بدھ، 19 فروری، 2020

ماضی، حال اور مستقبل ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

" ماضی ، حال اور مستقبل "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون ۔
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان ۔

سال گزشتہ عید قربان کے موقع پر اپنے گھر پر ہونے والی تقریب میں جب میں نے حسب روایت اپنی نئی شائع ہونے والی کتابیں " من قلندر " اور " دل کا نیلم " رشتہ داروں کی نذر کیں اور ان سے گزشتہ کتاب کی بابت پوچھا کہ" آئینے 2 " پڑھی تھی اور اگر پڑھی تھی تو کیسی لگی ۔ کون سا مضمون ، کون سی کہانی اچھی لگی ۔ تو سب نے اپنی اپنی رائے دی ۔ مگر ایک جواب نے مجھے لاجواب کردیا ۔
چھوٹے بھائی طارق کی بیوی ثناء نے کہا کہ اس نے ایمانداری سے بیچ بیچ میں سے کچھ چیپٹرز دیکھے ہیں ۔ مگر سب میں ہی آپ نے اپنا کوئی قصہ یا اپنے کسی کلائینٹ یا دوست ہی کا تذکرہ کیا ہے ۔ کوئی بھی خالص علمی یا فکری مضمون نہیں ۔ جس سے کچھ علم حاصل ہو ۔
" ہاں ں ں ۔ اچھا ۔ ایسا تھا کیا ۔ شاید ایسا ہی ہو ۔ میں پڑھ کر دیکھوں گا ۔ " ثناء نے مجھے ایک ہی جملے میں چت کردیا تھا ۔ اس کی انگریزی سے مجھے ویسے بھی ڈر لگتا ہے ۔ تو اس سے الجھنے کی بجائے میں نے خاموشی میں ہی اپنی عافیت سمجھی ۔ سامنے والا اگر سچ کہہ رہا ہو تو خاموشی سے اس کی بات سن بھی لینی چاہئیے اور مان بھی لینی چاہئیے ۔
ثناء کی بات صحیح تھی ۔ " آئینے 2 " میں شامل ستر کالمز یا مضامین میں کوئی چار چھ ہی ایسے ہوں گے جو خالص دقیق اور علمی و فکری ہوں ، اور یا جن میں ، ' میں ' یا مجھ سے Related کوئی شخص یا بات یا قصہ شامل تحریر نہ رہا ہو ۔
اب موجودہ کالم یا مضمون کو ہی دیکھ لیجئیے ۔ حسب عادت اپنے حالیہ ماضی کی ایک بات سے بات شروع کی ہے ۔ اور اب تک کی اتنی ساری باتوں میں کسی قسم کے لیکچر کا تڑکا نہیں لگا ہے ۔ ہاں البتہ شروع شروع میں جب 1993 میں باقاعدہ کالمز اور مضامین لکھنے کا سلسلہ شروع کیا تھا تو کئی سالوں تک بہت اہتمام اور انتظام سے علم نفسیات ، سماجیات اور عمرانیات کے چیدہ چیدہ نکات نکال کر خالص موٹیویشنل تحریریں عدم سے وجود کی شکل اختیار کرتی تھیں ۔ میری ابتدائی چھ سات کتابیں اسی نوعیت کے مضامین سے لبریز ہیں ۔ جن میں ' میں ' اور میرے حوالے اور میرے قصے شامل نہیں ۔ انتہائی خشک اور آبجیکٹو ٹاپکس ۔ Do'es اور Dont's سے بھرپور ۔ اور ان سب مضمونوں اور کتابوں کا متن ایک جملے میں سم اپ کیا جاسکتا ہے کہ ' اپنی زندگی کو کامیاب بنانے کے طریقے سیکھیں ' ۔ ڈیل کارنیگی کی ٹکر کی تحریریں ۔ ( کم از کم اس وقت میں یہی سمجھتا تھا اور بزعم خود ، بحیثیت ایک ماہر نفسیات کے اس زمانے میں وہ سب کچھ لکھ کر ، خود کو طرم خان کے روپ میں دیکھا کرتا تھا ) ۔ مگر پھر خود احتسابی اور تنہائی اور جدوجہد کے آٹھ دس سالوں نے سارا تکلف اور سارا کلف ، دھوبی پٹڑے مار مار کر اتار ڈالا ۔ دھو ڈالا ۔ اور دھو دھا کر نچوڑ بھی دیا ۔ علم اور فلسفے کے بھوت بھی ڈر کے مارے فرار ہوگئے ۔ روڑوں میں رلتے رلتے ، اوپر نیچے ہچکولے کھاتے کھاتے ، زندگی کے رولے کچھ کچھ سمجھ آنے لگے ۔ علم کی جگہ عمل اور فلسفے کی بجائے انسان اور ذہنی صحت کے ساتھ ساتھ روحانی صحت اور نفسیات اور شخصیت کے پیچھے چھپے روحانی حوالوں اور ہیولوں اور پہلووں اور انسان کے اندر کے آئینوں پر نگاہ جانے لگی ۔ ماضی ، حال میں بدلتا گیا اور حال ، مستقبل کا زاویہ نگاہ طے کرتا گیا ۔
کبھی ، کچھ بھی تو ایک جیسا نہیں رہتا ۔ آنے والا کل ، آج کی شکل اختیار کرتا ہے اور محض چوبیس گھنٹے بعد ماضی بن جاتا ہے ۔ وقت کی بے ثباتی کا جب یہ حال ہو تو کہاں کی دانش وری ، کیسی علامہ گیری ۔ بس پل دو پل کی درویشی بچتی ہے ۔ اور وہ بھی نصیب والوں کے حصے میں آتی ہے ۔ آج اور ابھی جو ہے ، وہ کل نہیں رہے گا ۔ جو کل تھا ، وہ کل نہیں ہوگا ۔ بس بے کلی ، وجود کا حصہ بن کے ساتھ چلتی رہتی ہے ۔ کیا کھویا ، کیا پایا ، کیا صحیح تھا ، کیا غلط تھا ، کبھی طمانیت تو کبھی پشیمانی ۔ امروز و فردا کی چکی کے دو پاٹوں کے بیچ لمحوں کا گھٹالا بنتا رہتا ہے ۔ اپنے فیصلوں کا بوجھ تقدیر کے گلے ڈال کر بھی حتمی سرشاری سے جی شاد نہیں ہو پاتا ۔ حال ، حال نہیں رہ پاتا ۔
جب یہی سچ ہے تو کوئی کیوں کر ، تمام عمر ، ایک ہی ڈگڈگی بجاتا رہے ۔ آج ، سوچ کا جو حال ہے ، وہی آج کے سچ کا آئینہ ہوتا ہے ۔ گزرے ہوئے وقت کی باتوں اور یادوں کے عکس کا ہرکارہ ہوتا ہے ۔
بہت سے لوگ ، بلکہ بہت سے کیا ، زیادہ تر لوگ ابتدائے عمر سے اپنی طبیعت اور فطرت کے مطابق کسی ایک خاص ٹریک کا انتخاب کرلیتے ہیں یا قسمت اور حالات اور واقعات ان کو کسی راستے پر چلنے پر مجبور کردیتے ہیں ۔ پھر تمام عمر وہ ایک ہی طرح کا کام ، ایک ہی طریقے سے کرتے چلے جاتے ہیں ۔ ایک ہی انداز ، ایک ہی پیٹرن میں اپنے حال اور مستقبل کو ماضی میں ڈھالتے چلے جاتے ہیں ۔ بہت کم ، بلکہ بہت ہی کم کم لوگ وقت کے ساتھ اپنے راستے بدلتے ہیں یا اپنے اپنے کاموں میں جدت اور ندرت پیدا کر پاتے ہیں ۔
کام کی نوعیت تو قدرت کی مرہون منت ہوسکتی ہے ۔ مگر کسی بھی کام ہمہ وقت ، مزید بہتری کا امکان موجود ہوتا ہے ۔
کسی بھی کام میں مزید بہتری عام طور پر اسی وقت ہو پاتی ہے ، جب جب ہم شعوری یا لاشعوری طور پر اس بات کی خواہش رکھتے ہوں ، اور اپنے دل اور دماغ کو ہمہ وقت ، ہمہ جہت لرننگ کے لئیے کھلا رکھتے ہوں ۔ اور صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کرنے اور فیصلے کے بعد اس پر عمل کرنے اور قائم رہنے کی کوشش کرتے ہوں ۔ اسی صورت ہمارا ماضی ، حال اور مستقبل ، تینوں طرح طرح کے رنگوں اور رنگ برنگی روشنیوں سے طرحدار اور روشن ہو سکتا ہے اور رہ سکتا ہے ۔ اور زندگی کے ہر مرحلے ، ہر اسٹیج ، ہر جنکشن پر ہمارے لئیے اور دوسروں کے لئیے کچھ نیا اور کچھ بہتر سامنے آسکتا ہے ۔
بصورت دیگر میرے اور آپ کے سامنے بہت سے لوگوں کی زندگی کے بہت سے سال گزرے ہوئے ہیں ، گزر رہے ہیں اور گزر چکے ہیں ۔ ایک ڈگر ، ایک روش ، ایک رنگ میں ان کا ماضی اور ان کا حال دکھائی دیتا ہے ۔ اور ماضی اور حال کا جو حال ہوتا ہے ، وہی عام طور پر مستقبل کی صورت تشکیل دے رہا ہوتا ہے ۔
قدرت کا یہ کلیہ فرد اور خاندان کے ماضی ، حال اور مستقبل پر بھی لاگو ہوتا ہے ۔ اور ملک اور قوم کے حال اور حالت کی بھی عکاسی کررہا ہوتا ہے ۔ ذرا دیر کو اپنی ذات کو بالائے طاق رکھ کر پوری قوم کے ماضی اور حال پر ایک طائرانہ نظر دوڑائیے ۔ ملک کے ہر نظام کو دیکھئیے ۔ کھنگالئیے ۔ ابتر ماضی ، بدترین حال ، منتشر مستقبل ۔ وجوہات پر ہزاروں لوگوں نے اپنے اپنے انداز میں ہزاروں باتیں کی ہیں ۔ اور مستقل کرتے چلے جارہے ہیں ۔ مگر اجتماعی سطح پر ملک و قوم کی حالت بدلنے کا نہ کبھی کسی نے سوچا ، نہ کبھی کسی نے صدق دل سے کوئی عملی قدم اٹھایا ۔ اور نہ ہی اس وطن کے باسیوں نے اپنے ماضی سے کوئی سبق سیکھا ۔ اور نہ ہی یہ قوم اپنا حال بدلنے کی کوئی کوشش کررہی ہے ۔
اس صورتحال میں اس قوم کا کیا مستقبل ہوسکتا ہے ۔ یہ الجبرا کا کوئی پیچیدہ سوال نہیں ۔ جو آج ہمارا حال ہے ۔ اس سے کم از کم دس گنا زیادہ برا حال ہونے والا ہے ۔ اور ہم میں سے کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ۔ ہم میں سے کوئی بھی اپنی حالت زار کو خوشگوار بنانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا ۔ ہم میں سے کوئی اس حوالے سے پہل نہیں کرنا چاہتا ۔ اپنے لگے بندھے ، اچھے برے ، روٹین کو نہیں بدلنا چاہتا ۔ خود کچھ نہیں سوچنا چاہتا ، خود کچھ نہیں کرنا چاہتا ۔ نئے دور کے نئے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوئے بنا ، دوسروں سے امداد اور تعاون کی طلب میں ، غیبی مدد کے انتظار میں ہم سب نے آہستہ آہستہ اپنی زندگی کو اس نہج پر ڈال دیا ہے ، جہاں کسی ترقی ، کسی پروگریس کی توقع نہیں ۔ دن بہ دن ، ہر حوالے سے ہمارا حال ، بد سے بدترین ہورہا ہے ۔ اور ہم خواب سہانے مستقبل کے دیکھ رہے ہیں ۔ دیوانے پن کی انتہا نے ہم سب کے سارے حواس ماوف کردئیے ہیں ۔ ہمارے ماضی کے آئینے پر ہمارے مستقبل کی تباہی کی لکیریں پھیلتی جارہی ہیں ۔ اور ہم ایک دوسرے سے زور آزمائی کے ساتھ ساتھ ہر طرح کے ماضی اور ہر طرح کے مستقبل سے بے نیاز ، اپنے اپنے حال میں مست ، دن و رات بسر کئیے جارہے ہیں ۔
اس سے پہلے کہ ہمارا مستقبل اور ہمارا حال ہمارے ماضی کو اور شکستہ کرے ، کیوں نہ ہم آج سے اپنے حال کو بہتر بنانے کے لئیے ایسے کام شروع کریں جو ہمارے دلوں کو تقویت دینے کے ساتھ ، آنے والے دنوں کو بھی مستحکم کرسکیں اور آنے والی نسلوں کے حال اور مستقبل کو بھی سنوار دیں ۔
ہم سب اگر اپنی اپنی جگہ کچھ اس طرح سوچنے اور کرنے لگیں گے تو پوری قوم کا حال اور مستقبل ، ماضی سے بہتر ہونے لگے گا ۔ لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم اپنی لگی بندھی ڈگر چھوڑ کر زندگی کے نئے معنی اور نئے رنگ تلاش کرنے پر راضی ہوں اور اپنے اپنے کمفرٹ زون میں رہنے کے ساتھ سیکھنے ، سمجھنے اور عمل کرنے کی اہلیت کو پروان چڑھانے کے لئیے دلی طور پر راضی ہوں ۔ بند دل ، بند دماغ ، بند روح ، بند سوچ ہمارے ماضی ، حال اور مستقبل ، تینوں زمانوں کے دروازوں کو بند کرتی ہے ۔ بند رکھتی ہے ۔


" ماضی ، حال اور مستقبل "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ،
جسمانی ، روحانی ، جنسی اور منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ

www.drsabirkhan.blogspot.com
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
www.g.page/DUAAGO 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں