منگل، 23 اپریل، 2019

DAILY PAKISTAN. چور مچائے شور

My New Column / Blog / Article in DAILY PAKISTAN
23.04.19
DUAAGO. DR. SABIR KHAN
www.drsabirkhan.blogspot.com
www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.youtube.com/Dr.SabirKhan
www.duaago.com

https://dailypakistan.com.pk/23-Apr-2019/956724

" چور مچائے شور " ڈاکٹر صابر حسین خان


نیا کالم/ بلاگ/ مضمون ۔

" چور مچائے شور " ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان ۔

اپنے چاروں طرف نظر دوڑائیے ۔ بلکہ نظر کیا ، اپنی سماعت کے ریڈار کی فریکوینسی کو بھی ساتھ ساتھ ٹیون ان کیجیے ۔ اور دیکھئیے اور سنیئے ۔ شاید ہی کوئی کونہ کوئی گوشہ ایسا ملے گا جہاں مکمل سکوت اور خاموشی ہو ۔
گھر ، دفتر ، بازار ، گلی ، محلہ ، پارک ، مسجد ، کالج ، یونیورسٹی ، ہوٹل ، اسٹیشن ، غرض یہ کہ ہر جگہ ہمیں بھانت بھانت کی بولیاں اور آوازیں سننے کو ملتی ہیں ۔ کیا بچے ، کیا بوڑھے ، کیا مرد ، کیا خواتین ، سب اپنے اپنے ظرف اور استطاعت کے حساب سے ماحولیاتی شور میں اپنا حصہ ڈالنے میں مصروف ہیں ۔ اور مست و مگن ہیں ۔
بچے ، جب اوائل عمر میں پہلی پہلی بار بولنا سیکھتے ہیں اور ان زبان و بیان کی طاقت کا لا شعوری اندازہ ہوتا ہے تو وہ مستقل بولتے ہیں اور زیادہ بولتے ہیں اور زور و شور سے بولتے ہیں اور زیادہ تر وقت بولتے رہتے ہیں ۔ اسی طرح شعوری عمر میں جوں جوں ہماری معلومات اور الفاظ کا دائرہ بڑا ہوتا جاتا ہے ، ہمارے اظہار کی قوت اور خواہش ، دونوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے ۔ یہ انسان کی بنیادی نفسیات کا ایک اہم جز ہے کہ وہ جو کچھ جانتا ہے ، اسے اوروں کے ساتھ شئیر کرنا چاہتا ہے ۔
انسانی نفسیات کا ایک اور بھی اہم جز ہمہ وقت ، حرکت میں رہتا ہے ۔ اظہار کے ساتھ اپنی شناخت اور پہچان کروانے کا ۔ اور اس کا سب سے آسان ذریعہ کلام ہے ۔ گفتگو ہے ۔ بات چیت ہے ۔ اپنی شناخت کے لیئے اسے بولنا پڑتا ہے ۔ اپنے کاموں کے لیئے اسے گفتگو کا سہارا لینا پڑتا ہے ۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اسے اپنے آپ کو منوانے اور جنوانے کے لیئے زیادہ بولنا پڑتا ہے اور زیادہ زور و شور سے بولنا پڑتا ہے ۔ بہت ہی کم لوگ خاموش رہنا پسند کرتے ہیں اور خاموشی کو ویلکم کرتے ہیں ۔ ہم اپنے اندر کے شور سے گھبرا کر بولتے ہیں اور بولتے چلے جاتے ہیں ۔ یہ دیکھے بنا ، یہ سوچے بنا کہ کوئی ہماری بات سن بھی رہا ہے یا سمجھ بھی رہا ہے ۔ ہمیں محض اپنے اندر کی صفائی کرنے اور کرتے رہنے کا جنون ہوتا ہے ۔ کیونکہ اگر ہم ایسا نہ کریں گے تو ہمارے اندر کا شور ہمیں مارے ڈالتا ہے ۔ ہمارے اندر جتنا زیادہ منفی جذبات ، احساسات ، اور خیالات کا ہجوم ہوگا ، فکریں اور سوچیں ہوں گی ، اتنا ہی زیادہ ہمارے اندر کا شور بڑھتا ہے اور ہمیں بولنے اور مستقل بولتے چلے جانے پر مجبور کرتا ہے ۔ ہمارے ضمیر پر جتنا زیادہ بوجھ ہوتا ہے ، ہمارے اندر اتنی زیادہ بےسکونی اور انتشار ہوتا ہے ۔ یہ بےسکونی اور انتشار بھی ہمارے اندرونی خلفشار کو بڑھاتا ہے ۔ اور ہمیں ہمہ وقت مضطرب اور بیچین رکھتا ہے ۔
قلبی اور ذہنی طور پر کوئی بھی فرد یا افراد کا گروہ اگر زیادہ مدت تک بیچین ، مضطرب ، پریشان ، رہتا ہے اور اندرونی طور پر خلفشار اور انتشار میں مبتلا رہتا ہے تو اس کا اعصابی نظام کمزور پڑنے لگتا ہے ۔ آپ نے فلموں میں دیکھا ہوگا یا کہانیوں میں پڑھا ہوگا کہ کسی طرح کسی انسان کے ذہن پر مستقل دباؤ ڈال ڈال کر اسے بولنے پر مجبور کیا جاتا رہا تاوقتیکہ اس کے اعصاب اتنے کمزور ہوگئے کہ وہ پھر فر فر بولنے لگا اور بولتا چلا گیا ۔
عام زندگی اور عمومی صورتحال میں بھی انسانی نفسیات کا یہ اصول ہم سب کے لئیے یکساں طور پر لاگو ہوتا ہے ۔ جوں جوں ہمارے اعصاب پر بوجھ بڑھتا ہے ، وہ تھکتے چلے جاتے ہیں ۔ خواہ دن بھر کے کام کی تھکن کے بعد ، رات میں دوستوں کی محفل سجا کر اپنے دن بھر کے غبار کو باتوں کے ذریعے اتارنا ہو یا ماہ دو ماہ بعد پارٹی کرکے ہلا گلا کر کے اپنے آپ کو ہلکا پھلکا کرنا ہو ۔ اس طرح کی تمام سرگرمیاں اسی زمرے میں آتی ہیں ۔ جب ہم اپنے اندر کے شور کو باہر کے شور سے مہمیز کرکے اس کا زور توڑنے کے کوشش کرتے ہیں ۔ اگر ہمارے اندر امن ، سکون اور خوشی ہوتی ہے تو بہت کم وقت میں بہت کم کوشش سے ہمارا اندر ، باہر سے Align
ہو جاتا ہے اور ہمارے اندر کا شور ، کم اور مدہم پڑ جاتا ہے ۔ لیکن اگر ہمارے اندر منفی خیالات اور منفی اعمال و افعال کا تناسب زیادہ ہوتا ہے تو ہزارہا کوششوں کے باوجود ہمارے اندر کا شور اور انتشار نہ ختم ہو پاتا ہے ، نہ کم ہو پاتا ہے ۔ خواہ ہم رات دن کتنا ہی شور شرابہ مچاتے رہیں ، کتنے ہی بھنگڑے ڈالتے رہیں ، کتنے ہی ہنگامے کرتے رہیں ۔
ہمارے دل کا چور ہمیں شور مچانے پر مجبور کرتا رہتا ہے ۔ ہماری چوری ، ہماری غلطی ، ہماری برائیوں کی گٹھڑی جتنی بڑی ، جتنی بھاری ، جتنی پرانی ہوگی ۔ ہمارا شور و واویلا اتنا ہی زیادہ ہوگا ۔ ہمارا رونا دھونا ، چینخنا چلانا ، اتنا ہی بآواز بلند ہوگا ۔ یہ انسانی سائیکی ہے ۔ بہت ہی کائیاں ، شاطر ، زیرک ، ہوشیار لوگ ہی اس بنیادی انسانی نفسیات کے کمزور گوشے پہ پردہ ڈالنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں ۔ اور وہ بھی بہت زیادہ دنوں تک نہیں ۔ کہ نفسیات کی طرح ، قدرت کے بھی اپنے ضابطے ، اپنے قوانین ہوتے ہیں ۔ اور جلد یا بدیر ، آج نہیں تو کل ، ہمارے اندر کا چور پکڑائی دے دیتا ہے ۔ پکڑا جاتا ہے ۔ اپنے تمام شور کے ساتھ ، اپنی میسنی خاموشی کے باوجود ۔
اپنے چاروں طرف نظر دوڑائیے ۔ خود اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں ۔ جہاں جہاں آپ کو زیادہ شور سنائی دے گا ۔ نارمل ، ضرورت سے زیادہ باتیں ہوتی نظر آئیں گی ۔ زیادہ تیز آواز میں گفتگو سننے میں آئے گی ۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ باتوں کے متن میں زیادہ تنقید ، زیادہ تحقیر ، زیادہ طنز ، اور ہمہ وقت ہر شخص ، ہر بات ، ہر شے ، ہر کام میں خرابیوں اور خامیوں کا رونا دھونا نظر آئےگا ۔ تو جان لیجیئے کہ وہاں وہاں اندر کا شور زیادہ ہے ۔ اور یہ تو اب آپ کے علم میں آ ہی گیا ہے کہ ، ہمارے اندر کا چور ہی ہمیں شور مچانے پر مجبور کرتا ہے ۔
آئیے یہاں انگریزی زبان کا بھی ایک مشہور قول پڑھ لیتے ہیں ۔
It's Not The Crime , But The Guilt That Kills Us From Within.
ہمارے اندر چھپا ہوا احساس گناہ اور ندامت ہمیں مار ڈالتا ہے ۔ ہم بےایمانیاں کرتے ہیں ، چوریاں کرتے ہیں ، غلطیاں کرتے ہیں ، ہر طرح کے گناہ کرتے ہیں ۔ اور پھر تمام عمر ان پر ، پردہ ڈالے ڈالے پھرتے ہیں ۔ بظاہر کچھ خاص نہیں ہوتا ۔ کوئی سزا نہیں ملتی ۔ دولت ، شان و شوکت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے ۔ مگر اندر کا پریشر بڑھتا چلا جاتا ہے ۔ اندر کا شور بڑھتا چلا جاتا ہے ۔ اور ایک وقت ایسا آتا ہے جب ہم کسی ایسے مسئلے ، ایسی پریشانی میں گرفتار ہو جاتے ہیں ۔ جس سے پھر باہر نہیں نکل پاتے اور دھیرے دھیرے پاتال کی گہرائیوں اور رسوائیوں میں ڈوبنے لگتے ہیں ۔ پھر ہمارا شور بھی بڑھتا جاتا ہے اور ہمارے اندر کا چور بھی باہر نکلنے لگتا ہے ۔ اور ہم اس وقت ، اس جگہ ، اس طرح پکڑے اور جکڑے جاتے ہیں جو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا ۔
ایسا آج سے نہیں ہو رہا ۔ یہ قصہ گزرے زمانوں سے چل رہا ہے ۔ میں اور آپ نہ انسانی نفسیات کے اصولوں میں ردوبدل کر سکتے ہیں اور نہ قوانین قدرت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر سکتے ہیں ۔ البتہ ' چور مچائے شور ' کے کلیدی نکتے کو سامنے رکھتے ہوئے جہاں ایک طرف اپنے اپنے ضمیر کا بوجھ ہلکا کرنے کی سعی کر سکتے ہیں ، وہاں دوسری طرف اپنے چاروں اطراف ، چوروں کو شور مچاتے دیکھ کر بآسانی ان کی شناخت کر سکتے ہیں ، ان کے چنگل میں پھنسنے سے خود کو بچا سکتے ہیں ، اور ان کی پر کشش باتوں اور نعروں کے سحر کو پھیلنے سے روک سکتے ہیں ۔
تاریخ گواہ ہے ۔ فرد کے من کا چور ہو یا کسی گروہ ، قوم یا ملک کے چوروں کا شور ہو ، ایک نہ ایک دن چور کو مور پڑ ہی جاتے ہیں ۔ بس اس دن ہمارا شمار نہ چوروں میں ہونا چاہئیے اور نہ شور مچانے والوں میں ہمارا نام شامل ہونا چاہئیے ۔ یہ اسی صورت ممکن ہے ، کہ ہم آج اور ابھی سے شور مچاتے چوروں سے اپنا تعلق منقطع کر لیں ۔ اپنی توجہ ان کی بلند و بانگ باتوں ، نعروں اور وعدوں سے ہٹا کر اپنی ذاتی اصلاح ، اپنے اندر کی صفائی کے عمل پر مبذول کر لیں ۔ اور اپنے اندر اور باہر کے چوروں اور ان کے شوروغل کو کم اور ختم کرنے کا عہد کرلیں ۔
یہ عہد اور اس عہد کی روشنی میں کی جانے والی تگ و دو ہمیں انفرادی سطح پر بےایمانیوں ، چوریوں ، گناہوں اور غلطیوں کے ارتکاب سے روکے گی ۔ ہمارے ضمیر کا بوجھ ہلکا کرے گی ۔ اور ہمارے اندر کے پریشر کا دباؤ کم کرکے ہمیں سکون اور عافیت سے ہمکنار کرے گی ۔

دعاگو ۔
ڈاکٹر صابر حسین خان ۔

ماہر نفسیات
وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ،
روحانی ، جسمانی ، جنسی و منشیات ۔

مصنف ، کالم نگار ، بلاگر ،
شاعر ، پامسٹ ۔

ڈائریکٹر : دعاگو ۔ دی کاونسلرز ۔
( مرکز ذہنی و جسمانی صحت )

DUAAGO
DR.SABIR HUSSAIN KHAN
CONSULTANT PSYCHIATRIST
PSYCHOTHERAPIST

AUTHOR. WRITER. COLUMNIST.
BLOGGER. POET. PALMIST.

www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.youtube.com/Dr.SabirKhan
www.drsabirkhan.blogspot.com

بدھ، 17 اپریل، 2019

امن کی آشا, جنگ کی بھاشا

’’ امن کی آشا . جنگ کی بھاشا ‘‘ https://dailypakistan.com.pk/14-Apr-2019/952409

آسانیاں

’’آسانیاں ‘‘ https://dailypakistan.com.pk/07-Apr-2019/949186

آسان کام

’’آسان کام ‘‘ https://dailypakistan.com.pk/31-Mar-2019/946149

خوابوں کی خوشبو

’’ خوابوں کی خوشبو‘‘ https://dailypakistan.com.pk/29-Mar-2019/945445

لمحے کا آدمی

’’ لمحے کا آدمی ‘‘ https://dailypakistan.com.pk/25-Mar-2019/943594

سوچ کے رنگ

سوچ کے رنگ https://dailypakistan.com.pk/24-Mar-2019/942868

ہفتہ، 6 اپریل، 2019

" آسانیاں " ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

میری اشفاق احمد صاحب سے محض دو ملاقاتیں ہوئیں ۔ اکتوبر 1997 اور دسمبر 2003 میں ۔ تین چار گھنٹوں پر محیط تفصیلی ملاقاتیں ۔ تین چار بار خط و کتابت ہوئی ۔ ان کے مقبول ترین کردار اور پروگرام ' تلقین شاہ ' کی بابت بہت سنا اور پڑھا مگر نہ کبھی پروگرام سننے کا اتفاق ہوا اور نہ ہی کتابی شکل میں پڑھنے کا دل ہوا ۔ اسی طرح ' زاویہ ' دیکھنے اور سننے کا موقع بھی کم کم ملا ۔ لیکن ان کی وفات کے بعد جب ' زاویہ ' کتابی شکل میں آئی تو اسے پڑھ کر اسے گھول کر پینے کا دل خود بخود ہونے لگا ۔ سنا ہے بحیثیت افسانہ نگار ان کی شہرت ' گڈریا ' کے بعد پروان چڑھی ۔ اور بحیثیت ڈرامہ نگار ' ایک محبت سو افسانے ' نے ان کی شہرت کو چار چاند لگائے ۔ مجھے یہ سب کچھ بہت بعد میں پتہ چلا ۔ ہم سب کو ہی بہت کچھ بہت بعد میں پتہ چلتا ہے ۔ مگر میری اشفاق احمد صاحب سے محبت کا آغاز 1980 ، 1981 میں ہوگیا تھا ۔ ' اور ڈرامے ' سیریز کے اور طرح کے ڈرامے دیکھ دیکھ کر ۔ پھر 1982 میں ان کی سفر نامہ نما کتاب ' سفردرسفر ' پڑھی تو محبت میں اضافہ ہونا شروع ہوا ۔ لیکن فل اینڈ فائنل فل اسٹاپ، ' من چلے کا سودا ' دیکھنے اور ' زاویہ ' پڑھنے کے بعد لگا ۔ گو یقیننا اشفاق احمد صاحب سے بہت بڑے اور بہت اچھے اور اثر انگیز لکھاری اور بول چال کے ماہر گزرے ہیں اور موجود ہوں گے اور آئندہ بھی آتے رہیں گے ۔ لیکن شاید جتنے رنگ، جتنی جہتیں، جتنے زاویے اشفاق احمد صاحب کی شخصیت میں قدرت نے رکھے تھے اتنے کسی اور صاحب طرز ادیب و دانشور میں نہ رہے ہوں ۔ اور پھر زندگی کے ہر مقام پر، اس لمحے کے رنگ اور زاویے کو بھرپور پذیرائی بھی ملی ہو ۔ شہرت، عزت، مقبولیت، اور دولت ، قدرت کی ان چاروں نعمتوں کو بھی بہت کم اردو زبان کے کسی لکھاری کے دامن میں ڈالا گیا ہے ۔ اپنی اپنی زندگی میں تو بہت سوں کو بہت کچھ عطا ہوا مگر مٹی پڑتے ہی کچھ کا نام رہ گیا تو کچھ کا کام ۔ ہر کسی کے حصے میں سب کچھ نہیں آ پایا ۔ کسی کے حصے میں کبھی بھی سب کچھ نہیں آ پاتا ۔ عزت ملتی ہے تو شہرت پاس نہیں ہوتی ۔ شہرت کا آسمان چھولیتے ہیں تو عزت کے بخیئے ادھڑنے لگتے ہیں ۔ مقبول ہوتے ہیں تو وہ آنکھیں بند ہوتے ہی لائم لائٹ سے پردہ کر جاتے ہیں ۔ دولت پاس ہو تو عزت اور شہرت خریدنے کے باوجود مقبولیت نہیں مل پاتی ۔ اردو زبان و ادب میں کچھ اسی طرح کی کہانیاں ہیں ۔ بڑے بڑے ناموں سے پورا صفحہ بھر جائے گا مگر جب ہم ان سب ناموں کے حالات زندگی پر نظر ڈالیں گے تو ہمیں ان کے کچھ نہ کچھ حاشیے خالی یا ادھورے ملیں گے ۔ اور اگر ڈھونڈے سے دو چار نام بھاری بھرکم حوالوں والے مل بھی جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان کی خانگی اور گھریلو زندگی تنہائی اور ابتری میں گزری ہے ۔ یہاں ان گنت مثالیں بھی دی جا سکتی ہیں مگر مقصد موازنہ نہیں بلکہ ایک حقیقت کا اظہار ہے ۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ اردو زبان کے دانشوروں اور ادیبوں اور لکھاریوں کے حوالے سے میری معلومات مکمل طور پر درست ہوں ۔ اور تاریخ میں ایسے بھی نہایت کامیاب و کامران و شاد آباد لکھنے والے گزرے ہوں جن کی زندگی کے لگ بھگ تمام گوشے اپنی زندگی میں بھرپور رہے ہوں اور آج بھی وہ عوام و خواص میں مقبول ہوں ۔ یہ عنایت بھی بہت کم لوگوں کو ملتی ہے کہ ان کا لکھا ہوا معاشرے کے ہر طبقے کو متاثر کرے ۔ ان پڑھ، جاہل، اجڈ، گنوار، سے لے کر ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر، وکیل، بینکر، بزنس مین، بیوروکریٹ، کرنل، جنرل اور حکمران وقت تک سبھی اس لکھاری و دانشور کے خیالات اور فلسفوں سے متاثر ہوں ۔ بڑے بڑے مشہور اور مقبول رائٹرز کو سوسائٹی کے ہر طبقے میں یکساں پذیرائی نہیں مل پائی ۔ بہت اچھا ، بہت خوبصورت لکھنے والے بھی مخصوص حلقوں کی ریڈر شپ اور خاص الخاص ذہنوں، عمروں اور دلوں کو ہی اپنی گرفت میں لے پائے ۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ قدرت کسی بھی عہد ، کسی بھی زمانے میں ، کسی خاص وقت میں کروڑوں، اربوں لوگوں میں سے دو چار لوگوں کو ہی کیوں صف اول میں رکھتی ہے ۔ اور ان کو ایسی دو چار اضافی خوبیاں اور منفرد صلاحیتیں عطا کرتی ہے جو اس زمانے کے اور اس زمانے سے بہت بعد کے زمانوں تک کے لوگوں کے حصے میں نہیں آتیں ۔ زندگی کے ہر شعبے، ہر میدان میں گنتی کے دو چار افراد ہی اپنی منفرد اور اپنے عہد کے باقی لوگوں سے الگ اور انوکھی سوچ، رویوں اور افعال کے حامل ہوتے ہیں ۔ اور اپنے عہد کے لوگوں کی بھرپور تنقید کا نشانہ بنتے ہیں مگر اپنے منتخب کردہ راستے کی رکاوٹیں دور کرنے میں لگے رہتے ہیں ۔ آخری سانس تک اپنے پیشن ، اپنے پروفیشن ، اپنے مقصد حیات میں لگے رہتے ہیں ۔ خواہ وہ کچھ بھی ہو ، کیسا بھی ہو ۔ اور بظاہر اس کا نتیجہ کچھ بھی اور کیسا بھی کیوں نہ نکل رہا ہو ۔ بات تھوڑی سی آگے بڑھاتے ہیں ۔ اشفاق احمد صاحب کی جگہ مثال کسی مغربی باشندے کی بھی دی جا سکتی تھی ۔ کہ عام طور پر ہم جیسی احساس کمتری کی ماری قوم ، اپنے اندر جھانکنے کی بجائے ، اپنے اپنوں اور اپنے خالص روایتی رنگوں کو اپنا آئیڈیل بنانے کی بجائے غیر ملکی تہذیبوں اور ثقافتوں کی پوجا کرنا اپنا مذہبی فریضہ اور اخلاقی ذمہ داری سمجھتی ہے ۔ لیکن اس صورت میں جو بات آپ تک پہنچانی تھی ، وہ صاف و شفاف انداز میں نہیں ہو سکتی تھی ۔ اشفاق احمد صاحب نے ' سفردرسفر ' میں اپنے مخصوص انداز میں ، خوبصورت الفاظ کی مدد لے کر جو مرکزی خیال 1982 میں قارئین کے سامنے پیش کیا ۔ وہی خیال برازیل کے ایک لکھاری نے سات سال بعد 1989 میں اپنے ایک ناول میں ، ذرا مختلف انداز میں ، ذرا مختلف الفاظ سے ظاہر کیا ۔ اس لکھاری کے نام سے آج کروڑوں لوگ واقف ہیں اور اس کا وہ اولین ناول ، جو اپنے پہلے ایڈیشن کے بعد فلاپ قرار دے دیا گیا تھا ، آج تک سو سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہو کر کروڑوں کی تعداد میں فروخت ہو چکا ہے اور ادب کی دنیا میں قدم رکھنے والا ہر نووارد اور طالب علم اس ناول کو پڑھے بنا اپنے مطالعے کو ادھورا سمجھتا ہے ۔ دوسری طرف ' سفردرسفر ' کا سفر بڑا محدود رہا ۔ اشفاق احمد صاحب کے چاہنے والوں کی کثیر تعداد بھی ان کی اس کتاب کے مطالعے سے شاید محروم ہے یا اس کے علم میں یہ کتاب ہے ہی نہیں ۔ زیادہ تر لوگوں کے نزدیک اشفاق احمد صاحب کی شناخت ، پہچان اور شہرت کے حوالے ' گڈریا ' ، ' ایک محبت سو افسانے ' اور ' زاویہ ' ہیں ۔ اور وہ بھی مقامی اور اردو زبان و ادب سے شغف رکھنے والوں کی ایک محدود تعداد ہی ۔ جب کہ برازیل کے ناول نگار کا نام آج کل دنیا کے چپے چپے کے بچے بچے کی زبان پر ہے ۔ فیشن کہہ لیں یا کریز یا لمحے کا جادو ۔ یہ سب باتیں بظاہر آپ کو ذرا بے ربط دکھائی دے رہی ہوں گی ۔ اور یہ سچ بھی ہے ۔ کہاں بین الاقوامی شہرت و مقبولیت و عزت و دولت کے آسمان کو چھوتا ہوا ، ادب اور ادیب اور کہاں ملکی سطح پر متوسط فن و تحریر کی قدغن میں الجھا ہوا دانشور ۔ جسے اس کے ہمعصر بھی تمام عمر تنقید کا نشانہ بناتے رہے ۔ یہاں بھی دونوں ادیبوں اور ان کے تخلیق کردہ ادب کا موازنہ ، اس تحریر کا مقصد نہیں ۔ تقابل اور موازنہ سے کبھی کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ قدرت کی ہر اکائی کا رنگ الگ ہوتا ہے ۔ دونوں ادیبوں نے اپنے قلم سے اپنے نصیب کی دولت، عزت، شہرت کمائی ۔ دونوں نے ہزاروں کہانیاں لکھیں ۔ ان گنت کردار تخلیق کئیے ۔ انداز اور الفاظ اور زبان کے مختلف ہونے کے باوجود ، بیان اور خیال اور فکر کے مختلف ہونے کے باوجود ، دونوں نے انسان کے اندر کی تنہائی اور تضاد کو ھائی لائٹ کیا اور اپنے اپنے نظریات اور فلسفہ حیات کی روشنی میں انسان کے روحانی کرب اور مسائل کا حل پیش کیا ۔ ان تمام حلوں میں ایک نکتہ مشترک ہے ۔ آسانی کا ۔ ایک دوسرے کی مدد کا ۔ ایک دوسرے کے لئیے آسانیاں پیدا کرنے اور مستقل کرتے رہنے کا ۔ ایک دوسرے کو اپنا وقت اپنی محبت دینے کا ۔ ایک دوسرے کی بات اور دل کا حال سننے کا ۔ ایک دوسرے کو راست بات بتانے اور درست مشورہ فراہم کرنے کا ۔ کہ یہی ایک نکتہ ہمارے اندر کی تنہائی کو ختم کرتا ہے ۔ خواہ ہمارا تعلق دنیا کی کسی بھی قوم سے ہو ۔ ہمارا رنگ ، ہماری نسل ، ہمارا قبیلہ کچھ بھی ہو ۔ کیسا بھی ہو ۔ ہماری جنس ، ہماری عمر ، ہماری تعلیم ، کچھ بھی ہو ۔ یہی ایک نکتہ انسان کو نہ صرف انسان سے بلکہ قدرت کے آفاقی نظام سے جوڑتا اور مربوط کرتا ہے ۔ اور ہمیں آفاقی سوچ عطا کرتا ہے ۔ جو رنگ، نسل، قوم، زبان کے فرق اور فرقوں و طبقوں کی تفریق سے آزاد ہوتی ہے ۔ اور انسان کو دوسرے انسانوں سے محبت کرنا سکھاتی ہے ۔ اور انسانیت پر یقین کو مستحکم کرتی ہے ۔ یہ آفاقی سوچ جب ایک فرد میں جنم لیتی ہے تو اس کے دل میں روشنی پیدا ہونے لگتی ہے اور اسے زندگی کے اندھیروں میں بھی امید اور اطمینان کی کرنیں پھوٹتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں ۔ اور جب کوئی گروہ یا معاشرہ اس سوچ کا حامل ہو جاتا ہے تو دور دور سے علم و فن و ہنر کے پروانے ، آسانیاں سمیٹنے اور اپنی زندگیوں کو آسان و پر سکون بنانے کے لئیے آسانیاں بانٹنے والے معاشروں کے چکر لگانے شروع کر دیتے ہیں اور اپنے صدیوں پرانے رہائشی علاقے چھوڑ کر آفاقی سوچ کی حامل بستیوں میں آ بستے ہیں ۔ دینے ، بانٹنے اور آسانیاں تقسیم کرنے اور محبت و اخوت کی روشنی کو عام کرنے کی سوچ اور فکر کسی مذہب ، کسی تہذیب ، کسی خاص نظریہ حیات کی میراث نہیں ۔ جس فرد ، جس قوم ، جس مذہب نے اس سوچ اور انداز کو اپنایا اور اپنی زندگیوں کو اس کے مطابق ڈھالا ، اسے قدرت نے پھر نوازنا شروع کر دیا ۔ دولت، عزت، شہرت اور مقبولیت ۔ ہر اس فرد ، قوم اور معاشرے کے آنگن میں اترنا شروع ہو جاتی ہے جو یہ نکتہ، یہ فلسفہ جان لیتا ہے کہ خلق خدا کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کرنا ہی درحقیقت ہماری زندگی کا مطمع نظر ہونا چاہئیے ۔ ہماری ہر بات ، ہمارے ہر کام کی نیت یہی ہونی چاہئیے ۔ دل سے اس راستے پر چلنے اور چلتے چلے جانے سے ہمارے دل سے دولت ، عزت ، شان و شوکت ، شہرت ، جاہ و جلال ، سب دنیاوی حوالوں کی طلب اور خواہش ختم ہونے لگتی ہے ۔ اور ہماری زندگی سادہ اور آسان ہونے لگتی ہے ۔ ہماری تنہائی مٹنے لگتی ہے ۔ ہمارے اندر سے اکیلے پن کا احساس ختم ہونے لگتا ہے ۔ ہماری روح ہلکی اور شاداب ہوجاتی ہے ۔ پھر جب ایک عمر بیتتی ہے سادگی ، سچائی اور آسانی کی سوچ اور فکر اور عمل کے ساتھ اور اس سوچ ، فکر اور عمل سے دوسروں کی زندگیوں میں بھی آسانیاں پیدا ہونے لگتی ہیں تو رحمت اور برکت کے دروازے کھلنا شروع ہو جاتے ہیں اور بن مانگے اللہ تعالی کی نعمتیں ہمارے لیئے آنا شروع ہو جاتی ہیں ۔ تصوف کے سفر نے اشفاق احمد صاحب کو اور زندگی کے تلخ تجربات اور ہجرت نے برازیل کے ناول نگار پاولو کوئھیلو کے دل کو اسی آفاقی سوچ کا حصہ بنا دیا ۔ اشفاق احمد آج ہمارے درمیان نہیں ۔ پاولو کوئھیلو آج بھی اپنی تحریروں سے بیچین روحوں کی پیاس بجھا رہا ہے ۔ میری روح کی تسکین کے لئیے تو قدرت نے کچھ پڑھنے ، کچھ سیکھنے ، کچھ لکھنے ، کچھ پڑھوانے ، کچھ سکھانے ، کچھ بتانے کا انتظام کر دیا ہے کہ اس طرح دو چار لوگوں کی زندگی بھی آسان ہو جائے اور ان کا کوئی مسئلہ حل ہو جائے تو میرے لئیے بھی قدرت کی رحمتوں اور برکتوں کا سلسلہ جاری ہو ۔ آپ بھی ذرا سوچئیے گا ۔ اس آفاقی سوچ کو اپنانے کا اور اپنی زندگی کو سادہ اور آسان اور شاداب بنانے کا ۔ کہ آپ کے لئیے قدرت نے آسانیاں پھیلانے کے لئیے کون سا راستہ رکھا ہے ۔ دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان ۔ ماہر نفسیات و امراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ، روحانی ، جسمانی ، جنسی اور منشیات ۔ مصنف ، کالم نگار ، شاعر ، بلاگر ، پامسٹ ۔ DUAAGO DR. SABIR HUSSAIN KHAN CONSULTANT PSYCHIATRIST PSYCHOTHERAPIST AUTHOR. WRITER. BLOGGER. COLUMNIST. POET. PALMIST. www.drsabirkhan.blogspot.com www.fb.com/Dr.SabirKhan www.youtube.com/Dr.SabirKhan