پیر، 25 نومبر، 2019

" جوکر

" جوکر "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

Every one is a Joker in one way or the other in the eyes of others , but not every Joker is full of jokes . And no one has the time to look beyond the Mask and see the other side .

آپ میں سے اکثر لوگوں نے حال ہی میں ریلیز ہونے والی انگریزی فلم " جوکر " نہیں دیکھی ہوگی ۔ میں بھی نہیں دیکھتا اگر آٹھ دس دن پہلے رات گئے پروفیسر اقبال آفریدی کا فون نہیں آتا ۔ اس فون سے پہلے اس فلم کی بابت میری معلومات بس یہاں تک تھیں کہ دو چار ہفتے پہلے میرے ہی شعبے نفسیات سے وابستہ میری دونوں بیٹیاں یہ فلم دیکھنے گئی تھیں ۔ اور یا اخباروں اور فیس بک کے ذریعے یہ اطلاع مل رہی تھی کہ " جوکر " دنیا بھر میں بزنس کے نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے ۔ مگر چونکہ میں ازخود 500 روپے کا ٹکٹ خرید کر سنیما ہال میں فلم دیکھنے کی عیاشی شاذ و نادر ہی کرتا ہوں اور خاص طور " پبلک " میں سپر ہٹ فلم جو کروڑوں اور اربوں ڈالر کا بزنس کررہی ہو ، کو کمپیوٹر پر بھی دیکھنے سے Avoid کرتا ہوں ۔ تو میرے ذہن کے کسی بھی خانے میں جوکر کا نام محفوظ نہیں تھا ۔
پروفیسر اقبال آفریدی نے مجھ سے نفسیات کے موضوع پر کسی اچھی فلم کا پوچھا ۔ اور بتایا کہ کسی فارماسوٹیکل کمپنی نے اگلے ہفتے مقامی سنیما ہال میں شہر کے تمام سائیکاٹرسٹ اور طبی نفسیات کے ماہرین کی Awareness اور تفریح طبع کے لئیے " جوکر " یا " ٹرمینیٹر " کے دکھانے کا اہتمام کیا ہے ۔ تو کوئی اور اچھی فلم ہے تو اس کا بتائیں ۔ اسی رات ، اسی چکر میں پھر بستر پر لیٹے لیٹے موبائل فون پر دو عدد فلمیں دیکھ لیں گئیں اور ان کے نام آفریدی صاحب کو میسج کردئیے گئے ۔ اور پھر اگلے تین دن تک سب نام ، سب فلمیں ذہن سے محو ہوچکے تھے اور روٹین کا شیڈول شروع ہو گیا تھا ۔
مگر پھر چوتھے روز فارماسوٹیکل کمپنی کا نمائندہ ، کلینک آگیا ۔ " جوکر " کی Invitation لیکر ۔ مذکورہ کمپنی کے کسی نمائندے سے گزشتہ دس بارہ برس سے کبھی کوئی پروفیشنل ملاقات نہیں ہوئی تھی ۔ تو اس کمپنی کا کارڈ دیکھ کر حیرت ہوئی ۔ کہ آج کیسے ۔ پھر اندازہ ہوا کہ آفریدی صاحب نے کہا ہوگا ۔ پروفیسر اقبال آفریدی ان گنت بار اپنی محبت اور خلوص میں ان گنت پروگرامز میں بلاتے رہے ہیں ۔ اور میں ہر بار ڈاج دیتا رہا ہوں ۔ اس لئیے اس بار میڈیکل ریپ سے تو میں نے کچھ نہیں پوچھا ۔ البتہ فلم شو میں آنے پر حامی بھر لی ۔ اگر پروفیسر اقبال آفریدی کا فون نہیں آیا ہوتا ، اور مجھے نہیں پتہ ہوتا کہ اس پروگرام کے پیچھے کون Initiative لے رہا ہے ، تو اس بار بھی میں نے ڈاج دے جانا تھا ۔
اور پھر کچھ یہ بھی تھا کہ بڑے عرصے سے کوئی 'سپر ہٹ عوامی فلم' نہیں دیکھی تھی ۔ سو وقت مقررہ پر حرا اور سعد کو ساتھ لے کر سنیما گھر پہنچ گیا ۔ کمپنی کے نمائندوں نے شہر بھر کے لگ بھگ تمام معروف سینئیر اور جونئیر ڈاکٹر بلائے تھے ۔ جن کا تعلق شعبہ نفسیات سے تھا ۔ کئی ڈاکٹر خواتین اور حضرات اپنے آٹھ دس سالہ بچوں کو بھی ساتھ لائے تھے ۔ جبکہ " جوکر " کو 18 پلس یعنی صرف بالغان کے لئیے Approve کیا گیا ہے ۔ اس حوالے سے شاید کمپنی کے نمائندے Invitation دیتے ہوئے بھول گئے تھے کہ برائے مہربانی کم عمر بچوں کو ساتھ نہ لائیے گا ۔ یہ دیگر بات ہے کہ فلم دیکھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ یہ فلم تو بڑوں کے دیکھنے کے لئیے بھی نہیں ہے ۔
ہر چیز ہر ایک کے لئیے نہیں ہوتی ۔ ہر چیز ہر ایک کے لئیے نہیں بنتی ۔ مذکورہ فلم کا شو شروع ہونے سے پہلے فارماسوٹیکل کمپنی کے نمائندے نے Audience کو بتایا کہ چونکہ اس فلم کی کہانی Mental Health سے متعلق ہے ، اس لئیے ماہرین نفسیات کو یہ خصوصی شو دیکھنے کے لئیے مدعو کیا گیا ہے ۔
پوری فلم دیکھنے کے بعد بھی ذہنی صحت کی بابت کوئی بات پتہ نہیں چل سکی ۔ کیونکہ فلم کا موضوع ، ذہنی صحت نہیں ، بلکہ ذہنی و کرداری و شخصی بگاڑ یا پرسنالٹی ڈس آرڈر Personality Disorder تھا ۔
جب ہم Mental Health کی بات کرتے ہیں تو اس میں کسی بھی ذہنی و نفسیاتی بیماری کی علامات سے لےکر تشخیص اور تشخیص کے بعد اس بیماری کی مینجمنٹ اور ٹریٹمنٹ پلان اور مناسب علاج کے بعد مریض کی Rehabilitation اور معاشرے میں اس کے مفید و موثر کردار کے طریقوں اور دیگر سہولیات سمیت تمام Areas آتے ہیں ۔ بیماری یا بگاڑ کی تصویر کشی الگ بات ہے اور صحت و تعمیر کے پہلو اجاگر کرنا بالکل الگ ہے ۔ تعمیر و اصلاح کے لئیے منفی اور تخریبی نکات کو کسی رنگینی کے بنا ، بیان کرکے پھر ان کے سدباب اور Rectification کے مختلف طریقوں پر مدلل گفتگو کسی بھی انداز اور کسی بھی رنگ میں کرنا اور خواص و عوام کی ذہن سازی کرنا ہر اس فرد اور ادارے کی ذمہ داری ہے ، جو متعلق شعبے سے منسلک ہو اور علم و ادراک رکھنے کے ساتھ خلق کی فلاح کی نیت بھی رکھتا ہو ۔
لیکن اگر Objective محض کمرشل ہو اور لوگوں کی نفسیات کے تاریک اور کمزور پہلووں کو کیش کرواکے شہرت اور دولت کمانا ہو اور Hidden Agenda کے تحت لوگوں کی نفسیات اور شخصیت کو مختلف زاویوں سے Manipulate کرنا ہو تو " جوکر " جیسی فلمیں بنا کر مارکیٹ میں Float کردی جاتی ہیں ۔ جو اپنے وقت میں نام بھی کماتی ہیں اور بزنس بھی ۔ اور دوسری طرف دیکھنے والوں کی سوچ کو پراگندہ بھی کرتی ہیں ۔
نیو ورلڈ آرڈر کے حوالے سے پہلے بھی کئی تحریریں آپ کی نذر کی ہیں ۔ سائیکولوجیکل وار فئیر کے اس ہنگامہ خیز دور میں بین الاقوامی قوتوں کے نیو ورلڈ آرڈر ایجنڈے کا بنیادی نکتہ ایک ہے ۔ دنیا کے ہر کونے ، ہر خطے میں Anarchy اور Chaos پیدا کرنا اور نفرت ، غصے اور قتل و غارت اور تشدد کے جذبات اور خیالات کو ہوا دینا ۔
" جوکر " بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی نظر آتی ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ ننانوے فیصد لوگ اس چھپی ہوئی حقیقت کو دیکھ نہ پائیں اور اس بات سے اتفاق نہ کر پائیں ۔ یہی اس فلم کی اور اس فلم کی طرح کی اور ہزاروں فلموں ، ڈراموں ، ناولوں ، تذکروں ، مباحثوں ، کی خوبصورتی ہے کہ کوئی بھی بین السطور معنوں کو نہ Read کر پاتا ہے ، نہ Decode کر پاتا ہے ۔ اور ان کے تخلیق کار اور ان تخلیق کاروں کے پیچھے ان کے ڈائریکٹر آہستہ آہستہ اپنی منصوبہ بندی میں کامیاب ہورہے ہیں ۔ تفریح کے نام پر ایسی فلمیں اور ایسے ڈرامے تخلیق کئیے جارہے ہیں جو مثبت اور تعمیری انسانی صفات کو Promote کرنے کی بجائے منفی اور تخریبی Elements کو ہیرو کے روپ میں پیش کر رہے ہیں ۔ اور ان گنت ریکارڈ بریک کرکے ، ان گنت ایوارڈز اکٹھا کر رہے ہیں ۔
انسان کی نفسیات کی بنیادی کمزوریوں میں سے ایک کمزوری یہ بھی ہے کہ وہ اپنی فطرت سے مجبور ہو کر کسی بھی منفی جذبے یا خیال یا نظریہ سے بہت جلد متاثر ہو جاتا ہے ۔ اور یہ منفی جذبے ، خیالات اور نظریات جب تواتر سے مسلسل مختلف رنگوں اور پیراوں میں لوگوں کے سامنے لائے جاتے ہیں تو مضبوط سے مضبوط شخصیت و کردار کے قلعے میں بھی دراڑیں پڑنے لگتی ہیں ۔ اعلی تعلیم یافتہ اور مہذب ترین افراد بھی جلد یا بدیر اپنی Productivity اور Proactivity کے دائرے سے باہر نکل کر Reactive اور Destructive ہونے لگتے ہیں ۔
ڈاکٹرز ، پروفیسرز ، وکلاء ، انجینئرز ، ادیب ، شاعر ، صحافی اور ان سب کی طرح سوسائٹی کے دیگر Elites جب صبر ، شکر ، تحمل ، بردباری اور قناعت کو ترک کرکے مادی مفادات اور اپنی ذاتی خواہشات کی تسکین میں مصروف ہوجاتے ہیں تو وہ بھی معاشرے کے عام آدمیوں کی طرح ، ہر طرح کے منفی ایجنڈے اور پروپیگنڈے کے اثرات کے زیر سایہ آجاتے ہیں ۔
اور یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ان کے حقوق کی پامالی ہورہی ہے اور وہ بھی اپنی شناخت کھو کر Mob کا حصہ بن جاتے ہیں ۔
" جوکر " جیسی فلمیں جہاں ایک طرف دنیا بھر کے عام آدمیوں کے ذہنوں کو مسخ کررہی ہیں ۔ وہاں دوسری جانب Intellectuals کی نفسیات میں بھی Drilling کررہی ہیں ۔ سب سے پہلے تو اس فلم کا نام ہے ۔ دنیا بھر کے تمام عام و خواص لوگوں کی تمام زبانوں میں لفظ " جوکر " سنتے یا پڑھتے ہی ایک ایسے کردار کا خاکہ ذہن میں ابھرتا ہے ، جو اپنی مزاحیہ حرکتوں اور باتوں اور اپنے عجیب الخلقت حلیے سے لوگوں کو ہنساتا ہو اور ان کی ذہنی تھکن دور کرتا ہو ۔
جبکہ اس فلم یہ ٹائٹل ، مختلف نفسیاتی الجھنوں میں گرفتار ، پرسنالٹی ڈس آرڈر میں مبتلا ایک ایسے آدمی کو دے دیا گیا ہے جو اپنے بچپن کی محرومیوں اور اپنی ذاتی کمیوں اور کجیوں اور اپنی ذات پر ہونے والی زیادتیوں کی بنا پہلے نفسیاتی اور شخصی عارضے کا شکار ہوتا ہے ۔ اور اس کے علاج کے لئیے کئی طرح کی ادویات کئی سالوں تک استعمال کرتا ہے ۔ اور اس کا علاج کرنے والے ماہرین بھی اس کے اندر پلنے والی ذہنی بیماری کے لاوے کی شدت سے آگاہ نہیں ہو پاتے ۔ اور وہ رفتہ رفتہ انتقامی اور متشدد ہوتا چلا جاتا ہے ۔ اپنی جگہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ معاشرے کے طاقتور اور متمول افراد جب اپنے ارد گرد کے کمزور اور کم حیثیت کے لوگوں کو مستقل Neglect کرتے رہتے ہیں تو وہ عام طور پر Reactive ہوجاتے ہیں ۔ اور ان میں سے کمزور اعصاب کے حامل افراد ، جو پہلے ہی کسی نفسیاتی عارضے یا شخصی کجی کا شکار ہوتے ہیں ، وہ Over Generalization کے نفسیاتی مدافعتی نظام کے پھیرے میں پھنس کر چند لوگوں کے منفی رویوں کا بدلہ پورے معاشرے سے لینے لگ جاتے ہیں ۔ اور انارکی اور افراتفری میں اضافے کا باعث بننے لگتے ہیں ۔ فلم " جوکر " کا مرکزی کردار بھی اپنی عام زندگی میں جوکر کا کردار ادا کرتے کرتے اور بچپن سے ادھیڑ عمر تک پہنچتے پہنچتے ، اپنی کمزوریوں کی وجہ سے لوگوں کی زیادتی کا شکار ہوتے ہوتے اپنے Delusions میں اتنا Intense ہوجاتا ہے کہ پھر وہ ہر اس فرد کو قتل کرنے لگتا ہے ، جسے وہ سمجھتا ہے کہ اس نے اس پر کبھی نہ کبھی ، کسی نہ کسی شکل میں ظلم کیا ہے ۔
اور سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کی مہربانیوں سے اس کی پر تشدد Videos جب Viral ہونے لگتی ہیں تو لوگوں کا جم غفیر ، جوکر کا ماسک چہرے پر لگا کر ، مرکزی منفی کردار کو اپنا آئیڈیل اور ہیرو قرار دے کر شہر کی سڑکوں پر نکل کر ہنگامہ آرائی کرنے میں مصروف ہوجاتا ہے ۔
اور دیکھنے والوں کو یہ Message ملتا ہے کہ یہ غلط طریقہ ہی صحیح طریقہ ہے ۔ کہ آپ اپنے اوپر ہونے والی زیادتیوں کا بدلہ ، بیگناہ لوگوں کو مار کر ، بیگناہ لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچا کر ، اور مروجہ نظام کو Sabotage کرکے ہی حاصل کر سکتے ہیں ۔ یعنی ایک نفسیاتی مریض جو بے بنیاد تخیلاتی مفروضوں یعنی Delusions کی بیماری میں مبتلا ہے ، وہ لیڈر اور ہیرو بنا کر دکھایا جاتا ہے ۔
اور دیگر کسی بھی طرح کے حل کا کسی بھی طرح ذکر نہیں کیا جاتا ۔
دنیا بھر کے کروڑوں لوگ یہ فلم دیکھ چکے ہیں ۔ یہ فلم اربوں روپے کا بزنس کر چکی ہے ۔ اور لاکھوں لوگوں کے ذہنوں کو مسخ اور متاثر کرچکی ہے ۔ تفریح کے نام پر بارود کے ڈھیر میں ایک اور ڈائنامائٹ کا اضافہ کردیا گیا ہے ۔ سائیکولوجیکل وار فئیر کے زمانے کا عجیب ڈھنگ ہے کہ کسی کو بھی نہیں پتہ چل پاتا کہ وہ کس لمحے ، کس انداز ، کس ڈھب میں ، کس ڈھونگ ، کس ڈگڈگی کے تیروں کا نشانہ بن کر جیتے جی مٹی کا مادھو بن جائے گا ۔ اور باقی ساری عمر اپنے اپنے بازی گروں کے ہاتھوں Puppet اور روبوٹ بن کر ان کے اشاروں پر ناچتا رہے گا ۔ بالکل اسی طرح ، جس طرح فلم جوکر کا مرکزی کردار Joaquin Phoenix ، فلم کے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کے اشاروں پر اداکاری کرتا رہا تھا ۔ اور اپنی دانست میں اپنے فرضی کردار میں ڈوب کر بے مثال اداکاری کا مظاہرہ کرتا رہا تھا ۔ آسکر ایوارڈ کی شعوری یا لاشعوری خواہش کے ساتھ ۔
مجھ سمیت ہم سب ہی کسی نہ کسی آسکر ایوارڈ کی تمنا میں ، اپنی دانست میں ، اپنی اپنی محدود زندگی میں کسی نہ کسی " جوکر " کا لازوال کردار ادا کرنا چاہتے ہیں ۔ ہیرو بننا چاہتے ہیں ۔ کسی نہ کسی کام ، کسی نہ کسی شعبے میں Excellence چاہتے ہیں ۔ المیہ یہ ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگ اپنی اس خواہش کے حصول کے چکر میں واقعی " جوکر " بن کر ، انتہائی غیر محسوس طریقے سے ، نظر نہ آنے والی طاقتوں کا آلہ کار بن جاتے ہیں ۔ اور ہمیں پتہ بھی نہیں چلتا ہے ۔ اب اسی بات کو دیکھ لیجئیے ۔ میں بھی Temptation کا شکار ہو کر فلم دیکھنے چلا گیا ۔ جب مجھے Invitation ملی ۔ میں اگر نہیں جاتا تو میری جگہ کوئی اور چلا جاتا ۔ مگر چونکہ مجھے تو شروع سے ہی حماقتیں کرنے اور کرتے رہنے کا شوق ہے ۔ اور میں کسی بھی طرح Invitation دینے اور فلم شو Arrange کرنے اور کروانے والی کمپنی کی Obligation میں نہیں تھا ۔ تو مجھے دو چار گھنٹے کے لئیے " جوکر " بننے میں کوئی مضائقہ نہیں تھا ۔ کہ شاپنگ مال سے مجھے اپنے اور سعد کے لئیے جوتے بھی دیکھنا اور لینا تھے ۔ اور ایک دن کلینک سے ٹائم آوٹ بھی لینے کا دل تھا ۔ یعنی ایک پنتھ ، چار کاج ۔
مجھے نہیں پتہ کہ فلم شو میں آنے والے اور دیگر ڈاکٹر حضرات اور خواتین کا کیا Intention تھا ۔ قوی امکان ہے کہ زیادہ تر شرکاء محض فلم دیکھنے کے لئیے ہی آئے تھے ۔ ہاں البتہ فارماسوٹیکل کمپنی کا مقصد اپنے Customers اور Clients کے لئیے ایسی Activity رکھنا تھا ، جس سے ایک ہی کام سے بہت سے لوگ Satisfy ہوجائیں ۔
مگر اس وقت یہ تحریر لکھتے ہوئے یہ احمقانہ خیال جانے کیوں آرہا ہے کہ مینٹل ہیلتھ پر فلم شو آرگنائزر کروانے کی بجائے اگر کمپنی پانچ لاکھ روپوں سے ایسے دس لوگوں کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے مدد کردیتی ، جو معاشرے کی زیادتی کا شکار ہوکر Reactionary ہورہے ہیں یا ہونے والے ہیں تو شاید زیادہ بہتر ہوتا ۔ شاید دو چار اور لوگ " جوکر " نہ بن پاتے ۔
مگر یہ دور کمرشلائزیشن کا ہے ۔ مارکیٹنگ کا ہے ۔ سائیکولوجیکل وار فئیر کا ہے ۔ آرٹیفیشل سپر انٹیلیجنس کی Implementation کا ہے ۔ نیو ورلڈ آرڈر کے نقار خانے میں " جوکر " کی تو گنجائش ہے ، کسی Ediot کی نہیں ۔ سو دل کی بھڑاس یونہی لکھ کر نکال لینی چاہئیے ۔ شاید روز آخرت یہی دو چار لفظ کسی کام آجائیں ۔ کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ۔ اور اللہ ہم سب کے دلوں کا حال جانتا ہے ۔

" جوکر "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ،
جسمانی ، روحانی ، جنسی و منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ

www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.drsabirkhan.blogspot.com
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
www.g.page/DUAAGO
Instagram @drduaago

اتوار، 17 نومبر، 2019

" بلی چینختی ہے "

" بلی چینختی ہے "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

آپ نے بلی پالی ہو یا نہ پالی ہو ، بلی کیا بلیاں اور بلے تھوک کے حساب سے دیکھے ہوں گے ۔ آپ بلیوں سے انسیت رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں ، زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر ، کسی نہ کسی شکل میں بلیوں سے واسطہ ضرور پڑا ہوگا ۔
دنیا میں ہزاروں نسلوں اور شکلوں کی بلیاں پائی جاتی ہیں ۔ ایرانی ، یونانی ، لبنانی نسل وشکل کی بلیاں لگ بھگ سبھی کو بھاتی ہیں ۔ مہنگے داموں بکتی ہیں ۔ بڑے ناز و نخروں سے پلتی ہیں ۔ پالنے والوں کا دل لبھاتی ہیں ۔ دیسی بلیاں گلیوں میں سڑکوں پر رلتی اور لڑتی اور غراتی رہتی ہیں ۔ گاڑیوں کے نیچے آ آ کر مرتی رہتی ہیں ۔ بنا اجازت گھروں میں گھس کر دودھ اور گوشت پر منہہ مارتی رہتی ہیں اور جوتے کھاتی رہتی ہیں ۔ میاوں میاوں سے لیکر مے آوں اور مآوں تک کی آوازیں نکالتی رہتی ہیں ۔ اور یونہی ادھر ادھر پھرتی رہتی ہیں ۔
مگر جونہی انجانے میں ہمارا پاوں بلی کی دم پر آجائے تو ہر بلی چینختی ہے ۔ اور چاہے کتنی ہی پالتو کیوں نہ ہو ، کتنے ہی ناز و اندام سے رکھی ہوئی ہو ، اس نے غراتے ہوئے پنجہ مارنا ہوتا ہے ۔ یا کاٹنے کی کوشش کرنی ہوتی ہے ۔ یہ ہر بلی کی نفسیات ہے ۔ جب تک آپ اس کے نخرے سہتے رہیں ، وہ آپ کے قدموں سے لپٹتی رہے گی ۔ اور جیسے ہی آپ نے اس سے کنی کترانے کی ، کی ۔ اس نے ہرجائی محبوب کی طرح نظریں چرا لینی ہیں ۔ اور آپ سے دوری اختیار کر لینی ہے ۔
کسی بھی نسل ، کسی بھی شکل کی بلی کبھی بھی کتے اور گھوڑے کی طرح تمام عمر اپنے پالنے والے کی وفادار نہیں رہ سکتی ۔ کتے اور گھوڑے اپنے مالک پر اپنی جان قربان کردیتے ہیں ۔ مگر بلیوں اور بلی جیسے لوگوں کی جب جیسے ہی ذرا سی جان پر پڑتی ہے تو وہ آپ سے جان چھڑا کر اپنی جان بچانے کے چکر میں لگ جاتے ہیں ۔ جب تک آپ ان کے نخرے برداشت کرتے رہیں گے ، ان کی ضروریات کا خیال رکھتے رہیں گے ، وہ دم ہلاتے ہوئے آپ کے آگے پیچھے پھرتے رہیں گے ۔
میاوں میاوں کرتے رہیں گے ۔ مگر اگر کسی وجہ سے آپ مستقل ایسا نہ کرسکیں تو آپ کو ذہنی طور پر تیار رہنا چاہئیے کہ پھر کسی بھی وقت آپ کا ساتھ ایسے لوگوں سے چھوٹ سکتا ہے ۔
انسان ہوں یا جانور اور پرندے یا جانوروں اور پرندوں کی صفات والے انسان ، وفاداری اور کمٹ منٹ نبھانا ہر کسی کا شیوہ نہیں ہوتا ۔ نہ ہی ہر کسی کی فطرت میں ، قدرت نے جانثاری کے جراثیم رکھے ہوتے ہیں ۔ یہ بات البتہ انسان کے لاشعور میں ضرور ہوتی ہے کہ وہ جس جانور ، جس پرندے سے زیادہ لگاو اور انسیت رکھتا ہے ، قدرتی طور پر اس کی فطرت میں اس جانور یا پرندے کی فطرت و خصلت کے کئی عناصر ضرور پائے جاتے ہیں ۔ نہاں یا عیاں ۔ کبھی بہت کبھی کم ۔ مگر اس کی پسند کا Reflection اس کے مزاج اور نفسیات میں ضرور جھلکتا ہے ۔
آپ اپنا جائزہ لیجئیے ۔ ایمانداری کے ساتھ ۔ آپ کو سب سے زیادہ پسند کونسا جانور یا کون سا پرندہ ہے ۔ پالتو یا جنگلی ۔ دور سے دیکھنے کی حد تک یا گھر میں پالنے کے شوق تک ۔ اور یا آپ جانور بیزار ہیں ۔ آپ کو جو پرندہ ، جو جانور بچپن سے اچھا لگتا آیا ہے ۔ اس کی فطرت اور اس کی خصوصیات پر غور کیجئے ۔ اور پھر اپنی نفسیات اور اپنی شخصیت کے نمایاں اور نہاں مثبت اور منفی گوشوں پر تنقیدی نگاہ ڈالئیے ۔ آپ کو اپنے اندر اپنے پسندیدہ جانور یا پرندے کی کئی خصوصیات نظر آئیں گی ۔
اس بات کو اور اچھی طرح سمجھنے کے لئیے اپنے قریبی دوستوں کی شخصیت اور نفسیات کی بابت سوچئیے ۔ آپ اپنے ہم خیال اور ہم مزاج لوگوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے اور نبھانے کو زیادہ پسند کرتے ہوں گے ۔ بہ نسبت آپ کی سوچ سے مطابقت نہ رکھنے والوں کے مقابلے میں ۔ شعوری اور لاشعوری طور پر ہم سب اپنے جیسے لوگوں کی صحبت اور رفاقت چاہتے ہیں ۔ اسی طرح ہماری اصل فطرت میں قدرت نے جو Features رکھے ہوتے ہیں ، وہی ہماری عام زندگی میں مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتے رہتے ہیں ۔ کسی خاص پرندے یا جانور کو پسند کرنا یا اس سے بہت زیادہ قربت محسوس کرنا بھی ہماری فطری جبلت کی خاص جہت کو ظاہر کرتا ہے ۔ اور اس کی بنیاد پر ہم بآسانی کسی بھی شخص کی Profile بنا سکتے ہیں اور اس کی نفسیات کے چند مخصوص پہلووں کی Study کرسکتے ہیں ۔
اب آپ اس حوالے سے اپنی ذاتی پسند ناپسند اور اپنے اردگرد کے لوگوں کی پسند ناپسند کا جائزہ لیجئیے کہ کس کو کون سا جانور یا پرندہ زیادہ اچھا لگتا ہے ۔ پھر جب آپ متعلقہ فرد کی نفسیات و شخصیت کو دیکھیں گے تو آپ کو خود بخود احساس ہونے لگے گا کہ اس فرد میں اس کے پسندیدہ پرندے یا جانور کی کوئی نہ کوئی خاصیت پائی جاتی ہے ۔
کرمنالوجی اور سائیکالوجی کے ماہرین ، ملزموں اور مریضوں کے ذہنی معائنے میں ، ان کی شخصیت کے تضادات اور مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے کے لئیے جہاں اور بہت سے Tools استعمال کرتے ہیں ، وہاں وہ ان کی عادات اور ہر حوالے سے ذاتی پسند ناپسند کے مطالعے کو بھی بہت اہمیت دیتے ہیں ۔ اور اپنی ریسرچ کی بنیاد پر ملزم اور مریض کی شخصیت و نفسیات کی تشخیص کرتے ہیں ۔
ہم اگر چاہیں تو عام زندگی میں بھی لوگوں کی عمومی نفسیات سمجھنے کے لئیے ایسے عام طریقوں کی مدد لے سکتے ہیں اور اپنے علم کی روشنی میں ان کے ساتھ اپنے تعلقات اور معاملات کو خوشگواری سے استوار کر سکتے ہیں ۔ یوں سمجھ لیں کہ اگر ہمیں کسی کی دکھتی رگ کا علم ہو اور ہم اس پر ہاتھ رکھ دیں تو کیا ہوگا ۔
چوہے کو پکڑنے کے لئیے Mouse Trap میں Cheese یا ٹماٹر لگانا پڑتا ہے ۔ دودھ ، مچھلی کی خوراک دے کر بلی پالنی ہوتی ہے ۔ سانپ کو بل سے نکالنے کے لئیے بین بجانی پڑتی ہے یا زندہ چوہوں اور خرگوشوں کا نذرانہ پیش کرنا پڑتا ہے ۔ اسی طرح کسی انسان کی اصل نفسیات کی تہہ تک پہنچنے کے لئیے اسی طرح کی چھوٹی چھوٹی معلومات سے استفادہ حاصل کرنا پڑتا ہے ۔
بڑے بڑے کاروباری افراد اپنی Dealings میں اس بات کا خاص خیال رکھتے ہیں اور ہر شخص کے اندر چھپی بلی کی دم پر پاوں رکھتے ہیں ۔ پھر جونہی بلی چینختی ہے ، وہ اس فرد کی اصل شخصیت کی جانچ کرکے ، اس کی نفسیات کے مطابق ، لالچ یا ڈر خوف کے حربوں سے اپنا مطلب نکال لیتے ہیں ۔
بڑے بڑے کاروباری ادارے اپنے Products کی مارکیٹنگ کے لئیے اسی اصول کا سہارا لیتے ہیں ۔ لوگوں کے لاشعور کو Provoke کرکے ایسی ایسی چیزیں فروخت کر ڈالتے ہیں ، جو دو دن کے بعد کسی کونے کھدرے میں پڑی ہوتی ہیں ۔
بڑے بڑے طاقتور ممالک اپنی فارن پالیسی بناتے ہوئے نفسیات کے اسی گر کا استعمال کرتے ہیں اور کمزور ملکوں کو اور کمزور کرکے اپنے مقاصد کے حصول کے لئیے Exploit کرتے ہیں ۔ ہر قوم کے مزاج کو سمجھ کر اس قوم کے جذباتی Elements کو Explore اور Highlight کرکے Limelight میں لاتے ہیں اور پھر اس قوم اور اس معاشرے کی ساری بلیاں ایک ایک کرکے مار دیتے ہیں ۔ Threshold چیک کرنے کے لئیے دم پر دباو بڑھاتے رہتے ہیں ۔ اور پھر جونہی اس قوم ، اس ملک کے جذباتی لوگوں کی بلی چینختی ہے ، قبضہ گیر ممالک کے Think Tanks ایک سرخ گول دائرہ بنا کر جذباتی گروپ کو Mark کرلیتے ہیں ۔ اور اگلے اسٹیج میں ڈر خوف یا لالچ کے صدیوں پرانے ڈنڈے سے جذبے اور جذباتیت کا بم Diffuse کردیتے ہیں ۔ جو بلی جتنی زیادہ جذباتی ، چنچل اور غصیلی ہوتی ہے ، وہ اتنی ہی جلدی Trap ہوجاتی ہے ۔ اس میں برداشت کا مادہ بہت کم ہوتا ہے ۔ اس کی دم پر ہلکا سا پریشر اسے چینخوا دیتا ہے ۔ اور Policy Makers کا کام آسان ہوجاتا ہے ۔ پھر وہ اپنی مرضی سے اس بلی کے گلے میں طوق ڈال کر اپنے راستے پر لے جاتے ہیں ۔
اب ذرا اپنے چاروں طرف نگاہ ڈالئیے ۔ آپ کو بلیوں کے غول کے غول میاوں میاوں کرتے نظر آئیں گے ۔ مگر وہ لوگ کہیں دکھائی نہیں دیں گے جو دم پر پاوں رکھ کر کھڑے ہیں ۔ کیونکہ ان کی نفسیات بلیوں کی طرح نہیں ہے ۔ بلیوں کو پکڑنے ، نچوانے اور چینخوانے والے لوگوں کے پسندیدہ جانوروں اور پرندوں میں کتے ، گھوڑے ، چیتے ، لومڑی ، بھیڑئیے ، عقاب ، گدھ ، طوطے ، سانپ ، بچھو ، مکڑیاں اور چمگاڈریں شامل ہوتے ہیں ۔ اور ان کی نفسیات میں ان سب کی خصوصیات پائی جاتی ہیں ۔ کتے ، طوطے اور گھوڑے تو جا بہ جا دکھائی دے جاتے ہیں ۔ باقی تو چڑیا گھر اور جنگلوں کے علاوہ ان King Makers کے گھروں میں ہی نظر آسکتے ہیں ۔
اور رہی بلیاں ، تو وہ تو ہر گلی ، ہر سڑک ، ہر کونے میں ادھر سے ادھر پھرتی رہتی ہیں اور میاوں میاوں کرتی رہتی ہیں ۔ اور دم پر پاوں پڑتے ہی چینختی رہتی ہیں ۔
نوٹ : اس تحریر کا عنوان استادوں کے استاد محترم ابن صفی کے ناول " بلی چینختی ہے " سے مستعار لیا گیا ہے ۔ اس امید اور یقین کے ساتھ کہ شاید آج کے دو چار نوجوان محترم ابن صفی کے کچھ ناول پڑھ لیں ۔اور پڑھنے کی Addiction میں گرفتار ہوجائیں ۔ اور باقی کے نوجوانوں کے لئیے مشعل راہ بن جائیں ۔


" بلی چینختی ہے "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ، جسمانی ، روحانی ، جنسی و منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ

www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.drsabirkhan.blogspot.com
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
www.g.page/DUAAGO
Instagram @drduaago 

" ایک تھی لڑکی "

" ایک تھی لڑکی " 
نیا کالم / بلاگ/ مضمون 
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان 

' صدیوں سے دنیا میں یہی تو قصہ ہے ۔ ایک ہی تو لڑکی ہے ، ایک ہی تو لڑکا ہے ۔ جب بھی یہ دونوں ملے ، پیار ہوگیا ' ۔ 
آج شام جب اپنے تین کرسیوں والے برآمدے میں لکھنے بیٹھا تو تین موضوع ذہن میں تھے ۔ سگریٹ سلگائی ۔ دھوئیں کے پہلے باہر نکلتے ہوئے مرغولے کے ساتھ ایک موضوع سے مربوط ، لڑکپن میں سنے ایک گانے کے ابتدائی بول یاد آگئے ۔ شاید آپ نے بھی کبھی یہ گانا سنا ہو ۔ اور اگر نہیں بھی سنا ہے ، تو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ کیونکہ یہ ایک آفاقی حقیقت ہے ۔ صدیوں سے واقعی دنیا میں ایک ہی کہانی ہے ۔ ایک ہی قصہ ہے ۔ ایک ہی سچائی ہے ۔ لڑکی اور لڑکے کی محبت کی کہانی ۔ جنس مخالف سے الفت ، انسیت اور رفاقت کی کہانی ۔ ہر عہد ، ہر دور ، ہر معاشرے ، ہر سماج کی کہانی ۔ ہر گھر ، ہر عمر کی کہانی ۔
دل کی اور دل لگی کی کہانی ۔ کبھی تو پانی کے بلبلے کی طرح پھیلنے اور پل بھر میں پھٹنے کی طرح ۔ اور کبھی عمر بھر کے روگ اور جنجال کی صورت ۔ پیار ، محبت اور عشق کی نہ مٹنے والی کہانی ۔ 
پل پل ساتھ نبھانے اور عمر بھر ساتھ نہ چھوڑنے کے دعووں ، وعدوں اور قسموں کی کھربوں کہانیاں ۔ اور ہر کہانی کا اختتام یا تو مجبوریوں اور سمجھوتوں کی زندگی ۔ اور غم و الم سے بھرپور جدائی اور تنہائی ۔
کہ جو بھی شے ، جو بھی بات Metaphysical ہوتی ہے ، Virtual ہوتی ہے ، محض Emotional ہوتی ہے ۔ اس کا Life span کم ہوتا ہے ، عارضی ہوتا ہے ۔ ایک خاص وقت کے بعد اس کا Footage ختم ہوجاتا ہے ۔ اس کی کشش ، اس کا Charm اپنی آب و تاب کھو دیتا ہے ۔ اور اس کے مدار میں گھومنے والے ، کچھ وقت کے بعد ، سر کے بل لٹک جاتے ہیں ۔ اور تمام عمر لٹکے رہتے ہیں ۔ اپنی باتوں ، اپنے وعدوں ، اپنے دعووں اور اپنی Commitment کے جال میں الجھے رہتے ہیں ۔ 
افلاطونی محبت اور عملی محبت میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے ۔ افلاطونی محبت ، جذباتی اور عام طور پر لمحاتی ہوتی ہے اور Attraction اور Attachment سے شروع ہوکر جسمانی تعلق پر ختم ہوجاتی ہے ۔ اور اگر جسمانی تعلق تک پہنچنے سے پہلے ہی کسی وجہ سے ہوا میں تحلیل ہوجائے یا کسی ایک فریق کی بےوفائی سے اپنے منطقی انجام کو گلے ملنے سے پیشتر ہی مٹی میں مل جائے تو دونوں یا پیچھے رہ جانے والا فرد ، خواہ مرد ہو یا عورت ، جیتے جی زندہ درگور ہوجاتا ہے ۔ اور محبت میں کامیابی سے ناکام ہونے کے بعد یا تو Reactionary ہوجاتا ہے اور خود کو اور اپنے ساتھ اور آمنے سامنے کے لوگوں کو ہمہ وقت Tease کرتا رہتا ہے اور ماحول میں پراگندگی اور انتشار پھیلاتا رہتا ہے ۔ اور یا پھر سب کو اور سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر Missionary بن جاتا ہے اور معاشرے کی تعمیر اور ترقی میں کسی بھی طرح کا کردار ادا کرنے سے قاصر ہوجاتا ہے ۔ 
افلاطونی محبت ، اگر ناجائز جسمانی تعلق قائم کرنے کے درجے تک لے جاتی ہے تو تب بھی دونوں فریقین ، جلد یا بدیر ، Guilt اور Regrets سے دوچار ہوتے ہیں ۔ اور نفسیات اور شخصیت کی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر مختلف طرح کے روحانی ، نفسیاتی ، جذباتی ، خانگی اور ذہنی مسائل اور امراض میں مبتلا ہوکر ساری عمر اپنے کئیے کی سزا بھگتتے رہتے ہیں ۔ 
یہی افلاطونی محبت جب شادی کے بندھن میں ڈھلتی ہے تو دو چار سال تک تو روشن رہتی ہے ۔ پھر جونہی جسمانی کشش کا زور کم پڑتا ہے ۔ اور معاش اور اولاد کی ذمہ داریاں سر اٹھاتی ہیں ، روز کے طعنے ، تشنے اور جھگڑے اگلے دو چار سالوں میں رہی سہی محبت کا بھوت اتار پھینکتے ہیں ۔ محبت کی جگہ نفرت اور حقارت گھر کرلیتی ہے ۔ کبھی تو معاملہ علیحدگی تک جا پہنچتا ہے ۔ تو کبھی اولاد ، پاوں کی زنجیر بن کر زندگی کی گاڑی گھسیٹنا شروع کر دیتی ہے ۔ اور سکون ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہوجاتا ہے ۔ 
عملی محبت اس کے برعکس ہوتی ہے ۔ اور بہت کم ہوتی ہے ۔ مگر جب بھی ہوتی ہے ، Long Lasting ہوتی ہے ۔ زیادہ مدت تک برقرار رہتی ہے ۔ بشرط زندگی ، کبھی کبھی تو بھرپور پرسکون گولڈن جوبلی بھی کرلیتی ہے ۔ کیونکہ عام طور پر عملی محبت یا تو شادی کے بعد پیدا ہوتی ہے ۔ اور یا پھر شادی سے پہلے کی صورت میں اتنی متوازن اور معتدل ہوتی ہے کہ کسی کسی کو ہی اس کا پتہ چل پاتا ہے ۔ اور کبھی کبھی تو دونوں یا دونوں میں سے کسی ایک کو بھی علم نہیں ہو پاتا کہ ان دونوں کے Reciever ایک ہی فریکوینسی پر سیٹ ہوچکے ہیں ۔ یہ فریکوینسی ذہنی ہم آہنگی اور Compatibility کی ہوتی ہے ۔ روحانی Alignment کی ہوتی ہے ۔ اور جس محبت میں ذہنی ہم آہنگی اور روحانی رشتہ ہو ، وہ افلاطونی اور محض دلی و جسمانی محبت سے زیادہ مضبوط اور خوشگوار ثابت ہوتی ہے ۔ اس طرح کی محبت میں زیادہ سچائی ، زیادہ ایثار ، زیادہ قربانی ہوتی ہے ۔ اور Bilateral ہوتی ہے ۔ بولے بنا سامنے والے کو ، سامنے والے کے دل کا حال پتہ چل جاتا ہے ۔ اس کی ہر خواہش ، ہر ضرورت کا اندازہ ہوجاتا ہے ۔ اور پھر اس کے دل کی بات Automatic طریقے سے پوری بھی کردی جاتی ہے ۔ اور چونکہ یہ محبت محض سطحی اور جذباتی نہیں ہوتی تو شادی اور ازدواجی تعلقات قائم ہونے کے بعد بھی اپنی تاثیر نہیں کھوتی ۔ 
ذہنی ہم آہنگی اور روحانی وابستگی ایک ایسا Bond پیدا کردیتی ہے جو تا دم مرگ برقرار رہتا ہے ۔ 
عملی محبت ہر ایک کے نصیب میں نہیں ہوتی ۔ لاکھوں میں کوئی ایک خوش نصیب اس محبت کا ذائقہ چکھ پاتا ہے ۔ سطحی اور جذباتی لوگوں کی قسمت میں افلاطونی اور جسمانی محبت ہی لکھی ہوتی ہے ۔ اور اسی چکر میں گھوم گھوم کر وہ گھن چکر بن جاتے ہیں ۔ پھر وہ نہ گھر کے رہتے ہیں اور نہ گھاٹ کے ۔ گھاٹے کا سودا ان کے گلے کا طوق بن جاتا ہے ۔ جو نہ اتر پاتا ہے ۔ نہ ٹوٹ پاتا ہے ۔ 
' ایک تھی لڑکی ' بھی ایسی ہی لڑکی کی کہانی ہے ۔ جو اپنی محبت کی دلدل میں سر تا پاوں اتنی ڈوبی ہوئی ہے کہ اب دنیا کی کوئی طاقت اسے یک رخی محبت کے جہنم سے باہر نہیں نکال سکتی ۔ ماسوائے کسی معجزے کے ۔ اور معجزے آج کے زمانے میں شاذ و نادر ہی ہوا کرتے ہیں ۔
فرض کر لیتے ہیں ، اس لڑکی کا نام مہرین ہے ۔ ٹی وی ڈراموں میں کام کرنے کا شوق اسے شوبز کی دنیا میں ذرا دیر کو لے گیا ۔ دو تین ڈراموں میں دو چار منٹ کے کردار بھی ملے ۔ پھر جب اس پر سلور اسکرین کی چمک کی حقیقت آشکار ہوئی ۔ کہ آگے بڑھنے کے لئیے اسے اپنے آپ کو داو پر لگانا پڑے گا تو وہ الٹے قدموں واپس ہوئی ۔ واپسی کے سفر میں اس کا نصیب اس کے ساتھ تھا ۔ اور وہ شو بز کے ہی ایک لڑکے پر دل ہار بیٹھی ۔ 
فرض کر لیتے ہیں کہ اس لڑکے کا نام جمیل ہے ۔ مہرین اور جمیل کی افلاطونی محبت سال بھر تک خوب پلی بڑھی ۔ پروان چڑھی ۔ روز کا گھومنا پھرنا ۔ کھانا پینا ۔ عمر بھر ساتھ نبھانے کی قسمیں ۔ شادی کے وعدے ۔ گھنٹوں کی باتیں ۔ ہر دوسرے تیسرے دن ، جمیل ، مہرین کے گھر آتا اور اس کے گھر والوں سے بھی پینگیں بڑھاتا ۔ اگلے ہفتے ، اگلے ماہ ، تین ماہ بعد اپنے گھر والوں کو مہرین کے گھر بھیج کر بات پکی کرنے کا کہتا ۔ مگر بھیجتا نہیں ۔ اور پھر ایک دن خود بھی رسیاں توڑ کر بھاگ نکلا ۔
وجہ کیا تھی ۔ مجھے نہیں پتہ ۔ کہ مہرین نے مجھے یہی بتایا ۔ ویسے عام طور پر ایسے Cases میں کسی کو پتہ نہیں چل پاتا کہ Breakup کی اصل وجہ کیا ہے ۔ 
سال بھر کے پل پل کے ساتھ کے بعد مہرین یکایک اکیلی ہوئی تو جدائی کا صدمہ اس کے لئیے ناقابل یقین اور ناقابل برداشت تھا ۔ اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ختم کرنے کی کوشش نے اسے ICU پہنچادیا ۔ جمیل کچھ ویسے ہی شرم و ندامت کا شکار تھا ۔ پولیس عدالت کے ڈر نے اسے اور چار فٹ دور کردیا ۔ وہ اپنے سارے وعدوں سے پیچھے ہٹ گیا تھا ۔ بقول مہرین کے وہ وجہ بھی کچھ نہیں بتاتا تھا ۔ 
تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی ۔ مجھے تصویر کا ایک رخ پتہ ہے ۔ جو مہرین نے دکھایا ہے ۔ جمیل کے کیا Reasons تھے محبت کے اور اس کی کیا وجوہات تھیں سال بھر کی محبت کے بعد علیحدگی کی ۔ مجھے نہیں علم ۔ اور شاید کبھی علم ہو بھی نہ سکے ۔
لیکن مہرین کے ساتھ ڈیڑھ پونے دو ماہ گزارنے کے بعد ، اس کے دل کے غبار کو ہلکا کرنے کے بعد ، اس کو ہر ممکن Cuhion اور Moral Support فراہم کرنے کے بعد جمیل کے لئیے اس کی محبت کی شدت کا بھی اندازہ ہوا اور اس کی نفسیات اور شخصیت کے کئی ایسے پہلووں سے بھی شناسائی ہوئی ، کہ ، اب یہ بھی کچھ کچھ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جمیل کیوں بھاگا ۔
مہرین یا مہرین جیسے لوگوں کی جو شخصیت اور نفسیات کا جو سانچہ ہوتا ہے ، وہ ایک الگ موضوع ہے ۔
محبت یک طرفہ ہو یا دو طرفہ ، دینے کا نام ہے ۔ محبت افلاطونی اور جسمانی ہو یا عملی اور روحانی ، ہر دو صورتوں میں Give And Take ہوتا ہے ۔ یا یوں کہہ لیں کہ کسی بھی طرح کے Relationship میں اگر باہمی لین دین کی جگہ لینا زیادہ ہو اور دینا بہت کم ۔ تو ایسی کوئی سی بھی محبت ، ایسا کوئی سا بھی تعلق پنپ نہیں سکتا ۔ زیادہ مدت تک کسی بھی طرح Survive نہیں کرسکتا ۔
مہرین کی طبیعت اور مزاج میں کچھ اسی طرح کے عناصر کبھی ڈھکے چھپے تو کبھی کھلے ڈھلے چھلکتے ہیں ۔ عام حالات میں عام لوگوں کے ساتھ جب کسی انسان کا عمومی رویہ و برتاو ایسا ہو تو نفسیاتی نکتہ نظر سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خصوصی حالات میں خصوصی افراد کے ساتھ اس انسان کا رویہ اور برتاو اور زیادہ بے تکلف اور شدید ہوگا ۔ 
محبت افلاطونی ہو یا عملی ، محض مانگنے ، لینے اور بوجھ ڈالنے کا نام نہیں ۔ محبت میں جب تک Sharing نہ ہو ، وہ دو گام بھی نہیں چل سکتی ۔ پھر بات بے بات Rifts پیدا ہونے لگتے ہیں ۔ اور اگر Selfishness ایک آنچ بھی بڑھ جائے تو محبت کا بھوت ہوا ہونے لگتا ہے ۔ اور مستقل دینے والا فریق ، مستقل سامنے والے کی ہر طلب ، ہر ضرورت ، ہر خواہش پوری کرنے والا فریق بھی تھک جاتا ہے اور فرار کے راستے ڈھونڈنے لگتا ہے ۔ 
محبت کیسی بھی ہو ، جب تک ہوش کا دامن ساتھ رہے اور توازن اور پیش بینی اور دانشمندی ہاتھ میں رہے ، تب تک دل کے آنگن میں پھول بھی کھلتے رہتے ہیں اور خوشبو اور رنگ اور روشنی ذہن اور زندگی کو مہکاتے اور چمکاتے رہتے ہیں ۔ جہاں محبت کے لطیف جذبے نے جذباتی ہونا شروع کیا اور تعلق میں جذباتیت کا عنصر غالب آیا ، وہاں گڑبڑ شروع ہو جاتی ہے ۔ ایسی ہر محبت کا انجام درد ناک ہوتا ہے ۔ کبھی ایک تو کبھی دونوں کو رونے پر مجبور ہونا پڑتا ہے ۔
یہاں بہت سے لوگ کہیں گے کہ جب سوچ سمجھ کا معاملہ ہو تو وہ محبت کہاں ہوئی ۔ محبت تو بنا سوچے سمجھے ہوتی ہے اور سود و زیاں سے مبرا ہوتی ہے ۔ کسی حد تک یہ بات مانی جاسکتی ہے ۔ افلاطونی محبت تو پوری کی پوری اس Theory پر پوری اترتی ہے ۔ تبھی اس کے Consequences نہ صرف فریقین بلکہ خاندانوں تک بھی بھاری پڑتے ہیں ۔ 
مہرین نے جب جمیل سے جدائی کے غم میں دنیا تیاگ دی اور خود سے دوسری دنیا جانے کی کوشش شروع کردی تو بھائیوں نے بھی اس سے منہہ موڑ لیا ۔ وہ پہلے ہی اس کے جمیل کے ساتھ آزادانہ گھومنے پھرنے پر نالاں تھے ۔ حالانکہ دونوں بھائی عمر میں اس سے چھوٹے ہیں ۔ مگر باپ کے انتقال کو 20 برس گزرنے کے بعد اب وہ خود کو خاندان کا بڑا سمجھتے ہیں اور صحیح سمجھتے ہیں ۔ پہلے تو وہ بیچارے یہ سمجھتے رہے کہ مہرین کی عمر نکل رہی ہے ۔ اور اگر جمیل سے اس کی Understanding چل رہی ہے اور وہ اس سے شادی کرنا چاہتا ہے اور Serious ہے تو اس کا گھر آنا جانا اور مہرین کے ساتھ گھومنا پھرنا بھی ان کو گوارا تھا ۔ مگر جونہی بظاہر اچانک وہ اسکرین سے غائب ہوا ۔ اور مہرین نے اگلی دنیا میں قدم رکھنے کے لئیے چھلانگ لگائی ، ان کی برداشت ختم ہوگئی ۔ اسے ختم ہونا ہی تھا ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو زیادہ حیرت ہوتی ۔ 
حیرت کی بات تو یہ تھی کہ جمیل کا تو مہرین کے گھر روزانہ کا آنا تھا مگر مہرین اور اس کے گھر والوں کو جمیل کے نہ گھر کا پتہ تھا اور نہ کبھی مہرین اور نہ کبھی اس کے گھر کا کوئی فرد ، جمیل کے خاندان کے کسی فرد سے ملا تھا ۔ 
افلاطونی محبت میں عقل پر ایسے ہی پردہ پڑ جاتا ہے ۔
اور اب چار ماہ بعد بھی مہرین کا یہ حال ہے کہ بات بات پر جمیل اور اس کے وعدوں اور قسموں کو یاد کرکے رونے لگتی ہے ۔ ' کس سے پوچھوں میں تیرا پتہ ' کی جیتی جاگتی تصویر بن گئی ہے ۔ جہاں ذرا سی امید دکھتی ہے ۔ جہاں کوئی شفقت بھری مہربان نظر ڈالتا ہے ۔ اس سے درخواست کر بیٹھتی ہے کہ اگر ہوسکے تو جمیل کے گھر کا پتہ ڈھونڈ دیں ۔ 
دس رشتے آئے مگر سوئی ایک ہی جگہ اٹکی ہوئی ہے کہ شادی ہونی ہے تو جمیل سے ورنہ کسی سے نہیں ۔ اور یہ کہ سال بھر کے ساتھ نے اتنی محبت دے دی ہے کہ اب کسی اور کی محبت کی ضرورت نہیں ۔ اور یہ کہ اللہ کے سامنے میں نے اور جمیل نے عہد و پیمان باندھ لیا تھا اور ایک دوسرے کو میاں بیوی تسلیم کر لیا تھا تو اب شادی پر شادی تو نہیں ہوسکتی نہ ۔ اور یہ کہ جمیل نے اگر بےوفائی کی ہے ، میں تو محبت میں سچی ہوں ، میں کیوں اس کو بھول جاوں ۔
اس طرح کے دس بیس دلائل دے کر مہرین محبت اور جدائی کی آگ خود کو جلا رہی ہے ۔ اور جب اس کے پاس بتانے کی کوئی وجہ نہیں بچتی تو ہر سوال کا جواب یہی ہوتا ہے کہ میرا نصیب ہی ایسا ہے ۔ اور کوئی اپنے نصیب سے تو نہیں لڑ سکتا نہ ۔
نصیب کی جب بات آجائے تو ہر سوال ہر جواب دم توڑ دیتا ہے ۔ پوچھنے والے ، بتانے والے ، سمجھانے والے ، سبھی چپ ہوجاتے ہیں ۔ اور بات وہیں کی وہیں رہ جاتی ہے ۔ مہرین کی بات کی طرح ۔ 
نصیب کی بات کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ کوئی قدم اگر غلط اٹھ جائے ، یا کوئی بات بگڑ جائے ، تو اس پر اٹکے اور لٹکے رہنا اپنی غلطی کو بڑھانے کے مترادف ہوتا ہے ۔ اس میں نصیب کی کوئی غلطی نہیں ہوتی ۔ نہ ہی نصیب میں لکھا ہوتا ہے کہ گڑھے میں گرنے کے بعد تمام عمر گڑھے میں ہی رہنا ہے ۔ کوئی بھی انسان فرشتہ نہیں ہوتا ۔ ہر فرد خطا کا پتلا ہوتا ہے ۔ لیکن اپنی غلطی سے چمٹے رہنا اور دوش نصیب کو دینا اور مہرین کی طرح یہ کہنا کہ یہ میری سزا اور آزمائش ہے ۔ اور سزا اور آزمائش جب ختم ہوگی تو جمیل مجھے مل جائے گا ۔ اور یہ کہ امید پر دنیا قائم ہے ۔ کم از کم یہ سوچ کسی کا بھی نصیب کسی کے ذہن میں Implant نہیں کرتا ۔ نہیں کرسکتا ۔ تاوقتیکہ ہم خوداذیتی میں مبتلا نہ ہوں ۔ اور ہمیں خود کو تکلیف اور اذیت دینے میں مزہ نہ آتا ہو ۔ 
اور دوسری طرف کی حقیقت یہ ہو کہ جمیل کے کام کا ایک جز یہ بھی ہو کہ شو بز کے پروگرامز کے لئیے ماڈل گرلز فراہم کرنا ہو ۔ یعنی معصوم لڑکیوں کو لالچ دے کر انہیں ایسی دلدل میں دھکیل دینا ، جہاں سے کبھی کوئی بھی سالم و ثابت واپس نہ آسکے ۔ اور یہ بات نہ صرف اس کے دوست اور شناسا بتا رہے ہوں بلکہ وہ خود بھی بزبان خود مہرین کو کئی بار بتاتا رہا ہو ۔
ایسے مرد کے عشق میں گرفتار عورت اس سے جدائی کے بعد شکرانے کے نفل پڑھنے کی بجائے محبت نہ پانے کے دکھ میں اگر اپنی جان کے درپے پڑ جائے تو اسے راہ ہدایت محض اللہ تعالی کی رحمت ہی دکھا سکتی ہے ۔ کوئی انسان ، کوئی فرشتہ ، کوئی فرشتہ صفت انسان یہ کام نہیں کرسکتا ۔ 
مہرین کی طرح مگر مہرین سے بالکل الگ نفسیات اور شخصیت کی حامل ایک لڑکی اور تھی ۔ جس سے ساڑھے گیارہ سال پہلے ملاقات ہوئی تھی ۔ اور ساڑھے دس سال پہلے آخری ملاقات ہوئی تھی ۔ فرض کرلیں ۔ اس کا نام نایاب تھا ۔ اس کا بڑا بھائی بھی اس سے نالاں اور خفا تھا ۔ اس کے والد کا انتقال بھی اس کے بچپن میں ہوگیا تھا ۔ وہ البتہ مہرین کی طرح بند اور مردہ نہیں تھی ۔ یونیورسٹی میں ماسٹرز کے آخری سال کا Thesis کررہی تھی اور بڑی زندہ ، بڑی شوخ اور بڑی Social تھی ۔ مگر موڈ ڈس آرڈر کی وجہ سے ہر دو تین ماہ بعد رونے یا ہنسنے کے Phases سے گزرتی تھی ۔ مری ہوئی تو نہ تھی مگر محبت کی ماری ہوئی تھی ۔ باغی تھی ۔ مردوں پر سے اس کا اعتبار اٹھ چکا تھا ۔ فرض کرلیں کہ اس لڑکے کا نام نوید تھا ، جو اسے چھوڑ کر اپنا کیرئیر بنانے میں لگ چکا تھا ۔
چھ سالہ محبت میں نایاب نے نوید کے لئیے بہت قربانیاں دی تھیں ۔ گھنٹوں جائے نماز پر بیٹھ کر رو رو کر اس کے اعلی مستقبل کی دعائیں مانگی تھیں ۔ اس کی پڑھائی کا خرچہ برداشت کیا تھا ۔ روز اس سے ملنے پارک جاتی تھی ۔ اس کے لئیے کھانے بنا کر لے جاتی تھی ۔ اپنے پیسوں سے اس کو سیکنڈ ہینڈ بائیک دلائی تھی ۔ مگر پھر بھی جانے کیا ہوا کہ وہ اس سے الگ ہوتا چلا گیا ۔ ایک کے بعد دوسری نوکری میں مصروف ہوتا گیا ۔ اور اپنے سارے وعدے بھولتا چلا گیا ۔ اور اپنی والدہ کو نایاب کے گھر بھیجنے کی بجائے شادی سے انکاری ہوگیا ۔ اور پھر چھ ماہ تک نایاب بھی مہرین کی طرح بستر سے لگ گئی تھی ۔ 
یہ اور بات ہے کہ Recovery کے بعد اس کی محبت انتقامی ہوگئی اور وہ Reactionary بنتی چلی گئی ۔
اس کے اندر کا دکھ دیکھ کر Out Of The Way جا کر نوید کو کلینک بلا کر اس کے سامنے بٹھا دیا ۔ 14 اگست کے چھ گھنٹے دونوں میں صلح صفائی کی بھرپور کوشش کی جاتی رہی ۔ مگر صاف دکھ رہا تھا کہ جس محبت کی شدت کی کہانی نایاب نے سنائی تھی ، وہ اب موجود نہ تھی ۔ 
افلاطونی محبت تو سدا سے لمحے کی محتاج رہی ہے ۔ سورج کے ڈوبتے ہی ، لمحے کے گزرتے ہی ڈوب جاتی ہے ۔ چوسے ہوئے آم کی طرح ہوجاتی ہے ۔ پچکی ہوئی ۔ کبھی دوبارہ اپنی پرانی شکل میں نہ آنے کے لئیے ۔ رس اور خوشبو سے عاری ۔ 
نایاب کے ساتھ بھی یہی ہوا ۔ چھ آٹھ ہفتے گزر گئے ۔ مگر نوید دوبارہ نہیں پلٹا ۔ اور نایاب پہلے سے زیادہ تند اور لالچی ہوگئی ۔ محبت کو دولت سے Compensate کرنے کی تگ و دو میں لگ گئی ۔ اور پھر مجھے نہیں پتہ کہ کیا بنا اس کا ۔ کہ حکم ہے کہ ایسے لوگوں کو پھر ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہئیے ۔ جو ہر طرح کی کوشش کے بعد بھی اپنے آپ کو اندر سے بدلنے پر راضی نہ ہوں ۔ اپنی غلطی کو مان کر صحیح راستے کا انتخاب نہ کریں ۔ اپنی ہر بات کو صحیح جان کر اپنی من مانی میں لگے رہیں ۔ 
نایاب ہو یا مہرین ۔ یا ان جیسی ہزاروں لاکھوں لڑکیاں ۔ جب تک سطحی محبت کے جال بچھتے رہیں گے اور عملی محبت کی تعلیم ، تلقین اور تربیت کی جگہ ہمارا لٹریچر ، ہمارا میڈیا ، ہماری فلمیں ، ہمارے ڈرامے ایک تھی لڑکی اور ایک تھا لڑکا کی کہانیوں کو Promote کرتے رہیں گے ۔ تب تک ناآسودہ خواہشات کی پراگندگی ہمارے معاشرے کے نوجوانوں کی توانائی سلب کرتی رہے گی ۔ اور ان کی نفسیات کو مسخ کرتی رہے گی ۔ 
یادش بخیر بچپن میں آٹھ نو برس کی عمر میں میرپورخاص کے فردوس سنیما میں جیدی ماموں کے ساتھ ایک فلم دیکھی تھی ۔ " ایک تھی لڑکی " ۔ اس کی کہانی تو اب یاد نہیں مگر اس کا نام ، نام اور چہرے بدل بدل کر ان گنت لڑکیوں اور ان کی کہانیوں کی صورت سامنے آتا رہا ہے ۔ نایاب اور مہرین کی کہانیوں کی طرح ۔ سچ مچ کی فلمی کہانیوں کی صورت ۔ رانی اور شاہد کی وہ فلم تو ان دونوں لڑکیوں کی پیدائش سے چودہ پندرہ سال پہلے ریلیز ہوئی تھی ۔ ان دونوں کے فرشتوں کو بھی اس فلم کا نام نہیں پتہ ہوگا ۔ مگر بچپن کی محرومی اور والد کی عدم موجودی نے ان دونوں کو جس محبت کے سراب میں الجھایا ، وہ ان کی باقی ماندہ زندگی کو جہنم بنا گیا ۔ 
ایسی محبت کے ڈسے ہوئے لوگ تمام عمر پیاسے کے پیاسے رہتے ہیں ۔ دنیا کی لاکھ نعمتوں کے حصول کے باوجود شکایتی اور نا شکرے سے رہتے ہیں ۔ 
اور یہی بات دونوں طرح کی محبتوں کو Differentiate کرتی ہے ۔ عملی محبت ہمیشہ روحانی سکون اور دلی اطمینان کا باعث بنتی ہے ۔ اور انسان کو ہمہ وقت شکر اور شکریے ہر اکساتی رہتی ہے ۔ اور افلاطونی محبت بے سکونی اور انتشار ذہنی میں مبتلا کرتی ہے ۔ اور شک ، شکوے اور شکایت کے کلمات کہلواتی رہتی ہے ۔ 
دیکھئیے ۔ آپ کی محبت کا حاصل کیا ہے ۔ اگر سکون اور شکر ہے تو آپ کامیاب ہیں ۔ اور معاملہ برعکس ہے تو کہیں نہ کہیں آپ سے ضرور کوئی گڑ بڑ ، کوئی غلطی ہوئی ہے ۔
دل کے آئینے پر گر ایک بار بال آجائے تو وہ آہستہ آہستہ پھیل کر ہر جذبے ، ہر محبت کے عکس کو دھندلا دیتا ہے ۔ پھر ماضی کی لکیروں کے سوا کچھ اور دکھائی نہیں دیتا ۔
میرے سامنے نایاب نے سسکتے ہوئے ، روتے ہوئے نوید کو معاف تو کردیا تھا اور بند آنکھوں سے ایفائے تجدید عہد و محبت کرتے ہوئے کہا بھی تھا کہ Yes I Will Marry You اور نوید نے بھی وعدہ کیا تھا کہ وہ اگلے ہفتے ہی اپنی والدہ کو نایاب کے گھر بھیج دے گا شادی کا Proposal لے کر ۔ مگر مغرب کی اذان کے ساتھ ساتھ میرے اندر کہیں آواز آرہی تھی کہ بظاہر تو یہ دونوں دو سال کی جدائی کے بعد آج ملے ہیں اور اپنے رشتے کو آگے بڑھانے کی باتیں بھی کر رہے ہیں ۔ لیکن ان کا رونا ، ان کی باتیں ، ان کے وعدے روح سے خالی ہیں ۔ اور Ventilator پر اپنی مرتی ہوئی محبت کو ڈال کر کچھ اور دن خوش گمانیوں میں گزارنا چاہتے ہیں ۔ 
میرے سامنے مہرین نے روتے ہوئے ، سسکتے ہوئے کہا تھا کہ وہ جمیل کے سوا کسی اور سے شادی نہیں کرسکتی ۔ اور وہ اس کے نام پر ساری عمر گھر بیٹھی رہے گی ۔
نہ نایاب کو نوید مل سکا ۔ نہ مہرین کی شادی جمیل سے ہونے کا امکان ہے ۔ ان دو لڑکیوں کی طرح ہزاروں لاکھوں لڑکیاں ہمارے چاروں طرف بکھری ہوئی ہیں ۔ ہر لڑکی کی کہانی انیس بیس کے فرق سے ایک جیسی ہے ۔ صدیوں سے دنیا میں ایسا ہی چل رہا ہے ۔ اور ایسا ہی چلتا رہے گا ۔ ایک تھی لڑکی کی کہانی جاری رہے گی ۔ دلوں کے آئینے ٹوٹتے رہیں گے ۔ اور ان آئینوں کی کرچیاں آس پاس کے سبھی لوگوں کو زخمی کرتی رہیں گی ۔ 

" ایک تھی لڑکی " 
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون 
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان 
ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ،
جسمانی ، روحانی ، جنسی و منشیات 

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ 

www.fb.com/Dr.SabirKhan 
www.fb.com/duaago.drsabirkhan 
www.drsabirkhan.blogspot.com 
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan 
www.g.page/DUAAGO 

Instagram @drduaago