پیر، 25 نومبر، 2019

" جوکر

" جوکر "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

Every one is a Joker in one way or the other in the eyes of others , but not every Joker is full of jokes . And no one has the time to look beyond the Mask and see the other side .

آپ میں سے اکثر لوگوں نے حال ہی میں ریلیز ہونے والی انگریزی فلم " جوکر " نہیں دیکھی ہوگی ۔ میں بھی نہیں دیکھتا اگر آٹھ دس دن پہلے رات گئے پروفیسر اقبال آفریدی کا فون نہیں آتا ۔ اس فون سے پہلے اس فلم کی بابت میری معلومات بس یہاں تک تھیں کہ دو چار ہفتے پہلے میرے ہی شعبے نفسیات سے وابستہ میری دونوں بیٹیاں یہ فلم دیکھنے گئی تھیں ۔ اور یا اخباروں اور فیس بک کے ذریعے یہ اطلاع مل رہی تھی کہ " جوکر " دنیا بھر میں بزنس کے نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے ۔ مگر چونکہ میں ازخود 500 روپے کا ٹکٹ خرید کر سنیما ہال میں فلم دیکھنے کی عیاشی شاذ و نادر ہی کرتا ہوں اور خاص طور " پبلک " میں سپر ہٹ فلم جو کروڑوں اور اربوں ڈالر کا بزنس کررہی ہو ، کو کمپیوٹر پر بھی دیکھنے سے Avoid کرتا ہوں ۔ تو میرے ذہن کے کسی بھی خانے میں جوکر کا نام محفوظ نہیں تھا ۔
پروفیسر اقبال آفریدی نے مجھ سے نفسیات کے موضوع پر کسی اچھی فلم کا پوچھا ۔ اور بتایا کہ کسی فارماسوٹیکل کمپنی نے اگلے ہفتے مقامی سنیما ہال میں شہر کے تمام سائیکاٹرسٹ اور طبی نفسیات کے ماہرین کی Awareness اور تفریح طبع کے لئیے " جوکر " یا " ٹرمینیٹر " کے دکھانے کا اہتمام کیا ہے ۔ تو کوئی اور اچھی فلم ہے تو اس کا بتائیں ۔ اسی رات ، اسی چکر میں پھر بستر پر لیٹے لیٹے موبائل فون پر دو عدد فلمیں دیکھ لیں گئیں اور ان کے نام آفریدی صاحب کو میسج کردئیے گئے ۔ اور پھر اگلے تین دن تک سب نام ، سب فلمیں ذہن سے محو ہوچکے تھے اور روٹین کا شیڈول شروع ہو گیا تھا ۔
مگر پھر چوتھے روز فارماسوٹیکل کمپنی کا نمائندہ ، کلینک آگیا ۔ " جوکر " کی Invitation لیکر ۔ مذکورہ کمپنی کے کسی نمائندے سے گزشتہ دس بارہ برس سے کبھی کوئی پروفیشنل ملاقات نہیں ہوئی تھی ۔ تو اس کمپنی کا کارڈ دیکھ کر حیرت ہوئی ۔ کہ آج کیسے ۔ پھر اندازہ ہوا کہ آفریدی صاحب نے کہا ہوگا ۔ پروفیسر اقبال آفریدی ان گنت بار اپنی محبت اور خلوص میں ان گنت پروگرامز میں بلاتے رہے ہیں ۔ اور میں ہر بار ڈاج دیتا رہا ہوں ۔ اس لئیے اس بار میڈیکل ریپ سے تو میں نے کچھ نہیں پوچھا ۔ البتہ فلم شو میں آنے پر حامی بھر لی ۔ اگر پروفیسر اقبال آفریدی کا فون نہیں آیا ہوتا ، اور مجھے نہیں پتہ ہوتا کہ اس پروگرام کے پیچھے کون Initiative لے رہا ہے ، تو اس بار بھی میں نے ڈاج دے جانا تھا ۔
اور پھر کچھ یہ بھی تھا کہ بڑے عرصے سے کوئی 'سپر ہٹ عوامی فلم' نہیں دیکھی تھی ۔ سو وقت مقررہ پر حرا اور سعد کو ساتھ لے کر سنیما گھر پہنچ گیا ۔ کمپنی کے نمائندوں نے شہر بھر کے لگ بھگ تمام معروف سینئیر اور جونئیر ڈاکٹر بلائے تھے ۔ جن کا تعلق شعبہ نفسیات سے تھا ۔ کئی ڈاکٹر خواتین اور حضرات اپنے آٹھ دس سالہ بچوں کو بھی ساتھ لائے تھے ۔ جبکہ " جوکر " کو 18 پلس یعنی صرف بالغان کے لئیے Approve کیا گیا ہے ۔ اس حوالے سے شاید کمپنی کے نمائندے Invitation دیتے ہوئے بھول گئے تھے کہ برائے مہربانی کم عمر بچوں کو ساتھ نہ لائیے گا ۔ یہ دیگر بات ہے کہ فلم دیکھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ یہ فلم تو بڑوں کے دیکھنے کے لئیے بھی نہیں ہے ۔
ہر چیز ہر ایک کے لئیے نہیں ہوتی ۔ ہر چیز ہر ایک کے لئیے نہیں بنتی ۔ مذکورہ فلم کا شو شروع ہونے سے پہلے فارماسوٹیکل کمپنی کے نمائندے نے Audience کو بتایا کہ چونکہ اس فلم کی کہانی Mental Health سے متعلق ہے ، اس لئیے ماہرین نفسیات کو یہ خصوصی شو دیکھنے کے لئیے مدعو کیا گیا ہے ۔
پوری فلم دیکھنے کے بعد بھی ذہنی صحت کی بابت کوئی بات پتہ نہیں چل سکی ۔ کیونکہ فلم کا موضوع ، ذہنی صحت نہیں ، بلکہ ذہنی و کرداری و شخصی بگاڑ یا پرسنالٹی ڈس آرڈر Personality Disorder تھا ۔
جب ہم Mental Health کی بات کرتے ہیں تو اس میں کسی بھی ذہنی و نفسیاتی بیماری کی علامات سے لےکر تشخیص اور تشخیص کے بعد اس بیماری کی مینجمنٹ اور ٹریٹمنٹ پلان اور مناسب علاج کے بعد مریض کی Rehabilitation اور معاشرے میں اس کے مفید و موثر کردار کے طریقوں اور دیگر سہولیات سمیت تمام Areas آتے ہیں ۔ بیماری یا بگاڑ کی تصویر کشی الگ بات ہے اور صحت و تعمیر کے پہلو اجاگر کرنا بالکل الگ ہے ۔ تعمیر و اصلاح کے لئیے منفی اور تخریبی نکات کو کسی رنگینی کے بنا ، بیان کرکے پھر ان کے سدباب اور Rectification کے مختلف طریقوں پر مدلل گفتگو کسی بھی انداز اور کسی بھی رنگ میں کرنا اور خواص و عوام کی ذہن سازی کرنا ہر اس فرد اور ادارے کی ذمہ داری ہے ، جو متعلق شعبے سے منسلک ہو اور علم و ادراک رکھنے کے ساتھ خلق کی فلاح کی نیت بھی رکھتا ہو ۔
لیکن اگر Objective محض کمرشل ہو اور لوگوں کی نفسیات کے تاریک اور کمزور پہلووں کو کیش کرواکے شہرت اور دولت کمانا ہو اور Hidden Agenda کے تحت لوگوں کی نفسیات اور شخصیت کو مختلف زاویوں سے Manipulate کرنا ہو تو " جوکر " جیسی فلمیں بنا کر مارکیٹ میں Float کردی جاتی ہیں ۔ جو اپنے وقت میں نام بھی کماتی ہیں اور بزنس بھی ۔ اور دوسری طرف دیکھنے والوں کی سوچ کو پراگندہ بھی کرتی ہیں ۔
نیو ورلڈ آرڈر کے حوالے سے پہلے بھی کئی تحریریں آپ کی نذر کی ہیں ۔ سائیکولوجیکل وار فئیر کے اس ہنگامہ خیز دور میں بین الاقوامی قوتوں کے نیو ورلڈ آرڈر ایجنڈے کا بنیادی نکتہ ایک ہے ۔ دنیا کے ہر کونے ، ہر خطے میں Anarchy اور Chaos پیدا کرنا اور نفرت ، غصے اور قتل و غارت اور تشدد کے جذبات اور خیالات کو ہوا دینا ۔
" جوکر " بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی نظر آتی ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ ننانوے فیصد لوگ اس چھپی ہوئی حقیقت کو دیکھ نہ پائیں اور اس بات سے اتفاق نہ کر پائیں ۔ یہی اس فلم کی اور اس فلم کی طرح کی اور ہزاروں فلموں ، ڈراموں ، ناولوں ، تذکروں ، مباحثوں ، کی خوبصورتی ہے کہ کوئی بھی بین السطور معنوں کو نہ Read کر پاتا ہے ، نہ Decode کر پاتا ہے ۔ اور ان کے تخلیق کار اور ان تخلیق کاروں کے پیچھے ان کے ڈائریکٹر آہستہ آہستہ اپنی منصوبہ بندی میں کامیاب ہورہے ہیں ۔ تفریح کے نام پر ایسی فلمیں اور ایسے ڈرامے تخلیق کئیے جارہے ہیں جو مثبت اور تعمیری انسانی صفات کو Promote کرنے کی بجائے منفی اور تخریبی Elements کو ہیرو کے روپ میں پیش کر رہے ہیں ۔ اور ان گنت ریکارڈ بریک کرکے ، ان گنت ایوارڈز اکٹھا کر رہے ہیں ۔
انسان کی نفسیات کی بنیادی کمزوریوں میں سے ایک کمزوری یہ بھی ہے کہ وہ اپنی فطرت سے مجبور ہو کر کسی بھی منفی جذبے یا خیال یا نظریہ سے بہت جلد متاثر ہو جاتا ہے ۔ اور یہ منفی جذبے ، خیالات اور نظریات جب تواتر سے مسلسل مختلف رنگوں اور پیراوں میں لوگوں کے سامنے لائے جاتے ہیں تو مضبوط سے مضبوط شخصیت و کردار کے قلعے میں بھی دراڑیں پڑنے لگتی ہیں ۔ اعلی تعلیم یافتہ اور مہذب ترین افراد بھی جلد یا بدیر اپنی Productivity اور Proactivity کے دائرے سے باہر نکل کر Reactive اور Destructive ہونے لگتے ہیں ۔
ڈاکٹرز ، پروفیسرز ، وکلاء ، انجینئرز ، ادیب ، شاعر ، صحافی اور ان سب کی طرح سوسائٹی کے دیگر Elites جب صبر ، شکر ، تحمل ، بردباری اور قناعت کو ترک کرکے مادی مفادات اور اپنی ذاتی خواہشات کی تسکین میں مصروف ہوجاتے ہیں تو وہ بھی معاشرے کے عام آدمیوں کی طرح ، ہر طرح کے منفی ایجنڈے اور پروپیگنڈے کے اثرات کے زیر سایہ آجاتے ہیں ۔
اور یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ان کے حقوق کی پامالی ہورہی ہے اور وہ بھی اپنی شناخت کھو کر Mob کا حصہ بن جاتے ہیں ۔
" جوکر " جیسی فلمیں جہاں ایک طرف دنیا بھر کے عام آدمیوں کے ذہنوں کو مسخ کررہی ہیں ۔ وہاں دوسری جانب Intellectuals کی نفسیات میں بھی Drilling کررہی ہیں ۔ سب سے پہلے تو اس فلم کا نام ہے ۔ دنیا بھر کے تمام عام و خواص لوگوں کی تمام زبانوں میں لفظ " جوکر " سنتے یا پڑھتے ہی ایک ایسے کردار کا خاکہ ذہن میں ابھرتا ہے ، جو اپنی مزاحیہ حرکتوں اور باتوں اور اپنے عجیب الخلقت حلیے سے لوگوں کو ہنساتا ہو اور ان کی ذہنی تھکن دور کرتا ہو ۔
جبکہ اس فلم یہ ٹائٹل ، مختلف نفسیاتی الجھنوں میں گرفتار ، پرسنالٹی ڈس آرڈر میں مبتلا ایک ایسے آدمی کو دے دیا گیا ہے جو اپنے بچپن کی محرومیوں اور اپنی ذاتی کمیوں اور کجیوں اور اپنی ذات پر ہونے والی زیادتیوں کی بنا پہلے نفسیاتی اور شخصی عارضے کا شکار ہوتا ہے ۔ اور اس کے علاج کے لئیے کئی طرح کی ادویات کئی سالوں تک استعمال کرتا ہے ۔ اور اس کا علاج کرنے والے ماہرین بھی اس کے اندر پلنے والی ذہنی بیماری کے لاوے کی شدت سے آگاہ نہیں ہو پاتے ۔ اور وہ رفتہ رفتہ انتقامی اور متشدد ہوتا چلا جاتا ہے ۔ اپنی جگہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ معاشرے کے طاقتور اور متمول افراد جب اپنے ارد گرد کے کمزور اور کم حیثیت کے لوگوں کو مستقل Neglect کرتے رہتے ہیں تو وہ عام طور پر Reactive ہوجاتے ہیں ۔ اور ان میں سے کمزور اعصاب کے حامل افراد ، جو پہلے ہی کسی نفسیاتی عارضے یا شخصی کجی کا شکار ہوتے ہیں ، وہ Over Generalization کے نفسیاتی مدافعتی نظام کے پھیرے میں پھنس کر چند لوگوں کے منفی رویوں کا بدلہ پورے معاشرے سے لینے لگ جاتے ہیں ۔ اور انارکی اور افراتفری میں اضافے کا باعث بننے لگتے ہیں ۔ فلم " جوکر " کا مرکزی کردار بھی اپنی عام زندگی میں جوکر کا کردار ادا کرتے کرتے اور بچپن سے ادھیڑ عمر تک پہنچتے پہنچتے ، اپنی کمزوریوں کی وجہ سے لوگوں کی زیادتی کا شکار ہوتے ہوتے اپنے Delusions میں اتنا Intense ہوجاتا ہے کہ پھر وہ ہر اس فرد کو قتل کرنے لگتا ہے ، جسے وہ سمجھتا ہے کہ اس نے اس پر کبھی نہ کبھی ، کسی نہ کسی شکل میں ظلم کیا ہے ۔
اور سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کی مہربانیوں سے اس کی پر تشدد Videos جب Viral ہونے لگتی ہیں تو لوگوں کا جم غفیر ، جوکر کا ماسک چہرے پر لگا کر ، مرکزی منفی کردار کو اپنا آئیڈیل اور ہیرو قرار دے کر شہر کی سڑکوں پر نکل کر ہنگامہ آرائی کرنے میں مصروف ہوجاتا ہے ۔
اور دیکھنے والوں کو یہ Message ملتا ہے کہ یہ غلط طریقہ ہی صحیح طریقہ ہے ۔ کہ آپ اپنے اوپر ہونے والی زیادتیوں کا بدلہ ، بیگناہ لوگوں کو مار کر ، بیگناہ لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچا کر ، اور مروجہ نظام کو Sabotage کرکے ہی حاصل کر سکتے ہیں ۔ یعنی ایک نفسیاتی مریض جو بے بنیاد تخیلاتی مفروضوں یعنی Delusions کی بیماری میں مبتلا ہے ، وہ لیڈر اور ہیرو بنا کر دکھایا جاتا ہے ۔
اور دیگر کسی بھی طرح کے حل کا کسی بھی طرح ذکر نہیں کیا جاتا ۔
دنیا بھر کے کروڑوں لوگ یہ فلم دیکھ چکے ہیں ۔ یہ فلم اربوں روپے کا بزنس کر چکی ہے ۔ اور لاکھوں لوگوں کے ذہنوں کو مسخ اور متاثر کرچکی ہے ۔ تفریح کے نام پر بارود کے ڈھیر میں ایک اور ڈائنامائٹ کا اضافہ کردیا گیا ہے ۔ سائیکولوجیکل وار فئیر کے زمانے کا عجیب ڈھنگ ہے کہ کسی کو بھی نہیں پتہ چل پاتا کہ وہ کس لمحے ، کس انداز ، کس ڈھب میں ، کس ڈھونگ ، کس ڈگڈگی کے تیروں کا نشانہ بن کر جیتے جی مٹی کا مادھو بن جائے گا ۔ اور باقی ساری عمر اپنے اپنے بازی گروں کے ہاتھوں Puppet اور روبوٹ بن کر ان کے اشاروں پر ناچتا رہے گا ۔ بالکل اسی طرح ، جس طرح فلم جوکر کا مرکزی کردار Joaquin Phoenix ، فلم کے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کے اشاروں پر اداکاری کرتا رہا تھا ۔ اور اپنی دانست میں اپنے فرضی کردار میں ڈوب کر بے مثال اداکاری کا مظاہرہ کرتا رہا تھا ۔ آسکر ایوارڈ کی شعوری یا لاشعوری خواہش کے ساتھ ۔
مجھ سمیت ہم سب ہی کسی نہ کسی آسکر ایوارڈ کی تمنا میں ، اپنی دانست میں ، اپنی اپنی محدود زندگی میں کسی نہ کسی " جوکر " کا لازوال کردار ادا کرنا چاہتے ہیں ۔ ہیرو بننا چاہتے ہیں ۔ کسی نہ کسی کام ، کسی نہ کسی شعبے میں Excellence چاہتے ہیں ۔ المیہ یہ ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگ اپنی اس خواہش کے حصول کے چکر میں واقعی " جوکر " بن کر ، انتہائی غیر محسوس طریقے سے ، نظر نہ آنے والی طاقتوں کا آلہ کار بن جاتے ہیں ۔ اور ہمیں پتہ بھی نہیں چلتا ہے ۔ اب اسی بات کو دیکھ لیجئیے ۔ میں بھی Temptation کا شکار ہو کر فلم دیکھنے چلا گیا ۔ جب مجھے Invitation ملی ۔ میں اگر نہیں جاتا تو میری جگہ کوئی اور چلا جاتا ۔ مگر چونکہ مجھے تو شروع سے ہی حماقتیں کرنے اور کرتے رہنے کا شوق ہے ۔ اور میں کسی بھی طرح Invitation دینے اور فلم شو Arrange کرنے اور کروانے والی کمپنی کی Obligation میں نہیں تھا ۔ تو مجھے دو چار گھنٹے کے لئیے " جوکر " بننے میں کوئی مضائقہ نہیں تھا ۔ کہ شاپنگ مال سے مجھے اپنے اور سعد کے لئیے جوتے بھی دیکھنا اور لینا تھے ۔ اور ایک دن کلینک سے ٹائم آوٹ بھی لینے کا دل تھا ۔ یعنی ایک پنتھ ، چار کاج ۔
مجھے نہیں پتہ کہ فلم شو میں آنے والے اور دیگر ڈاکٹر حضرات اور خواتین کا کیا Intention تھا ۔ قوی امکان ہے کہ زیادہ تر شرکاء محض فلم دیکھنے کے لئیے ہی آئے تھے ۔ ہاں البتہ فارماسوٹیکل کمپنی کا مقصد اپنے Customers اور Clients کے لئیے ایسی Activity رکھنا تھا ، جس سے ایک ہی کام سے بہت سے لوگ Satisfy ہوجائیں ۔
مگر اس وقت یہ تحریر لکھتے ہوئے یہ احمقانہ خیال جانے کیوں آرہا ہے کہ مینٹل ہیلتھ پر فلم شو آرگنائزر کروانے کی بجائے اگر کمپنی پانچ لاکھ روپوں سے ایسے دس لوگوں کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے مدد کردیتی ، جو معاشرے کی زیادتی کا شکار ہوکر Reactionary ہورہے ہیں یا ہونے والے ہیں تو شاید زیادہ بہتر ہوتا ۔ شاید دو چار اور لوگ " جوکر " نہ بن پاتے ۔
مگر یہ دور کمرشلائزیشن کا ہے ۔ مارکیٹنگ کا ہے ۔ سائیکولوجیکل وار فئیر کا ہے ۔ آرٹیفیشل سپر انٹیلیجنس کی Implementation کا ہے ۔ نیو ورلڈ آرڈر کے نقار خانے میں " جوکر " کی تو گنجائش ہے ، کسی Ediot کی نہیں ۔ سو دل کی بھڑاس یونہی لکھ کر نکال لینی چاہئیے ۔ شاید روز آخرت یہی دو چار لفظ کسی کام آجائیں ۔ کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ۔ اور اللہ ہم سب کے دلوں کا حال جانتا ہے ۔

" جوکر "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ،
جسمانی ، روحانی ، جنسی و منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ

www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.drsabirkhan.blogspot.com
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
www.g.page/DUAAGO
Instagram @drduaago

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں