ہفتہ، 24 نومبر، 2018

بساط

" بساط "    02/12/1982

ڈاکٹر صابر حسین خان

سوچ کی بساط پر
لفظوں کے مہرے
ادھر ادھر کرتا رہتا ہوں
خود کو حریف جان کر
چالیں چلتا ہوں
اپنے آپ سے کھیلتا رہتا ہوں
جب کبھی تنہا ہوتا ہوں
( اور اکثر ہی تنہا رہتا ہوں )
کہ شاید کبھی
کوئی شبیہ بن جائے
کاغذ سیاہ ہوتے رہتے ہیں
سیاہی ختم ہوجاتی ہے
مگر کسی صورت
مات نہیں ہو پاتی
کوئی صورت دکھ نہیں پاتی
بازی ختم نہیں ہو پاتی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں