جمعہ، 27 دسمبر، 2019

حماقتیں ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

" حماقتیں "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

کیا آپ کو یاد ہے کہ آپ سے آخری بار کب اور کون سی حماقت سرزد ہوئی تھی ۔ اگر نہیں یاد تو آج ذرا دیر کو اپنی حماقتوں کی فہرست مرتب کریں ۔ بچپن سے لے کر آج تک کی ۔ ہر حماقت کے بعد کیا ہوا ۔ آپ کے ساتھ ۔ اور آپ نے کیا محسوس کیا ۔ یہ بھی ذرا یاد کریں ۔ اور یہ بھی کہ آپ کی حماقت کا نشانہ بننے والوں پر کیا بیتی ۔
بچپن کی معصومانہ شرارتوں کو اس فہرست میں مت ڈالئیے گا ۔ جب آپ کا ذہن اپنی حماقتوں کی فہرست بناتے یا سوچتے ہوئے تھک جائے تو ذرا دیر کو دم لینے کے لئیے رکئیے اور سوچئیے کہ آخری حماقت کیا تھی ۔ اور وہ کب ہوئی تھی ۔ آپ کو اپنے ماضی میں بہت پیچھے جانا پڑے گا ۔ پھر کہیں جاکر شاید آپ کو کچھ یاد آئے گا ۔ والدین ، اساتذہ کی ڈانٹ ڈپٹ ، مار پیٹ اور سرزنش اور تعلیم ، تہذیب اور تربیت کے سفر میں ہم اپنی حماقتوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔ ہمیں سنجیدگی اور رنجیدگی کی منوں مٹی تلے دفن کردیا جاتا ہے ۔ اور ہنسی ہمارے لبوں سے رخصت ہوجاتی ہے ۔
بے ساختہ ہنسی ۔ بے اختیار کھلکھلاتی ہنسی ۔
ہم پھر دوسروں کی حماقتوں پر ہنسنا شروع کردیتے ہیں ۔ مسخروں کو دیکھ کر ۔ لطیفوں کو سن اور پڑھ کر ۔ اپنی فطرت کی معصومانہ حماقتوں کی حس کی تسکین کے لئیے ۔ ہماری ذاتی صلاحیت کو تو ہمارا ماحول ملیا میٹ کرچکا ہوتا ہے ۔ پھر مصنوعی ہنسی ہمارے تلخ تجربات کے درد کا درماں بننے لگتی ہے ۔ بڑے بننے کے سفر میں ، بڑے لگنے اور دکھنے کے چکر میں ہم سنجیدگی اور کرختگی کی ایسی چادر اوڑھ لیتے ہیں جو مرتے دم تک ہماری شخصیت کو ڈھانپے رکھتی ہے ۔ اور مرنے سے بہت پہلے ہی ہمارے اندر کی فطری مسکراہٹ کو ملیا میٹ کردیتی ہے ۔ فطری معصومیت کے ننھے مننے ، ہرے بھرے پودوں کو تواتر سے تہذیب و تمدن اور رسم و رواج کے نام پر جب کڑوا کسیلا پانی ملتا رہتا ہے تو ان کی ماہیت بدلنے لگتی ہے اور تازہ ہوا اور فطری بود و باش سے مسلسل محرومی ان پودوں میں پھل و پھول پیدا کرنے کی بجائے موٹے اور نوکیلے کانٹوں کا جال بچھا دیتی ہے ۔ مزاح کی جگہ طنز اور درگزر کی جگہ طعنے اور عزت کی جگہ حقارت اپنے پنجے گاڑ لیتی ہے ۔
ہنسی اور مسکراہٹ ہمارے اندر تحمل ، برداشت اور بردباری پیدا کرتی ہے ۔ جس فرد اور معاشرے میں سے مسکراہٹ رخصت ہوجاتی ہے ، وہ بہت جلد انتقامی اور ہنگامی ہوجاتا ہے اور عدم برداشت کی بنا لڑنے ، مرنے اور مارنے پر کمر باندھ لیتا ہے ۔ یہ سلسلہ اگر لمبا ہوجائے تو ہماری نئی نویلی نسلیں بھی پیدا ہوتے ہی نارمل سے بہت زیادہ متحرک اور جھگڑالو ہونے لگتی ہیں ۔ گزشتہ چالیس پچاس سالوں میں ہمارا معاشرہ بھی شفیق الرحمن ، ضیاء محی الدین ، مشتاق احمد یوسفی ، کرنل محمد خان ، حسینہ معین ، انور مقصود ، لہری ، جمشید انصاری ، معین اختر ، جیسے نامور ہنسنے اور ہنسانے والوں سے خالی ہوتا جارہا ہے ۔ اور ان کی جگہ بھانڈوں اور پھکڑ بازوں نے لے لی ہے ۔ بے ساختہ اور قدرتی ہنسی کی جگہ ایک دوسرے پر طنز و تحقیر کے تیر چلا کر مصنوعی قہقہے اور شور کے ہنگامے بپا کئیے جارہے ہیں ۔ جو روح کو تقویت دینے کی بجائے اعصاب پر پتھر برسا رہے ہوتے ہیں ۔
فطری حماقتوں کو پاگل پن اور بیوقوفی کا نام دیا جانے لگا ہے ۔ فطری معصومیت کے حامل افراد کو عقل سے عاری ، چغد اور گدھے کے ٹائٹل سے نوازا جارہا ہے ۔ اور مسخروں اور جوکروں کے گلے میں میڈل ڈالے جارہے ہیں ۔ اور فرد اور معاشرے کے ذہنی ، اخلاقی اور جذباتی تنزل کی کمی اور دوری کے اسباب ڈھونڈنے ، تلاشنے اور تراشنے کے لئیے کوئی بھی بڑا ، بچوں کے لیول پر آکر بچہ بننے کے لئیے راضی نہیں ۔ سنجیدگی ، رنجیدگی اور بزرگی کے غلاف اتار کر اپنی فطری معصومیت کو بیدار کرنے کے لئیے آمادہ نہیں ۔ اپنی حماقتوں پر ، اپنے آپ پر ہنسنے ہنسانے کے لئیے تیار نہیں ۔
خیال رہے کہ بیوقوفی اور حماقت میں بال برابر فرق ہوتا ہے ۔ اور یہ بھی خیال رہے کہ حماقتوں پر عام طور پر ریکارڈ بھی لگتا ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ اس طرح ہمارے اندر بڑے غیر محسوس انداز میں قوت برداشت بڑھتی ہے اور ہم ' لوگ کیا کہیں گے ' جیسی بھاری زنجیر کی قید سے بھی آزاد ہونے لگتے ہیں ۔
جس دن ، جس لمحے ' لوگ کیا کہیں گے ' کی زنجیر ہماری سوچ کے پاوں کی جان چھوڑ دیتی ہے ، ہمارے اندر کا معصوم بچہ قلقاریاں بھرتا ہوا ، دوبارہ سے زندہ ہونے لگتا ہے ۔ اور ہم قدرت کی عظیم الشان توانائیوں اور روشنیوں کے ساتھ مربوط ہونے لگتے ہیں ۔ پھر ہمیں کسی کی کسی بھی بات کی پرواہ نہیں رہتی ۔ کسی کی اچھی بری رائے کی فکر نہیں رہتی ۔ کسی مصنوعی سہارے کی محتاجی نہیں رہتی ۔ اور ہم ہر طرح کی حماقت کے لئیے ہر گھڑی تیار ہوجاتے ہیں ۔
مجھے تو جب بھی موقع ملتا ہے ، خود بخود کسی حماقت کو گلے لگا لیتا ہوں ۔ اب آج اور ابھی کی دیکھئیے ۔ میں حسب عادت واک کے لئیے پارک جا رہا تھا ۔ صحن میں نویرا بیٹھی ہوئی تھی ۔ جہاں زیب اور اسعد ادھر ادھر پھر رہے تھے ۔ ایک کرسی پر بچوں کا گٹار پڑا ہوا تھا ۔ گھر سے نکلتے نکلتے میرے منہہ سے نکل گیا ۔ " نویرا ! میرے واپس آتے آتے گٹار بجانا سیکھ لو ۔ واک سے واپس آکر تم نے بجانا ہے ۔ "
آدھے گھنٹے بعد جب واپس آیا تو گٹار ہنوز باہر کرسی پر پڑا تھا ۔ اور نویرا اندر کمرے میں غائب تھی ۔ مجھ سے اور میری فرمائش سے ڈر کر ۔ اندر پہنچ کر سب سے پہلے میں نے نویرا کو آواز دی ۔ باقی سب لوگ میز پر بیٹھ کر کھانا کھا رہے تھے ۔
نویرا کی سب سے اچھی بات یہ لگی کہ اس نے ' نہیں ' نہیں کہا ۔ البتہ گٹار اٹھاتے ہوئے یہ ضرور کہا کہ اس نے بجانا سیکھا نہیں ۔
" کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ بجانے سے ہی آتا ہے ۔ چلو ! شاباش ۔ شروع کرو ۔ میں وڈیو بنا رہا ہوں ۔ "
پھر نویرا کے بعد سب کی باری لگوادی ۔ نویرا کے برابر مامی بیٹھی تھیں ۔ انہوں نے بھی زندگی میں پہلی بار گٹار ہاتھ میں پکڑا ۔ پھر تسلیم ، طارق ، ماموں ، جہاں زیب اور اسعد سب سے ایک ایک منٹ کے لئیے گٹار بجوادیا ۔ اور نویرا سب کی وڈیو بناتی رہی ۔
یونہی بلاوجہ ، بنا کسی مقصد کے ، سوچے سمجھے بنا گٹار کی حماقت سرزد ہوگئی ۔ مگر اس حماقت سے سبھی ہنستے مسکراتے ہوں ہاں کرتے کرتے ، مجھ سمیت ، گٹار کو ہاتھ میں لیتے رہے ۔ کہ میں نے بھی زندگی میں پہلی بار گٹار کے تاروں کو چھیڑنے کے تجربے کی حماقت کر ڈالی تھی ۔
بنا سوچے سمجھے ، کسی خاص مقصد کے بنا ، یونہی ایسی ہی کوئی حرکت ، جس سے اونگھتے ہوئے بور اور بیزار لوگوں کے لبوں پر آپ ہی آپ مسکراہٹ آجائے اور بجھے ہوئے دلوں میں دیا جلنے لگے ، حماقت کہلاتی ہے ۔ یونہی اسی طرح ، جگہ جگہ ، حماقتوں کا جال بچھتا رہے تو فرد کا غبار اور معاشرے کا انتشار کم ہو سکتا ہے ۔
آئیے ۔ آج کے بعد آپ بھی اپنے اپنے ماحول میں یونہی بچوں کے ساتھ بچہ بن کر حماقتوں اور محبتوں کے دئیے جلاتے رہیں ۔ اپنے پن کی خوشبو مہکاتے رہیں ۔ آپ کی ذہنی تھکن دور ہوتی رہے گی ۔ آپ کی روح میں چمک آتی رہے گی ۔


" حماقتیں "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان
ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ،
جسمانی ، روحانی ، جنسی و منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ ۔

www.drsabirkhan.blogspot.com
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
www.g.page/DUAAGO


جمعہ، 20 دسمبر، 2019

سب ٹھیک ہے ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

" سب ٹھیک ہے "
نیا کالم / بلاگ / مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

When it all seems too well , there is always something disastrous waiting for us at the corner.
جب سب ٹھیک دکھائی دے رہا ہوتا ہے تو کوئی نہ کوئی گڑبڑ ہمارا انتظار کررہی ہوتی ہے ۔
یہ بات میں نے ہرگز نہیں گڑھی ہے اور نہ ہی اس بات میں کوئی دقیق فلسفہ پوشیدہ ہے ۔ بڑے بوڑھے اپنے تجربات کا نچوڑ اسی طرح کی چھوٹی چھوٹی باتوں کے ذریعے پیش کرتے آئے ہیں ۔ اس طرح کے حالات میں ، جب سب کچھ اچھا اور بہت ہی اچھا نظر آرہا ہو تو احتیاط اور سوچ لازم ہے ۔ بصورت دیگر کوئی ایسا مسئلہ کئیے کرائے پر پانی پھیر جاتا ہے ، جس کے بارے میں سوچا ہی نہیں گیا ہوتا ۔ مگر ہم میں سے کوئی بھی ، کبھی بھی اس طرح نہیں سوچتا ۔ اچھے حالات میں ہم سب ہر طرف سے ہر طرح کی آنکھیں بند کرکے دونوں ہاتھوں سے مزے لوٹ رہے ہوتے ہیں ۔ اور اس خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ جب ، سب ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے تو ایسا ہی چلتا رہے گا ۔ اور سب کچھ ٹھیک رہے گا ۔
عملی زندگی میں بہت کم ایسا ہوتا ہے ۔ قدرت کا قانون نہ صرف انوکھا ہوتا ہے بلکہ سب کے لئیے یکساں بھی ہوتا ہے ۔ دن رات ، اونچ نیچ ، سیاہ سفید ، گرم سرد ، کی کہانی رواں دواں رہتی ہے ۔ ہر جگہ ، ہر ایک کے لئیے ۔ بنا کسی تفریق کے ۔
بڑے بوڑھے کہہ گئے ہیں کہ اچھے وقتوں میں برے وقت کی تیاری کر رکھنی چاہئیے ۔ اور خراب حالات میں بہتری کی امید برقرار رکھنی چاہئیے ۔ تبھی توازن قائم رکھا جاسکتا ہے ۔ لیکن بڑے بوڑھوں کی کسی بات پر کون کان دھرتا ہے ۔
اچھے اور برے حالات فرد کی زندگی میں بھی آتے رہتے ہیں اور ملک ، معاشرے اور قومیں بھی ہر طرح کی اونچ نیچ سے گزرتے ہیں ۔ ہر دو طرح کے حالات میں سب ٹھیک اسی وقت ہوتا ہے یا رہ سکتا ہے ، جب فرد اور معاشرہ دونوں اس بات کا ادراک رکھتے ہوں کہ کسی بھی طرح کے حالات کبھی بھی ایک جیسے نہیں رہتے اور یہ کہ سب کچھ ٹھیک رکھنے کے لئیے اچھے حالات میں اپنی سوچ ، اپنی خواہشات اور اپنے افعال میں نہ صرف اعتدال رکھنا پڑتا ہے ، بلکہ ہیڈ ڈاون کرکے شب و روز کا شیڈول مرتب کرنا پڑتا ہے ۔ تبھی بہت ٹھیک نہ سہی ، تھوڑے ٹھیک سے بھی گزارا ہوجاتا ہے ۔
جو معاشرہ ، جو فرد اس اصول کے مطابق اپنے راستے منتخب کرتا ہے ، وہ اچھے اور خراب ، دونوں طرح کے حالات میں ٹیون ان کرلیتا ہے اور پریشانی کا شکار نہیں ہوتا ۔ اس کے برعکس جو لوگ ، جو قومیں آنکھیں بند کرکے ' سب ٹھیک ہے ' کا نعرہ بلند کرکے ہر طرح کے موسم ، ہر طرح کے حالات میں ایک ہی ڈگر پر چلنے کے عادی ہوتے ہیں ۔ وہ جلد یا بدیر قدرت کے ایسے گرداب میں جا پھنستے ہیں ، جس سے باہر نکلنا ان کے بس میں نہیں رہتا ۔ نشیب کی جانب ان کا سفر کئی نسلوں ، کئی دہائیوں تک جاری رہتا ہے ۔
آج ہم اور ہمارا معاشرہ بھی اپنی ناعاقبت اندیشی اور نااہلی کی وجہ سے ذلت اور تباہی کی گھاٹیوں میں جا پہنچا ہے ۔ اور ایسا سال دو سال میں نہیں ہوا ۔ پورے پچاس سال لگے ہیں ۔ ہمیں زوال کے اس درجے تک پہنچنے کے لئیے ۔ ہماری آنکھوں پر ' سب ٹھیک ہے ' کی پٹی باندھ کر ، ہمیں آہستہ آہستہ اس مقام تک پہنچایا گیا ہے ۔ بیرونی طاقتوں کے علاوہ ہمارے اپنے ، جو درحقیقت بیرونی طاقتوں کے زر خرید غلام تھے اور ہیں ، ہماری بربادی کے ذمہ دار ہیں ۔ نہ پچاس سال پہلے سب ٹھیک تھا ۔ نہ آج کچھ ٹھیک ہے ۔ مگر ہمارے ادارے ، ہماری بیوروکریسی ، ہماری حکومت اور ہم پر حکومت کرنے والے خفیہ ہاتھ ، سب کے سب ' سب ٹھیک ہے ' کے اسموک اسکرین کے ساتھ ہم سب کو پچاس سالوں سے بیوقوف بنارہے ہیں ۔ اور ہم آنکھیں بند کرکے ان کی نقالی میں ' سب ٹھیک ہے ' کی جگالی کررہے ہیں ۔ اور سب کچھ تباہ و برباد ہورہا ہے ۔
بنیاد میں بگاڑ آجائے تو کچھ بھی ٹھیک نہیں رہ سکتا ۔ نیت میں فتور آجائے تو مضبوط سے مضبوط بنیاد بھی بگڑنے اور لرزنے لگتی ہے ۔ فطرت میں طمع اور لالچ ہو یا خون میں حرام گھلنے لگے تو نیت میں فتور آہی جاتا ہے ۔ اور پھر کہیں بھی کچھ بھی ٹھیک نہیں رہ پاتا ۔ نہ قلب ۔ نہ روح ۔ نہ ذہن ۔ نہ بدن ۔ نہ گھر ۔ نہ معاشرہ ۔ نہ قوم ۔ نہ ملک ۔
یہ حال آج ہم سب کا ہے ۔ اوپر سے نیچے تک ۔ دائیں سے بائیں تک ۔ قوانین قدرت سے بغاوت کی سزا ہماری نسلوں تک پھیلا دی گئی ہے ۔ انفرادی طمع ، ہوس اور لالچ نے اجتماعی بقا کو داو پر لگا دیا ہے ۔ کھوکھلے دعووں کی ہوا سے بربادی کی آگ اور بھڑکتی جارہی ہے ۔ مکر ، جھوٹ اور فریب نے ہماری منافقت کو چار چاند لگا دئیے ہیں ۔ دو دو ، چار چار ، آٹھ آٹھ چہروں کے ساتھ ہم صبح کچھ اور کہتے ہیں اور شام میں کچھ اور کرتے ہیں ۔ ایسے میں کچھ بھی تو ٹھیک نہیں ہوسکتا ۔
ایسے میں اگر ہم محض خود کو ٹھیک کرنے کی سعی میں جت جائیں تو یہ ہی بڑے کمال کی بات ہوگی ۔ ایسے میں اگر ہم اپنی ہی دو رخی اور اپنی ہی شخصیت کے تضادات کو صحیح کرنے کی جستجو اور جسارت کرلیں تو یہ ہی بڑی بات ہوگی ۔ مگر ایسا سب کچھ کرنے کے لئیے ہمیں اپنی توجہ اور اپنی توانائی کو فوکس کرکے جینا ہوگا ۔ اپنی وکٹ سنبھالنی ہوگی ۔ اپنے آپ کو عمل کی حقیقی مثال بنانا ہوگا ۔ ہوسکتا ہے ، اس طرح ہم سے جڑے کچھ اور لوگ بھی ، اپنی اپنی جگہ ، اپنے آپ کو ٹھیک کرنے کرنے کی کوشش کرنے لگیں ۔ باتوں ، دعووں اور نعروں سے کبھی کچھ ٹھیک نہیں ہوسکتا ۔ بحثوں ، تقریروں اور مباحثوں سے کبھی کوئی تبدیلی نہیں آسکتی ۔ تنقیدوں اور تعریفوں کے پہاڑ کھڑے کرنے سے نہ کوئی اصلاح ممکن ہے ۔ نہ کسی فلاح کا امکان ہے ۔
سب ٹھیک کرنے کا سفر اپنی ذات سے شروع ہوکر اپنی ہی زندگی پر ختم ہوتا ہے ۔ اپنے اندر سچائی ، ایمانداری اور انصاف کے عوامل کی پرورش کے بنا کوئی بھی فرد ، ادارہ یا ملک کسی اور کے لئیے کچھ بھی نہیں کرسکتا ۔ قدرت کا قانون ہو یا جنگل کا قانون ۔ یا پھر بدمعاشوں کے ٹولوں کا قانون ۔ جہاں جہاں قانون اور انصاف کی بلا تفریق پابندی رہتی ہے ، وہی جگہ ، وہی گروپ ، صحیح ہو یا غلط ، باقی ماندہ لوگوں سے آگے رہتا ہے اور سب کچھ نہیں تو بہت کچھ ٹھیک رکھتا ہے ۔ اور جب اور جہاں یہ سب نہیں ہوتا اور ہر شخص اپنے اپنے اصول ، اپنی اپنی پسند کے مطابق مرتب کرکے دندنداتے ہوئے زندگی گزارنے کو ترجیح دیتا ہے ۔ وہاں پھر کوئی نظام برقرار نہیں رہ سکتا ۔ وہاں پھر صرف ' سب ٹھیک ہے ' کے کاغذی جھنڈے ٹنگے رہ جاتے ہیں ۔ اور کچھ عرصے بعد وہ بھی چیتھڑے ہوکر قدموں تلے روندے جاتے ہیں ۔ اور کبھی بھی ، کچھ بھی ٹھیک نہیں ہو پاتا ۔


" سب ٹھیک ہے "
نیا کالم / بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ،
جسمانی ، روحانی ، جنسی و منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ

www.drsabirkhan.blogspot.com
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
www.g.page/DUAAGO 

جمعرات، 5 دسمبر، 2019

" منطقی منزل "

" منطقی منزل "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

" روشن منزل " پی ٹی وی ۔ کراچی کی ایک ڈرامہ سیریل تھی جو غالبا 1974 میں ٹیلی کاسٹ ہوئی تھی ۔ میں اس وقت اپنے چچا کے گھر ، دادی اور دادا کے ساتھ رہنے آیا ہوا تھا ۔ نارتھ ناظم آباد ۔ بلاک سی ۔ اور وہیں واکنگ ڈسٹینس پر واقع بدری اسکول کی چھٹی جماعت میں میرا داخلہ کرادیا گیا تھا ۔ اسکول کی سیکنڈری کلاسز فرسٹ فلور پر ہوتی تھیں ۔ کلاس روم کی کھڑکی سے بلاک سی کے عقب میں پہاڑیاں دکھائی دیتی تھیں ۔ جن پر چھوٹے چھوٹے مکان بنے ہوئے تھے ۔ نیچے سے اوپر تک ۔
ان تمہیدی جملوں کی دو وجوہات ہیں ۔ پہلی یہ کہ ڈرامہ سیریل " روشن منزل " کی ایک قسط ، انہی مکانات میں سے ایک مکان میں دیکھی گئی تھی ۔ چچا میاں اپنے کسی جاننے والے کے پاس گئے تھے ۔ میں بھی ساتھ تھا ۔ اور ڈرامہ دیکھنے کے ساتھ ساتھ ، کہ ٹی وی سیٹ آنگن میں رکھا ہوا تھا ، ارد گرد اور پہاڑیوں کے اوپر نیچے بنے مکانات میں جلتی روشنیاں اس طرح ذہن کے اسکرین پر پیوست ہوئیں کہ آج 45 سال بعد بھی جب یہ تحریر لکھنے بیٹھا ہوں تو ہنوز روشن ہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ " روشن منزل " ڈرامے کی کہانی بس اتنی سی یاد ہے کہ کسی گھر کا نام تھا اور اس گھر میں رہنے والے مختلف لوگوں کے مسئلے ہر قسط میں ڈسکس ہوا کرتے تھے ۔
اور دوسری وجہ یہ ہے کہ جب جب بنا کسی کہانی یا قصے کے ، کوئی کالم یا بلاگ یا مضمون لکھا اور اپنی دانست میں بہت عرق ریزی کے بعد لکھا اور دل و دماغ کے تمام روشن دان کھول کر لکھا اور انتہائی سنجیدہ اور اہم موضوعات پر لکھا تو پڑھنے والوں کا کوئی خاص فیڈ بیک نہیں آیا ۔ اور جو تحریریں کہانیوں کی روشنی میں لکھی گئیں ، وہ زیادہ پسند کی گئیں اور زیادہ لوگوں کو سمجھ میں آئیں ۔
ان دو وجوہات کی بنا " روشن منزل " کے عنوان سے جب " منطقی منزل " کی بابت لکھنے کا خیال دل میں پیدا ہوا تو سوچا کہ ہلکی پھلکی ایک دو کہانیوں کا تڑکا بھی لگا دیا جائے تو شاید کچھ زیادہ لوگوں کو کچھ زیادہ سمجھ آسکے ۔ یا کم از کم ان کے لئیے دلچسپی کا سامان پیدا ہوسکے ۔
انسان کی نفسیات کی یہ بہت پرانی کمزوری ہے کہ اسے کسی بھی طرح کے قصوں اور کہانیوں سے لاشعوری دلچسپی رہتی ہے اور اگر قصے کہانیاں سچی ہوں تو یہ دلچسپی اور بڑھ جاتی ہے ۔ تجسس اور ٹوہ کا مادہ انسان کی فطرت میں شامل ہوتا ہے ۔ پردے کے پیچھے کی اور تہہ کے نیچے کی باتوں اور چیزوں سے واقفیت حاصل کرنا ، شاید ہر انسان کی جبلت کا لازمی جز ہے ۔ اور اگر گھر بیٹھے اسے ، گھر گھر کی کہانیاں پڑھنے اور دیکھنے کو مل جاتی ہیں تو اس کی تجسس کی نفسیاتی حس ، مسرور و مطمئن ہونے لگتی ہے ۔ اور اس کے تخیل کی پرواز ، اونچی اڑان لینے لگتی ہے ۔
کہانی کہنے ، کہانی بیان کرنے ، کہانی پیش کرنے ، کہانی کے تانے بانے بننے ، کہانی لکھنے ، کہانی گھڑنے ، فرضی کہانیوں کو حقیقت کی شکل میں ڈھالنے ، سچی کہانیوں کو علامتی پیرائے میں پرونے اور کہانی کو جینے اور برتنے والے ہر دور میں کہانیاں پڑھنے والوں کے ذہنوں کو مسخر کرتے رہے ہیں ۔
سنجیدہ ، فکر آمیز اور خشک تحریر یا ڈرامہ یا فلم بہت کم عوامی پذیرائی کے درجے تک پہنچ پاتی ہے ۔ اعشاریہ صفر صفر ایک فیصد لوگ ہی اس سے استفادہ حاصل کر پاتے ہیں ۔ یا اس کی اہمیت اور افادیت کو سمجھ پاتے ہیں ۔ اور یا پھر ایسی تخلیقات ، انہی لوگوں کی من پسند ٹہرتی ہیں ، جو ذرا من چلے ہوتے ہیں اور مشکل پسند ہوتے ہیں ۔
" روشن منزل " کی کہانی آج سے 45 سال پہلے جانے کس نے لکھی تھی ، مجھے نہیں پتہ ۔ آج کے نوجوانوں کی " منطقی منزل " کی کہانی کے ہزاروں لاکھوں رائیٹرز ، ڈائریکٹرز اور پروڈیوسرز ہیں ۔ اور اس کہانی کا شکار محض چار چھ نوجوان نہیں ہیں ۔ بلکہ دنیا بھر کے لاکھوں کروڑوں نوجوان اپنی اپنی " منطقی منزل " کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں ۔
ابھی گزشتہ ہفتے ایسے ہی دو بیس سالہ نوجوانوں سے ملنے کا اتفاق ہوا ۔ کراچی کی ایک معروف اور بڑی پرائیویٹ یونیورسٹی کے طالبعلم ۔ ملاقات سے چار چھ دن پہلے ان میں سے ایک نے اپنے پروجیکٹ کے لئیے معلومات اکٹھی کرنے کے لئیے وقت لیا تھا ۔ میرے پوچھنے پر بتایا تھا کہ ڈسکشن کے لئیے پانچ بچے آئیں گے ۔ مگر وقت مقررہ سے ڈھائی گھنٹے دیر سے آنے پر علم ہوا کہ پانچ کی بجائے دو لڑکے آئے ہیں ۔ اور باتوں کے بیچ پتہ چلا کہ صرف گروپ لیڈر آیا ہے ۔ باقی کے دو لڑکے اور دو لڑکیاں ڈاج دے گئے ہیں ، یہ کہہ کر کہ تم ریکارڈ کرکے لے آنا ، کام چل جائے گا ۔ گروپ لیڈر کے ساتھ آنے والا دوسرا لڑکا ، اس کا یونیورسٹی فیلو تھا اور دوست تھا اور اسے کمپنی دینے کے لئیے چلا آیا تھا ۔ خود اس کا دور دور تک پہلے لڑکے کے سبجیکٹ اور ٹاپک سے کوئی لنک نہیں تھا ۔
فرض کرلیں کہ گروپ لیڈر لڑکے کا نام وجاہت تھا اور اس کے ساتھ آنے والے دوست کا نام شہزاد تھا ۔
وجاہت کو تین دن بعد اپنی کلاس میں پریزینٹیشن دینی تھی ۔ موضوع " پرسنالٹی ڈس آرڈر " تھا ۔ جو بزنس ایڈمنسٹریشن کی کلاس میں نفسیات پڑھانے والے ٹیچر یا پروفیسر نے اپنی پسند سے اسائین کیا تھا ۔ بزنس کی کلاس میں نفسیات کا سبجیکٹ پڑھانے کا بنیادی مقصد یہی ہوتا ہے کہ طالب علم جب عملی زندگی میں قدم رکھیں تو وہ کسی بھی انسان کی نفسیات اور شخصیت کی بآسانی جانچ کرسکیں اور اس کے مطابق اس سے روابط رکھ سکیں ۔
مگر چونکہ آج کل کے الیکٹرونک اور سوشل میڈیا میں نارمل یا عمومی نفسیات کی بجائے ابنارمل یا بگڑی ہوئی نفسیات و شخصیت کے حوالے سے زیادہ ذکر ہورہا ہے تو شاید اسی وجہ سے پڑھانے اور پڑھنے والوں کا فوکس آف اٹینشن نارمل کی بجائے ابنارمل کی طرف ہوگیا ہے ۔ تبھی وجاہت کے ٹیچر نے بھی عام شخصیت کی نفسیات کی بجائے پرسنالٹی ڈس آرڈر کا اسائنمنٹ دیا تھا ۔
15 منٹ کی بجائے مجھے دونوں بچوں کے ساتھ ساڑھے تین گھنٹے گزارنے پڑ گئے ۔ مجھے ان کی پرسنالٹی کو کھنگالنے اور پرکھنے میں مزہ بھی آرہا تھا اور ان کو یہ سمجھانے میں یہ وقت بھی کم پڑرہا تھا کہ شخصیت اور شخصیت کی مختلف نارمل اقسام کو جانے اور جانچے بنا ہم شخصی بگاڑ یا پرسنالٹی ڈس آرڈر اور اس کی مختلف شکلوں کو نہیں سمجھ سکتے ۔
دونوں بچوں کو لفظ پرسنالٹی کے صحیح معنی بھی صحیح طرح نہیں پتہ تھے ۔ وجاہت کے چکر میں شہزاد ، خواہ مخواہ میرے لیکچر کی لپیٹ میں آرہا تھا ۔ اس بیچارے کا دور دور تک نفسیات کے موضوع سے کوئی واسطہ نہیں تھا ۔ وہ تو ماس کمیونیکیشن میں بیچلرز اور ماسٹرز کرنے کا طلبگار تھا ۔ دوستی نبھانے کے چکر میں پھنس گیا تھا ۔
ایسا بہت بار ہوتا ہے ۔ ہم سب کے ساتھ ہوتا ہے ۔ تعلق اور رشتے نبھاتے نبھاتے ہمارا اپنا تیا پانچہ ہونے لگتا ہے ۔ شہزاد کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہورہا تھا ۔ اس کی منزل منطقی تھی ۔ اور میری گفتگو انتہائی غیر منطقی ۔
" جس بات میں لاجک نہ ہو ، میں اسے مانتا ہی نہیں ۔"
شہزاد کا کہنا تھا ۔ " سائنس اور پروف کے بغیر کوئی بھی بات ، کوئی بھی تھیوری نہیں قبول کرنی چاہئیے "
بیس سالہ شہزاد کی بات منطقی تھی ۔ اس نے اپنے لئیے کم عمری میں ہی " منطقی منزل " کا انتخاب کرلیا تھا ۔ اور مطمئن تھا ۔
" میں مذہب کو نہیں مانتا ۔ میرے ماں باپ دونوں بہت مذہبی ہیں " ۔ دوسری طرف وجاہت کا یہ کہنا تھا ۔
دونوں کی باتیں سن کر مجھے ان کی دوستی کی وجہ کا اندازہ ہورہا تھا ۔ دونوں الگ الگ مضامین کے طالب علم تھے ۔ مگر دونوں کی سوچ کا محور ایک تھا ۔ دل نہیں ، دماغ ۔ جذبہ نہیں ، فکر ۔ ادراک نہیں ، منطق ۔
آج کی ماڈرن اور ایڈوانس پرائیویٹ یونیورسٹی کے دو بیس سالہ نوجوان ۔ جو مذہب کی بجائے منطق اور پروف اور سائینس کو سب کچھ سمجھتے اور مانتے ہیں ۔ مگر اپنے تمام اطمینان کے باوجود اپنے اندر اور اپنے باہر کی ہر شے ، ہر بات ، ہر چیز سے غیر مطمئن اور شاکی اور نالاں ۔ اپنی لاجک پر ہر شے ، ہر رشتہ اور ہر شخصیت کو پرکھنے اور قبول یا رد کرنے کے لئیے تیار ۔ گوگل اور انٹرنیٹ پر دستیاب ہر علم ، اور ہر طرح کی معلومات کو عقل کل اور ہر سوال کا آخری جواب جان کر ہر اس بات سے پیچھا چھڑانے کے لئیے تیار جو بظاہر کسی فائدے کی نہ ہو ۔
آج کا ہر پڑھا لکھا نوجوان کسی " روشن منزل " کا متلاشی نہیں ۔ کتابی علم کی بہتات اور معلومات کی آسان فراوانی نے ذہن اور سوچ کو اپنا اسیر بنا لیا ہے ۔ اور ہر نوجوان کی " منطقی منزل " مادہ ، مادیت اور مادی و دنیاوی فوائد و امارت و شان و شوکت کا حصول ، بن چکی ہے ۔
کوئی بھی قلبی واردات ، کوئی بھی جذباتی تحریک ، کوئی بھی غیر منطقی بات ، کوئی بھی روحانی یا مابعد النفسیاتی حقیقت ، دل کے بند دروازوں کو نہیں کھول سکتی ۔ جو آج کے اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں کی شخصیت کا حصہ ہیں ۔
آج کے نوجوان محدود مطالعے اور محدود مشاہدے کے ساتھ ساتھ محدود سوچ و بچار کے عادی ہیں ۔ وہ ہیش ٹیگ دیکھ کر کوئی بھی کام کرتے ہیں ۔ Labels اور Brands سے ہٹ کر بہت کم کوئی قدم اٹھاتے ہیں ۔ دو چار مخصوص موضوعات کو گرہ سے باندھ کر دیگر تمام موضوعات کے خلاف بات کرنا ان کے فیشن کا حصہ ہے ۔ اور اپنی پسند اور سوچ کے خلاف کوئی بھی بات برداشت نہ کرنا ، ان کی طبیعت کا خاص جز ہے ۔ کم عمری میں اگر ہماری سوچ کسی بھی بند دائرے میں قید ہوجاتی ہے اور ہم مختلف علوم و فنون سے شناسائی حاصل کرنے کی بجائے کسی خاص رنگ کی چادر اوڑھ لیتے ہیں تو پھر تمام عمر ہم اپنے بند دائرے کی قید سے باہر نہیں نکل پاتے ۔
آج کے نوجوان کا المیہ یہی ہے کہ رنگوں اور روشنیوں کی بہتات اور فراوانی اور آسان دستیابی سے اس کی آنکھیں چندھیا گئی ہیں ۔ ہر رنگ ، ہر روشنی ، ہر فکر ، ہر نظریے کی Logic اور دلیل اتنی مضبوط اور بھاری بھر کم ہے کہ یہ سب آپس میں متصادم اور گتھم گتھا دکھائی دیتے ہیں ۔ ایک کو جاننے اور ماننے کا مطلب دوسرے کی ازخود نفی کرنا ہوجاتا ہے ۔ مختلف افکار اور علوم کے مابین Links اور Common Bonds تلاش کرنے کی بجائے ان کے ظاہری اور بیرونی اختلافات اور افراق کی بابت سوچنا اور بات کرنا زیادہ سہل اور آسان ہوتا ہے ۔
آج کا نوجوان چونکہ زیادہ سہل پسند ہوگیا ہے تو وہ ذہن کے راستے پر چلنے کے بھی آسان طریقے اپنانا پسند کرتا ہے ۔ اور ایک بار اسے کوئی ایسا نظام حیات یا نظریہ Appeal کر جائے ، جس کے اپنانے سے اس لی آزادی پر بھی کوئی فرق نہ پڑتا ہو اور اسے عملی شکل میں ڈھالنے کے لئے بھی ہل بیل نہ چلانے پڑتے ہوں ، تو وہ اسے کسی صورت ترک کرنے کی نہیں کرتا ۔ نہ ہی کسی اور بہتر اور بڑے نظریے کی جانب دیکھتا ہے ۔ کہ اس صورت اسے کم یا زیادہ ، کسی نہ کسی قسم کی قربانی دینی پڑ جائے گی ۔
" منطقی منزل " کے متلاشی نوجوانوں کا بھی یہی مسئلہ ہے ۔ باتوں کے علاوہ ان کو کچھ نہیں کرنا پڑتا ۔ ہر طرح کی آزادی حاصل رہتی ہے ۔ چند کتابیں پڑھ کر بحث اور مباحثے کے نشے میں ہر کام کرتے رہتے ہیں ۔ کوئی روک ، کوئی رکاوٹ ، کوئی Hindrance نہیں ہوتی ۔
" روشن منزل " کے حصول کے لئیے بہت طرح کے چراغ جلانے پڑتے ہیں ۔ بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ۔ وسیع النظری کے ساتھ دل اور دماغ کو بھی کشادہ کرنا پڑتا ہے ۔ اختلاف رائے کو برداشت کرنے کی عادت ڈالنی پڑتی ہے ۔ مطالعہ اور مشاہدہ کے ساتھ ساتھ سوچ و فکر کے زاویہ کو بھی وسعت دینی ہوتی ہے ۔ باتوں کے علاوہ عملی کام بھی کرنے پڑتے ہیں ۔ اور سب سے بڑھ کر صبر کی راہ پر چلنا پڑتا ہے ۔ پھر کہیں جاکر منزل کے خدوخال واضح ہوتے ہیں ۔


" منطقی منزل "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی
جسمانی ، روحانی ، جنسی و منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ

www.drsabirkhan.blogspot.com
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
www.g.page/DUAAGO 

پیر، 2 دسمبر، 2019

" جال " ڈاکٹر صابر حسین خان

نیو ورلڈ آرڈر. ڈاکٹر صابر حسین خان

" بلیک ہول " ڈاکٹر صابر حسین خان

" روٹی کپڑا اور مکان " ڈاکٹر صابر حسین خان

#duaago #drsabirkhan #psychiatrist #writer #palmist #columnist

" شادی خانہ بربادی " ڈاکٹر صابر حسین خان

" نام کا کام " ڈاکٹر صابر حسین خان