بدھ، 24 اکتوبر، 2018

" دل تو بچہ ہے " ڈاکٹر صابر خان

یونہی بیٹھے بیٹھے گزرے دنوں کے سائے حال کی پرچھائیوں پر چھانے لگے ہیں چاروں اور منڈلانے لگے ہیں اداس یادوں کی بوندیں برسانے لگے ہیں یونھی بیٹھے بیٹھے, کبھی کبھی گزرے دنوں کی کھوج اتنی بری بھی نہیں بیتی باتوں کی جگالی جی پر کچھ اتنی بھاری بھی نہیں مگر دل تو بچہ ہے مچل اٹھتا ہے پھر وہی شب وروز ما نگنے لگتا ہے وہی زمانہ وہی باتیں وہی راتیں دہرانے لگتا ہے چا ہنے لگتا ہے جو امکان سے دور کہیں خوابوں اور خیالوں کی مکین ہیں اور معجزے اب ہو تے نہیں سو دل اور حال الجھنے لگتے ہیں ما ضی کے روشن اندھیرے مستقبل کے راستے میں حائل ہو نے لگتے ہیں روح کو گھائل کر نے لگتے ہیں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں