ہفتہ، 30 مارچ، 2019

31.03.19 . " آسان کام " ڈاکٹر صابر حسین خان

" آسان کام " ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان ۔ نیا کالم / مضمون/ بلاگ ۔ دنیا کا سب سے آسان کام باتیں کرنا ، باتیں بنانا ، دوسروں پر تنقید کرنا اور لوگوں کے عیب نکالنا ہوتا ہے ۔ اس کام میں ہم سب ایکسپرٹ اور ماسٹر ہو چکے ہیں ۔ یہ کام اتنا آسان ہے کہ ہم اپنے اپنے کام کرتے ہوئے اور اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے بھی اسے بڑی دلجمعی سے کر سکتے ہیں اور کرتے رہتے ہیں ۔ یہ ہمارا بہترین مشغلہ بھی ہے اور دل کے پھپھولے پھوڑنے کا شاندار طریقہ بھی ہے ۔ ہم ہر طرح کے کام سے تھک جاتے ہیں مگر یہ کام اتنا مزیدار اور دل کو لبھانے والا ہے کہ ہم اپنی نیند ، اپنی بھوک ، اپنا آرام سب بھول کے بھی اس کام میں مصروف رہتے ہیں ۔ اور بالکل بھی نہیں تھکتے ۔ گزشتہ 20 برسوں سے ہماری ٹیوننگ اور گرومنگ اس طرح سے ہو رہی ہے ، ہوئی ہے اور کی جا رہی ہے کہ شور شرابہ ، غل غپاڑہ ، بحث مباحثہ ، طنز و تحقیر ، تنقید و تمسخر ، اگر ہماری روزمرہ کی زندگی میں نمایاں نہ دکھائی دے تو ہماری مردانگی ہماری اپنی نگاہوں میں مشکوک اور باعث شرمندگی ہو جاتی ہے اور بزعم خود ہم لوگوں کے بیچ سر اٹھا کے چلنے کے قابل نہیں رہتے ۔ ہماری نئی نسل کا قصور نہیں ۔ وہ تو پوری کی پوری کمپیوٹر ایج کی پیداوار ہے اور اس کی جینیاتی ساخت ہی الیکٹرونک میڈیا اور پھر سوشل میڈیا کے زیر سایہ پروان چڑھی ہے ۔ ہم جیسی عمر کے لوگوں کا کھانا بھی اس وقت تک ہضم نہیں ہوتا ، جب تک ہم گھر یا باہر کسی سے الجھ نہ لیں ۔ اور اگر اس طرح کے سوڈامنٹ کا موقع نہ مل پائے تو کم از کم 46 انچ کے ایل ای ڈی اسکرین کے سامنے بیٹھ کر معاشرے کے اعلی و ارفع عہدوں پر فائز چمکتے دمکتے ، چینختے چنگھاڑتے ، ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہوئے ، لڑتے جھگڑتے طرم خانوں کی ایک جھلک نہ دیکھ لیں ۔ اور جو کسی وجہ سے اس تماشے کا بھی کسی دن ناغہ ہو جائے تو اس روز نیند بھی مشکل سے آئے ۔ آج سے 40 برس پہلے ٹی وی نہ صرف ذہنی تسکین اور تفریح کا بہترین ذریعہ تھا بلکہ اس زمانے کے بچوں ، نوجوانوں اور ہر عمر کے لوگوں کی نفسیات ، شخصیت اور کردار کی تعمیر اور ترتیب میں بھی اہم کردار ادا کرتا تھا ۔ اور آج اس میڈیا کو بلا شک و شبہ انفرادی اور معاشرتی انتشار ، خلفشار اور بگاڑ کا تن و تنہا ذمہ دار قرار دیا جا سکتا ہے ۔ کہ اس نے ہماری تفریح کے معیار اور معنوں کو 180 ڈگری کے زاویے سے بدل ڈالا ہے ۔ طنز ، تنقید ، تحقیر اور تمسخر کے ساتھ عدم تحفظ ، عدم برداشت ، نفرت ، حقارت ، بدلہ ، انتقام اور غصہ جیسے منفی انسانی پہلوؤں کو پروموٹ کر کے ، ہائی لائٹ کر کے ، زندہ رہنے کے لئیے ضروری قرار دے کر ، اور کامیابی کے لئیے لازم و ملزوم سمجھ اور سمجھا کر ۔ ویلن کو ہیرو کی شکل میں پیش کر کے معاشرے کی بنیاد کھوکھلی کر دی گئی ہے ۔ ہر طرح کا جرم ، ہر طرح کی کرپشن ، ہر طرح کی کمی اور کجی کو جسٹیفائڈ کر کے ، ہر نیگیٹو انسانی رنگ کو ہرا ، نیلا ، پیلا اور گلابی پورٹریٹ کر کے ۔ نفسانی اور حیوانی خواہشات کو نام نہاد آزادی کا نام دے کر ۔ زندگی کے ہر شعبے کی طرح جب معاشرے کے سب سے معتبر اور باوقار شعبے ، ادب و ثقافت و صحافت کے تمام دائروں میں یہی سوچ و رویے گھوم رہے ہوں تو میں اور آپ ، ہم سب ، بھی غیر محسوس طریقے سے اسی رنگ میں ڈھلتے جا رہے ہیں ۔ اور اخلاق اور کردار کے انتہائی پستی زدہ حوالوں اور حاشیوں کو ہی زندگی کی معراج سمجھنے لگے ہیں ۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہوئی ہے کہ یہی بات ، تفریح اور دلچسپی کا بھی سامان ٹہری ہے ۔ ایک دوسرے کے پرخچے اڑا دینا اور تالیاں پیٹنا ۔ زور سے شور مچانا اور پھر چور مچائے شور کا شور ڈالنا ۔ ہر عام و خاص کو پہلے ہر اچھے برے کاموں اور اچھی بری باتوں کی ترغیب دینا اور اکسانا اور پھر ڈھونڈ ڈھونڈ کر ہر ایک کے عیب نکالنا اور عیبوں اور خامیوں کو بیچ چوراہے سب کے سامنے ٹانگتے رہنا ۔ اور گھنٹوں ، دنوں ، ہفتوں تک ان پر رننگ کمنٹری کرتے رہنا اور ڈھول پیٹ پیٹ کر بھیڑ جمع کرتے رہنا ۔ اس سے زیادہ دلچسپ مشغلہ اور کیا ہوگا ۔ اس سے زیادہ آسان کام کوئی اور کیا ہو سکتا ہے ۔ نہ ہلدی لگے نہ پھٹکری ، اور رنگ بھی چوکھا آئے ۔ سب کے مزے ۔ سب خوش ۔ باتیں کرنے ، باتیں بنانے ، باتیں گڑھنے ، باتوں کے تیروں ، بھالوں ، اور نیزوں سے دل و دماغ چھلنی کرنے سے زیادہ اور کون سا کام آسان اور آج کے دور میں سود مند ثابت ہو سکتا ہے ۔ ہم سب باتوں کے بادشاہ بن کر اپنے اپنے حلقوں اور علاقوں میں ایسی سلطنت چلا رہے ہیں جس میں ہمارے علاوہ باقی سب خراب اور غلط ہیں ۔ وہ بھی اس وقت تک ، جب تک وہ ہمارے حضور سر نہ جھکا لیں ۔ اپنے نظریے چھوڑ کر ہمارے صحیح غلط خیالات نہ اپنا لیں ۔ اور ایسا جس لمحے ہو جائے ، ان کے سارے گناہ دھل جاتے ہیں اور وہ دنیا بھر کی برائیوں اور غلطیوں میں تمام عمر ملوث رہنے کے باوجود پھر معصوم اور پاک صاف ہو جاتے ہیں ۔ بس اس کے لئیے ان کو ہماری باتوں کی بادشاہت برداشت کرنی پڑتی ہے ۔ ہمارے تمام تماشے ، ہماری تمام تنقید ، ہماری تمام کڑوی اور تلخ باتیں محض اوروں کو نیچا دکھانے ، نیچا بنانے اور اپنے سے نیچا ثابت کرنے کے لیے ہوتی ہے ۔ اور جونہی جو جو سرینڈر کرتا چلا جاتا ہے وہ اپنوں کی صف میں شامل ہوتا جاتا ہے اور اس کا ہر غلط ، صحیح قرار دے دیا جاتا ہے ۔ معاشرے کی اسی سوچ اور مروجہ رویوں نے آج ہر برے آدمی کو بڑے آدمی کا ایوارڈ دے رکھا ہے ۔ جس کی وجہ سے ہر آدمی ، شعوری یا لا شعوری طور پر اس معاشرتی آئیڈیل کے حصول کی تگ و دو میں مصروف ہے ۔ اسے ہر حال میں ہر وقت اپنا طاقتور امیج برقرار رکھنا ہے اور اس کے لئیے اسے ہر وقت خود کو غصیلا ، جنگجو ، متحرک اور باتونی رکھنا ہے ۔ اسے ہر وقت ہر محفل میں ہر طرح کے بحث و مباحثے کے لئیے تیار رہنا ہے ۔ اسے ہر وقت ہر حوالے سے سامنے والوں کو نیچا دکھانا ہے اور ہر وقت طنز ، تنقید ، تحقیر اور تمسخر کے ہتھیار استعمال کرتے رہنے ہیں ۔ اسے ہر وقت ہر جائز و ناجائز طریقے سے دولت کمانی ہے اور سوسائٹی کے بڑے لوگوں سے تعلقات استوار کرتے رہنے کے لئیے ہر قدم اٹھانا ہے ۔ تبھی وہ کامیاب کہلایا جا سکتا ہے ۔ تبھی وہ بڑا آدمی بن سکتا ہے ۔ تبھی اس کی بادشاہت برقرار رہ سکتی ہے ۔ تبھی اس کے کام آسان ہو سکتے ہیں ۔ اور آسان کام اسی کے ہو سکتے ہیں جو آسانی سے آسان کام کرنا جانتا ہو ۔ باتوں سے زیادہ اور کون سا کام آسان ہو سکتا ہے ۔ اور اس کام میں تو ہم سب ہی ید طولی رکھتے ہیں ۔ مشکل کاموں کا کسی کے پاس نہ دل ہے نہ وقت ۔ اور نہ ہی کوئی ظاہری فائدہ ۔ تو وہی کچھ کرتے رہنا چاہئے جو اور سب کر رہے ہیں ۔ اس میں حرج بھی کیا ہے ۔ ماسوائے اس کے کہ آج ہمارا ہاتھ کسی کے گریبان پر ہے تو کل کسی اور کا تھپڑ ہمارے چہرے پر ہو گا ۔ آسان کاموں کا نتیجہ بھی آسان ہی ہوتا ہے ۔ قدرت کا قانون یہی ہے اور ہر ایک کے لیئے ہی ہے ۔ قدرت کسی کے لئیے بھی اپنے قاعدے قانون نہیں بدلتی ۔ نہ کسی کو معاف کرتی ہے ۔ جو جیسا کرتا ہے ۔ وہ ویسا بھرتا ہے ۔ آج ہم طنز ، تنقید ، تحقیر اور تمسخر کے آسان کاموں میں مصروف رہ کر باتوں کے بادشاہ کا خطاب پا رہے ہیں ۔ کل ہم کٹہرے میں کھڑے ہوں گے اور اپنے کانوں میں انگلیاں ڈالے وہ سب کچھ سننے سے بچنا چاہ رہے ہوں گے جو آج ہم گلے پھاڑ پھاڑ کر سنا رہے ہیں ۔ کتنا ہی اچھا ہوتا کہ وقت کی ترازو کا پلڑا پلٹنے سے پہلے ہمیں سمجھ آجائے اور ہم اپنے اپنے آسان کام اور شارٹ کٹ چھوڑ کر مشکل کاموں اور دشوار راستوں کا انتخاب کر لیں ۔ آپ اپنا احتساب کر لیں ۔ کہ قدرت کا حساب کتاب پھر ہم سے برداشت نہیں ہو پائے گا ۔ دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان ۔ ماہر نفسیات ۔ ماہر امراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ، روحانی ، جسمانی ، جنسی اور منشیات ۔ مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ ۔ DUAAGO. DR. SABIR HUSSAIN KHAN CONSULTANT PSYCHIATRIST PSYCHOTHERAPIST AUTHOR. WRITER. BLOGGER. POET. PALMIST. www.drsabirkhan.blogspot.com www.fb.com/Dr.Sabir Khan www.youtube.com/Dr.SabirKhan

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں