جمعہ، 27 دسمبر، 2019

حماقتیں ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

" حماقتیں "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

کیا آپ کو یاد ہے کہ آپ سے آخری بار کب اور کون سی حماقت سرزد ہوئی تھی ۔ اگر نہیں یاد تو آج ذرا دیر کو اپنی حماقتوں کی فہرست مرتب کریں ۔ بچپن سے لے کر آج تک کی ۔ ہر حماقت کے بعد کیا ہوا ۔ آپ کے ساتھ ۔ اور آپ نے کیا محسوس کیا ۔ یہ بھی ذرا یاد کریں ۔ اور یہ بھی کہ آپ کی حماقت کا نشانہ بننے والوں پر کیا بیتی ۔
بچپن کی معصومانہ شرارتوں کو اس فہرست میں مت ڈالئیے گا ۔ جب آپ کا ذہن اپنی حماقتوں کی فہرست بناتے یا سوچتے ہوئے تھک جائے تو ذرا دیر کو دم لینے کے لئیے رکئیے اور سوچئیے کہ آخری حماقت کیا تھی ۔ اور وہ کب ہوئی تھی ۔ آپ کو اپنے ماضی میں بہت پیچھے جانا پڑے گا ۔ پھر کہیں جاکر شاید آپ کو کچھ یاد آئے گا ۔ والدین ، اساتذہ کی ڈانٹ ڈپٹ ، مار پیٹ اور سرزنش اور تعلیم ، تہذیب اور تربیت کے سفر میں ہم اپنی حماقتوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔ ہمیں سنجیدگی اور رنجیدگی کی منوں مٹی تلے دفن کردیا جاتا ہے ۔ اور ہنسی ہمارے لبوں سے رخصت ہوجاتی ہے ۔
بے ساختہ ہنسی ۔ بے اختیار کھلکھلاتی ہنسی ۔
ہم پھر دوسروں کی حماقتوں پر ہنسنا شروع کردیتے ہیں ۔ مسخروں کو دیکھ کر ۔ لطیفوں کو سن اور پڑھ کر ۔ اپنی فطرت کی معصومانہ حماقتوں کی حس کی تسکین کے لئیے ۔ ہماری ذاتی صلاحیت کو تو ہمارا ماحول ملیا میٹ کرچکا ہوتا ہے ۔ پھر مصنوعی ہنسی ہمارے تلخ تجربات کے درد کا درماں بننے لگتی ہے ۔ بڑے بننے کے سفر میں ، بڑے لگنے اور دکھنے کے چکر میں ہم سنجیدگی اور کرختگی کی ایسی چادر اوڑھ لیتے ہیں جو مرتے دم تک ہماری شخصیت کو ڈھانپے رکھتی ہے ۔ اور مرنے سے بہت پہلے ہی ہمارے اندر کی فطری مسکراہٹ کو ملیا میٹ کردیتی ہے ۔ فطری معصومیت کے ننھے مننے ، ہرے بھرے پودوں کو تواتر سے تہذیب و تمدن اور رسم و رواج کے نام پر جب کڑوا کسیلا پانی ملتا رہتا ہے تو ان کی ماہیت بدلنے لگتی ہے اور تازہ ہوا اور فطری بود و باش سے مسلسل محرومی ان پودوں میں پھل و پھول پیدا کرنے کی بجائے موٹے اور نوکیلے کانٹوں کا جال بچھا دیتی ہے ۔ مزاح کی جگہ طنز اور درگزر کی جگہ طعنے اور عزت کی جگہ حقارت اپنے پنجے گاڑ لیتی ہے ۔
ہنسی اور مسکراہٹ ہمارے اندر تحمل ، برداشت اور بردباری پیدا کرتی ہے ۔ جس فرد اور معاشرے میں سے مسکراہٹ رخصت ہوجاتی ہے ، وہ بہت جلد انتقامی اور ہنگامی ہوجاتا ہے اور عدم برداشت کی بنا لڑنے ، مرنے اور مارنے پر کمر باندھ لیتا ہے ۔ یہ سلسلہ اگر لمبا ہوجائے تو ہماری نئی نویلی نسلیں بھی پیدا ہوتے ہی نارمل سے بہت زیادہ متحرک اور جھگڑالو ہونے لگتی ہیں ۔ گزشتہ چالیس پچاس سالوں میں ہمارا معاشرہ بھی شفیق الرحمن ، ضیاء محی الدین ، مشتاق احمد یوسفی ، کرنل محمد خان ، حسینہ معین ، انور مقصود ، لہری ، جمشید انصاری ، معین اختر ، جیسے نامور ہنسنے اور ہنسانے والوں سے خالی ہوتا جارہا ہے ۔ اور ان کی جگہ بھانڈوں اور پھکڑ بازوں نے لے لی ہے ۔ بے ساختہ اور قدرتی ہنسی کی جگہ ایک دوسرے پر طنز و تحقیر کے تیر چلا کر مصنوعی قہقہے اور شور کے ہنگامے بپا کئیے جارہے ہیں ۔ جو روح کو تقویت دینے کی بجائے اعصاب پر پتھر برسا رہے ہوتے ہیں ۔
فطری حماقتوں کو پاگل پن اور بیوقوفی کا نام دیا جانے لگا ہے ۔ فطری معصومیت کے حامل افراد کو عقل سے عاری ، چغد اور گدھے کے ٹائٹل سے نوازا جارہا ہے ۔ اور مسخروں اور جوکروں کے گلے میں میڈل ڈالے جارہے ہیں ۔ اور فرد اور معاشرے کے ذہنی ، اخلاقی اور جذباتی تنزل کی کمی اور دوری کے اسباب ڈھونڈنے ، تلاشنے اور تراشنے کے لئیے کوئی بھی بڑا ، بچوں کے لیول پر آکر بچہ بننے کے لئیے راضی نہیں ۔ سنجیدگی ، رنجیدگی اور بزرگی کے غلاف اتار کر اپنی فطری معصومیت کو بیدار کرنے کے لئیے آمادہ نہیں ۔ اپنی حماقتوں پر ، اپنے آپ پر ہنسنے ہنسانے کے لئیے تیار نہیں ۔
خیال رہے کہ بیوقوفی اور حماقت میں بال برابر فرق ہوتا ہے ۔ اور یہ بھی خیال رہے کہ حماقتوں پر عام طور پر ریکارڈ بھی لگتا ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ اس طرح ہمارے اندر بڑے غیر محسوس انداز میں قوت برداشت بڑھتی ہے اور ہم ' لوگ کیا کہیں گے ' جیسی بھاری زنجیر کی قید سے بھی آزاد ہونے لگتے ہیں ۔
جس دن ، جس لمحے ' لوگ کیا کہیں گے ' کی زنجیر ہماری سوچ کے پاوں کی جان چھوڑ دیتی ہے ، ہمارے اندر کا معصوم بچہ قلقاریاں بھرتا ہوا ، دوبارہ سے زندہ ہونے لگتا ہے ۔ اور ہم قدرت کی عظیم الشان توانائیوں اور روشنیوں کے ساتھ مربوط ہونے لگتے ہیں ۔ پھر ہمیں کسی کی کسی بھی بات کی پرواہ نہیں رہتی ۔ کسی کی اچھی بری رائے کی فکر نہیں رہتی ۔ کسی مصنوعی سہارے کی محتاجی نہیں رہتی ۔ اور ہم ہر طرح کی حماقت کے لئیے ہر گھڑی تیار ہوجاتے ہیں ۔
مجھے تو جب بھی موقع ملتا ہے ، خود بخود کسی حماقت کو گلے لگا لیتا ہوں ۔ اب آج اور ابھی کی دیکھئیے ۔ میں حسب عادت واک کے لئیے پارک جا رہا تھا ۔ صحن میں نویرا بیٹھی ہوئی تھی ۔ جہاں زیب اور اسعد ادھر ادھر پھر رہے تھے ۔ ایک کرسی پر بچوں کا گٹار پڑا ہوا تھا ۔ گھر سے نکلتے نکلتے میرے منہہ سے نکل گیا ۔ " نویرا ! میرے واپس آتے آتے گٹار بجانا سیکھ لو ۔ واک سے واپس آکر تم نے بجانا ہے ۔ "
آدھے گھنٹے بعد جب واپس آیا تو گٹار ہنوز باہر کرسی پر پڑا تھا ۔ اور نویرا اندر کمرے میں غائب تھی ۔ مجھ سے اور میری فرمائش سے ڈر کر ۔ اندر پہنچ کر سب سے پہلے میں نے نویرا کو آواز دی ۔ باقی سب لوگ میز پر بیٹھ کر کھانا کھا رہے تھے ۔
نویرا کی سب سے اچھی بات یہ لگی کہ اس نے ' نہیں ' نہیں کہا ۔ البتہ گٹار اٹھاتے ہوئے یہ ضرور کہا کہ اس نے بجانا سیکھا نہیں ۔
" کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ بجانے سے ہی آتا ہے ۔ چلو ! شاباش ۔ شروع کرو ۔ میں وڈیو بنا رہا ہوں ۔ "
پھر نویرا کے بعد سب کی باری لگوادی ۔ نویرا کے برابر مامی بیٹھی تھیں ۔ انہوں نے بھی زندگی میں پہلی بار گٹار ہاتھ میں پکڑا ۔ پھر تسلیم ، طارق ، ماموں ، جہاں زیب اور اسعد سب سے ایک ایک منٹ کے لئیے گٹار بجوادیا ۔ اور نویرا سب کی وڈیو بناتی رہی ۔
یونہی بلاوجہ ، بنا کسی مقصد کے ، سوچے سمجھے بنا گٹار کی حماقت سرزد ہوگئی ۔ مگر اس حماقت سے سبھی ہنستے مسکراتے ہوں ہاں کرتے کرتے ، مجھ سمیت ، گٹار کو ہاتھ میں لیتے رہے ۔ کہ میں نے بھی زندگی میں پہلی بار گٹار کے تاروں کو چھیڑنے کے تجربے کی حماقت کر ڈالی تھی ۔
بنا سوچے سمجھے ، کسی خاص مقصد کے بنا ، یونہی ایسی ہی کوئی حرکت ، جس سے اونگھتے ہوئے بور اور بیزار لوگوں کے لبوں پر آپ ہی آپ مسکراہٹ آجائے اور بجھے ہوئے دلوں میں دیا جلنے لگے ، حماقت کہلاتی ہے ۔ یونہی اسی طرح ، جگہ جگہ ، حماقتوں کا جال بچھتا رہے تو فرد کا غبار اور معاشرے کا انتشار کم ہو سکتا ہے ۔
آئیے ۔ آج کے بعد آپ بھی اپنے اپنے ماحول میں یونہی بچوں کے ساتھ بچہ بن کر حماقتوں اور محبتوں کے دئیے جلاتے رہیں ۔ اپنے پن کی خوشبو مہکاتے رہیں ۔ آپ کی ذہنی تھکن دور ہوتی رہے گی ۔ آپ کی روح میں چمک آتی رہے گی ۔


" حماقتیں "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان
ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ،
جسمانی ، روحانی ، جنسی و منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ ۔

www.drsabirkhan.blogspot.com
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
www.g.page/DUAAGO


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں