پیر، 24 دسمبر، 2018

" وقت کم, مقابلہ سخت " ڈاکٹر صابر حسین خان

" وقت کم مقابلہ سخت "

دعاگو . ڈاکٹر صابر حسین خان

اتنے مہینوں سے میرے سامنے بابا محمد یحیحی خان کی 1100 صفحات پر مشتمل " لے بابا ابابیل " رکھی ہوئی ہے. دو بار شروع کرنے کی ہمت کر چکا ہوں. مگر مکمل فراغت کے باوجود چار چھ بار پڑھنے کے بعد رکھ دی ہے. سوچتا ہوں, ذرا اور سکون مل جائے تو پڑھوں گا. نہ اور سکون مل پاتا ہے, نہ کتاب مکمل ہو پاتی ہے. یہ بات نہیں کہ طبیعت ضغیم کتابوں کے مطالعے سے گھبراتی ہے. بابا محمد یحیحی خان کی گزشتہ 3 کتابیں بھی کم بھاری بھرکم نہیں ہیں. لیکن جن دنوں میں, جس موسم میں, وہ کتابیں سامنے آئیں. وہ وقت انتہائی مصروفیات کے باوجود شاید اتنا سخت اور سنجیدہ نہیں تھا. تبھی وہ تینوں یکے بعد دیگرے مھینے ڈیڑھ مھینے میں ختم کر لی گئیں. مگر اب لگتا ہے کہ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت. وقت اور فراغت ہونے کے باوجود. اتنی موٹی کتاب میں جذب ہونے سے گھبراہٹ ہوتی ہے.
ایسی کیفیت محض مجھ اکیلے کی نہیں ہے. ہم سب اول تو مطالعے سے اور دوئم لگن اور توجہ سے پڑھنے اور بہت زیادہ پڑھنے سے اب کترانے لگے ہیں. ہر شے جدید سے جدید تر ہوتی جا رہی ہے اور اس کا سب سے زیادہ اثر ہمارے وقت پر پڑا ہے. ایک وقت تھا جب ہمارے تمام کام ہو جاتے تھے اور پھر بھی ہمارے پاس وقت بچ جاتا تھا اور ہم سکون کی نیند سوتے تھے. دور جدید کے تیز رفتار وقت کا اب یہ حال ہے کہ تمام تر مشینی سھولیات میسر ہونے کے باوجود ہمارے کام ختم نہیں ہو پاتے اور ہمارے پاس فارغ وقت بھی نہیں بچ پاتا. اور ہم بے سکونے رہتے ہیں.
مقابلے, مسابقت, کامیابی, ترقی کے درجات اور معیارات اس درجہ بدل چکے ہیں کہ اب ہمارا مقابلہ آس پاس کے انسانوں کے ساتھ بھی نہیں ہے. بلکہ ہر لحظہ ہمیں اپنی ہی ایجاد کردہ مشینوں سے مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے. ہمیں کسی اور سے نہیں, خود اپنے آپ سے جنگ لڑنی پڑ رہی ہے. اس دو طرفہ لڑائی نے ہمارے قدموں کے نیچے سے زمین کھینچ لی ہے. اور ہمیں ہوا میں معلق کر دیا ہے. دور جدید نے ہماری سوچ کے زاوئیے اور ہماری منزل کے راستے بدل دئیے ہیں. ہماری ترجیحات, ہماری سمتیں تبدیل ہو گئی ہیں. سکون اور تنہائی کے لمحات ہمیں کھلنے لگے ہیں. محفلوں کا شور اور غل غپاڑہ ہمیں اچھا لگنے لگا ہے. ہماری دلچسپیوں اور تفریحات کے محور بدل گئے ہیں. خوشگوار, بھرپور اور کامیاب زندگی سے متعلق بنیادی فلسفے اور نظریات کے رنگ ڈھنگ بدل چکے ہیں.
یہاں تک کہ ہماری جینیاتی ساخت تک تبدیل ہو رہی ہے اور ہمیں کوئی ہوش نہیں ہے.
ان سب تبدیلیوں سے, بلکہ کسی بھی تبدیلی سے کوئی فرق نہیں پڑتا, اگر آج ہم مطمئن اور پر سکون زندگی گزار رہے ہوتے. مسئلہ تو یہ ہے کہ دور جدید کے مسائل اور وسائل کے انبار نے انسان کو بونا بنا دیا ہے. اور اس بوجھ سے سب سے زیادہ نقصان ہماری فطرت, ہماری نفسیات اور ہماری روح کو ہوا ہے. ہماری تنہائی ہم سے روٹھ گئی ہے. فارغ وقت میں کچھ نہ کرنے کا سکون ہم سے چھن چکا ہے. ہمارے سر پر ہمہ وقت کاموں اور ذمہ داریوں کی تلوار لٹکی رہتی ہے. ایک کے بعد ایک اور مصروفیت ہمارے دروازے پر دستک دیتی رہتی ہے. ہر نیا دن ہمارے لئیے نیا چیلنج لے کر آتا ہے. صبح کا سنہرا پن اور راتوں کا نیلگوں فسوں, کسی افسانے کی داستان لگتا ہے.
یہ نہیں کہ فطرت کے عناصر آج موجود نہیں. مگر ان سے توانائی حاصل کرنے والی آنکھیں خود تماشا بن چکی ہیں. اور جب تماشائی, تماشا بن جاتے ہیں تو قدرت اپنے ہاتھ کھینچ لیتی ہے. دینا بند کر دیتی ہے. نوازنا چھوڑ دیتی ہے.
قدرت کی تقسیم انسانوں کی سمجھ میں بہت کم آتی ہے. ہم ایک دوسرے کو دیکھ کر رشک, حسد اور جلن کا شکار ہو جاتے ہیں. مقابلے کی دوڑ میں, ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں اپنا خون جلاتے ہیں. معاشرے میں اعلی سے اعلی مقام حاصل کرنے کی تگ و دو کرتے ہیں. بڑھیا سے بڑھیا چیزیں جمع کرتے ہیں. ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں. اور ان سارے چکروں کے بیچ اپنے آپ کو, اپنی اصلیت کو, فطرت اور قدرت کے اشاروں اور تقاضوں کو اس بری طرح مجروح کر بیٹھتے ہیں کہ ہماری زندگی معصومیت سے عاری اور ہماری روح زندگی سے خالی ہو جاتی ہے. اور ہم وقت کم ہے اور مقابلہ سخت کی تسبیح پڑھنے لگ جاتے ہیں.
ہم نے خود کو وقت کی تنگی اور مقابلے کی سختی کی زنجیروں میں باندھ کر یہ حقیقت فراموش کر دی ہے کہ زندگی درحقیقت بہت آسان اور خوشگوار ہے. قدرت کی رعنائیوں, رونقوں اور نعمتوں سے لبا لب بھری ہوئی. اگر ہم خود کو مقابلے اور مسابقت کی بھاگم بھاگ سے آزاد کر لیں اور اپنے نصیب پر قناعت کرلیں تو یہ سب خوشیاں اور رعنائیاں ہمیں ازخود ملنا شروع ہو جائیں گی.
پھر نہ ہمیں وقت کی کمی کا احساس ہو گا. نہ ہمارا کسی سے مقابلہ رہے گا. پھر ہمارا کامیابی اور ترقی کا زاویہ نگاہ بھی بدل جائے گا. اور ہم سکون اور طمانیت کی دولت سے مالا مال ہوتے چلے جائیں گے.

دعاگو .  ڈاکٹر صابر حسین خان 

ہفتہ، 24 نومبر، 2018

پل بھر کی کہانی

" پل بھر کی کہانی "  ( 13/01/1983 )

ڈاکٹر صابر حسین خان

تم نے تو مجھ سے
میرا فون نمبر
کبھی پوچھا ہی نہیں
مگر میں کیسے یقین کرلوں
تم نے میرے بارے
کبھی سوچا ہی نہیں
کہ وہ لمحہ پل بھر میں
ساری کہانی کہہ دیتا ہے
جس لمحے ایک پل کو
ہم دونوں
آنکھیں چار کرکے
نظریں چرا لیتے ہیں
راز دل کہہ کر بھی
حال دل چھپا لیتے ہیں

بساط

" بساط "    02/12/1982

ڈاکٹر صابر حسین خان

سوچ کی بساط پر
لفظوں کے مہرے
ادھر ادھر کرتا رہتا ہوں
خود کو حریف جان کر
چالیں چلتا ہوں
اپنے آپ سے کھیلتا رہتا ہوں
جب کبھی تنہا ہوتا ہوں
( اور اکثر ہی تنہا رہتا ہوں )
کہ شاید کبھی
کوئی شبیہ بن جائے
کاغذ سیاہ ہوتے رہتے ہیں
سیاہی ختم ہوجاتی ہے
مگر کسی صورت
مات نہیں ہو پاتی
کوئی صورت دکھ نہیں پاتی
بازی ختم نہیں ہو پاتی

جمعہ، 2 نومبر، 2018

ڈاکٹر صابر حسین خان .مصنوعی ذہانت . Artificial Intelligence

ARTIFICIAL SUPER INTELLIGENE

" غیر معمولی مصنوعی ذھانت "

دعاگو  .  ڈاکٹر صابر حسین خان .


مجھے بہت سی باتوں کی سمجھ بہت دیر میں آتی ہے. مگر کبھی نہ کبھی آ ہی جاتی ہے. کبھی خود بہ خود اور کبھی ٹھوکریں کھا کر. اور کبھی کچھ سن کر یا کچھ پڑھ کر. اگر اپنا احتساب خود کروں تو میں اپنی ذہانت کو اوسط درجے کا پاتا ہوں. ایمانداری سے دیکھا جائے تو میرا شمار ذہین لوگوں میں نہیں ہوتا. کبھی کبھی کچھ باتوں کو سمجھنے میں اتنی دیر ہو جاتی ہے کہ اچھا خاصا نقصان بھی برداشت کرنا پڑتا ہے.
میرے خیال میں یہ مسئلہ بہت سے لوگوں کا بھی ہے. خاص طور پر وہ لوگ جو پیدائشی اور جینیاتی طور پر دل سے سوچتے ہیں اور سوچے سمجھے بغیر قدم اٹھا لیتے ہیں. اور پھر ردعمل کے بعد سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ اب کیا کریں. ہم جیسے کم اور کمزور ذھانت والے لوگ عام طور پر جذباتی ہوتے ہیں اور مستقبل کے حوالے سے لائحہ عمل ترتیب دینے اور منصوبہ بندی سے عاری زندگی گزارنے کے عادی ہوتے ہیں.
اس کے برعکس ذھین اور بہت زیادہ ذھین افراد اپنے وقت کا بھرپور اور موثر استعمال بھی کرتے ہیں اور مستقبل کے پل پل کی پہلے سے تیاری کرکے رکھتے ہیں. اور اپنی ذھانت سے زینہ بہ زینہ ترقی اور کامیابی کی منازل طے کرتے چلے جاتے ہیں. ایسے لوگوں کی ذھانت کا بڑا حصہ موروثی ہوتا ہے. مگر ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جن کے آباواجداد نھایت کم عقل اور ناسمجھ ہوتے ہیں مگر وہ خود عمر کے ابتدائی سالوں سے ہی نھایت ذھانت کا ثبوت دیتے ہیں اور اپنے ساتھ کے لوگوں میں شروع سے ہی انفرادی مقام بنا لیتے ہیں. یہ لوگ بنا مبالغہ قسمت کے دھنی ہوتے ہیں. کہا جاتا ہے کہ ایسے لوگوں کی ذھانت میں صدیوں کا سفر شامل ہوتا ہے. کئی نسلوں کی عقل سمجھ اور اجتماعی ذھانت کا خمیر ایسے خوش قسمت لوگوں کی ذھانت کا حصہ بنتا ہے.
ایسی ذھانت اور کسی بھی طرح کی اور شدید ذھانت کی پہلی اور سب سے نمایاں علامت یہ ہوتی ہے کہ اس ذھانت کے حامل افراد سوتے جاگتے ہمہ وقت اپنی ذھانت بڑھانے اور استعمال کرنے میں مصروف رہتے ہیں. یہ ذھین لوگ میری اور آپ کی طرح تمام عمر ایک ہی دائرے کے اندر چکر لگاتے ہوئے نہیں گذارتے, نہیں گزار سکتے. ظاھری طور پر میری اور آپ کی طرح دکھنے والے یہ لوگ میری اور آپ کی طرح بار بار غلطیاں بھی کرتے ہیں مگر اپنی ہر غلطی اور ناکامی سے کوئی نہ کوئی سبق سیکھتے ہیں اور بہت ہی کم اپنی کسی غلطی کو دہراتے ہیں. میں اور آپ تو بار بار ایک ہی طرح کی غلطی کرتے ہیں, نادم ہوتے ہیں, توبہ کرتے ہیں اور کچھ دنوں بعد وہی غلطی دوبارہ کرتے ہیں. ذھین وفطین لوگ بار بار کی ایک جیسی غلطی سے بار بار بچتے ہیں اور ایسی نت نئی راہیں تراشتے اور تلاشتے رہتے ہیں جو ان کی غلطیوں کے امکانات کو کم اور کامیابی کے مراحل طے کرتے رہنے کے مواقع کو بڑھانے میں معاون ہوں. ان کا ہر نیا تجربہ نئے انداز کا ہوتا ہے. اور نئے نتائج سے بھرپور ہوتا پے.
ذھین افراد تجربات کرنے سے نہیں ڈرتے. اپنے آپ کو اور اپنے ماحول کو بدلنے اور بدلتے رہنے سے نہیں گھبراتے. ان کی گھٹی میں بہتر سے بہترین تک پہنچنے کی فطری مجبوری موجود ہوتی ہے اور وہ اپنی طے شدہ منزل تک پہنچنے سے پہلے تھک کر نہیں بیٹھ پاتے.
دنیا کے بیش بہا کارناموں اور ان گنت ایجادوں کے پس منظر میں انہی ذھین لوگوں کا ہاتھ ہوتا ہے. نئے زاویے، نئی جہتیں، نئے نظریے، نئے امکانات، نئی فکر، نئے خیال، زیادہ تر ذھین افراد کے مرہون منت ہوتے ہیں.
بہت زیادہ ذھین افراد بہت زیادہ بیوقوف لوگوں کی طرح معاشرے کے متوسط ذھانت کے حامل افراد کے ساتھ عام طور پر گھل مل کر نہیں رہ پاتے. اور نہ ہی کوئی نارمل عمومی ذھانت والا آدمی بہت زیادہ ذھین افراد کو بہت زیادہ دیر تک برداشت کر سکتا ہے. ہم میں سے شاید ہی کوئی بہت زیادہ ذھین اور بہت زیادہ بیوقوف آدمی کے ساتھ بہت زیادہ وقت گزار سکتا ہو. ہر دو صورتوں میں ایک محدود وقت کے بعد ہمارے پر جلنے لگتے ہیں. کم عقل اور ناسمجھ اور نادان کے ساتھ چند گھنٹے گزارنے کے بعد ہمیں ایسا لگتا ہے کہ اگر دو منٹ مزید بھی اس صحبت میں گزر گئے تو ہمارا اپنا دماغ کھوکھلا ہو جائے گا. اور ہمیں نفسیاتی علاج کی ضرورت پڑ جائے گی. اسی طرح ضرورت سے زیادہ ذھین اور سمجھدار لوگوں کی صحبت بھی کچھ مدت بعد ہمیں کھلنے لگتی ہے. کیونکہ ان کی باتیں جونہی ہمارے اوپر سے گزرنا شروع ہوتی ہیں تو ہمارے فیوز اڑنا شروع ہو جاتے ہیں. اور ہمیں ایسا لگتا ہے کہ ہم بہت کمتر اور بیوقوف ہیں، ہمیں کچھ نہیں آتا جاتا اور جو تھوڑا بہت آتا بھی ہے، وہ بھی اتنی مشکل باتوں اور اتنے پیچیدہ فلسفوں اور نظریوں کے بوجھ تلے دب کر ملیا میٹ ہو جائے گا. لہذا ہم جیسے درمیانے درجے کی ذھانت والے لوگ نہ ببانگ دہل حماقتیں اور بیوقوفیاں کر پاتے ہیں اور نہ ہی کبھی اپنی ذھانت اور عقل کی چمک دکھا پاتے ہیں. اور اپنے جیسے لوگوں کے بیچ رہتے ہوئے ایک طے شدہ عام سی زندگی گزارتے رہتے ہیں.
بہت زیادہ ذھین افراد ایسی زندگی نہیں گزار سکتے. نہ گزارتے ہیں. ان کی بہت زیادہ ذھانت ان کو عام طور پر نارمل سے زیادہ خود غرض, لالچی, موقعہ پرست اور جذبات سے عاری بنا دیتی ہے. وہ ہر شے, ہر بات, ہر کام, یہاں تک کہ ہر تعلق, ہر رشتے کو بھی فائدے اور نقصان کے پیمانے پر ناپنے تولنے کے عادی ہو جاتے ہیں. بہت زیادہ ذھین افراد اپنا وقت ضائع نہیں کر پاتے. اپنا وقت ضائع نہیں کرتے. وہ اپنے مطلب کے لئیے انتہائی بیوقوف لوگوں سے بھی روابط روا رکھنے میں کوئی حرج نہیں محسوس کرتے. اور انتہائی ذھین لوگوں کی صحبت میں بھی بہت مطمئن اور خوش رہتے ہیں. کیونکہ ان کا فوکس, ان کی توجہ پوری کی پوری اپنے مقصد پر مرتکز ہوتی ہے. خواہ اس کے لئیے ان کو کیچڑ میں سے موتی ڈھونڈنا پڑے یا پہاڑ کی چوٹی پر سے کوئی جڑی بوٹی توڑ کر لانی پڑے. وہ اپنی ذھانت سے اپنے راستے کی رکاوٹیں دور کرنے اور مستقل حرکت میں رہنے سے کبھی نہیں گھبراتے.
بہت زیادہ ذھین افراد گو اندرونی طور پر بہت زیادہ حساس اور انا پرست بھی ہوتے ہیں لیکن اپنے کام اور اپنے مشن کی مصروفیت کے دوران ان کو ارد گرد کے لوگوں کی باتوں اور تنقید کی رتی برابر پرواہ نہیں ہوتی. کبھی کبھی تو یہ مغالطہ بھی ہونے لگتا ہے کہ بہت زیادہ ذھانت کے پیچھے کہیں بہت زیادہ بیوقوفی تو پوشیدہ نہیں. اور ایک خاص نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ بات بھی توجہ طلب ہے.
بہت زیادہ ذھانت اور بہت زیادہ بیوقوفی کی دو انتہائیں درحقیقت ایک ہی جہت کے دو رخ ہوتے ہیں. فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ بیوقوفی کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا. جبکہ ذھانت کی ہر حماقت کی ابتدا اور انتہا کسی نہ کسی مقصد کو سمیٹے ہوتی ہے.
جدید علم نفسیات کے آغاز سے ماہرین نفسیات انسانی ذھن کی ان دو انتہاوں کے مطالعے اور مشاہدے میں مصروف عمل ہیں. اور انسانی ذھن کے گوناگوں کونوں کھدروں اور پوشیدہ گوشوں کو کھنگال رہے ہیں. اب تک کی تحقیق کے بعد ہزاروں نفسیات دان ایک ایسا نکتہ تلاش کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں جس پر سبھی ماہرین متفق ہیں. ایسا نکتہ جس کی بنیاد پر ہم سب بآسانی بہت زیادہ ذھین اور کم ذھین اور بیوقوف افراد کی ذھانت کے لیول اور معیار کی جانچ کر سکتے ہیں.
بہت زیادہ ذھین افراد کو قدرت کی طرف سے مستقبل میں جھانکنے اور مستقبل کو اپنی پسند, اپنی خواہش, اپنے مقصد کے مطابق ڈھالنے کی صلاحیت ودیعت کی گئی ہوتی ہے. ان کی نگاہ آنے والے وقت اور آنے والے وقت کے تقاضوں اور ضروریات پر رہتی ہے. ان کا ہر قدم, ان کا ہر عمل, حال کی بہتری کے ساتھ ساتھ مستقبل کے استحکام اور مضبوطی کے لئیے ہوتا ہے. ان کے دائرہ نگاہ کی وسعت روز مرہ کے معمولات اور روایتی کاموں کی حد تک نہیں ہوتی. وہ موزمبیق میں آنے والے زلزلے سے اندازہ لگا لیتے ہیں کہ اب برازیل میں سونامی آنے والا ہے. اور برازیل کے سونامی سے امریکہ اور برطانیہ کے اسٹاک ایکسچینج کا گراف کتنا اوپر نیچے چلا جائے گا.
عام متوسط ذھانت کے حامل افراد کسی ایک بات, کسی ایک واقعے سے مستقبل کی پیش بینی نہیں کر سکتے. اور نہ ہی اپنے آس پاس کے حالات اور واقعات میں رونما پذیر کسی تغیر اور تبدیلی سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس کے اثرات آنے والے دنوں میں کیا پڑیں گے.
رہا سوال انتہائی کم عقل لوگوں کا, تو ان معصوموں کو تو حال کی خیر خبر نہیں ہوتی. وہ اپنے روزمرہ کے مسائل کے حل میں اتنے الجھے رہتے ہیں کہ ان کو اردگرد اور حالات واقعات کی کسی بڑی سے بڑی تبدیلی تک کا بھی پتہ نہیں چل پاتا.
مختلف حوالوں سے انسانی نفسیات اور ذھانت کے انہی رنگارنگ پہلوؤں اور زاویوں پر صدی بھر کی ریسرچ اور نئے دور کی جدید ترین ایجاد کمپیوٹر کے ملاپ نے ایک نئی طرح کی ذھانت کو جنم دیا ہے. جو ہزارہا انتہائی ذھین ترین افراد کی مجموعی ذھانت سے بھی کئی گنا زیادہ ذھانت کی حامل ہے. جدید ٹیکنالوجی اور کمپیوٹنگ کی کوکھ سے پیدا ہونے والی اس ذھانت کو آج کے ماہرین سائنس اور ماہرین معاشرت اور ماہرین نفسیات نے " مصنوعی ذھانت " یا
" آرٹیفیشل انٹیلیجنس " کا نام دیا ہے.
گزشتہ 40 سالوں سے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر کے ماہرین, ذھانت کے اس نئے میدان میں اپنی ذھانت کے گھوڑے دوڑا رہے ہیں. اور ماہرین نفسیات کی مدد سے جانوروں, انسانوں اور مختلف ٹارگٹ گروپس کے ساتھ ساتھ مختلف ملکوں میں " مصنوعی ذھانت " کے تجربات کرتے کرتے اب گزشتہ 15 سے 20 سالوں میں اس سے بھی زیادہ ایڈوانس اور خطرناک دائرے میں قدم رکھ چکے ہیں. 
اور وہ دائرہ ہے " آرٹیفیشل سپر انٹیلیجنس " کا. یعنی " غیر معمولی مصنوعی ذھانت ".
" مصنوعی ذھانت " سے کمپیوٹر اور ٹیکنالوجی کی مدد سے انسانوں کے کام آسان کرنا اور انسانوں کی جگہ کمپیوٹر اور ٹیکنالوجی کی سہولیات سے کام لینا ہوتا ہے. سو لوگوں کا کام ایک مشین سے لینا یا ایک سوفٹ وئیر کی مدد سے گاڑیوں, جہازوں, کارخانوں کو بآسانی چلانا آج مصنوعی ذھانت کی وجہ سے نھایت آسان ہو گیا ہے اور عملی زندگی میں جگہ جگہ اس کا مظاہرہ بھی ہو رہا ہے.
لیکن جو چیز لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہے, وہ آرٹیفیشل سپر انٹیلیجنس کا خفیہ اور خطرناک استعمال ہے. جہاں ایک طرف آرٹیفیشل انٹیلیجنس کو اب کھلے عام, عام انسانوں کے استعمال میں دے دیا گیا ہے. وہاں دوسری طرف آرٹیفیشل سپر انٹیلیجنس کو عام انسانوں کی نفسیات اور شخصیت اور رویوں اور جذبات اور خیالات اور نظریات اور احساسات اور ذھانت کو مخصوص شکل میں ڈھالنے, موڑنے اور بدلنے کے لئیے انتہائی پوشیدہ اور خفیہ طریقوں سے برتا اور استعمال کیا جا رہا ہے.
ہم میں سے بہت کم لوگوں کو پتہ ہے یا پتہ چل پاتا ہے کہ ہم کتنا اور کس حد تک آرٹیفیشل سپر انٹیلیجنس کے ایجنڈے اور منصوبے کے مطابق زندگی گزارنے پر مجبور ہیں. اس ضمن میں بہت سی مثالیں موجود ہیں اور دی جا سکتی ہیں مگر کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ آپ خود اپنی اپنی ذھانت کو حرکت میں لا کر اپنے چاروں طرف نظر دوڑائیں, گزشتہ 5 تا 10 سالوں میں دنیا کے ملکوں میں اچانک رونما پذیر ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں سوچیں, مختلف علاقوں میں آنے والے زلزلوں اور سمندری طوفانوں کا جائزہ لیں, کھیلوں کے بڑے بڑے ٹورنامنٹس کے نتائج سے لے کر جگہ جگہ ہونے والے سیاسی اور سماجی احتجاجوں اور ان کے نتیجے میں آنے والے انقلابات کی بابت غور کریں. آپ کو خود بخود سمجھ آنے لگے گا کہ ان سب کے پیچھے اور ان سب میں آلہ کار بننے والے لوگوں کی سوچ اور عمل میں اچانک تبدیلی آنے کی کونسی وجوہات ہیں اور ان وجوہات سے کس کس کے کون کون سے مطالیب اور مقاصد پورے ہوئے ہیں یا ہو رہے ہیں.
عقل مند کیلئے اشارہ کافی ہوتا ہے. اس مضمون کو پڑھ کر آپ بھی اپنی ذھانت آزما کر دیکھئیے. یہ دور اور آنے والا دور
" آرٹیفیشل سپر انٹیلیجنس " کا ہے. جو لاکھوں کروڑوں ذھین ترین انسانوں کی مجموعی ذھانت کا مرکب ہے. اسے سمجھنے کے لئیے, اسے اپنے ذھن اور شخصیت پر حاوی نہ ہونے دینے کے لئیے, اس سے نبردآزما ہونے کے لئیے, اس کی خفیہ چالوں کو جاننے کے لئیے, اور اس کی چالوں کے جواب میں زیادہ بہتر چالیں چلنے کے لئیے مجھے اور آپ کو اپنے اپنے کمفرٹ زون کو چھوڑنا ہوگا. اپنی اہلیت اور اپنی ذھانت کو ہر پل پروان چڑھاتے رہنا ہوگا. اور ہمہ وقت مصنوعی ذھانت اور غیر معمولی مصنوعی ذھانت کو فطرت اور قدرت کی ودیعت کردہ حقیقی ذھانت پر حاوی ہونے سے روکتے رہنا ہوگا.
کہ فطری اور حقیقی ذھانت ہر حال میں مصنوعی ذھانت سے افضل ہوتی ہے. لیکن اگر ہم اسے استعمال کرنا چھوڑ دیں اور اپنے خول اور اپنے خوابوں میں زندگی بسر کرتے رہیں تو وہ وقت اب زیادہ دور نہیں جب ہمارا ذکر پھر محض تاریخ کی کتابوں میں ملے گا.

دعاگو .  ڈاکٹر صابر حسین خان

بدھ، 24 اکتوبر، 2018

" دل تو بچہ ہے " ڈاکٹر صابر خان

یونہی بیٹھے بیٹھے گزرے دنوں کے سائے حال کی پرچھائیوں پر چھانے لگے ہیں چاروں اور منڈلانے لگے ہیں اداس یادوں کی بوندیں برسانے لگے ہیں یونھی بیٹھے بیٹھے, کبھی کبھی گزرے دنوں کی کھوج اتنی بری بھی نہیں بیتی باتوں کی جگالی جی پر کچھ اتنی بھاری بھی نہیں مگر دل تو بچہ ہے مچل اٹھتا ہے پھر وہی شب وروز ما نگنے لگتا ہے وہی زمانہ وہی باتیں وہی راتیں دہرانے لگتا ہے چا ہنے لگتا ہے جو امکان سے دور کہیں خوابوں اور خیالوں کی مکین ہیں اور معجزے اب ہو تے نہیں سو دل اور حال الجھنے لگتے ہیں ما ضی کے روشن اندھیرے مستقبل کے راستے میں حائل ہو نے لگتے ہیں روح کو گھائل کر نے لگتے ہیں

ہفتہ، 20 اکتوبر، 2018

It's A Long Time by DR.SABIR KHAN

One of  the biggest problem is the fact that I know , I don't have any extra ordinary quality or ability. And this knowledge has stopped me many times to move ahead in any new project blindfolded. This self insight lightened again today when I came across an English poem, written by me 31 years ago in 1987.
In my student life I wrote almost around more than 900 poems but " WE ARE PART TIME LOVERS " is the only thing in English. Rest all are in Urdu. And the reason behind this is the truth that my English was never that much fluent and full , that I could go on writing in English.
Similarly I remember I wrote only one article in English for my English College Annual Magazine " QUEST " in 1983. And afterwards never attempted any thing in English.
Though I did develop the flavour to read English Literature in 80's and for the last 10 to 12 years , have spent thousands of hours in watching English Dramas of all tastes.
I know I did something gravely wrong by not writing or by not trying to write in English during all of these my youthful and innovative years. It's not a regret. Just simple acceptance of the fact that  because of my lack of vocabulary skills I can't express myself and my thoughts and theories openly , freely and frankly.
Though this fact still exists but as the fear of this fact has gone away from the mind , I just started writing down all this on my blog.
With one thought only. So what. If not extraordinary , let it be ordinary. If not for extraordinary people , let it be for ordinary people. If I could write in that time then I can write today too. But like all such turnovers , this thought and then the conversion of the thought into prompt action is triggered by a stimulus. A stimulus  of 31 years old poem written in 1987 diary. I don't know yet why it happened. But I know how it happened.
If I hadn't kept my all those old diaries and notebooks safely with me till so far , this moment of yet another self realization and yet another turning over another leaf would not have been possible.
My these friends , my these companions of my loneliness , my these diaries and notebooks have remained with me during all these 35 years. And to tell the truth I do have the pocket diary of 1975 too with me , my first one when I was just 11 years of age.
This fact indicates the way towards another fact. What we are today , is , in fact the ramification and continuation of what we were in the past. The only thing that matters is our capability to keep our roots intact. The roots of our past. The roots to our past. And not only this. We must be capable enough to continue our journey in the present day on one hand and on the other hand we must not forget to learn and relearn the ways to cultivate and harvest our past in such a way so that it can be transformed harmoniously into a better present.
Perhaps the people of our generation do have intact roots with our past. But when we look around , we find our youth and the generations after ours , struggling and crumbling , without any stable bond with their past. Lacking the light of self insight which is dawned only through the doors and the holes which lead to the corridors to our past. Missing the warmth and freshness of the air which comes from the horizon of the past.
This absence of light and air and the continous hessle of maintaining integration of the self , has made the mental status of our present day generation so miserable and messy that , now for them , like the material things , the relations and the relationships with everything and everyone , have become meaningless and disposable.
Our present day generation seems to have no belonging with their past and hence no true attachment with their present. And when and whenever there is no past and no present , there is usually no future.
I had in my past , a history , an experience of writing one single article and one single poem in English. I kept my bond , my relation with my past alive and healthy , besides adopting and transforming myself , non stop , with the present day environment and the present day needs. So just one simple stimulus from the past memoir enthralled me to write again in English. And this time this blog or article or whatever we name it , is being directly typed on my drsabirkhan.blogspot.com blog page with my right thumb touching repeatedly on the screen of Samsung Note 3.
While some 35 years ago when such technology and technique of writing was unknown to anyone and undreamt by anyone , I used to write on paper with pen.
I didn't quit my thinking and my writing. Only the contents and the themes got changed. Only the modes and methods got changed.
This very long but untiring journey was possible only by my unchanged and loyal association with my past.
Keep your association in place. Keep your bond intact. Keep your relations alive. Keep your relationships healthy. Keep your past in harmony with your present. Keep your present aligned with your goals. And then you would never regret in your life. And then one day you too can be triggered with one very ordinary event or deed of your past to be enlightened with self insight. And then you can do the things beyond your imagination. And then you can materialise your dreams into reality.
It's A Long Time ago I decided not to write in English. During last 35 years I wrote a lot in Urdu. And now my this very new article is in English. And it's completed in just one day. Few hours. Four sittings. In spite of knowing the fact that my English is not up to the standard and my use of words and narration is not scholarly , I have the satisfaction that at least I succeeded in writing and presenting my thoughts in a language in which I have no command at all.
Unlike me and my generation , the present day youth does have a command in this language and do know very well how to use both thumbs simultaneously on touch screen. With this unique ability if they remain in touch with their past , I am sure they will have far more success in their future. Only if they are committed to their Origin and remain so till they live.

#DUAAGO
#DRSABIRHUSSAINKHAN

ہفتہ، 4 اگست، 2018

"کیا ہم آزاد ہیں" . دعاگو . ڈاکٹر صابر حسین خان

" کیا ہم آزاد ہیں " . دعاگو .
ڈاکٹر صابر حسین خان

اس سوال نے آپ کو بھی اکثر تنگ کیا ہوگا . اگر ایسا نہیں تو آپ بہت خوش قسمت ہیں کہ آپ آزاد ہیں اور اپنی زندگی میں مطمئین اور خوش و خرم ہیں اور اپنی بھرپور آزادی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں . اگر آپ آزاد ہیں تو آپ کو یہ تحریر پڑھنے کی چنداں ضرورت نہیں . اور نہ ہی کچھ سوچنے کی اور نہ ہی کچھ کرنے کی . کہ قدرت نے آپ کو دنیا کی وہ نعمت عطا کر دی ہے جو دنیا کے انسانوں میں شاید ہی کسی انسان کو ملتی ہے .
دنیا کا کوئی بھی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ مکمل آزادی کا مالک ہے . ہم سب بہت سے حوالوں میں خود کو آزاد محسوس کرتے ہیں.  لیکن ہزار چاہتوں کے باوجود ہزار حوالے ایسے ہوتے ہیں جن میں ہم ہزار حوالوں سے پابند ہوتے ہیں . ہزار طرح کی نامرئی زنجیروں سے بندھے ہوتے ہیں . ایسی ایسی فصیلوں کے بیچ قید ہوتے ہیں جہاں سے رہائی پانا نا ممکن ہوتا ہے .
ہم میں سے بہت سے لوگ ان تمام تر پابندیوں اور زنجیروں میں جکڑے ہوۓ رہنے کے باوجود خود کو آزاد محسوس کرتے ہیں اور خالص اپنی مرضی اور اپنی خواہشات کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہر طرح کی قید سے آزاد ہیں اور ان پر کسی طرح کی پابندی کی کوئی بھی شق لاگو نہیں ہوتی . یہ لوگ بظاہر بہت خوش قسمت ہوتے ہیں مگر ظاہری آزادی کی چکا چوند روشنی میں وہ یہ حقیقت بھول جاتے ہیں کہ اول تو کبھی بھی کوئی فرد کلی طور آزاد نہیں ہو سکتا اور دوئم کسی بھی طرح کی آزادی بنا کسی قربانی کے ممکن نہیں .
آزادی بیرونی ہو یا باطنی . ظاہری ہو یا مخفی . انفرادی ہو یا اجتماعی . معاشی ہو یا معاشرتی . ہر آزادی , قربانی مانگتی ہے . کبھی جان اور مال کی شکل میں , کبھی وقت اور توانائی کی صورت میں , کبھی کبھی اپنی ذات کی نفی کر کے تو کبھی اپنی خواہشات اور اپنے نظریات کو بالائے طاق رکھ کر , کبھی محنت اور جدوجہد کا علم بلند کر کے تو کبھی اپنے نفس پر قابو پا کر , ہمیں کسی نہ کسی شکل میں آزادی کی قیمت چکانا پڑتی ہے . اور یہی نہیں بلکہ آزادی کے حصول کے بعد اپنی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیئے دن رات مستقل مصروف بھی رہنا پڑتا ہے . بصورت دیگر ہماری آزادی بھی مستقل نہیں رہ پاتی اور جلد یا بدیر ہمیں خود کو دوبارہ پابند سلاسل دیکھنا پڑ جاتا ہے . نہ چاہنے کے باوجود زنجیروں میں بندھ جانا پڑتا ہے . اور دوسری بار کی قید عام طور پر جان لیوا ثابت ہوتی ہے .
تمام عمر قید میں رہنے والوں کو آزادی کے رنگ دیکھنے اور آزادی کا ذائقہ چکھنے کا موقع نہیں ملتا . ان کو تمام عمر پتہ نہیں چلتا کہ آزادی کس شے کا نام ہے . وہ قید کے کنویں میں تمام عمر گزار دیتے ہیں . سمندر کی لہروں سے کبھی ان کا واسطہ نہیں پڑتا . لیکن ایک بار جو آزادی کا ذائقہ چکھ لیتا ہے , اس کے لیئے دوبارہ پابندی , پھانسی کی سزا سے کم نہیں ہوتی . آزادی چھن جانے کے بعد انسان جیتے جی مر جاتا ہے .
لیکن اس حقیقت کا ادراک شاید ہی کسی انسان کو ہو پاتا ہے . حالت آزادی میں ہم عام طور پر ان قربانیوں کو بھول جاتے ہیں جو ہم نے یا ہمارے آباؤ اجداد نے آزادی کے حصول کی جدوجہد میں دی ہوتی ہیں . اور جوں جوں دن گزرتے ہیں ہماری یادداشت خراب سے خراب تر ہوتی چلی جاتی ہے . ہم آزادی کے مزوں میں اتنے محو ہو جاتے ہیں کہ ہم اپنی آزادی کو برقرار رکھنے کے بنیادی اصول اور طور طریقے تک بھول جاتے ہیں .
آزادی گھنے پھل دار چھاوں دینے والے درخت کی طرح ہوتی ہے . ہر شجر کی طرح اسے بھی باقاعدگی سے پانی دیتے رہنا ہوتا ہے . جڑوں میں کھاد ڈالتے رہنا پڑتی ہے . وقفے وقفے سے گدائی کرتے رہنا پڑتی ہے  . اور اگر ایسا نہ ہو تو گھنے سے گھنا درخت کمزور پڑنے لگتا ہے اور ایک وقت آتا ہے جب پہلے وہ پھل دینا بند کرتا ہے , پھر بھی ہم اپنی غفلت سے نہ جاگیں تو اس کے پتے مرجھانے لگتے ہیں . اور پھر آخر میں اس کی شاخیں ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے لگتی ہیں . بڑے بڑے تناور اور گھنے درخت جب اندر سے جڑوں تک کھوکھلے ہوجاتے ہیں تو ہلکی سی آندھی انہیں زمین بوس کر دیتی ہے .
آزادی کے گھنے شجر بھی اسی طرح بڑی خاموشی سے اندر ہی اندر کھوکھلے ہوتے رہتے ہیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یکدم گر جاتے ہیں .
درخت ہوں یا انسان , ملک ہوں یا اقوام , سب کو اپنی آزادی برقرار رکھنے کے لیئے ہمہ وقت کسی نہ کسی شکل میں تگ و دو کرتے رہنے کی ضرورت ہوتی ہے . جس لمحے ہم جدوجہد ترک کرکے خود کو عیش و عشرت کے سپرد کرکے آنکھیں بند کر لیتے ہیں , اسی لمحے سے ہمارے گرد قید کا نادیدہ دائرہ کھنچنا شروع ہو جاتا ہے . اور آزادی ہم سے منہہ موڑنے لگتی ہے .
آج رات , تنہائی کے چند لمحات خود کو دیجیئے اور سوچئییے کہ کیا آج ہم انفرادی اور قومی سطح پر آزاد ہیں . کیا آزادی نے ہم سے منہہ نہیں موڑ لیا . کیا ہمارے گرد قید کا گھیراؤ تنگ سے تنگ تر نہیں ہوتا جا رہا . آج کی رات کے چند لمحات اپنی ذات کے احتساب میں خرچ کیجیئے . اور دیکھیئے کہ ہم نے آزادی کی قدر نہ کر کے اپنا کتنا نقصان کیا ہے . اپنی آنے والی نسلوں کو گروی رکھ دیا ہے اور پتہ بھی نہیں کہ ہم نے ایسا کر دیا ہے .
کبوتر کی طرح ہماری آنکھیں بند ہیں اور ہمارے چونچلے اور کھیل تماشے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں. باتوں , مباحثوں , ڈراموں اور کھانوں سے ہمیں فرصت نہیں . ایک دوسرے کا گریبان پھاڑنے کے لیئے ہمہ وقت تیار ہیں . اپنے علاوہ ہر آدمی غلط ہے . اور اپنی بڑی سے بڑی غلطی ہمیں تسلیم نہیں . اپنا مذہب , اپنی ثقافت , اپنی زبان ہمیں پسند نہیں . ہر شے ہم کو باہر کی بنی چاہئیے . بے راہ روی اور بے حیائی کا ہر راستہ ہمیں قبول ہے . اور پھر بھی ہم اگر یہ سمجھیں کہ ہم آزاد ہیں تو شاید ہمارے اس نفسیاتی عارضے کا علاج دنیا کے کسی ماہر نفسیات کے پاس نہیں .
کتنا ہی اچھا ہوتا کہ آج کے دن ہم سب نہیں تو ہم میں سے کچھ ہی اس بات کا عھد کر لیتے کہ ہم آج سے اپنی کھوئی ہوئی پہچان اور آزادی کو ازسرنو حاصل کرنے کی کوشش کریں گے اور اپنے گرد اٹھتی دیواروں کو ڈھا کر خود کو اپنی نفسانی خواہشات اور اغیار کے فلسفہ حیات اور نظریات کی قید سے آزاد کریں گے . اگر ہم میں سے کچھ لوگ بھی ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو شاید کچھ آگے چل کر کچھ اور لوگ بھی دیکھا دیکھی میں سہی , آزادی کے سفر میں ہمارے ساتھ ہو جائیں گے . میں نے تو بنا کسی ذاتی غرض کے چار پانچ نشستوں اور تین چار گھنٹوں میں یہ مضمون انگوٹھے کی مدد سے فون پر ٹائپ کر کے اس سفر کا ایک قدم اور بڑھایا ہے . دیکھنا یہ ہے کہ اس مضمون کو پڑھ کر آپ میں سے کتنے لوگ بنا کسی غرض کے اپنے قیمتی وقت کا کتنا حصہ آزادی کے حصول کے لئے صرف کر سکیں گے . یاد رکھئیے گا , آزادی , قربانی مانگتی ہے . اور وقت کی قربانی , جان کے بعد سب سے بڑی قربانی ہوتی ہے .