اتوار، 22 جولائی، 2018

" سچے اپنوں کا انتخاب کیجیے " ڈاکٹر صابر حسین خان

" سچے اپنوں کا انتخاب کیجیے " ڈاکٹر صابر حسین خان " میں نے مینیجر سے بات کرلی ھے " تم چیک دوبارہ ڈلوادو. کلئیر ہوجائے گا " فرحان کا جب فون آیا تو اس وقت تک میں, اس بینک کے اسسٹنٹ مینیجر سے بات کرچکا تھا. جس بینک کے سات ارب روپے نیب یا سپریم کورٹ یا پتہ نہیں کس نے فریز کردئیے تھے. منی لانڈرنگ کرپشن یا پتہ نہیں کس وجہ سے. اور چونکہ مذکور بینک میں میرا بھی اکائونٹ تھا گزشتہ آٹھ نو سال سے اور کچھ پیسے اس میں پڑے ہوئے تھے. تو حفظ ما تقدم میں اس میں سے پیسے نکلوا رھا تھا. اور چونکہ مجھے فرحان کو بھی پیسے دینے تھے تو اسے چیک دے دیا تھا. "آپ الیکشن اور کرپشن پر کیوں نہیں لکھتے. بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ اگلے الیکشن میں صوبائی حلقے سے آپ بھی آذاد امیدوار کھڑے ہوجائیں ". فرحان نے مشورہ دیا. "میں بہت سی جگہوں پر گیا ہوں. زندگی میں پہلی بار کراچی میں آزاد امیدواروں کے بینرز دیکھے ہیں. یہ ساری سیاسی پارٹیاں کرپٹ ہیں. ایک سے بڑھ کر ایک. جب ملک عام آدمی. میرے اور آپ جیسے آدمی اپنے اپنے حلقوں کے مسئلوں کے لئے آگے نہیں آئیں گے. تب تک یہ سیاسی پارٹیاں اس طرح ہم آپ کو بےوقوف بناکر الو کرتی رہیں گی. آپ ذرا سوچیں. ڈیمز بنوانا حکومتوں کا کام ہے یا عام آدمیوں کا. یہ سب..... گزشتہ تیس سالوں میں ہم سے پیسہ لوٹ کر باہر لے گئے اور کھربوں پتی بن گئے اور اب ہمیں اپنے دو تین لاکھ روپے بچانا مشکل ہورہے ہیں کہ کہیں وہ بھی ڈوب نہ جائیں. اور بینک بند نہ ہوجائے. لاکھ دو لاکھ لوگوں کو..... کردینا چاہیے. سب مسئلہ حل ہوجائے گا ". فرحان دل سے کہ رہا تھا. میرا دل بھی دکھا ہوا تھا. اور سب سے بڑی بات مذکورہ بینک کے نام کو خبروں کی زینت بنتے ہوئے دیکھ کر اور پڑھ کر میری اپنی کاہلی اور سستی پر بھی ضرب پڑ گئ تھی. اسکا غصہ الگ تھا. کہ اب پھر کسی اور بینک کے چکر کاٹنے پڑیں گے. آجکل بینک اکاؤنٹ کھلوانا بھی سرکار کے دیگر کاموں کی طرح دشوار ہے. اکاؤنٹ تو پھر بھی کھل جائے گا کبھی نہ کبھی. ہماری جذباتیت سے نچڑی قوم کی سب سے بڑی دشوار ی یہ ہے کہ وہ فطرتا اینٹی ہیرو ہے. پہلے جذبات میں اندھی گونگی ہو کر بت تراشتی ہے, اسے اپنے کندھوں پر سوار کرتی ہے. اور پھر جونہی شخصیت پرستی کی ماری قوم اپنے تراشے ہوئے بتوں سے بیزار ہوتی ہے تو کل کا ھیرو آج کا اینٹی ھیرو قرار پاتا ہے. یکدم ولن بن جاتا ہے. اور ایسا ھر اس قوم ھر اس ملک میں ہوتا ہے جہاں انفرادی, خاندانی اور ملکی حکومتی ھر سطح پر کسی قسم کا کوئی نظام, کوئی سسٹم نہیں ہوتا. ھر فرد محض اپنے لئے جیتا ہے. اجتماعی اور قومی فائدوں کا سوچتے ہوئے پر جلنے لگتے ہیں. ذاتی مفاد, خودغرضی اور نفسانفسی. یہ تینوں عناصر آج ہماری قوم کا ناسور بن چکے ہیں. کیا یہ صحیح ہے کیا غلط. کیا فرق پڑتا ہے. جو ملتا ہے اور جیسے ملتا ہے, لے لو چھین لو. قبضہ کرلو. صحیح کام بھی غلط طریقے سے کرنا ہے. اور غلط طریقوں کے کاموں کو اور فروغ دینا ہے. جیسی کریں ویسی بھرنی. ہماری قوم ستر سال سے جو بوتی رہی ہے. اپنے حکمرانوں کی شکل میں کاٹتی رہی ہے. ہم اگر چار روپے کی چوری کریں گے تو ہمارے سروں پر چار ارب روپے چرانے والوں کو ہی مسلط کیا جائے گا. قوانین قدرت کبھی کسی قوم کے لیے نہیں بدلے. آج ہمیں قدرت پھر ایک بار موقع دے رہی ہے. خود کو بدلنے کا عہد کریں گے تو لامحالہ نئے حکمرانوں کے انتخاب کے دن ہمارے دل میں صحیح نشان پر ٹھپہ لگانے کا خیال ہو گا. ہم سچے بننے, دیانتداری اور ایماندار بننے اور خلوص سے لوگوں کی خدمت کا جذبہ رکھنے کی اندرونی خانہ تبدیلی لائیں گے تو اس کی روشنی باھر بھی پھیلے گی. شمع سے شمع جلے گی. آج اور اسی لمحے اپنی ذات کو بدلنے کا وعدہ کرلیجئے. جذباتیت اور ذاتی مفاد اپنے اندر سچائ اور حق گوئی کو لانے اور پروان چڑھا نے کا عہد کرلیجئے. از خود ہماری آنکھوں پر سے پردہ ہٹ جائے گا. اور ہمیں اپنو ں اور سچوں کی پہچان ہو جائے گی. نعروں, جھوٹے وعدوں, بڑی بڑی باتوں اور کرپشن میں ڈوبے ہوئے لوگوں کو خود سے دور کر لیجئے. جذباتیت اور ذاتی مفاد کے بت کو توڑ دیجئے. میرٹ کا نظام اپنی ذات, اپنے گھر, اپنے خاندان کے ساتھ قوم و ملک کےلئے بھی لاگو کیجیے. میرٹ کی بنیاد صرف سچائی, ایمانداری اور دیانتداری ہونا چاہیے. میرٹ کے نظام میں مستحق کو اسکا حق ملتا ہے. میرٹ کے نظام میں کوئی اپنا نہیں ہوتا .کوئی پرایا نہیں ہوتا. میرٹ کا فیصلہ تقوی, اخلاق, علم, کام, خلوص اور دیانتداری پر ہوتا ہے. جو سچا ہے وہ اپنا ہے. جو جھوٹا ہے اور بے ایمان ہے اور مفادات کا شکار ہے, وہ خواہ سگا اور خونی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو, وہ پرایا ہے.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں