جمعرات، 5 دسمبر، 2019

" منطقی منزل "

" منطقی منزل "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

" روشن منزل " پی ٹی وی ۔ کراچی کی ایک ڈرامہ سیریل تھی جو غالبا 1974 میں ٹیلی کاسٹ ہوئی تھی ۔ میں اس وقت اپنے چچا کے گھر ، دادی اور دادا کے ساتھ رہنے آیا ہوا تھا ۔ نارتھ ناظم آباد ۔ بلاک سی ۔ اور وہیں واکنگ ڈسٹینس پر واقع بدری اسکول کی چھٹی جماعت میں میرا داخلہ کرادیا گیا تھا ۔ اسکول کی سیکنڈری کلاسز فرسٹ فلور پر ہوتی تھیں ۔ کلاس روم کی کھڑکی سے بلاک سی کے عقب میں پہاڑیاں دکھائی دیتی تھیں ۔ جن پر چھوٹے چھوٹے مکان بنے ہوئے تھے ۔ نیچے سے اوپر تک ۔
ان تمہیدی جملوں کی دو وجوہات ہیں ۔ پہلی یہ کہ ڈرامہ سیریل " روشن منزل " کی ایک قسط ، انہی مکانات میں سے ایک مکان میں دیکھی گئی تھی ۔ چچا میاں اپنے کسی جاننے والے کے پاس گئے تھے ۔ میں بھی ساتھ تھا ۔ اور ڈرامہ دیکھنے کے ساتھ ساتھ ، کہ ٹی وی سیٹ آنگن میں رکھا ہوا تھا ، ارد گرد اور پہاڑیوں کے اوپر نیچے بنے مکانات میں جلتی روشنیاں اس طرح ذہن کے اسکرین پر پیوست ہوئیں کہ آج 45 سال بعد بھی جب یہ تحریر لکھنے بیٹھا ہوں تو ہنوز روشن ہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ " روشن منزل " ڈرامے کی کہانی بس اتنی سی یاد ہے کہ کسی گھر کا نام تھا اور اس گھر میں رہنے والے مختلف لوگوں کے مسئلے ہر قسط میں ڈسکس ہوا کرتے تھے ۔
اور دوسری وجہ یہ ہے کہ جب جب بنا کسی کہانی یا قصے کے ، کوئی کالم یا بلاگ یا مضمون لکھا اور اپنی دانست میں بہت عرق ریزی کے بعد لکھا اور دل و دماغ کے تمام روشن دان کھول کر لکھا اور انتہائی سنجیدہ اور اہم موضوعات پر لکھا تو پڑھنے والوں کا کوئی خاص فیڈ بیک نہیں آیا ۔ اور جو تحریریں کہانیوں کی روشنی میں لکھی گئیں ، وہ زیادہ پسند کی گئیں اور زیادہ لوگوں کو سمجھ میں آئیں ۔
ان دو وجوہات کی بنا " روشن منزل " کے عنوان سے جب " منطقی منزل " کی بابت لکھنے کا خیال دل میں پیدا ہوا تو سوچا کہ ہلکی پھلکی ایک دو کہانیوں کا تڑکا بھی لگا دیا جائے تو شاید کچھ زیادہ لوگوں کو کچھ زیادہ سمجھ آسکے ۔ یا کم از کم ان کے لئیے دلچسپی کا سامان پیدا ہوسکے ۔
انسان کی نفسیات کی یہ بہت پرانی کمزوری ہے کہ اسے کسی بھی طرح کے قصوں اور کہانیوں سے لاشعوری دلچسپی رہتی ہے اور اگر قصے کہانیاں سچی ہوں تو یہ دلچسپی اور بڑھ جاتی ہے ۔ تجسس اور ٹوہ کا مادہ انسان کی فطرت میں شامل ہوتا ہے ۔ پردے کے پیچھے کی اور تہہ کے نیچے کی باتوں اور چیزوں سے واقفیت حاصل کرنا ، شاید ہر انسان کی جبلت کا لازمی جز ہے ۔ اور اگر گھر بیٹھے اسے ، گھر گھر کی کہانیاں پڑھنے اور دیکھنے کو مل جاتی ہیں تو اس کی تجسس کی نفسیاتی حس ، مسرور و مطمئن ہونے لگتی ہے ۔ اور اس کے تخیل کی پرواز ، اونچی اڑان لینے لگتی ہے ۔
کہانی کہنے ، کہانی بیان کرنے ، کہانی پیش کرنے ، کہانی کے تانے بانے بننے ، کہانی لکھنے ، کہانی گھڑنے ، فرضی کہانیوں کو حقیقت کی شکل میں ڈھالنے ، سچی کہانیوں کو علامتی پیرائے میں پرونے اور کہانی کو جینے اور برتنے والے ہر دور میں کہانیاں پڑھنے والوں کے ذہنوں کو مسخر کرتے رہے ہیں ۔
سنجیدہ ، فکر آمیز اور خشک تحریر یا ڈرامہ یا فلم بہت کم عوامی پذیرائی کے درجے تک پہنچ پاتی ہے ۔ اعشاریہ صفر صفر ایک فیصد لوگ ہی اس سے استفادہ حاصل کر پاتے ہیں ۔ یا اس کی اہمیت اور افادیت کو سمجھ پاتے ہیں ۔ اور یا پھر ایسی تخلیقات ، انہی لوگوں کی من پسند ٹہرتی ہیں ، جو ذرا من چلے ہوتے ہیں اور مشکل پسند ہوتے ہیں ۔
" روشن منزل " کی کہانی آج سے 45 سال پہلے جانے کس نے لکھی تھی ، مجھے نہیں پتہ ۔ آج کے نوجوانوں کی " منطقی منزل " کی کہانی کے ہزاروں لاکھوں رائیٹرز ، ڈائریکٹرز اور پروڈیوسرز ہیں ۔ اور اس کہانی کا شکار محض چار چھ نوجوان نہیں ہیں ۔ بلکہ دنیا بھر کے لاکھوں کروڑوں نوجوان اپنی اپنی " منطقی منزل " کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں ۔
ابھی گزشتہ ہفتے ایسے ہی دو بیس سالہ نوجوانوں سے ملنے کا اتفاق ہوا ۔ کراچی کی ایک معروف اور بڑی پرائیویٹ یونیورسٹی کے طالبعلم ۔ ملاقات سے چار چھ دن پہلے ان میں سے ایک نے اپنے پروجیکٹ کے لئیے معلومات اکٹھی کرنے کے لئیے وقت لیا تھا ۔ میرے پوچھنے پر بتایا تھا کہ ڈسکشن کے لئیے پانچ بچے آئیں گے ۔ مگر وقت مقررہ سے ڈھائی گھنٹے دیر سے آنے پر علم ہوا کہ پانچ کی بجائے دو لڑکے آئے ہیں ۔ اور باتوں کے بیچ پتہ چلا کہ صرف گروپ لیڈر آیا ہے ۔ باقی کے دو لڑکے اور دو لڑکیاں ڈاج دے گئے ہیں ، یہ کہہ کر کہ تم ریکارڈ کرکے لے آنا ، کام چل جائے گا ۔ گروپ لیڈر کے ساتھ آنے والا دوسرا لڑکا ، اس کا یونیورسٹی فیلو تھا اور دوست تھا اور اسے کمپنی دینے کے لئیے چلا آیا تھا ۔ خود اس کا دور دور تک پہلے لڑکے کے سبجیکٹ اور ٹاپک سے کوئی لنک نہیں تھا ۔
فرض کرلیں کہ گروپ لیڈر لڑکے کا نام وجاہت تھا اور اس کے ساتھ آنے والے دوست کا نام شہزاد تھا ۔
وجاہت کو تین دن بعد اپنی کلاس میں پریزینٹیشن دینی تھی ۔ موضوع " پرسنالٹی ڈس آرڈر " تھا ۔ جو بزنس ایڈمنسٹریشن کی کلاس میں نفسیات پڑھانے والے ٹیچر یا پروفیسر نے اپنی پسند سے اسائین کیا تھا ۔ بزنس کی کلاس میں نفسیات کا سبجیکٹ پڑھانے کا بنیادی مقصد یہی ہوتا ہے کہ طالب علم جب عملی زندگی میں قدم رکھیں تو وہ کسی بھی انسان کی نفسیات اور شخصیت کی بآسانی جانچ کرسکیں اور اس کے مطابق اس سے روابط رکھ سکیں ۔
مگر چونکہ آج کل کے الیکٹرونک اور سوشل میڈیا میں نارمل یا عمومی نفسیات کی بجائے ابنارمل یا بگڑی ہوئی نفسیات و شخصیت کے حوالے سے زیادہ ذکر ہورہا ہے تو شاید اسی وجہ سے پڑھانے اور پڑھنے والوں کا فوکس آف اٹینشن نارمل کی بجائے ابنارمل کی طرف ہوگیا ہے ۔ تبھی وجاہت کے ٹیچر نے بھی عام شخصیت کی نفسیات کی بجائے پرسنالٹی ڈس آرڈر کا اسائنمنٹ دیا تھا ۔
15 منٹ کی بجائے مجھے دونوں بچوں کے ساتھ ساڑھے تین گھنٹے گزارنے پڑ گئے ۔ مجھے ان کی پرسنالٹی کو کھنگالنے اور پرکھنے میں مزہ بھی آرہا تھا اور ان کو یہ سمجھانے میں یہ وقت بھی کم پڑرہا تھا کہ شخصیت اور شخصیت کی مختلف نارمل اقسام کو جانے اور جانچے بنا ہم شخصی بگاڑ یا پرسنالٹی ڈس آرڈر اور اس کی مختلف شکلوں کو نہیں سمجھ سکتے ۔
دونوں بچوں کو لفظ پرسنالٹی کے صحیح معنی بھی صحیح طرح نہیں پتہ تھے ۔ وجاہت کے چکر میں شہزاد ، خواہ مخواہ میرے لیکچر کی لپیٹ میں آرہا تھا ۔ اس بیچارے کا دور دور تک نفسیات کے موضوع سے کوئی واسطہ نہیں تھا ۔ وہ تو ماس کمیونیکیشن میں بیچلرز اور ماسٹرز کرنے کا طلبگار تھا ۔ دوستی نبھانے کے چکر میں پھنس گیا تھا ۔
ایسا بہت بار ہوتا ہے ۔ ہم سب کے ساتھ ہوتا ہے ۔ تعلق اور رشتے نبھاتے نبھاتے ہمارا اپنا تیا پانچہ ہونے لگتا ہے ۔ شہزاد کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہورہا تھا ۔ اس کی منزل منطقی تھی ۔ اور میری گفتگو انتہائی غیر منطقی ۔
" جس بات میں لاجک نہ ہو ، میں اسے مانتا ہی نہیں ۔"
شہزاد کا کہنا تھا ۔ " سائنس اور پروف کے بغیر کوئی بھی بات ، کوئی بھی تھیوری نہیں قبول کرنی چاہئیے "
بیس سالہ شہزاد کی بات منطقی تھی ۔ اس نے اپنے لئیے کم عمری میں ہی " منطقی منزل " کا انتخاب کرلیا تھا ۔ اور مطمئن تھا ۔
" میں مذہب کو نہیں مانتا ۔ میرے ماں باپ دونوں بہت مذہبی ہیں " ۔ دوسری طرف وجاہت کا یہ کہنا تھا ۔
دونوں کی باتیں سن کر مجھے ان کی دوستی کی وجہ کا اندازہ ہورہا تھا ۔ دونوں الگ الگ مضامین کے طالب علم تھے ۔ مگر دونوں کی سوچ کا محور ایک تھا ۔ دل نہیں ، دماغ ۔ جذبہ نہیں ، فکر ۔ ادراک نہیں ، منطق ۔
آج کی ماڈرن اور ایڈوانس پرائیویٹ یونیورسٹی کے دو بیس سالہ نوجوان ۔ جو مذہب کی بجائے منطق اور پروف اور سائینس کو سب کچھ سمجھتے اور مانتے ہیں ۔ مگر اپنے تمام اطمینان کے باوجود اپنے اندر اور اپنے باہر کی ہر شے ، ہر بات ، ہر چیز سے غیر مطمئن اور شاکی اور نالاں ۔ اپنی لاجک پر ہر شے ، ہر رشتہ اور ہر شخصیت کو پرکھنے اور قبول یا رد کرنے کے لئیے تیار ۔ گوگل اور انٹرنیٹ پر دستیاب ہر علم ، اور ہر طرح کی معلومات کو عقل کل اور ہر سوال کا آخری جواب جان کر ہر اس بات سے پیچھا چھڑانے کے لئیے تیار جو بظاہر کسی فائدے کی نہ ہو ۔
آج کا ہر پڑھا لکھا نوجوان کسی " روشن منزل " کا متلاشی نہیں ۔ کتابی علم کی بہتات اور معلومات کی آسان فراوانی نے ذہن اور سوچ کو اپنا اسیر بنا لیا ہے ۔ اور ہر نوجوان کی " منطقی منزل " مادہ ، مادیت اور مادی و دنیاوی فوائد و امارت و شان و شوکت کا حصول ، بن چکی ہے ۔
کوئی بھی قلبی واردات ، کوئی بھی جذباتی تحریک ، کوئی بھی غیر منطقی بات ، کوئی بھی روحانی یا مابعد النفسیاتی حقیقت ، دل کے بند دروازوں کو نہیں کھول سکتی ۔ جو آج کے اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں کی شخصیت کا حصہ ہیں ۔
آج کے نوجوان محدود مطالعے اور محدود مشاہدے کے ساتھ ساتھ محدود سوچ و بچار کے عادی ہیں ۔ وہ ہیش ٹیگ دیکھ کر کوئی بھی کام کرتے ہیں ۔ Labels اور Brands سے ہٹ کر بہت کم کوئی قدم اٹھاتے ہیں ۔ دو چار مخصوص موضوعات کو گرہ سے باندھ کر دیگر تمام موضوعات کے خلاف بات کرنا ان کے فیشن کا حصہ ہے ۔ اور اپنی پسند اور سوچ کے خلاف کوئی بھی بات برداشت نہ کرنا ، ان کی طبیعت کا خاص جز ہے ۔ کم عمری میں اگر ہماری سوچ کسی بھی بند دائرے میں قید ہوجاتی ہے اور ہم مختلف علوم و فنون سے شناسائی حاصل کرنے کی بجائے کسی خاص رنگ کی چادر اوڑھ لیتے ہیں تو پھر تمام عمر ہم اپنے بند دائرے کی قید سے باہر نہیں نکل پاتے ۔
آج کے نوجوان کا المیہ یہی ہے کہ رنگوں اور روشنیوں کی بہتات اور فراوانی اور آسان دستیابی سے اس کی آنکھیں چندھیا گئی ہیں ۔ ہر رنگ ، ہر روشنی ، ہر فکر ، ہر نظریے کی Logic اور دلیل اتنی مضبوط اور بھاری بھر کم ہے کہ یہ سب آپس میں متصادم اور گتھم گتھا دکھائی دیتے ہیں ۔ ایک کو جاننے اور ماننے کا مطلب دوسرے کی ازخود نفی کرنا ہوجاتا ہے ۔ مختلف افکار اور علوم کے مابین Links اور Common Bonds تلاش کرنے کی بجائے ان کے ظاہری اور بیرونی اختلافات اور افراق کی بابت سوچنا اور بات کرنا زیادہ سہل اور آسان ہوتا ہے ۔
آج کا نوجوان چونکہ زیادہ سہل پسند ہوگیا ہے تو وہ ذہن کے راستے پر چلنے کے بھی آسان طریقے اپنانا پسند کرتا ہے ۔ اور ایک بار اسے کوئی ایسا نظام حیات یا نظریہ Appeal کر جائے ، جس کے اپنانے سے اس لی آزادی پر بھی کوئی فرق نہ پڑتا ہو اور اسے عملی شکل میں ڈھالنے کے لئے بھی ہل بیل نہ چلانے پڑتے ہوں ، تو وہ اسے کسی صورت ترک کرنے کی نہیں کرتا ۔ نہ ہی کسی اور بہتر اور بڑے نظریے کی جانب دیکھتا ہے ۔ کہ اس صورت اسے کم یا زیادہ ، کسی نہ کسی قسم کی قربانی دینی پڑ جائے گی ۔
" منطقی منزل " کے متلاشی نوجوانوں کا بھی یہی مسئلہ ہے ۔ باتوں کے علاوہ ان کو کچھ نہیں کرنا پڑتا ۔ ہر طرح کی آزادی حاصل رہتی ہے ۔ چند کتابیں پڑھ کر بحث اور مباحثے کے نشے میں ہر کام کرتے رہتے ہیں ۔ کوئی روک ، کوئی رکاوٹ ، کوئی Hindrance نہیں ہوتی ۔
" روشن منزل " کے حصول کے لئیے بہت طرح کے چراغ جلانے پڑتے ہیں ۔ بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ۔ وسیع النظری کے ساتھ دل اور دماغ کو بھی کشادہ کرنا پڑتا ہے ۔ اختلاف رائے کو برداشت کرنے کی عادت ڈالنی پڑتی ہے ۔ مطالعہ اور مشاہدہ کے ساتھ ساتھ سوچ و فکر کے زاویہ کو بھی وسعت دینی ہوتی ہے ۔ باتوں کے علاوہ عملی کام بھی کرنے پڑتے ہیں ۔ اور سب سے بڑھ کر صبر کی راہ پر چلنا پڑتا ہے ۔ پھر کہیں جاکر منزل کے خدوخال واضح ہوتے ہیں ۔


" منطقی منزل "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی
جسمانی ، روحانی ، جنسی و منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ

www.drsabirkhan.blogspot.com
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
www.g.page/DUAAGO 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں