ہفتہ، 30 مارچ، 2019
31.03.19 . " آسان کام " ڈاکٹر صابر حسین خان
بدھ، 20 مارچ، 2019
21.03.19 DR. SABIR KHAN. New Column/Blog/Article
پیر، 18 مارچ، 2019
میرپورخاص سے میرپورخاص تک . چھٹی قسط
پیر، 11 مارچ، 2019
"امن کی آشا, جنگ کی بھاشا" ڈاکٹر صابر حسین خان
نیا کالم/بلاگ/مضمون .
ڈاکٹر صابر حسین خان
" امن کی آشا . جنگ کی بھاشا "
کچھ لوگ کہہ گئے ہیں کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے . کچھ اور لوگوں کا خیال ہے کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہوتا ہے . کچھ کا فلسفہ حیات , جس کی لاٹھی اس کی بھینس , ہوتا ہے . کچھ چانکیہ کے مرید ہوتے ہیں اور بغل میں چھری اور منہہ پہ رام رام الاپتے رہتے ہیں . کچھ لوگ , شیر کی ایک دن کی زندگی جینے کی تمنا کے ساتھ جیتے ہیں . کچھ کے نزدیک گیدڑ کے سو سال ہی.سب کچھ ہوتے ہیں . کچھ مرنے اور مارنے کے سوا کچھ اور نہیں سوچ سکتے . کچھ چاہتے ہیں کہ ہمہ وقت امن کی فاختائیں اڑاتے رہیں . دنیا بھر کی قوموں کے اپنے اپنے جینے اور مرنے کے طور طریقے ہیں . انسان کی فطرت بڑی انوکھی ہے . بڑی سیمابی ہے . وہ زیادہ عرصے تک کسی ایک حالت , کسی ایک کیفیت میں نہیں رہ پاتا . اس کا مزاج ہمہ وقت متغیر رہتا ہے . من و سلوی بھی اسے ایک وقت کے بعد کھلنے لگتا ہے . انسانی تاریخ کی ابتدا سے اب تک انسان کچھ وقت تک تو سکون و عافیت سے ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں اور پھر اچانک ایک دوسرے سے الجھنے لگتے ہیں . قبیلے ہوں یا قومیں, بہت زیادہ عرصے تک امن و امان کی حالت میں نہیں رہ سکتے . امن کی آشا سے جنگ کی بھاشا تک کا سفر طے ہونے میں کبھی بہت زیادہ وقت نہیں لگتا . اور جو قوم, جو قبیلہ ہمہ وقت خود کو جنگ کے لیئے تیار نہیں رکھتا وہ بہت جلد جنگ کی لپیٹ میں آسکتا ہے . امن کی بھاشا سمجھنے اور سمجھانے کے لئیے جنگی تیاریاں کرتے رہنا پڑتا ہے . اور ہر طرح سے ہر وقت جنگ کے لیئے تیار رہنا پڑتا ہے اور اپنی ہر طرح کی جنگی تیاری کو ہمہ وقت سب کے سامنے نمایاں رکھنا پڑتا ہے تاکہ کسی کو بھی کبھی جنگ کی ہمت نہ پڑے . انسان کی فطرت ہے کہ وہ اپنے سے کمزور کو حقیر اور کمتر سمجھتا ہے اور اگر اس کی دسترس میں ہو تو اسے دبانے کی خواہش رکھتا ہے اور مستقل دباتا رہتا ہے . اپنے برابر والے سے نرمی اور دوستی برتتا ہے اور اپنے سے طاقتور اور مضبوط کے سامنے دب کے , سر جھکا کے رہتا ہے . قوم , قبیلہ, ملک , انسانوں کی مجموعی نفسیات اور فطرت کی عکاسی کرتا ہے اور لاکھوں کروڑوں گنا زیادہ شدت سے دوسری قوموں , دوسرے قبیلوں اور دوسرے ملکوں کے انسانوں کو محکوم بنانے کی ازلی خواہش کو پرورش دیتا رہتا ہے . انسانی نفسیات کی اس کمزوری کا آج تک کوئی دیرپا علاج دریافت نہیں ہو سکا ہے . ہم انفرادی سطح پر بھی لا شعوری طور پر اس سوچ کے حامل ہوتے ہیں اور گروہ کی شکل میں تو ہماری یہ لا شعوری سوچ عملی رویوں میں ڈھلنا شروع ہو جاتی ہے . ہم طاقتور سے ڈرتے ہیں . خواہ اس کی طاقت کی شکل صورت کچھ بھی ہو . اور ہم کمزور کو ڈراتے ہیں . خواہ زبان سے اس کا اقرار نہ بھی کریں . ہم دل سے امن و سکون سے زندگی گزارنا چاہتے ہیں مگر ہماری فطرت ہمیں ایک دوسرے سے چونچیں لڑانے پہ اکساتی رہتی ہے . یہ اور بات ہے کہ ہماری جبلت ہمیں ذاتی حفاظت کے خیال سے ہمیں شعوری طور پر طاقتور اور کمزور کی تفریق سکھاتی رہتی ہے کہ کب ہم کس پر کمر کس کر تل سکتے ہیں اور کب ہم خاموش رہ کر اپنی عافیت برقرار رکھ سکتے ہیں . فطرت , نفسیات اور جبلت کی اسی کشمکش نے امن کی آشا اور جنگ کی بھاشا جیسے الفاظ اور رویوں کو جنم دیا ہے . فطرت , نفسیات اور جبلت کی یہ اندرون خانہ جنگ روز اول سے جاری ہے اور تا قیامت جاری رہے گی . کوئی بھی فرد یا معاشرہ کلی طور پر اس کشمکش سے چھٹکارا نہیں پا سکتا . البتہ اس میں کچھ کمی , کچھ بیشی لائی جا سکتی ہے . یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم اس حقیقت کو دل و دماغ سے قبول کر لیں کہ کسی بھی آئیڈیلزم یا فلسفے سے انسان کی شخصیت کا یہ اندرونی تضاد وخلفشار ختم نہیں کیا جا سکتا . طاقت کا نشہ ہمیشہ بڑھتا ہی رہتا ہے تاوقتیکہ اس سے بڑی طاقت یا قدرت اسے کم یا ختم نہ کر دے . دنیا کا کوئی مذہب , کوئی نظریہ حیات , کوئی ضابطہ اخلاق آج تک اپنی تمام تعلیمات کے باوجود اپنے اپنے پیروکاروں کے ذہنوں سے ایک دوسرے سے لڑنے بھڑنے اور آس پاس اور آمنے سامنے والوں پر اپنی برتری اور شان و شوکت جھاڑنے اور منوانے کی سوچ ختم نہیں کر پایا ہے . نبیوں کی امتیں ہوں یا پیغمبروں کی قومیں ہوں یا رہنماوں اور پیروں پیشواؤں کے گروہ اور قبیلے ہوں , دنیا کے کسی بھی خطے میں کبھی بھی کلی طور پر امن اور سکون نہیں رہا ہے اور نہ رہ سکتا ہے . انسانی نفسیات اور فطرت کے قاعدوں , قانونوں اور اصولوں کے تحت ایسا ہونا غیر فطری اور ناممکن ہے . انفرادی سطح پر کوئی شخص کتنا ہی امن پسند , صلح جو اور نرم خو کیوں نہ ہو , مگر وہ بھی دنیا میں رہتے ہوئے تمام عمر کے لیئے اپنے آدرش کے مطابق زندگی نہیں گزار سکتا . زندگی کے کسی نہ کسی لمحے میں اسے کسی نہ کسی سے الجھنا پڑتا ہے . خواہ اس کی کوئی غلطی بھی نہ ہو . ہاں اگر کوئی سب کچھ تیاگ کے جوگی یا یوگی بن جائے اور بن باس لے لے تو اور بات ہے . انسانی نفسیات اور فطرت کی یہ کمزوری جب سمجھ میں آ جائے تو بہتر زندگی کے لیئے ضروری ہو جاتا ہے کہ پھر ہم خود کو زندگی کے ہر معاملے میں ممکنہ حد تک خود کفیل بنائیں اور انفرادی اور قومی و اجتماعی سطح پر مضبوطی اور استحکام کے تمام ذرائع اپنائیں . تاکہ کسی دوسرے فرد یا گروہ یا قوم یا ملک کو ہم پر منفی نگاہ ڈالنے کی جرات نہ ہو . ہمیں اس حد تک مضبوط , مستحکم اور طاقتور ہونا اور رہنا چاہئیے کہ کوئی ہم کو دبا نہ سکے اور ہم اپنی آزادی برقرار رکھ سکیں . لیکن ہمیں اتنا زیادہ بھی طاقتور نہیں ہونا چاہئیے کہ طاقت کا نشہ ہمیں اوروں پہ قابو پانے اور قابض ہونے پہ نہ اکسانے لگے . اعلی ترین طاقت کا مظاہرہ کمزوروں کی بھرپور مدد کر کے ہوتا ہے . اس سوچ کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے . اور اس سوچ کے ساتھ ہی ہمیں اپنی ہر طرح کی طاقت اور ہر طرح کے اختیار میں اضافے کی تگ و دو کی ضرورت ہے. اپنے گھر , اپنے خاندان , اپنے معاشرے کی سطح پر بھی اور قوم و ملک کے اجتماعی مفاد کے لیئے بھی. ہم اپنے سے کمزور کی مدد اسی وقت اچھی طرح کر سکتے ہیں جب ہم ذہنی طور پر پر سکون ہوں گے کہ ہم سے ذیادہ طاقتور ہمیں کسی بھی حوالے سے تنگ نہیں کرے گا . اور اپنے سے زیادہ طاقتور کو اس کی حدود میں رکھنے کے لئیے ہمیں اس کے برابر نہ سہی اس کے مقابلے کے لیئے ہمہ وقت ہوشیار و تیار رہنا ہوگا . تبھی ہم اپنی آزادی برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنی طاقت و توانائی کو اپنے سے کمتر اور کمزور کی مدد میں صرف کر سکیں گے .
تحریر : ڈاکٹر صابر حسین خان
مصنف . کالم نگار . بلاگر . شاعر . پامسٹ .
ماہر نفسیات و امراض ذہنی , اعصابی , دماغی , روحانی , جنسی و منشیات . ڈائریکٹر : دعاگو . دی کاونسلرز .
مرکز ذہنی و جسمانی صحت . ناظم آباد . کراچی . پاکستان .
DUAAGO
DR.SABIR KHAN www.Facebook.com/Dr.SabirKhan www.YouTube.com/Dr.SabirKhan www.drsabirkhan.blogspot.com
جمعہ، 8 مارچ، 2019
بازیافت
"باز یافت"
(30.4.91)
"ڈاکٹر صابر حسین خان"
طلسم نیرنگ خیال
میں بسے
خوابوں کے رنگین بت
چکنا چور ہوئے تو کیا ہوا
ایک نیا درد دل میں جاگا بھی تو ہے
گھر آنگن کی کہکشاں میں
اپنے ہاتھوں جو آگ لگائی تھی
اس سے
گو فضا میں دھواں پھیلا ہے
لیکن
پس منظر کچھ روشن ہوا بھی تو ہے
بند دروازے
"بند دروازے"
(26.11.89)
"ڈاکٹر صابر حسین خان"
رنگ اور خواب
چہرے پر بکھر آئے ہیں
نیلگوں ستارے
آنکھوں میں اتر آئے ہیں
کیا کہیں
کوئی اجنبی
دل کے بند کواڑوں پر
دستک دے رہا ہے
ذرا شام ڈھلنے دو
"ذرا شام ڈھلنے دو"
(3.8.93)
"ڈاکٹر صابر حسین خان"
ابھی تو کچھ نہیں
ذرا نگاہ ٹہرنے دو
دل کی دھڑکن کوتھمنے دو
پھر یہی تعلق
مہک اٹھے گا
اسی آنگن پھول کھلیں گے
ستارے ہوا سے
یہیں
آنکھ مچولی کھیلا کریں گے
اک ذرا صبر کرو
ذرا آنکھ کو جمنے دو
خشک مٹی کو نم ہونے دو
پھیلاؤ
"پھیلاؤ"
(2.2.2000)
"ڈاکٹر صابر حسین خان"
وہ جو ایک شاعر تھا
خوابوں کے دانوں سے
نظمیں پرونے والا
جانے کہاں کھو گیا ہے
ایک دہائی گز گئی
کسی نے کوئی خبر ندلی
نہ فاتحہ,نہ درود
نہ پھول, نہ اگر بتیاں
اور شہر کی روشنیاں
پھیلتی جارہی ہیں
نقش فریاری
"نقش فریاری"
"ڈاکٹر صابر حسین خان"
راتوں رات
ان دیکھے, انجانے لوگ
جانے کیسے, کس طرح
چپکے چپکے
دل میں گھر کر جاتے ہیں
نہیں پتہ چلتا
لیکن
جب آنکھ کھلتی ہے تو
مالک مکاں کا نام
بدل چکا ہوتا ہے
پرانی محبتوں کا نقش
مٹ چکا ہوتا ہے
سابقہ حوالوں کے ھیولے
نظروں سے
اوجھل ہوچکے ہوتے ہیں
راتوں رات
کیوں کایا پلٹی ہے
نہیں پتہ لیکن
ایسا بھی ہوتا ہے
کبھی یونہی اچانک
کوئی اجنبی
برسوں پرانے تعلق سے زیادہ
وجود کا حصہ بن جاتا ہے
دل کے اندر بس جاتا ہے
کچھ اس طرح کے پھر
جی کو جینے کا حوصلہ مل جاتا ہے
کچھ نیا کرنے کو جی چاہ اٹھتا ہے
تن من کی رگ رگ میں نئے خواب
رنگ بھرنے لگتے ہیں
دل پھر اداس محبت سے ہمکنار ہوتا ہے
نئی راہ, نئے سفر,نئے ہم سفر
ایک نئی زندگی سے آشکار ہوتا ہے
کبھی کبھی زندگی میں
اسیا بھی ہوتا ہے
کہ راتوں رات
زندگی بدل جاتی ہے
گو ایسا بہت کم ہوتا ہے
لیکن کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے
دل جب درد سے بھر جاتا ہے
اور زندگی
عمر قید کی سزا لگتی ہے
اور سانس گھٹنے لگتی ہے
تو کبھی کبھی
اللہ کی رحمت جوس میں آتی ہے
اور محبت کی برسات
راتوں رات
اور رفاقت کی عمر بھر کی پیاس مٹا دیتی ہے
شکووں اور شکایتوں کو
شکر کا لبادہ پہنا دیتی ہے
بستے دنوں کے دکھ بھلا دیتی ہے
ایک بار کا ذکر ہے
"ایک بار کا ذکر ہے"
"ڈاکٹر صابر حسین خان"
گرمیوں کی تنہا شاموں میں
بند ہوا کے بوجھ تلے
دل کہتا ہے دبے دبے لفظوں
وہ دن بھی تھے جب
گرمیوں کے موسم میں
سب کچھ ایسا ہی ہوتا تھا
ہوا بھی بند ہوتی تھی
اندھیرا بھی ہوا کرتا تھا
یونہی سب
بولائے بولائے پھرتے تھے
لیکن
تنہائی کا شور اتنا نہیں تھا
جی اداس بھی ہوا کرتا تھا
لیکن
من پہ بوجھ اتنا نہیں تھا
گھڑی کی سوئیاں
یونہی گھوما کرتی تھیں لیکن
وقت کاٹنا
اتنا مشکل نہیں تھا
موسم اتنا
بے اماں نہیں تھا
آسماں خشک رہتا تھا مگر
نامہرباں نہیں تھا
دیواروں کے بیچ اتنا
فاصلہ نہیں تھا
چہروں کی بھیڑ میں ہر فرد
اتنا اکیلا نہیں تھا
ہر کسی کا دل اداس
اتنا زیادہ نہیں تھا
ہر بدن پر درد کا
لبادہ نہیں تھا
یونہی چلتے پھرتے
کانوں میں پڑتے
محبت کے دو بول
پیاس بجھا دیتے تھے
یوں دریا بھر پانی پی کر بھی
ھر کوئی اتنا پیاسا نہیں تھا
گو ھر آنگن کو ستارہ میسر نہیں تھا
ھر من میں اتنا اندھیرا نہیں تھا
دل سبھی کے دھڑکا کرتے تھے
تب بھی
ھر دھڑکن پہ ھر کوئی
یوں سہمتا نہیں تھا
عجیب رنگ ہے آج کے وقت کا
عجیب ڈھنگ ہیں آج کے موسم میں
وہ تو سب ہے جو پہلے
سوچ میں بھی نہیں تھا
مگر فطری کچھ بھی نہیں
اصلی کچھ بھی نہیں
ایسا کبھی نہیں
ایسا کچھ بھی نہیں
کہیں بھی ایسا نہیں جو
اندر کی آگ بجھا دے
ذہن کی تپتی زمین پہ
ابر کرم برسا دے
ایکبار پھر ہم کو
جینا سکھا دے
جینے کا حوصلہ دلا دے
موسم کے سب رنگ
پھر سے چمکا دے
دل کو دل سے جوڑ دے
اور ہسننا سکھا دے
تھکن سے چور بدن کو آرام کی ضرورت ہے
"تھکن سے چور بدن کو آرام کی ضرورت ہے"
(7.8.90)
"ڈاکٹر صابر حسین خان"
بدن سے ذہن تک
تھکن کی چیونٹیاں
رینگتی ہیں اور کہتی ہیں
دیکھو!
دھوئیں کے مرغولوں میں
کہیں تم
فطری تقاضے نہ بھلا بیٹھو
معاش کے اندیشوں میں
کہیں تم
مانا کہ طبعی موت سے پہلے بھی
آدمی
کئی بار مرتا ہے مرمر کر جیتا ہے
لیکن
کہیں ایسا نہ ہو
کہ تم
کبھی تھک کر آنکھیں بند کرو
اور پھر کھول نہ پاؤ
دیکھو
ستاروں کی چاہ میں کہیں تم
اندھیروں کو گلے نہ لگا بیٹھو
(2)
بستر یہی ہے کہ جب کبھی
تھکن کی چادر تمھیں اوڑھنے لگے
اور آنکھیں تمھاری
بند ہونے لگیں
تو سوچ کا کوئی در کھول لینا
کوئی درد
کوئی بات پھر سے
دل کی کسی تہہ میں جگا لینا
کوئی رنگ
کوئی خواب پھر سے
دم توڑتی آنکھوں کو دکھا دینا
کہ ایک اسی صورت
تم زندگی سے
بلا واسطہ ناطہ رکھ سکو گے
بدھ، 6 مارچ، 2019
رکھ رکھاؤ
"رکھ رکھاؤ"
(11.9.89)
"ڈاکٹر صابر حسین خان"
اتنی سب باتوں کے باوجود
وہ باتیں جو ہم نے تنہائی میں
بیٹھ کر آپنا دکھ بھلانے کیلئے کی تھیں
تم آج ھنس کر کہتی ہو
ہم دونوں میں کبھی محبت
رہی ہی نہیں
ہم دونوں کے راستے تو
شروع ہی سے
جدا تھے
اور وہ جو ہم دونوں کے بین
تعلق تھا, الفت تھی
وہ سب رکھ رکھاؤ
اور رواداری کا حصہ تھا
وہ راتیں جو ہم دونوں نے
ہاتھوں,آنکھوں اور زلفوں کے
سائے میں ساتھ بتائی تھیں
وہ زرد دوپہریں
جو ہماری سانسوں کی حدت سے
پگھل گئی تھیں
وہ دوپہریں
وہ شامیں, وہ راتیں
سب کی سب
مروت کا شاخسانہ تھیں
خوش اطواری سے
وقت گزارنے کا بہانہ تھیں
وہ سب باتیں
ان باتوں کے سوا
کچھ اور نہ تھیں
وہ شامیں ہوا ہوئیں
وہ راتیں گزر گئیں
وہ باتیں بیت چکیں
جو تعلق تھا ختم ہوا
اب ان باتوں کو دہرانے سے
آنسو بہانے سے
یادوں کے دیپ جلانے
کیا حاصل
چاہتوں کا موسم
پت جھڑ کی نذر ہوا
رفافتوں کا سانپ گزر گیا
اب تم کیوں
لکیریں پیٹتے ہو
جدائی کا رونا روتے ہو
ہماری نصیب میں بس
اتنا ہی ساتھ لکھا تھا
پھر کس چیز کا گلہ کرتے ہو
آنکھ اور چاند
"آنکھ اور چاند"
(2.1.91)
"ڈاکٹر صابر حسین خان"
آنکھ, چہرہ اور خواب
یا کوئی کتاب
کھلی کھڑکی سے جھانکتا چاند
آسماں کے ماتھے پر دمکتی
ستاروں کی مانگ
پکے فرش پہ گرتی
بوندوں کی آواز
یا کسی پرندے کی
دھیمی پرواز
کیسی پہ بھی
کوئی موسم یا کوئی بات
دل میں گھرنہیں کرتی
شاید تم کو بھی مجھ سے محبت ہے
"شاید تم کو بھی مجھ سے محبت ہے"
(12.1.91)
"ڈاکٹر صابر حسین خان"
میرے جنم دن پہ تم نے
جو دعا دی ہے مجھ کو
(گو اپنی دانست میں تم نے
میرے لیے بددعا کی ہے)
اچھی لگی ہے مجھ کو
آپ یونہی پھریں
میری طرح تنہا تنہا
آپ چاہیں پھر بھی کبھی
آپ کو کوئی پسند نہ کرے
مہر نگار
"مہر نگار"
(17.1.91)
"ڈاکٹر صابر حسین خان"
اتنی خوشگوار دوپہر
جب سردیاں ہڈیوں میں
اتر رہی ہوں
اور دھوپ بادلوں میں
ہوا کی شکایت کر رہی ہو
کوئی
کوئی بھی
اپنے کام,اپنے ساتھی
اپنا آرام چھوڑ کر
اتنی دور
مجھ سے ملنے
کیسے آسکتا ہے
مجھے پتہ ہے
وہ بھی نہیں آئے گی
بعد میں کوئی نہانا کردے گی
لیکن مجھ کو
سردی, گرمی, بہار سے زیادہ
خزاں کا موسم
انتظار کا موسم
ذیادہ اچھا لگتا ہے
From where we start
"From where we are start"
(25.9.91)
"ڈاکٹر صابر حسین خان"
وہ میرے سامنے بیٹھی تو ہے
وقت اچھا کاٹنے کو
ہم دونوں اچھی باتیں تو کرسکتے ہیں
مگر دل کی لگن کا وہ لمحہ
کب لوٹ سکتا ہے
جو ایک ایسی ہی دوپہر
اس کی بے نیازی نے چرالیا تھا
میں کون ہوں
"میں کون ہوں"
(11.9.89)
"ڈاکٹر صابر حسین خان"
میں کون ہوں
میں کیوں ہوں
میرے دل میں کیا ہے
میں کیا چاہتا ہوں
میری سوچ آخر
کسی ایک نکتے پر
مرتکز کیوں نہیں ہوتی
ان سب سوالوں کا جواب
مجھ کو
کون دے گا
کب دے گا
سفر مسلسل
"سفر مسلسل"
(1.8.89)
"ڈاکٹر صابر حسین خان"
یوں کب تک
پھرتے رہوگے آوارہ سڑکوں پر
تم اپنی منتشر سوچوں کو آخر
کسی ایک نقطے پر
مجتمع کیوں نہیں کرتے
آخر کب تک تم اس طرح
کتابوں اور بادلوں اور لوگوں سے
اپنا ایندھن حاصل کروگے
کیا تم ابھی تک تھکے نہیں
کیا ابھی تک
تمھارے فون میں
سر پھری ہوائیں تیر رہی ہیں
سفر در سفر کے بیچ آفر
ایک لمحہ آرام کا بھی تو آتا ہے
کیا تم سکون کے متلاشی نہیں
کیا تمھارا دل نہیں چاہتا
کہ کوئی زلفوں کے سائے میں
تمھاری جاں کو سمیٹ لے
اور تمھیں
فکر امروز و فردا سے
نجات دلادے
ریکھانیں
"ریکھانیں"
(9.9.89)
"ڈاکٹر صابر حسین خان"
وقت
کی ہر ساعت کے ہاتھ میں
جو آئینہ ہے
اس میں دکھائی دینے والے عکس
ریکھاؤں سے الجھ رہا ہے
طلسم ذات
"طلسم ذات"
(9.9.89)
"ڈاکٹر صابر حسین خان"
باتیں ختم ہوگئی ہیں
یا روح کا خلا بڑھ گیا ہے
یا اندر کا آدمی مرگیا ہے
کوئی بھی صورت ہو
اب تو طلسم ذات سے
رہائی کی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
خاتمہ
"خاتمہ"
(2.8.89)
"ڈاکٹر صابر حسین خان"
کیا یہ ضروری ہے
کہ آدمی
کسی کو بھلانے کے لیے
اپنا آپ ہی بھول جائے
اور پھر
چپ چاپ اپنے آپ کو
وقت کے دریا میں ڈال دے
نشان
"نشان"
(2.8.89)
"ڈاکٹر صابر حسین خان"
کیا اسے کسی نے
یہ خبر پہنچائی ہے
کہ اس کی ہر خبر کا پتہ رکھنے والا
بے نام و نشاں ہوگیا ہے
گمان
"گمان"
(2.8.89)
"ڈاکٹر صابر حسین خان"
تمھاری سماعت کو
جس آواز کا انتظار ہے
ہوسکتا ہے
وہ آواز اس وقت
کسی اور کے
کانوں میں رس گھول رہی ہو
چھپی ہوئی بات
"چھپی ہوئی بات"
(19.8.89)
"ڈاکٹر صابر حسین خان"
ستارے اپنے نوجوانوں میں
کیا کیا دیکھتے ہیں
اور چاند اپنی تنہائیوں میں
جو کچھ سو پتا ہے
کوئی کیسے جان سکتا ہے
کسی کے دل کی بات بھلا
کب کوئی جان پایا ہے
لیکن اگر بیٹھے بیٹھے
کسی کی آنکھیں
ستارے ڈھالنے لگیں
اور آپ ہی آپ کسی کا چہرہ
چاند بن کر دمکنے لگے
تو آخر کار دل کی بات
زباں پر آہی جاتی ہے
ریافت
"دریافت" (19.8.89)
"ڈاکٹر صابر حسین خان"
دل کے سکون کی خاطر
اکثر
جس نام کو ہم
دانستہ بھول جاتے ہیں
ایک زمانے کے بعد
جب وہ بھولا بچھڑا پرانا نام
اچانک زباں پر آجائے
اور پھر آپ ہی آپ
لفظوں کی صورت
کاغذ پرڈ ملنے لگے تو
پل بھر میں
برسوں کی ریافت
دھری کی دھری رہ جاتی ہے