بدھ، 4 مارچ، 2020

خلا اور خالی پن ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

" خلا اور خالی پن "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

خلیل جبران کے نام سے وہ سب لوگ ضرور واقف ہوں گے جو کتابوں سے دلچسپی رکھتے ہیں اور پڑھنے پڑھانے کے جذبے سے سرشار رہتے ہیں ۔ وجہ شہرت ، فلسفہ اور فلسفہ حیات ہے ۔ زندگی کیا ہے اور زندگی کیسی اور کیسے گزارنی چاہئیے ۔ دنیا اور رشتوں کی اصل حقیقت کیا ہے ۔ اور ان سب سے ملتے جلتے نظریات اور خیالات اور حیات و ممات کی نہ سلجھنے والی تہہ در تہہ گتھیاں ۔ دنیا کے ہر کونے میں لٹریچر سے شغف رکھنے والے ہر قاری نے اپنے مطالعے کے سفر میں کبھی نہ کبھی ضرور خلیل جبران کے اسٹیشن پر تھوڑی دیر کا پڑاو ضرور ڈالا ہے ۔
دائمی بقا ، فنا کے بنا ممکن نہیں ۔ خوشی کی تلاش ، سراب کے سوا کچھ نہیں ۔ زندگی کا اصل سچ ، غم ہے ۔ سچ کے علاوہ کوئی اور شے دل کو سکون نہیں دے سکتی ۔ جیتے جی موت کی حقیقت پا لینا ، درحقیقت دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے ۔ خود اختیاری تنہائی کی خواہش اور پھر اس خواہش کی تکمیل ہی دراصل انسان کو انسان بناتی ہے ۔ اور دوسرے انسانوں کو انسان سمجھنے کی سمجھ عطا کرتی ہے ۔ جس شخص کو اس سچ کی سمجھ مل جاتی ہے ، وہ ابدی اطمینان پا لیتا ہے ۔ مگر چونکہ تنہائی کو تن من دھن سے اپنالینا آسان نہیں ہوتا ، لہذا شاذ و نادر ہی کوئی کوئی ، زندگی کے سب سے بڑے سچ کو گلے لگا پاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ساری دنیا اضطرابی حالت میں ہے اور ہر شخص ، خوشی اور سکون کی تلاش میں اپنی ساری عمر گزار دیتا ہے ۔ لوگوں میں ، محفلوں میں ، باتوں میں ، وقتی خوشی اور عارضی اطمینان ڈھونڈتا رہتا ہے اور بوقت مرگ اس آگہی سے دوچار ہوتا ہے کہ آنکھیں بند ہونے کے بعد ازلی اور ابدی تنہائی ہی اس کا مقدر ہے ۔ اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے ۔ اس نے جیتے جی تنہائی کو اپنانے کی عادت ہی نہیں اپنائی ہوتی ۔ روح کو جو لبادہ ، زندگی میں پہنایا جاتا ہے ، موت کے ہاتھ ، پل بھر میں اسے پھاڑ پھینکتے ہیں ۔ نہ چاہنے کے باوجود مرنا پڑتا ہے ۔ اور مرتے ہی سب لوگوں ، سب باتوں کا ساتھ چھوٹ جاتا ہے ۔ اگر زندگی میں تنہائی کا تجربہ رہتا ہے تو موت کے بعد کا سفر آسان ہوجاتا ہے ۔
بعد کے سفر میں آسانی اور روانی رکھنے کے لئیے سفر کی شروعات کی صعوبتیں ، تکلیفیں اور مشکلات برداشت کرنا پڑتی ہیں ۔ سفر ، خواہ کسی بھی نوعیت کا ہو ۔ اور جو سفر جتنا زیادہ لمبا ہوتا ہے ، تیاریاں بھی اسی حساب سے رکھنی اور کرنی پڑتی ہیں ۔
مگر انسان ، قدرت کی عجیب مخلوق ہے ۔ مختصر سے وقفے کو پوری زندگی سمجھتا ہے ۔ اور ابدی زندگی کے سفر کے لئیے اس کی تیاری نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے ۔
خاک اور خاکستر ہوجانے والے جسم کو سنوارنے کے لاکھوں جتن کرتا ہے ۔ ہمیشہ رہنے والی روح کو نکھارنے کے لئیے اس کے پاس وقت نہیں ہوتا ۔
روح نے سدا ساتھ نبھانا ہے ۔ بدن نے مٹی میں مل جانا ہے ۔ مگر فہم و فراست کی دولت کی وافر موجودی کے باوجود انسان ، گھاٹے کا سودا کرتا ہے اور بدنی زندگی کی بے سکونی کے ساتھ روحانی زندگی کی ابدی بے چینی کو بھی اپنے جی کا جنجال بنا لیتا ہے ۔
اپنے تمام علم اور عقل کے باوجود انسان یہ نقصان اس لئیے اٹھاتا ہے کہ وہ تنہائی سے گھبراتا ہے ۔ کنی کتراتا ہے ۔ کیونکہ تنہائی کے تانے بانے ، خلا اور خالی پن سے ملے ہوتے ہیں ، جڑے ہوتے ہیں ۔ اور تنہائی سے کہیں زیادہ جان لیوا ، خلا اور خالی پن کی دوسراہٹ ہوتی ہے ۔
تنہائی کا سفر ، آہستہ آہستہ ، انسان کے اندر صفائی اور ستھرائی کا پہیہ گھمانے لگتا ہے ۔ جس کے نتیجے میں روح کا سناٹا گونجنا شروع کردیتا ہے ۔ خلا پیدا ہونے لگتا ہے ۔ خالی پن کا احساس اس خلا کے کونوں کو بھرنے لگتا ہے ۔ جوں جوں تنہائی بڑھتی ہے ، اندر کا خلا بھی بڑھتا ہے ۔ اور اس خلا کو پر کرنے کے لئیے زندگی کی بے وقعتی اور رشتوں کی کم مائیگی کے خیال لپک لپک کر ادھر ادھر چپکنے لگتے ہیں ۔ ہر شے اور ہر بات کا کھوکھلا پن نہاں ہونے لگتا ہے ۔ خالی پن ، شریانوں سے خون کھینچ کر وجود اور جان کو ہلکان کر ڈالتا ہے ۔ یوں لگنے لگتا ہے کہ اب ذہنی رو بھٹکی ، اب جان نکلی ، اب کلیجہ پھٹ کر منہہ کو آیا ، اب غشی کا دورہ پڑا ہی پڑا ، اب اندر کا وحشی کپڑے پھاڑ کر باہر کو دوڑا ۔ دیوانگی کو دوچار گام باقی رہ جاتے ہیں تو انسان سالوں کی تپسیا توڑ کر ، تنہائی کا حصار چھوڑ کر خود کو عام لوگوں کے بیچ لا کھڑا کردیتا ہے ۔ پھر وہ کہیں کا نہیں رہ پاتا ۔ نہ اپنے اندر جی پاتا ہے ۔ نہ باہر کوئی امان پاتا ہے ۔ اس کے چاروں اور خلا بڑھتا جاتا ہے ۔ اس کے اندر کا خالی پن ، کھوکھلے ڈھول کی طرح بجتا رہتا ہے ۔ اور وہ یونہی اسی حالت میں ہمیشہ کی تنہائی کی گھاٹی میں اتر جاتا ہے ۔
خلا اور خالی پن کا قصہ آج کا نہیں ۔ تنہائی کی کہانی بڑی پرانی ہے ۔ کائنات کے پہلے آدمی سے لیکر آج کے انسان تک اور دنیا کے خاتمے پر ، باقی رہ جانے والے آخری آدمی کا پہلا اور آخری جذباتی اور ذہنی مسئلہ تنہائی سے نبرد آزما ہوکر اپنے اندر کے خلا اور خالی پن کو دور کرتے رہنے کی جستجو اور مشقت ہے ۔ اس کے لئیے اسے اپنی مختصر سی زندگی میں لاکھوں جتن کرنے پڑتے ہیں ۔ خمار گندم سے لے کر خمار انگور تک اور آئینے سے لیکر عارضی ناطوں کی تلاش تک ۔ اپنی تنہائی دور کرنے کے لئیے انسان ہر دشت کی خاک چھانتا ہے ۔ پھر بھی آخر وقت ، تشنہ لب ہی رہتا ہے ۔
وجہ ؟ ۔ وہ سب کچھ سیکھ لیتا ہے مگر تنہا رہنا اور اپنے خلا اور خالی پن کو دور کرنا نہیں سیکھتا ، نہیں سیکھنا چاہتا ۔ یہاں تک کہ اپنی دوسراہٹ کے لئیے کتے اور بلیاں پال لیتا ہے ۔ اگر اپنے جیسے کسی اور انسان سے اس کی ہم آہنگی نہیں ہو پاتی ۔ یا نہیں رہ پاتی ۔
غار حرا کی خاموشی اور تنہائی نے انسان اور انسانیت کو رہتی دنیا تک کا سب سے اعلی مذہب دیا ۔ ضابطہ اخلاق اور ضابطہ حیات دیا ۔ تنہائی کی دولت نے پوری کائنات کو مالا مال کردیا ۔ مگر انسان نے اس کائناتی حقیقت سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا ۔ اور اب تک اپنی فطرت اور اپنی جبلت اور اپنی نفسیات کے ہاتھوں مجبور ہو ہو کر اپنی مرضی سے اپنی تنہائی کا گلا گھونٹے جا رہا ہے ۔ اپنے سکون کو اپنے ہاتھوں پامال کئیے جارہا ہے ۔
اپنی تنہائی کو اپنے مقصد زندگی سے ہم آہنگ کیجئیے ۔ اپنے خلا کو تخیل کی بلند پرواز کے سپرد کیجئیے ۔ اپنے خالی پن کو خلق کی خدمت کے لئیے وقف کیجئیے ۔ آپ کو اپنے ساتھ رہنا آجائے گا ۔ پھر تنہائی کھلنے کی بجائے پیاری لگنے لگے گی ۔ خالی پن کا احساس ہوا ہوجائے گا ۔ اور خلا ، کائناتی توانائی سے بھرتا چلا جائے گا ۔

" خلا اور خالی پن "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، اعصابی ، دماغی ،
جسمانی ، روحانی ، جنسی اور منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ ۔

www.drsabirkhan.blogspot.com
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.g.page/DUAAGO 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں