منگل، 14 اپریل، 2020

Collateral Damage. ڈاکٹر صابر حسین خان

" COLLATERAL DAMAGE "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

انگریزی فلموں اور ڈراموں کو دیکھنے والے اس اصطلاح سے بخوبی واقف ہوں گے ۔ اردو میں اس کے کئی معنی بیان کئیے گئے ہیں ۔ گو کوئی بھی اس انگریزی دو لفظی لفظ کے حقیقی معنی نہیں بیان کر پاتا ۔ Damage کا مطلب تو واضح ہے ۔ " نقصان " یا " ٹوٹ پھوٹ " ۔ Collateral کو سمجھنے کے لئیے لغوی معنوں کی مدد لیتے ہیں ۔ ' کے برابر ' ۔ ' کی جگہ '۔
' بدلے میں ' ۔ ' کی بجائے ' ۔ ' امر اضافی ' ۔ اور اس طرح کے کئی اور لفظ آپ کو ڈکشنری میں مل جائیں گے ۔ مگر جب ان دونوں لفظوں کو ملا کر ایک دو لفظی لفظ کی شکل دی جاتی ہے ۔ Collateral Damage تو اس کے معنی بڑے عجیب سامنے آتے ہیں ۔ مثلا ڈکشنری میں ایک جگہ اس کی معنی ' خود کش حملہ ' بھی درج ہیں ۔ اور یا پھر معنوں کی بجائے اصطلاح کی تشریح کی گئی ہے ۔ ' نہ چاہنے والا نقصان ' ۔ اور
' فوجی حملے یا فوجی کارروائی کی صورت میں سویلین جان یا مال کا نقصان یا تباہی ' ۔ اور ' کسی بھی ملٹری ایکشن میں غیر ارادی یا غیر اختیاری عام آبادی کی اموات یا مال و دولت کا نقصان ' ۔ اور ' ہدف یا ٹارگٹ کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کی جان کا ضیاع جو نہ نشانہ ہوں اور نہ برہائے راست مخالف یا دشمن ہوں ' ۔ اور اسی طرح کے کئی اور معنی اور تشریحات ۔ اب بھی مفہوم واضح نہ ہو رہا ہو تو آپ خود ڈکشنری کھول کر اپنے لئیے آسان معنی ڈھونڈلیجیئے گا ۔
نوول کورونا COVID 19 وائرس سے اب تک ( نو اپریل 2020 بوقت رات نو بجے ) لگ بھگ ایک لاکھ کے قریب انسان کولیٹرل ڈیمیج کا شکار ہوچکے ہیں ۔ دنیا بھر کے ہر طرح کے ماہرین اپنی اپنی ماہرانہ رائے میں یہی Forecast کررہے ہیں کہ دنیا کو کم از کم اگلے چار ماہ ( جولائی 2020 ) تک مکمل لاک ڈاون میں رہنا ہوگا ۔ اور 2021 تک بھی دنیا میں کہیں بھی آزادانہ آمد و رفت کا کوئی امکان نہیں ۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کرونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد سوا تین کروڑ تک پہنچ سکتی ہے ۔ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ گلوبل اکنامی کی تباہی کے نتیجے میں غربت اور غربت سے نیچے کی لکیر میں رہنے والے کرونا سے نہیں بلکہ بھوک اور قحط سے موت کے گھاٹ اترنے لگیں گے ۔ اور اس طرح مرنے والوں کی تعداد کا اندازہ چھ تا سات کروڑ لگایا جارہا ہے ۔
خدانخواستہ اتنی بڑی تعداد میں اگر انسان مرتے ہیں ۔ خواہ کرونا سے یا بھوک سے ۔ تو دنیا کی قدیم اور جدید تاریخ کا یہ سب سے بڑا Collateral Damage ہوگا ۔ Massive Genocide ۔ اور وہ بھی ایسی جنگ ، ایسے ملٹری ایکشن کے نتیجے میں ، جس میں بظاہر کسی کو نہیں پتہ کہ یہ جنگ کس نے شروع کی ہے ، یہ جنگ کیوں شروع کی گئی ہے ۔ ہر شخص اپنے علم ، اپنے فہم کے مطابق مفروضوں کے غبارے پھلا کر ادھر ادھر پھیلا رہا ہے ۔
یہاں اگر یہ مفروضہ سامنے رکھا جائے کہ درحقیقت اس جنگ کے پہلے خیالی مرحلے کا آغاز تو ستر سال پہلے ہوگیا تھا اور سن 1990 میں مملکت روس کے حصے بخرے ہونے کے فورا بعد دوسرے عملی مرحلے کو شروع کردیا گیا تھا ۔ پہلی گلف وار ۔ پہلا جارج بش سینئیر ۔ کویت اور عراق کو آمنے سامنے کھڑا کرکے ۔ پھر نائن الیون آگیا ۔ سن 2000 ۔ جنگ کے تیسرے مرحلے کی شروعات ۔ جب بہت سے لوگوں نے شاید پہلی بار کولیٹرل ڈیمیج کی اصطلاح سنی ۔ اور اب سن 2020 ۔ کرونا وائرس کی شکل میں انتہائی خفیہ اور خطرناک جنگ کا چوتھا مرحلہ ۔
اور یہ جنگ ہے کیا ۔ یہ جنگ درحقیقت Specific سے Generalised کی طرف کا سفر ہے ۔ اس کا بنیادی ٹارگٹ یا ہدف شروع کے مرحلوں میں Specified ملک ، قومیں اور آبادیاں تھیں ۔ جن کو تباہ و برباد کرنے کے لئیے جو کچھ کیا گیا ، اس کے نتیجے میں کولیٹرل ڈیمیج کی اصطلاح کو زبان زد کروا کر اپنے Actions کو Justify کیا گیا ۔ مگر اب اس چوتھے مرحلے میں کوئی خاص قوم ، آبادی یا ملک دشمن یا ہدف نہیں ہے ۔ بلکہ اس بار Collateral Damage کو ہی نشانہ بنایا گیا ہے ۔ زیادہ سے زیادہ تعداد میں اپنے اپنے لوگوں کو شکار کرکے ، کرونا کے ذریعے ہلاک کرواکے ، اپنی ڈوبتی ہوئی معیشت کو زیرو پر پہنچا کر ، اس خفیہ جنگ کے پانچویں اور چھٹے مرحلوں کی بنیاد رکھی جارہی ہے ۔
خوف اور دہشت پھیلا کر ذہنوں کو ماوف کیا جارہا ہے ۔ جذبوں کو بند دیواروں کے پیچھے دھکیلا جارہا ہے ۔ روحوں کو دائمی اضطراب اور بے سکونی کی نذر کیا جارہا ہے ۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دنیا بھر کے انسانوں کو مذہب اور انسانیت اور روحانیت سے دور کیا جارہا ہے ۔ Indirectly یہ دکھا کر ، یہ بتا کر اور یہ کرکے کہ نعوذ بااللہ کسی بھی مذہب کا خدا یہ قدرت نہیں رکھتا کہ اپنے پیروکاروں کو ایک وائرس سے بچا سکے ۔
یہی نہیں بلکہ اجتماعی مذہبی عبادات اور دعاؤں پر پابندی لگا کر Collective Spiritual And Mind Powers کا راستہ روک دیا گیا ہے ۔ انفرادی دعا اور اجتماعی دعا میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے ۔ دنیا بھر کے ماہرین نفسیات اور ماہرین روحانیت اس نکتے پر متفق ہیں کہ جتنے زیادہ انسانوں کی ذہنی اور روحانی توجہ اور توانائی ایک خاص وقت پر ایک خاص نکتے ہر ایک خاص دعا ایک خاص خیال کے حوالے سے مرتکز ہوگی ، اتنا زیادہ اس خیال ، اس دعا کے پورے ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ۔
اور صرف یہی نہیں بلکہ مائینڈ پاور بڑھانے کے لئیے بھی مختلف مذاہب اور مختلف ثقافتوں میں گروپ موومنٹ کا Concept ہے ۔ یہ ذہنی قوت ، درحقیقت ہماری چھپی ہوئی Spiritual Energy ہوتی ہے ۔ جو گروہ یا گروپ کی شکل میں زیادہ اور زیادہ بہتر طریقے سے چارج ہوتی ہے ۔ اگر گروپ کے سب اراکین ایک مشترکہ مقصد کے حصول کی طلب کا جذبہ رکھتے ہوں اور مل کر مخصوص اوقات میں مخصوص کلمات یا دعاوں کا ورد کرتے ہوں ۔ اور اپنے اللہ سے ایک ہی فریکوینسی میں ایک ہی دعا مانگتے ہوں ۔ تو اس عمل سے جو Magnetic Field پیدا ہوتی ہے ۔ وہ بہت طاقتور Vibrations کا منبع ہوتی ہے ۔ یہ ارتعاش گروہ کے تمام اراکین کے قلب اور روح کی صفائی Cleansing کا بھی باعث بنتا ہے اور اندرونی قوتوں میں اضافہ بھی کرتا ہے ۔ اور جسمانی ، ذہنی اور روحانی Immunity بھی بڑھاتا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ہر مذہب میں اجتماعی عبادات اور دعاؤں Mass Prayers کو خاص طور پر انسان کی فلاح کے لئیے کسی نہ کسی شکل میں لازمی قرار دیا ہے ۔
نیو ورلڈ آرڈر کے حواریوں نے آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ذریعے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو اسی لئیے پروموٹ کیا ہے کہ کمزور اور بیمار انسانوں کو جلد از جلد دنیا سے رخصت کروانے کے ساتھ ساتھ مضبوط اور صحتمند لوگوں کی جسمانی قوت مدافعت کے ساتھ ان کی ذہنی اور قوت مدافعت اور طاقت کو بھی کمزور کردیا جائے ۔ ایک پنتھ ، کئی کاج ۔ تاکہ تاریخ انسانی کی اس بھیانک ترین سازش اور خفیہ ترین جنگ کے چھٹے اور ساتویں Steps اور Stages کی راہ ہموار ہو سکے ۔
اس مرحلے کو اتنا طول دیا جاسکتا ہے ۔ کہ وائرس سے بچ جانے والے لوگ بھوک اور اپنی دیگر ضروریات سے بلبلا اٹھیں ۔ اور ان پر دنیا اتنی تنگ کردی جائے کہ وہ کھڑکی اور روشن دان کھولنے کے لئیے بھی نیو ورلڈ آرڈر کے Implementers کے محتاج ہوجائیں ۔ اور ان کے احکامات اور اشاروں کے بنا سانس بھی نہ لے سکیں ۔
دنیا کی تاریخ میں پہلی بار Collateral Damage کو باقاعدہ اور باضابطہ نشانہ بنایا گیا ہے ۔ اور یہ کام اس خوبصورتی اور مہارت سے کیا گیا ہے کہ دنیا کے 99.9999 فیصد لوگوں کو کانوں کان خبر نہیں ہوسکی کہ کسی جنگ کا کسی بھی قسم کا کوئی حصہ بنے بنا ان کے لئیے Termination Orders جاری کردئیے گئے ہیں ۔ بڑے بڑے ھائی فائی پڑھے لکھے اور حد سے زیادہ علم اور معلومات رکھنے والے بھی ہزار پردوں کے پیچھے کی اس مذموم حرکت کے اصل Motives کو نہ Read کرپائے ہیں اور نہ Evaluate ۔ اور نہ ہی اس مفروضے کو ماننے پر راضی ہیں ۔
کوئی بھی یہ کیوں نہیں سوچ رہا کہ آخر کیوں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ سائنس اور میڈیسن آج اپنے عروج کی آخری منزل پر ہیں ۔ اور جن لوگوں کے ہاتھوں میں قدرت نے اس عروج کے تاج کو تھمایا ہوا ہے ، وہ بھی کیوں اس شدت سے اس بائیوکیمیکل ویپن کے ہاتھوں بظاہر شکست کھاتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں ۔
And This Is New Meaning Of Collateral Damage In The New Dictionary Of New World Order That This Time , Of All Times , The History Of The World Is To Be Rewritten


" COLLATERAL DAMAGE "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ،
جسمانی ، روحانی ، جنسی اور منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ

www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.drsabirkhan.blogspot.com
www.fb.com/drsabirkhan
www.YouTube.com/DrSabirKhan
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
www.drsabirkhan.wordpress.com

بدھ، 8 اپریل، 2020

آئیے کچھ کرتے ہیں ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

" آئیے کچھ کرتے ہیں "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

آئیے ! کچھ ہٹ کر کرتے ہیں ۔ مل بانٹ کر کرتے ہیں ۔ نیا تو نہیں مگر نئی طرح سے کرتے ہیں ۔ کچھ نیا پڑھتے ہیں ۔ کچھ نیا دیکھتے ہیں ۔ کچھ نیا سوچتے ہیں ۔ جو کام ادھورے تھے ، انہیں پورا کرتے ہیں ۔ کچھ ایسا کرتے ہیں جو اب تک کرنے کا سوچتے رہے ہیں ۔
کچھ نئے خواب بنتے ہیں ۔ کچھ عذاب کم کرتے ہیں ۔ نئی امیدوں کا سودا لاتے ہیں ۔ ایک دوجے کی وحشتوں کو ٹھنڈا کرتے ہیں ۔ آنے والے دنوں کی نئی تصویریں بناتے ہیں ۔ پھر ان میں رنگ بھرتے ہیں ۔ دکھوں کو دور کرنے کا سامان ڈھونڈتے ہیں ۔ ہر دل کے درد کا درماں کھوجتے ہیں ۔
آئیے ! کچھ اس طرح سے کرتے ہیں ۔ کچھ اس طرح سے جیتے ہیں ۔ آج اور کل کے جھگڑوں کو چھوڑ کے ، اپنے حال میں جیتے ہیں ۔ نیلے پیلے ، میرے تمہارے مسئلوں سے جان چھڑا کے انسان بن کے رہتے ہیں ۔ صبر کی چادر اوڑھ کر ، شکر کی تسبیح پڑھتے ہیں ۔ سر جھکا کر عاجزی کو اپناتے ہیں ۔ اپنے مرنے سے پہلے اپنی انا کو مار دیتے ہیں ۔ کیا نسب و نام ، کیا جاہ و جلال ، ہر پگڑی اتار پھینکتے ہیں ۔ اپنے ہاتھوں اپنے قلب سے نفرت و عداوت کو مٹا دیتے ہیں ۔ اسی زندگی میں نیا جنم لے لیتے ہیں ۔ مرنے سے پہلے ذرا دیر کو زندہ ہو لیتے ہیں ۔
آئیے کچھ اس طرح کرتے ہیں ۔ روٹھے ہووں کو منا لیتے ہیں ۔ خود پہل کرلیتے ہیں ۔ دشمن کو دوست بنا لیتے ہیں ۔ جو دور ہیں ، ان کو قریب کرلیتے ہیں ۔ جو پاس ہیں ، ان کو عزیز کرلیتے ہیں ۔ جو تنہا ہیں ، ان کی دوریاں دور کردیتے ہیں ۔ تنہائیوں میں روشنیاں گھول دیتے ہیں ۔ اپنی میٹھی میٹھی باتوں کی خوشبو سے اپنے ماحول کو معطر کرلیتے ہیں ۔ کچھ ذرا زیادہ سن لیتے ہیں ۔ کچھ ذرا زیادہ برداشت کرلیتے ہیں ۔ اپنے غم ، اپنے غصے کو ہنستے کھیلتے ختم کرلیتے ہیں ۔
آئیے ! آج کچھ اس طرح کرلیتے ہیں ۔ اپنا دل بڑا کرلیتے ہیں ۔ اوروں کے کام آکے ، اوروں کا بوجھ ہلکا کرلیتے ہیں ۔ آج کے دن خود سے نیا وعدہ کرتے ہیں ۔ قدرت سے جو مہلت جائے ، آج کے بعد اسے اوروں کی خدمت میں خرچ کرتے ہیں ۔ اپنے وقت کا کچھ حصہ ، بنا کسی توقع کے ، اوروں کے لئیے وقف کرلیتے ہیں ۔ اپنے علم میں اوروں کو بھی شامل کرلیتے ہیں ۔ اپنی محنت ، اپنی عبادت میں سے وقت نکال کر ، کچھ نیا سیکھ کر اوروں کو بھی سکھا دیتے ہیں ۔ اپنی توجہ ، اپنی محبت سے اندھیری رات کے مسافروں کو راستہ دکھا دیتے ہیں ۔
کچھ اس طرح کرتے ہیں ۔ مرنے سے پہلے اپنی زندگی کا حساب کتاب کرلیتے ہیں ۔ آخرت سے پہلے ہی خود کو کٹہرے میں کھڑا کردیتے ہیں ۔ دل اور دماغ کو الگ الگ کرکے اپنا محاسبہ کرتے ہیں ۔ اپنے گناہوں کو یاد کرتے ہیں ۔ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا شمار کرتے ہیں ۔ خود کو کمرے میں بند کرکے روتے ہیں ، گڑگڑاتے ہیں ۔ خالق کل کائنات سے معافیاں مانگتے ہیں ۔ آقائے دو جہاں ، حضور پاک ، حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے اپنی عافیت کی دعا مانگتے ہیں ۔ اپنی بخشش پر اصرار کرتے ہیں ۔ درود ابراھیمی پڑھ پڑھ کر زبان خشک کرلیتے ہیں ۔ استغفار کی تسبیح پڑھتے پڑھتے انگلیوں کو تھکا لیتے ہیں ۔ اپنے رب کے سامنے اپنی ذات کے ساتھ ساتھ پوری امت پر رحم و کرم کی درخواست کرتے ہیں ۔
آئیے ! اپنی روح کو صاف کرتے ہیں ۔ اپنی روحانی قوت بڑھاتے ہیں ۔ اپنی سوچ کو انتشار سے بچاتے ہیں ۔ اپنی فکر کو ایک نکتے پر مرتکز کرتے ہیں ۔ اپنے خیال کو اپنے اللہ کے نور سے شرابور کرتے ہیں ۔ اللہ کی رحمت اور برکت کا انتظار کرتے ہیں ۔ آئیے ! اپنے اللہ سے معافی مانگتے ہیں ۔ مرنے سے پہلے ، آج کے بعد ، اللہ کی رضا پر راضی زندگی گزارنے کا ارادہ کرتے ہیں ۔
آئیے ! آزمائش اور امتحان کے ان لمحوں میں اپنے اللہ کو راضی کرتے ہیں ۔

" آئیے کچھ کرتے ہیں "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ،
جسمانی ، روحانی ، جنسی اور منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ

www.drsabirkhan.blogspot.com
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.fb.com/drsabirkhan
www.YouTube.com/DrSabirKhan
www.g.page/DUAAGO

نمائش ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

" نمائش "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

لمبی چوڑی کہانیوں کا سلسلہ اختتام پر ہے ۔ بہت پھیلاو آگیا تھا زندگی میں ، سکڑنے اور سکوڑنے کی مختصر سی کہانی شروع ہوگئی ہے ۔ زمینی خداوں نے دنیا بھر میں تہلکہ مچا رکھا تھا ۔ آسمانی طاقت نے رسی کھینچ لی ہے ۔ سب کو جس جنگ عظیم ترین کا انتظار تھا ، اس کی شروعات ہوچکی ہے ۔ اب کچھ بھی نہیں بچنے والا ۔ اب کچھ بھی پہلے جیسا نہیں ہونے والا ۔ جن لوگوں نے جو کچھ کرنا تھا ، آج سے بہت پہلے کرلیا ۔ اور اپنے اپنے ہوم ورک کے بعد اب پریکٹیکل شروع کردیا ہے ۔
اور ہم ابھی تک سو رہے ہیں ۔ ایک دوسرے سے امداد مانگ رہے ہیں ۔ ایک دوسرے سے امداد لیکر ایک دوسرے کو بانٹ رہے ہیں ۔ اور نیکیاں کما رہے ہیں ۔ یہ جانے بنا ، یہ سوچے بنا ، یہ سمجھے بنا ، کہ اور کہانیوں کی طرح بہت جلد یہ کہانی بھی ختم ہو جانی ہے ۔ جن کے دلوں پر مھر لگ گئی ہو ، وہ تو قارون کی طرح اپنے خزانوں سمیت زمین میں دفن ہوجائیں گے ۔ آزمائش کے ان دنوں میں چار آنے بھی دینے سے قاصر رہیں گے ۔ اور جو دل پر جبر کرکے نمائشی خیرات میں دو چار سکے بھی دیں گے تو دینے سے پہلے فوٹوگرافی سیشنز کا باضابطہ اہتمام ہوگا ۔ پھر ذاتی میڈیا سیل کے نمائندے امداد بانٹنے کی وڈیوز اور تصاویر کو وائرل کریں گے ۔
ایک طرف کے اسکور بورڈ پر ہر لمحے مرنے والوں کی تعداد کی گنتی جاری ہے ۔ تو دوسری طرف امداد تقسیم کرنے والے اپنے اپنے اسکور کو ھائی لائیٹ کر کر کے ابھی تک زندہ بچ جانے والوں کے سامنے لا رہے ہیں ۔
حد سے بھی زیادہ حد ہوچکی ہے ۔
اللہ کا عذاب نازل ہوچکا ہے ۔ مگر ہم ہیں کہ اب بھی خود کو بدلنے کو تیار نہیں ۔ اللہ تعالی نے وضاحت کے ساتھ ہر شے کی نمائش کی ممانعت کی ہے ۔ اور خاص طور پر امداد ، خیرات ، صدقات ، ذکوات کے حوالے سے تو حکم ہے کہ دایاں ہاتھ دے تو بائیں ہاتھ کو علم نہ ہو ۔ اور ہمارا وطیرہ یہ ہے کہ آزمائش کی اس گھڑی میں بانٹ بعد میں رہے ہیں اور تشہیر پہلے کی جارہی ہے ۔ ہر فرد ، ہر جماعت ، ہر فلاحی ادارہ لوگوں سے امداد مانگ کر لوگوں میں تقسیم کررہا ہے ۔ اور بہت فخر سے ہر لمحے اپنا اسکور کارڈ ، اپ ڈیٹ کرکے لوگوں کے سامنے پہنچا رہا ہے کہ اب تک اتنے لاکھ ، اتنے کروڑ کا راشن بانٹا جا چکا ہے ۔ اور دلیل یہ رکھی جارہی ہے کہ نیکی کے ان کاموں کی تشہیر سے اور لوگوں کو بھی ترغیب ہوتی ہے کہ وہ بھی اس کار خیر میں اپنا حصہ ڈالیں ۔
لیکن کیا سب لوگ عبدالستار ایدھی کو بھول گئے ہیں ۔ ابھی سے ۔ جنہوں نے زندگی بھر نہ ذاتی تشہیر کی اور کروائی اور نہ ہی اپنے فلاحی کاموں کی ۔ وہ تمام عمر پاکستان کی عوام کی ہر طرح خدمت کرتے رہے اور عزت سے اس دنیا سے چلے گئے ۔
اور اب ۔ اب نعوذباللہ یہ عالم ہے کہ گنتی کے چار تھیلے بھی گاڑی میں رکھے ہوں تو بھی چار گھنٹے کی لائیو وڈیو ، سوشل میڈیا پر چل رہی ہوتی ہے ۔
یہ نادان کی دوستی ہے ۔ ہم جانے انجانے میں ، اس طرح کی تشہیر اور نمائش کے ذریعے اور زیادہ اللہ تعالی کے قہر کو آواز دے رہے ہیں ۔ اس کڑے وقت میں جو رہی سہی مہلت ملی ہے ، اسے بھی ضائع کررہے ہیں ۔ کیا کسی نے یہ سوچا ہے کہ جو معصوم ، جو مسکین ، جو نادار یہ نمائشی امداد لینے پر مجبور ہے ، اس کے دل ، اس کی عزت نفس پر کیا گزر رہی ہوگی ۔ اور مستحقین کی مدد کے اس عمل میں جو چور اچکے ہڈ حرام اور فراڈئیے اپنی فنکاری دکھا دکھا کر سال سال بھر کا راشن جمع کرکے دوکانوں پر جا جا کر فروخت کررہے ہیں ، ان کو یہ موقع کس نے فراہم کیا ہے ۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ ہم سب اور ہماری پوری قوم اپنی فطرت میں بھکاری ہے ، بھک منگی ہے ، لالچی ہے ، جاہل ہے ، خود غرض ہے ، مطلبی ہے ، تو بھائی لوگوں اگر لوگوں کی اکثریت کی نفسیات اور شخصیت ایسی ہے تو ایسے لوگوں کی مدد کے طور طریقے بھی نارمل سے ہٹ کر ہونے چاہئیں ۔ بصورت دیگر جن لوگوں کو واقعی اور حقیقی مدد کی ضرورت ہوتی ہے ، وہ اس بھیڑ چال میں ہماری مدد سے محروم رہ جاتے ہیں ۔ یاد رکھئیے حقیقی ضرورت مند ، بہت کم کیمروں کے سامنے اپنا ہاتھ پھیلائیں گے ۔ ایسے لوگوں کو ڈھونڈ کر خاموشی سے ان کی مدد کرنا ہی حقیقی نیکی ہوگی ۔
نوٹ : کوشش ہوگی کہ اب ذرا مختصر اور مختلف تحریر لکھی جائے ۔ کہ کہانیوں کی کہانی ختم ہوگئی ہے ۔ وبا اور آزمائش کے ایسے وقت اگر اب بھی چیزوں کو سمیٹا نہ گیا تو آنے والے وقت اور زیادہ مشکل ہونے والے ہیں ۔ اللہ تعالی ہم سب پر اپنا رحم اور کرم کرے اور ہم سب کا ایمان سلامت رکھے ۔ آمین ۔

" نمائش "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ،
جسمانی ، روحانی ، جنسی اور منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ

www.drsabirkhan.blogspot.com
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.fb.com/drsabirkhan
www.YouTube.com/DrSabirKhan
www.g.page/DUAAGO

جمعرات، 26 مارچ، 2020

لاک ڈاون ۔ چوتھی قسط ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

" لاک ڈاون " چوتھی قسط
" Economical Pandemic "

نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

جی ہاں ! دنیا بھر کے لوگوں کو اپنا غلام بنانے کے لئیے ضروری تھا کہ ان کی آزادی سلب کرلی جائے ۔ نیو ورلڈ آرڈر کے ایجنڈے کا دوسرا خطرناک حربہ اور اس مقصد کے حصول کے لئیے کرونا وائرس کی شکل میں ہولناک حملہ ۔ فرد ہو ، خاندان ہو ، قوم ہو یا ملک ، ہر ایک کی آزادی اس کی معاشی طاقت اور اس کے معاشرتی وسائل پر Dependent ہوتی ہے ۔
سائیکولوجیکل وار فئیر کے ساتھ ساتھ اگر انفرادی اور اجتماعی معیشت پر ضرب لگائی جائے اور مستقل لگائی جاتی رہے تو جلد یا بدیر ہر فرد ، ہر ملک نے گھٹنے ٹیک دینے ہیں ۔ اور چاہنے نہ چاہنے کے باوجود حملہ آور طاقتوں کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا پڑتا ہے ۔
کرونا وائرس کے ذریعے جہاں ایک طرف زمین کا بوجھ ہلکا کرنے کی سازش ہے کہ دنیا بھر میں کمزور قوت مدافعت والے اور بوڑھے ، ضعیف اور بیمار لوگ جو کسی نہ کسی شکل میں Economy پر Burden ہیں ، انہیں آخرت کا پروانہ تھما کر دوسری دنیا کے سفر پر روانہ کردیا جائے ۔ وہاں دوسری طرف دنیا کے ہر ملک کا معاشی طور پر بھٹہ بٹھا دیا جائے ۔ مکمل لاک ڈاون کرکے ۔ معیشت اور معاشرت کے پہیے کو روک کر ۔ ہر کمزور فرد ، ہر کمزور قوم ، ہر کمزور ملک کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود کر کے ۔
اور باقی بچ جانے والوں کو باضابطہ یا بلا ضابطہ اپنے شکنجے میں جکڑ کر اپنا پابند کرکے ۔ اپنا Official یا Unofficial غلام بنا کر ۔ پوری دنیا کے ملکوں کو اپنا اسیر بنا کر ایک نئی Global State یا کالونی کی تشکیل کرکے ۔ کمپیوٹرائزڈ اور ڈیجیٹل ۔ آرٹیفیشل انٹلیجنس کی زیر نگرانی ۔ اور غلاموں کی طرح کی زندگی ۔ باقاعدہ راشن سسٹم کے تحت محض دو وقت کا محدود کھانا کہ اگلے دن نیو ورلڈ آرڈر کے کام کئیے جاسکیں ۔ کوئی آواز بلند کئیے بنا ۔
کورونا وائرس کی وجہ سے حالیہ گلوبل لاک ڈاون ، درحقیقت آئیندہ سالوں میں سامنے آنے والی زندگی کی پریکٹس ہے ۔ لوگوں سے کٹ کر ۔ لوگوں سے دور رہ کر ۔ جانوروں اور غلاموں کی طرح اپنے اپنے کھوکھوں اور پنجروں میں بند ۔ آرٹیفیشل انٹلیجنس کی الف بے جان کر اپنے اپنے گھروں سے اپنے کمپیوٹر یا موبائل فون پر کچھ دو پیسے کما سکتے ہو تو کمالو ۔ ورنہ دنیا سے منہہ موڑ لو ۔
نیو ورلڈ آرڈر میں کمزور ، غریب ، بیمار ، معذور ، کم عقل ، ضعیف اور بیوقوف کی کوئی جگہ نہیں ہے ۔ صرف اور صرف Fittest , Strongest , Intelligent , Powerful , Richest ۔ مارو گے تو خود کو بچاو گے ۔ مار دو یا مر جاو ۔
یہ ایجنڈا ہے نیو ورلڈ آرڈر کا ۔ اور ہم سب سو رہے ہیں ۔ دور جدید کی اس خطرناک جنگ کا مقابلہ کئیے بنا ، سائیکولوجیکل وار فئیر اور بائیوکیمیکل ہتھیاروں کے خفیہ ہاتھوں کو جانے بنا ، ہر چیز ہر بات کو تقدیر کے کھاتے میں ڈال کر ، کسی دوا ، کسی علاج کا سوچے بنا ہر مسئلے ، ہر بیماری ، ہر وبا ، ہر نئے حملے کا حل دعاوں میں ڈھونڈتے ڈھونڈتے خاک میں دفن ہو رہے ہیں ، ہوتے چلے جارہے ہیں ۔
بیشک رزق اور موت اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے ۔ لیکن خودکشی کو حرام قرار دیا گیا ہے ۔ اور حلال رزق کے لئیے گھر بیٹھنے کی بجائے باہر نکل کر محنت اور جستجو کا حکم ہے ۔
اور سب سے بڑھ کر اپنی خودی ، خود داری ، اور آزادی کو زندگی کی آخری سانس تک برقرار رکھنے کی ہدایت ہے ۔
ایمانداری سے سوچئیے ۔ کم از کم اپنے قلب ، اپنے ذہن اور اپنی روح کو لاک ڈاون ہونے سے بچائیے ۔ ہم میں سے کتنے لوگ نیو ورلڈ آرڈر کے ایجنڈے سے واقف ہیں ۔ ہم میں سے کتنے لوگ سائیکولوجیکل وار فئیر کے طور طریقوں کو جانتے ہیں ۔ ہم میں سے کتنے لوگ آج کی جنگ لڑنے اور لڑ کر جیتنے کی اہلیت رکھتے ہیں ۔ ہم میں سے کتنے لوگ آرٹیفیشل انٹلیجنس اور آرٹیفیشل سپر انٹیلیجنس کی ریشہ دوانیوں اور سازشوں سے نپٹنے کے لئیے Equipped اور تیار ہیں ۔
ایک دوسرے کی مدد بہت ضروری ہے ۔ مگر اس نئے محاذ پر لڑنے کی تیاری بھی اتنی ہی ضروری ہے ۔ اپنے پیروں پر کھڑا رہ کر دوسروں کو بھی ان کے پیروں پر کھڑا کرنے کی بھی ذمہ داری ، ضروری ہے ۔
ایک ایسا سرکل ، ایک ایسا گروپ بنانا بھی ضروری ہے جو تن من دھن سے نیو ورلڈ آرڈر اور سائیکولوجیکل وار فئیر اور آرٹیفیشل انٹلیجنس کے Attacks کو Counter کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہو ۔ اور اپنے مذہب ، اپنی قوم ، اپنے ملک کا دفاع کرنے کی Expertise رکھتا ہو ۔
واضح رہے کہ ہر فرد ہر کام نہیں کرسکتا ۔ ہر فرد ہر کام کی اہلیت نہیں رکھتا ۔ آپ کچھ بھی کرتے ہوں ۔ آپ کچھ بھی کرسکتے ہوں ۔ آپ بہت کچھ کرسکتے ہیں ۔ بس آپ کی نیت میں اخلاص ہونا ضروری ہے اور خود آگہی اور حال اور حالات حاضرہ سے آگاہی ہونا ضروری ہے ۔
گلوبل لاک ڈاون تو اب ہوا ہے ۔ مگر نیو ورلڈ آرڈر کے حوالے سے میں گزشتہ ڈیڑھ دو سال سے گاہے بگاہے انہی صفحات میں آپ سب کو آگاہ کرنے کی کوشش کرتا رہا ہوں ۔ اپنی تمام ذمہ داریوں کو کسی Aid یا کمک کے بنا ، محض اللہ تعالی کی رحمت کے سہارے اپنی پروفیشنل فیلڈ سے ہٹ کر نبھانے کی کوششوں کے بعد جو وقت بچ جاتا ہے ، وہ اسی طرح دیکھنے ، سوچنے اور لکھنے میں گزرتا ہے کہ جو کام میں اکیلے نہیں کرسکتا یا جن کاموں کی مجھ میں اہلیت نہیں ، وہ آپ میں سے کوئی اپنے ذمے لے کر اس کام کو آگے بڑھا سکے ۔
اس موضوع پر انشاء اللہ ، بشرط زندگی ، اور بھی لکھتا اور کہتا رہوں گا ۔ اس موضوع پر پرانی تحریریں پڑھنے کے لئیے یا تو امت کے Archive کی مدد لیں یا میرے سوشل میڈیا کے ان صفحات پر ڈال لیں ۔ وہ بھی اسی وقت ، اگر آپ نئے دور کے نئے تقاضوں کے مطابق اپنے مذہب ، اپنے وطن اور اپنے لوگوں کی بقا کی نیت رکھتے ہوں ۔
آپ ان Links پر گزشتہ Articles پڑھ سکتے ہیں ۔
www.drsabirkhan.blogspot.com
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
اور پھر اس حوالے سے میرے علم میں اضافے کے لئیے ، آپ کے ذہن میں جو کچھ ہو ۔ کوئی بات ، کوئی خیال ، کوئی سوچ ، کوئی آئیڈیا ، کوئی سوال یا جو خواب میں نے آپ کے سامنے رکھا ہے ، اس کے حوالے سے کوئی مشورہ یا پلان ۔ تو مجھ سے ضرور Share کیجئیے گا ۔ اس بہانے مجھے یہ پتہ چل جائے گا کہ جذباتیت اور جذباتی پن کی فضا میں Logical لوگ کتنے فیصد ہیں اور Logician کتنے ۔
وقت ختم ہورہا ہے ۔ آخرت سر پر کھڑی ہے ۔ اللہ تعالی نے ہماری نیت اور ہمارے اعمال کی سچائی کو دیکھنا ہے ۔ ہمارا کام کوشش کرنا ہے ۔ رزلٹ کا فیصلہ ، اللہ کے پاس ہے ۔

" لاک ڈاون " ۔ چوتھی قسط
" ECONOMICAL PANDEMIC "
نیا کالم / بلاگ / مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ،
جسمانی ، روحانی ، جنسی اور منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ

www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.drsabirkhan.blogspot.com
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.g.page/DUAAGO 

۔ لاک ڈاون۔ دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

" لاک ڈاون "
نیا کالم/ بلاگ / مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

' موج بڑھی ، دل ڈوب گیا ، اس دل کو ڈوب ہی جانا تھا ۔ لوگ کہتے ہیں ، یہ قصہ بہت ہی پرانا تھا ' ۔ آج جب ، کچھ دنوں کے وقفے کے بعد کچھ لکھنے بیٹھا ، تو اپنے سینئیر دوست اور استاد ڈاکٹر باقر رضا کا ایک شعر یاد آگیا ۔ جو 35 برس پہلے زمانۂ طالب علمی میں ان کی زبانی سنا تھا اور یاد رہ گیا تھا ۔ کچھ باتیں کتنی بھی پرانی کیوں نہ ہوجائیں ، کسی نہ کسی شکل میں یادداشت کا حصہ بنی رہتی ہیں ۔ اور کبھی کبھی کسی اور حوالے سے خود بخود یاد آجاتی ہیں ۔
کراچی کے رہائشی ، ہماری نسل نے اپنی نوجوانی اور جوانی میں 1985 سے 1995 تک اور پھر 2007 تا 2014 تک ان گنت لاک ڈاون دیکھے اور Face کئیے ہیں ۔ مخصوص علاقوں سے لیکر پورے شہر کی بندش اور قتل و غارت اور دہشتگردی کے چھوٹے اور بڑے واقعات کو دیکھا ، سنا ، بھگتا اور برداشت کیا ہے ۔ کئی کئی دن گھروں میں بند ہوکر گزارے ہیں ۔ کرفیو سے لیکر ہڑتالوں اور آرمی کی گاڑیوں اور دہشت گردوں کی گولیوں سے آنکھ مچولی کھیلنے کا شاید ہی کسی اور پاکستانی کو اتنا تجربہ ہو ۔ جتنا کہ کراچی کے باسیوں کو ہوگا ۔
یہی وجہ ہے کہ وہ 2020 کے لاک ڈاون کو بھی بچوں کا کھیل تماشا سمجھ رہے ہیں ۔ البتہ پاکستان کے دیگر شہروں اور علاقوں کے رہنے والوں کے لئیے یہ شاید پہلا موقع ہوگا ۔ کہ انہیں فی الحال 15 دن تک ( اور نہ جانے کتنے اور دن تک ) Self Quarantine کے لاک ڈاون میں رہنا پڑے گا ۔ کھیل تماشوں ، سیر سپاٹوں ، بازاروں ، بازاری کھانوں اور دوستوں اور محفلوں کے دلدادہ لوگوں کے لئیے تنہائی اور گھر کی قید کا لاک ڈاون موت کی سزا سے کم نہیں ۔ ممکنہ موت سے بچنے کے لئیے اپنی تمام سماجی اور معاشی و معاشرتی سرگرمیوں کو وقتی طور پر معطل کرکے اپنے اپنے گھروں میں بند ہوکر بیٹھ جانا کسی صورت گھاٹے کا سودا نہیں ۔ مگر یہ Logic ، جذباتی پاکستانی عوام کی عقل و سمجھ میں نہیں آرہی ۔ اور شاید کبھی بھی نہ آسکے ۔
دنیا نے بڑی بڑی جنگیں دیکھی ہیں ۔ لاکھوں ، کروڑوں لوگ ان جنگوں میں مرے ہیں ۔ دنیا میں لاکھوں ، کروڑوں بار چھوٹے بڑے قدرت کے عذاب آئے ہیں ۔ اور ان عذابوں اور قدرت کے قہروں نے بھی لاکھوں ، کروڑوں لوگوں اور ہزاروں تہذیبوں اور قوموں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا ہے ۔
لیکن Novel COVD 19 نامی MEN MADE وائرس نے دنیا کی تاریخ میں پہلی بار دنیا کی آٹھ ارب آبادی کے ہر ملک ، ہر تہذیب ، ہر قوم ، ہر فرد کے ہوش اڑا دئیے ہیں ۔ حواس ٹھکانے لگا دئیے ہیں ۔ گو اس سے پہلے بھی مختلف بیماریوں نے بیک وقت دنیا کے لاکھوں ، کروڑوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے ۔ مگر وہ قدرت کی پیدا کردہ تھیں اور ہیں ۔
کرونا وائرس ، نزلہ اور نمونیا کی اس بگڑی ہوئی ناقابل علاج بیماری کو پیدا کرتا ہے ، جس کے پیدا کرنے میں قدرت کا عمل دخل نہ ہونے کے برابر ہے ۔ اس مہلک وائرس کی موجودہ شکل کے ذمہ دار میرے اور آپ جیسے انسان ہیں ۔
موجودہ All Around The World گلوبل لاک ڈاون کے ذمہ دار اور قصور وار چند ہزار ایسے لوگ ہیں ، جن کو میں اور آپ نہیں جانتے اور شاید کبھی جان بھی نہ پائیں ۔ ہماری معلومات بس اتنی ہیں کہ سو برس پہلے 1919 میں پہلی بار اٹلی میں Simple Flu کی ایک جان لیوا بیماری نے جنم لیا تھا جس کو پھیلانے والے وائرس کو ' کرونا ' کا نام دیا گیا تھا ، کیونکہ وہ اٹلی کے شہر Corona میں شدومد سے پھیلا تھا ۔
سو برس بعد Pandemic یعنی دنیا بھر میں پھیلنے اور پھیلاو کا حجم رکھنے والے اس Lethal Virus کو Novel Corona Virus کا ٹائٹل دیا گیا ہے ۔
سو برس پہلے قدرت نے اس وائرس کو انسانوں کے اندر بیماری پیدا کرنے کے لئیے پیدا کیا تھا ۔
مگر پھر پچھلے سو برسوں سے انسانوں کے مخصوص گروپ ، اور ہزاروں ، لاکھوں Viruses اور Bacterias کی طرح کرونا وائرس کی بھی Genetic Mutation میں مصروف رہے ۔ تاکہ اسے بنی نوع انسان کے لیئے اور زیادہ Fatal اور جان لیوا بنا سکیں ۔
دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ Atom Bombs کے استعمال نے کیا تھا ۔ تیسری جنگ عظیم کی شروعات ، کرونا وائرس کی شکل میں وبائے عظیم کے پھیلاؤ سے ہوا ہے ۔ اس بار کی جنگ ، دنیا کی گزشتہ چھوٹی بڑی جنگوں سے Entirely Different ہے ۔
انسانی ذہن اور ذہانت نے لاکھوں سالوں کی Genetic گروتھ کے بعد سائینس اور ٹیکنالوجی کے پردے میں وہ Achievement حاصل کرلی ہے ، جس کا ایک چھوٹا سا ٹریلر ، میں اور آپ ، اس وقت کرونا وائرس کی تباہ کاریوں کی صورت میں دیکھ رہے ہیں ۔
سائیکولوجیکل وار فئیر کے اس دور جدید میں پہلی بار کھلم کھلا Biological Weapon کا استعمال کیا گیا ہے ۔ جس کا Objective محض کسی خاص ملک ، قوم یا تہذیب کے خلاف طبل جنگ بجانا نہیں ہے ۔ بلکہ مکمل طور پر پوری دنیا کو New World Order کے ضابطوں کا پابند بنانا ہے ۔
نیو ورلڈ آرڈر کا قصہ آج کا نہیں ، بہت پرانا ہے ۔ اور گزشتہ 70 سال سے Step By Step مختلف تجرباتی مرحلوں سے گزر کر اور گزار کر آج کے گلوبل لاک ڈاون کے Stage تک پہنچا ہے ۔ یہ سب تجربے اور مراحل اتنی چالاکی اور خاموشی سے عملی شکل میں ڈھالے گئے ہیں کہ شاید ہی کسی ملک کے سوچنے اور سمجھنے والوں کو کچھ پتہ چل پایا ہو ۔ دل کا معاملہ ہو یا دنیا کا ، قصہ پرانا ہوجائے ، اور اس قصے میں سازش شامل ہوجائے تو دل اور دنیا دونوں کے ڈوبنے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے ۔
دنیا بھر کے لوگوں کا دل ان دیکھے دشمن کے مہلک وار سے ڈول رہا ہے ۔ اور دنیا ڈوب رہی ہے ۔

" لاک ڈاون " ۔ دوسری قسط ۔

نیو ورلڈ آرڈر کا ایجنڈا ہم سب کے علم میں ہونا چاہئیے ۔ دشمن سامنے ہو ، دیکھا بھالا ہو تو فرد ہو یا ملک ، اپنی طاقت اور استطاعت کے مطابق تیاری کرتا ہے اور اس کے حملے پر مقابلہ کرتا ہے ۔ لیکن ان دیکھے دشمن کا مقابلہ کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے ۔
نیو ورلڈ آرڈر ، ہم سب اور دنیا کے سب لوگوں کا وہ نادیدہ دشمن ہے ، جو On Screen ہمارے سامنے کچھ اور پیش کررہا ہے اور اسکرین کے پیچھے اس کا مذموم خفیہ طریقہ واردات Multi Layered ہے ۔ اور Multi Targeted ہے ۔ نیو ورلڈ آرڈر کی سازش کے جال کو سمجھنے کے لئیے Multi Faceted ہونا ضروری ہے ۔ کسی ایک میدان کے نام گرامی شہ سوار کے لئیے ممکن نہیں کہ وہ نیو ورلڈ آرڈر کی ہر چال کو جان پائے اور سمجھ پائے ۔ دنیا کے ہر حالیہ اور تاریخی ، عیاں اور نہاں ، انسانی اور الہامی ، منطقی اور غیر منطقی ، سائینسی اور غیر سائینسی ، اکتسابی اور جذباتی ، کتابی اور قلبی ، علم و فکر سے تھوڑی بہت آگاہی اور شناسائی ہو تو حالیہ حالات کا کچھ کچھ ادراک ممکن ہے ۔
اور یا پھر Common Goal رکھنے والے زندگی کے مختلف شعبوں اور علوم کے Masters کا مخصوص گروپ ہو ، جو اپنی اپنی Fields سے متعلق Expertise ایک Pool میں جمع کرکے Inferences نکالنے کی مہارت رکھتے ہوں ۔ اور اپنے تئیں اتنے خود مختار ہوں کہ پھر نیو ورلڈ آرڈر کے ہر ظاہری اور خفیہ Move کو اپنی صلاحیتوں اور اپنے وسائل کی مدد سے Counter کرسکیں ۔
جب تک اس طرح کے Multi Dimensional لوگ یا لوگوں کا گروپ نئی طرح کی جنگوں اور نئی طرح کے حملوں کی صورت میں اپنے لوگوں اور اپنے ملک کے دفاع کی Strategy نہیں بنائیں گے ، تب تک دل ڈوبتے رہیں گے ۔ دنیا یونہی تباہ ہوتی رہے گی ۔
طبل جنگ بج جانے کے بعد بھی جو لوگ ، جو ملک ، خواب خرگوش میں ڈوبے رہتے ہیں ، اپنے Fixed Patterns اور Rituals اور Routines کو ختم کرنے پر راضی نہیں ہوتے ، اپنے Comfort Zones سے باہر نہیں نکلتے ، نہ نکلنا چاہتے ہیں ۔ ان کا اللہ تعالی بھی حافظ نہیں رہتا ۔ قدرت انہی لوگوں کی مدد کرتی ہے جو اپنی مدد آپ کے تحت زندگی بسر کرتے ہیں اور اپنے علم اور وسائل سے ان لوگوں کی مدد میں مصروف رہتے ہیں ، جن کو قدرت نے اپنی مصلحت کے تحت کمزور اور مجبور رکھا ہوا ہوتا ہے ۔
آج کے دور کے تقاضوں اور ان کے حساب سے خود کو علمی اور فکری سطح پر مضبوط اور مربوط نہ رکھنے والے لوگ اور ملک ، سبھی بتدریج کاغذ کے ٹکڑوں کی طرح لیرہ لیرہ ہوکر ہوا میں اڑنے رہے ہیں اور اڑتے چلے جائیں گے ۔ پھر نہ مال و دولت نے بچنا ہے ، نہ حسب و نسب اور جاہ و جلال نے ، نہ بلند و بالا عہدے اور مرتبے کچھ کام آئیں گے اور نہ عالی شان محلات اور جائیدادیں ہماری حفاظت کرپائیں گے ۔
بنا لڑے ، مقابلے اور جنگ کی تمنا رکھے بنا ، ہتھیار اٹھائے بنا ہتھیار ڈال دینا اور ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر مرنے کا انتظار کرنا کیا کسی ایمان والے کا وطیرہ ہوسکتا ہے ؟ ۔ کیا ہمارا مذہب اس اجتماعی خودکشی کی اجازت دیتا ہے ؟ ۔
اگر ایسا ہے تو پھر سب ٹھیک ہے اور سب ٹھیک ہورہا ہے ۔ اور اگر اسلام اور دیگر مذاہب میں انفرادی اور اجتماعی خودکشی کی ممانعت ہے تو پھر کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے ، کچھ بھی ٹھیک نہیں ہورہا ہے ۔
آج ، ہمارا دشمن ہماری نظروں کے سامنے نہیں ہے ۔ آج کی جنگ روایتی نہیں ہے ۔ آج کی جنگ کے حریف اور حلیف ایک دوسرے کے سامنے نہیں ہیں ۔ بلکہ اپنے اپنے مفادات کی Policies کی Implementation کے لئیے Hidden اور خود غرضانہ قدم اٹھا رہے ہیں ۔
اس صورتحال میں ذرا سوچئیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ۔
سچی بات تو یہ ہے کہ موجودہ حالات میں ہم کھڑے تو کیا بیٹھنے اور لیٹنے کی حالت میں بھی نہیں ہیں ۔
جس قوم اور ملک کے نوے فیصد بالغ افراد کی سوچ ہی کشکول زدہ ہو ، کیا عام اور کیا خاص ، کیا غریب کیا امیر ، وہ تو جیتے جی ہی زندہ درگور ہوتی ہے ۔ اور باقی کے دس فیصد دل والے ، دل و جان سے ، جان ہتھیلی پر رکھ کر ، ہمہ وقت ، ہمہ تن ہوکر نوے فیصد لوگوں کی جان بچانے اور انہیں ہر ایمرجنسی میں پیٹ بھر کر کھانا کھلانے میں مصروف رہ کر آخرت کما رہے ہیں ۔ سچ ہے کہ دنیا میں نیکی کمانے کا یہ بہترین ، موثر ترین اور آسان ترین راستہ ہے ۔ Simple And Surest And Shortest Way To Jannat .
مگر فلاح انسانیت اور خدمت خلق میں جوش و خروش سے ملوث و مصروف ادارے اور افراد بھی مملکت پاکستان کی تاریخ کے 73 برسوں میں نوے فیصد عوام کے نو فیصد طبقے کو بھی جدید سائنسی دور اور اس کے مطابق اپنی اور اپنی ذات سے منسلک دیگر لوگوں کو اپنی اپنی زندگیاں بنا کسی مدد اور سہارے کے ، گزارنے کا سلیقہ اور طریقہ نہیں سکھا سکے ۔ اور نہ ہی کسی بھی سطح پر آج تک ایسا کوئی سرکاری یا نجی ادارے یا گروپ کی باضابطہ تشکیل ہو پائی جو آج نیو ورلڈ آرڈر اور اس کے Implementers اور اس کے حملوں اور حربوں کا ، اس کے Level پر آکر اس کا مقابلہ کرسکتا ۔
واضح رہے کہ So Called نیو ورلڈ آرڈر کی ھسٹری 70 سال پرانی ہے ، یہ کوئی دو چار سالہ پرانا منصوبہ نہیں ۔ لگ بھگ پانچ نسلوں نے اپنے اپنے وقت اور اپنے اپنے عہد میں اس ایک نکاتی منصوبے کو آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے ۔ اور کسی Reward یا نام و نمود کی خواہش کے بغیر اپنی پوری پوری زندگیاں اپنے مشن کو پروان چڑھانے میں خرچ کردی ہیں ۔ اور اب دنیا کے اس Elite Group کی لیڈر شب ایسے سرپھروں کے ہاتھ میں ہے جو پوری دنیا پر حکمرانی کے خواب دیکھ رہے ہیں ۔ اور ہماری طرح جذباتیت کے شیرے میں شرابور ہوکر نہیں ۔ بلکہ Logical اور سائینٹیفک گروانڈ پر ۔ Step By Step ۔ ٹھوس اور عملی اور کرخت ۔ Blind And Blunt ۔ ہر قدم باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ ۔ ہر نیا قدم ، پچھلے قدم سے Aligned اور اگلے دس یا بیس یا تیس سال کے بعد کی پراپر Virtual تصویر کشی کے ساتھ ۔
دنیا کے مکمل خاتمے اور آخرت کے قیام سے پہلے ، پوری دنیا پر Hold ۔ اور اس مقصد کے لئیے ہر ممکنہ اور نا ممکنہ طریقے سے دنیا کی آبادی کم سے کم کرکے ، باقی رہ جانے والوں کو Civilized Slaves کی صورت دے کر اپنے مقاصد کے لئیے استعمال کرنا ہے ۔
آج کی جنگ ، اب تک کی جنگوں سے بالکل مختلف اس لئیے ہے کہ اس کے سپریم کمانڈرز ، انسان نہیں بلکہ انسان کے تخلیق کردہ Computers اور کمپیوٹرائزڈ سوفٹ ویئرز ہیں ۔ جن کی مدد سے دنیا کے ذہین ترین انسانوں کی Collective Intelligence سے کئی سو گنا زیادہ ' مصنوعی ذہانت ' کے Softwares کو عملی شکل دی گئی ہے ۔ اور یہی مصنوعی ذہانت یا Artificial Intelligence ، نیو ورلڈ آرڈر کا سب سے خفیہ اور سب سے خطرناک ہتھیار ہے ۔ جس کا ایک ٹریلر ہم سب کرونا وائرس کے دنیا بھر میں پھیلاو کی صورت دیکھ رہے ہیں ۔


" لاک ڈاون " تیسری قسط

نیو ورلڈ آرڈر اور مصنوعی ذہانت کی اصطلاحات مختلف پیراوں میں استعمال کی جارہی ہیں ۔ یا یوں کہہ لیں کہ ' کروائی جارہی ہیں ' ۔ عام تو عام ، خاص الخاص لوگوں کو بھی اس بات کا علم نہیں کہ ایک ہی لفظ یا ایک ہی خیال کو کون کون سے نفسیاتی طریقوں سے انسانی ذہنوں میں پیوست کیا جاتا ہے اور پس پردہ کیا مقاصد چھپے ہوتے ہیں ۔ دراصل اس طرح لوگوں کو Immune کیا جاتا ہے ، مخصوص خیالات اور اصطلاحات کا عادی بنایا جاتا ہے ، Indirect Communication سے Brain Wash کیا جاتا ہے ۔
اور پھر کچھ عرصے بعد ان باتوں یا نظریوں کو اس خاموشی اور خوبصورتی سے زندگی کا حصہ بنا دیا جاتا ہے کہ کیا مخالف ، کیا ہمنوا ، سبھی ان چیزوں کو Part Of The Package جان کر Adopt کرلیتے ہیں یا ان کے استعمال پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔
اسی بات کو لے لیں اس بات کو سمجھنے کے لئیے کہ گزشتہ 3 ماہ میں ، یعنی 26 دسمبر 2019 تا 26 مارچ 2020 تک پوری دنیا میں کرونا وائرس کے Attack سے لگ بھگ 19 ہزار کچھ سو اموات ہوئی ہیں ۔ اور اس وقت یہ وائرس Pandemic کے Status کا حامل ہے ۔ میرے علم میں تو نہیں اور نہ مجھے یہ جاننے کی جستجو کرنی ہے کہ گزشتہ 3 ماہ میں پوری دنیا میں اندازنا کل کتنے لوگ مرے ہوں گے ۔ اور ان سب کی موت کے کیا Causes ہوں گے ۔ یا کون کون سی بیماریاں یا وجوہات ان کی موت کا سبب بنی ہوں گی ۔ آپ میں سے کوئی ضرورت سے زیادہ سرپھرا اگر ہو تو وہ انٹرنیٹ کے ذریعے ذرا یہ Data حاصل کرے اور پھر گزشتہ 3 ماہ میں پوری دنیا میں ہونے والی اموات اور ان کی وجوہات کی Figures کو اسٹڈی کرے تو اسے چند سیکنڈ میں اندازہ ہوجائے گا کہ فی الوقت ، اموات کی وجوہات میں کرونا وائرس کی کیا پرسنٹیج ہے یا کیا Percentile بنتا ہے ۔
حقیقت جان کر آپ کے چودہ طبق روشن ہوجائیں گے ۔ یہ نیو ورلڈ آرڈر کے ان گنت Tools کا سب سے کارگر وار ہے ۔ جسے Psychological Warfare کے خانے میں ڈال کر سمجھا جا سکتا ہے ۔
سائیکولوجیکل وار فئیر ، یعنی اپنے مطلب اور مقصد کے حصول کے لئیے مختلف نفسیات کے حامل افراد کو ان کی نفسیاتی ساخت کے مطابق اس طرح Mould کرنا کہ وہ یہ سمجھیں کہ جو وہ سوچ رہے ہیں ، وہ ان کی اپنی سوچ ہے ۔ اور وہ کسی بیرونی طاقت کے پابند یا غلام نہیں ہیں ، بلکہ ہر طرح سے آزاد ہیں ۔ جبکہ درحقیقت ان کے خیالات اور نظریات ، Computerised نفسیاتی مخصوص نظریے کے تابع ہوچکے ہوتے ہیں ۔ بڑی اور بیرونی قوتیں اس نفسیاتی جنگ کے حربے استعمال کرکے دنیا کی دیگر قوموں کے لوگوں کو اپنے مفادات کے لئیے Use اور Manipulate کر رہی ہیں ۔ اور نیو ورلڈ آرڈر کے ایجنڈے کو کسی جگہ براہ راست اور کسی جگہ Indirect Approach کے ذریعے نافذ کیا جارہا ہے ۔ اور ہر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ یہ سب اس کی بھلائی میں ہورہا ہے یا کیا جارہا ہے ۔
نیو ورلڈ آرڈر کے سائیکولوجیکل وار فئیر کا بنیادی مقصد دنیا بھر کے لوگوں کے ذہنوں کو ڈر ، خوف اور دہشت سے اتنا ماوف اور کمزور کردینا ہے کہ اس جنگ کے اگلے مرحلے میں زندہ بچ جانے والے لوگ ، چوں و چراں کئیے بنا ، نیو ورلڈ آرڈر کے ہر Order کو آنکھیں بند کرکے ماننے پر مجبور ہوجائیں ۔ اور دنیاوی خداوں کی اطاعت میں ہی اپنی عافیت سمجھیں ۔
کیا آپ میں سے کوئی بتا سکتا ہے کہ چین کے شہر ووہان میں پھیلنے والا کورونا وائرس ، ایک ماہ تک محض ووہان میں ہی کیوں رہا ۔ چین کے دیگر بڑی آبادی والے شہروں میں اس کا اثر نہ ہونے کے برابر کیوں رہا ۔ پھر ایک ماہ کے بعد ایک ساتھ اٹلی اور ایران میں کیسے اور کیوں پھیلنے لگا ۔ اور پھر مزید ایک ماہ کے بعد امریکہ ، یورپ ، اور دنیا کے دیگر ممالک میں کیسے نمودار ہوا ۔ کسی کے پاس ان سوالوں کا تسلی بخش جواب نہیں ہوگا ۔
اپنے اپنے قیاس کے گھوڑے دوڑاتے رہیئیے ۔ غور کیجئیے ۔ اس Sequence اور اس Sequel کو Analyse کیجئیے ۔ اگر آپ ایک فیصد بھی مصنوعی ذہانت کے ہم پلہ ہوئے تو کچھ وقت بعد بات کی تہہ تک پہنچ ہی جائیں گے ۔
تین اشارے آپ کے سوئے ہوئے ذہنوں کے لئیے مفت حاضر ہیں ۔ نمبر ایک ۔ ووہان ، چین کا سب سے بڑا انڈسٹریل حب ہے یا یوں کہہ لیں کہ کورونا کی وبا سے پہلے تھا ۔ نمبر دو ۔ اٹلی اور ایران ، مذہبی زیارتوں اور مقدس مقامات کے حوالے سے سال کے ہر موسم میں بیرون ملک سے آنے والے زائرین اور سیاحوں سے بھرے ہوتے ہیں ۔ سوری ۔ وبا سے پہلے بھرے رہتے تھے ۔ نمبر تین ۔ امریکہ اور یوروپی یونین کی معیشت اندرون خانہ ، وبا سے پہلے دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گئی تھی ۔

( جاری ہے )

" لاک ڈاون "
نیا کالم / بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ،
جسمانی ، روحانی ، جنسی اور منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ

www.drsabirkhan.blogspot.com
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
www.g.page/DUAAGO


جمعہ، 6 مارچ، 2020

PROVOCATION. ڈاکٹر صابر حسین خان

" Provocation "
نیا کالم / بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

آج کی تحریر کا عنوان سوچ سمجھ کر ، جان بوجھ کر انگریزی زبان میں لکھا ہے ۔ گو اردو میں بھی اس لفظ کے معنوں کے اعتبار سے کئی متبادل الفاظ سامنے رکھے جاسکتے تھے ۔ اس بات کی کئی وجوہات ہیں ۔ ایک وجہ تو آپ سے شئیر کرلیتا ہوں ۔ دیگر خاص وجوہات کو سوچنا آپ کا کام ہے ۔
ان چند جملوں میں اردو دانوں کے ساتھ آپ سب کو بھی ، جان بوجھ کر ، میں نے کم از کم دو بار Provoke کیا ہے ۔ یا یوں کہہ لیجئیے کہ اشتعال دلایا ہے ۔ یا یوں کہہ لیجئیے کہ میں جان بوجھ کر اشتعال انگیزی کا مرتکب ہوا ہوں ۔ اور اس کی کیا وجہ یا وجوہات ہوسکتی ہیں ۔ یہ بھی آپ سوچئیے گا ۔ میری خوش گمانی تو یہ ہے کہ تحریر کے اختتام تک آپ سب کو نہ سہی ، کچھ کو ضرور میری دانستہ اشتعال انگیزی کے کچھ نہ کچھ اسباب سمجھ آجائیں گے ۔ اور اگر آپ پھر بھی کچھ نہ سمجھ پائے تو سمجھ لیجئیے گا کہ اشتعال انگیزی کا مقصد پورا ہوگیا ہے یا یہ کہ اسی کا نام اشتعال انگیزی یا اکسانا یا طیش دلانا ہوتا ہے ۔
دراصل یہ مارچ کا مہینہ ہے ۔ گزشتہ دوچار سالوں سے ، دس بارہ سالوں سے لائم لائیٹ میں رہنے والا فروری کا ویلنٹائن ڈے ذرا پھیکا اور پھسپھسا جارہا ہے ۔ اور اس نوعیت کے دنوں اور راتوں کو ہمارے مذہب ، ہماری معاشرت ، ہماری تہذیب اور ہماری ثقافت میں زبردستی گھسیٹنے اور گھسیڑنے والوں کے دلوں پر چھریاں چل رہی ہیں ۔ لہذا فروری کا پیچھا چھوڑ کر اب وہ سب مارچ کے پیچھے پڑگئے ہیں ۔
پچھلے زمانوں میں لانگ مارچ اور شارٹ مارچ ہوا کرتے تھے ۔ جو کسی نہ کسی صورت کوئی نظریہ ، کوئی فکر ، کوئی ایجنڈا رکھا کرتے تھے ۔ مگر اب گزشتہ دو چار سالوں سے صنف نازک کے کاندھوں پر مارچ کا بوجھ لادنے کی کوشش جاری ہے ۔ یوں کہہ لیجئیے کہ اپنا الو سیدھا کرنے کے لئیے معصوم فطرت عورت کو الو بنایا جارہا ہے ۔ اور عورت چونکہ فطری طور پر مرد کی بہ نسبت کم عقل و فہم رکھتی ہے ، تو وہ آسانی سے مردوں کے ہاتھوں بیوقوف بن جاتی ہے ۔
فروری کی چودہ تاریخ ہو یا مارچ کی آٹھ ۔ چھری خربوزے پر گرے یا خربوزہ چھری پر ، ہر دو میں نقصان عورت کا ہوتا ہے ۔ اور صدیوں سے ہوتا چلا آرہا ہے ۔ کیا مغرب ہو ، کیا مشرق ، ہر دو خطوں میں Eventually آخری ضرب عورت پر ہی پڑتی ہے ۔ اور اپنی کم فہمی اور کم عقلی کی بنا ہر ضرب کے بعد عام طور پر ہر عورت اور زیادہ جذباتی پن اور حماقتوں میں مبتلا ہوجاتی ہے ۔ اور اس کے استحصال کے سلسلے دراز ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ اور چونکہ عام طور پر عورت نہ تو دور اندیش ہوتی اور نہ ہی معاملہ فہم ، تو ہر استحصالی حملے کے بعد وہ اور زیادہ منتقم مزاج اور متکبر ہوجاتی ہے ۔
اور یہیں سے Provocation کا نہ ختم ہونے والا تباہی کا سفر شروع ہوجاتا ہے ۔
مرد و زن کے جس مقدس رشتے میں وفا ، حیا ، محبت اور قربانی کا جو دو طرفہ Bond ہوتا ہے ، وہ ٹوٹ جاتا ہے ۔ دونوں کا ایک دوسرے پر سے اعتبار اٹھ جاتا ہے ۔ خاندانوں کا شیرازہ بکھر جاتا ہے ۔ سو برس پہلے مغرب سے شروع ہونے والی عورتوں کی تحریک تباہی نے اب مشرق میں بھی قدم گاڑنے کی تیاری پکڑ لی ہے ۔ فرنٹ پر معصوم عورتوں کو رکھ کر ، ان کے ہوائی حقوق کی باتیں کرکے ، ان کی نسوانیت کو ٹھیس پہنچا کر ان کی نام نہاد آزادی کے نعرے بلند کرکے ، پس پردہ قوتوں کی لگام ان مردوں کے ہاتھوں میں ہے ، جو مرد کہلانے کے بھی لائق نہیں ۔
عورتوں کو اکسا کر مردوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کی بجائے ، ان کو مردوں کے خلاف کیا جارہا ہے ۔ بھولی بھالی خواتین کو اس کھوکھلی تہذیب کے گڑھے میں دھکیلنے کی کوشش کی جارہی ہے ، جو اب خود اتنی تعفن زدہ ہوچکی ہے کہ اسے دفنانے کے لئیے بھی کوئی آگے نہیں بڑھ پا رہا ۔ صرف یہی نہیں کہ آزادی نسواں کے نام پر ، بے حیائی ، بدتمیزی اور بیہودہ گوئی کی ترغیب دی جارہی ہے ۔ بلکہ ناسمجھ اور نادان بچیوں اور لڑکیوں کے کچے ذہنوں کو گھر ، خاندان ، رشتوں ، ناطوں اور مذہب و مشرقی تہذیب کے خلاف ڈھالنے کی کوشش جاری ہے ۔
دس فیصد ایسے مردوں کے ناقابل قبول اور مکروہ اعمال اور افعال اور رویوں کو بنیاد بنا کر تمام مردوں کے Image کو مسخ کیا جارہا ہے ، جو یا تو نفسیاتی مریض ہوتے ہیں اور یا پرسنالٹی ڈس آرڈر کا شکار ہوتے ہیں ۔ صحتمند اور نارمل سوچ و خیالات کے مالک لوگ کبھی بھی شریعت ، اخلاقیات اور انسانیت کے دائرے سے باہر نہیں نکل سکتے ۔ ایک صحیح الدماغ اور با کردار مرد کبھی بھی Sexual Harassment کا نہیں سوچ سکتا ۔ نہ اپنے گھر کی عورتوں پر کسی بھی قسم کا ظلم اور تشدد کرسکتا ہے ۔ نہ اپنے فرائض اور اپنی ذمہ داریوں سے رو گردانی کرتا ہے ۔ نہ بنا کسی واضح اور بہت بڑی وجہ کے اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے ۔ وہ کبھی بھی جوش میں ہوش نہیں کھوتا ۔ گھر اور خاندان کو تحفظ فراہم کرتا ہے ۔ مگر یہ سب کچھ اسی وقت تک خوش اسلوبی سے چلتا ہے ، جب تک اس کی بیوی یا اس کے گھر کی دیگر عورتیں یا باہر کی خواتین اسے Provoke نہیں کرتیں ۔ اسے اشتعال نہیں دلاتیں ۔ اسے مقابلے پر نہیں اکساتیں ۔ اس سے زبان درازی اور بدتمیزی نہیں کرتیں ۔ اس کی اطاعت نہیں کرتیں ۔
باعزت ، با غیرت ، باشعور ، اور بڑے سے بڑا بااخلاق مرد بھی اس صورت طیش میں آجاتا ہے ۔ اور پھر معاملات بگڑنے لگتے ہیں ۔
اکسانے اور اشتعال دلانے کی ایک اور بھی خطرناک قسم ہوتی ہے ۔ جس کے نتیجے میں بسا اوقات برسوں کی ریاضت اور عبادت کا بھٹہ بیٹھ جاتا ہے ۔ بازاروں اور دفتروں میں بناو سنگھار کرکے جب خواتین ایسے ملبوسات میں گھومتی ہیں ، جو ان کے جسم کو ڈھانپنے کی بجائے اور نمایاں کرتے ہیں تو Indirect Provocation جنم لیتی ہے ۔ اور بہت سے شریف مرد بھی شرافت کا دامن چھوڑ بیٹھتے ہیں ۔
فطرت نے مرد کو عورت کی بہ نسبت کئی گنا زیادہ Sexuality دی ہے جو بڑی عمر تک برقرار رہتی ہے ۔ اور اپنی اسی Sexual Energy کو چارج اور ری چارج کرکے وہ ذہنی اور جسمانی سطحوں پر بڑی عمر تک Productive رہتا ہے اور مختلف محاذوں پر لڑتا رہتا ہے ۔ اسی وجہ سے دین فطرت نے مرد کو Multiple Marriages کی نہ صرف اجازت دی ہے بلکہ معاشرتی برائیوں سے بچنے اور بچانے کے لئیے ایک وقت میں دو تا چار عورتوں کو اپنے نکاح میں رکھنے کو Encourage بھی کیا ہے ۔ تاکہ زیادہ عورتوں کو گھر اور تحفظ حاصل ہو اور مردوں کی Latent جنسی توانائی کی فائرنگ کے ساتھ ان کی فطری خواہشات بھی پوری ہوتی رہیں ۔
اتنا Logical اور Scientific Solution کسی اور مذہب یا تہذیب میں نہیں دکھائی دیتا ۔ جو گناہوں سے پاک حلال راستے آسان بنا کر مرد و زن کو پیش کرتا ہو ۔
المیہ یہ ہے کہ ہم سب فطرت اور دین فطرت کی حکمت اور فراست کو سمجھنے اور عملی زندگی میں Apply کرنے کی بجائے بے جا تاویلات ، تشریحات اور مباحثات میں بنیادی انسانی مسائل کے آسان حل سامنے لانے کی بجائے ہر مسئلے کو پہاڑ بنا لیتے ہیں ۔اور پھر جب مسائل بڑھتے ہیں اور ایک مسئلے کی کوکھ سے سو مسئلے جنم لیتے ہیں تو یا تو سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں اور یا پھر ایک دوسرے کا سر پھاڑنے لگتے ہیں ۔
اگر آئین اور قومی قانون میں یہ شق شامل کردی جائے کہ بلوغت کے بعد ، پانچ سال کے اندر اندر ہر لڑکے اور ہر لڑکی کی شادی لازمی ہے تو کم از کم ہمارے معاشرے میں سے بہت سی خرابیاں خود ختم ہوجائیں گی ۔ اور اس طرح نام نہاد ڈگریوں کی بندر بانٹ کا چکر بھی کم ہوجائے گا ۔ اور گھر اور خاندان کے معاشی استحکام کے لئیے مرد زیادہ دل سے محنت کرسکیں گے اور خواتین اپنے بچوں کی پرورش میں زیادہ جذبے سے حصہ ڈال سکیں گی ۔
یہ اور اس نوعیت کے دیگر عملی اقدامات اٹھائے بنا ہم یونہی آپس میں الجھتے رہیں گے اور ایک دوسرے کو Provoke کرتے رہیں گے ۔ اور باہمی محبت اور اتفاق کی دھجیاں اڑاتے رہیں گے ۔
یہ بات مت فراموش کیجئیے گا کہ جب جب جس نے ، خواہ وہ مرد ہو یا عورت ، ملک ہو یا مذہب ، تہذیب ہو یا ثقافت ، فطرت اور دین فطرت کو Provoke کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اور دانستہ یا نادانستہ ، قدرتی قوانین اور اصول توڑنے پر قدم بڑھایا ہے اور معاشرے میں بگاڑ اور انتشار پھیلانا چاہا ہے ، تو ، اسے کبھی بھی معافی نہیں ملی ہے ۔
یہی Law Of Nature ہے ۔ شرانگیزی پھیلانے والوں ، اشتعال دلانے والوں ، اکسانے والوں ، فساد کرنے اور کرانے والوں ، اور فطرت سے لڑنے اور لڑوانے والوں کو کبھی بھی نہ پناہ ملی ہے اور نہ امان ملی ہے ۔ انہوں نے اسی زندگی ، اسی دنیا میں اپنے کرتوتوں کی سزا بھگتی ہے ۔

" PROVOCATION "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، اعصابی ، دماغی ، جسمانی ، روحانی ، جنسی اور منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ ۔

www.drsabirkhan.blogspot.com www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.g.page/DUAAGO 

بدھ، 4 مارچ، 2020

خلا اور خالی پن ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

" خلا اور خالی پن "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

خلیل جبران کے نام سے وہ سب لوگ ضرور واقف ہوں گے جو کتابوں سے دلچسپی رکھتے ہیں اور پڑھنے پڑھانے کے جذبے سے سرشار رہتے ہیں ۔ وجہ شہرت ، فلسفہ اور فلسفہ حیات ہے ۔ زندگی کیا ہے اور زندگی کیسی اور کیسے گزارنی چاہئیے ۔ دنیا اور رشتوں کی اصل حقیقت کیا ہے ۔ اور ان سب سے ملتے جلتے نظریات اور خیالات اور حیات و ممات کی نہ سلجھنے والی تہہ در تہہ گتھیاں ۔ دنیا کے ہر کونے میں لٹریچر سے شغف رکھنے والے ہر قاری نے اپنے مطالعے کے سفر میں کبھی نہ کبھی ضرور خلیل جبران کے اسٹیشن پر تھوڑی دیر کا پڑاو ضرور ڈالا ہے ۔
دائمی بقا ، فنا کے بنا ممکن نہیں ۔ خوشی کی تلاش ، سراب کے سوا کچھ نہیں ۔ زندگی کا اصل سچ ، غم ہے ۔ سچ کے علاوہ کوئی اور شے دل کو سکون نہیں دے سکتی ۔ جیتے جی موت کی حقیقت پا لینا ، درحقیقت دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے ۔ خود اختیاری تنہائی کی خواہش اور پھر اس خواہش کی تکمیل ہی دراصل انسان کو انسان بناتی ہے ۔ اور دوسرے انسانوں کو انسان سمجھنے کی سمجھ عطا کرتی ہے ۔ جس شخص کو اس سچ کی سمجھ مل جاتی ہے ، وہ ابدی اطمینان پا لیتا ہے ۔ مگر چونکہ تنہائی کو تن من دھن سے اپنالینا آسان نہیں ہوتا ، لہذا شاذ و نادر ہی کوئی کوئی ، زندگی کے سب سے بڑے سچ کو گلے لگا پاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ساری دنیا اضطرابی حالت میں ہے اور ہر شخص ، خوشی اور سکون کی تلاش میں اپنی ساری عمر گزار دیتا ہے ۔ لوگوں میں ، محفلوں میں ، باتوں میں ، وقتی خوشی اور عارضی اطمینان ڈھونڈتا رہتا ہے اور بوقت مرگ اس آگہی سے دوچار ہوتا ہے کہ آنکھیں بند ہونے کے بعد ازلی اور ابدی تنہائی ہی اس کا مقدر ہے ۔ اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے ۔ اس نے جیتے جی تنہائی کو اپنانے کی عادت ہی نہیں اپنائی ہوتی ۔ روح کو جو لبادہ ، زندگی میں پہنایا جاتا ہے ، موت کے ہاتھ ، پل بھر میں اسے پھاڑ پھینکتے ہیں ۔ نہ چاہنے کے باوجود مرنا پڑتا ہے ۔ اور مرتے ہی سب لوگوں ، سب باتوں کا ساتھ چھوٹ جاتا ہے ۔ اگر زندگی میں تنہائی کا تجربہ رہتا ہے تو موت کے بعد کا سفر آسان ہوجاتا ہے ۔
بعد کے سفر میں آسانی اور روانی رکھنے کے لئیے سفر کی شروعات کی صعوبتیں ، تکلیفیں اور مشکلات برداشت کرنا پڑتی ہیں ۔ سفر ، خواہ کسی بھی نوعیت کا ہو ۔ اور جو سفر جتنا زیادہ لمبا ہوتا ہے ، تیاریاں بھی اسی حساب سے رکھنی اور کرنی پڑتی ہیں ۔
مگر انسان ، قدرت کی عجیب مخلوق ہے ۔ مختصر سے وقفے کو پوری زندگی سمجھتا ہے ۔ اور ابدی زندگی کے سفر کے لئیے اس کی تیاری نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے ۔
خاک اور خاکستر ہوجانے والے جسم کو سنوارنے کے لاکھوں جتن کرتا ہے ۔ ہمیشہ رہنے والی روح کو نکھارنے کے لئیے اس کے پاس وقت نہیں ہوتا ۔
روح نے سدا ساتھ نبھانا ہے ۔ بدن نے مٹی میں مل جانا ہے ۔ مگر فہم و فراست کی دولت کی وافر موجودی کے باوجود انسان ، گھاٹے کا سودا کرتا ہے اور بدنی زندگی کی بے سکونی کے ساتھ روحانی زندگی کی ابدی بے چینی کو بھی اپنے جی کا جنجال بنا لیتا ہے ۔
اپنے تمام علم اور عقل کے باوجود انسان یہ نقصان اس لئیے اٹھاتا ہے کہ وہ تنہائی سے گھبراتا ہے ۔ کنی کتراتا ہے ۔ کیونکہ تنہائی کے تانے بانے ، خلا اور خالی پن سے ملے ہوتے ہیں ، جڑے ہوتے ہیں ۔ اور تنہائی سے کہیں زیادہ جان لیوا ، خلا اور خالی پن کی دوسراہٹ ہوتی ہے ۔
تنہائی کا سفر ، آہستہ آہستہ ، انسان کے اندر صفائی اور ستھرائی کا پہیہ گھمانے لگتا ہے ۔ جس کے نتیجے میں روح کا سناٹا گونجنا شروع کردیتا ہے ۔ خلا پیدا ہونے لگتا ہے ۔ خالی پن کا احساس اس خلا کے کونوں کو بھرنے لگتا ہے ۔ جوں جوں تنہائی بڑھتی ہے ، اندر کا خلا بھی بڑھتا ہے ۔ اور اس خلا کو پر کرنے کے لئیے زندگی کی بے وقعتی اور رشتوں کی کم مائیگی کے خیال لپک لپک کر ادھر ادھر چپکنے لگتے ہیں ۔ ہر شے اور ہر بات کا کھوکھلا پن نہاں ہونے لگتا ہے ۔ خالی پن ، شریانوں سے خون کھینچ کر وجود اور جان کو ہلکان کر ڈالتا ہے ۔ یوں لگنے لگتا ہے کہ اب ذہنی رو بھٹکی ، اب جان نکلی ، اب کلیجہ پھٹ کر منہہ کو آیا ، اب غشی کا دورہ پڑا ہی پڑا ، اب اندر کا وحشی کپڑے پھاڑ کر باہر کو دوڑا ۔ دیوانگی کو دوچار گام باقی رہ جاتے ہیں تو انسان سالوں کی تپسیا توڑ کر ، تنہائی کا حصار چھوڑ کر خود کو عام لوگوں کے بیچ لا کھڑا کردیتا ہے ۔ پھر وہ کہیں کا نہیں رہ پاتا ۔ نہ اپنے اندر جی پاتا ہے ۔ نہ باہر کوئی امان پاتا ہے ۔ اس کے چاروں اور خلا بڑھتا جاتا ہے ۔ اس کے اندر کا خالی پن ، کھوکھلے ڈھول کی طرح بجتا رہتا ہے ۔ اور وہ یونہی اسی حالت میں ہمیشہ کی تنہائی کی گھاٹی میں اتر جاتا ہے ۔
خلا اور خالی پن کا قصہ آج کا نہیں ۔ تنہائی کی کہانی بڑی پرانی ہے ۔ کائنات کے پہلے آدمی سے لیکر آج کے انسان تک اور دنیا کے خاتمے پر ، باقی رہ جانے والے آخری آدمی کا پہلا اور آخری جذباتی اور ذہنی مسئلہ تنہائی سے نبرد آزما ہوکر اپنے اندر کے خلا اور خالی پن کو دور کرتے رہنے کی جستجو اور مشقت ہے ۔ اس کے لئیے اسے اپنی مختصر سی زندگی میں لاکھوں جتن کرنے پڑتے ہیں ۔ خمار گندم سے لے کر خمار انگور تک اور آئینے سے لیکر عارضی ناطوں کی تلاش تک ۔ اپنی تنہائی دور کرنے کے لئیے انسان ہر دشت کی خاک چھانتا ہے ۔ پھر بھی آخر وقت ، تشنہ لب ہی رہتا ہے ۔
وجہ ؟ ۔ وہ سب کچھ سیکھ لیتا ہے مگر تنہا رہنا اور اپنے خلا اور خالی پن کو دور کرنا نہیں سیکھتا ، نہیں سیکھنا چاہتا ۔ یہاں تک کہ اپنی دوسراہٹ کے لئیے کتے اور بلیاں پال لیتا ہے ۔ اگر اپنے جیسے کسی اور انسان سے اس کی ہم آہنگی نہیں ہو پاتی ۔ یا نہیں رہ پاتی ۔
غار حرا کی خاموشی اور تنہائی نے انسان اور انسانیت کو رہتی دنیا تک کا سب سے اعلی مذہب دیا ۔ ضابطہ اخلاق اور ضابطہ حیات دیا ۔ تنہائی کی دولت نے پوری کائنات کو مالا مال کردیا ۔ مگر انسان نے اس کائناتی حقیقت سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا ۔ اور اب تک اپنی فطرت اور اپنی جبلت اور اپنی نفسیات کے ہاتھوں مجبور ہو ہو کر اپنی مرضی سے اپنی تنہائی کا گلا گھونٹے جا رہا ہے ۔ اپنے سکون کو اپنے ہاتھوں پامال کئیے جارہا ہے ۔
اپنی تنہائی کو اپنے مقصد زندگی سے ہم آہنگ کیجئیے ۔ اپنے خلا کو تخیل کی بلند پرواز کے سپرد کیجئیے ۔ اپنے خالی پن کو خلق کی خدمت کے لئیے وقف کیجئیے ۔ آپ کو اپنے ساتھ رہنا آجائے گا ۔ پھر تنہائی کھلنے کی بجائے پیاری لگنے لگے گی ۔ خالی پن کا احساس ہوا ہوجائے گا ۔ اور خلا ، کائناتی توانائی سے بھرتا چلا جائے گا ۔

" خلا اور خالی پن "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، اعصابی ، دماغی ،
جسمانی ، روحانی ، جنسی اور منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ ۔

www.drsabirkhan.blogspot.com
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.g.page/DUAAGO 

بدھ، 19 فروری، 2020

ماضی، حال اور مستقبل ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

" ماضی ، حال اور مستقبل "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون ۔
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان ۔

سال گزشتہ عید قربان کے موقع پر اپنے گھر پر ہونے والی تقریب میں جب میں نے حسب روایت اپنی نئی شائع ہونے والی کتابیں " من قلندر " اور " دل کا نیلم " رشتہ داروں کی نذر کیں اور ان سے گزشتہ کتاب کی بابت پوچھا کہ" آئینے 2 " پڑھی تھی اور اگر پڑھی تھی تو کیسی لگی ۔ کون سا مضمون ، کون سی کہانی اچھی لگی ۔ تو سب نے اپنی اپنی رائے دی ۔ مگر ایک جواب نے مجھے لاجواب کردیا ۔
چھوٹے بھائی طارق کی بیوی ثناء نے کہا کہ اس نے ایمانداری سے بیچ بیچ میں سے کچھ چیپٹرز دیکھے ہیں ۔ مگر سب میں ہی آپ نے اپنا کوئی قصہ یا اپنے کسی کلائینٹ یا دوست ہی کا تذکرہ کیا ہے ۔ کوئی بھی خالص علمی یا فکری مضمون نہیں ۔ جس سے کچھ علم حاصل ہو ۔
" ہاں ں ں ۔ اچھا ۔ ایسا تھا کیا ۔ شاید ایسا ہی ہو ۔ میں پڑھ کر دیکھوں گا ۔ " ثناء نے مجھے ایک ہی جملے میں چت کردیا تھا ۔ اس کی انگریزی سے مجھے ویسے بھی ڈر لگتا ہے ۔ تو اس سے الجھنے کی بجائے میں نے خاموشی میں ہی اپنی عافیت سمجھی ۔ سامنے والا اگر سچ کہہ رہا ہو تو خاموشی سے اس کی بات سن بھی لینی چاہئیے اور مان بھی لینی چاہئیے ۔
ثناء کی بات صحیح تھی ۔ " آئینے 2 " میں شامل ستر کالمز یا مضامین میں کوئی چار چھ ہی ایسے ہوں گے جو خالص دقیق اور علمی و فکری ہوں ، اور یا جن میں ، ' میں ' یا مجھ سے Related کوئی شخص یا بات یا قصہ شامل تحریر نہ رہا ہو ۔
اب موجودہ کالم یا مضمون کو ہی دیکھ لیجئیے ۔ حسب عادت اپنے حالیہ ماضی کی ایک بات سے بات شروع کی ہے ۔ اور اب تک کی اتنی ساری باتوں میں کسی قسم کے لیکچر کا تڑکا نہیں لگا ہے ۔ ہاں البتہ شروع شروع میں جب 1993 میں باقاعدہ کالمز اور مضامین لکھنے کا سلسلہ شروع کیا تھا تو کئی سالوں تک بہت اہتمام اور انتظام سے علم نفسیات ، سماجیات اور عمرانیات کے چیدہ چیدہ نکات نکال کر خالص موٹیویشنل تحریریں عدم سے وجود کی شکل اختیار کرتی تھیں ۔ میری ابتدائی چھ سات کتابیں اسی نوعیت کے مضامین سے لبریز ہیں ۔ جن میں ' میں ' اور میرے حوالے اور میرے قصے شامل نہیں ۔ انتہائی خشک اور آبجیکٹو ٹاپکس ۔ Do'es اور Dont's سے بھرپور ۔ اور ان سب مضمونوں اور کتابوں کا متن ایک جملے میں سم اپ کیا جاسکتا ہے کہ ' اپنی زندگی کو کامیاب بنانے کے طریقے سیکھیں ' ۔ ڈیل کارنیگی کی ٹکر کی تحریریں ۔ ( کم از کم اس وقت میں یہی سمجھتا تھا اور بزعم خود ، بحیثیت ایک ماہر نفسیات کے اس زمانے میں وہ سب کچھ لکھ کر ، خود کو طرم خان کے روپ میں دیکھا کرتا تھا ) ۔ مگر پھر خود احتسابی اور تنہائی اور جدوجہد کے آٹھ دس سالوں نے سارا تکلف اور سارا کلف ، دھوبی پٹڑے مار مار کر اتار ڈالا ۔ دھو ڈالا ۔ اور دھو دھا کر نچوڑ بھی دیا ۔ علم اور فلسفے کے بھوت بھی ڈر کے مارے فرار ہوگئے ۔ روڑوں میں رلتے رلتے ، اوپر نیچے ہچکولے کھاتے کھاتے ، زندگی کے رولے کچھ کچھ سمجھ آنے لگے ۔ علم کی جگہ عمل اور فلسفے کی بجائے انسان اور ذہنی صحت کے ساتھ ساتھ روحانی صحت اور نفسیات اور شخصیت کے پیچھے چھپے روحانی حوالوں اور ہیولوں اور پہلووں اور انسان کے اندر کے آئینوں پر نگاہ جانے لگی ۔ ماضی ، حال میں بدلتا گیا اور حال ، مستقبل کا زاویہ نگاہ طے کرتا گیا ۔
کبھی ، کچھ بھی تو ایک جیسا نہیں رہتا ۔ آنے والا کل ، آج کی شکل اختیار کرتا ہے اور محض چوبیس گھنٹے بعد ماضی بن جاتا ہے ۔ وقت کی بے ثباتی کا جب یہ حال ہو تو کہاں کی دانش وری ، کیسی علامہ گیری ۔ بس پل دو پل کی درویشی بچتی ہے ۔ اور وہ بھی نصیب والوں کے حصے میں آتی ہے ۔ آج اور ابھی جو ہے ، وہ کل نہیں رہے گا ۔ جو کل تھا ، وہ کل نہیں ہوگا ۔ بس بے کلی ، وجود کا حصہ بن کے ساتھ چلتی رہتی ہے ۔ کیا کھویا ، کیا پایا ، کیا صحیح تھا ، کیا غلط تھا ، کبھی طمانیت تو کبھی پشیمانی ۔ امروز و فردا کی چکی کے دو پاٹوں کے بیچ لمحوں کا گھٹالا بنتا رہتا ہے ۔ اپنے فیصلوں کا بوجھ تقدیر کے گلے ڈال کر بھی حتمی سرشاری سے جی شاد نہیں ہو پاتا ۔ حال ، حال نہیں رہ پاتا ۔
جب یہی سچ ہے تو کوئی کیوں کر ، تمام عمر ، ایک ہی ڈگڈگی بجاتا رہے ۔ آج ، سوچ کا جو حال ہے ، وہی آج کے سچ کا آئینہ ہوتا ہے ۔ گزرے ہوئے وقت کی باتوں اور یادوں کے عکس کا ہرکارہ ہوتا ہے ۔
بہت سے لوگ ، بلکہ بہت سے کیا ، زیادہ تر لوگ ابتدائے عمر سے اپنی طبیعت اور فطرت کے مطابق کسی ایک خاص ٹریک کا انتخاب کرلیتے ہیں یا قسمت اور حالات اور واقعات ان کو کسی راستے پر چلنے پر مجبور کردیتے ہیں ۔ پھر تمام عمر وہ ایک ہی طرح کا کام ، ایک ہی طریقے سے کرتے چلے جاتے ہیں ۔ ایک ہی انداز ، ایک ہی پیٹرن میں اپنے حال اور مستقبل کو ماضی میں ڈھالتے چلے جاتے ہیں ۔ بہت کم ، بلکہ بہت ہی کم کم لوگ وقت کے ساتھ اپنے راستے بدلتے ہیں یا اپنے اپنے کاموں میں جدت اور ندرت پیدا کر پاتے ہیں ۔
کام کی نوعیت تو قدرت کی مرہون منت ہوسکتی ہے ۔ مگر کسی بھی کام ہمہ وقت ، مزید بہتری کا امکان موجود ہوتا ہے ۔
کسی بھی کام میں مزید بہتری عام طور پر اسی وقت ہو پاتی ہے ، جب جب ہم شعوری یا لاشعوری طور پر اس بات کی خواہش رکھتے ہوں ، اور اپنے دل اور دماغ کو ہمہ وقت ، ہمہ جہت لرننگ کے لئیے کھلا رکھتے ہوں ۔ اور صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کرنے اور فیصلے کے بعد اس پر عمل کرنے اور قائم رہنے کی کوشش کرتے ہوں ۔ اسی صورت ہمارا ماضی ، حال اور مستقبل ، تینوں طرح طرح کے رنگوں اور رنگ برنگی روشنیوں سے طرحدار اور روشن ہو سکتا ہے اور رہ سکتا ہے ۔ اور زندگی کے ہر مرحلے ، ہر اسٹیج ، ہر جنکشن پر ہمارے لئیے اور دوسروں کے لئیے کچھ نیا اور کچھ بہتر سامنے آسکتا ہے ۔
بصورت دیگر میرے اور آپ کے سامنے بہت سے لوگوں کی زندگی کے بہت سے سال گزرے ہوئے ہیں ، گزر رہے ہیں اور گزر چکے ہیں ۔ ایک ڈگر ، ایک روش ، ایک رنگ میں ان کا ماضی اور ان کا حال دکھائی دیتا ہے ۔ اور ماضی اور حال کا جو حال ہوتا ہے ، وہی عام طور پر مستقبل کی صورت تشکیل دے رہا ہوتا ہے ۔
قدرت کا یہ کلیہ فرد اور خاندان کے ماضی ، حال اور مستقبل پر بھی لاگو ہوتا ہے ۔ اور ملک اور قوم کے حال اور حالت کی بھی عکاسی کررہا ہوتا ہے ۔ ذرا دیر کو اپنی ذات کو بالائے طاق رکھ کر پوری قوم کے ماضی اور حال پر ایک طائرانہ نظر دوڑائیے ۔ ملک کے ہر نظام کو دیکھئیے ۔ کھنگالئیے ۔ ابتر ماضی ، بدترین حال ، منتشر مستقبل ۔ وجوہات پر ہزاروں لوگوں نے اپنے اپنے انداز میں ہزاروں باتیں کی ہیں ۔ اور مستقل کرتے چلے جارہے ہیں ۔ مگر اجتماعی سطح پر ملک و قوم کی حالت بدلنے کا نہ کبھی کسی نے سوچا ، نہ کبھی کسی نے صدق دل سے کوئی عملی قدم اٹھایا ۔ اور نہ ہی اس وطن کے باسیوں نے اپنے ماضی سے کوئی سبق سیکھا ۔ اور نہ ہی یہ قوم اپنا حال بدلنے کی کوئی کوشش کررہی ہے ۔
اس صورتحال میں اس قوم کا کیا مستقبل ہوسکتا ہے ۔ یہ الجبرا کا کوئی پیچیدہ سوال نہیں ۔ جو آج ہمارا حال ہے ۔ اس سے کم از کم دس گنا زیادہ برا حال ہونے والا ہے ۔ اور ہم میں سے کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ۔ ہم میں سے کوئی بھی اپنی حالت زار کو خوشگوار بنانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا ۔ ہم میں سے کوئی اس حوالے سے پہل نہیں کرنا چاہتا ۔ اپنے لگے بندھے ، اچھے برے ، روٹین کو نہیں بدلنا چاہتا ۔ خود کچھ نہیں سوچنا چاہتا ، خود کچھ نہیں کرنا چاہتا ۔ نئے دور کے نئے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوئے بنا ، دوسروں سے امداد اور تعاون کی طلب میں ، غیبی مدد کے انتظار میں ہم سب نے آہستہ آہستہ اپنی زندگی کو اس نہج پر ڈال دیا ہے ، جہاں کسی ترقی ، کسی پروگریس کی توقع نہیں ۔ دن بہ دن ، ہر حوالے سے ہمارا حال ، بد سے بدترین ہورہا ہے ۔ اور ہم خواب سہانے مستقبل کے دیکھ رہے ہیں ۔ دیوانے پن کی انتہا نے ہم سب کے سارے حواس ماوف کردئیے ہیں ۔ ہمارے ماضی کے آئینے پر ہمارے مستقبل کی تباہی کی لکیریں پھیلتی جارہی ہیں ۔ اور ہم ایک دوسرے سے زور آزمائی کے ساتھ ساتھ ہر طرح کے ماضی اور ہر طرح کے مستقبل سے بے نیاز ، اپنے اپنے حال میں مست ، دن و رات بسر کئیے جارہے ہیں ۔
اس سے پہلے کہ ہمارا مستقبل اور ہمارا حال ہمارے ماضی کو اور شکستہ کرے ، کیوں نہ ہم آج سے اپنے حال کو بہتر بنانے کے لئیے ایسے کام شروع کریں جو ہمارے دلوں کو تقویت دینے کے ساتھ ، آنے والے دنوں کو بھی مستحکم کرسکیں اور آنے والی نسلوں کے حال اور مستقبل کو بھی سنوار دیں ۔
ہم سب اگر اپنی اپنی جگہ کچھ اس طرح سوچنے اور کرنے لگیں گے تو پوری قوم کا حال اور مستقبل ، ماضی سے بہتر ہونے لگے گا ۔ لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم اپنی لگی بندھی ڈگر چھوڑ کر زندگی کے نئے معنی اور نئے رنگ تلاش کرنے پر راضی ہوں اور اپنے اپنے کمفرٹ زون میں رہنے کے ساتھ سیکھنے ، سمجھنے اور عمل کرنے کی اہلیت کو پروان چڑھانے کے لئیے دلی طور پر راضی ہوں ۔ بند دل ، بند دماغ ، بند روح ، بند سوچ ہمارے ماضی ، حال اور مستقبل ، تینوں زمانوں کے دروازوں کو بند کرتی ہے ۔ بند رکھتی ہے ۔


" ماضی ، حال اور مستقبل "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ،
جسمانی ، روحانی ، جنسی اور منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ

www.drsabirkhan.blogspot.com
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
www.g.page/DUAAGO 

بدھ، 12 فروری، 2020

میرے مسئلے ۔ دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

" میرے مسئلے "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

آپ کی طرح میں بھی مختلف اوقات میں مختلف مسائل کا شکار رہتا ہوں ۔ اور اللہ تعالی سے ان مسائل کے حل کی دعا مانگتا رہتا ہوں ۔ اور ساتھ ساتھ ان مسائل کے حل کی عملی کوشش بھی جاری رہتی ہے ۔ آپ بھی یقینا اسی طرح کرتے ہوں گے ۔ اپنے مسائل کے حل کی عملی کوشش اور تگ و دو اور ساتھ ساتھ دعائیں ۔ کہ یہی احسن راستہ ہوتا ہے ۔ مگر کبھی کبھی ہم ایسے مسئلے سے اچانک دوچار ہوجاتے ہیں ۔ جس سے باہر نکلنا مشکل بھی ہوتا ہے اور جس کا حل ہمارےگمان سے دور بھی ہوتا ہے ۔ ایسے مسئلوں سے میری طرح آپ بھی اکثر دوچار ہوتے ہوں گے ۔
میرا ایسا ہی ایک بہت پرانا مسئلہ ہے ۔ جس کا ابھی تک تو کوئی حل مجھے سجھائی نہیں دیا ہے ۔ آج ذرا اس مسئلے کو لفظوں کا روپ سنگھار دے کر دیکھتے ہیں ۔ باتوں باتوں میں شاید کوئی حل نکل آئے ۔ آپ بھی سوچئیے گا ۔ اگر آپ کو کوئی حل دکھائی دے ، تو ضرور آگاہ کیجئیے گا ۔ تاکہ میری الجھن بھی دور ہوسکے ۔ اور میں اپنی اصلاح بھی کر سکوں ۔
بہتر ہوگا کہ جب سے اس مسئلے کی شروعات ہوئیں ، اس وقت کا حوالہ بھی دے دیا جائے ۔ اپنی ایک پرانی تحریر میں کسی اور حوالے سے اس واقعہ کا حوالہ بھی دیا تھا ، جس کے بعد میں آہستہ آہستہ اس مسئلے میں الجھتا چلا گیا ۔ اور مرض بڑھتا گیا ، جوں جوں دوا کی ، کے مصداق اب اس مسئلے کا بیج ایک بڑے درخت کی شکل اختیار کر چکا ہے ۔ 1975 کا سال تھا ۔ میں پاپا ( اپنے دادا ) کے ساتھ کراچی کینٹ کے ریلوے اسٹیشن پر تھا ۔ میرپورخاص جانے والی مہران ایکسپریس کے انتظار میں ۔ حسب عادت اور شوق اسٹیشن پر واقع ایک بک اسٹال پر کہانیوں کی کتابیں دیکھ رہا تھا ۔ اسی اثناء شیشے کے فرنٹ شوکیس میں اسی سال کی ایک چھوٹی پاکٹ ڈائری نظر آگئی ۔ خاکی کور میں چھوٹے چھوٹے کورے کاغذ ۔ دن اور تاریخ یاد نہیں ۔ اس دن کہانی کی کوئی کتاب لینے کی بجائے وہ ڈائری لے لی گئی ۔ اور میرپورخاص پہنچتے ہی مذکورہ دن اور تاریخ کے صفحے پر چار پانچ جملوں میں اس دن کی مختصر کہانی لکھی گئی ۔ وہ ڈائری ہنوز موجود ہے ۔ پھر 1983 تک باقاعدہ اور باضابطہ روز کے روز ، روزانہ کی اہم اہم باتیں لکھی جاتی رہیں ۔ ہر سال کی نئی ڈائری میں ۔ تین چار جملوں سے ہوتے ہوتے پورے صفحے کی بیس بائیس سطریں ۔ پڑھنا بڑھتا گیا ۔ سوچنا اور تنہائی کے مزے لوٹنا بڑھتا گیا ۔ سندھ میڈیکل کالج ( موجودہ جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی ) میں گزارے اور گزرے ہوئے سات سال پڑھنے ، لکھنے ، سوچنے ، اور تنہائی کے سمندر میں غوطے لگانے کے نہ ختم ہونے والے سلسلے میں ڈھلتے گئے ۔ نظموں ، نثری نظموں اور نظم نماوں نے ڈائری کی جگہ لے لی ۔ دس برسوں میں لگ بھگ ہزار سے زائد اس طرح کی غیر منظم اور بے ہنگم ذاتی کیفیات اور احساسات کی عکاسی میں لکھی گئی نظم نمائیں اس زمانے میں تو دل و جان سے عزیز ہوا کرتی تھیں ۔ مگر عملی زندگی شروع ہوتے ہی یہ احساس شدت پکڑتا گیا کہ اپنی ذات اور اپنی انا کی اسیری میں لکھی گئی ان نظموں سے کسی اور کی ذات کو رتی برابر فائدہ ملنے کا کوئی امکان نہیں ۔ جونہی اس سوچ نے واضح شکل اختیار کی ، شاعری سے دل اوبھ گیا ۔ اور نثری مضامین یا کالمز کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔ ڈائری اور شاعری کے بعد کالم نگاری ۔ اور مضمون نویسی ۔ نیت یہی رہی کہ ایسا کچھ لکھا جاتا رہے ، ڈائری اور شاعری کے سوا ، جس سے کسی نہ کسی کو کچھ نہ کچھ حاصل ہوتا رہے ۔ اور ان تحریروں کو پڑھنے والوں کی زندگی میں کسی نہ کسی شکل کوئی آسانی ، کوئی سہولت پیدا ہوتی رہے ۔ نفسیات اور شخصیت سے لے کر نفسیاتی ، ازدواجی ، خاندانی ، معاشرتی ، جذباتی مسائل کی بابت بہت سے کالم نما مضامین لکھے ۔ پھر کچھ سالوں کے وقفے اور دیگر معاشی ذمہ داریوں نے کچھ اور پڑھنے اور سوچنے کا موقع فراہم کیا ۔ اس دوران ہر سال دو چار بار ڈائری کے صفحے بھی کالے ، نیلے اور ٹرقوائز ہوتے رہے ۔ کہ اس زمانے میں ایک کمزوری فاونٹین پین کا استعمال بھی تھا ۔ اور پسندیدہ رنگ کی روشنائی پارکر کی ہلکے فیروزی رنگ کی Turquoise Ink ہوا کرتی تھی ۔ پھر اور دلچسپیوں کی طرح یہ ساری عیاشیاں بھی ایک ایک کرکے دل سے اترتی گئیں ۔ ایک اور طرح کی تنہائی نے روح اور قلب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ نفسیاتی مریضوں کی شخصیت اور نفسیات پر غور و فکر بڑھا تو اندازہ ہوا کہ قرآن مجید میں جن اخلاقی اور روحانی بیماریوں اور کجیوں کا ذکر ہے ، ان میں سے اکثر نفسیاتی مریضوں اور ان کے گھر والوں میں پائی جاتی ہیں ۔ پھر ایک نئے زاویے سے جب اپنی پروفیشنل لائف کو گزارنا شروع کیا ۔ اور " راجہ گدھ " کی رزق حرام کی تھیوری کو اشفاق احمد کی گفتگو پر مبنی کتاب " زاویہ " کی تینوں جلدوں کو کئی بار پڑھنے ، پڑھوانے اور ڈسکشن میں لانے کا موقع ملا تو لکھے جانے والے انداز اور الفاظ بھی ایک اور ہی زاویے کی شکل میں ڈھلتے گئے ۔ کئی سالوں کے وقفے کے بعد جب اللہ تعالی نے دوبارہ لکھنے کا سلسلہ شروع کروایا تو اب کی بار رنگ ڈھنگ آہنگ ، سب ہی کچھ بدل چکا تھا ۔ اور ما بعد النفسیاتی اور روحانی معاملات زندگی اور مسائل اور ان مسائل کی مخفی اور اصل وجوہات پر بات چیت کو دل کی زبان ملتی چلی گئی ۔
پڑھنے ، سوچنے اور لکھنے کے چاروں ، پانچویں سلسلوں میں ہمیشہ دل کی حکمرانی رہی ۔ الحمداللہ کبھی بھی لفظوں کی حرمت کو تجارت کی شکل نہ دے سکا ۔ شوق کا نام دیں ، عادت کہہ لیں ، فطرت ثانیہ کا عنوان دے دیں ۔ ڈائری اور شاعری کو ترک کرنے کے بعد گذشتہ تیس برسوں میں جو بھی لکھا ، جیسا بھی لکھا ، جتنا بھی لکھا ، نیت ہمیشہ خدمت خلق کی رہی ۔ یہ اللہ تعالی کا احسان عظیم ہے کہ اس نے ایک شوق ، ایک صلاحیت ، ایک عادت کو اپنی مخلوق کی خدمت کے لئیے وقف کروادیا ۔ تحریر کا رنگ بدلتا رہا ۔ مرکزی خیال یہاں سے وہاں پرواز کرتا رہا ۔ مگر گول واضح رہا ۔ کہ ہر تحریر میں ایسی کوئی چھوٹی بڑی بات ضرور ہو ، جس کے عملی استعمال سے کسی نہ کسی کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور حاصل ہو ۔
اب تک جو سمجھ میں آیا ۔ وہ بہت ہی مختصر سا ایک چھ نکاتی کلیہ ہے ۔ جسے اگر زندگی میں عملی شکل دے دی جائے ۔ یا دینے کی کوشش کرلی جائے تو ہماری زندگی بہت حد تک آسان اور خوشگوار ہوسکتی ہے ۔ درحقیقت ہر کوئی اپنی اپنی جگہ اسی چھ نکاتی فارمولے کے تحت زندگی گزار رہا ہوتا ہے ۔ یا گزارنے کی کوشش کررہا ہوتا ہے ۔ مگر شعوری سطح پر سوچے ، سمجھے اور جانے بنا ۔ جس کی وجہ سے بار بار معاملات بگڑتے رہتے ہیں ۔ اور اکثر یہ نوبت آجاتی ہے کہ معاملات کو سنوارنے کی ہر کوشش رائیگاں چلی جاتی ہے ۔ اور پھر کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ بنتی بات بھی اچانک پٹڑی سے اتر جاتی ہے ۔ اور ہمیں وجہ بھی پتہ نہیں چل پاتی ۔
ایک بہتر ، خوشگوار ، مطمئن اور کامیاب زندگی گزارنے کے لئیے چھ اہم اور بنیادی زاویوں میں تناسب اور یکجائی ضروری ہوتا ہے ۔
عام فہم زبان میں سمجھنے اور سمجھانے کے لئیے ہم زندگی کے ان چھ بنیادی زاویوں یا گوشوں کو یہ نام دے سکتے ہیں ۔
1- جسمانی ( Physical )
2 - جذباتی ( Emotional )
3 ۔ نفسیاتی ( Psychological )
4 ۔ سماجی ( Social )
5 ۔ معاشی ( Economical )
6 ۔ روحانی ( Spiritual )
دنیا کے ہر انسان کی زندگی کا دائرہ ان چھ بنیادی رنگوں کے تانے بانے سے بنا گیا ہے ۔ یہ چھ عناصر اگر ہموار اور متناسب ہوتے ہیں تو ہماری زندگی کی گاڑی روانی سے اپنی ڈگر پر چلتی رہتی ہے ۔ اور جونہی ان کا تناسب بگڑنے لگتا ہے ، ہمارے مسائل بڑھنے لگتے ہیں ۔
ہم سب ان چھ میں سے کسی ایک یا دو یا تین Areas کو زیادہ اہمیت دینے لگتے ہیں ۔ اور ان کی نوک پلک سنوارنے میں زیادہ وقت اور زیادہ توانائی خرچ کرتے رہتے ہیں ۔ یہاں تک کہ پھر ہمارے پاس باقی کے ایریاز کو برقرار رکھنے اور ان سب کے درمیان بیلنس قائم کرنے کا نہ وقت بچتا ہے ، اور نہ اس حوالے سے ہماری توجہ فوکس رہ پاتی ہے ۔
ہم میں سے بہت کم لوگ ہی ایسے ہوں گے جو اپنی جسمانی اور ذہنی صحت کو ہمہ وقت توانا اور متحرک رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے قلبی اور جذباتی معاملات کی کانٹ چھانٹ بھی کرتے ہوں گے ۔ اور یہ ہی نہیں بلکہ اپنے سماجی اور معاشرتی Role کو بھی خوش اسلوبی سے نبھاتے ہوں گے ۔ اور ان چاروں زاویوں کو زندہ رکھتے ہوئے اپنی دنیاوی اور معاشی ذمہ داریوں کو بھی بتدریج کامیابی کی جانب کے سفر پر رواں دواں رکھے ہوئے ہوں گے ۔ اور محض یہی نہیں ، بلکہ مذہبی فریضوں کو نہایت دیانت داری سے پورا کرتے ہوئے اپنی روحانی اور اخلاقی طاقت میں بھی اضافے کی تگ و دو میں مصروف عمل رہتے ہوں گے ۔
روحانی توانائی محض عبادات کی باقاعدگی سے ہی نہیں حاصل ہوتی ۔ سچائی ، ایمانداری اور حسن سلوک بھی ہماری روح کی پیاس بجھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔
دو گھنٹے روزانہ کے فزیکل ورک اپ سے ہی جسمانی صحت برقرار نہیں رہتی ۔ کام اور آرام اور نیند کے ساتھ غذا کا درست انتخاب بھی برابر کا کردار ادا کرتا ہے ۔
اپنے دل کو روشن رکھنے کے لئیے محض خوشگوار جذبات رکھنا ہی کافی نہیں ہوتا ۔ لوگوں کی بھلائی کا سوچنا بھی اہم ہوتا ہے ۔
اپنی ذہنی صحت کو بھرپور رکھنے کے لئیے خاص طور پر کاونسلنگ کے سیشن لینا ضروری نہیں ہوتے ۔ اگر ہم انفرادی سطح پر ہی سیلف مینجمنٹ اور ٹائم مینجمنٹ کا ہنر سیکھ لیتے ہیں تو اسٹریس مینجمنٹ اور اینگر مینجمنٹ کے ذریعے ہم خود کو بہت حد تک غصے اور اعصابی دباؤ سے بچا کے رکھ سکتے ہیں ۔
سماجی اور معاشرتی معاملات کو خوش اسلوبی سے چلانے کے لئیے کسی اسٹیٹ آف دی آرٹ کلیے کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ گھر والوں ، رشتہ داروں ، پڑوسیوں اور دوستوں کے ساتھ متناسب اور متوازن وقت گزارتے رہنے سے ہمارا سوشل سرکل ہموار اور خوبصورت بنا رہتا ہے ۔
اپنی معاشی ضروریات پوری کرنے اور اپنی ذاتی معیشت کو مستحکم کرنے کے لئیے ہمہ وقت آمدنی میں اضافے کا سوچتے رہنے سے معاشی مسائل حل نہیں ہوتے ۔ باقاعدہ بجٹ بنانا پڑتا ہے ۔ کمائی کو اخراجات کے حوالے سے بیلنس کرنے کے لئیے اپنے خرچوں کو کم کرنا پڑتا ہے ۔ تبھی ہم ہاتھ پھیلانے سے خود کو بچا سکتے ہیں ۔
جسمانی ، جذباتی ، نفسیاتی ، سماجی ، معاشی اور روحانی دائرے جب تک اپنی اپنی جگہ Smoothly کام نہیں کریں گے ، اس وقت تک ان دائروں کے درمیان Harmony اور Equilibrium پیدا نہیں ہوگا ۔ اور جب تک یہ دونوں کام ساتھ ساتھ نہیں ہوں گے ، تب تک کسی بھی شخص کی زندگی سکون اور آرام کے ساتھ نہیں گزر سکے گی ۔ اور میرے ، تمھارے اور ہمارے مسئلے بڑھتے چلے جائیں گے ۔
میں اپنے طور پر تو ہر ممکن کوشش کرتا ہوں کہ اپنی اس تھیوری کے مطابق اپنی زندگی کے ان چھ اہم زاویوں اور دائروں کو برابر کی توجہ اور توانائی دے کر ایک خاص تناسب کے ساتھ لے کر چلتا رہوں ۔ کسی روز ، انیس بیس کے فرق سے بیلنس برقرار رہتا ہے اور کسی دن ذرا زیادہ جدوجہد کرنی پڑتی ہے ۔ کوشش یہی رہتی ہے کہ ہفتے یا مہینے کے آخر میں ، کسی دائرے میں جو جو کسر رہ جاتی ہے ، اسے کسی حد تک Compensate کرلیا جائے ۔ اس کے باوجود کہیں نہ کہیں جھول رہ جاتا ہے اور اکثر معاملات الجھ جاتے ہیں ۔ الجھاوں اور مسئلوں کی ڈھیریاں اس بات کی صداقت میں گواہی دے رہی ہوتی ہیں کہ ہم کتنی بھی کوششیں کرلیں ، کتنی بھی تھیوریز بنا کر انہیں عملی شکل میں ڈھال لیں ، ایڑی چوٹی کا زور لگا لیں ، ہم جیتے جی وقتی طور پر Euphoric تو ہوسکتے ہیں مگر مستقل Utopia میں نہیں رہ سکتے ۔ کہ ہم کبھی بھی کلی طور پر اپنے مسائل سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے ۔
حقیقت جب یہ ہی ہو کہ زندگی ایک کے بعد ایک اور مشکل ، ایک اور مسئلے کا سامنا کرنے کا ہی نام ہے تو پھر کیا ہر وقت اپنے مسئلوں کا رونا گانا ۔ اونٹ کی رسی باندھنے کا حکم ہے ۔ حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالی نے لیا ہے ۔ اپنے مسائل کے حل کی ہر ممکن شعوری کوشش کرنا ہماری ڈیوٹی ہے ۔ اور اس مقصد کے لئیے ہر ممکن صحیح طریقے کو استعمال میں لانا بھی ضروری ہے ۔ مگر مسئلوں کا حل ، رب اور قدرت کی رضا اور مصلحت کے بنا ممکن نہیں ۔
صورتحال جب یہ ہی ہو تو ہمارے لئیے Best Option صبر اور شکر کا بچتا ہے ۔ کہ اس صورت بازی ہارنے کے باوجود بھی مات نہیں ہوتی ۔ مسائل برقرار رہنے کے باوجود بھی مسائل کی شدت اور حدت ہماری استقامت میں دراڑیں نہیں ڈال پاتی ۔


" میرے مسئلے "
نیا کالم/ بلاگ / مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ،
جسمانی ، روحانی ، جنسی اور منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ ۔

www.drsabirkhan.blogspot.com
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
www.g.page/DUAAGO

جمعرات، 30 جنوری، 2020

ھوم لینڈ ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

" ھوم لینڈ "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان


کل دوپہر Homeland کے ساتویں سیزن کی آخری قسط دیکھی ۔ جو 2018 میں ٹیلی کاسٹ ہوا تھا ۔ رات میں کافی دیر تک سوچتا رہا کہ اب کیا شروع کرنا ہے ۔ کوئی کتاب یا کوئی اور سیزن ۔ پھر خیال آیا کہ گزشتہ دنوں Blacklist کا آخری سیزن ختم کرنے کے بعد بھی Frederick Forsyth کی 2014 میں شائع ہونے والی The Kill List پڑھی تھی ۔ تو کیوں نہ اب بھی کوئی کتاب نکالی جائے ۔
تنہائی ، فرصت اور ڈپریشن کے لمحات مزیدار سردیوں میں اور بھی سرد مہری برتنے لگتے ہیں ۔ اور سوچ کے پر جل جل کر پگھلنے لگتے ہیں ۔ ایسے سمے دل چاہتا ہے کہ کچھ دیر کو تخیل کی کھڑکیاں کھول کر خود کو کھلا چھوڑ دیا جائے ۔ ایسے سمے حقیقت اور حقیقی مسائل کی تلخیوں کو وقتی طور پر فراموش کرکے ہی اندر کی طاقت کو Restore کیا جاسکتا ہے ۔
ایسے سمے کتاب اور کہانی کی رفاقت ، تنہائی کے احساس کو Sideline کرکے نئے خوابوں کے سفر پر روانگی کو ممکن بناتی ہے ۔ اس بار کے سفر کا قرعہ فال ، ابن صفی کی جاسوسی دنیا کے نام نکلا ۔ بستر کے سرہانے بنی دیوار کی الماری کے ایک خانے میں رکھا گتے کا ایک بڑا ڈبہ ۔ جس میں جاسوسی دنیا کا پورا سیٹ رکھا ہوا ہے ۔ اس میں سے Random Pick میں دو کتابیں نکال لیں ۔ اور نمبر 70 اور 71 والی کتاب پڑھنی شروع کردی گئی ۔ آج سے 63 سال پہلے 1957 میں یہ دونوں حصے شائع ہونے تھے ۔
' جاپان کا فتنہ ' اور ' دشمنوں کا شہر ' ۔ گو پہلے بھی دو تین بار یہ کتابیں پڑھی جاچکی ہیں ۔ مگر اس بار پھر وہی لطف اور اسی دلچسپی کا رنگ تھا جو ماضی میں رہا تھا ۔ لطف ، تفریح اور دلچسپی کے ساتھ ساتھ ابن صفی کی عمران سیریز کے 122 اور جاسوسی دنیا کے 127 ناولوں کا مرکزی خیال ہمیشہ اپنے وطن کے خلاف سازش میں ملوث اور قانون اور اخلاق کی دھجیاں بکھیر دینے والے مجرموں کو کیفر کردار تک تک پہنچاتے ہوئے دکھانا ہوتا تھا ۔ اور ہر کہانی میں جیت قانون کے رکھوالوں کی ہوا کرتی تھی ۔ معمولی نوعیت کے جرائم سے لیکر بین الاقوامی لٹیروں کے کرتوت ، سبھی ، ان کی کہانیوں کا حصہ ہوتے تھے ۔ اور ہر کہانی کا اختتام ، حق اور سچ کی جیت پر ہوتا تھا ۔ تجسس اور تفریح کے امتزاج کے ساتھ شاندار اور جاندار ادب کی تخلیق اپنی جگہ ۔ ایسا ادب جس نے بلا مبالغہ اردو زبان سے شد بد رکھنے والی پانچ نسلوں کو کسی نہ کسی شکل میں Inspire اور متاثر کیا اور کررہا ہے ۔
تحیر ، تجسس ، جستجو ، اور نامعلوم اور مخفی رازوں اور باتوں کی تلاش اور تحقیق اور ان سب پر سے پردہ اٹھانے کی تگ و دو کی حس ، کچھ کم کچھ زیادہ ، دنیا کے ہر انسان کی جبلت اور نفسیات کا حصہ ہوتی ہے ۔
سسپنس ، ایڈونچر ، اور فوق الفطرت واقعات پر مبنی کہانیاں اور داستانیں اسی وجہ سے تاریخ کے ہر دور میں مشہور اور مقبول ہوئی ہیں ۔ خواہ وہ مکمل فرضی اور تخیلاتی ہوں یا حقیقت اور حقیقی زندگی پر مبنی ۔ ایسی کہانیوں کے تانے بانے ، جب جب ، دل میں اتر جانے والے انداز اور الفاظ میں باندھے گئے ، انہوں نے شہرت اور مقبولیت کے نئے جھنڈے گاڑ دئیے ۔ اور ان میں سے کچھ تو کئی سو سالوں تک زندہ اور متحرک بھی رہیں ۔
وہی کہانیاں عرصہ دراز تک اپنی شگفتگی اور تازگی برقرار رکھ پاتی ہیں ۔ جو انسان کی بنیادی نفسیات کے تضادات اور انسان کے خوابوں ، خیالوں ، جذبوں اور خواہشوں کی سچی نمائندگی کرنے کے ساتھ ، ہر عمر اور ہر دور کے انسان کو وقتی طور پر زندگی کے تلخ مسائل سے دور کرکے ، اسے ذہنی سکون اور دلی اطمینان کی ایسی کیفیت سے ہمکنار کرتی ہوں جو اسے ازسرنو ترو تازہ ، توانا اور شاداب کردے اور اس کی ذہنی و جسمانی تھکن دور کرکے ، اسے دوبارہ سے زندگی کے مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لئیے تیار کردے ۔
اور اس کے تخیل کی پرواز بڑھا کر ، اسے نئے اور بھرپور آئیڈیاز سے روشناس کرا سکیں ۔
جو کہانیاں ، اس معیار پر پورا نہیں اتر پاتیں ، وہ قلیل عرصے میں نام اور دام کما کر لوگوں کے ذہنوں اور دلوں سے محو ہوجاتی ہیں ۔ زیادہ مدت تک اپنی دلچسپی برقرار نہیں رکھ پاتیں ۔ اپنے اپنے وقتوں میں بڑے بڑے نامور لکھاری آئے ، انہوں نے بہت کچھ لکھا ، نام بھی کمایا ، پیسہ بھی کمایا ۔ مگر آج ان کی تحریروں کو پڑھنے والا یا ان کے شہہ پاروں کو دیکھنے والا کوئی بھی نہیں ۔ یہاں تک کہ ان کے نام اور ان کے کام سے بھی زیادہ لوگوں کو شناسائی نہیں ۔ ساٹھ ، پینسٹھ سال پہلے کے ادبی کاموں اور فلموں کو ہی دیکھ لیجئیے ۔ آج کی نسل کو ابن صفی کی کتابوں سے نہ سہی ، کم از کم ان کے نام سے آگاہی ضرور ہے ۔ جبکہ ان کے ہم عصر قلم کاروں میں سے شاید ہی کسی کسی کا نام کسی کو پتہ ہو ۔
آج کی نسل بہت ذوق و شوق سے " ھوم لینڈ " یا " بلیک لسٹ " یا " ہاوس آف کارڈز " جیسے انگریزی ڈرامے اور سیزن دیکھ رہی ہے ۔ لیکن قوی امکان اس بات کا ہے کہ " دی سینٹ " یا " دی پرسیوڈرز " یا " سکس ملین ڈالر مین " کے چالیس ، پینتالیس سال پرانے ڈراموں کی طرح ایک وقت ایسا آئے گا ، جب آج کے " سیزن " بھی پرانے ہو جائیں گے ۔ اور آنے والے وقتوں کے لوگ ان کے نام سے تو ہوسکتا ہے واقف رہیں مگر ان کو دیکھنے میں دلچسپی رکھنے والے لوگ نہیں ہوں گے ۔ یہ قدرت کا قانون بھی ہے ۔ اور یہ ہر زمانے ، ہر وقت کے اپنے اپنے معیار بھی ہیں ۔ کہ بہت ہی کم کم انسانی تخلیقات ایسی ہوتی ہیں یا ہوسکتی ہیں جو ہر زمانے کے انسانوں کی ذہنی تفریح اور دلچسپی کا باعث بن سکیں ۔ اور ہر موسم ، ہر سیزن میں اپنی کشش برقرار رکھ سکیں ۔
درحقیقت وہی تحریر یا آج کل کے زمانے کے طور طریقوں کے حوالے سے اسی ڈرامہ یا فلم کا لکھا گیا اسکرپٹ لمبی عمر پا سکتا ہے ، جو سماجیات ، عمرانیات ، معاشرت ، اخلاقیات ، نفسیات ، روحانیت اور انسانیت کے ہر اینگل ، ہر زاویے ، ہر نکتے پر ممکنہ حد تک Non Controversial ہو اور اسے پڑھنے ، دیکھنے اور سننے والے معاشرے کے ہر طبقے سے تعلق رکھتے ہوں ۔ اور ہر مکتبہ فکر کا فرد اس میں اپنی ڈوب کر اپنی روح کی تنہائی کو دور کرسکتا ہو اور اپنی توانائی کو ری چارج کرسکتا ہو ۔ خواہ وہ دس سال کا ہو یا اسی سال کا ۔ مرد ہو یا عورت ۔ انگوٹھا چھاپ جاہل مطلق ہو یا پانچ مضامین میں پی ایچ ڈی ۔
کسی بھی رنگ و نسل کا ہو ۔ اس کی مادری زبان کچھ بھی ہو ۔ جھونپڑی میں رہتا ہو یا کسی محل کا مکین ہو ۔ شریف ہو یا بدمعاش ۔ دھوکے باز ہو یا ایماندار ۔ کسی گاوں دیہات کا باسی ہو یا شہر کا رہائشی ۔ اسے وہ تحریر ، وہ ڈرامہ ، وہ فلم اپنی اپنی سے لگے ۔ اس میں اسے اپنی روح یا اپنے خوابوں کا عکس چھلکتا ہوا دکھائی دے ۔ اور کچھ دیر کو وہ اپنی زندگی کے تمام مسائل بھول سکے ۔ کسی ایک خاص مکتبہ فکر یا نظریہ یا خیال کے تحت لکھا جانے والا ادب ہو یا اسکرپٹ ہو یا ڈائیلاگ ، اپنے زمانے کے پڑھنے اور دیکھنے والوں میں اونچا مقام تو ضرور پاتا ہے مگر اسے خاص و عام میں یکساں پذیرائی نہیں حاصل ہو پاتی ۔ شیکسپیئر ہو یا ورڈزورتھ ، گورکی ہو یا ٹالسٹائی ، خلیل جبران ہو یا غالب ، سعدی ہو یا رومی ، سب کے نام اور کام آج بھی زندہ ہیں ، مگر مخصوص حلقوں میں ۔
آج کا قاری ، آج کا ناظر ، آج کا سامع ، آج کا انسان ہے ۔ آج کے انسان کی نفسیاتی شخصیت کا حامل ۔ آج کی ضرورتوں ، خواہشوں ، آج کے خوابوں ، جذبوں کا قیدی ۔ آج کے ماحول کا اسیر ۔ ہزار برس بعد پھر ایک بار داستان گوئی کے زیر حصار ۔ پڑھنے سے زیادہ ناٹک دیکھنے اور کہانی سننے کا اشتیاق ۔
مگر برسوں پرانی وہ کہانیاں آج بھی اپنا طلسم رکھتی ہیں ، جو اگر سنائی اور سنی جائیں تو دل میں اترتی چلی جائیں ۔ اور جن کو اگر ڈرامائی اور فلمی شکل دی جائے تو آج کے انسان کو لگے کہ یہ تو آج ہی کا قصہ ہے ۔ یہ تو آج ہی کی کہانی ہے ۔ ہیری پوٹر اور داستان الف لیلہ میں کوئی زیادہ فرق تو نہیں ۔ لارڈ آف رنگز ہو یا طلسم ہوش ربا ، ایک ہی رنگ اور انداز کا بیان ہے ۔ یہ تو وہ دو چار نام ہیں جو دنیا کے کونے کونے کے پڑھنے اور دیکھنے والوں کے علم میں ہیں ۔ اپنے اپنے علاقوں اور خطوں کی اپنی اپنی صدیوں پرانی داستانیں ہیں جو اپنے اپنے علاقوں میں زندہ اور تابندہ ہیں ۔ ہر ملک ، ہر ھوم لینڈ کی اپنی تاریخ ، اپنی تہذیب ، اپنی ثقافت کی طرح اپنا ادب ہے ۔
اسرائیل کی ایک ڈرامہ سیریز سے لئیے گئے مرکزی خیال کو امریکہ کے ایک ٹی وی چینل نے " ھوم لینڈ " کے نام سے ڈرامہ سیریز تشکیل دی ۔ جس کا آٹھواں سیزن غالبا اس سال ٹیلی کاسٹ ہونے جارہا ہے ۔ اپنے ملک اور اپنے ملک کی پالیسی کو صحیح دکھانے کے لئیے ایسی فرضی کہانیوں کا جال ، جو درحقیقت ، امریکہ کی حقیقی پالیسیوں کی نشاندہی کررہا ہے ۔
اور اس نوعیت کی ہزاروں فلمیں اور دیگر ڈرامے اور ناول ۔ جو تفریح کے ساتھ آج کے انسان کی صحیح غلط ذہن سازی کررہے ہیں ۔ آج کے ادب کی ایک انتہائی خطرناک اور بگڑی ہوئی صورت ہیں ۔ جو دنیا کے کونے کونے میں پڑھے اور دیکھے جارہے ہیں ۔ اور شہرت اور مقبولیت پارہے ہیں ۔ کیونکہ ان کی اکثریت متنازعہ خیالات کی بھی عکاسی کررہی ہے اور اپنے ٹارگٹیڈ قارئین اور ناظرین اور سامعین کو نفرت ، انتقام اور ظلم اور تشدد پر بھی اکسا رہی ہے ۔ اور جھوٹ اور فریب کے ایسے پروپیگنڈے کو بھی ہوا دے رہی ہے ، جو سچائی اور حقیقی معاملات کو توڑ مروڑ کر دنیا کے مختلف مذاہب اور مختلف قوموں اور مختلف تہذیبوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرکے کبھی نہ ختم ہونے والی جنگوں کے سلسلے کو دراز کررہا ہے ۔
المیہ یہ ہے کہ پروپیگنڈے پر مبنی اس تحریری اور بصری لٹریچر کے توڑ میں کچھ بھی تخلیق نہیں کیا جارہا ۔ ہمارے نوجوانوں کو اس خاموش سیلاب کے سپرد کردیا گیا ہے ۔ ہمارے یہاں ادب اور ادبی اصناف کے نام پر جو کچھ بھی لکھا یا فلمایا جارہا ہے ، اس کا زمینی حقائق سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ۔ یا تو فکشن برائے فکشن ہے ۔ اور یا موروضی حقائق کے نام پر محض سیاست اور سیاست دانوں کی ریشہ دوانیوں اور کرتوتوں کی کہانیوں پر گرما گرم بحث ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ خالص تفریحی ادب بھی ناپید ہوچکا ہے ۔
یو ٹیوب ، وی لاگ اور بلاگ کے چکر میں آکر بڑے بڑے نامور ادیب اور دانشور بھی چکرا چکے ہیں ۔ اور ہنس کی چال چلنے کی کوشش میں اپنی فطری صلاحیت کو اپنے ہاتھوں قتل کرچکے ہیں ۔ اپنی جگہ ان کا یہ قدم کچھ ایسا غلط بھی نہیں ۔ ہمارے یہاں لکھنے والوں کو Taken As Granted لیا جاتا ہے ۔ ماسوائے ان کے ، جو اپنے منہہ اپنی قیمت لگاتے ہیں اور چمک دمک کے عوض اپنے آپ کو پورے کا پورا بیچنے کی اہلیت رکھتے ہیں ۔ اور ایسے لکھاری کبھی بھی نان کمرشل ادب تخلیق نہیں کر پاتے ۔ کیونکہ ان کے لکھے ہوئے اور کہے ہوئے لفظ ، روح سے خالی ہوتے ہیں ۔ روح سے عاری کوئی بھی تحریر لمبی عمر نہیں پا سکتی ۔ اور جو اپنے خون سے خواب بنتے اور دکھاتے ہیں ، ان کی قدر یہ بے قدر اور بے حس معاشرہ نہیں کر پاتا ۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم سب ایسی تحریروں کو ترس رہے ہیں جو انسانیت اور اخلاقیات کے اعلی و ارفع مشن کو مدنظر رکھتے ہوئے لکھی گئی ہوں ۔ یا انسان کو تفریح اور سہولت فراہم کررہی ہوں ۔ اور یا کچھ اور نہیں تو ، ملک اور وطن کی سالمیت اور بقا کو ہائی لائٹ کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہوں ۔ اور یا یہ بھی نہ ہو تو کم از کم کسی نہ کسی شکل میں انگریزی زبان کے پروپیگنڈا ناولز اور فلموں اور ڈراموں کے اسکرپٹس کا مقابلہ کرتے ہوئے نظر آتی ہوں ۔
جب یہی تلخ سچائی ہو تو ہمارے نوجوان اپنے ہوم لینڈ کی محبت میں ملوث ہونے کی بجائے یہاں سے ہجرت ہی کے بہانے ڈھونڈتے رہیں گے ۔ اور بیرون ملک آباد ہوکر ہنسی خوشی ہر طرح کی گالیاں برداشت کرتے ہوئے اپنی معیشت بہتر بنانے میں لگے رہیں گے ۔ اور جب ان کے پاس اپنی زبان میں پڑھنے اور دیکھنے کو مضبوط اور متحرک لٹریچر نہیں ہوگا تو یہ خلا بھی ایسے منفی اور پروپیگنڈے سے لبریز جھوٹے ، غیر حقیقی ادب سے ہی بھرے گا ، جس میں بات بے بات اور ہر بات پر اسلام اور مسلمانوں کو مورود الزام ٹھہرایا جارہا ہے ۔ اور پاکستانیوں سمیت ہر محب وطن مسلمان کو Terrorist اور فسادی قرار دیا جارہا ہے ۔ یہ ذہنی زہر آہستہ آہستہ اتنی ہوشیاری اور چالاکی سے تفریح کے نام پر نوجوانوں کو پلایا جارہا ہے کہ نہ پینے والوں کو کچھ پتہ چل رہا ہے ، نہ پلانے والوں کی آخری صفوں میں کھڑے لوگوں کو کچھ اندازہ ہے کہ وہ پردے کے پیچھے کھڑے اصل کھلاڑیوں کے کس مقصد کو اپنی لالچ یا نادانی کے سبب پورا کررہے ہیں ۔ تفریح اور ادب کے نام پر دنیا کے چپے چپے میں ، دنیا کے ہر فرد کے ذہن کو پراگندہ کیا جارہا ہے اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کے بیج بوئے جارہے ہیں ۔ اور ہر مذہب ، ہر قوم ، ہر ملک ، ہر تہذیب کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کھڑا کیا جارہا ہے ۔
اور ہمارے سچے اور سگے مسلمان ادیب ، دانشور ، صحافی ، شاعر ، بلاگرز ، وی لاگرز ، ڈرامہ رائیٹرز ، اسکرپٹ رائیٹرز ، پروڈیوسرز ، ڈائریکٹرز ، اینکرز ، صرف اور صرف اپنے اپنے نام کے دام کھرے کرنے میں مصروف ہیں ۔ کوئی ایک بھی ایسا نہیں نظر آتا جو دل سے نوجوانوں کے معصوم اور شفاف دلوں کی ذہن سازی کررہا ہو یا کرتا ہوا دکھائی دے رہا ہو ۔ اپنا خون پلانا پڑتا ہے ۔ پھر کہیں جاکر نسلوں کی آبیاری ہوتی ہے ۔ پھر کہیں جاکر یہ تصور ، یقین کی صورت بچے بچے کے دل و دماغ میں جگہ پاتا ہے کہ " ھوم لینڈ " کہتے کسے ہیں ۔ مذہب اور وطن کی سالمیت اور حرمت ہوتی کیا ہے اور کیسے اس محبت کا شجر سینچا جاتا ہے ۔

" ھوم لینڈ "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ،
جسمانی ، روحانی ، جنسی و منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ شاعر ۔ بلاگر ۔ پامسٹ

www.drsabirkhan.blogspot.com
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
www.g.page/DUAAGO 

بدھ، 15 جنوری، 2020

مجھے غصہ کیوں آتا ہے ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

" مجھے غصہ کیوں آتا ہے ؟ "
نیا کالم / بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان


" البرٹ پنٹو کو غصہ کیوں آتا ہے " یہ جاننے کے لئیے آپ کو انیس سو اسی کی دھائی کے ابتدائی سالوں میں ریلیز ہونے والی انڈین آرٹ فلم دیکھنی ہوگی ۔ سچ یہ ہے کہ دنیا کے ہر انسان کو غصہ آتا ہے اور وہ اسے نکالنے پر مجبور ہوتا ہے ۔ اور دنیا کا ہر ذی ہوش انسان اپنے غصے کی ہزاروں تاویلات دیتا ہے ۔ ہر انسان اپنے اپنے غصے کو Justify کرتا ہے اور اپنے اپنے غصے کی ان گنت وجوہات بتاتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کے غصے کو صحیح سمجھا جائے اور غصے کی حالت میں اس کے رویوں اور غصے کی کیفیت میں اس سے سرزد ہونے والی حرکتوں اور باتوں کو درگزر کردیا جائے ۔ خواہ اس سے دوران غصہ ، سنگین سے سنگین جرم ہی کیوں نہ ہوگیا ہو ۔
درحقیقت غصے کی کیفیت انسان کے دماغ کو ماوف کردیتی ہے اور اس کے سوچنے سمجھنے کی اہلیت کو سلب کردیتی ہے ۔ اس کی وجہ دماغ کے اندر رونما پذیر کیمیائی تبدیلیاں ہوتی ہیں ۔ چند خاص ھارمونز ، چند خاص نیورو ٹرانسمیٹرز معمول کی مقدار سے کہیں زیادہ بننے لگتے ہیں ۔ جو پورے بدن اور دماغ کی کیمسٹری اور فزیالوجی کو یکسر تبدیل کر ڈالتے ہیں ۔ اور ہم غصے کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ کوئی فرد واحد یہ نہیں کہہ سکتا کہ اسے غصہ نہیں آتا یا اسے کبھی غصہ نہیں آیا ۔ جب بھی خلاف مرضی یا خلاف خواہش کوئی بات ہوتی ہے یا ایسی کوئی بات جو ہمارے جذبات کو مجروح کرے یا ہمارے کسی بھی طرح کے نقصان کا باعث بنے ، ہمیں غصہ دلا دیتی ہے ۔
انسانی نفسیات کی ان گنت اشکال کی طرح غصے کی بھی کئی قسمیں ہوتی ہیں ۔ کسی کو بہت زیادہ غصہ آتا ہے ۔ کسی کو کم کم ۔ کسی کا غصہ بہت دیر تک رہتا ہے ۔ اور کسی کا غصہ بہت جلد ٹھنڈا پڑ جاتا ہے ۔ کسی کو بہت دیر میں غصہ آتا ہے ۔ اور کسی کو بات بات پر غصہ آجاتا ہے ۔ کسی کا غصہ ذرا نرم اور ملائم ہوتا ہے ۔ اور کسی کا غصہ بے حد گرم اور آگ لگا دینے والا ہوتا ہے ۔
مومن خان مومن کا مشہور شعر شاید آپ کی نگاہ سے گزرا ہو ۔ ' ان کو آتا ہے پیار پر غصہ ۔ ہم کو غصے پر پیار آتا ہے ' ۔ اس نوعیت کی کیفیت عام طور پر اردو کے رومانی ناولوں اور فلموں میں دیکھنے میں آتی ہے ۔ عام زندگی میں غصے پر غصہ ہی آتا ہے ۔ اور جب سے توزن اور احترام اور برداشت ہمارے اندر سے رخصت ہوا ہے ۔ تب سے تو اینٹ کا جواب پتھر سے نہیں ، بلکہ پہاڑ سے دینے اور دلانے اور مزہ چکھانے کا مزہ ہر ایک کو لگ چکا ہے ۔ بدلے اور انتقام کو ہم نے چھوٹے سے چھوٹے معاملے سے لےکر بڑے بڑے معاملات کا بنیادی جز بنا دیا ہے ۔ اور غصے کا برملا اور کھلم کھلا اظہار ہمارے کردار کا امتیازی نشان بن چکا ہے ۔
کسی کی باضابطہ بدتمیزی اور زیادتی پر تو غصے کا آنا اور غصے کا اظہار ایک حد تک منصفانہ کہا جاسکتا ہے ۔ مگر چونکہ غصہ ایک ایسا منفی جذبہ ہے جو پل بھر میں جنون کی شکل اختیار کر جاتا ہے اور پھر جنون کے بے قابو جن کو ہم سمیت کوئی بھی اپنے اپنے نفس کی بوتل میں دوبارہ بند نہیں کرسکتا ۔ تو مظلوم کو ظالم بنتے دیر نہیں لگتی ۔ اور نہ ختم ہونے والی ایک ایسی داستان شروع ہو جاتی ہے ۔ جو فرد سے فرد کے جھگڑے کو معاشرتی فساد اور انارکی میں بدل دیتی ہے ۔ گھر کے گھر ، خاندان کے خاندان تو کیا ، کبھی کبھی تو پوری کی پوری قوم اور سارے کا سارے ملک ایک ایسی گھٹن زدہ ، دھوئیں آلود فضا میں رہنے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔ جو معصوم اور مظلوم کی شناخت کئیے بنا ہر ایک کی نفسیات اور شخصیت میں اتنی زیادہ توڑ پھوڑ مچا دیتی ہے کہ کئی کئی نسلیں اپنا قصور جانے بنا کسی ایک فرد کی ضد ، انا ، تکبر ، غصے اور نفسیاتی بیماری کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں ۔
اسی وجہ سے نہ صرف ہمارے مذہب اسلام میں بلکہ ہر مذہب میں غصے کو حرام اور ممنوعہ قرار دیا گیا ہے ۔
مگر چونکہ دنیا کے ہر فرد نے اپنے اپنے مذہب کی روح کو اپنے اندر اتارے بنا مذہبی عبادات اور معاملات کو رسومات کی شکل میں ڈھال دیا ہے ۔ تو کوئی بھی اس نکتے کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا کہ مذہب سے لیکر نفسیاتی امراض کے ماہرین تک ، ہر ذی ہوش اور دانش مند فرد کسی کی بھی شخصیت اور نفسیات کا جائزہ لیتے وقت کیوں غصے کے جذبے اور غصے کے اظہار کی علامات کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے ۔ اور کیوں غصے کی موجودی یا غیر موجودی کی بنیاد پر ہر حساس سرکاری ادارے یا کسی بھی بڑی آرگنائزیشن میں Selection یا Rejection کے فیصلے کئیے جاتے ہیں ۔ بہت سی جگہوں پر تو ابتدائی انٹرویوز میں آنے والے امیدواروں کو جان بوجھ کر غصہ دلایا جاتا ہے ۔ اور ان کے Threshold کا اندازہ لگا کر ان کو اگلے مرحلے کے لیے پاس یا فیل کیا جاتا ہے ۔
اسی طرح ان گنت دیگر اداروں کی Key Posts کے لئیے انہی افراد کا انتخاب کیا جاتا ہے جو اپنے غصے کو کنٹرول کرنے کا فن جانتے ہیں ۔
آپ کو جب غصہ آتا ہے تو آپ کیا کرتے ہیں ۔ اپنا غصہ کس طرح اتارتے ہیں یا کیسے اسے ٹھنڈا کرتے ہیں ۔ غصہ پی لیتے ہیں یا چنگھاڑنا شروع کر دیتے ہیں ۔ اپنا خون جلا کر اپنے آپ کو نقصان پہنچاتے ہیں یا دوسروں کے رونگٹے کھڑے کر دیتے ہیں ۔ خاموش اور خفا ہوجاتے ہیں ۔ یا دل میں کدورت اور کینہ پالنا شروع کر دیتے ہیں ۔ بدلے کی سوچتے ہیں یا غصہ دلانے والے کو معاف کردیتے ہیں ۔
غصے کی بات پر غصہ آنا نارمل ہے ۔ بلاوجہ بار بار کا غصہ ابنارمل اور دیوانے پن کی نشانی ہے ۔ ہر چھوٹی چھوٹی بات پر غصے میں آجانا ، کمزور اعصابی نظام کی موجودگی کا پتہ دیتا ہے ۔
مضبوط اور توانا اعصابی نظام کے حامل افراد ہی غصے ، بلکہ شدید ترین غصے کی حالت میں بھی فوری طور پر React کرنے سے گریز کرتے ہیں ۔ اور اپنے غصے پر قابو پانے اور اسے قابو میں رکھنے کی قدرت رکھتے ہیں ۔ کچھ لوگ قدرتی طور پر مضبوط اعصاب کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں ۔ کچھ لوگوں کے اعصاب ، وقت اور عمر کے ساتھ کمزور پڑتے چلے جاتے ہیں ۔ کچھ لوگوں کے حالات زندگی اور ان کو درپیش مسائل اور ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور رہنے والوں کے سلوک اور رویے ان کے اعصاب کو توڑ پھوڑ کر ان کے اندر کے غصے کو ہوا دیتے رہتے ہیں ۔ کچھ لوگ پیدائشی طور پر کمزور اعصاب کے مالک ہوتے ہیں ۔ بہت ہی کم لوگ اپنی زندگی کے آخر تک اپنے اعصاب کو یکجا اور یکسو رکھ پاتے ہیں ۔
غصے کی کوئی سی بھی صورت ہو ۔ اعصاب کی کیسی بھی حالت ہو ۔ ہم چاہیں تو کافی حد تک اپنے اعصاب کو مضبوط کرنے اور اپنے غصے کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں ۔ یہ اسی وقت ممکن ہے ، جب ہم نہ صرف اپنے اندر کے غصے سے اچھی طرح واقف ہوں بلکہ اس بات کی شعوری خواہش بھی رکھتے ہوں کہ ہمیں اپنے غصے کو اپنے اوپر کبھی حاوی نہیں ہونے دینا ۔
ایک زمانہ تھا جب مجھے بہت کم غصہ آتا تھا ۔ اور اگر آتا بھی تھا تو زیادہ تر خاموش رہ کر اور اپنے غم و غصے کو اپنے اندر ہی اتار کر کام چلا لیا کرتا تھا ۔ پھر مجھے بھی غصہ آنے لگا ۔ اور اب گزشتہ دس پندرہ سالوں سے تو بہت زیادہ غصہ آنے لگا ہے ۔ مجھے تو میرے غصے کو پیدا کرنے والی وجوہات کا بڑی حد تک علم ہے ۔ اور بڑی حد تک میری کوشش بھی رہتی ہے کہ میں ان وجوہات کو ، جو میرے اختیار میں ہیں ، کم کرنے کی مستقل کوشش میں لگا رہوں ۔ لیکن بہت سی وجوہات ایسی بھی ہیں جو قدرت کی پیدا کردہ ہیں اور ان پر میرا کوئی اختیار نہیں ۔ ان وجوہات پر مجھے صبر کرنا پڑتا ہے ۔ شکر کرنا پڑتا ہے ۔ تنہائی کے خول میں خود کو بند کرکے مراقبہ کرنا پڑتا ہے ۔ تب کہیں جا کر 24 گھنٹوں میں لوٹ پوٹ کر غصہ ٹھنڈا پڑتا ہے ۔ آپ بھی سوچیں کہ آپ کن باتوں پر سیخ پا ہوتے ہیں اور آپ کا غصے کا لائف اسپین کتنا ہے ۔ جس غصے کی معیاد ہفتے سے زیادہ ہونے لگے ، وہ کمزور اعصاب کی نشانی ظاہر کرتا ہے ۔ اور اگر کسی بھی معمولی یا شدید بات پر آنے والا غصہ مہینے سے زیادہ برقرار رہے تو انتہائی کمزور اعصابی نظام اور کمزور شخصیت کی عکاسی کرتا ہے ۔ اور جن لوگوں کا غصہ سالوں رہتا ہے ، اور وہ بدلے اور انتقام کے درپے رہتے ہیں یا اس حوالے سے پلان بناتے رہتے ہیں ، وہ کمزور اعصابی نظام اور کمزور شخصیت کے ساتھ ساتھ کھوکھلی روح اور کینہ پرور اور سیاہ قلب کے مالک ہوتے ہیں ۔ ماہرین نفسیات بھی ایسے لوگوں کا کچھ خاص نہیں بگاڑ پاتے ۔
ہم اور آپ اگر دل سے چاہیں تو اپنے غصے کو ذرا ملائم ، ذرا دھیما ، ذرا ٹھنڈا کر بھی سکتے ہیں اور رکھ بھی سکتے ہیں ۔ آئیے کچھ آسان اور آزمودہ طریقوں کو Revise کرکے Revive کرتے ہیں ۔ جن کی مدد سے ہم غصے کو فہم کی لگام دے سکتے ہیں ۔ آپ بھی ان طریقوں سے ضرور واقف ہوں گے ۔ کسی بھی بات کی تکرار اور خصوصا اچھی بات کی بار بار تکرار اسے ہمارے لاشعور کا حصہ بنا دیتی ہے ۔ تو آج اپنے اپنے غصے کے روک تھام کے چند طریقوں کو دہرا کر دیکھتے ہیں ۔
1۔ درود ابراھیمی کا کثرت سے ورد ۔ جب جب وقت ملے اور وقت تو ملتا ہی رہتا ہے ۔ ہمیں درود ابراھیمی پڑھتے رہنا چاہیئے ۔ اس عمل کے ہزاروں فوائد میں سے ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ ہمارے اعصاب مستقل تقویت اور توانائی پاتے رہتے ہیں ۔ اور ہمارا غصہ اس حد تک کم ہوجاتا ہے کہ جہاں جہاں غصے کے اظہار کی واقعی ضرورت ہوتی ہے ، وہاں بھی ہم چاہنے کے باوجود غصہ نہیں کر پاتے ۔
2 ۔ زیادہ سے زیادہ پیدل چلنا ۔ ننگے پاؤں یا فلیٹ سول شوز میں ۔ ھیل کے بغیر ۔ سادہ جوگرز کے جوتوں کے ساتھ ۔ پیدل چلنے کا عمل ، بدن اور دماغ کے اندر خون کے بہاو کو بڑھاتا ہے ۔ تازہ اور آکسیجن سے بھرپور خون جب دماغی خلیات کو سیراب کرتا ہے تو مقوی نیورو ٹرانسمیٹرز بنتے ہیں اور پرانے اور خراب اور ٹوٹے پھوٹے کیمیائی اجزاء ، پیشاب اور پسینے کی شکل میں خارج ہوتے رہتے ہیں ۔ خون اور دماغ میں جب طاقتور نیورو ٹرانسمیٹرز کی مقدار بڑھتی ہے تو اعصاب کو تقویت ملنا شروع ہوجاتی ہے ۔ اور غصہ ٹھنڈا پڑنے لگتا ہے ۔
3 ۔ گوشت اور کھانے پینے کی دیگر گرم اور مضر صحت اشیاء سے گریز ۔ مثلا چاول ، ڈبل روٹی ، بسکٹ ، لال مرچ ، کولڈ ڈرنکس ، چکنائی ، مٹھائی وغیرہ ۔ یہ سب چیزیں خون میں فاسد مادے پیدا کرکے ، دماغ تک پہنچنے والے خون کو کثیف اور آلودہ کرتی ہیں ۔ اور اعصاب کو کمزور کرتی ہیں ۔ ان چیزوں کو ضرورت سے زیادہ استعمال کرنے والے لوگ عام طور پر غصے سے بھرے رہتے ہیں ۔ ان کے برعکس پھل ، سبزیاں اور دالیں استعمال کرنے والے افراد کے اعصاب زیادہ مستحکم ہوتے ہیں ۔ اور ان کو غصہ بھی کم آتا ہے ۔
4 ۔ بھرپور اور پرسکون 6 سے 8 گھنٹے کی نیند ۔ مخصوص اور صحتمند نیورو ٹرانسمیٹرز کو پیدا کرنے اور خون اور دماغ میں ان کے تناسب کو برقرار رکھنے کے لئیے ضروری ہوتی ہے ۔ اور اعصابی نظام کو شکست و ریخت سے بچاتی ہے ۔
5 ۔ دھوپ اور تازہ ہوا ۔ دھوپ میں بیٹھنے سے وٹامن ڈی کی مقدار میں اضافہ ہوتا ہے ۔ جو بدن کے دیگر حصوں کے ساتھ ساتھ خون ، دل اور دماغ کو بھی فریش اور متحرک رکھتا ہے ۔ اسی طرح تازہ ہوا اعصابی نظام کے لئیے ٹانک کا کام دیتی ہے ۔
6 ۔ ہنسنا ۔ مسکرانا ۔ قہقہے لگانا ۔ اعصابی دباؤ کو کم کرکے ہلکا پھلکا کرتا ہے ۔ اینڈورفنز پیدا کرتا ہے ۔ اور غصے کی کیفیت کو ختم کرتا ہے ۔ کامیڈی فلم ہو یا طنز و مزاح پر مبنی کتابوں کا مطالعہ ۔ اور مختلف اوقات میں ان میں محو ہونے کی عادت ۔ قوت برداشت اور تحمل میں اضافے کا باعث بنتی ہے ۔
7 ۔ ڈائری لکھنا ۔ یا اپنے جذبات ، خیالات اور احساسات کو کاغذ و قلم کے سپرد کرنا ۔ یا مصوری اور رنگوں کا استعمال ۔ اندرونی اعصابی دباؤ میں کمی لاتا ہے ۔ اور غصے کے اظہار کو Mould اور Modify کرکے تخلیقی شکل دیتا ہے ۔
8 ۔ غصے کی حالت میں پانی پینا ۔ یا کسی کو غصے میں شرابور دیکھ کر اسے پانی پلانا ۔ خون کو پتلا کرنے میں مدد دے کر دماغ تک پہنچانے کے عمل کو بڑھاتا ہے ۔
9 ۔ تفریح اور مصروفیت میں تناسب ۔ فطرت کے مظاہر میں وقت گزاری ۔ وہ عوامل ہیں جو اعصاب کو دباؤ اور کھنچاؤ سے دور کرتے ہیں ۔ اور غصے کی حالت میں جانے سے روکتے ہیں ۔ مصروفیات کی زیادتی ہو یا بالکل فراغت ۔ دونوں چیزیں آہستہ آہستہ اعصاب کو کمزور کرتی رہتی ہیں ۔ اور انسان کے اندر غصہ جمع ہوتا رہتا ہے ۔
10 ۔ بوریت اور یکسانیت سے اجتناب ۔ روٹین لائف ہو یا روزمرہ کے مخصوص کاموں کی ایک ہی نہج پر ادائیگی ۔ نیورونز اور نیورو ٹرانسمیٹرز پر اچھا اثر نہیں ڈالتی ۔ نتیجے میں اعصابی کمزوری اور پھر اس کے بعد غصہ کے بڑھ جانے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ۔
تنوع اور رنگا رنگی اور Multitasking اعصاب کو انرجی فراہم کرتے ہیں ۔
ان دس باتوں کے علاوہ اور ہزار باتیں بھی ایسی ہیں جو اعصابی نظام کو مضبوط بنا کر غصے کے امکانات کو کم کرتی ہیں ۔ ان ہزار باتوں کو جاننے کے لئیے آپ کو اپنا مطالعہ اور مشاہدہ بڑھانا ہوگا ۔ جوں جوں آپ کی عقل اور سمجھ کا دائرہ وسیع ہوتا جائے گا ۔ آپ کی گفتگو کم ہوتی چلی جائے گی ۔ جوں جوں آپ کی باتوں کی لت میں کمی آئے گی ۔ آپ کا غصہ ، آپ سے ڈر کر دور بھاگتا جائے گا ۔ آزما کر دیکھئیے گا ۔ ان سب باتوں کے استعمال کے باوجود بھی اگر آپ کے غصے میں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ تو پھر کسی ماہر نفسیات کی مدد لینے میں ہی آپ کا ، آپ کے اردگرد کے لوگوں کا ، آپ کے ماحول اور محلے کا ، آپ کی قوم اور آپ کے ملک کا فائدہ ہے ۔ غصے کی فراوانی نے ، جذباتیت کے ہیجان نے ، انفرادی اور اجتماعی عقل اور فہم کو سولی پر لٹکا دیا ہے ۔ غصے اور جذباتیت میں اٹھایا جانے والا ہر قدم نئی تباہی ، نئی بربادی کی جانب لے جارہا ہے ۔ اور ہماری باتوں کے دریا بہے جارہے ہیں ۔ بڑھتے جارہے ہیں ۔

" مجھے غصہ کیوں آتا ہے؟ "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ،
جسمانی ، روحانی ، جنسی و منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ ۔

www.drsabirkhan.blogspot.com
www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
www.g.page/DUAAGO

جمعرات، 2 جنوری، 2020

اندھیرے کا سفر ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

" اندھیرے کا سفر "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

آج پھر وہ آئی تھی ۔ کئی ماہ کے بعد ۔ اپنے دل کا غبار ہلکا کرنے کے لئیے ۔ ڈھائی گھنٹوں میں Dun Hill کا آدھا پیکٹ دھوئیں کی نذر کرکے ، گزشتہ کئی ماہ کی روداد سنا کر چلی گئی ۔ میں کبھی کرسی کی پشت سے ٹیک لگاتا رہا ۔ کبھی دونوں ہاتھ میز پر رکھ کر اس کی آنکھوں میں جھانکتا رہا ۔ کبھی یوگا اور جم وزن کم کرکے باڈی کو شیپ میں لانے کی باتیں ۔ کبھی اس کے خاندان میں ہونے والی شادی کا ذکر ۔ کچھ شوہر کی معاشی تنگ دستی کا حال ۔ کچھ بڑھتی ہوئی مہنگائی سے گھر کا بجٹ آوٹ ہونے کا احوال ۔ کچھ اپنی جاب کی پریشانی ۔ کچھ اپنی اعلی تعلیم کے حصول میں درپیش مشکلات کی فکر ۔ کچھ اپنے بچوں کی تعلیم کی راہ میں حائل پیسوں کی کمی کا خیال ۔ کچھ بیرون ملک منتقل ہونے کے پلان ۔ اور کچھ دوسری شادی کا ارادہ ۔ مگر ہر بات ، ہر ارادہ آدھا اور ادھورا ۔ کچھ Grandiosity , کچھ Paranoia , کچھ Narcissum اور باقی کی پوری شخصیت پر
جنون و یاسیت Bipolar Disorder کے چمکتے اور بجھتے رنگ ۔ شوہر ان پڑھ ۔ خود سوشل اور اس حد تک دوستیاں کہ مرد اس کی خاطر ایک دوسرے کو مارنے اور مرنے پر تیار ۔
یہ ایک ایسی پڑھی لکھی ورکنگ وومن کی آدھی ادھوری کہانی ہے جسے جاننے اور چاہنے کے باوجود پوری بیان کرنا کردار اور اختیار سے باہر ہے ۔ اور یہ کسی ایک عورت کی کہانی نہیں ۔ ہمارے معاشرے کی ان گنت عورتیں ، آزادی نسواں کے نام پر اس حد تک آزاد ہوچکی ہیں کہ ان کی آزاد روی کی ہر کہانی ناقابل بیان ہوجاتی ہے ۔ کہ ان گنت خاندانوں کے شیرازے بکھرنے کا ڈر ان کہانیوں کو کہنے اور لکھنے سے روک دیتا ہے ۔ یہاں تک کہ فرضی نام اور دیگر حوالے بھی اسی احتیاط اور احترام کی نذر کردینے پڑتے ہیں کہ کہیں کوئی ذرا سا اشارہ بھی پردہ نہ اٹھا دے ۔ اور بھرے مجمع میں کسی کی عزت پر انگلیاں نہ اٹھنے لگیں ۔
جب اللہ تعالی پردے میں رکھنا پسند کرتا ہے تو ہم کون ہوتے ہیں پردہ ہٹانے والے ۔ ایسے میں مرکزی کردار کی چند چیدہ چیدہ ایسی مخصوص باتیں ہی ہائی لائٹ کرنی ہوتی ہیں ۔ جن سے اور کچھ لوگ استفادہ حاصل کر سکیں اور بروقت اپنی زندگی میں بہتر تبدیلیاں لا سکیں ۔
آج کی کہانی کی مرکزی کردار ہماری پیپ پڑی سوسائٹی کی عکاسی کرتی ہے ۔ اس طرح کی کئی عورتیں اپنی اپنی کہانیاں اپنے اپنے وقتوں میں بیان کرتی رہی ہیں ۔ ان کی خوبصورتی ، ان کا انداز ، ان کی دل لبھاتی باتیں ، ان کا Superficial Charm , ان کی ذاتی ازدواجی زندگی کی خود ساختہ مظلومیت اور محرومیوں کے قصے ، ان کی ذہانت ، ان کی تقاریر ، موٹی موٹی کتابوں پر ان کے تبصرے ، سیاست اور معاشرت پر مباحثے ، کسی بھی عالم فاضل ، دانشور ، لکھاری ، مقرر ، سیاست دان ، ادیب ، شاعر ، صحافی ، اینکر پرسن ، پروفیسر ، پروفیشنل کو چنملاقاتوں میں کلین بولڈ کرسکتے ہیں ۔ اور کسی بھی مرد کو اپنی زلفوں کا اسیر بنا سکتے ہیں ۔
دروازہ کھلا ہو تو کوئی بھی اندر داخل ہو سکتا ہے ۔ بند دروازے پر دستک ہو تو گھر کے مکین کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ دروازہ کھولے یا نہ کھولے ۔ مقفل دروازوں پر شاذ و نادر ہی کوئی دیوانہ دستک دیتا ہے ۔
عورت کی جب ہر شے ، ہر بات کھلی ڈھلی ہو ، کیا چہرہ ، کیا زیبائش ، کیا دل ، کیا زبان ، کیا ناز ، کیا انداز تو اس سے ملنے والا ہر مرد ہی اس کے سحر میں گرفتار ہوجاتا ہے ۔ ڈرپوک اور کم ہمت دل ہی دل میں اس عورت کی مورت کو مورتی بنا کر پوجنا شروع کردیتے ہیں ۔ اور کردار و تربیت سے عاری حضرات ببانگ دہل محبت کے دعوے اور نعرے بلند کر اٹھتے ہیں ۔ اور جو بہت ہی ٹیڑھے اور پٹڑی سے اترے ہوئے ہوتے ہیں ، ہاتھ پاوں دھو کر کھلی ڈھلی عورت کے جسم کو فتح کرنے کی تگ و دو میں لگ جاتے ہیں اور اپنی ہوس کو عشق و محبت کے ذرا مہذبانہ الفاظ کا پیراہن پہنا دیتے ہیں ۔ اور جو کسی بھی طرح کے معاشرتی اور اخلاقی دباؤ کے زیر اثر نہیں ہوتے ، وہ زور زبردستی پر اتر آتے ہیں ۔
یوں کھلی ڈھلی عورت ، ڈھکی چھپی دعوت عام دے کر ، اپنی خود ساختہ مظلومیت کا رونا گانا گا کر اپنے گرد مردوں کا ہجوم جمع کرلیتی ہے ۔ اور جب ان مردوں میں سے کوئی ایک یا دو چار کسی بھی طرح کی پیش رفت کرتے ہیں تو ایسی عورت کو اپنے اوپر ہونے والی نادیدہ زیادتیوں کا ڈھول اور زور و شور سے پیٹنے کا موقع مل جاتا ہے ۔ اور وہ ایک کے بعد ایک اور مرد کا شکار کرکے آگے بڑھتی جاتی ہے ۔ اور لوگوں کی نظروں میں معصوم اور مظلوم ہی رہتی ہے ۔
ایسی عورتیں معاشرتی نفسیات کا بھرپور فائدہ اٹھاتی ہیں ۔ ایک طرف تو ان کو آزادی نسواں کے نام نہاد نعروں کا تحفظ مل جاتا ہے ۔ اور دوسری طرف ، بحیثیت عورت ہونے کے ناطے Certified اور دائمی مظلوم ہونے کا سچ جھوٹ ۔
حقیقت اس کے برعکس بھی ہوسکتی ہے ۔ دنیا میں محض مرد ہی ہمیشہ ظالم اور سنگ دل نہیں ہوتے ۔ عورتوں کی زیادتیاں منظر عام پر نہیں آتیں ۔ اور نہ ان کی ریشہ دوانیاں کسی کے علم میں آپاتی ہیں ۔
درحقیقت کسی بھی معاشرے میں جب جب بگاڑ پیدا ہوا ہے ، اس کے پیچھے مردوں کا کم ، عورتوں کا زیادہ عمل دخل ہوتا ہے ۔ خواہ گھر کے اندر بچوں کی تربیت میں کوتاہی اور غفلت کی صورت یا بے جا لاڈ پیار اور کھلی چھوٹ کی بابت ۔ اور یا پھر شوہروں اور خاندان کے دیگر بڑوں کے ساتھ زبان درازی اور بدتمیزی ۔ شکر اور سلیقہ مندی سے خالی ہوکر بھی بڑبولا پن اور اپنی غلطی نہ ماننے کی عادت سے لیکر فضول خرچی اور بات بات پر غصہ اور رونا دھونا ۔ یہ سب باتیں معاشرتی پراگندگی کا باعث بنتی ہیں ۔ گھر ، گھر داری اور گھر والی کے پریشر سے پریشان مرد کبھی بھی معاشرے کا کارآمد رکن نہیں بن سکتا ۔ نتیجہ میں جہاں جہاں وہ مرد جائے گا ، اپنی ذہنی اور جذباتی کثافتوں سے ماحول اور آس پاس کے دیگر لوگوں کو متاثر کرے گا ۔
اور گھر سے باہر رہنے والی عورتیں اگر اپنی معاشی مجبوریوں کو ڈھال بنا کر ، اپنی خود ساختہ مظلومیت اور خوبصورتی و ذہانت کی تلواروں سے ادھر ادھر وار کرتی رہیں گی تو گھروں اور خاندانوں کے ٹوٹنے اور بکھرنے کا عمل تیز ہوتا چلا جائے گا ۔
یہ عمل تیز سے تیز تر ہوتا چلا جارہا ہے ۔ طلاق اور خلع کی تعداد میں دن دوگنی رات چوگنی اضافہ تو ہو ہی رہا ہے ۔ اس سے بڑھ کر بھیانک حالات تو یہ ہوچکے ہیں کہ گھروں سے باہر پھرنے اور پھیلنے والی عورتوں کی بہتات نے حلال اور شرم و حیا اور شریعت اور اخلاقی اقدار کا بھی جنازہ نکال دیا ہے ۔
مردوں کی عیاشی کے واقعات تو سب کی زبان پر ہیں ۔ کھلی ڈھلی اور آزاد خیال عورتوں نے جس دھڑلے اور بیباکی سے اپنے شوہروں کے نکاح میں رہتے ہوئے بھی دوسرے مردوں سے ہر طرح کے پوشیدہ ذہنی ، دلی اور جسمانی تعلقات قائم کر رکھے ہوئے ہیں اور ان پر کسی قسم کی ندامت بھی نہیں ۔ اس کا کھلے عام بیان ممکن نہیں ۔ کسی بھی مذہب ، کسی بھی تہذیب ، کسی بھی ثقافت میں Infidelity کی نہ تو گنجائش ہے ، نہ اجازت اور نہ ہی اس عمل کو کہیں بھی قانونی تحفظ حاصل ہے ۔
اس کے باوجود ایسی شادی شدہ خواتین کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے جن کو نہ اپنی عزت کا پاس ہے اور نہ اپنے شوہروں اور بچوں کے نام اور ناموس کی کوئی قدر ہے ۔ محبت یا ضد یا مجبوری کے نام پر انہوں نے رشتہ ازدواج میں رہتے ہوئے بھی غیر مردوں سے تعلقات استوار کررکھے ہیں ۔ اور بدنامی محض مردوں کے کھاتے میں لکھی اور پڑھی جارہی ہے ۔ عورت ہو یا مرد ، ہر دو کے لئیے خالق کائنات نے زندگی کا واضح اور باضابطہ نظام نافذ کیا ہوا ہے ۔ جو روشن اور باعث رحمت و برکت ہے ۔ مگر دور حاضر میں لوگوں کی اکثریت ' اندھیرے کا سفر ' طے کررہی ہے ۔ اور وہ بھی کسی مجبوری میں نہیں ۔ بلکہ اپنی مرضی اور پسند سے ۔ اندھیرے کا یہ سفر ایک تاریک منزل کی جانب لے جا رہا ہے ۔ اور کوئی بھی اپنا راستہ بدلنے پر راضی نہیں ۔

" اندھیرے کا سفر "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی
جسمانی ، روحانی ، جنسی و منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ

www.drsabirkhan.blogspot.com
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
www.g.page/DUAAGO