔ خالی پن کا احساس اس خلا کے کونوں کو بھرنے لگتا ہے ۔ جوں جوں تنہائی بڑھتی ہے ، اندر کا خلا بھی بڑھتا ہے ۔ اور اس خلا کو پر کرنے کے لئیے زندگی کی بے وقعتی اور رشتوں کی کم مائیگی کے خیال لپک لپک کر ادھر ادھر چپکنے لگتے ہیں ۔ ہر شے اور ہر بات کا کھوکھلا پن نہاں ہونے لگتا ہے ۔ خالی پن ، شریانوں سے خون کھینچ کر وجود اور جان کو ہلکان کر ڈالتا ہے ۔ یوں لگنے لگتا ہے کہ اب ذہنی رو بھٹکی ، اب جان نکلی ، اب کلیجہ پھٹ کر منہہ کو آیا ، اب غشی کا دورہ پڑا ہی پڑا ، اب اندر کا وحشی کپڑے پھاڑ کر باہر کو دوڑا ۔ دیوانگی کو دوچار گام باقی رہ جاتے ہیں تو انسان سالوں کی تپسیا توڑ کر ، تنہائی کا حصار چھوڑ کر خود کو عام لوگوں کے بیچ لا کھڑا کردیتا ہے ۔ پھر وہ کہیں کا نہیں رہ پاتا ۔ نہ اپنے اندر جی پاتا ہے ۔ نہ باہر کوئی امان پاتا ہے ۔ اس کے چاروں اور خلا بڑھتا جاتا ہے ۔ اس کے اندر کا خالی پن ، کھوکھلے ڈھول کی طرح بجتا رہتا ہے ۔ اور وہ یونہی اسی حالت میں ہمیشہ کی تنہائی کی گھاٹی میں اتر جاتا ہے ۔
خلا اور خالی پن کا قصہ آج کا نہیں ۔ تنہائی کی کہانی بڑی پرانی ہے ۔ کائنات کے پہلے آدمی سے لیکر آج کے انسان تک اور دنیا کے خاتمے پر ، باقی رہ جانے والے آخری آدمی کا پہلا اور آخری جذباتی اور ذہنی مسئلہ تنہائی سے نبرد آزما ہوکر اپنے اندر کے خلا اور خالی پن کو دور کرتے رہنے کی جستجو اور مشقت ہے ۔ اس کے لئیے اسے اپنی مختصر سی زندگی میں لاکھوں جتن کرنے پڑتے ہیں ۔ خمار گندم سے لے کر خمار انگور تک اور آئینے سے لیکر عارضی ناطوں کی تلاش تک ۔ اپنی تنہائی دور کرنے کے لئیے انسان ہر دشت کی خاک چھانتا ہے ۔ پھر بھی آخر وقت ، تشنہ لب ہی رہتا ہے ۔
وجہ ؟ ۔ وہ سب کچھ سیکھ لیتا ہے مگر تنہا رہنا اور اپنے خلا اور خالی پن کو دور کرنا نہیں سیکھتا ، نہیں سیکھنا چاہتا ۔ یہاں تک کہ اپنی دوسراہٹ کے لئیے کتے اور بلیاں پال لیتا ہے ۔ اگر اپنے جیسے کسی اور انسان سے اس کی ہم آہنگی نہیں ہو پاتی ۔ یا نہیں رہ پاتی ۔
غار حرا کی خاموشی اور تنہائی نے انسان اور انسانیت کو رہتی دنیا تک کا سب سے اعلی مذہب دیا ۔ ضابطہ اخلاق اور ضابطہ حیات دیا ۔ تنہائی کی دولت نے پوری کائنات کو مالا مال کردیا ۔ مگر انسان نے اس کائناتی حقیقت سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا ۔ اور اب تک اپنی فطرت اور اپنی جبلت اور اپنی نفسیات کے ہاتھوں مجبور ہو ہو کر اپنی مرضی سے اپنی تنہائی کا گلا گھونٹے جا رہا ہے ۔ اپنے سکون کو اپنے ہاتھوں پامال کئیے جارہا ہے ۔
اپنی تنہائی کو اپنے مقصد زندگی سے ہم آہنگ کیجئیے ۔ اپنے خلا کو تخیل کی بلند پرواز کے سپرد کیجئیے ۔ اپنے خالی پن کو خلق کی خدمت کے لئیے وقف کیجئیے ۔ آپ کو اپنے ساتھ رہنا آجائے گا ۔ پھر تنہائی کھلنے کی بجائے پیاری لگنے لگے گی ۔ خالی پن کا احساس ہوا ہوجائے گا ۔ اور خلا ، کائناتی توانائی سے بھرتا چلا جائے گا ۔

" خلا اور خالی پن "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، اعصابی ، دماغی ،
جسمانی ، روحانی ، جنسی اور منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ ۔

www.drsabirkhan.blogspot.com
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.g.page/DUAAGO