اتوار، 25 جون، 2023

کتابی چہرہ ۔ نیا کالم / بلاگ ۔ 25/06/23

 " کتابی چہرہ " 

نیا کالم ۔ دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان ۔


ایک زمانہ تھا لوگ ، جوق در جوق ، کتابی چہروں پر دل و جان نچھاور کیا کرتے تھے ۔ ریشمی زلفیں ، غزالی آنکھیں ، صراحی دار گردن ، گلابی ہونٹ ، اور جانے کیا کیا کچھ ۔ شاعروں کے چوبیس گھنٹے حسن و شباب کی مدح و ستائش میں صرف ہوا کرتے ۔ اور باقی ماندہ لوگ شعروں اور غزلوں کو سن سن کر ، پڑھ پڑھ کر اپنے اپنے محبوبوں کو تصور میں لا کر واہ واہ کے نعرے لگایا کرتے ۔ اس وقت بھی لوگوں کے پاس کرنے کو کوئی ڈھنگ کا تو کیا ، بے ڈھنگا کام بھی نہیں ہوا کرتا تھا ۔ جس کو الفاظ کے استعمال پر جتنا زیادہ عبور ہوتا تھا ، وہ استاد کے درجے پر فائز ہوتا تھا ۔ اور جو لفظوں کو نگینوں کی طرح پرونے میں کمال رکھتا تھا وہ استادوں کا استاد کہلاتا تھا ۔ شاعری کا نشہ جس جس کو ڈس لیتا تھا ، اس کی زندگی انتہائی شاعرانہ ہو جاتی تھی اور ایسا شخص پھر کسی بھی کام کا نہیں رہتا تھا ۔ یہاں تک کہ اس کے اپنے کام بھی دوسروں کے مرہون منت ہو جاتے تھے ۔ مرتے دم تک اس کے لرزتے لبوں پر تازہ غزل کے اشعار مچل رہے ہوتے تھے ۔

کسی بھی نشے کی رنگینی یا سنگینی کی شدت کا اندازہ ساعت مرگ پر ہی ہوتا ہے ۔ بوقت مرگ خوبصورت سے خوبصورت ترین کتابی چہرہ مرجھائے ہوئے پھول کی صورت اختیار کر چکا ہوتا ہے ۔ مگر نشے میں غرق شخص کو تب بھی وہ پر کشش لگ رہا ہوتا ہے ۔ 

نشہ کسی بھی شے کا ہو ، کسی بھی شکل میں ہو ، سب سے پہلے ہمارے حواس پر حملہ آور ہوتا ہے ۔ پھر ہماری عقل پر پردہ ڈالتا ہے ۔ پھر ہمارے فہم کو ماؤف کرتا ہے ۔ ہمارے وجود کو کھوکھلا کرنے کے ساتھ ساتھ صحیح اور غلط ، حلال اور حرام کے فرق کو ختم کر ڈالتا ہے ۔ سو دو سو سال پہلے ہمارے معاشرے کے انٹیلیکچوئیلز ، کتابی چہرے اور شعر و شاعری کے دلدادہ تھے ۔ اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے چکر میں اپنی اپنی شاعری میں ایسی ایسی انوکھی ترکیبیں ڈال گئے کہ اردو نصاب کے کروڑوں طالب علموں کو آج بھی ان کی تشریح کے لئیے الفاظ اور زبان کے چناؤ میں ناکوں تلے پسینہ آ جاتا ہے ۔ 

نازکی اس کے لب کی کیا کہئیے 

پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے ۔

اتنے معصومانہ سادہ سے شعر کی تشریح کسی او لیول کے طالب علم سے کروائیے ۔ بلکہ او لیول کو بھی گولی مارئیے ۔ فرسٹ ائیر یا انٹر کے اسٹوڈنٹ سے درخواست کیجئیے ۔ دو گھنٹے بعد آپ اپنا سر کھجا رہے ہوں گے ۔ جو تحریر ، جو تحقیق ، جو تخلیق ، لبوں اور گلابوں کی مماثلت اور تشریح میں الجھی رہے ، الجھاتی رہے ، وہ معاشرے کو کبھی بھی کسی بھی طرح کی ترقی کی راہ پر نہیں لے جا سکتی ۔ واہ واہ اور تالیوں کا شور ، ذہن کے بند خانے نہیں کھولتا ۔ جو تحریر ، جو تحقیق ، جو تخلیق ، کائنات یا نفسیات کے اسرار جاننے ، جانچنے ، کھنگالنے کی ترغیب نہیں دیتی ، وہ کسی نشے سے کم نہیں ہوتی ۔ 

ہم لوگ صدیوں سے نشئی ہیں ۔ ہزارہا سالوں سے ہمارے خون میں حقائق سے فرار کا نشہ بھرا ہوا ہے ۔ کبھی افیم کی شکل میں کبھی شاعری کی شکل میں ۔ ہمارے لئیے ہر مسئلے کا حل راہ فرار ہے ۔ دل کے بہلانے کو کسی بھی مشغلے یا نشے کو پلے باندھ لیتے ہیں ۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ۔ ہم ابھی تک غم یاران اور غم دوراں سے باہر نہیں نکل پائے ۔ 

دنیا نے کتابی چہرہ کو نئی جدید فیس بک کی شکل دے دی ۔ مگر ہم اسے بھی اپنے فرسودہ اور دقیانوسی خیالات اور خواہشات میں رنگنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں ۔ آج دنیا کا ہر انسانی ہر کتابی ہر شہابی ہر ماہتابی چہرہ ہماری نظروں کے سامنے ہے ۔ بلکہ پوری دنیا ہماری ہتھیلی میں سما چکی ہے ۔ مگر ہمارے جینیٹک میک اپ ہمیں نہ دنیا کو سمجھنے دے رہے ہیں نہ انسان کے ذہن کو پڑھنے دے رہے ہیں ۔ ہم ابھی تک شاعری کر رہے ہیں ۔ شاعروں کو رو رہے ہیں ۔ اس سے وقت بچتا ہے تو اپنی اپنی پسند کے سیاست دانوں کی کرپشن کے کارناموں کو جسٹیفائی کرتے رہتے ہیں ۔ اور یا پھر فیس بک کے چہرے کو اپنی جنسیات زدہ ذہنیت سے پراگندہ کرنے میں مصروف رہتے ہیں ۔ 

ہمارے پاس کرنے کو تو درکنار سوچنے کو بھی کچھ نہیں ہے ۔ نہ ایمیجینیشن ، نہ انوویشن ، نہ خواب نہ خیال ۔ لے دیکر ایک پوائنٹ پر سب دل و جاں سے متفق ہیں ۔ ہم فیس بک یا سوشل میڈیا کے کسی بھی چینل سے کیسے کمائیں ۔ دو دن میں دو لاکھ کیسے بنائیں ۔ اپنی صدیوں پرانی فطرت کے ہاتھوں مجبور ہوکر ہر ایک سے بھیک مانگتے رہتے ہیں ۔ ہماری پوسٹ ، ہماری وڈیو کو لائیک کیجئے ۔ شیئر کیجئیے ۔ کومنٹس دیجئیے ۔ ہمارے چینل کو سبسکرائیب کیجئیے ۔ 

لوگوں کو کچھ دینے کی بجائے ہمیشہ ان سے لینے کی خواہش نے اچھے اچھے معقول ، بظاھر اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کے اپنے چہروں کو لالچ سے لال پیلا کر دیا ہے ۔ شہرت کی لالچ ، عزت کی لالچ ، دولت کی لالچ نے ہماری روح کے کتابی چہروں کو داغدار کر دیا ہے ۔ ہم نے علم اور تعلیم کو کمرشلائز کر دیا ہے ۔ گھسی پٹی باتوں یا لطیفوں یا قصوں کہانیوں کو لوگوں کے سامنے لا کر اپنی صلاحیتوں کو بیچنے کا عمل زور و شور سے جاری ہے ۔ بہتے دریا میں ہاتھ دھو لیں ۔ ہر شخص کا فلسفہ حیات بن چکا ہے ۔ ایسے میں زندگی کا کون سا پہلو روشن ہو گا ، کیسے ہوگا ۔ کوئی نہیں سوچ رہا ۔ کوئی نئی سوچ نہیں دے رہا ۔ سب بک رہا ہے ۔ سب بیچ رہے ہیں ۔ فیس بک پر کتابی چہرے نیلام ہو رہے ہیں ۔ طلبگار کوئی نہیں ۔ خریداروں کے انبار سے بازار بھرے ہوئے ہیں ۔ کتابیں اور دل ، دماغ اور روح کے کتابی چہرے خاک میں رل رہے ہیں ۔ اپنے آپ کو ٹٹولئیے ۔ کیا آپ بھی بیوپاری ہیں ۔ کیا آپ بھی شاعری اور سیاست کے رسیا ہیں ۔ کیا آپ بھی فیس بُک پر اسکرولنگ کرتے رہتے ہیں ۔ کیا آپ بھی اپنی وڈیوز کے ویورز اور ویوز بڑھانے کی تگ ودو میں لگے ہوئے ہیں ۔ اگر آپ کا جواب اثبات میں ہے تو یقین کیجئے کوئی تحریر ، کوئی تحقیق ، کوئی تخلیق ، کوئی تحریک آپ کی آنے والی سات نسلوں کا بھی بال بیلا بھی نہیں کر سکے گی ۔ اور آپ اپنے آباء و اجداد کی طرح کتابی چہروں کو اپنی نگاہوں سے میلا کر کے سکون سے اپنے آخری سفر کو نکل لیں گے ۔ نئی نسلوں کو سوچنے اور کرنے کے لئیے کچھ نیا دئیے بنا ۔