جمعرات، 31 جنوری، 2019

سیلف مینیجمنٹ

"سیلف مینیجمنٹ" نیا کالم /مضمون
دعاگو. ڈاکٹر صابر حسین خان"

مہلت مل جائے تو بہت سہولت ہو جاتی ہے کئی ادھورے کام ہو جاتے ہیں.لیکن مہلت بار بار نہیں ملتی. ھر کام میں نہیں ملتی.لاوڈ اسپیکر پر با آواز بلند اعلان کرکے نہیں ملتی. اور یہ بھی ہے کہ ھر ایک کو نہیں ملتی.بہت بار ہم بہت سے کاموں, بہت سی باتوں میں مہلت چاہ رہے ہوتے ہیں.مہلت مانگ رہے ہوتے ہیں.بگڑی باتوں کو سنوارنے کیلئے ادھورے کاموں کو نپٹانے کیلئے لیکن گھنٹی بج جاتی ہے. وقت پورا ہو جاتا ہے.پرچہ ھاتھوں سے لے لیا جاتا ہے.دیکھے بنا,پوچھے بنا کہ سوالوں کے جواب پورے ہوئے ہیں یا نہیں.مہلت ختم ہو جاتی ہے.اوورز ختم ہو جاتے ہیں.میچ ختم ہو جاتا ہے.ٹارگٹ پورا نہیں ہو پاتا.رنز پورے نہیں ہو پاتے.
ایسا بہت بار ہوتا ہے.ہم سب کے ساتھ ہوتا ہے.مگر پھر بھی ہم ہر بار,ہر بات,ہر کام میں مہلت کے طلبگار ہوتے ہیں.ابھی بہت وقت پڑا ہے. دیکھ لیں گے, ہو جائے گا, کر لیں گے. مگر ہوتے ہوتے کچھ بھی پورا نہیں ہو پاتا. کچھ نہ کچھ رہ جاتا ہے.آخری وقت تک ھڑبوڑ مچی رہتی ہے.ایک انچ کی کسر ضرور رہ جاتی ہے.
بہت کم لوگ تھوڑے کو بہت سمجھتے ہیں.اور وقت سے پہلے اپنے کام, اپنے پروجیکٹ پورے کر لیتے ہیں. ایسے لوگ سکون میں رہتے ہیں. اور ایسے لوگوں کے ساتھ جو لوگ رہتے ہیں یا رہنے پر مجبور ہوتے ہیں.وہ بے چارے عام طور پر ذرا بے سکونے رہتے ہیں. کیونکہ وقت کے دائرے میں رہنے والے, اپنے وقت کو صحیح طرح استعمال کرنے والے, مہلت ختم ہونے سے پہلے اپنے کام ختم کرنے والے لوگ عام طور پر یہی توقع یہی خواہش رکھتے ہیں کہ ان کے ساتھ رہنے والے بھی ان کی طرح ذرا ذیادہ Meticulous ذرا ذیادہ Methodical ذرا ذیادہ Meshy ہوں. اور ان کی طرح اپنے سب کام وقت پر یا وقت سے پہلے ختم کر لیں.
لکین ایسا ہوتا نہیں انسان کو عمومی نفسیات میں چونکہ کاہلی اور تساہل فطرتا شامل ہوتے ہیں تو زیادہ تر لوگ اپنے کاموں کے حوالے سے ڈھلیے رہتے ہیں.یہاں تک کہ کاموں کے ختم ہونے کا وقت آجاتا ہے. اور کام پورے نہیں ہو پاتے.
معاشرتی ابتری اور افراتفری اور بے سکونی کی ایک اہم وجہ احساس ذمہ داری کا نہ ہونا ہے. جس کے نہ ہونے سے ہر گھر, ہر دفتر, ہر جگہ آدھے اور ادھورے کاموں کا ڈھیر جمح رہتا ہے اور دن بہ دن ان میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے, احساس ذمہ داری کے نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ ہمارا تعلیم وتربیت کا نظام ہے. جو ہمیں زندگی کے کسی بھی درجے پر یہ نہیں سکھاتا کہ ہماری زندگی میں وقت کی کتنی اہمیت ہے اور  ہمیں کیسے اور کس طرح اپنے وقت کو مناسب اور متناسب انداز میں استعمال کرنا چاہیئے.
کسی بھی شخص میں احساس زمہ داری اس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتا, جب تک اسے وقت کی قدر و قیمت کا اندازہ نہ ہو.ایک وقت ایسا آتا ہے جب ہم ادھیڑ عمر میں جاکر سیلف ھلیپ اور ٹائم منیجمنٹ کے ورکشاپس اور سمینارز باقاعدہ پیسے دے کر Attend کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں. کیونکہ ہم اپنے کاموں, اپنی چیزوں کو اتنا پھیلا چکے ہوتے ہیں کہ پھر ہمیں وقت پر ان کو سیمٹنا نہیں آپاتا.لیکن ہر بات,ہر کام, ہر شے اپنے وقت پر ہی اچھی لگتی ہے.فجر کی نماز عشاء کے وقت پڑھنے کا فائدہ نہیں ہو پاتا. وقت کی اہمیت اگر بچپن سے ہی ہمارے ذہنوں میں جگہ نہ کر پائے اور ہماری تعلیم اور تربیت میں اس حوالے سے ہماری کوئی نگرانی اور نگہبانی نہ ہو تو ہم آگے چل کر اپنے اپنے کاموں میں خواہ کتنی ہی Excellence کیوں نہ حاصل کر لیں. ہمیں ہر قدم پر اپنے ہر کام میں وقت کی کمی کا احساس رہے گا اور ہم کبھی بھی اپنے وقت کا بھرپور اور موثر استعمال نہیں کرسکیں گے.
اگر ہم اپنے چاروں طرف نظر دوڑائیں تو ہمیں ہم سمیت سبھی لوگ اپنے اپنے کام کرنے کے دوران بھی بہت سطحی اور اوپری دل سے اپنے کام نمٹاتے ہوئے یا بھگتاتے ہوئے دکھائی دیں گے بہت ہی کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو پوری توجہ پورے دل سے اپنا کام کررہے ہوتے ہیں ہم سب کا دوران کام اور دوران فراغت سب سے دلچسپ مشغلہ اور سب سے پسندیدہ کام باتیں کرنا ہوتا ہے. جب تک ہم آٹھ میں سے کم از کم چار گھنٹے دل کھول کر دنیا کے ہر موضوع, ہر Issue پر گفتگو نہ کر لیں,اس وقت تک ہماری انرجی چارج نہیں ہو پاتی. دو گھنٹے جتنا کام بھی پھر ہمیں آٹھ گھنٹوں میں پورا کرنا مشکل لگتا ہے.نتیجتا ہمارے کام ادھورے رہتے ہیں. اور ادھورے کاموں کا ڈھیر جمح ہوتا رہتا ہے.
احساس ذمہ داری ان لوگوں میں زیادہ ہوتا ہے جو اپنی ذات اور اپنی شخصیت میں نظم و ضبط کے عادی ہوتے ہیں. Self Management وہ پہلی سیڑھی ہے جو ہمیں خود کار طریقے سے ازخود Time Management کی منزل تک پہنچا دیتی ہے اور جس شخص میں یہ دونوں عوامل ساتھ ساتھ چل رہے ہوں تو وہ بڑے آرام اور سکون سے 24گھنٹے مصروف رہ کر بھی 24گھنٹے فارغ رہ سکتا ہے. اور بڑی خوش اطواری سے زندگی کے ھر معاملے, ھر کام کے لیئے وقت نکال لیتا ہے. اسے کبھی یہ نہیں کہنا پڑتا کہ فلاں کام کیلئے اسے وقت نہیں ملا یا وقت نہیں بچا.اس کے تمام کام اپنے اپنے مقررہ وقت سے ذرا پہلے ہی ختم ہوتے چلے جاتے ہیں.اور اسے روٹین سے ہٹ کر دیگر نئے کام کرنے کا موقع بھی مل جاتا ہے اور قدرت بھی اسے عام لوگوں کی بہ نسبت,مہلت فراہم کرتی رہتی ہے.
قدرت بھی انہی کا ساتھ دیتی ہے جو قدرت کی عطا کردہ سب سے زیادہ قیمتی نعمت یعنی وقت کو ضائع نہیں کرتے اور اپنے پل پل کو امانت سمجھتے ہوئے برتتے اور استعمال کرتے ہیں وقت کی قدر و قیمت اور اہمیت کا نکتہ جن لوگوں کی سمجھ میں آجاتا ہے. وہ پھر بڑے مطمئن ہو جاتے ہیں. کیونکہ ان کے پاس اپنے تمام کاموں کو پورا کرنے اور تمام مسئلوں کے حل کیلئے جستجو کرنے کی گیدڑ سنگھی ہاتھ آجاتی ہے. وہ اپنی شخصیت اور اپنی نفسیات کے انجن کو آٹو پائلٹ پر ڈال کر سکون سے نت نئے  Ventures کیلئے وقت نکال لیتے ہیں.
ایسے لوگوں کے پاس کام, آرام, تفریح اور سماجی تعلقات سبھی باتوں کیلئے وقت نکل آتا ہے.وہ عام لوگوں کی بہ نسبت مصروف بھی زیادہ رہتے ہیں اور ان کے مشاغل کی فہرست بھی دیگر لوگوں کی بہ نسبت زیادہ لمبی ہوتی ہے. ان کے پاس صرف ایک چیز کیلئے بالکل وقت نہیں ہوتا.فضول,بے مقصد اور ادھر ادھر کی باتوں کیلئے وہ سب کو وقت دے رہے ہوتے ہیں. دوستوں کو, رشتہ داروں کو, پڑوسیوں کو, ملنے جلنے کو,اجنبیوں کو.لیکن وہ یہ وقت بھی یہاں وہاں کی باتوں میں ضائع نہیں کرتے.ان اوقات اور لمحات میں بھی یہ عام طور پر دیگر لوگوں کے دل کا حال سننے اور ان
کے مسئلوں کا حل تجویز کرنے میں گزرتا ہے.ان کا Focus ہمیشہ حال پر رہتا ہے. کام کے وقت دل سے بھر پور کام اور تفریح کے وقت بھرپور تفریح وہ کسی ایک کام کو دوسرے کام کے بیچ حائل نہیں ہونے دیتے.خود کو ھر طرح کے بحث مباحثے سے دور رکھتے ہیں. نہ کسی نہ کسی کا دل دکھاتے ہیں. نہ بلاوجہ کسی کا دل رکھتے ہیں اختلاف رائے کی صورت میں دو جملوں میں اپنا نکتہ نگاہ بیان کرکے خاموش ہوجاتے ہیں اور ہوں ہاں کرکے غیر ضروری گفتگو کو طول دینے سے گریز کرتے ہیں.
کبھی کسی ایسی بات,ایسے کام میں ہاتھ نہیں ڈالتے جو ان کی دسترست سے دور ہو یا جسے وہ کرنے کی اہلیت نہ رکھتے ہوں ان کو علم ہوتا ہے کہ کب ان کو  نہ کہنا ہے اور کب ہاں کب آگے بڑھناہے.کب پیچھے پلٹ آنا ہے. کب کسی معاملے سے دوری اختیار کرنی ہے. کب کس مسئلے کو اپنے ہاتھ میں لینا ہے. کون سا کام خود کرنا ہے کون کون سے کام اپنے ساتھ کے لوگوں کو تغویض کرنے ہیں کسی پروجیکٹ میں کتنی توانائی, کتنا وقت صرف کرنا ہے. کسی کام کو ادھورا چھوڑ کر نیا کام شروع کرنا ہے.کتنے گھنٹے سونا ہے.کتنا وقت مطالعہ کو دینا ہے صحت کے تینوں دائروں میں اپنی توجہ کی تقسیم کیسے کرنی ہے جسمانی صحت کو برقرار رکھنے کیلئے کیا کیا کرنا ہے. ذہنی و جسمانی صحت کو کیسے نشوونما فراہم کرنی ہے. روحانی صحت کی سرشاری کیلئے کون سے کام کرنے ہیں.
غرضیکہ ہر بات,ہر کام,ہر فرد, ہر شے کیلئے کسی وقت کون سا Measures اختیار کرنے ہیں اور کن باتوں کن چیزوں سے اجتناب برتنا ہے. اپنی ذات میں نظم و ضبط کا سلیقہ اسی وقت آتا ہے. اسی صورت آسکتا ہے جب ہم اوائل عمر سے اپنی زندگی کو Monotonous رکھنے کی بجائے Multi dimensional رکھنے کی خواہش رکھیں کوشش کریں اور بار بار کی مشق کریں اور اس مشق سے گھبرائیں نہیں کترائیں نہیں دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک کام خود اپنے آپ کو Tame کرنا ہوتا ہے. اپنے آپ کو سدھارنا اور نکھارنا ہوتا ہے. اپنے اندر کے خلفشار کو ختم کرکے اپنی Tunning کرنا ہوتا ہے اور یہ کام جادو کی چھڑی پھیرنے سے نہیں ہوسکتا. اس کیلئے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں. فراغت اور مہلت یونھی نہیں مل جاتی اس کیلئے خود کو ہمہ وقت مصروف رکھنا پڑتا ہے.ہمہ وقت چاق و چوبند رکھنا پڑتا ہے. ہمہ وقت چوکس و چوکنا رہنا پڑتا ہے. ہمہ وقت آنکھیں کھلی رکھنی پڑتی ہیں پھر کہیں جاکر قدرت کا انعام ملتا ہے مہلت اور فراغت چاہیے تو خود کو مثبت کاموں میں مصروف کر لیجئے اور اہم اور غیر اہم کاموں کے بیچ فرق کو سمجھنے کی کوشش کیجیے اور سب سے اہم بات یہ کہ خود کو غیر ضروری باتوں کے نشے سے دور کر لیجئے. غیر ضروری باتوں سننے سے بھی اور کرنے سے بھی آپ کی ذات میں ازخود نظم و ضبط آتا چلا جائے گا.

بدھ، 30 جنوری، 2019

سچے اپنوں کا انتخاب کیجئے

"سچے اپنوں کا انتخاب کیجئے" نیا کالم/مضمون
دعاگو. "ڈاکٹر صابر حسین خان"

"میں نے منیجر سے بات کرلی ہے.تم چیک دوبارہ ڈلوادو.کلئیر ہوجائے گا."
فرحان کا جب فون آیا تو اس وقت تک میں,اس بینک کے اسسٹنٹ منیجر سے بات کرچکا تھا. اس بینک کے سات ارب روپے نیب یا سپریم کورٹ یا پتہ نہیں کس نے freeze کردئیے تھے.منی لانڈرنگ,کرپشن یا پتہ نہیں کس وجہ سے اور چونکہ مذکورہ  بینک میں میرا بھی اکاؤنٹ تھا گزشتہ آٹھ نو سال سے اور کچھ پیسے اسمیں پڑے ہوئے تھے. تو حفظ ماتقدم میں اسمیں سے پیسے نکلوارہا تھا. اور چونکہ مجھے فرحان کو بھی پیسے دینے تھے تو اسے چیک دے رہا تھا.
  "آپ الیکشن اور کرپشن پر کیوں نہیں لکھتے میں تو کہتا ہوں کہ اگلے الیکشن میں, صوبائی حلقے سے آپ بھی آزاد امیدوار کھڑے ہوجائیں." فرحان نے مشورہ دیا.
  "میں بہت سی جگہوں پر گیا ہوں.زندگی میں پہلی بار آزاد امیدواروں کے بینرز دیکھے ہیں.یہ ساری سیاسی پارٹیاں کرپٹ ہیں. ایک سے بڑھ کر ایک جب تک عام آدمی میرے اور آپ جیسے آدمی اپنے اپنے حلقوں کے مسئلوں کے لیے آگے نہیں آئیں گے.تب تک یہ سیاسی پارٹیاں اسی طرح ہم آپ کو بےوقوف بناکر اپنا الو سیدھا کرتی رہیں گی.آپ ذرا سوچیں.ڈیمز بنوانا حکومتوں کا کام ہے یا عام آدمیوں کا یہ سب…… گزشتہ 30 سالوں میں ہم سب سے پیسہ لوٹ کر باہر لے گئے اور کھربوں پیتی بن گئے اور اب ہمیں اپنے دو تین لاکھ روپے بچانے مشکل ہو رہے ہیں کہ کہیں وہ بھی ڈوب نہ جائیں اور بینک بند نہ ہو جائے. لاکھ دو لاکھ لوگوں کو ……کردینا چاہیے سب مسئلہ حل ہوجائے گا.فرحان دل سے کہہ رہا تھا.میرا بھی دل دکھا ہوا تھا.اور سب سے بڑی بات مذکورہ بینک کے نام کو خبروں کی زینت بنتے ہوئے دیکھ کر اور پڑھ کر میری اپنی کاہلی اور سستی پر بھی ضرب پڑگئی تھی.اسکا غصہ الگ تھا کہ اب پھر کسی اور بینک کے چکر کاٹنے پڑیں گے.آجکل بینک اکاؤنٹ کھلوانا بھی سرکار کے دیگر کاموں کی طرح دشوار ہے.
اکاؤنٹ تو پھر بھی کھل جائے گا کبھی نہ کبھی ہماری جذبائیت سے نچڑی قوم کی سب سے بڑی دشواری یہ ہے کہ وہ فطرتا Anti Hero ہے. پہلے جذبات میں اندھی گونگی ہوکر بت تراشتی ہے اسے اپنے کندھوں پر سوار کرتی ہے.اور پھر جو نہی شخصیت پرستی کی ماری قوم اپنے تراشے ہوئے بتوں سے بیزار ہوتی ہے تو کل کا ھیرو آج کا اینٹی ھیرو قرار پاتا ہے.یکدم ولن بن جاتا ہے اور ایسا ھر اس قوم ھر اس ملک میں ہوتا ہے.جہاں انفرادی,خاندانی اور ملکی و حکومتی ہر سطح پر کسی قسم کا کوئی نظام,کوئی سسٹم نہیں ہوتا.ہر فرد محض اپنے لئے جیتا ہے. اجتماعی اور قومی فائدوں کا سوچتے ہوئے سب کے پر جلنے لگتے ہیں.ذاتی مفاد,خود غرضی اور نفسانفسی یہ تینوں عناصر آج ہماری قوم کا ناسور بن چکے ہیں.کیاصحیح ہے کیا غلط کیافرق پڑتا ہے. جو ملتا ہے اور جیسے ملتا ہے لے لو, چھین لو,قبضہ کر لو, صحیح کام بھی غلط طریقے سے کرنا ہے.اور غلط طریقوں کے کاموں کو اور فروغ دینا ہے.
جیسی کرنی ویسی بھرنی ہماری قوم ستر سال سے جو بوتی رہی ہے.اپنے حکمرانوں کی شکل میں کائتی رہی ہے.ہم اگر چار روپے کی چوری کریں گے تو ہمارے سروں پر چار ارب چرانے والوں کو ہی مسلط کیا جائے گا. قوانین قدرت کبھی کسی قوم کے لیے نہیں بدلے.
آج ہمیں قدرت پھر ایکبار موقع دے رہی خود کو بدلنے کا ہم صدق دل سے توبہ کریں گے اورخود کو بدلنے کا عھد کریں گے تو لامحالہ نئے حکمرانوں کے انتخاب کے دن ہمارے دل میں صحیح نشان پر ٹھپہ لگانے کا خیال ہو گا ہم سچے بننے,دیانت دار اور ایماندار بننے اور خلوص سے لوگوں کی خدمت کا جذبہ رکھنے کی اندرونی خانہ تبدیلی لائیں گے تو اس کی روشنی باھر بھی پھیلے گی شمع سے شمع جلے گی. آج اور اسی لمحے اپنی ذات کو بدلنے کا وعدہ کرلیجئے.اپنے اندر سچائی اور حق گوئی کو لانے اور پروان چڑھانے کا عھد کرلیجئے.ازخود ہماری آنکھوں پر سے پردہ ہٹ جائے گا اور ہمیں اپنوں اور سچوں کی پہچان ہو جائے گی.
نعروں چھوٹے وعدوں بڑی بڑی باتوں اور کرپشن میں ڈوبے ہوئے لوگوں کو خود سے دور کر لیجئے جذباتیت اور ذاتی مفاد کے بت توڑ دیجئے. میرٹ کا نظام اپنی ذات,اپنے گھر,اپنے خاندان کے ساتھ قوم و ملک کیلئے بھی لاگو کیجیے.میرٹ کی بنیاد صرف سچائی,ایمانداری اور دیانتداری ہونا چاہیئے. میرٹ کے نظام میں مستحق کو اسکا حق ملتا ہے. میرٹ کے نظام میں کوئی اپنا نہیں ہوتا,کوئی پرایا نہیں ہوتا. میرٹ کا فیصلہ تقوی, اخلاق, علم, کام,   خلوص اور دیانتداری پر ہوتا ہے.جو سچا ہے وہ اپنا ہے. جو جھوٹا ہے اور بے ایمان ہے اور ذاتی مفادات کا شکار ہے وہ خواہ سگا اور خونی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو وہ پرایا ہے.
اپنے سچے اپنوں کا انتخاب کیجیے ذاتی پسند کو قوم و ملک کی فلاح کیلئے قربان کردیجئے.اعلی ذاتی کردار اور شخصیت کے حامل لوگوں کو اپنا حکمران چنیئے.
ایسے سچے اور دیانتدار لوگ دھوکہ نہیں دیتے. چوری نہیں کرتے.ایسے لوگ منتخب ہوکر خلوص اور محنت سے اپنوں کی خدمت کرتے ہیں. اپنے بینک بیلنس نہیں بڑھاتے,جائدادیں نہیں بناتے. ملک سے باہر جاکر خود ساختہ جلاوطنی اختیار نہیں کرتے.
" سچے اپنے" اپنوں کے ساتھ,آپ کے
ساتھ, میرے ساتھ جیتے مرتے ہیں. اٹھتے بیٹھتے ہیں. میرے اور آپ کے کام آتے ہیں.کسی ذاتی لالچ کے بنا کسی ذاتی فائدے کی توقع کے بنا.
ہاں البتہ اگر آپ کے اپنے دل میں کھوٹ ہے.آپ کے اپنے دل کا چور آپکو کسی جھوٹی شخصیت, کسی جھوٹے نعرے,کسی ذاتی پسند,کسی کھوکھلے لسانی و نسلی نظریہ کی پرستش میں آپ کو الجھائے ہوئے ہے توپھر اس بار بھی آپ اپنے اور اپنی آنے والی نسلوں کے پاوں پر کلھاڑی مارنے کے درپے ہوں گے.
اپنے دل کے چور کو خیرباد کہہ دیجئے.
ایسا موقع بار بار نہیں آتا.اس بار سچے دل سے "سچے اپنوں"کا انتخاب کیجیے. اسی میں آپ کی بھلائی ہے.اسی میں آپ کے بچوں اور آنے والی نسلوں کی خوش نصیبی ہے.اس میں ملک وقوم کی فلاح ہے. اس بار اپنی ذات کے حصار سے باہر نکل کر اجتماعی خوشحالی کو ووٹ دیجیئے.اپنے اپنے حلقوں میں اپنے سچے اپنوں کو منتخب کیجیے. تاکہ اس بار چند سالوں بعد آپ کے منتخب کردہ ھیرو ھیرو ہی رہیں. ھیرو سے زیرو نہ بانیں.

پیر، 28 جنوری، 2019

کامیابی کی بنیاد

"کامیابی کی بنیاد" نیا کالم/مضمون
دعاگو. "ڈاکٹر صابر حسین خان"

نظم و ضبط کے بنا نہ فرد کامیابی حاصل کرسکتا ہے,نہ قوم ترقی پا سکتی ہے اور ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ ہم نظم و ضبط سے عاری زندگی گزارنے کے عادی ہیں.ہم روٹین کے لگے بندھے کام تو باقاعدگی سے کر لیتے ہیں.یا یوں کہہ لیں کہ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں.لیکن ان روٹین کے کاموں کے علاوہ ہمارے روزوشب کسی بھی طرح کے باقاعدہ,باترتیب,منظم پلان و پروگرام سے بہت دور ہوتے ہیں.ہمارے پاس مستقبل کا کوئی واضح منصوبہ نہیں  ہوتا.زندگی کا کوئی مشن,کوئی گول نہیں ہوتا.اور اگر بھولے سے کوئی منصوبہ,کوئی گول ہمارے دامن میں آبھی گرے تو اس کو عمل میں ڈھالنے کیلئے,Execute کرنے کیلئے کوئی نقشہ نہیں ہوتا.ہم اناڑی پیراک کی طرح ہاتھ پاؤں مارتے رہتے ہیں کہ اس طرح کنارے لگ جائیں گے.مگر جلد یا بدیر تھکن حاوی ہوجاتی ہے اور ہم اپنے ناممکن منصوبوں اور ادھورے کاموں کے بیچوں بیچ ڈوب جاتے ہیں.دراصل ہمیں صحیح سوچنے اور صحیح سمت میں سوچنے کی بنیادی تربیت نہیں ملی ہوتی ہے. ہماری تعلیم کے کسی بھی مرحلے پر ہمیں یہ نہیں بتایا جاتا کہ زندگی محض سبق یاد کرنے اور امتحان پاس کرتے رہنےکا نام نہیں.زندگی کا اصل امتحان تو تعلیمی اداروں کے امتحان ختم کرلینے کے بعد شروع ہوتا ہے.اور ہمارے پاس اس کی ہی تیاری نہیں ہوتی.ہم ڈگریاں لیکر کام کے بازاروں کا چکر لگاتے رہتے ہیں.اورہر انڑویو میں Job Description اور salary Package  پوچھ پوچھ کر گھروں کو پلٹتے رہتے ہیں.
ماں باپ کے پاس ہمارے لئیے وقت نہیں ہوتا. اساتذہ اپنی Economy اور Scales
کو بہتر بنانے میں لگے رہتے ہیں.ہم جھاڑ جھنکار کی صورت بڑے ہوتے رہتے ہیں. اور پھر اتنے بڑے ہوجاتے ہیں کہ خود کو عقل کل سمجھنے لگتے ہیں. اور اپنی عام تر عقل اور سمجھ اور علم کے باوجود اپنی زندگی میں نظم و ضبط لانے کا استعمال نہیں سیکھ پاتے.نتیجے میں ایک عمر گزر جاتی ہے اور ہم اپنے اپنے شعبوں میں معمول کے کاموں کے سوا کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں حاصل کر پاتے. کامیابی,جہاں ایک طرف قسمت اور محنت کی مرہون منت ہوتی ہے.وہاں دوسری طرف اسے حاصل کرنے کیلئے Innovation کی ضرورت پڑتی ہے.نئے Ideas کو علمی جامہ پہنانے کی ضرورت پڑتی ہے.اپنی Imagination کو وقت کی ضرورت کے مطابق ڈھالنا پڑتا ہے پھر کہیں جاکر ہم اپنے اپنے کاموں میں تھوڑی بہت Excellence حاصل کرسکتے ہیں.لیکن ان تینوں "آئیز" کو چھوٹے آئی میں ڈھالنے کیلئے ہمیں اپنے تمام معاملات اور معمولات زندگی میں نظم و ضبط کی ضرورت پڑتی ہے.Innovation ہو یا Ideas یا Imagination تینوں کی Implementation کیلئے Infrastructure درکار ہوتا ہے.یعنی کہ پانچواں "آئی".اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنی نوکری,اپنے کام,اپنے کاروبار میں اتنا مصروف ہوتے ہیں تو ہم بنا کسی مدد, بنا کسی ابتدائی تربیت,بنا کسی بنیادی علم کے آخر کیسے اتنے سارے "آ ئیز" کو مہنہ دے سکتے ہیں. ظاہر ہے بظاہر نہیں تو ہم خود کو چھٹے "آئی"کے سپرد کرکے روٹین کی زندگی گزارنے لگتے ہیں.اور پھر تمام عمر ایک ایسے Island میں گزار دیتے ہیں جہاں سے چاروں طرف سمندر ہی سمندر دکھائی دیتا ہے.اور اس سمندر کو پار کرنے کا کوئی ذریعہ,کوئی طریقہ دکھائی نہیں دیتا.اور ہم روٹین کے کاموں میں,روٹین کی زندگی گزار کر قبروں میں جا لٹتیے ہیں. ہم نے اپنے روزمرہ کے روٹین کو ہی نظم و ضبط سمجھ لیا ہے.اور اس سمجھ نے ہمیں کولہو کا بیل بنا دیا ہے.
ھر وہ بات,ہر وہ چیز جو ہمارے روٹین سے ہٹ کر ہوتی ہے. ہمارے مزاج کو گراں گزرتی ہے.اور ہم حتی الامکان اس نئی بات,اس نئی چیز سے اپنا دامن بچانے کی کوشش کرتے ہیں.اور یہی چاہتے ہیں کہ ایک لگے بندھے Pattern میں ہمارے شب و روز گزرتے رہیں اور کسی بھی طرح کا کوئی نیا پن,کوئی نیا انداز,کوئی نیا رنگ,کوئی نیا خیال,کوئی نیا نظریہ,کوئی نیا کام ہمارے Fixed Cycle کو توڑ نہ دے.
یہ سوچ,یہ طریقہ,زندگی گزارنے کا یہ انداز ہمیں غیر معمولی کامیابیوں سے دور رکھتا ہے.درحقیقت ہمارے اندر کا ڈر ہمیں کچھ نیا نہیں کرنے دیتا.کچھ نیا نہیں سوچنے دیتا.اور اس ڈر کی جڑیں بھی ہماری اولین تعلیم اور تربیت کے جنجال پورے میں پوشیدہ ہوتی ہیں.کہ ہم کوئی بھی نیا کام کیسے سیکھیں گے.کوئی بھی نیا کام کیسے کریں گے.ہم تو پہلے ہی اپنے کاموں سے تنگ ہیں.ہم تو پہلے ہی کاموں کے انبار تلے دبے ہوئے ہیں.نیا کام تو ہمارے بوجھ کو اور بڑھا دے گا.اس سوچ کی بنیادی وجہ ہمارے اندر نظم و ضبط کو Adopt  اور Apply کرنے کی اہلیت کا نہ ہونا ہوتا ہے.
ہمارے اندر کا نظم و ضبط اگر Intact اور Integrated ہو تو ہم بہت اطمینان اور سکون سے نئے کاموں,نئی باتوں,نئی باتوں, نئی سوچوں کو نہ صرف خوش آمدید کہتے ہیں بلکہ بڑے آرام سے اپنے معمول کے کاموں میں گنجائش نکال کر نئے کاموں کو,نئی باتوں کو Add on کر لیتے ہیں.یاد رکھیں ہماری ذہنی قوت و صلاحیت اسی وقت بڑھتی اور پروان چڑھتی ہے. جب ہم اپنے Neurons کو مستقل مصروف رکھتے ہیں.اور مستقل مصروفیت اسی وقت ممکن ہے جب ہم اپنے دماغ کو ہمہ وقت کسی بھی نئی بات,کسی نئے کام کو Pick کرنے اور سمجھنے کیلیے چوکس و چوکنا رکھتے ہیں.اور روزانہ کی باتوں اور معمول کے کاموں کے ساتھ کچھ نیا دیکھتے,کچھ نیا پڑھتے,کچھ نیا سوچتے ہیں. درحقیقت نئے پن کی جستجو اور تگ ودو ہی ہمیں اپنی سوچوں میں نظم و ضبط کی عادت ڈالتی ہے.اسی سے ہم Self editing اور Self Monitoring  سیکھنے میں اس عادت کے استعمال سے پھر ہمارے اندر کا ڈر ہمیں ڈرانے کی بجائے ہمیں کامیابیوں کے حصول کے نئے طریقے سیکھاتا ہے.ایک نیا Idea ہمیشہ ایک دوسرے خیال تک لے جاتا ہے.اور پھر نیا خیال ہماری پرانی کمیوں, کوتاھیوں اور غلطیوں کو Highlight کرتا ہے.اور ہمیں موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم انہیں Rectify کرکے اپنی اصلاح کرسکیں.اور اپنی اصلاح کرکے خود کو کامیابی کے اگلے زینے پر چڑھا ہیں.لکین یہ پورا عمل Automatic اسی وقت ہوسکتا ہے. جب ہمیں اوائل عمر سے ہی Self discipline کی عادت ہو. تبھی ہم عمر کے ہر مقام پر اپنی پرانی نصابی کتابوں اور پرانے مشغلوں کے ساتھ ساتھ اپنی پرانی عادتوں کو Edit کر سکتے ہیں کہ زندگی کے اگلے مرحلے میں ہمیں اپنی کون کونسی پرانی چیزوں اور باتوں کے ساتھ کون کونسی نئی باتوں اور نئی سوچوں کو Incorporate کرنا ہے.کون سی چیزوں کو بالکل ترک کر دینا ہے. کون سی باتوں کو ازسرنو Reframe اور Refresh کرنا ہے.اور کون سی نئی چیزوں کو Adopt کرنا ہے.
بچوں کو ڈسپلن سکھنا والدین اور اساتذہ کی ذمہ داری ہوتی ہے.لیکن ہم سب اپنی اس ذمہ داری کو فراموش کر بیٹھے ہیں. چونکہ ہم نے خود نظم و ضبط سے عاری بچپن گزارا ہے تو اس کی سزا ہم اپنے بچوں کو دے رہے ہیں.ہماری ڈیوٹی بس اتنی سی رہ گئی ہے بچوں کو وقت پر اسکول چھوڑ آئیں اور لے آئیں.اور پھر ان کو ٹیوشن پڑھنے روانہ کر دیں.ہم نے ان کا ساتھ وقت گزارنا,ان کو وقت دینا چھوڑ دیا ہے.ان کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرنا اور ان کے ساتھ ان کے Level پر آکر کھیلنا کودنا چھوڑ دیا ہے.ہم نے ان کو کھیل کے میدانوں اور پارکس سے دور کرکے ان کے ہاتھوں میں موبائیل فون تھما دئیے ہیں. اسکولز اور کالجز میں دی جانے والی تعلیم کسی بھی طرح بچوں اور نوجوانوں کی شخصیت اور نفسیات کے نشوونما نہیں کر رہی.ایک زمانہ تھا جب ہر اسکول,ہر کالج کے ساتھ کھیل کے میدان کا ہونا لازمی تھا.اور باقاعدگی سے ہر سرکاری اسکول اور کالج کی تقریبا ہر کھیل کی باضابطہ ٹیم ہوا کرتی تھی.اور اب اسکولز اور کالجز, کبوتروں کے ڈربے بن چکے ہیں.کھیل کے میدان اور پارکس کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکے ہیں اور ہم سب لوگوں کا Focus تربیت,شخصیت اور کردار کے اعلی معیارات کے انتخاب کی بجائے گریڈ,عھدے,دولت اور Power کے حصول پر مرتکز ہو چکا ہے.ہمارے بچوں ہمارے گھروں میں پلنے والے Pets  کی طرح پل رہے ہیں. ان کی ہر فرمائش پوری ہو رہی ہے.لیکن ھر فرمائش کے پورے ہونے سے ان کی شخصیت اور ذہنی ساخت و سوچ پر جو Dent پڑ رہا ہے اس پر ہماری نظر نہیں جاتی.
ہم اپنے بچوں کو نظم و ضبط سیکھانے کی بجائے انہیں آوارہ اور وحشی بنا رہے ہیں. ڈگری یافتہ سند یافتہ محض اپنی خواہشات کی تکمیل میں مصروف ایسی نوجوان نسل پیدا کر رہے ہیں.جس کو نہ دین کا پتہ ہے نہ مذہب کا نہ اخلاقی اقدار کا پاس ہے نہ معاشرتی ذمہ داریوں کا نہ اپنے فرائض کا احساس ہے نہ کردار اور شخصیت کو نکھارتے رہنے کا خیال.زندگی کے ہر زاویے میں نظم اور ضبط سے عاری,خالی اور کھوکھلی شخصیت کیسے اور کیونکر کسی بھی شعبے میں ترقی کرسکتی ہے.جب سوچ کا محور محض ذات اور ذاتی خواہشات کا حصول ہو تو تنگ دلی,کنجوسی اور خود غرضی ہمارے ہر فعل,ہر عمل, ہر رویے سے ٹپکنے
لگتی ہے. اس انفرادی سوچ اور رویے نے پورے معاشرے کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے.اور اس کی بنیاد نظم و ضبط کے عدم موجودی کی وجہ سے وجود میں آئی ہے.
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری زندگی میں سے بے چینی  اور افراتفری اور بے سکونی کم ہو تو ہمیں اپنے بچپن کی تمام Fixation کو فراموش کرنا پڑے گا.Delete  کرنا پڑے گا.اپنی سوچ کی ھارڈڈسک Format کرنی پڑے گی. اور پھر سب سے پہلے اپنی موجودہ زندگی میں نظم و ضبط پیدا کرکے اس کی پریکٹس شروع کرنا ہوگی.تبھی ہم بچوں اور نوجوانوں میں سیلف ڈسپلن کے بیج بو سکیں گے.