اتوار، 17 نومبر، 2019

" بلی چینختی ہے "

" بلی چینختی ہے "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

آپ نے بلی پالی ہو یا نہ پالی ہو ، بلی کیا بلیاں اور بلے تھوک کے حساب سے دیکھے ہوں گے ۔ آپ بلیوں سے انسیت رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں ، زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر ، کسی نہ کسی شکل میں بلیوں سے واسطہ ضرور پڑا ہوگا ۔
دنیا میں ہزاروں نسلوں اور شکلوں کی بلیاں پائی جاتی ہیں ۔ ایرانی ، یونانی ، لبنانی نسل وشکل کی بلیاں لگ بھگ سبھی کو بھاتی ہیں ۔ مہنگے داموں بکتی ہیں ۔ بڑے ناز و نخروں سے پلتی ہیں ۔ پالنے والوں کا دل لبھاتی ہیں ۔ دیسی بلیاں گلیوں میں سڑکوں پر رلتی اور لڑتی اور غراتی رہتی ہیں ۔ گاڑیوں کے نیچے آ آ کر مرتی رہتی ہیں ۔ بنا اجازت گھروں میں گھس کر دودھ اور گوشت پر منہہ مارتی رہتی ہیں اور جوتے کھاتی رہتی ہیں ۔ میاوں میاوں سے لیکر مے آوں اور مآوں تک کی آوازیں نکالتی رہتی ہیں ۔ اور یونہی ادھر ادھر پھرتی رہتی ہیں ۔
مگر جونہی انجانے میں ہمارا پاوں بلی کی دم پر آجائے تو ہر بلی چینختی ہے ۔ اور چاہے کتنی ہی پالتو کیوں نہ ہو ، کتنے ہی ناز و اندام سے رکھی ہوئی ہو ، اس نے غراتے ہوئے پنجہ مارنا ہوتا ہے ۔ یا کاٹنے کی کوشش کرنی ہوتی ہے ۔ یہ ہر بلی کی نفسیات ہے ۔ جب تک آپ اس کے نخرے سہتے رہیں ، وہ آپ کے قدموں سے لپٹتی رہے گی ۔ اور جیسے ہی آپ نے اس سے کنی کترانے کی ، کی ۔ اس نے ہرجائی محبوب کی طرح نظریں چرا لینی ہیں ۔ اور آپ سے دوری اختیار کر لینی ہے ۔
کسی بھی نسل ، کسی بھی شکل کی بلی کبھی بھی کتے اور گھوڑے کی طرح تمام عمر اپنے پالنے والے کی وفادار نہیں رہ سکتی ۔ کتے اور گھوڑے اپنے مالک پر اپنی جان قربان کردیتے ہیں ۔ مگر بلیوں اور بلی جیسے لوگوں کی جب جیسے ہی ذرا سی جان پر پڑتی ہے تو وہ آپ سے جان چھڑا کر اپنی جان بچانے کے چکر میں لگ جاتے ہیں ۔ جب تک آپ ان کے نخرے برداشت کرتے رہیں گے ، ان کی ضروریات کا خیال رکھتے رہیں گے ، وہ دم ہلاتے ہوئے آپ کے آگے پیچھے پھرتے رہیں گے ۔
میاوں میاوں کرتے رہیں گے ۔ مگر اگر کسی وجہ سے آپ مستقل ایسا نہ کرسکیں تو آپ کو ذہنی طور پر تیار رہنا چاہئیے کہ پھر کسی بھی وقت آپ کا ساتھ ایسے لوگوں سے چھوٹ سکتا ہے ۔
انسان ہوں یا جانور اور پرندے یا جانوروں اور پرندوں کی صفات والے انسان ، وفاداری اور کمٹ منٹ نبھانا ہر کسی کا شیوہ نہیں ہوتا ۔ نہ ہی ہر کسی کی فطرت میں ، قدرت نے جانثاری کے جراثیم رکھے ہوتے ہیں ۔ یہ بات البتہ انسان کے لاشعور میں ضرور ہوتی ہے کہ وہ جس جانور ، جس پرندے سے زیادہ لگاو اور انسیت رکھتا ہے ، قدرتی طور پر اس کی فطرت میں اس جانور یا پرندے کی فطرت و خصلت کے کئی عناصر ضرور پائے جاتے ہیں ۔ نہاں یا عیاں ۔ کبھی بہت کبھی کم ۔ مگر اس کی پسند کا Reflection اس کے مزاج اور نفسیات میں ضرور جھلکتا ہے ۔
آپ اپنا جائزہ لیجئیے ۔ ایمانداری کے ساتھ ۔ آپ کو سب سے زیادہ پسند کونسا جانور یا کون سا پرندہ ہے ۔ پالتو یا جنگلی ۔ دور سے دیکھنے کی حد تک یا گھر میں پالنے کے شوق تک ۔ اور یا آپ جانور بیزار ہیں ۔ آپ کو جو پرندہ ، جو جانور بچپن سے اچھا لگتا آیا ہے ۔ اس کی فطرت اور اس کی خصوصیات پر غور کیجئے ۔ اور پھر اپنی نفسیات اور اپنی شخصیت کے نمایاں اور نہاں مثبت اور منفی گوشوں پر تنقیدی نگاہ ڈالئیے ۔ آپ کو اپنے اندر اپنے پسندیدہ جانور یا پرندے کی کئی خصوصیات نظر آئیں گی ۔
اس بات کو اور اچھی طرح سمجھنے کے لئیے اپنے قریبی دوستوں کی شخصیت اور نفسیات کی بابت سوچئیے ۔ آپ اپنے ہم خیال اور ہم مزاج لوگوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے اور نبھانے کو زیادہ پسند کرتے ہوں گے ۔ بہ نسبت آپ کی سوچ سے مطابقت نہ رکھنے والوں کے مقابلے میں ۔ شعوری اور لاشعوری طور پر ہم سب اپنے جیسے لوگوں کی صحبت اور رفاقت چاہتے ہیں ۔ اسی طرح ہماری اصل فطرت میں قدرت نے جو Features رکھے ہوتے ہیں ، وہی ہماری عام زندگی میں مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتے رہتے ہیں ۔ کسی خاص پرندے یا جانور کو پسند کرنا یا اس سے بہت زیادہ قربت محسوس کرنا بھی ہماری فطری جبلت کی خاص جہت کو ظاہر کرتا ہے ۔ اور اس کی بنیاد پر ہم بآسانی کسی بھی شخص کی Profile بنا سکتے ہیں اور اس کی نفسیات کے چند مخصوص پہلووں کی Study کرسکتے ہیں ۔
اب آپ اس حوالے سے اپنی ذاتی پسند ناپسند اور اپنے اردگرد کے لوگوں کی پسند ناپسند کا جائزہ لیجئیے کہ کس کو کون سا جانور یا پرندہ زیادہ اچھا لگتا ہے ۔ پھر جب آپ متعلقہ فرد کی نفسیات و شخصیت کو دیکھیں گے تو آپ کو خود بخود احساس ہونے لگے گا کہ اس فرد میں اس کے پسندیدہ پرندے یا جانور کی کوئی نہ کوئی خاصیت پائی جاتی ہے ۔
کرمنالوجی اور سائیکالوجی کے ماہرین ، ملزموں اور مریضوں کے ذہنی معائنے میں ، ان کی شخصیت کے تضادات اور مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے کے لئیے جہاں اور بہت سے Tools استعمال کرتے ہیں ، وہاں وہ ان کی عادات اور ہر حوالے سے ذاتی پسند ناپسند کے مطالعے کو بھی بہت اہمیت دیتے ہیں ۔ اور اپنی ریسرچ کی بنیاد پر ملزم اور مریض کی شخصیت و نفسیات کی تشخیص کرتے ہیں ۔
ہم اگر چاہیں تو عام زندگی میں بھی لوگوں کی عمومی نفسیات سمجھنے کے لئیے ایسے عام طریقوں کی مدد لے سکتے ہیں اور اپنے علم کی روشنی میں ان کے ساتھ اپنے تعلقات اور معاملات کو خوشگواری سے استوار کر سکتے ہیں ۔ یوں سمجھ لیں کہ اگر ہمیں کسی کی دکھتی رگ کا علم ہو اور ہم اس پر ہاتھ رکھ دیں تو کیا ہوگا ۔
چوہے کو پکڑنے کے لئیے Mouse Trap میں Cheese یا ٹماٹر لگانا پڑتا ہے ۔ دودھ ، مچھلی کی خوراک دے کر بلی پالنی ہوتی ہے ۔ سانپ کو بل سے نکالنے کے لئیے بین بجانی پڑتی ہے یا زندہ چوہوں اور خرگوشوں کا نذرانہ پیش کرنا پڑتا ہے ۔ اسی طرح کسی انسان کی اصل نفسیات کی تہہ تک پہنچنے کے لئیے اسی طرح کی چھوٹی چھوٹی معلومات سے استفادہ حاصل کرنا پڑتا ہے ۔
بڑے بڑے کاروباری افراد اپنی Dealings میں اس بات کا خاص خیال رکھتے ہیں اور ہر شخص کے اندر چھپی بلی کی دم پر پاوں رکھتے ہیں ۔ پھر جونہی بلی چینختی ہے ، وہ اس فرد کی اصل شخصیت کی جانچ کرکے ، اس کی نفسیات کے مطابق ، لالچ یا ڈر خوف کے حربوں سے اپنا مطلب نکال لیتے ہیں ۔
بڑے بڑے کاروباری ادارے اپنے Products کی مارکیٹنگ کے لئیے اسی اصول کا سہارا لیتے ہیں ۔ لوگوں کے لاشعور کو Provoke کرکے ایسی ایسی چیزیں فروخت کر ڈالتے ہیں ، جو دو دن کے بعد کسی کونے کھدرے میں پڑی ہوتی ہیں ۔
بڑے بڑے طاقتور ممالک اپنی فارن پالیسی بناتے ہوئے نفسیات کے اسی گر کا استعمال کرتے ہیں اور کمزور ملکوں کو اور کمزور کرکے اپنے مقاصد کے حصول کے لئیے Exploit کرتے ہیں ۔ ہر قوم کے مزاج کو سمجھ کر اس قوم کے جذباتی Elements کو Explore اور Highlight کرکے Limelight میں لاتے ہیں اور پھر اس قوم اور اس معاشرے کی ساری بلیاں ایک ایک کرکے مار دیتے ہیں ۔ Threshold چیک کرنے کے لئیے دم پر دباو بڑھاتے رہتے ہیں ۔ اور پھر جونہی اس قوم ، اس ملک کے جذباتی لوگوں کی بلی چینختی ہے ، قبضہ گیر ممالک کے Think Tanks ایک سرخ گول دائرہ بنا کر جذباتی گروپ کو Mark کرلیتے ہیں ۔ اور اگلے اسٹیج میں ڈر خوف یا لالچ کے صدیوں پرانے ڈنڈے سے جذبے اور جذباتیت کا بم Diffuse کردیتے ہیں ۔ جو بلی جتنی زیادہ جذباتی ، چنچل اور غصیلی ہوتی ہے ، وہ اتنی ہی جلدی Trap ہوجاتی ہے ۔ اس میں برداشت کا مادہ بہت کم ہوتا ہے ۔ اس کی دم پر ہلکا سا پریشر اسے چینخوا دیتا ہے ۔ اور Policy Makers کا کام آسان ہوجاتا ہے ۔ پھر وہ اپنی مرضی سے اس بلی کے گلے میں طوق ڈال کر اپنے راستے پر لے جاتے ہیں ۔
اب ذرا اپنے چاروں طرف نگاہ ڈالئیے ۔ آپ کو بلیوں کے غول کے غول میاوں میاوں کرتے نظر آئیں گے ۔ مگر وہ لوگ کہیں دکھائی نہیں دیں گے جو دم پر پاوں رکھ کر کھڑے ہیں ۔ کیونکہ ان کی نفسیات بلیوں کی طرح نہیں ہے ۔ بلیوں کو پکڑنے ، نچوانے اور چینخوانے والے لوگوں کے پسندیدہ جانوروں اور پرندوں میں کتے ، گھوڑے ، چیتے ، لومڑی ، بھیڑئیے ، عقاب ، گدھ ، طوطے ، سانپ ، بچھو ، مکڑیاں اور چمگاڈریں شامل ہوتے ہیں ۔ اور ان کی نفسیات میں ان سب کی خصوصیات پائی جاتی ہیں ۔ کتے ، طوطے اور گھوڑے تو جا بہ جا دکھائی دے جاتے ہیں ۔ باقی تو چڑیا گھر اور جنگلوں کے علاوہ ان King Makers کے گھروں میں ہی نظر آسکتے ہیں ۔
اور رہی بلیاں ، تو وہ تو ہر گلی ، ہر سڑک ، ہر کونے میں ادھر سے ادھر پھرتی رہتی ہیں اور میاوں میاوں کرتی رہتی ہیں ۔ اور دم پر پاوں پڑتے ہی چینختی رہتی ہیں ۔
نوٹ : اس تحریر کا عنوان استادوں کے استاد محترم ابن صفی کے ناول " بلی چینختی ہے " سے مستعار لیا گیا ہے ۔ اس امید اور یقین کے ساتھ کہ شاید آج کے دو چار نوجوان محترم ابن صفی کے کچھ ناول پڑھ لیں ۔اور پڑھنے کی Addiction میں گرفتار ہوجائیں ۔ اور باقی کے نوجوانوں کے لئیے مشعل راہ بن جائیں ۔


" بلی چینختی ہے "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ، جسمانی ، روحانی ، جنسی و منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ

www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.drsabirkhan.blogspot.com
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
www.g.page/DUAAGO
Instagram @drduaago 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں