پیر، 6 مئی، 2019

" کونمین " ۔ ( CONMAN ) . نیا کالم/ بلاگ ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

" کونمین " ( CONMAN ) . نیا کالم/ بلاگ

ڈاکٹر صابر حسین خان


پینتالیس سال پہلے کی بات ہے ، ایک مزاحیہ پنجابی زبان کی فلم بہت مشہور ہوئی تھی ۔ اپنے وقت کے منفرد اور معروف مزاحیہ اداکار منور ظریف مرحوم نے مرکزی کردار ادا کیا تھا ۔ ان دنوں ٹی وی پر نئی ریلیز ہونے والی فلموں کے مختصر ٹریلر آیا کرتے تھے ۔ ان ٹریلرز کو دیکھ کر مجھ بہت حیرت ہوا کرتی تھی کہ ایک ہی فلم میں ایک ہی اداکار کیسے کئی روپ اور حلیے بنائے ہوئے ہے ۔ فلم تو میں نہیں دیکھ پایا مگر اس کا نام آج بھی ذہن میں ہے ۔ میری عمر کے لوگوں کو بھی شاید وہ نام یاد ہوگا ۔ اور اردو زبان سے واقفیت رکھنے والوں کو بھی ، فلم کے حوالے سے نہ سہی ، ویسے بھی اس نام سے شناسائی ہوگی ۔ کہ اس نام کی شہرت سو سوا سو سال سے چہار سو عام ہے ۔
" بنارسی ٹھگ " ۔ پینتالیس سال پہلے بننے والی فلم کا نام تھا ۔ جس میں منور ظریف مرحوم نے بنارسی ٹھگ کا کردار ادا کیا تھا ۔ فلم اور مرکزی کردار کے نام سے ہی آپ نے اندازہ لگا لیا ہوگا کہ فلم کی کہانی کیا ہوگی ۔ اور اگر آپ فلم سے ناواقف بھی ہیں ، تب بھی آپ کو آئیڈیا ہوگا کہ بنارسی ٹھگ یا بنارسی ٹھگوں کی وجہ شہرت کیا ہے ۔
آج کل کے ، ہم سے زیادہ پڑھے لکھے اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کو شاید بنارسی ٹھگوں کی بابت زیادہ معلومات نہ ہوں ۔ اسی لئیے اس تحریر کا عنوان "کونمین" یا CONMAN رکھا ، تاکہ نہ صرف آج کے نوجوان بھی کچھ کچھ سمجھ سکیں بلکہ ہماری عمر کے بھی کچھ لوگ آج کی ، کونمین کی اصطلاح سے واقف ہو سکیں ۔ اور آسان زبان ، مگر ذرا بازاری زبان میں سمجھنا ہے تو " فراڈیا یا فراڈئیے " کے الفاظ کی مدد لی جاسکتی ہے ۔ عین گمان ہے کہ آپ میں سے اکثر لوگوں نے بیس بائیس سال پہلے ٹی وی پر مشہور ہونے والا گیت بھی سنا اور دیکھا ہو ۔ " مسٹر فراڈئیے " ۔ اور ہو سکتا ہو ایک اور مزاحیہ اداکار علی اعجاز مرحوم کی مشہور فلم " مسٹر فراڈئیے " بھی آپ کی نظر سے گزری ہو ۔
اپنے اپنے زمانے کے ٹھگ ہوں یا فراڈئیے ۔ اور یا آج کل کے زیادہ مہذب یافتہ ، زیادہ پڑھے لکھے ، زیادہ چالباز ،
زیادہ شاطر ہوں ۔ عام فہم زبان میں ان کو نوسر باز کہا جاتا ہے اور ایف بی آئی اور لیگل اصطلاح کے مطابق ان کو " وائیٹ کالر کرمنلز " کا ٹائٹل دیا جاتا ہے ۔ ابھی حال ہی میں ایک انگریزی ڈرامہ سیریز کے سات یا آٹھ سیزن کئی سال تک ٹی وی پر آتے رہے ہیں ۔ اسی طرح کے ایک کردار کی کہانی کو خوبصورتی سے بیان کیا گیا ۔ آپ کو بآسانی یہ سیریز نیٹ پر مل جائے گی ۔ " وائیٹ کالر " کے نام سے ۔ اور بہت سی باتوں ، بہت سی چیزوں کی طرح دھوکہ ، فراڈ ، ٹھگی ، نوسر بازی کے فنون کو بھی بہت مہذبانہ اور خوبصورت نام دے دئیے گئے ہیں اور ان کو باقاعدہ معاشرتی نظام کا ایک لازم جز جان اور مان لیا گیا ہے ۔ یعنی دھوکا دہی اور فراڈ کو باضابطہ ایک آرٹ ، مگر غیر قانونی اور غیر اخلاقی ، کی شکل میں قبول کرلیا گیا ہے ۔
تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور میں دھوکہ دینے والے ، فراڈ کرنے والے ، چکر بازی سے پیسے چرانے (کمانے) والے پیدا ہوتے رہے ہیں ۔ کبھی کم کبھی زیادہ ۔ اور ہر دور میں لوگوں کی اکثریت ایسے چکر بازوں اور نوسر بازوں کے ہاتھوں لٹتی رہی ہے ، برباد ہوتی رہی ہے ۔
ہر دور میں فراڈئیوں کے نام ، شکلیں ، روپ ، بہروپ ، کاموں کے انداز اور وارداتوں کے طور طریقے بدلتے رہے ہیں ۔ اپنے اپنے دور کے طور طریقوں کے مطابق ۔ اپنے اپنے دور کے لوگوں کی کمزوریوں اور شخصیت و نفسیات کے مطابق ۔
آج کے کونمین ہوں یا پرانے وقتوں کے نوسر باز اور شعبدہ گر اور ٹھگ اور فراڈئیے ہوں ، ان سب میں ایک خوبی دیگر سب لوگوں سے زیادہ ہوتی ہے ۔ اور یہ محض ایک خوبی نہیں ہوتی بلکہ کئی چھوٹی چھوٹی خوبیوں کا مجموعہ ہوتی ہے ۔ ہر طرح کا کونمین ، انسان کی بنیادی نفسیات اور کمزوریوں سے واقف ہوتا ہے ۔ اور اپنے اپنے دور کے معاشرے کا نبض شناس ہوتا ہے ۔ عام آدمیوں کی بہ نسبت زیادہ مشاہدے کا حامل ہوتا ہے اور زیادہ محنتی ہوتا ہے ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے گول ، اپنے مقصد سے کمیٹڈ ہوتا ہے ۔ اس کا ایک نکاتی ایجنڈا ہوتا ہے ۔ کم سے کم وقت میں ، زیادہ سے زیادہ لوگوں کو کب اور کس طرح بیوقوف بنا کر اپنا الو سیدھا کیا جائے اور مشن پورا ہوتے ہی ، اسی طرح کے کسی دوسرے پروگرام کو شروع کر دیا جائے ۔ اور یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہتا ہے ، جب تک اسے تقدیر کی طرف سے ڈھیل ملتی رہتی ہے ۔ پھر جب وہ پکڑ میں آتا ہے تو تب بھی اس کا شاطرانہ ذہن اسے ایسی تراکیب دکھاتا رہتا ہے جن کو عمل میں لا کر وہ اپنے بچاو کے راستے ڈھونڈنا شروع کر دیتا ہے ۔ شاطر ، عقل مند ، چالاک اور بائی برتھ نوسر باز عام طور پر اپنی کسی اسکیم کو شروع کرنے سے پہلے ہی اپنے بچاو کے کئی راستے سوچ کر بھی رکھتے ہیں اور بنا کر بھی رکھتے ہیں ۔ جبکہ موسمی مینڈکوں کی طرح کے ادھ کچے ، ادھ پکے ، نو آموز ، ہلکا ہاتھ رکھنے والے ، بوڑم اور دیکھا دیکھی میں ڈیڑھ اسمارٹ بننے والے کونمین اور ڈرامہ باز ، دو چار ہاتھ مارنے کے بعد ہی ، بہت جلد پکڑائی دے دیتے ہیں اور یا تو باقی عمر سلاخوں کے پیچھے گزارتے ہیں اور یا مکمل طور پر منظر عام سے غائب ہو جاتے ہیں ۔ ہوشیار اور تجربہ کار نوسر باز مختلف ہنر بھی جانتے ہیں اور مختلف فنون کے بھی ایکسپرٹ ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ان کی کامیابی کا باعث بنتی ہے ۔ وہ زیادہ آسانی سے لوگوں کو بیوقوف بنا لیتے ہیں ۔ اور لوگ بھی آنکھیں بند کر کے ان پر اعتماد کر لیتے ہیں ۔ پڑھے لکھے ، تعلیم یافتہ چکر باز اور بھی زیادہ خطرناک ہوتے ہیں ۔ کیونکہ لوگوں کی اکثریت ڈگری یافتہ ، سوٹ بوٹ میں ملبوس ، انگریزی زبان میں گٹ پٹ کرنے والوں سے نفسیاتی طور پر زیادہ مرعوب ہوتی ہے ۔ اور ایسے لوگ اگر کونمین ہوں تو ان کے جال اور ان کی چالوں سے بچنا اور مشکل ہوتا ہے ۔
میرا واسطہ بھی کئی بار کئی طرح کے نوسر بازوں سے پڑا ہے اور ایک دو بار تو میں ان کے فراڈ کا شکار بھی ہوا ہوں ۔ عین گمان ہے کہ آپ بھی کبھی نہ کبھی کسی کونمین کے شکنجے میں گرفتار ہوئے ہوں ۔ اور اگر نہیں توشاید آپ کسی غلط فہمی یا خوش فہمی کا شکار ہیں ۔
سب سے چالاک ، سب سے مکار ، سب سے ہوشیار کونمین کا سب سے بڑا آرٹ یہی ہوتا ہے کہ وہ ہم سب کو چونا لگا رہا ہوتا ہے ۔ عام طور پر اپنی چکنی چپڑی اور میٹھی میٹھی باتوں اور لالچ سے بھرے خوشنما ، دلفریب ، سچے جھوٹے وعدوں سے ۔ اور ہم اپنی اپنی لالچ کے ہاتھوں مجبور ہو کر ، زندگی کے تلخ اور عملی حقائق کو پس پشت ڈال کر ، کونمین کی باتوں اور وعدوں پر یقین کرکے بیوقوف بن رہے ہوتے ہیں ۔ بیوقوف بنتے چلے جاتے ہیں ۔
کونمین شپ کا فن اب انفرادی اور گروہی لیول سے نکل کر باقاعدہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر منظم طریقے سے پوری دنیا میں پھیل چکا ہے ۔ پہلے فرد اور مخصوص افراد ہی دھوکہ دیتے تھے اور دھوکہ کھاتے تھے ۔ اب انٹرنیشنل لیول پر پورے پورے ملکوں ، پوری پوری قوموں کو حیلے بہانوں سے بیوقوف بنایا جا رہا ہے ۔ اور لوگ بیوقوف بنتے چلے جانے کے لئیے مجبور ہیں ۔ اچھے دنوں کی لالچ ، جاہ و جلال و مال کی لالچ ، شارٹ کٹ سے کامیابی حاصل کرنے کی لالچ ، غرض یہ کہ کسی بھی طرح کی لالچ ہمیں کرشمہ بازوں کے ہاتھوں بیوقوف بنا ڈالتی ہے ۔
کسی انفرادی کہانی کی مثال دینے کی بجائے آج اگر آپ محض قومی اور ملکی سطح پر نمودار ہونے والے طرح طرح کے رنگ برنگے لوگوں اور ان کی باتوں اور نعروں اور وعدوں کی تاریخ پر ہی نظر ڈالیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ ہم سب کو کس کس طرح گزشتہ پچاس ساٹھ سالوں میں ماموں بنایا گیا ہے ۔ کبھی ون یونٹ کے نام پر ، تو کبھی روٹی ، کپڑا اور مکان کا سلوگن دے کر ، کبھی مجلس شوری تو کبھی زندہ ہے زندہ ہے کا نعرہ ،
کبھی جمہوریت بہترین انتقام ہے کہہ کر تو کبھی موٹر وے کے بہانے ، کبھی مکے دکھا کے ، پتھروں کے دور میں واپس بھیجنے سے ڈرا دھمکا کے ، کبھی کھپے کھپے کر کے دس سے سو بنا کر تو کبھی سمندروں میں راستے بنا کر ۔ اور پھر جب کچھ اور نہ بچا ، سب کچھ لٹ لٹا گیا تو نئی لالچ نئی تبدیلی کا چہرہ سجا لیا گیا ۔ اور مرے پر سو درے مارنے کا اہتمام کر لیا گیا ۔
اور ہم سب خوشی خوشی اپنے ماتھوں پر چغد اور دائمی احمق کے لوگو ثبت کرواتے چلے جا رہے ہیں اور لوٹنے والے ہمیں لوٹ لاٹ کر ، ہر طرح کے حربے استعمال کر کے ، اپنے اپنے آشیانوں میں ہنسی خوشی عیاشانہ زندگی گزار رہے ہیں ۔
یاد رکھیں ، کوئی کسی کو اس وقت تک بیوقوف نہیں بنا سکتا ، جب تک وہ خود کو اس کے حوالے نہیں کر دیتا ۔ پانی سر سے اوپر ہو چکا ہے ۔ ساٹھ سالہ کوششوں کے بعد اب ہم برضا و رغبت خود کو انٹرنیشنل بنارسی ٹھگوں کے سپرد کر چکے ہیں ۔ جو ہمارے رہنماؤں سمیت ہم سب کو گروی رکھ چھوڑنے کی مکمل تیاری کے ساتھ ہماری سرحدوں میں اینٹر ہو چکے ہیں ۔ اور ہم حسب سابق اور حسب روایت اور حسب عادت اپنی مدد آپ کرنے کی بجائے ، اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی بجائے باتوں کی بانسریاں بجا رہے ہیں اور سنہرے سپنے دیکھ رہے ہیں اور اپنی لالچ کی پینگیں بڑھا رہے ہیں ۔

دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان ۔

ماہر نفسیات و امراض ذہنی ، دماغی ،
اعصابی ، جسمانی ، روحانی ، جنسی اور منشیات

www.duaago.com
www.drsabirkhan.blogspot.com
www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan

DR.SABIR HUSSAIN KHAN
CONSULTANT PSYCHIATRIST
PSYCHOTHERAPIST
AUTHOR. WRITER. COLUMNIST.
BLOGGER. POET. PALMIST.