منگل، 23 اپریل، 2019

" چور مچائے شور " ڈاکٹر صابر حسین خان


نیا کالم/ بلاگ/ مضمون ۔

" چور مچائے شور " ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان ۔

اپنے چاروں طرف نظر دوڑائیے ۔ بلکہ نظر کیا ، اپنی سماعت کے ریڈار کی فریکوینسی کو بھی ساتھ ساتھ ٹیون ان کیجیے ۔ اور دیکھئیے اور سنیئے ۔ شاید ہی کوئی کونہ کوئی گوشہ ایسا ملے گا جہاں مکمل سکوت اور خاموشی ہو ۔
گھر ، دفتر ، بازار ، گلی ، محلہ ، پارک ، مسجد ، کالج ، یونیورسٹی ، ہوٹل ، اسٹیشن ، غرض یہ کہ ہر جگہ ہمیں بھانت بھانت کی بولیاں اور آوازیں سننے کو ملتی ہیں ۔ کیا بچے ، کیا بوڑھے ، کیا مرد ، کیا خواتین ، سب اپنے اپنے ظرف اور استطاعت کے حساب سے ماحولیاتی شور میں اپنا حصہ ڈالنے میں مصروف ہیں ۔ اور مست و مگن ہیں ۔
بچے ، جب اوائل عمر میں پہلی پہلی بار بولنا سیکھتے ہیں اور ان زبان و بیان کی طاقت کا لا شعوری اندازہ ہوتا ہے تو وہ مستقل بولتے ہیں اور زیادہ بولتے ہیں اور زور و شور سے بولتے ہیں اور زیادہ تر وقت بولتے رہتے ہیں ۔ اسی طرح شعوری عمر میں جوں جوں ہماری معلومات اور الفاظ کا دائرہ بڑا ہوتا جاتا ہے ، ہمارے اظہار کی قوت اور خواہش ، دونوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے ۔ یہ انسان کی بنیادی نفسیات کا ایک اہم جز ہے کہ وہ جو کچھ جانتا ہے ، اسے اوروں کے ساتھ شئیر کرنا چاہتا ہے ۔
انسانی نفسیات کا ایک اور بھی اہم جز ہمہ وقت ، حرکت میں رہتا ہے ۔ اظہار کے ساتھ اپنی شناخت اور پہچان کروانے کا ۔ اور اس کا سب سے آسان ذریعہ کلام ہے ۔ گفتگو ہے ۔ بات چیت ہے ۔ اپنی شناخت کے لیئے اسے بولنا پڑتا ہے ۔ اپنے کاموں کے لیئے اسے گفتگو کا سہارا لینا پڑتا ہے ۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اسے اپنے آپ کو منوانے اور جنوانے کے لیئے زیادہ بولنا پڑتا ہے اور زیادہ زور و شور سے بولنا پڑتا ہے ۔ بہت ہی کم لوگ خاموش رہنا پسند کرتے ہیں اور خاموشی کو ویلکم کرتے ہیں ۔ ہم اپنے اندر کے شور سے گھبرا کر بولتے ہیں اور بولتے چلے جاتے ہیں ۔ یہ دیکھے بنا ، یہ سوچے بنا کہ کوئی ہماری بات سن بھی رہا ہے یا سمجھ بھی رہا ہے ۔ ہمیں محض اپنے اندر کی صفائی کرنے اور کرتے رہنے کا جنون ہوتا ہے ۔ کیونکہ اگر ہم ایسا نہ کریں گے تو ہمارے اندر کا شور ہمیں مارے ڈالتا ہے ۔ ہمارے اندر جتنا زیادہ منفی جذبات ، احساسات ، اور خیالات کا ہجوم ہوگا ، فکریں اور سوچیں ہوں گی ، اتنا ہی زیادہ ہمارے اندر کا شور بڑھتا ہے اور ہمیں بولنے اور مستقل بولتے چلے جانے پر مجبور کرتا ہے ۔ ہمارے ضمیر پر جتنا زیادہ بوجھ ہوتا ہے ، ہمارے اندر اتنی زیادہ بےسکونی اور انتشار ہوتا ہے ۔ یہ بےسکونی اور انتشار بھی ہمارے اندرونی خلفشار کو بڑھاتا ہے ۔ اور ہمیں ہمہ وقت مضطرب اور بیچین رکھتا ہے ۔
قلبی اور ذہنی طور پر کوئی بھی فرد یا افراد کا گروہ اگر زیادہ مدت تک بیچین ، مضطرب ، پریشان ، رہتا ہے اور اندرونی طور پر خلفشار اور انتشار میں مبتلا رہتا ہے تو اس کا اعصابی نظام کمزور پڑنے لگتا ہے ۔ آپ نے فلموں میں دیکھا ہوگا یا کہانیوں میں پڑھا ہوگا کہ کسی طرح کسی انسان کے ذہن پر مستقل دباؤ ڈال ڈال کر اسے بولنے پر مجبور کیا جاتا رہا تاوقتیکہ اس کے اعصاب اتنے کمزور ہوگئے کہ وہ پھر فر فر بولنے لگا اور بولتا چلا گیا ۔
عام زندگی اور عمومی صورتحال میں بھی انسانی نفسیات کا یہ اصول ہم سب کے لئیے یکساں طور پر لاگو ہوتا ہے ۔ جوں جوں ہمارے اعصاب پر بوجھ بڑھتا ہے ، وہ تھکتے چلے جاتے ہیں ۔ خواہ دن بھر کے کام کی تھکن کے بعد ، رات میں دوستوں کی محفل سجا کر اپنے دن بھر کے غبار کو باتوں کے ذریعے اتارنا ہو یا ماہ دو ماہ بعد پارٹی کرکے ہلا گلا کر کے اپنے آپ کو ہلکا پھلکا کرنا ہو ۔ اس طرح کی تمام سرگرمیاں اسی زمرے میں آتی ہیں ۔ جب ہم اپنے اندر کے شور کو باہر کے شور سے مہمیز کرکے اس کا زور توڑنے کے کوشش کرتے ہیں ۔ اگر ہمارے اندر امن ، سکون اور خوشی ہوتی ہے تو بہت کم وقت میں بہت کم کوشش سے ہمارا اندر ، باہر سے Align
ہو جاتا ہے اور ہمارے اندر کا شور ، کم اور مدہم پڑ جاتا ہے ۔ لیکن اگر ہمارے اندر منفی خیالات اور منفی اعمال و افعال کا تناسب زیادہ ہوتا ہے تو ہزارہا کوششوں کے باوجود ہمارے اندر کا شور اور انتشار نہ ختم ہو پاتا ہے ، نہ کم ہو پاتا ہے ۔ خواہ ہم رات دن کتنا ہی شور شرابہ مچاتے رہیں ، کتنے ہی بھنگڑے ڈالتے رہیں ، کتنے ہی ہنگامے کرتے رہیں ۔
ہمارے دل کا چور ہمیں شور مچانے پر مجبور کرتا رہتا ہے ۔ ہماری چوری ، ہماری غلطی ، ہماری برائیوں کی گٹھڑی جتنی بڑی ، جتنی بھاری ، جتنی پرانی ہوگی ۔ ہمارا شور و واویلا اتنا ہی زیادہ ہوگا ۔ ہمارا رونا دھونا ، چینخنا چلانا ، اتنا ہی بآواز بلند ہوگا ۔ یہ انسانی سائیکی ہے ۔ بہت ہی کائیاں ، شاطر ، زیرک ، ہوشیار لوگ ہی اس بنیادی انسانی نفسیات کے کمزور گوشے پہ پردہ ڈالنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں ۔ اور وہ بھی بہت زیادہ دنوں تک نہیں ۔ کہ نفسیات کی طرح ، قدرت کے بھی اپنے ضابطے ، اپنے قوانین ہوتے ہیں ۔ اور جلد یا بدیر ، آج نہیں تو کل ، ہمارے اندر کا چور پکڑائی دے دیتا ہے ۔ پکڑا جاتا ہے ۔ اپنے تمام شور کے ساتھ ، اپنی میسنی خاموشی کے باوجود ۔
اپنے چاروں طرف نظر دوڑائیے ۔ خود اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں ۔ جہاں جہاں آپ کو زیادہ شور سنائی دے گا ۔ نارمل ، ضرورت سے زیادہ باتیں ہوتی نظر آئیں گی ۔ زیادہ تیز آواز میں گفتگو سننے میں آئے گی ۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ باتوں کے متن میں زیادہ تنقید ، زیادہ تحقیر ، زیادہ طنز ، اور ہمہ وقت ہر شخص ، ہر بات ، ہر شے ، ہر کام میں خرابیوں اور خامیوں کا رونا دھونا نظر آئےگا ۔ تو جان لیجیئے کہ وہاں وہاں اندر کا شور زیادہ ہے ۔ اور یہ تو اب آپ کے علم میں آ ہی گیا ہے کہ ، ہمارے اندر کا چور ہی ہمیں شور مچانے پر مجبور کرتا ہے ۔
آئیے یہاں انگریزی زبان کا بھی ایک مشہور قول پڑھ لیتے ہیں ۔
It's Not The Crime , But The Guilt That Kills Us From Within.
ہمارے اندر چھپا ہوا احساس گناہ اور ندامت ہمیں مار ڈالتا ہے ۔ ہم بےایمانیاں کرتے ہیں ، چوریاں کرتے ہیں ، غلطیاں کرتے ہیں ، ہر طرح کے گناہ کرتے ہیں ۔ اور پھر تمام عمر ان پر ، پردہ ڈالے ڈالے پھرتے ہیں ۔ بظاہر کچھ خاص نہیں ہوتا ۔ کوئی سزا نہیں ملتی ۔ دولت ، شان و شوکت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے ۔ مگر اندر کا پریشر بڑھتا چلا جاتا ہے ۔ اندر کا شور بڑھتا چلا جاتا ہے ۔ اور ایک وقت ایسا آتا ہے جب ہم کسی ایسے مسئلے ، ایسی پریشانی میں گرفتار ہو جاتے ہیں ۔ جس سے پھر باہر نہیں نکل پاتے اور دھیرے دھیرے پاتال کی گہرائیوں اور رسوائیوں میں ڈوبنے لگتے ہیں ۔ پھر ہمارا شور بھی بڑھتا جاتا ہے اور ہمارے اندر کا چور بھی باہر نکلنے لگتا ہے ۔ اور ہم اس وقت ، اس جگہ ، اس طرح پکڑے اور جکڑے جاتے ہیں جو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا ۔
ایسا آج سے نہیں ہو رہا ۔ یہ قصہ گزرے زمانوں سے چل رہا ہے ۔ میں اور آپ نہ انسانی نفسیات کے اصولوں میں ردوبدل کر سکتے ہیں اور نہ قوانین قدرت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر سکتے ہیں ۔ البتہ ' چور مچائے شور ' کے کلیدی نکتے کو سامنے رکھتے ہوئے جہاں ایک طرف اپنے اپنے ضمیر کا بوجھ ہلکا کرنے کی سعی کر سکتے ہیں ، وہاں دوسری طرف اپنے چاروں اطراف ، چوروں کو شور مچاتے دیکھ کر بآسانی ان کی شناخت کر سکتے ہیں ، ان کے چنگل میں پھنسنے سے خود کو بچا سکتے ہیں ، اور ان کی پر کشش باتوں اور نعروں کے سحر کو پھیلنے سے روک سکتے ہیں ۔
تاریخ گواہ ہے ۔ فرد کے من کا چور ہو یا کسی گروہ ، قوم یا ملک کے چوروں کا شور ہو ، ایک نہ ایک دن چور کو مور پڑ ہی جاتے ہیں ۔ بس اس دن ہمارا شمار نہ چوروں میں ہونا چاہئیے اور نہ شور مچانے والوں میں ہمارا نام شامل ہونا چاہئیے ۔ یہ اسی صورت ممکن ہے ، کہ ہم آج اور ابھی سے شور مچاتے چوروں سے اپنا تعلق منقطع کر لیں ۔ اپنی توجہ ان کی بلند و بانگ باتوں ، نعروں اور وعدوں سے ہٹا کر اپنی ذاتی اصلاح ، اپنے اندر کی صفائی کے عمل پر مبذول کر لیں ۔ اور اپنے اندر اور باہر کے چوروں اور ان کے شوروغل کو کم اور ختم کرنے کا عہد کرلیں ۔
یہ عہد اور اس عہد کی روشنی میں کی جانے والی تگ و دو ہمیں انفرادی سطح پر بےایمانیوں ، چوریوں ، گناہوں اور غلطیوں کے ارتکاب سے روکے گی ۔ ہمارے ضمیر کا بوجھ ہلکا کرے گی ۔ اور ہمارے اندر کے پریشر کا دباؤ کم کرکے ہمیں سکون اور عافیت سے ہمکنار کرے گی ۔

دعاگو ۔
ڈاکٹر صابر حسین خان ۔

ماہر نفسیات
وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ،
روحانی ، جسمانی ، جنسی و منشیات ۔

مصنف ، کالم نگار ، بلاگر ،
شاعر ، پامسٹ ۔

ڈائریکٹر : دعاگو ۔ دی کاونسلرز ۔
( مرکز ذہنی و جسمانی صحت )

DUAAGO
DR.SABIR HUSSAIN KHAN
CONSULTANT PSYCHIATRIST
PSYCHOTHERAPIST

AUTHOR. WRITER. COLUMNIST.
BLOGGER. POET. PALMIST.

www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.youtube.com/Dr.SabirKhan
www.drsabirkhan.blogspot.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں