اتوار، 17 نومبر، 2019

" ایک تھی لڑکی "

" ایک تھی لڑکی " 
نیا کالم / بلاگ/ مضمون 
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان 

' صدیوں سے دنیا میں یہی تو قصہ ہے ۔ ایک ہی تو لڑکی ہے ، ایک ہی تو لڑکا ہے ۔ جب بھی یہ دونوں ملے ، پیار ہوگیا ' ۔ 
آج شام جب اپنے تین کرسیوں والے برآمدے میں لکھنے بیٹھا تو تین موضوع ذہن میں تھے ۔ سگریٹ سلگائی ۔ دھوئیں کے پہلے باہر نکلتے ہوئے مرغولے کے ساتھ ایک موضوع سے مربوط ، لڑکپن میں سنے ایک گانے کے ابتدائی بول یاد آگئے ۔ شاید آپ نے بھی کبھی یہ گانا سنا ہو ۔ اور اگر نہیں بھی سنا ہے ، تو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ کیونکہ یہ ایک آفاقی حقیقت ہے ۔ صدیوں سے واقعی دنیا میں ایک ہی کہانی ہے ۔ ایک ہی قصہ ہے ۔ ایک ہی سچائی ہے ۔ لڑکی اور لڑکے کی محبت کی کہانی ۔ جنس مخالف سے الفت ، انسیت اور رفاقت کی کہانی ۔ ہر عہد ، ہر دور ، ہر معاشرے ، ہر سماج کی کہانی ۔ ہر گھر ، ہر عمر کی کہانی ۔
دل کی اور دل لگی کی کہانی ۔ کبھی تو پانی کے بلبلے کی طرح پھیلنے اور پل بھر میں پھٹنے کی طرح ۔ اور کبھی عمر بھر کے روگ اور جنجال کی صورت ۔ پیار ، محبت اور عشق کی نہ مٹنے والی کہانی ۔ 
پل پل ساتھ نبھانے اور عمر بھر ساتھ نہ چھوڑنے کے دعووں ، وعدوں اور قسموں کی کھربوں کہانیاں ۔ اور ہر کہانی کا اختتام یا تو مجبوریوں اور سمجھوتوں کی زندگی ۔ اور غم و الم سے بھرپور جدائی اور تنہائی ۔
کہ جو بھی شے ، جو بھی بات Metaphysical ہوتی ہے ، Virtual ہوتی ہے ، محض Emotional ہوتی ہے ۔ اس کا Life span کم ہوتا ہے ، عارضی ہوتا ہے ۔ ایک خاص وقت کے بعد اس کا Footage ختم ہوجاتا ہے ۔ اس کی کشش ، اس کا Charm اپنی آب و تاب کھو دیتا ہے ۔ اور اس کے مدار میں گھومنے والے ، کچھ وقت کے بعد ، سر کے بل لٹک جاتے ہیں ۔ اور تمام عمر لٹکے رہتے ہیں ۔ اپنی باتوں ، اپنے وعدوں ، اپنے دعووں اور اپنی Commitment کے جال میں الجھے رہتے ہیں ۔ 
افلاطونی محبت اور عملی محبت میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے ۔ افلاطونی محبت ، جذباتی اور عام طور پر لمحاتی ہوتی ہے اور Attraction اور Attachment سے شروع ہوکر جسمانی تعلق پر ختم ہوجاتی ہے ۔ اور اگر جسمانی تعلق تک پہنچنے سے پہلے ہی کسی وجہ سے ہوا میں تحلیل ہوجائے یا کسی ایک فریق کی بےوفائی سے اپنے منطقی انجام کو گلے ملنے سے پیشتر ہی مٹی میں مل جائے تو دونوں یا پیچھے رہ جانے والا فرد ، خواہ مرد ہو یا عورت ، جیتے جی زندہ درگور ہوجاتا ہے ۔ اور محبت میں کامیابی سے ناکام ہونے کے بعد یا تو Reactionary ہوجاتا ہے اور خود کو اور اپنے ساتھ اور آمنے سامنے کے لوگوں کو ہمہ وقت Tease کرتا رہتا ہے اور ماحول میں پراگندگی اور انتشار پھیلاتا رہتا ہے ۔ اور یا پھر سب کو اور سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر Missionary بن جاتا ہے اور معاشرے کی تعمیر اور ترقی میں کسی بھی طرح کا کردار ادا کرنے سے قاصر ہوجاتا ہے ۔ 
افلاطونی محبت ، اگر ناجائز جسمانی تعلق قائم کرنے کے درجے تک لے جاتی ہے تو تب بھی دونوں فریقین ، جلد یا بدیر ، Guilt اور Regrets سے دوچار ہوتے ہیں ۔ اور نفسیات اور شخصیت کی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر مختلف طرح کے روحانی ، نفسیاتی ، جذباتی ، خانگی اور ذہنی مسائل اور امراض میں مبتلا ہوکر ساری عمر اپنے کئیے کی سزا بھگتتے رہتے ہیں ۔ 
یہی افلاطونی محبت جب شادی کے بندھن میں ڈھلتی ہے تو دو چار سال تک تو روشن رہتی ہے ۔ پھر جونہی جسمانی کشش کا زور کم پڑتا ہے ۔ اور معاش اور اولاد کی ذمہ داریاں سر اٹھاتی ہیں ، روز کے طعنے ، تشنے اور جھگڑے اگلے دو چار سالوں میں رہی سہی محبت کا بھوت اتار پھینکتے ہیں ۔ محبت کی جگہ نفرت اور حقارت گھر کرلیتی ہے ۔ کبھی تو معاملہ علیحدگی تک جا پہنچتا ہے ۔ تو کبھی اولاد ، پاوں کی زنجیر بن کر زندگی کی گاڑی گھسیٹنا شروع کر دیتی ہے ۔ اور سکون ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہوجاتا ہے ۔ 
عملی محبت اس کے برعکس ہوتی ہے ۔ اور بہت کم ہوتی ہے ۔ مگر جب بھی ہوتی ہے ، Long Lasting ہوتی ہے ۔ زیادہ مدت تک برقرار رہتی ہے ۔ بشرط زندگی ، کبھی کبھی تو بھرپور پرسکون گولڈن جوبلی بھی کرلیتی ہے ۔ کیونکہ عام طور پر عملی محبت یا تو شادی کے بعد پیدا ہوتی ہے ۔ اور یا پھر شادی سے پہلے کی صورت میں اتنی متوازن اور معتدل ہوتی ہے کہ کسی کسی کو ہی اس کا پتہ چل پاتا ہے ۔ اور کبھی کبھی تو دونوں یا دونوں میں سے کسی ایک کو بھی علم نہیں ہو پاتا کہ ان دونوں کے Reciever ایک ہی فریکوینسی پر سیٹ ہوچکے ہیں ۔ یہ فریکوینسی ذہنی ہم آہنگی اور Compatibility کی ہوتی ہے ۔ روحانی Alignment کی ہوتی ہے ۔ اور جس محبت میں ذہنی ہم آہنگی اور روحانی رشتہ ہو ، وہ افلاطونی اور محض دلی و جسمانی محبت سے زیادہ مضبوط اور خوشگوار ثابت ہوتی ہے ۔ اس طرح کی محبت میں زیادہ سچائی ، زیادہ ایثار ، زیادہ قربانی ہوتی ہے ۔ اور Bilateral ہوتی ہے ۔ بولے بنا سامنے والے کو ، سامنے والے کے دل کا حال پتہ چل جاتا ہے ۔ اس کی ہر خواہش ، ہر ضرورت کا اندازہ ہوجاتا ہے ۔ اور پھر اس کے دل کی بات Automatic طریقے سے پوری بھی کردی جاتی ہے ۔ اور چونکہ یہ محبت محض سطحی اور جذباتی نہیں ہوتی تو شادی اور ازدواجی تعلقات قائم ہونے کے بعد بھی اپنی تاثیر نہیں کھوتی ۔ 
ذہنی ہم آہنگی اور روحانی وابستگی ایک ایسا Bond پیدا کردیتی ہے جو تا دم مرگ برقرار رہتا ہے ۔ 
عملی محبت ہر ایک کے نصیب میں نہیں ہوتی ۔ لاکھوں میں کوئی ایک خوش نصیب اس محبت کا ذائقہ چکھ پاتا ہے ۔ سطحی اور جذباتی لوگوں کی قسمت میں افلاطونی اور جسمانی محبت ہی لکھی ہوتی ہے ۔ اور اسی چکر میں گھوم گھوم کر وہ گھن چکر بن جاتے ہیں ۔ پھر وہ نہ گھر کے رہتے ہیں اور نہ گھاٹ کے ۔ گھاٹے کا سودا ان کے گلے کا طوق بن جاتا ہے ۔ جو نہ اتر پاتا ہے ۔ نہ ٹوٹ پاتا ہے ۔ 
' ایک تھی لڑکی ' بھی ایسی ہی لڑکی کی کہانی ہے ۔ جو اپنی محبت کی دلدل میں سر تا پاوں اتنی ڈوبی ہوئی ہے کہ اب دنیا کی کوئی طاقت اسے یک رخی محبت کے جہنم سے باہر نہیں نکال سکتی ۔ ماسوائے کسی معجزے کے ۔ اور معجزے آج کے زمانے میں شاذ و نادر ہی ہوا کرتے ہیں ۔
فرض کر لیتے ہیں ، اس لڑکی کا نام مہرین ہے ۔ ٹی وی ڈراموں میں کام کرنے کا شوق اسے شوبز کی دنیا میں ذرا دیر کو لے گیا ۔ دو تین ڈراموں میں دو چار منٹ کے کردار بھی ملے ۔ پھر جب اس پر سلور اسکرین کی چمک کی حقیقت آشکار ہوئی ۔ کہ آگے بڑھنے کے لئیے اسے اپنے آپ کو داو پر لگانا پڑے گا تو وہ الٹے قدموں واپس ہوئی ۔ واپسی کے سفر میں اس کا نصیب اس کے ساتھ تھا ۔ اور وہ شو بز کے ہی ایک لڑکے پر دل ہار بیٹھی ۔ 
فرض کر لیتے ہیں کہ اس لڑکے کا نام جمیل ہے ۔ مہرین اور جمیل کی افلاطونی محبت سال بھر تک خوب پلی بڑھی ۔ پروان چڑھی ۔ روز کا گھومنا پھرنا ۔ کھانا پینا ۔ عمر بھر ساتھ نبھانے کی قسمیں ۔ شادی کے وعدے ۔ گھنٹوں کی باتیں ۔ ہر دوسرے تیسرے دن ، جمیل ، مہرین کے گھر آتا اور اس کے گھر والوں سے بھی پینگیں بڑھاتا ۔ اگلے ہفتے ، اگلے ماہ ، تین ماہ بعد اپنے گھر والوں کو مہرین کے گھر بھیج کر بات پکی کرنے کا کہتا ۔ مگر بھیجتا نہیں ۔ اور پھر ایک دن خود بھی رسیاں توڑ کر بھاگ نکلا ۔
وجہ کیا تھی ۔ مجھے نہیں پتہ ۔ کہ مہرین نے مجھے یہی بتایا ۔ ویسے عام طور پر ایسے Cases میں کسی کو پتہ نہیں چل پاتا کہ Breakup کی اصل وجہ کیا ہے ۔ 
سال بھر کے پل پل کے ساتھ کے بعد مہرین یکایک اکیلی ہوئی تو جدائی کا صدمہ اس کے لئیے ناقابل یقین اور ناقابل برداشت تھا ۔ اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ختم کرنے کی کوشش نے اسے ICU پہنچادیا ۔ جمیل کچھ ویسے ہی شرم و ندامت کا شکار تھا ۔ پولیس عدالت کے ڈر نے اسے اور چار فٹ دور کردیا ۔ وہ اپنے سارے وعدوں سے پیچھے ہٹ گیا تھا ۔ بقول مہرین کے وہ وجہ بھی کچھ نہیں بتاتا تھا ۔ 
تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی ۔ مجھے تصویر کا ایک رخ پتہ ہے ۔ جو مہرین نے دکھایا ہے ۔ جمیل کے کیا Reasons تھے محبت کے اور اس کی کیا وجوہات تھیں سال بھر کی محبت کے بعد علیحدگی کی ۔ مجھے نہیں علم ۔ اور شاید کبھی علم ہو بھی نہ سکے ۔
لیکن مہرین کے ساتھ ڈیڑھ پونے دو ماہ گزارنے کے بعد ، اس کے دل کے غبار کو ہلکا کرنے کے بعد ، اس کو ہر ممکن Cuhion اور Moral Support فراہم کرنے کے بعد جمیل کے لئیے اس کی محبت کی شدت کا بھی اندازہ ہوا اور اس کی نفسیات اور شخصیت کے کئی ایسے پہلووں سے بھی شناسائی ہوئی ، کہ ، اب یہ بھی کچھ کچھ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جمیل کیوں بھاگا ۔
مہرین یا مہرین جیسے لوگوں کی جو شخصیت اور نفسیات کا جو سانچہ ہوتا ہے ، وہ ایک الگ موضوع ہے ۔
محبت یک طرفہ ہو یا دو طرفہ ، دینے کا نام ہے ۔ محبت افلاطونی اور جسمانی ہو یا عملی اور روحانی ، ہر دو صورتوں میں Give And Take ہوتا ہے ۔ یا یوں کہہ لیں کہ کسی بھی طرح کے Relationship میں اگر باہمی لین دین کی جگہ لینا زیادہ ہو اور دینا بہت کم ۔ تو ایسی کوئی سی بھی محبت ، ایسا کوئی سا بھی تعلق پنپ نہیں سکتا ۔ زیادہ مدت تک کسی بھی طرح Survive نہیں کرسکتا ۔
مہرین کی طبیعت اور مزاج میں کچھ اسی طرح کے عناصر کبھی ڈھکے چھپے تو کبھی کھلے ڈھلے چھلکتے ہیں ۔ عام حالات میں عام لوگوں کے ساتھ جب کسی انسان کا عمومی رویہ و برتاو ایسا ہو تو نفسیاتی نکتہ نظر سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خصوصی حالات میں خصوصی افراد کے ساتھ اس انسان کا رویہ اور برتاو اور زیادہ بے تکلف اور شدید ہوگا ۔ 
محبت افلاطونی ہو یا عملی ، محض مانگنے ، لینے اور بوجھ ڈالنے کا نام نہیں ۔ محبت میں جب تک Sharing نہ ہو ، وہ دو گام بھی نہیں چل سکتی ۔ پھر بات بے بات Rifts پیدا ہونے لگتے ہیں ۔ اور اگر Selfishness ایک آنچ بھی بڑھ جائے تو محبت کا بھوت ہوا ہونے لگتا ہے ۔ اور مستقل دینے والا فریق ، مستقل سامنے والے کی ہر طلب ، ہر ضرورت ، ہر خواہش پوری کرنے والا فریق بھی تھک جاتا ہے اور فرار کے راستے ڈھونڈنے لگتا ہے ۔ 
محبت کیسی بھی ہو ، جب تک ہوش کا دامن ساتھ رہے اور توازن اور پیش بینی اور دانشمندی ہاتھ میں رہے ، تب تک دل کے آنگن میں پھول بھی کھلتے رہتے ہیں اور خوشبو اور رنگ اور روشنی ذہن اور زندگی کو مہکاتے اور چمکاتے رہتے ہیں ۔ جہاں محبت کے لطیف جذبے نے جذباتی ہونا شروع کیا اور تعلق میں جذباتیت کا عنصر غالب آیا ، وہاں گڑبڑ شروع ہو جاتی ہے ۔ ایسی ہر محبت کا انجام درد ناک ہوتا ہے ۔ کبھی ایک تو کبھی دونوں کو رونے پر مجبور ہونا پڑتا ہے ۔
یہاں بہت سے لوگ کہیں گے کہ جب سوچ سمجھ کا معاملہ ہو تو وہ محبت کہاں ہوئی ۔ محبت تو بنا سوچے سمجھے ہوتی ہے اور سود و زیاں سے مبرا ہوتی ہے ۔ کسی حد تک یہ بات مانی جاسکتی ہے ۔ افلاطونی محبت تو پوری کی پوری اس Theory پر پوری اترتی ہے ۔ تبھی اس کے Consequences نہ صرف فریقین بلکہ خاندانوں تک بھی بھاری پڑتے ہیں ۔ 
مہرین نے جب جمیل سے جدائی کے غم میں دنیا تیاگ دی اور خود سے دوسری دنیا جانے کی کوشش شروع کردی تو بھائیوں نے بھی اس سے منہہ موڑ لیا ۔ وہ پہلے ہی اس کے جمیل کے ساتھ آزادانہ گھومنے پھرنے پر نالاں تھے ۔ حالانکہ دونوں بھائی عمر میں اس سے چھوٹے ہیں ۔ مگر باپ کے انتقال کو 20 برس گزرنے کے بعد اب وہ خود کو خاندان کا بڑا سمجھتے ہیں اور صحیح سمجھتے ہیں ۔ پہلے تو وہ بیچارے یہ سمجھتے رہے کہ مہرین کی عمر نکل رہی ہے ۔ اور اگر جمیل سے اس کی Understanding چل رہی ہے اور وہ اس سے شادی کرنا چاہتا ہے اور Serious ہے تو اس کا گھر آنا جانا اور مہرین کے ساتھ گھومنا پھرنا بھی ان کو گوارا تھا ۔ مگر جونہی بظاہر اچانک وہ اسکرین سے غائب ہوا ۔ اور مہرین نے اگلی دنیا میں قدم رکھنے کے لئیے چھلانگ لگائی ، ان کی برداشت ختم ہوگئی ۔ اسے ختم ہونا ہی تھا ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو زیادہ حیرت ہوتی ۔ 
حیرت کی بات تو یہ تھی کہ جمیل کا تو مہرین کے گھر روزانہ کا آنا تھا مگر مہرین اور اس کے گھر والوں کو جمیل کے نہ گھر کا پتہ تھا اور نہ کبھی مہرین اور نہ کبھی اس کے گھر کا کوئی فرد ، جمیل کے خاندان کے کسی فرد سے ملا تھا ۔ 
افلاطونی محبت میں عقل پر ایسے ہی پردہ پڑ جاتا ہے ۔
اور اب چار ماہ بعد بھی مہرین کا یہ حال ہے کہ بات بات پر جمیل اور اس کے وعدوں اور قسموں کو یاد کرکے رونے لگتی ہے ۔ ' کس سے پوچھوں میں تیرا پتہ ' کی جیتی جاگتی تصویر بن گئی ہے ۔ جہاں ذرا سی امید دکھتی ہے ۔ جہاں کوئی شفقت بھری مہربان نظر ڈالتا ہے ۔ اس سے درخواست کر بیٹھتی ہے کہ اگر ہوسکے تو جمیل کے گھر کا پتہ ڈھونڈ دیں ۔ 
دس رشتے آئے مگر سوئی ایک ہی جگہ اٹکی ہوئی ہے کہ شادی ہونی ہے تو جمیل سے ورنہ کسی سے نہیں ۔ اور یہ کہ سال بھر کے ساتھ نے اتنی محبت دے دی ہے کہ اب کسی اور کی محبت کی ضرورت نہیں ۔ اور یہ کہ اللہ کے سامنے میں نے اور جمیل نے عہد و پیمان باندھ لیا تھا اور ایک دوسرے کو میاں بیوی تسلیم کر لیا تھا تو اب شادی پر شادی تو نہیں ہوسکتی نہ ۔ اور یہ کہ جمیل نے اگر بےوفائی کی ہے ، میں تو محبت میں سچی ہوں ، میں کیوں اس کو بھول جاوں ۔
اس طرح کے دس بیس دلائل دے کر مہرین محبت اور جدائی کی آگ خود کو جلا رہی ہے ۔ اور جب اس کے پاس بتانے کی کوئی وجہ نہیں بچتی تو ہر سوال کا جواب یہی ہوتا ہے کہ میرا نصیب ہی ایسا ہے ۔ اور کوئی اپنے نصیب سے تو نہیں لڑ سکتا نہ ۔
نصیب کی جب بات آجائے تو ہر سوال ہر جواب دم توڑ دیتا ہے ۔ پوچھنے والے ، بتانے والے ، سمجھانے والے ، سبھی چپ ہوجاتے ہیں ۔ اور بات وہیں کی وہیں رہ جاتی ہے ۔ مہرین کی بات کی طرح ۔ 
نصیب کی بات کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ کوئی قدم اگر غلط اٹھ جائے ، یا کوئی بات بگڑ جائے ، تو اس پر اٹکے اور لٹکے رہنا اپنی غلطی کو بڑھانے کے مترادف ہوتا ہے ۔ اس میں نصیب کی کوئی غلطی نہیں ہوتی ۔ نہ ہی نصیب میں لکھا ہوتا ہے کہ گڑھے میں گرنے کے بعد تمام عمر گڑھے میں ہی رہنا ہے ۔ کوئی بھی انسان فرشتہ نہیں ہوتا ۔ ہر فرد خطا کا پتلا ہوتا ہے ۔ لیکن اپنی غلطی سے چمٹے رہنا اور دوش نصیب کو دینا اور مہرین کی طرح یہ کہنا کہ یہ میری سزا اور آزمائش ہے ۔ اور سزا اور آزمائش جب ختم ہوگی تو جمیل مجھے مل جائے گا ۔ اور یہ کہ امید پر دنیا قائم ہے ۔ کم از کم یہ سوچ کسی کا بھی نصیب کسی کے ذہن میں Implant نہیں کرتا ۔ نہیں کرسکتا ۔ تاوقتیکہ ہم خوداذیتی میں مبتلا نہ ہوں ۔ اور ہمیں خود کو تکلیف اور اذیت دینے میں مزہ نہ آتا ہو ۔ 
اور دوسری طرف کی حقیقت یہ ہو کہ جمیل کے کام کا ایک جز یہ بھی ہو کہ شو بز کے پروگرامز کے لئیے ماڈل گرلز فراہم کرنا ہو ۔ یعنی معصوم لڑکیوں کو لالچ دے کر انہیں ایسی دلدل میں دھکیل دینا ، جہاں سے کبھی کوئی بھی سالم و ثابت واپس نہ آسکے ۔ اور یہ بات نہ صرف اس کے دوست اور شناسا بتا رہے ہوں بلکہ وہ خود بھی بزبان خود مہرین کو کئی بار بتاتا رہا ہو ۔
ایسے مرد کے عشق میں گرفتار عورت اس سے جدائی کے بعد شکرانے کے نفل پڑھنے کی بجائے محبت نہ پانے کے دکھ میں اگر اپنی جان کے درپے پڑ جائے تو اسے راہ ہدایت محض اللہ تعالی کی رحمت ہی دکھا سکتی ہے ۔ کوئی انسان ، کوئی فرشتہ ، کوئی فرشتہ صفت انسان یہ کام نہیں کرسکتا ۔ 
مہرین کی طرح مگر مہرین سے بالکل الگ نفسیات اور شخصیت کی حامل ایک لڑکی اور تھی ۔ جس سے ساڑھے گیارہ سال پہلے ملاقات ہوئی تھی ۔ اور ساڑھے دس سال پہلے آخری ملاقات ہوئی تھی ۔ فرض کرلیں ۔ اس کا نام نایاب تھا ۔ اس کا بڑا بھائی بھی اس سے نالاں اور خفا تھا ۔ اس کے والد کا انتقال بھی اس کے بچپن میں ہوگیا تھا ۔ وہ البتہ مہرین کی طرح بند اور مردہ نہیں تھی ۔ یونیورسٹی میں ماسٹرز کے آخری سال کا Thesis کررہی تھی اور بڑی زندہ ، بڑی شوخ اور بڑی Social تھی ۔ مگر موڈ ڈس آرڈر کی وجہ سے ہر دو تین ماہ بعد رونے یا ہنسنے کے Phases سے گزرتی تھی ۔ مری ہوئی تو نہ تھی مگر محبت کی ماری ہوئی تھی ۔ باغی تھی ۔ مردوں پر سے اس کا اعتبار اٹھ چکا تھا ۔ فرض کرلیں کہ اس لڑکے کا نام نوید تھا ، جو اسے چھوڑ کر اپنا کیرئیر بنانے میں لگ چکا تھا ۔
چھ سالہ محبت میں نایاب نے نوید کے لئیے بہت قربانیاں دی تھیں ۔ گھنٹوں جائے نماز پر بیٹھ کر رو رو کر اس کے اعلی مستقبل کی دعائیں مانگی تھیں ۔ اس کی پڑھائی کا خرچہ برداشت کیا تھا ۔ روز اس سے ملنے پارک جاتی تھی ۔ اس کے لئیے کھانے بنا کر لے جاتی تھی ۔ اپنے پیسوں سے اس کو سیکنڈ ہینڈ بائیک دلائی تھی ۔ مگر پھر بھی جانے کیا ہوا کہ وہ اس سے الگ ہوتا چلا گیا ۔ ایک کے بعد دوسری نوکری میں مصروف ہوتا گیا ۔ اور اپنے سارے وعدے بھولتا چلا گیا ۔ اور اپنی والدہ کو نایاب کے گھر بھیجنے کی بجائے شادی سے انکاری ہوگیا ۔ اور پھر چھ ماہ تک نایاب بھی مہرین کی طرح بستر سے لگ گئی تھی ۔ 
یہ اور بات ہے کہ Recovery کے بعد اس کی محبت انتقامی ہوگئی اور وہ Reactionary بنتی چلی گئی ۔
اس کے اندر کا دکھ دیکھ کر Out Of The Way جا کر نوید کو کلینک بلا کر اس کے سامنے بٹھا دیا ۔ 14 اگست کے چھ گھنٹے دونوں میں صلح صفائی کی بھرپور کوشش کی جاتی رہی ۔ مگر صاف دکھ رہا تھا کہ جس محبت کی شدت کی کہانی نایاب نے سنائی تھی ، وہ اب موجود نہ تھی ۔ 
افلاطونی محبت تو سدا سے لمحے کی محتاج رہی ہے ۔ سورج کے ڈوبتے ہی ، لمحے کے گزرتے ہی ڈوب جاتی ہے ۔ چوسے ہوئے آم کی طرح ہوجاتی ہے ۔ پچکی ہوئی ۔ کبھی دوبارہ اپنی پرانی شکل میں نہ آنے کے لئیے ۔ رس اور خوشبو سے عاری ۔ 
نایاب کے ساتھ بھی یہی ہوا ۔ چھ آٹھ ہفتے گزر گئے ۔ مگر نوید دوبارہ نہیں پلٹا ۔ اور نایاب پہلے سے زیادہ تند اور لالچی ہوگئی ۔ محبت کو دولت سے Compensate کرنے کی تگ و دو میں لگ گئی ۔ اور پھر مجھے نہیں پتہ کہ کیا بنا اس کا ۔ کہ حکم ہے کہ ایسے لوگوں کو پھر ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہئیے ۔ جو ہر طرح کی کوشش کے بعد بھی اپنے آپ کو اندر سے بدلنے پر راضی نہ ہوں ۔ اپنی غلطی کو مان کر صحیح راستے کا انتخاب نہ کریں ۔ اپنی ہر بات کو صحیح جان کر اپنی من مانی میں لگے رہیں ۔ 
نایاب ہو یا مہرین ۔ یا ان جیسی ہزاروں لاکھوں لڑکیاں ۔ جب تک سطحی محبت کے جال بچھتے رہیں گے اور عملی محبت کی تعلیم ، تلقین اور تربیت کی جگہ ہمارا لٹریچر ، ہمارا میڈیا ، ہماری فلمیں ، ہمارے ڈرامے ایک تھی لڑکی اور ایک تھا لڑکا کی کہانیوں کو Promote کرتے رہیں گے ۔ تب تک ناآسودہ خواہشات کی پراگندگی ہمارے معاشرے کے نوجوانوں کی توانائی سلب کرتی رہے گی ۔ اور ان کی نفسیات کو مسخ کرتی رہے گی ۔ 
یادش بخیر بچپن میں آٹھ نو برس کی عمر میں میرپورخاص کے فردوس سنیما میں جیدی ماموں کے ساتھ ایک فلم دیکھی تھی ۔ " ایک تھی لڑکی " ۔ اس کی کہانی تو اب یاد نہیں مگر اس کا نام ، نام اور چہرے بدل بدل کر ان گنت لڑکیوں اور ان کی کہانیوں کی صورت سامنے آتا رہا ہے ۔ نایاب اور مہرین کی کہانیوں کی طرح ۔ سچ مچ کی فلمی کہانیوں کی صورت ۔ رانی اور شاہد کی وہ فلم تو ان دونوں لڑکیوں کی پیدائش سے چودہ پندرہ سال پہلے ریلیز ہوئی تھی ۔ ان دونوں کے فرشتوں کو بھی اس فلم کا نام نہیں پتہ ہوگا ۔ مگر بچپن کی محرومی اور والد کی عدم موجودی نے ان دونوں کو جس محبت کے سراب میں الجھایا ، وہ ان کی باقی ماندہ زندگی کو جہنم بنا گیا ۔ 
ایسی محبت کے ڈسے ہوئے لوگ تمام عمر پیاسے کے پیاسے رہتے ہیں ۔ دنیا کی لاکھ نعمتوں کے حصول کے باوجود شکایتی اور نا شکرے سے رہتے ہیں ۔ 
اور یہی بات دونوں طرح کی محبتوں کو Differentiate کرتی ہے ۔ عملی محبت ہمیشہ روحانی سکون اور دلی اطمینان کا باعث بنتی ہے ۔ اور انسان کو ہمہ وقت شکر اور شکریے ہر اکساتی رہتی ہے ۔ اور افلاطونی محبت بے سکونی اور انتشار ذہنی میں مبتلا کرتی ہے ۔ اور شک ، شکوے اور شکایت کے کلمات کہلواتی رہتی ہے ۔ 
دیکھئیے ۔ آپ کی محبت کا حاصل کیا ہے ۔ اگر سکون اور شکر ہے تو آپ کامیاب ہیں ۔ اور معاملہ برعکس ہے تو کہیں نہ کہیں آپ سے ضرور کوئی گڑ بڑ ، کوئی غلطی ہوئی ہے ۔
دل کے آئینے پر گر ایک بار بال آجائے تو وہ آہستہ آہستہ پھیل کر ہر جذبے ، ہر محبت کے عکس کو دھندلا دیتا ہے ۔ پھر ماضی کی لکیروں کے سوا کچھ اور دکھائی نہیں دیتا ۔
میرے سامنے نایاب نے سسکتے ہوئے ، روتے ہوئے نوید کو معاف تو کردیا تھا اور بند آنکھوں سے ایفائے تجدید عہد و محبت کرتے ہوئے کہا بھی تھا کہ Yes I Will Marry You اور نوید نے بھی وعدہ کیا تھا کہ وہ اگلے ہفتے ہی اپنی والدہ کو نایاب کے گھر بھیج دے گا شادی کا Proposal لے کر ۔ مگر مغرب کی اذان کے ساتھ ساتھ میرے اندر کہیں آواز آرہی تھی کہ بظاہر تو یہ دونوں دو سال کی جدائی کے بعد آج ملے ہیں اور اپنے رشتے کو آگے بڑھانے کی باتیں بھی کر رہے ہیں ۔ لیکن ان کا رونا ، ان کی باتیں ، ان کے وعدے روح سے خالی ہیں ۔ اور Ventilator پر اپنی مرتی ہوئی محبت کو ڈال کر کچھ اور دن خوش گمانیوں میں گزارنا چاہتے ہیں ۔ 
میرے سامنے مہرین نے روتے ہوئے ، سسکتے ہوئے کہا تھا کہ وہ جمیل کے سوا کسی اور سے شادی نہیں کرسکتی ۔ اور وہ اس کے نام پر ساری عمر گھر بیٹھی رہے گی ۔
نہ نایاب کو نوید مل سکا ۔ نہ مہرین کی شادی جمیل سے ہونے کا امکان ہے ۔ ان دو لڑکیوں کی طرح ہزاروں لاکھوں لڑکیاں ہمارے چاروں طرف بکھری ہوئی ہیں ۔ ہر لڑکی کی کہانی انیس بیس کے فرق سے ایک جیسی ہے ۔ صدیوں سے دنیا میں ایسا ہی چل رہا ہے ۔ اور ایسا ہی چلتا رہے گا ۔ ایک تھی لڑکی کی کہانی جاری رہے گی ۔ دلوں کے آئینے ٹوٹتے رہیں گے ۔ اور ان آئینوں کی کرچیاں آس پاس کے سبھی لوگوں کو زخمی کرتی رہیں گی ۔ 

" ایک تھی لڑکی " 
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون 
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان 
ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ،
جسمانی ، روحانی ، جنسی و منشیات 

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ 

www.fb.com/Dr.SabirKhan 
www.fb.com/duaago.drsabirkhan 
www.drsabirkhan.blogspot.com 
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan 
www.g.page/DUAAGO 

Instagram @drduaago

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں