جمعرات، 28 فروری، 2019

ویراں سرائے کا دیا

"ویراں سرائے کا دیا"
                           (28.8.83)
               "ڈاکٹر صابر حسین خان"

رات بھی بیت چلی
اوس بھی گر چکی
جن کلیوں کو کھلنا تھا
وہ کب کی پھول بن چکیں
لیکن ایک دیا
جانے کس کے انتظار میں
دل کے ویراں سرائے کی
آخری منڈیر پہ قدم جمائے
ابھی تک ٹمٹما رہا ہے

غزل

"غزل"
                           (30.8.83)
              "ڈاکٹر صابر حسین خان"

جب شیطان سر پہ چڑھ کر بولتا ہے
وہ وقت بھی لوگو! اب آن پہنچا ہے

وہ لوگ کب کچھ کر سکتے ہیں جن کہ
زینوں میں زر کا پھیلتا سایہ ہے

غزل

"غزل"
                         (28.8.83)
                 "ڈاکٹر صابر حسین خان"

وہ شخص جو میری جانب کبھی دیکھتا بھی نہیں تھا
مجھ سے مل کر پھر قدم کہیں اور رکھتا بھی نہیں تھا

محور

"محور"
                          (28.8.83)
                "ڈاکٹر صابر حسین خان"

میں جو اپنی سوچوں کے
چند قیمتی لمحے
کچھ لوگوں کے نام کرتا ہوں
کیا ان کچھ لوگوں میں سے
یوں ہی کوئی ایک بھی
مجھ کو کبھی اپنی
سوچوں کا محور بناتا ہوگا
میں سوچتا ہوں لیکن
میری سوچ کا یہ سوال
ہمیشہ تشنہ لب رہ جاتا ہے

چور

"چور"
                            (28.8.83)
               "ڈاکٹر صابر حسین خان"

رات کے سناٹے میں
چاندنی کی چادر اوڑھے
چوری چوری دبے قدموں
آج پھر وہی چہرہ
نیند کی فصیلیں توڑ کر
میرے خواب چرانے آیا ہے

من و تو

"من و تو"
                        (27.8.83)
                  "ڈاکٹر صابر حسین خان"

دیکھو تو!
جانے کتنی صدیوں کی دوریاں
مدتوں سے ہم دونوں کے درمیاں
حائل ہیں
اور سوچوں تو!
پلک جھپکنے میں
جو پل بیت جاتا ہے
اس جتنا فاصلہ بھی
میرے دل میں کبھی
تمھارے لیئے نہیں رہا ہے

"خواب"

"خواب"
                        (27.8.83)
                 "ڈاکٹر صابر حسین خان"

میرے لا کرکے پیچھے
ایک لاکر ایسا بھی ہے
جسمیں کچھ کتابوں کے ساتھ
میرے دل کے بھی چند خواب
سارا دن بند رہتے ہیں
مجھ کو اپنے خوابوں کے
یوں قید ہوجانے کا غم نہیں
ان کو تو ایک دن
کسی کا قیدی بننا تھا
میرا المیہ تو یہ ہے کہ
نیچے والے لاکر کی چابی
جس لڑکی کے پاس ہے
اسکو اس کا احساس نہیں
کہ کتنے کرچی کرچی خواب
لیکچر سے پہلے صبح صبح
اسکی خوابوں جیسی صورت کو
چپکے چپکے تکتے ہیں

قطعہ

"قطعہ"
                         (25.8.83)
                  "ڈاکٹر صابر حسین خان"

آج کی رات پھر کئی دنوں کے بعد
تہنائی کے سندر سپنے لائی ہے
زرد گلابوں کا تحفہ لے کر
کسی کی مہکتی ہوئی یاد آئی ہے

روشنیوں کا شہر

"روشنیوں کا شہر"
                      (25.8.83)
                   "ڈاکٹر صابر حسین خان"

روشنیوں کے شہر کی چمک نے
میرے اندر کے آدمی کی
سنار ہی امنگوں کو
تھپک ٹھپک کر سلا دیا ہے
پھر بھی کبھی کبھی
دل کے کسی کونے میں
دبی ہوئی کوئی چنگاری
راکھ کے ڈھیر میں سے
اپنا سر نکال کر
سب کچھ خاک کر دیتی ہے

چوتھی کھونٹ

"چوتھی کھونٹ"
                             (24.8.83)
             "ڈاکٹر صابر حسین خان"

آگہی کے گھوڑے پر سوار
میں اپنی تلاش میں چلتے چلتے
اس مقام تک آپہنچا ہوں
جس کے پس منظر میں
ہر سو پھیلا ہوا ہے
کرچی کرچی یادوں کا دھواں
اور پیش منظر کے نقشے میں
چاروں طرف بکھرے ہوئے ہیں
چوتھی سمت میں جانے والے
ان اجنبی قافلوں کے نشاں
جن کی واپسی کو دیکھنے والی
ساری آنکھیں پتھرا چکی ہیں

مہک

"مہک"
                        (25.8.83)
              "ڈاکٹر صابر حسین خان"

اے دل ناداں وفا کا تقاضا نہ کر
اس دشت وفا میں اب صرف
باتوں کے ثمن و گلاب کھلتے ہیں
جن کی ہر اک پتی کی خوشبو
ہوا کے دست دعا کی
نذر ہونے لگی ہے
کہیں کوئی مہک نہیں
رنگ ہزار ہیں لیکن
ہر اک رنگ قوس قزح کا ہے
دیکھنے میں دلفریب وحسیں
احساس کی حدوں پر لیکن گماں
چھوکر بھی کبھی
ہوتا نہیں پانے کا یقیں
کہ اب کہیں کوئی مہک باقی نہیں
اے دل ناداں آخر
کب ہوگا تجھے حاصل عرفان یقیں

بندش

"بندش"
                           (24.8.83)
               "ڈاکٹر صابر حسین خان"

وہ کونسا ایسا دل ہوگا
جو اپنی ہر اک کہانی کو
ان کہی رکھنا چاہے گا
لیکن میرا دل
میرا دل ہے
جس کے چپے چپے پر
میری سوچ کے پہرے ہیں
پھر یہ کیسا ہوسکتا ہے
کہ میں تمھارے روبرو
اپنے ہر ایک جذبے کو
لفظوں کے بھاری بوجھ تلے
ادھر ادھر کی گفتگو کی
آندھیوں کے رستے میں
تن تنہا چھوڑ دوں

قطعہ

"قطعہ"
                          (22.8.83)
               "ڈاکٹر صابر حسین خان"

مدتوں کے بعد پھر وہی شبنمی یادوں کی محفل
سجی ہے دل کے آنگن میں بڑے اہتمام سے
پھر ایک بار کسی کی باتوں کے مہکتے ہوئے تارے
ذہن کے آسماں پہ جگمگائے ہیں سر شام سے

آہستہ آہستہ

"آہستہ آہستہ"
                         (22.8.83)
                 "ڈاکٹر صابر حسین خان"

پچھلے پہر کی بارش کے بعد
پھولوں, پتوں,ستاروں کے ساتھ
میری آنکھوں کے سارے خواب
نکھر کر, دل کے آسماں پہ
تاحد نظر پھیلی ہوئی دھند کے
بادباں کو امیدوں کے
دھنک رنگ اجالوں میں
آہستہ آہستہ رنگنے لگے ہیں

نذرانہ

"نذرانہ"
                       (22.8.83)
                   "ڈاکٹر صابر حسین خان"

اداسی کے ساگر کنارے
شام محرومی کا حنائی ہاتھ
میری آنکھوں کی سیپوں سے
آنسوؤں کے موٹی چنتے چنتے
میرے دست دراز پر
تہنائی کے زرد گلاب کا
نذرانہ رکھ کر
شبنمی کرنوں کے ہمراہ
مجھ کو خوشبو کے بھنور میں الجھتا چھوڑ کر
اس کے آنگن ماتھے پر
چاند کی بندیا
سجانے چلا گیا ہے

قطعہ

"قطعہ"
                            (26.8.83)
             "ڈاکٹر صابر حسین خان"

دل کے گلابوں پر تہنائی کی شبنم
رات بھر دست محبت رکھتی رہی ہے
صدیوں کے خوابیدہ زخم ہرے ہوئے ہیں
صبح تک یادوں کی خوشبو ڈستی رہی ہے

کانچ کا پل

"کانچ کا پل"
                        (19.8.83)
                  "ڈاکٹر صابر حسین خان"

یہ ضروری تو نہیں
چاہنے والوں کے خواب
سدا تعبیریں دیکھا کریں
اور یوں بھی نہیں ہوتا
کہ ہر چیز کی تمنا
ہمکنار ساحل ہوا کرے
کہ چاہنے اور پانے کی
گھنیری وادیوں کے درمیاں
تقدیر کی اندھیری گھاٹی
وقت کے دریا کو اپنی
آغوش میں لئیے
صدیوں سے سو رہی ہے
اس پار جایا تو جا سکتا ہے
لیکن پہلے بیچ میں حائل
کانچ کے پل کو طے کرنا پڑتا ہے

میرے پس منظر مین ہے دھواں

"میرے پس منظر میں ہے دھواں ہے"
                            (19.8.83)
               "ڈاکٹر صابر حسین خان"

میں طارق تو نہیں مگر
امیدوں کے اجنبی ساحل پہ
اپنے ہاتھوں سے
یادوں کی ساری کشتیاں
جلا کر کسی ابن زیاد کا
منتظر ہوں جو میرے
لشکر فکرو تخیل کے لیئے
سفر مسلسل کے واسطے
روشن سمتیں متعین کرسکے

پس منظر

"پس منظر"
                         (17.8.83)
                 "ڈاکٹر صابر حسین خان"

یادوں کے پہاڑوں کے پیچھے
افق سے شفق تک
ایک ہی چہرہ
کہکشاں کے جھرمٹ میں
ماہ و مہر کی صورت میں
ذہن کے آسماں پہ
صبح و شام جگمگاتا ہے

فقیر مسافر

"فقیر مسافر"
                        (17.8.83)
                 "ڈاکٹر صابر حسین خان"

میں اپنی تنہائی کے دائرے میں
آگہی کے محور کے گرد
دھنک رنگ خوشبوؤں  کی
ہشت پہلو آوازوں کو
سنتے ہوئے گھوم رہا ہوں
میری آنکھوں میں تیرتے ہوئے
لذت محرومی کے بادلوں سے
جو جگنو ٹپک رہے ہیں
میں ان کی شیرینی کو
زندگی کی تلخیوں میں
گھول کر پی رہا ہوں
میرے چاروں طرف
راستے بھٹک رہے ہیں
نظر کی آخری حدوں پر
منزل اپنی سمت دکھا رہی ہے
اور میں فقیر مسافر
اپنے من میں قلندر بنکر
اپنی دھن میں جھوم رہا ہوں

بدھ، 27 فروری، 2019

میں اپنے وقت کا سکندر تو نہیں

"میں اپنے وقت کا سکندر تو نہیں"
                          (15.8.83)
               "ڈاکٹر صابر حسین خان"

میں اپنے وقت کا سکندر تو نہیں
میرے ذہن پہ نہیں ہے کسی ارسطو کا سایہ
نہ کسی ستارے کی مانند
روشن و رقصاں ہے میری جبیں
نہ میں کبھی سورج سے دھنک توڑ کے لایا
میری سانسوں میں بھی
کرن کرن خوشبو کبھی مہکی نہیں
میری چارہ گری کیلئے کوئی آسماں سے نہ آیا
نہ کوئی دم بھر کیلئے بھی
بنا میرے سونے دل کا مکیں
نہ کسی نے رکھا میرے تپتے زخموں پہ پھایا
میری آنکھوں میں بھی
ٹہرا نہیں کوئی دلربا و دلنشیں
میرے تخیل کو بھی کوئی سلگتا شعلہ نہ بھایا
میرے قدموں کی دھول سے
دھنک رنگ تتلیاں کبھی نہ اڑیں
میری سوچوں کا قیدی کبھی نہ رہا زرومایا
نہ میں نے دیکھا کبھی
اپنی طرف جھکتا ہوا عرش بریں
نہ میں نے کبھی اپنی سوچوں کا سرا پایا
نہ میرے لیئے کبھی جھلملائے
کسی کی آنکھوں میں چاہتوں کے نگیں
نہ کسی نہ چاہا میرے جذبوں کا سرمایہ
مجھے نظر نہ آئے کبھی
اپنی تقدیر کے زنداں میں خواب جسیں
کسی نے میرے عذابوں کی دیواروں کو نہ ڈھایا
میرے واسطے کبھی
کسی کے دل کی شمعیں نہ جلیں
کسی نے میرے درد کی شمع کو نہ بجھایا
میری ہتھیلیوں پہ کبھی
کسی نے منزل کی راہیں نہ رکھیں
میں جو گرا کبھی کسی نے بھی نہ اٹھایا
مگر میرے دل کی ظلمتوں میں
ایک شمع کی ہے روشنی کہیں کہیں
جس کی لو کی کبھی کبھی میری امید نے ہے بڑھایا
میرے گماں کی سرحدوں پہ
بانگیں دبے رہے ہیں مرغان یقین
مجھے نہ ہوگا کبھی غم کہ میں فاتح عالم نہ کہلایا
میری فتح کی گواہی تو دے گی
دلوں کی سبز ہوتی ہوئی سرزمیں
کیا غم رنج کہ ابھی تک پرندوں نے صبح کا گیت نہ گایا
رات بھر رات ہے اسے
لے ڈوبے گا کبھی نہ کبھی سورج کا یقیں
اندھیروں کے غم کو کب کس نے دیر تک ہے کھایا
لیکن لاشوں کے انبار پہ
میں اپنے جھنڈے گاڑ سکتا نہیں
کہ میرے ذہن پہ نہیں ہے کسی ارسطو کا سایہ
میں ہوں محبت کے گیت گانے والا
میں کوئی اپنے وقت کا سکندر تو نہیں

غزل

"غزل"
                         (13.8.83)
               "ڈاکٹر صابر حسین خان"

اپنے اپنے عذابوں میں ذندہ ہے آدمی
دھندے کچے گھروندوں میں رہتا ہے آدمی
اپنی اپنی صلیبوں کو کندھوں پہ اٹھا کے
سندر کومل خوابوں کو دیکھتا ہے آدمی

تاروں کے اس پار بھی جا پہنچا ہے آدمی
کائنات کے خلا میں لیکن تنہا ہے آدمی

جانے کتنے رشتوں میں الجھا ہوا ہے لیکن
اپنے اپنے زاویوں میں اکیلا ہے آدمی

اپنی مبہم تقریروں کے زنداں کی رات میں
سندر کومل خوابوں کو ڈھونڈتا ہے آدمی

آنکھوں میں فانوس وفا جلا کر کبھی کبھی
چپکے چپکے اکیلے میں روتا ہے آدمی 

ادھورے

"ادھورے"
                          (16.8.83)
               "ڈاکٹر صابر حسین خان"

آج کی شام بھی کیسی شام تھی
میں اپنے دل کے کینوس پر
تمھاری یادوں کے رنگوں سے
چاہتوں کی تصویر بنا رہا تھا
کہ اچانک آسماں سے
ایک تارا ٹوٹا
اور
روشنی کی زنجیر بناتا ہوا
سیدھا زمیں پہ گرگیا
مگر اس ایک لمحے کی روشنی نے
وہ سارے نقش ابھار دیئے تھے
جو میں ابھی تک
کینوس پہ نہ دھال سکا تھا

انوکھی

"انوکھی"
                        (12.8.83)
                  "ڈاکٹر صابر حسین خان"

میری رفاقتیں بھی منفرد
میری رقابتیں بھی ہیں دلفریب
میری عادتیں بھی مختلف
میری محبتیں بھی ہیں دلربا
میں جو چاہتا ہوں کسی کو
تو انتہا پر پہنچ کر
اپنی چاہتوں میں
اپنے آپ ہی ڈوب کر
اور جو چاہوں کبھی کہ
کسی کو بھول جاؤں
تو اور شدتوں سے اسے
یاد کرنے لگتا ہوں
کہ میرے بس کی بات نہیں
کسی ایسے شخص سے پردہ پوشی
جس کی باتیں میری کل کائنات ہوں
جس کی یادیں ہوں میری متاع حیات

غزل

"غزل"
                          (11.8.83)
                "ڈاکٹر صابر حسین خان"

وہ لڑکی کیسی لڑکی تھی
جو آئی اور آکر چلی گئی

مجھ سے میرا حال نہ پوچھا
پر بے حال بنا کر چلی گئی

اب رتجگوں کی راتیں ہیں
نیزوں کو لے کر چلی گئی

جیون کی اندھی شاہراہ میں
ایک شمع جلا کر چلی گئی

عشق میں بھلا کیا رکھا ہے
چپ چاپ بتا کر چلی گئی

میں سوچوں بھی تو کیا سوچوں
وہ اوس گرا کر چلی گئی

چپ رہ کر سب کچھ کہتی تھی
خاموشی سکھا کر چلی گئی

ہونٹوں کو سی کر آنکھوں سے
ہر بات سنا کر چلی گئی

غزل

"غزل"
                        (11.8.83)
                      "ڈاکٹر صابر حسین خان"

کوئی بولے تو برا لگتا ہے
مجھے جیون بھی سزا لگتا ہے

رخ پندار پہ حیاد دیکھی ہے
کسی کی یاد کا صلہ لگتا ہے

شب غم کی خلوتوں میں اسکا
خیال مجھے تو دیا لگتا ہے

مرہم

"مرہم "
                           (10.8.83)
              "ڈاکٹر صابر حسین خان"

کئی دن سے مجھے
اپنے احساس کے افق پر
کوئی چاند تمہاری یاد کا
نظر نہیں آیا ہے لیکن
یہ امید ضرور ہے ایک دن
اس دن کے ڈھلنے کے بعد
تمھارے خیال میں بھیگی ہوئی
شبنی شام کے مرمریں بازو
میرے سلگتے ہوئے ذہن کے
ماتھے کو کرنوں کے
مرہم سے نکھاریں گے

سنگتراش

"سنگتراش"
                     (10.8.83)
                   "ڈاکٹر صابر حسین خان"

موت کے مہیب چنگل میں پھنسا ہوا
میرے اندر کا بے بس ولاچار آدمی
خوف کے بے رحم ہاتھوں کی
ضربوں سے نڈھال ہوکر
کبھی کبھی یہ سوچتا ہے
کیا کائنات کی وسعتوں میں
پھیلے ہوئے حیات وممات کے
رواں سلسلوں کی پیہم
الجھی ہوئی کڑیوں میں
کہیں کوئی کڑی ایسی بھی ہے
جس کا سرا آسمانوں کے پار
نور کے پردوں میں لپٹی ہوئی
اس ہستی سے بھی ملتا ہے جو
مکاں و مقام سے بے نیاز
صدائے کن فیکوں کے دست شعاعی سے
ہیست ونیست کے تمام احرام
ایک پل کی بسیط و بیکراں
ساعتوں میں ڈھالتی ہے

سفر روال

"سفر رواں"
                           (7.8.83)
               "ڈاکٹر صابر حسین خان"

راستے کی دھواں پر
جگہ جگہ ایک ہی نام لکھا ہے
رفتار بڑھانے یا
نطرریں چرانے کا
کوئی فائدہ نہیں کہ
ہر سنگ میل پر
ایک ہی منزل کے نشاں
مسافر کے لیئے ثبت ہیں

رقص

"رقص"
                        (6.8.83)
                    "ڈاکٹر صابر حسین خان"

میرے من کامور
دشت تہنائی میں
تمہاری یاد کی
چاندنی اوڑھ کر
رات کے پہلے پہر سے
بے تاب و بے خود ہو کر
ماحول ومافیہا سے بے خبر
ناچے جارہا ہے
افق پہ سرخی
رنگ جمانے لگی ہے
رقص کی رفتار
بدستور بڑھ رہی ہے
کہ نظر ابھی تک
اپنے پیروں پر نہیں پڑی ہے

صدائے دل

"صدائے دل"
                          (5.8.83)
                  "ڈاکٹر صابر حسین خان"

آج پھر ایکبار
پچھلے دو دنوں کی طرح
ٹوٹ کر رم جھم کے ساتھ
پھوار پڑی ہے
تم بتاؤ کیا تمھارا
دل نہیں کہتا کہ
اس بھیگے ہوئے موسم میں
ہم دونوں
آم کے پیڑوں تلے
باہوں میں باہیں ڈال کر
ایک ساتھ بھیگیں
اور مدہم سروں میں
سبز پتوں کی دلکش تال پر
چمکیلی بوندوں کا
ستاروں جیسا رقص دیکھیں

ان دیکھی

"ان دیکھی"
                          (4.8.83)
                  "ڈاکٹر صابر حسین خان"

اندھیروں کے شہر میں
امیدوں کے مدہم سائے
ستارہ سفر کے پیچھے پیچھے
ایک ان دیکھی لگن سے
بندھے ہوئے
منزل کی آس لیئے
انجانے راستوں پہ
چلے جارہے ہیں
مگر انہیں پتہ نہیں کہ
مشرق کی اوٹ لیکر
سورج رفتہ رفتہ
اپنے ہاتھوں کو
ستاروں کے خون سے
رنگنے لگا ہے

آبگینے

"آبگینے"
                        (2 8.83)
                   "ڈاکٹر صابر حسین خان"

میری محبت اپنے اظہار کے لیئے
لفظوں کے حصار کی پابند نہیں
کہ دل کی گہرائیوں میں
جنم لینے والے کچھ جذبے
اتنے نازک ہوتے ہیں جو
الفاظ کے بوجھ تلےدبتے ہی
ایک ہی پل میں اپنی
ساری پاکیزگی کھوکر
ریزہ ریزہ ہوکر بکھر جاتے ہیں

منگل، 26 فروری، 2019

بندھن

"بندھن"
                          (3.8.83)
                  "ڈاکٹر صابر حسین خان"

دو دلوں کے درمیاں
ایک ناطہ ایسا بھی ہوتا ہے
جو آنکھوں ہی آنکھوں میں
کئی صدیوں کی مسافتیں
پلک جھپکتے ہی
طے کر لیتا ہے

آمنے سامنے

"آمنے سامنے"
                       (2.8.83)
                     "ڈاکٹر صابر حسین خان"

تمھارے روبرو
میں نے کبھی بھی اپنے لبوں کو
شرمندہ گفتگو نہیں کیا کہ
کچھ باتیں ایسی بھی ہوتی ہیں
جن کی ادائیگی ہونٹوں سے نکلے ہوئے
لفظوں کی
محتاج نہیں ہوتی
یہ باتیں تو بس
پلکوں کی جھالر کے سائے تلے
چپکے چپکے حال دل
کہتی ہوئی سہمی سہمی
آنکھیں ہی کرسکتی ہیں

دھوئیں کا حصار

"دھوئیں کا حصار"
                    (30.7.83)
                    "ڈاکٹر صابر حسین خان"

میرے دل کے کھلتے ہوئے
پھول کی آتشی پتیوں پر
تمھاری یاد کی شبنم کے
شعلے اپنی تمام تر
صباحتوں کے ساتھ
اس طرح برسے ہیں کہ
اب رات کے دھندلکے میں
میرے اندر اور باہر ہر طرف
جد نگاہ تک
نیلگوں دھوئیں کی حکمرانی ہے

امید

"امید"
                           (29.7.83)
                "ڈاکٹر صابر حسین خان"

وقت کے سمندر میں
زندگی کا سفینہ
طوفانوں کے تھپیڑے کھاتے ہوئے
تیسرے کنارے کی تلاش میں
ہواؤں کے قلم سے
موجوں کی کتاب پہ
ادھورے نقش ابھرتا ہوا
اس سمت میں بہے جارہا ہے
جہاں نظروں کے آخری سرے پہ
آسماں سمندر کی
آغوش میں اپنا سر رکھے
صدیوں سے سوئے جارہا ہے
امید تو ہے کہ شاید
تیسرا کنارہ وہیں کسی
چٹان کی چھاؤں میں
چھپا ہوا ہے

تیسری آنکھ

"تیسری آنکھ"
                          (28.7.83)
                "ڈاکٹر صابر حسین خان"

کتابوں کی دنیا سے پرے
دریا کے دوجے کنارے کی طرح
ایک دنیا اور ہوتی ہے جسمیں
محبت و نفرت کی
دو انتہاؤں کے بیچ
طرح طرح کے لوگ رہتے ہیں
لیکن
کتابوں کی دنیا میں
سدا گم رہنے والے
اپنے جذبوں پر اس طرح
خاموشی کی چادر ڈال کر
دل کے تہہ خانوں میں
چھپا لیتے ہیں کہ
پھر تیسری آنکھ کے سوا
کوئی دوسری آنکھ
ان کے لبوں کی مہر کو
توڑ نہیں پاتی

  

غزل

"غزل"
                        (29.7.83)
                 "ڈاکٹر صابر حسین خان"

ہاتھوں میں ستارے ہیں اپنے گھر کے لیئے
سارے ہی کنارے میں اپنے گھر کے لیئے

زخموں کی کتابوں کو یزداں زندہ رکھے
ان کے سب اشارے ہیں اپنے گھر کے لیئے

دل کے جن صحیفوں کو دیکھا بکھرا ہوا
میں نے وہ سنوارے ہیں اپنے گھر کے لیئے

غم نے جو تراشے ہیں نظروں کے زاوئیے
ہم نے وہ نکھارے ہیں اپنے گھر کے لیئے

جن کا اس زمانے میں چرچا ہے وہ دیے
آنکھوں میں اتارے ہیں اپنے گھر کے لیئے

"تہنائی کا شور

"تہنائی کا شور"
                          (28.7.83)
                "ڈاکٹر صابر حسین خان"

کھڑکی کے پٹ پر جوں جوں
بوندوں کی دستک تیز ہو رہی ہے
دل کی دھڑکنوں کے زیرو بم میں
اتنی ہی تیزی کے ساتھ
پیچ و خم پیدا ہو رہے ہیں

مٹھی بھر صحرا

"مٹھی بھر صحرا"
                     (25.7.83)
                "ڈاکٹر صابر حسین خان"

میری آس کے مٹھی بھر صحرا پر
تمھاری یاد کے سیاہ بادل
روزانہ آ آ کر برستے ہیں
مگر ہر برسات کے بعد
پیاسے صحرا کی تشنگی
کچھ اور بڑھ جاتی ہے

اجنبی

"اجنبی"
                            (22.7.83)
               "ڈاکٹر صابر حسین خان"

نیلگونی آسماں پہ
امنڈتے ہوئے سیاہ بادل
گھن گرج کے ساتھ
برس کر دوسری طرف
چلے گئے ہیں مگر
میری آنکھوں کی منڈیر پر
ابھی تک
امیدوں کا دیا
کسی اجنبی کی راہ میں
آنکھیں بچھائے ہوئے
چلے جارہا ہے

خوشبو

"خوشبو"
                   (21.7.83)
                 "ڈاکٹر صابر حسین خان"

رات کی تاریکی میں
جب جب پھول کھلے ہیں
میری تہنائی نے
تمھاری ہی یاد کی
خوشبو سے دل کے
سونے گھر کو مہکایا ہے

لو اسٹوری

"لو اسٹوری"
                    (22.6.83)
                   "ڈاکٹر صابر حسین خان"

چنبیلی کی کلیوں کا گجرا
کلائی میں باندھ کر
مہندی کی خوشبو سے مہکتے ہوئے
ہاتھوں نے کارٹس پہ
چائے کی پیالی رکھی تو ہے لیکن
مھمان کی نظریں
گھڑی کی سوئیاں سے الجھ رہی ہیں
(پرنس میں لو اسٹوری کا
آخری شو شروع ہونے کو ہوگا)
چائے پیئے بغیر معذرت کرکے
باہر آنے والے کو کچھ پتہ نہیں
کہ گھر کے اندر
دو غزالی آنکھوں میں ایک
لو اسٹوری شروع ہونے سے پہلے
ہی ختم ہو چکی ہے
چنبیلی کی کلیوں کے گجرے
باندھنے والی کلائیوں نے
بڑے اہتمام سے جو
الائچی والی چائے بنائی تھی
وہ پیالی میں پڑے پڑے
مہندی سے مہکتی ہوئی ہتھیلیوں والی لڑکی
کے دل کی طرح ٹھنڈی ہوتی رہی
اور دھواں اٹھتا رہا

لذت عذاب

"لذت عذاب"
                         (22.6.83)
                  "ڈاکٹر صابر حسین خان"

کمرے کی کھڑکیوں پہ
زرد حاشیوں, نیلی بیلوں اور
سبز پتوں والے پردے پڑے ہیں
فوم کے موٹے گدے پر
میرا بدن آرام کی آغوش میں ہے
پنکھے کی آواز کا جلترنگ
میرے کانوں میں گونج رہا ہے
میری آنکھیں بیداری کے
رس سے سر شار ہیں
مگر میں دیکھنے سے قاصر ہوں
اس اجنبی ہاتھ کو
جو پانی میں بھیگے ہوئے
سوچ کے سرد کوڑے
میری روح کے
کھلتے ہوئے زخموں
پر برسائے جارہا ہے

تحفہ

"تحفہ"
                           (22.6.83)
               "ڈاکٹر صابر حسین خان"

آج کی شام پھر ایکبار
اداسی کی ٹھنڈی ہوا کے سنگ
فطرت کی ہتھیلیاں میرے لیئے
تہنائی کے گلابوں کا
تحفہ لیکر آئی ہیں
مگر اس مرتبہ میری آنکھوں کے پاس
فطرت کی ہتھیلیوں پہ رکھنے کے لیئے
آنسوؤں کا کوئی نزرانہ نہیں ہے

تکون

"تکون"
                      (22.6.83)
                   "ڈاکٹر صابر حسین خان"

میں,تم اور تنہائی
اپنی اپنی پہنائیوں میں
کہر کا غلاف اوڑھے
ایک دوسرے کا آئینہ ہیں
مگر ہر سن چیزوں میں
ایک قدر مشترک ہے
تینوں ایک تکون کے
تین کنارے ہیں

آنگن اور سائے

"آنگن اور سائے"
                         (22.8.83)
                 "ڈاکٹر صابر حسین خان"

بیس سالہ ننھا بچہ
چھوٹے چھوٹے کنکروں سے
کھیلتا ہوا یکبارگی چاند کی
جانب دیکھتا ہے
تتلیوں اور جگنوؤں کے ساتھ
جھیلوں اور باغوں کی سیر
رنگوں, روشینوں اور
خوشبوؤں کو تحیر
تجسس اور مسرت کی آمیزش
سے اپنی آنکھوں میں جذب کئیے بغیر
بچپن کے مفہوم سے
نا آشنا, اجنبی وہ آج
لڑکپن کی سرحدوں
سے گزرتا ہوا نوجوان کی
حدوں میں داخل ہورہا ہے
گر آج بھی اسکے ہاتھ کی لکیروں پہ
محرومیوں اور ناکامیوں کی
دیو پیکر چمگاڈر اپنا سایہ
بچھائے ہوئے ہے
کھلی پت کے ننگے فرش پہ
آموں کی مہک سے گونجتی ہوئی
ہوا میں بھیگتے ہوئے
بیس سالہ ننھا بچہ
چھوٹے چھوٹے کنکروں سے کھیلتا ہوا
چاند کی جانب دیکھتا ہے
مگر آٹھویں کے چاند کی
نیلی روشنی کو زینوں کے اوپر
لگے ہوئے بجلی کے قمقمے کی زردی
نے اپنے "سائے" میں لیکر
"آنگن" میں پہلا قدم
رکھنے سے روک دیا ہے