ہفتہ، 30 مارچ، 2019

31.03.19 . " آسان کام " ڈاکٹر صابر حسین خان

" آسان کام " ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان ۔ نیا کالم / مضمون/ بلاگ ۔ دنیا کا سب سے آسان کام باتیں کرنا ، باتیں بنانا ، دوسروں پر تنقید کرنا اور لوگوں کے عیب نکالنا ہوتا ہے ۔ اس کام میں ہم سب ایکسپرٹ اور ماسٹر ہو چکے ہیں ۔ یہ کام اتنا آسان ہے کہ ہم اپنے اپنے کام کرتے ہوئے اور اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے بھی اسے بڑی دلجمعی سے کر سکتے ہیں اور کرتے رہتے ہیں ۔ یہ ہمارا بہترین مشغلہ بھی ہے اور دل کے پھپھولے پھوڑنے کا شاندار طریقہ بھی ہے ۔ ہم ہر طرح کے کام سے تھک جاتے ہیں مگر یہ کام اتنا مزیدار اور دل کو لبھانے والا ہے کہ ہم اپنی نیند ، اپنی بھوک ، اپنا آرام سب بھول کے بھی اس کام میں مصروف رہتے ہیں ۔ اور بالکل بھی نہیں تھکتے ۔ گزشتہ 20 برسوں سے ہماری ٹیوننگ اور گرومنگ اس طرح سے ہو رہی ہے ، ہوئی ہے اور کی جا رہی ہے کہ شور شرابہ ، غل غپاڑہ ، بحث مباحثہ ، طنز و تحقیر ، تنقید و تمسخر ، اگر ہماری روزمرہ کی زندگی میں نمایاں نہ دکھائی دے تو ہماری مردانگی ہماری اپنی نگاہوں میں مشکوک اور باعث شرمندگی ہو جاتی ہے اور بزعم خود ہم لوگوں کے بیچ سر اٹھا کے چلنے کے قابل نہیں رہتے ۔ ہماری نئی نسل کا قصور نہیں ۔ وہ تو پوری کی پوری کمپیوٹر ایج کی پیداوار ہے اور اس کی جینیاتی ساخت ہی الیکٹرونک میڈیا اور پھر سوشل میڈیا کے زیر سایہ پروان چڑھی ہے ۔ ہم جیسی عمر کے لوگوں کا کھانا بھی اس وقت تک ہضم نہیں ہوتا ، جب تک ہم گھر یا باہر کسی سے الجھ نہ لیں ۔ اور اگر اس طرح کے سوڈامنٹ کا موقع نہ مل پائے تو کم از کم 46 انچ کے ایل ای ڈی اسکرین کے سامنے بیٹھ کر معاشرے کے اعلی و ارفع عہدوں پر فائز چمکتے دمکتے ، چینختے چنگھاڑتے ، ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہوئے ، لڑتے جھگڑتے طرم خانوں کی ایک جھلک نہ دیکھ لیں ۔ اور جو کسی وجہ سے اس تماشے کا بھی کسی دن ناغہ ہو جائے تو اس روز نیند بھی مشکل سے آئے ۔ آج سے 40 برس پہلے ٹی وی نہ صرف ذہنی تسکین اور تفریح کا بہترین ذریعہ تھا بلکہ اس زمانے کے بچوں ، نوجوانوں اور ہر عمر کے لوگوں کی نفسیات ، شخصیت اور کردار کی تعمیر اور ترتیب میں بھی اہم کردار ادا کرتا تھا ۔ اور آج اس میڈیا کو بلا شک و شبہ انفرادی اور معاشرتی انتشار ، خلفشار اور بگاڑ کا تن و تنہا ذمہ دار قرار دیا جا سکتا ہے ۔ کہ اس نے ہماری تفریح کے معیار اور معنوں کو 180 ڈگری کے زاویے سے بدل ڈالا ہے ۔ طنز ، تنقید ، تحقیر اور تمسخر کے ساتھ عدم تحفظ ، عدم برداشت ، نفرت ، حقارت ، بدلہ ، انتقام اور غصہ جیسے منفی انسانی پہلوؤں کو پروموٹ کر کے ، ہائی لائٹ کر کے ، زندہ رہنے کے لئیے ضروری قرار دے کر ، اور کامیابی کے لئیے لازم و ملزوم سمجھ اور سمجھا کر ۔ ویلن کو ہیرو کی شکل میں پیش کر کے معاشرے کی بنیاد کھوکھلی کر دی گئی ہے ۔ ہر طرح کا جرم ، ہر طرح کی کرپشن ، ہر طرح کی کمی اور کجی کو جسٹیفائڈ کر کے ، ہر نیگیٹو انسانی رنگ کو ہرا ، نیلا ، پیلا اور گلابی پورٹریٹ کر کے ۔ نفسانی اور حیوانی خواہشات کو نام نہاد آزادی کا نام دے کر ۔ زندگی کے ہر شعبے کی طرح جب معاشرے کے سب سے معتبر اور باوقار شعبے ، ادب و ثقافت و صحافت کے تمام دائروں میں یہی سوچ و رویے گھوم رہے ہوں تو میں اور آپ ، ہم سب ، بھی غیر محسوس طریقے سے اسی رنگ میں ڈھلتے جا رہے ہیں ۔ اور اخلاق اور کردار کے انتہائی پستی زدہ حوالوں اور حاشیوں کو ہی زندگی کی معراج سمجھنے لگے ہیں ۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہوئی ہے کہ یہی بات ، تفریح اور دلچسپی کا بھی سامان ٹہری ہے ۔ ایک دوسرے کے پرخچے اڑا دینا اور تالیاں پیٹنا ۔ زور سے شور مچانا اور پھر چور مچائے شور کا شور ڈالنا ۔ ہر عام و خاص کو پہلے ہر اچھے برے کاموں اور اچھی بری باتوں کی ترغیب دینا اور اکسانا اور پھر ڈھونڈ ڈھونڈ کر ہر ایک کے عیب نکالنا اور عیبوں اور خامیوں کو بیچ چوراہے سب کے سامنے ٹانگتے رہنا ۔ اور گھنٹوں ، دنوں ، ہفتوں تک ان پر رننگ کمنٹری کرتے رہنا اور ڈھول پیٹ پیٹ کر بھیڑ جمع کرتے رہنا ۔ اس سے زیادہ دلچسپ مشغلہ اور کیا ہوگا ۔ اس سے زیادہ آسان کام کوئی اور کیا ہو سکتا ہے ۔ نہ ہلدی لگے نہ پھٹکری ، اور رنگ بھی چوکھا آئے ۔ سب کے مزے ۔ سب خوش ۔ باتیں کرنے ، باتیں بنانے ، باتیں گڑھنے ، باتوں کے تیروں ، بھالوں ، اور نیزوں سے دل و دماغ چھلنی کرنے سے زیادہ اور کون سا کام آسان اور آج کے دور میں سود مند ثابت ہو سکتا ہے ۔ ہم سب باتوں کے بادشاہ بن کر اپنے اپنے حلقوں اور علاقوں میں ایسی سلطنت چلا رہے ہیں جس میں ہمارے علاوہ باقی سب خراب اور غلط ہیں ۔ وہ بھی اس وقت تک ، جب تک وہ ہمارے حضور سر نہ جھکا لیں ۔ اپنے نظریے چھوڑ کر ہمارے صحیح غلط خیالات نہ اپنا لیں ۔ اور ایسا جس لمحے ہو جائے ، ان کے سارے گناہ دھل جاتے ہیں اور وہ دنیا بھر کی برائیوں اور غلطیوں میں تمام عمر ملوث رہنے کے باوجود پھر معصوم اور پاک صاف ہو جاتے ہیں ۔ بس اس کے لئیے ان کو ہماری باتوں کی بادشاہت برداشت کرنی پڑتی ہے ۔ ہمارے تمام تماشے ، ہماری تمام تنقید ، ہماری تمام کڑوی اور تلخ باتیں محض اوروں کو نیچا دکھانے ، نیچا بنانے اور اپنے سے نیچا ثابت کرنے کے لیے ہوتی ہے ۔ اور جونہی جو جو سرینڈر کرتا چلا جاتا ہے وہ اپنوں کی صف میں شامل ہوتا جاتا ہے اور اس کا ہر غلط ، صحیح قرار دے دیا جاتا ہے ۔ معاشرے کی اسی سوچ اور مروجہ رویوں نے آج ہر برے آدمی کو بڑے آدمی کا ایوارڈ دے رکھا ہے ۔ جس کی وجہ سے ہر آدمی ، شعوری یا لا شعوری طور پر اس معاشرتی آئیڈیل کے حصول کی تگ و دو میں مصروف ہے ۔ اسے ہر حال میں ہر وقت اپنا طاقتور امیج برقرار رکھنا ہے اور اس کے لئیے اسے ہر وقت خود کو غصیلا ، جنگجو ، متحرک اور باتونی رکھنا ہے ۔ اسے ہر وقت ہر محفل میں ہر طرح کے بحث و مباحثے کے لئیے تیار رہنا ہے ۔ اسے ہر وقت ہر حوالے سے سامنے والوں کو نیچا دکھانا ہے اور ہر وقت طنز ، تنقید ، تحقیر اور تمسخر کے ہتھیار استعمال کرتے رہنے ہیں ۔ اسے ہر وقت ہر جائز و ناجائز طریقے سے دولت کمانی ہے اور سوسائٹی کے بڑے لوگوں سے تعلقات استوار کرتے رہنے کے لئیے ہر قدم اٹھانا ہے ۔ تبھی وہ کامیاب کہلایا جا سکتا ہے ۔ تبھی وہ بڑا آدمی بن سکتا ہے ۔ تبھی اس کی بادشاہت برقرار رہ سکتی ہے ۔ تبھی اس کے کام آسان ہو سکتے ہیں ۔ اور آسان کام اسی کے ہو سکتے ہیں جو آسانی سے آسان کام کرنا جانتا ہو ۔ باتوں سے زیادہ اور کون سا کام آسان ہو سکتا ہے ۔ اور اس کام میں تو ہم سب ہی ید طولی رکھتے ہیں ۔ مشکل کاموں کا کسی کے پاس نہ دل ہے نہ وقت ۔ اور نہ ہی کوئی ظاہری فائدہ ۔ تو وہی کچھ کرتے رہنا چاہئے جو اور سب کر رہے ہیں ۔ اس میں حرج بھی کیا ہے ۔ ماسوائے اس کے کہ آج ہمارا ہاتھ کسی کے گریبان پر ہے تو کل کسی اور کا تھپڑ ہمارے چہرے پر ہو گا ۔ آسان کاموں کا نتیجہ بھی آسان ہی ہوتا ہے ۔ قدرت کا قانون یہی ہے اور ہر ایک کے لیئے ہی ہے ۔ قدرت کسی کے لئیے بھی اپنے قاعدے قانون نہیں بدلتی ۔ نہ کسی کو معاف کرتی ہے ۔ جو جیسا کرتا ہے ۔ وہ ویسا بھرتا ہے ۔ آج ہم طنز ، تنقید ، تحقیر اور تمسخر کے آسان کاموں میں مصروف رہ کر باتوں کے بادشاہ کا خطاب پا رہے ہیں ۔ کل ہم کٹہرے میں کھڑے ہوں گے اور اپنے کانوں میں انگلیاں ڈالے وہ سب کچھ سننے سے بچنا چاہ رہے ہوں گے جو آج ہم گلے پھاڑ پھاڑ کر سنا رہے ہیں ۔ کتنا ہی اچھا ہوتا کہ وقت کی ترازو کا پلڑا پلٹنے سے پہلے ہمیں سمجھ آجائے اور ہم اپنے اپنے آسان کام اور شارٹ کٹ چھوڑ کر مشکل کاموں اور دشوار راستوں کا انتخاب کر لیں ۔ آپ اپنا احتساب کر لیں ۔ کہ قدرت کا حساب کتاب پھر ہم سے برداشت نہیں ہو پائے گا ۔ دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان ۔ ماہر نفسیات ۔ ماہر امراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ، روحانی ، جسمانی ، جنسی اور منشیات ۔ مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ ۔ DUAAGO. DR. SABIR HUSSAIN KHAN CONSULTANT PSYCHIATRIST PSYCHOTHERAPIST AUTHOR. WRITER. BLOGGER. POET. PALMIST. www.drsabirkhan.blogspot.com www.fb.com/Dr.Sabir Khan www.youtube.com/Dr.SabirKhan

بدھ، 20 مارچ، 2019

21.03.19 DR. SABIR KHAN. New Column/Blog/Article

" دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا " نیا کالم / بلاگ / مضمون ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان ۔ اشفاق بھی رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ۔ اور وہ بھی کیسے ۔ شام مناتے اور منواتے ہوئے ۔ ایک زمانہ تھا کہ لوگوں کو رنگے ہاتھوں پکڑنا کافی مشکل ہوتا تھا ۔ بہت وقت موقع کا انتظار کرنا پڑتا تھا پھر کہیں جا کر وہ لمحہ ہاتھ آتا تھا جب کوئی رنگے ہاتھوں پکڑا جاتا تھا ۔ مگر اب سوشل میڈیا نے پکڑ، پکڑائی بہت آسان بنا دی ہے ۔ اب کسی اور کے پکڑنے سے پہلے ہم خود پکڑائی دے دیتے ہیں ۔ اپنے آپ کو رنگے ہاتھوں پکڑوا دیتے ہیں ۔ اپنی جگہ بہ جگہ کی جا بہ جا تصویریں اپ لوڈ کر کے ۔ اپنے حال احوال اور حالات و واقعات کی تفصیل بیان کر کے ۔ اپنی سوچ ، اپنے خیالات ، اپنے جذبات کی عکاسی کر کے ۔ اشفاق کے ساتھ بھی کچھ یوں ہی ہوا ۔ وہ بےچارہ جاتلاں ، میرپور ، آزاد کشمیر سے دس سال بعد میرپورخاص آیا تھا ۔ ہاتھ ملانے کے لئیے ۔ اور حلقہ ارباب ادب نے اس کو شاعر جانتے ، مانتے اور سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ ایک شام منا ڈالی ۔ اس میں بھی کوئی حرج نہیں تھا ۔ مگر اس نے دوران قیام میرپورخاص ہی اپنی شام والی تصویر اپ لوڈ کر ڈالی فیس بک پر ۔ اگلی شام جونہی میری نظر اس کی تصویر پر پڑی تو وہ رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ۔ اور میں نے اسے فورا فون گھما دیا ۔ اور اس کے ہاتھ ملانے والے ایجنڈے میں دخل اندازی کر بیٹھا ۔ اس کے منصوبے میں کراچی کا وزٹ آخر میں تھا ۔ اور کراچی میں ، مجھ سے ملاقات ، ہاتھ ملانے والے ایجنڈے کی آخری تقریب تھی ۔ لیکن چونکہ اپنی شام منانے اور منوانے والی تصویر نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑوا دیا تھا اور مجھے اس کے میرپورخاص پہنچنے کی اطلاع مل چکی تھی تو کراچی کے حوالے سے اس کا پلان درہم برہم ہو گیا اور اسے مجھ اکیلے کے ساتھ پورے 36 گھنٹے گزارنے پڑ گئے ۔ جبکہ اس کا پروگرام مجھ سے ملاقات کر کے بس ہاتھ ملانا تھا ۔ عبدالرحمان نے میرپورخاص سے اسے روانہ کرتے ہوئے سختی سے تاکید کی تھی کہ صابر بھائی سے سب سے آخر میں ہاتھ ملانے جانا ورنہ پھنس جاو گے ۔ اور عبدالرؤف ایڈووکیٹ نے اسے اپنے ہمراہ لاتے ہوئے دل و جان سے گارنٹی لی تھی کہ وہ اسے ، میرے چنگل میں نہیں پھنسنے دے گا اور ہاتھ ملانے کے کچھ دیر بعد ہی اسے ، اس کے کراچی کے اور دوستوں اور ملنے ملانے والوں سے ہاتھ ملانے لے جائے گا ۔ مگر پروفیسر عبدالرحمان اور ایڈووکیٹ عبدالرؤف ، دونوں کی پلاننگ بھی کام میں نہ آسکی اور بےچارہ اشفاق ، کراچی آنے اور کراچی میں رہنے کے باوجود پورے 36 گھنٹے میرے علاوہ صرف بھائی شبیر قائم خانی اور محمد علی منظر سے ہاتھ ملا سکا ۔ اور وہ بھی اس طرح کہ اسے جب سی ویو گھمانے لے گئے پہلی شام تو واپسی میں بھائی شبیر کا گھر سی ویو کے پاس ہی تھا ۔ تو ان سے اشفاق کے توسط سے میری اور عبدالرؤف کی بھی ملاقات ہو گئی ۔ اور اشفاق نے بھی ان سے باقاعدہ یہ کہہ کر ہاتھ ملایا کہ وہ کشمیر سے کراچی ، بس ان سے ہاتھ ملانے ہی آیا ہے ۔ اور اگلے دن ، بھائی پروفیسر محمد علی منظر کو فون کروا کے کلینک بلوا لیا گیا اور اشفاق سے ان کا ہاتھ ملوا دیا گیا ۔ اور دو تین گھنٹوں کے لئیے ان لوگوں کو علیحدہ کمرے میں بھی بٹھا دیا گیا ۔ میری وجہ سے اشفاق کچھ لوگوں سے ہاتھ ملانے سے محروم بھی رہا مگر مجھ سے جان چھڑاتے ہی اس نے اگلے دس بارہ گھنٹوں میں دو چار اور لوگوں سے ہاتھ ملا ہی لیا اور اگلے دو دنوں میں میرپورخاص واپس پہنچ کر مزید کئی لوگوں سے ہاتھ ملا کر ، اپنے ہاتھ ملانے کی سنچری پوری کر ہی لی ۔ ہاتھ ملنے اور ہاتھ ملانے میں فرق ہوتا ہے ۔ 36 گھنٹوں کی رفاقت کے دوران جب یہ عقدہ کھلا کہ ہر فون کال اور ہر ملنے والے سے اشفاق یہی ایک ڈائیلاگ بار بار بول رہا ہے تو میرے کان ٹھنکے ۔ " ارے بس میں تو بس ہاتھ ملانے کے لئیے آیا ہوں ۔ مجھے تو بس ہاتھ ملانا تھا ۔ نہیں نہیں ، کسی اہتمام کی ضرورت نہیں ، مقصد تو صرف ہاتھ ملانا ہے ۔ بس دو منٹ کے لئیے ہاتھ ملانے آرہا ہوں ۔ " پھر حسب روایت و حسب عادت مجھے اپنی علامیت جھاڑنے کا موقع مل گیا ۔ " ابے بھائی یہ کیا لگا رکھا ہے ۔ ہر ایک کو ، سیاست دانوں کی طرح ٹوپی پہنا رہے ہو ۔ بس ہاتھ ملانا تھا ۔ بس ہاتھ ملانے کے لئیے ملنا تھا ۔ تم کشمیر سے یہاں میرپورخاص اور کشمیر گھومنے اور تفریح کرنے آئے ہو یا جانے پہچانے اور اجنبی لوگوں سے ہاتھ ملانے ؟ ماشااللہ، بیٹا بھی ساتھ آیا ہے تمھارے اور بیوی بھی ۔ تو ان کو بھی تو کچھ گھمانا پھرانا چاہئیے یا تم ہاتھ ہی ملاتے رہوگے سب سے ۔ تمھارے ہاتھ ملانے کے چکر میں یہ دونوں اتنی دور آ کر بھی یوں ہی ہاتھ ملتے رہ جائیں گے اور خالی ہاتھ رہ جائیں گے ۔ تم نے ہزار بار یہ مصرع سنا ہو گا کہ ' دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا ' ، تم کیوں ہر ملنے والے کو یہ بادر کرانا چاہ رہے ہو ۔ تمھارے ہاتھ ملنے اور ملانے کے حوالے سے کچھ لکھنا پڑے گا ۔ تاکہ اگلی بار تم باقاعدہ اور با ضابطہ ملاقاتوں کے لئیے آو ۔ مانا کہ تم تو دل سے ہاتھ ملا رہے ہو مگر یہ بات کہنے کی کہاں ہوتی ہے ۔ ہر بات کہی تھوڑی جاتی ہے ۔ ملو ، جی بھر کے ملو ، سب سے ملو مگر محض ہاتھ ملانے کی نیت سے نہیں ، بلکہ ملاقات کی نیت ، ارادے اور اظہار کے ساتھ ملو ۔ " جب ہم دل سے کسی کے قریب ہوتے ہیں اور اس کے خلوص اور محبت کی دل سے قدر کرتے ہیں تو عبدالرحمان اور اشفاق جیسے دوست ہماری زندگی میں آتے ہیں اور رہتے ہیں ۔ 1980 سے ان دونوں سے محبت ، رفاقت اور دلگیری کا رشتہ قائم ہے اور اس استحکام میں ان دونوں کا زیادہ ہاتھ ہے ۔ دونوں میرے چھوٹے بھائی خالد کے کلاس فیلو تھے اور مجھ سے ایک سال جونئیر تھے ۔ ادب اور احترام سے پیش آتے اور جو کچھ مجھے آتا ، وہ ان دونوں اور ان کے ساتھ اور کئی دوستوں اور ساتھیوں میں ، محبت اور شفقت کے ساتھ بانٹتا رہتا ۔ اشفاق کا شمار لڑکپن کے ان دوستوں میں ہے جن کے پیچھے سائیکل پر بیٹھ کر میرپورخاص کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک کا سفر ہوا کرتا تھا ۔ پھر میں کراچی آگیا اور کچھ سالوں بعد اشفاق کے گھر والے بھی میرپورخاص سے اپنے آبائی علاقے میرپور آزاد کشمیر منتقل ہو گئے ۔ ملاقاتوں کا سلسلہ کم سے بہت کم ہوتا گیا ۔ کبھی کبھی ، وہ بھی کئی سالوں کے وقفے کے بعد فون پر رابطہ ہو جاتا ۔ حالیہ ملاقات سے پیشتر ، اشفاق سے آخری ملاقات آٹھ دس سال پہلے ہوئی تھی ۔ اور اس وقت اسی کے توسط سے رفیق نقش سے آخری بار ملاقات ہوئی تھی ۔ کہ کسی کے علم میں نہیں تھا کہ بلوچ خاندان میں پیدا ہونے والا ، اردو زبان پر کمانڈ رکھنے والا ایک شاعر ، نقاد ، ادیب اور اردو کا پروفیسر ، اچانک دوران لیکچر ، حرکت قلب بند ہونے سے اس جہان فانی سے اچانک کوچ کر جائے گا ۔ ایک وقت وہ تھا جب زمانائے طالب علمی میں ، شاعری اور تک بندی کی ابتدا میں ، میں نے اشفاق کو رفیق نقش سے ہاتھ ملوایا تھا اور پھر کچھ عرصے کے بعد میں خود شاعری کا سفر آدھا ادھورا چھوڑ کر نثر کے سفر پر نکل کھڑا ہوا تھا ۔ مگر اشفاق نے شاگردی اور دوستی کا حق ادا کیا اور رفیق نقش کی آخری سانس تک اسکے ساتھ رفاقت نبھاتا رہا ۔ تعلق ، دوستی ، شاگردی ، محبت ، خلوص اور کمٹ منٹ برقرار رکھنے اور نبھانے کے بیج ، اشفاق کی گھٹی میں پڑے ہوئے ہیں ۔ اور ان کی آبیاری کے لئیے اسے ہاتھ ملانے کے لئیے ہی سہی، اپنے حلقہ احباب میں شامل دور دراز کے دوستوں کو پانچ منٹ بھی کیوں نہ دینے پڑیں، اس کا تازہ ترین ٹریلر اس کے تازہ ترین دورہ میرپورخاص و کراچی میں دیکھ لیا ۔ زندگی کے سفر میں ، میں اس خوبی سے خالی ہو چکا ہوں ۔ شاعری کی طرح روایتی سماجی روابط ، رشتے اور تعلقات بنانا اور برقرار رکھنا ، شخصیت و مزاج کے دائرے میں سے کب ، کہاں ، کیوں اور کیسے باہر نکلتے گئے ، کچھ پتہ نہیں چلا ۔ عمر بڑھنے کے ساتھ یہ احساس بھی بڑھا کہ شاعری اپنے بس کا روگ نہیں ہے ۔ اور پھر مزید مطالعہ اور مشاہدے اور حالات و واقعات کے تجزیوں نے یہ بات ثابت بھی کر دی کہ شاعری ، معاشرے کو آج تک کبھی کچھ نہیں دے سکی ۔ ماسوائے وقت کے کچھ خاص لمحات کے ۔ جب انقلابی جدوجہد کا زمانہ ہو اور لوگوں کا لہو گرمانا ہو ۔ عبدالرؤف نے ابھی حالیہ ملاقات میں کہا بھی کہ صابر بھائی آپ کی نثر میں اتنی کتابیں شائع ہو چکی ہیں مگر آپ کا شعری مجموعہ اب تک کیوں نہیں آیا ۔ جبکہ شاعری آپ کی پہلی محبت تھی ۔ دیکھا جائے تو بات اس کی غلط نہیں ہے ۔ 1000 سے زائد شعری کاوشوں میں سے تین چار سو تو ایسی نکل آئیں گی ، جن کو باضابطہ کتابی شکل دی جا سکتی ہے ۔ مگر پھر وہی بات کہ انفرادی دل و خیال کی وارداتوں سے ہم کسی کے قلب و دماغ میں کیسے کوئی باضابطہ تبدیلی لا سکتے ہیں ۔ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اپنے اپنے وقتوں میں بڑے بڑے شاعر ، اعلی و ارفع شاعری کر گئے اور اساتذہ کے درجے حاصل کر گئے مگر کیا ان کی بہترین شاعری سے کیا کبھی کوئی شخص ایک بہتر زندگی کی طرف آ سکا ۔ یہ اور بات ہے کہ میرے موجودہ کالم/بلاگ/مضمون کا عنوان ہی ایک شعر کا ایک مصرع ہے ۔ یعنی دوسرے نقطہء نظر سے دیکھا جائے تو مضبوط و مربوط شاعری کی اپنی اہمیت اور افادیت ہے ۔ شرط صرف یہ ہے کہ میری طرح کی تک بندیاں اور نام نہاد نثری شاعری نہ ہو بلکہ اشفاق کی طرح جاندار اور خیال پرور باقاعدہ شاعری ہو ۔ اور یہ بات تو میں بھول ہی گیا تھا کہ ہاتھ ملانے کے چکر میں اشفاق اپنا سرمایہ حیات میرے گھر پہ ہی بھول کر نکل گیا تھا ۔ اس کی برسوں کی ریاضت ایک عدد ڈائری کی شکل میں محفوظ ہے جسے وہ ساتھ لایا تھا ۔ اور ہڑا ہڑی میں جاتے وقت میز پر ہی چھوڑ گیا تھا ۔جسے پانچ دن بعد اس کے کشمیر پہنچنے کے بعد پوسٹ کیا گیا ۔ تاکہ اس کی تخلیقات ، بحفاظت اس تک پہنچ سکیں ۔ انسان کو اپنی تخلیق اپنی ذات سے زیادہ عزیز ہوتی ہے ۔ جیسے میں نے دس گیارہ جگہوں کو بدلنے کے باوجود گزشتہ پینتیس چالیس سالوں سے اپنی دس گیارہ شاعری سے بھری ڈائریاں سنبھال کر رکھی ہوئی ہیں ۔ ہر چند سال بعد ہلہلہ اٹھتا ہے کہ کم از کم ایک کتاب تو شاعری کی چھپوا لینی چاہیے ۔ اور ابھی بھی گزشتہ چار ماہ سے نئے فارمیٹ میں کمپوزنگ کروا رہا ہوں ۔ اس امید پر کہ انشاءاللہ اس بار تو کامیاب ہو ہی جاوں گا ۔ کہ ہر بار شاعری کی کتاب کے لئیے جو پیسے جمع کئیے جاتے ہیں وہ کسی اور ضرورت میں خرچ ہو جاتے ہیں ۔ اور میں ہاتھ ملا کر دوستیوں اور رفاقتوں کو تازہ کئیے بنا ہی ہاتھ ملتا رہ جاتا ہوں ۔ اور اس بار اشفاق سے مل کر یہ دکھ بھرا احساس اور شدت سے ہوا کہ کم از کم اشفاق کے پاس شاعری کے ساتھ ساتھ ، محبت بھری رفاقتوں اور ہاتھ ملانے والے ، خیال رکھنے والے دوستوں کا ہجوم بھی ہے ۔ اور میں شاعری اور دوستوں ، دونوں نعمتوں سے محروم ، خالی ہاتھوں میں ارض و سما تھامنے کی خواہش میں سفر مسلسل میں شب وروز گزار رہا ہوں ۔ دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان ۔ ماہر نفسیات و امراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ، روحانی ، جسمانی ، جنسی اور منشیات ۔ ( مصنف ، کالم نگار ، شاعر ، ادیب ، پاسٹ ) DR. SABIR HUSSAIN KHAN Consultant Psychiatrist. Psychotherapist. ( Author. Writer. Columnist. Poet. Palmist ) Director : DUAAGO THE COUNSELLORS. Centre For Mental Health And Personality Grooming. www.duaago.com www.drsabirkhan.blogspot.com www.facebook.com/Dr. Sabir Khan www.youtube.com/Dr.SabirKhan

پیر، 18 مارچ، 2019

میرپورخاص سے میرپورخاص تک . چھٹی قسط

زندگی کا سفر . چھٹی قسط . ڈاکٹر صابر حسین خان کام , مشغلے اور چیزیں تو ہم وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں , بدل سکتے ہیں . لیکن ہمارے تعلق , رشتے اور بونڈ تمام عمر ہمارے ساتھ ساتھ چلتے ہیں . جو تعلق جتنا پرانا ہوتا جاتا ہے , اس میں اتنی زیادہ مضبوطی آتی جاتی ہے . ہر گزرتا دن انسیت اور محبت کو بڑھاتا ہے . رشتوں کی حرمت کو ہمیشہ برقرار رکھنے کی سعی کرتے رہنا چاہیے . دوستوں کے ساتھ تعلق کو اپنی محبتوں کا پانی پلاتے رہنا چاہیے . زندگی کے سفر میں محبتوں اور رشتوں کے سایہ در شجر نہ ہوں تو حالات اور واقعات کی تپتی دھوپ ہمارے پورے وجود کو جھلساتی رہتی ہے اور ہمارا سفر , وسیلہ ظفر بننے کی بجائے , وبال جان بنتا چلا جاتا ہے . قدرت کا کسی بھی انسان پر یہ سب سے بڑا احسان ہوتا ہے کہ وہ اسے عمر اور زندگی کے سفر کے ہر مرحلے , ہر راستے پر دوستوں , محبتوں اور رشتوں کے سائے سے نوازتی رہے . میری زندگی کا سفر بھی اللہ تعالی کے اس احسان کے سائے میں گزرا,ہے . ہر قدم , ہر موڑ پر بے غرض اور پر خلوص محبتوں , رشتوں اور دوستیوں کے سائبان موجود رہے اور الحمداللہ موجود ہیں . یہ اور بات ہے کہ بہت سے محبت کرنے والے دوست اب یا تو رابطے میں نہیں اور یا وہ دنیا سے پردہ کر چکے ہیں . بہت سے دوست ایسے بھی ہیں جو میری اپنی وحشتوں اور آشفتہ سری کی آگ کی تپش سے گھبرا کے تعلق توڑ گئے . اور اب ایک عرصے سے ان کی کوئی خیر خبر نہیں . سیانے یہ بات صحیح کہہ گئے ہیں کہ جو تعلق بوجھ بننے لگے , اسے چھوڑ دینا ہی اچھا ہوتا ہے اور یہ بھی کہ جو آج دوست نہیں رہا , وہ کل بھی دوست نہیں تھا . اور جو سچا دوست ہوتا ہے وہ اپنے دوستوں کے اندر اور باہر کی تمام اچھائیوں اور برائیوں سمیت ان کو قبول کرتا ہے اور تمام عمر ساتھ نبھاتا ہے . زندگی کے سفر میں اللہ تعالی کے فضل نے دونوں طرح کے دوستوں کی رفاقتوں سے نوازا . ساتھ چھوڑ جانے والے بھی اور ساتھ نبھانے والے بھی . بہت کم ایسا ہوا کہ مطلب پرست اور خود غرض دوستوں سے ازخود کنارہ کشی اختیار کرنا پڑی . کہ بار بار ایک ہی سوراخ سے خود کو ڈسواتے رہنا دانشمندی نہیں , بیوقوفی کے زمرے میں آتا ہے . بات , حسب عادت کہاں سے کہاں پہنچ گئی . بات شروع ہوئی تھی میرپورخاص کے سفر سے کہ زندگی کا سفر میرپورخاص سے شروع ہوا تھا . اور پھر یونہی بلاوجہ میرپورخاص چلا گیا . مٹی کی محبت شاید اسی کا نام ہے . قابل ذکر دوستوں میں سعید بھائی اور عبدالرحمان کے علاوہ شاید ہی کوئی اور قریبی دوست میرپورخاص میں نہیں . احباب اور محبت کرنے والے البتہ بہت سے لوگ آج بھی اسی خلوص اور پیار سے ملتے ہیں جس طرح آج سے 35 -40 سال پہلے ملا کرتے تھے . وقت نے اس وقت کے سب لوگوں کو ادھر سے ادھر کردیا کہ یہ وقت کا دیرینہ اصول ہے . کچھ بھی برقرار نہیں رہتا . ہر شے فانی ہے . انسان ہوں یا انسانی رشتے . پسند ناپسند ہو یا جذبات اور نظریات . وقت اور عمر کے ساتھ سب بدلتا رہتا ہے . کچھ ہماری مرضی سے اور بہت کچھ ہماری مرضی کے خلاف . ہم زندگی اور وقت کے سفر کو روک نہیں سکتے . ایک عمر اور ایک سفر کے بعد دوسری عمر اور دوسرا سفر ہمارا منتظر رہتا ہے . زندگی کے سفر کی اور کئی داستانیں پھر کبھی کہ اس سفر کی چھٹی قسط لکھتے ہوئے بہت دن گزر گئے ہیں اور دل میں کوئی اسپارک نہیں ہے اور دیگر کئی اور کام وقت کی توجہ اپنی جانب سمیٹ رہے ہیں . تو اشارہ یہی ملتا ہے کہ اس وقت اس سلسلے کو یہیں روک دیا جائے اور انتظار کیا جائے کہ پھر کوئی اور سفر , اندر کا سفر یا باہر کا سفر , کب کوئی تحریک پیدا کرتا ہے . کہ کسی بھی سفر میں اگر دل شامل نہ ہو تو وہ وسیلہ ظفر بننے کی بجائے روح پر بوجھ بننے لگتا ہے . اور ایسے سفر سے بہتر ہے کہ ہم کہیں پر قیام کر لیں , رک جائیں , اپنے بڑھتے ہوئے قدموں کو روک لیں اور ستارہ سفر کے پھر نمودار ہونے کا انتظار کریں . بصورت دیگر زندگی کے سفر کی تھکن ہماری رہی سہی توانائی بھی سلب کرتی رہے گی .

پیر، 11 مارچ، 2019

"امن کی آشا, جنگ کی بھاشا" ڈاکٹر صابر حسین خان

نیا کالم/بلاگ/مضمون .

ڈاکٹر صابر حسین خان

" امن کی آشا . جنگ کی بھاشا "

کچھ لوگ کہہ گئے ہیں کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے . کچھ اور لوگوں کا خیال ہے کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہوتا ہے . کچھ کا فلسفہ حیات , جس کی لاٹھی اس کی بھینس , ہوتا ہے . کچھ چانکیہ کے مرید ہوتے ہیں اور بغل میں چھری اور منہہ پہ رام رام الاپتے رہتے ہیں . کچھ لوگ , شیر کی ایک دن کی زندگی جینے کی تمنا کے ساتھ جیتے ہیں . کچھ کے نزدیک گیدڑ کے سو سال ہی.سب کچھ ہوتے ہیں . کچھ مرنے اور مارنے کے سوا کچھ اور نہیں سوچ سکتے . کچھ چاہتے ہیں کہ ہمہ وقت امن کی فاختائیں اڑاتے رہیں . دنیا بھر کی قوموں کے اپنے اپنے جینے اور مرنے کے طور طریقے ہیں . انسان کی فطرت بڑی انوکھی ہے . بڑی سیمابی ہے . وہ زیادہ عرصے تک کسی ایک حالت , کسی ایک کیفیت میں نہیں رہ پاتا . اس کا مزاج ہمہ وقت متغیر رہتا ہے . من و سلوی بھی اسے ایک وقت کے بعد کھلنے لگتا ہے . انسانی تاریخ کی ابتدا سے اب تک انسان کچھ وقت تک تو سکون و عافیت سے ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں اور پھر اچانک ایک دوسرے سے الجھنے لگتے ہیں . قبیلے ہوں یا قومیں, بہت زیادہ عرصے تک امن و امان کی حالت میں نہیں رہ سکتے . امن کی آشا سے جنگ کی بھاشا تک کا سفر طے ہونے میں کبھی بہت زیادہ وقت نہیں لگتا . اور جو قوم, جو قبیلہ ہمہ وقت خود کو جنگ کے لیئے تیار نہیں رکھتا وہ بہت جلد جنگ کی لپیٹ میں آسکتا ہے . امن کی بھاشا سمجھنے اور سمجھانے کے لئیے جنگی تیاریاں کرتے رہنا پڑتا ہے . اور ہر طرح سے ہر وقت جنگ کے لیئے تیار رہنا پڑتا ہے اور اپنی ہر طرح کی جنگی تیاری کو ہمہ وقت سب کے سامنے نمایاں رکھنا پڑتا ہے تاکہ کسی کو بھی کبھی جنگ کی ہمت نہ پڑے . انسان کی فطرت ہے کہ وہ اپنے سے کمزور کو حقیر اور کمتر سمجھتا ہے اور اگر اس کی دسترس میں ہو تو اسے دبانے کی خواہش رکھتا ہے اور مستقل دباتا رہتا ہے . اپنے برابر والے سے نرمی اور دوستی برتتا ہے اور اپنے سے طاقتور اور مضبوط کے سامنے دب کے , سر جھکا کے رہتا ہے . قوم , قبیلہ, ملک , انسانوں کی مجموعی نفسیات اور فطرت کی عکاسی کرتا ہے اور لاکھوں کروڑوں گنا زیادہ شدت سے دوسری قوموں , دوسرے قبیلوں اور دوسرے ملکوں کے انسانوں کو محکوم بنانے کی ازلی خواہش کو پرورش دیتا رہتا ہے . انسانی نفسیات کی اس کمزوری کا آج تک کوئی دیرپا علاج دریافت نہیں ہو سکا ہے . ہم انفرادی سطح پر بھی لا شعوری طور پر اس سوچ کے حامل ہوتے ہیں اور گروہ کی شکل میں تو ہماری یہ لا شعوری سوچ عملی رویوں میں ڈھلنا شروع ہو جاتی ہے . ہم طاقتور سے ڈرتے ہیں . خواہ اس کی طاقت کی شکل صورت کچھ بھی ہو . اور ہم کمزور کو ڈراتے ہیں . خواہ زبان سے اس کا اقرار نہ بھی کریں . ہم دل سے امن و سکون سے زندگی گزارنا چاہتے ہیں مگر ہماری فطرت ہمیں ایک دوسرے سے چونچیں لڑانے پہ اکساتی رہتی ہے . یہ اور بات ہے کہ ہماری جبلت ہمیں ذاتی حفاظت کے خیال سے ہمیں شعوری طور پر طاقتور اور کمزور کی تفریق سکھاتی رہتی ہے کہ کب ہم کس پر کمر کس کر تل سکتے ہیں اور کب ہم خاموش رہ کر اپنی عافیت برقرار رکھ سکتے ہیں . فطرت , نفسیات اور جبلت کی اسی کشمکش نے امن کی آشا اور جنگ کی بھاشا جیسے الفاظ اور رویوں کو جنم دیا ہے . فطرت , نفسیات اور جبلت کی یہ اندرون خانہ جنگ روز اول سے جاری ہے اور تا قیامت جاری رہے گی . کوئی بھی فرد یا معاشرہ کلی طور پر اس کشمکش سے چھٹکارا نہیں پا سکتا . البتہ اس میں کچھ کمی , کچھ بیشی لائی جا سکتی ہے . یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم اس حقیقت کو دل و دماغ سے قبول کر لیں کہ کسی بھی آئیڈیلزم یا فلسفے سے انسان کی شخصیت کا یہ اندرونی تضاد وخلفشار ختم نہیں کیا جا سکتا . طاقت کا نشہ ہمیشہ بڑھتا ہی رہتا ہے تاوقتیکہ اس سے بڑی طاقت یا قدرت اسے کم یا ختم نہ کر دے . دنیا کا کوئی مذہب , کوئی نظریہ حیات , کوئی ضابطہ اخلاق آج تک اپنی تمام تعلیمات کے باوجود اپنے اپنے پیروکاروں کے ذہنوں سے ایک دوسرے سے لڑنے بھڑنے اور آس پاس اور آمنے سامنے والوں پر اپنی برتری اور شان و شوکت جھاڑنے اور منوانے کی سوچ ختم نہیں کر پایا ہے . نبیوں کی امتیں ہوں یا پیغمبروں کی قومیں ہوں یا رہنماوں اور پیروں پیشواؤں کے گروہ اور قبیلے ہوں , دنیا کے کسی بھی خطے میں کبھی بھی کلی طور پر امن اور سکون نہیں رہا ہے اور نہ رہ سکتا ہے . انسانی نفسیات اور فطرت کے قاعدوں , قانونوں اور اصولوں کے تحت ایسا ہونا غیر فطری اور ناممکن ہے . انفرادی سطح پر کوئی شخص کتنا ہی امن پسند , صلح جو اور نرم خو کیوں نہ ہو , مگر وہ بھی دنیا میں رہتے ہوئے تمام عمر کے لیئے اپنے آدرش کے مطابق زندگی نہیں گزار سکتا . زندگی کے کسی نہ کسی لمحے میں اسے کسی نہ کسی سے الجھنا پڑتا ہے . خواہ اس کی کوئی غلطی بھی نہ ہو . ہاں اگر کوئی سب کچھ تیاگ کے جوگی یا یوگی بن جائے اور بن باس لے لے تو اور بات ہے . انسانی نفسیات اور فطرت کی یہ کمزوری جب سمجھ میں آ جائے تو بہتر زندگی کے لیئے ضروری ہو جاتا ہے کہ پھر ہم خود کو زندگی کے ہر معاملے میں ممکنہ حد تک خود کفیل بنائیں اور انفرادی اور قومی و اجتماعی سطح پر مضبوطی اور استحکام کے تمام ذرائع اپنائیں . تاکہ کسی دوسرے فرد یا گروہ یا قوم یا ملک کو ہم پر منفی نگاہ ڈالنے کی جرات نہ ہو . ہمیں اس حد تک مضبوط , مستحکم اور طاقتور ہونا اور رہنا چاہئیے کہ کوئی ہم کو دبا نہ سکے اور ہم اپنی آزادی برقرار رکھ سکیں . لیکن ہمیں اتنا زیادہ بھی طاقتور نہیں ہونا چاہئیے کہ طاقت کا نشہ ہمیں اوروں پہ قابو پانے اور قابض ہونے پہ نہ اکسانے لگے . اعلی ترین طاقت کا مظاہرہ کمزوروں کی بھرپور مدد کر کے ہوتا ہے . اس سوچ کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے . اور اس سوچ کے ساتھ ہی ہمیں اپنی ہر طرح کی طاقت اور ہر طرح کے اختیار میں اضافے کی تگ و دو کی ضرورت ہے. اپنے گھر , اپنے خاندان , اپنے معاشرے کی سطح پر بھی اور قوم و ملک کے اجتماعی مفاد کے لیئے بھی. ہم اپنے سے کمزور کی مدد اسی وقت اچھی طرح کر سکتے ہیں جب ہم ذہنی طور پر پر سکون ہوں گے کہ ہم سے ذیادہ طاقتور ہمیں کسی بھی حوالے سے تنگ نہیں کرے گا . اور اپنے سے زیادہ طاقتور کو اس کی حدود میں رکھنے کے لئیے ہمیں اس کے برابر نہ سہی اس کے مقابلے کے لیئے ہمہ وقت ہوشیار و تیار رہنا ہوگا . تبھی ہم اپنی آزادی برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنی طاقت و توانائی کو اپنے سے کمتر اور کمزور کی مدد میں صرف کر سکیں گے .

تحریر : ڈاکٹر صابر حسین خان
مصنف . کالم نگار . بلاگر . شاعر . پامسٹ .
ماہر نفسیات و امراض ذہنی , اعصابی , دماغی , روحانی , جنسی و منشیات . ڈائریکٹر : دعاگو . دی کاونسلرز .
مرکز ذہنی و جسمانی صحت . ناظم آباد . کراچی . پاکستان .

DUAAGO
DR.SABIR KHAN www.Facebook.com/Dr.SabirKhan www.YouTube.com/Dr.SabirKhan www.drsabirkhan.blogspot.com

جمعہ، 8 مارچ، 2019

بازیافت

"باز یافت"
                          (30.4.91)
                 "ڈاکٹر صابر حسین خان"

طلسم نیرنگ خیال
میں بسے
خوابوں کے رنگین بت
چکنا چور  ہوئے تو کیا ہوا
ایک نیا درد دل میں جاگا بھی تو ہے
گھر آنگن کی کہکشاں میں
اپنے ہاتھوں جو آگ لگائی تھی
اس سے
گو فضا میں دھواں پھیلا ہے
لیکن
پس منظر کچھ روشن ہوا بھی تو ہے

بند دروازے

"بند دروازے"
                    (26.11.89)
                  "ڈاکٹر صابر حسین خان"

رنگ اور خواب
چہرے پر بکھر آئے ہیں
نیلگوں ستارے
آنکھوں میں اتر آئے ہیں
کیا کہیں
کوئی اجنبی
دل کے بند کواڑوں پر
دستک دے رہا ہے

ذرا شام ڈھلنے دو

"ذرا شام ڈھلنے دو"
                         (3.8.93)
                    "ڈاکٹر صابر حسین خان"

ابھی تو کچھ نہیں
ذرا نگاہ ٹہرنے دو
دل کی دھڑکن کوتھمنے دو
پھر یہی تعلق
مہک اٹھے گا
اسی آنگن پھول کھلیں گے
ستارے ہوا سے
یہیں
آنکھ مچولی کھیلا کریں گے
اک ذرا صبر کرو
ذرا آنکھ کو جمنے دو
خشک مٹی کو نم ہونے دو

پھیلاؤ

"پھیلاؤ"
                    (2.2.2000)
               "ڈاکٹر صابر حسین خان"

وہ جو ایک شاعر تھا
خوابوں کے دانوں سے
نظمیں پرونے والا
جانے کہاں کھو گیا ہے
ایک دہائی گز گئی
کسی نے کوئی خبر ندلی
نہ فاتحہ,نہ درود
نہ پھول, نہ اگر بتیاں
اور شہر کی روشنیاں
پھیلتی جارہی ہیں

نقش فریاری

"نقش فریاری"
                 "ڈاکٹر صابر حسین خان"

راتوں رات
ان دیکھے, انجانے لوگ
جانے کیسے, کس طرح
چپکے چپکے
دل میں گھر کر جاتے ہیں
نہیں پتہ چلتا
لیکن
جب آنکھ کھلتی ہے تو
مالک مکاں کا نام
بدل چکا ہوتا ہے
پرانی محبتوں کا نقش
مٹ چکا ہوتا ہے
سابقہ حوالوں کے ھیولے
نظروں سے
اوجھل ہوچکے ہوتے ہیں
راتوں رات
کیوں کایا پلٹی ہے
نہیں پتہ لیکن
ایسا بھی ہوتا ہے
کبھی یونہی اچانک
کوئی اجنبی
برسوں پرانے تعلق سے زیادہ
وجود کا حصہ بن جاتا ہے
دل کے اندر بس جاتا ہے
کچھ اس طرح کے پھر
جی کو جینے کا حوصلہ مل جاتا ہے
کچھ نیا کرنے کو جی چاہ اٹھتا ہے
تن من کی رگ رگ میں نئے خواب
رنگ بھرنے لگتے ہیں
دل پھر اداس محبت سے ہمکنار ہوتا ہے
نئی راہ, نئے سفر,نئے ہم سفر
ایک نئی زندگی سے آشکار ہوتا ہے
کبھی کبھی زندگی میں
اسیا بھی ہوتا ہے
کہ راتوں رات
زندگی بدل جاتی ہے
گو ایسا بہت کم ہوتا ہے
لیکن کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے 
دل جب درد سے بھر جاتا ہے
اور زندگی
عمر قید کی سزا لگتی ہے
اور سانس گھٹنے لگتی ہے
تو کبھی کبھی
اللہ کی رحمت جوس میں آتی ہے
اور محبت کی برسات
راتوں رات
اور رفاقت کی عمر بھر کی پیاس مٹا دیتی ہے
شکووں اور شکایتوں کو
شکر کا لبادہ پہنا دیتی ہے
بستے دنوں کے دکھ بھلا دیتی ہے

 

ایک بار کا ذکر ہے

"ایک بار کا ذکر ہے"
              "ڈاکٹر صابر حسین خان"

گرمیوں کی تنہا شاموں میں
بند ہوا کے بوجھ تلے
دل کہتا ہے دبے دبے لفظوں
وہ دن بھی تھے جب
گرمیوں کے موسم میں
سب کچھ ایسا ہی ہوتا تھا
ہوا بھی بند ہوتی تھی
اندھیرا بھی ہوا کرتا تھا
یونہی سب
بولائے بولائے پھرتے تھے
لیکن
تنہائی کا شور اتنا نہیں تھا
جی اداس بھی ہوا کرتا تھا
لیکن
من پہ بوجھ اتنا نہیں تھا
گھڑی کی سوئیاں
یونہی گھوما کرتی تھیں لیکن
وقت کاٹنا
اتنا مشکل نہیں تھا
موسم اتنا
بے اماں نہیں تھا
آسماں خشک رہتا تھا مگر
نامہرباں نہیں تھا
دیواروں کے بیچ اتنا
فاصلہ نہیں تھا
چہروں کی بھیڑ میں ہر فرد
اتنا اکیلا نہیں تھا
ہر کسی کا دل اداس
اتنا زیادہ نہیں تھا
ہر بدن پر درد کا
لبادہ نہیں تھا
یونہی چلتے پھرتے
کانوں میں پڑتے
محبت کے دو بول
پیاس بجھا دیتے تھے
یوں دریا بھر پانی پی کر بھی
ھر کوئی اتنا پیاسا نہیں تھا
گو ھر آنگن کو ستارہ میسر نہیں تھا
ھر من میں اتنا اندھیرا نہیں تھا
دل سبھی کے دھڑکا کرتے تھے
تب بھی
ھر دھڑکن پہ ھر کوئی
یوں سہمتا نہیں تھا
عجیب رنگ ہے آج کے وقت کا
عجیب ڈھنگ ہیں آج کے موسم میں
وہ تو سب ہے جو پہلے
سوچ میں بھی نہیں تھا
مگر فطری کچھ بھی نہیں
اصلی کچھ بھی نہیں
ایسا کبھی نہیں
ایسا کچھ بھی نہیں
کہیں بھی ایسا نہیں جو
اندر کی آگ بجھا دے
ذہن کی تپتی زمین پہ
ابر کرم برسا دے
ایکبار پھر ہم کو
جینا سکھا دے
جینے کا حوصلہ دلا دے
موسم کے سب رنگ
پھر سے چمکا دے
دل کو دل سے جوڑ دے
اور ہسننا سکھا دے

تھکن سے چور بدن کو آرام کی ضرورت ہے

"تھکن سے چور بدن کو آرام کی ضرورت ہے"
                        (7.8.90)
                   "ڈاکٹر صابر حسین خان"

بدن سے ذہن تک
تھکن کی چیونٹیاں
رینگتی ہیں اور کہتی ہیں
دیکھو!
دھوئیں کے مرغولوں میں
کہیں تم
فطری تقاضے نہ بھلا بیٹھو
معاش کے اندیشوں میں
کہیں تم 
مانا کہ طبعی موت سے پہلے بھی
آدمی
کئی بار مرتا ہے مرمر کر جیتا ہے
لیکن
کہیں ایسا نہ ہو
کہ تم
کبھی تھک کر آنکھیں بند کرو
اور پھر کھول نہ پاؤ
دیکھو
ستاروں کی چاہ میں کہیں تم
اندھیروں کو گلے نہ لگا بیٹھو
                               (2)
بستر یہی ہے کہ جب کبھی
تھکن کی چادر تمھیں اوڑھنے لگے
اور آنکھیں تمھاری
بند ہونے لگیں
تو سوچ کا کوئی در کھول لینا
کوئی درد
کوئی بات پھر سے
دل کی کسی تہہ میں جگا لینا
کوئی رنگ
کوئی خواب پھر سے
دم توڑتی آنکھوں کو دکھا دینا
کہ ایک اسی صورت
تم زندگی سے
بلا واسطہ ناطہ رکھ سکو گے

                           

بدھ، 6 مارچ، 2019

رکھ رکھاؤ

"رکھ رکھاؤ"
                        (11.9.89)
                   "ڈاکٹر صابر حسین خان"

اتنی سب باتوں کے باوجود
وہ باتیں جو ہم نے تنہائی میں
بیٹھ کر آپنا دکھ بھلانے کیلئے کی تھیں
تم آج ھنس کر کہتی ہو
ہم دونوں میں کبھی محبت
رہی ہی نہیں
ہم دونوں کے راستے تو
شروع ہی سے
جدا تھے
اور وہ جو ہم دونوں کے بین
تعلق تھا, الفت تھی
وہ سب رکھ رکھاؤ
اور رواداری کا حصہ تھا
وہ راتیں جو ہم دونوں نے
ہاتھوں,آنکھوں اور زلفوں کے
سائے میں ساتھ بتائی تھیں
وہ زرد دوپہریں
جو ہماری سانسوں کی حدت سے
پگھل گئی تھیں
وہ دوپہریں
وہ شامیں, وہ راتیں
سب کی سب
مروت کا شاخسانہ تھیں
خوش اطواری سے
وقت گزارنے کا بہانہ تھیں
وہ سب باتیں
ان باتوں کے سوا
کچھ اور نہ تھیں
وہ شامیں ہوا ہوئیں
وہ راتیں گزر گئیں
وہ باتیں بیت چکیں
جو تعلق تھا ختم ہوا
اب ان باتوں کو دہرانے سے
آنسو بہانے سے
یادوں کے دیپ جلانے
کیا حاصل
چاہتوں کا موسم
پت جھڑ کی نذر ہوا
رفافتوں کا سانپ گزر گیا
اب تم کیوں
لکیریں پیٹتے ہو
جدائی کا رونا روتے ہو
ہماری نصیب میں بس
اتنا ہی ساتھ لکھا تھا
پھر کس چیز کا گلہ کرتے ہو

آنکھ اور چاند

"آنکھ اور چاند"
                            (2.1.91)
                 "ڈاکٹر صابر حسین خان"

آنکھ, چہرہ اور خواب
یا کوئی کتاب
کھلی کھڑکی سے جھانکتا چاند
آسماں کے ماتھے پر دمکتی
ستاروں کی مانگ
پکے فرش پہ گرتی
بوندوں کی آواز
یا کسی پرندے کی
دھیمی پرواز
کیسی پہ بھی
کوئی موسم یا کوئی بات
دل میں گھرنہیں کرتی

شاید تم کو بھی مجھ سے محبت ہے

"شاید تم کو بھی مجھ سے محبت ہے"
                          (12.1.91)
                "ڈاکٹر صابر حسین خان"

میرے جنم دن پہ تم نے
جو دعا دی ہے مجھ کو
(گو اپنی دانست میں تم نے
میرے لیے بددعا کی ہے)
اچھی لگی ہے مجھ کو
آپ یونہی پھریں
میری طرح تنہا تنہا
آپ چاہیں پھر بھی کبھی
آپ کو کوئی پسند نہ کرے

مہر نگار

"مہر نگار"
                     (17.1.91)
                  "ڈاکٹر صابر حسین خان"

اتنی خوشگوار دوپہر
جب سردیاں ہڈیوں میں
اتر رہی ہوں
اور دھوپ بادلوں میں
ہوا کی شکایت کر رہی ہو
کوئی
کوئی بھی
اپنے کام,اپنے ساتھی
اپنا آرام چھوڑ کر
اتنی دور
مجھ سے ملنے
کیسے آسکتا ہے
مجھے پتہ ہے
وہ بھی نہیں آئے گی
بعد میں کوئی نہانا کردے گی
لیکن مجھ کو
سردی, گرمی, بہار سے زیادہ
خزاں کا موسم
انتظار کا موسم
ذیادہ اچھا لگتا ہے

From where we start

"From where we are start"
                     (25.9.91)
                   "ڈاکٹر صابر حسین خان"

وہ میرے سامنے بیٹھی تو ہے
وقت اچھا کاٹنے کو
ہم دونوں اچھی باتیں تو کرسکتے ہیں
مگر دل کی لگن کا وہ لمحہ
کب لوٹ سکتا ہے
جو ایک ایسی ہی دوپہر
اس کی بے نیازی نے چرالیا تھا

میں کون ہوں

"میں کون ہوں"
                         (11.9.89)
                  "ڈاکٹر صابر حسین خان"

میں کون ہوں
میں کیوں ہوں
میرے دل میں کیا ہے
میں کیا چاہتا ہوں
میری سوچ آخر
کسی ایک نکتے پر
مرتکز کیوں نہیں ہوتی
ان سب سوالوں کا جواب
مجھ کو
کون دے گا
کب دے گا

سفر مسلسل

"سفر مسلسل"
                           (1.8.89)
                 "ڈاکٹر صابر حسین خان"

یوں کب تک
پھرتے رہوگے آوارہ سڑکوں پر
تم اپنی منتشر سوچوں کو آخر
کسی ایک نقطے پر
مجتمع کیوں نہیں کرتے
آخر کب تک تم اس طرح
کتابوں اور بادلوں اور لوگوں سے
اپنا ایندھن حاصل کروگے
کیا تم ابھی تک تھکے نہیں
کیا ابھی تک
تمھارے فون میں
سر پھری ہوائیں تیر رہی ہیں
سفر در سفر کے بیچ آفر
ایک لمحہ آرام کا بھی تو آتا ہے
کیا تم سکون کے متلاشی نہیں
کیا تمھارا دل نہیں چاہتا
کہ کوئی زلفوں کے سائے میں
تمھاری جاں کو سمیٹ لے
اور تمھیں
فکر امروز و فردا سے
نجات دلادے

ریکھانیں

"ریکھانیں"
                         (9.9.89)
                   "ڈاکٹر صابر حسین خان"

وقت
کی ہر ساعت کے ہاتھ میں
جو آئینہ ہے
اس میں دکھائی دینے والے عکس
ریکھاؤں سے الجھ رہا ہے

طلسم ذات

"طلسم ذات"
                             (9.9.89)
                "ڈاکٹر صابر حسین خان"

باتیں ختم ہوگئی ہیں
یا روح کا خلا بڑھ گیا ہے
یا اندر کا آدمی مرگیا ہے
کوئی بھی صورت ہو
اب تو طلسم ذات سے
رہائی کی
کوئی صورت نظر نہیں آتی

خاتمہ

"خاتمہ"
                         (2.8.89)
                  "ڈاکٹر صابر حسین خان"

کیا یہ ضروری ہے
کہ آدمی
کسی کو بھلانے کے لیے
اپنا آپ ہی بھول جائے
اور پھر
چپ چاپ اپنے آپ کو
وقت کے دریا میں ڈال دے

نشان

"نشان"
                        (2.8.89)
                    "ڈاکٹر صابر حسین خان"

کیا اسے کسی نے
یہ خبر پہنچائی ہے
کہ اس کی ہر خبر کا پتہ رکھنے والا
بے نام و نشاں ہوگیا ہے

گمان

"گمان"
                          (2.8.89)
                  "ڈاکٹر صابر حسین خان"

تمھاری سماعت کو
جس آواز کا انتظار ہے
ہوسکتا ہے
وہ آواز اس وقت
کسی اور کے
کانوں میں رس گھول رہی ہو

چھپی ہوئی بات

"چھپی ہوئی بات"
                           (19.8.89)
                "ڈاکٹر صابر حسین خان"

ستارے اپنے نوجوانوں میں
کیا کیا دیکھتے ہیں
اور چاند اپنی تنہائیوں میں
جو کچھ سو پتا ہے
کوئی کیسے جان سکتا ہے
کسی کے دل کی بات بھلا
کب کوئی جان پایا ہے
لیکن اگر بیٹھے بیٹھے
کسی کی آنکھیں
ستارے ڈھالنے لگیں
اور آپ ہی آپ کسی کا چہرہ
چاند بن کر دمکنے لگے
تو آخر کار دل کی بات
زباں پر آہی جاتی ہے

ریافت

"دریافت"                             (19.8.89)
              "ڈاکٹر صابر حسین خان"

دل کے سکون کی خاطر
اکثر
جس نام کو ہم
دانستہ بھول جاتے ہیں
ایک زمانے کے بعد
جب وہ بھولا بچھڑا پرانا نام
اچانک زباں پر آجائے
اور پھر آپ ہی آپ
لفظوں کی صورت
کاغذ پرڈ ملنے لگے تو
پل بھر میں
برسوں کی ریافت
دھری کی دھری رہ جاتی ہے