جمعہ، 20 دسمبر، 2019

سب ٹھیک ہے ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

" سب ٹھیک ہے "
نیا کالم / بلاگ / مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

When it all seems too well , there is always something disastrous waiting for us at the corner.
جب سب ٹھیک دکھائی دے رہا ہوتا ہے تو کوئی نہ کوئی گڑبڑ ہمارا انتظار کررہی ہوتی ہے ۔
یہ بات میں نے ہرگز نہیں گڑھی ہے اور نہ ہی اس بات میں کوئی دقیق فلسفہ پوشیدہ ہے ۔ بڑے بوڑھے اپنے تجربات کا نچوڑ اسی طرح کی چھوٹی چھوٹی باتوں کے ذریعے پیش کرتے آئے ہیں ۔ اس طرح کے حالات میں ، جب سب کچھ اچھا اور بہت ہی اچھا نظر آرہا ہو تو احتیاط اور سوچ لازم ہے ۔ بصورت دیگر کوئی ایسا مسئلہ کئیے کرائے پر پانی پھیر جاتا ہے ، جس کے بارے میں سوچا ہی نہیں گیا ہوتا ۔ مگر ہم میں سے کوئی بھی ، کبھی بھی اس طرح نہیں سوچتا ۔ اچھے حالات میں ہم سب ہر طرف سے ہر طرح کی آنکھیں بند کرکے دونوں ہاتھوں سے مزے لوٹ رہے ہوتے ہیں ۔ اور اس خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ جب ، سب ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے تو ایسا ہی چلتا رہے گا ۔ اور سب کچھ ٹھیک رہے گا ۔
عملی زندگی میں بہت کم ایسا ہوتا ہے ۔ قدرت کا قانون نہ صرف انوکھا ہوتا ہے بلکہ سب کے لئیے یکساں بھی ہوتا ہے ۔ دن رات ، اونچ نیچ ، سیاہ سفید ، گرم سرد ، کی کہانی رواں دواں رہتی ہے ۔ ہر جگہ ، ہر ایک کے لئیے ۔ بنا کسی تفریق کے ۔
بڑے بوڑھے کہہ گئے ہیں کہ اچھے وقتوں میں برے وقت کی تیاری کر رکھنی چاہئیے ۔ اور خراب حالات میں بہتری کی امید برقرار رکھنی چاہئیے ۔ تبھی توازن قائم رکھا جاسکتا ہے ۔ لیکن بڑے بوڑھوں کی کسی بات پر کون کان دھرتا ہے ۔
اچھے اور برے حالات فرد کی زندگی میں بھی آتے رہتے ہیں اور ملک ، معاشرے اور قومیں بھی ہر طرح کی اونچ نیچ سے گزرتے ہیں ۔ ہر دو طرح کے حالات میں سب ٹھیک اسی وقت ہوتا ہے یا رہ سکتا ہے ، جب فرد اور معاشرہ دونوں اس بات کا ادراک رکھتے ہوں کہ کسی بھی طرح کے حالات کبھی بھی ایک جیسے نہیں رہتے اور یہ کہ سب کچھ ٹھیک رکھنے کے لئیے اچھے حالات میں اپنی سوچ ، اپنی خواہشات اور اپنے افعال میں نہ صرف اعتدال رکھنا پڑتا ہے ، بلکہ ہیڈ ڈاون کرکے شب و روز کا شیڈول مرتب کرنا پڑتا ہے ۔ تبھی بہت ٹھیک نہ سہی ، تھوڑے ٹھیک سے بھی گزارا ہوجاتا ہے ۔
جو معاشرہ ، جو فرد اس اصول کے مطابق اپنے راستے منتخب کرتا ہے ، وہ اچھے اور خراب ، دونوں طرح کے حالات میں ٹیون ان کرلیتا ہے اور پریشانی کا شکار نہیں ہوتا ۔ اس کے برعکس جو لوگ ، جو قومیں آنکھیں بند کرکے ' سب ٹھیک ہے ' کا نعرہ بلند کرکے ہر طرح کے موسم ، ہر طرح کے حالات میں ایک ہی ڈگر پر چلنے کے عادی ہوتے ہیں ۔ وہ جلد یا بدیر قدرت کے ایسے گرداب میں جا پھنستے ہیں ، جس سے باہر نکلنا ان کے بس میں نہیں رہتا ۔ نشیب کی جانب ان کا سفر کئی نسلوں ، کئی دہائیوں تک جاری رہتا ہے ۔
آج ہم اور ہمارا معاشرہ بھی اپنی ناعاقبت اندیشی اور نااہلی کی وجہ سے ذلت اور تباہی کی گھاٹیوں میں جا پہنچا ہے ۔ اور ایسا سال دو سال میں نہیں ہوا ۔ پورے پچاس سال لگے ہیں ۔ ہمیں زوال کے اس درجے تک پہنچنے کے لئیے ۔ ہماری آنکھوں پر ' سب ٹھیک ہے ' کی پٹی باندھ کر ، ہمیں آہستہ آہستہ اس مقام تک پہنچایا گیا ہے ۔ بیرونی طاقتوں کے علاوہ ہمارے اپنے ، جو درحقیقت بیرونی طاقتوں کے زر خرید غلام تھے اور ہیں ، ہماری بربادی کے ذمہ دار ہیں ۔ نہ پچاس سال پہلے سب ٹھیک تھا ۔ نہ آج کچھ ٹھیک ہے ۔ مگر ہمارے ادارے ، ہماری بیوروکریسی ، ہماری حکومت اور ہم پر حکومت کرنے والے خفیہ ہاتھ ، سب کے سب ' سب ٹھیک ہے ' کے اسموک اسکرین کے ساتھ ہم سب کو پچاس سالوں سے بیوقوف بنارہے ہیں ۔ اور ہم آنکھیں بند کرکے ان کی نقالی میں ' سب ٹھیک ہے ' کی جگالی کررہے ہیں ۔ اور سب کچھ تباہ و برباد ہورہا ہے ۔
بنیاد میں بگاڑ آجائے تو کچھ بھی ٹھیک نہیں رہ سکتا ۔ نیت میں فتور آجائے تو مضبوط سے مضبوط بنیاد بھی بگڑنے اور لرزنے لگتی ہے ۔ فطرت میں طمع اور لالچ ہو یا خون میں حرام گھلنے لگے تو نیت میں فتور آہی جاتا ہے ۔ اور پھر کہیں بھی کچھ بھی ٹھیک نہیں رہ پاتا ۔ نہ قلب ۔ نہ روح ۔ نہ ذہن ۔ نہ بدن ۔ نہ گھر ۔ نہ معاشرہ ۔ نہ قوم ۔ نہ ملک ۔
یہ حال آج ہم سب کا ہے ۔ اوپر سے نیچے تک ۔ دائیں سے بائیں تک ۔ قوانین قدرت سے بغاوت کی سزا ہماری نسلوں تک پھیلا دی گئی ہے ۔ انفرادی طمع ، ہوس اور لالچ نے اجتماعی بقا کو داو پر لگا دیا ہے ۔ کھوکھلے دعووں کی ہوا سے بربادی کی آگ اور بھڑکتی جارہی ہے ۔ مکر ، جھوٹ اور فریب نے ہماری منافقت کو چار چاند لگا دئیے ہیں ۔ دو دو ، چار چار ، آٹھ آٹھ چہروں کے ساتھ ہم صبح کچھ اور کہتے ہیں اور شام میں کچھ اور کرتے ہیں ۔ ایسے میں کچھ بھی تو ٹھیک نہیں ہوسکتا ۔
ایسے میں اگر ہم محض خود کو ٹھیک کرنے کی سعی میں جت جائیں تو یہ ہی بڑے کمال کی بات ہوگی ۔ ایسے میں اگر ہم اپنی ہی دو رخی اور اپنی ہی شخصیت کے تضادات کو صحیح کرنے کی جستجو اور جسارت کرلیں تو یہ ہی بڑی بات ہوگی ۔ مگر ایسا سب کچھ کرنے کے لئیے ہمیں اپنی توجہ اور اپنی توانائی کو فوکس کرکے جینا ہوگا ۔ اپنی وکٹ سنبھالنی ہوگی ۔ اپنے آپ کو عمل کی حقیقی مثال بنانا ہوگا ۔ ہوسکتا ہے ، اس طرح ہم سے جڑے کچھ اور لوگ بھی ، اپنی اپنی جگہ ، اپنے آپ کو ٹھیک کرنے کرنے کی کوشش کرنے لگیں ۔ باتوں ، دعووں اور نعروں سے کبھی کچھ ٹھیک نہیں ہوسکتا ۔ بحثوں ، تقریروں اور مباحثوں سے کبھی کوئی تبدیلی نہیں آسکتی ۔ تنقیدوں اور تعریفوں کے پہاڑ کھڑے کرنے سے نہ کوئی اصلاح ممکن ہے ۔ نہ کسی فلاح کا امکان ہے ۔
سب ٹھیک کرنے کا سفر اپنی ذات سے شروع ہوکر اپنی ہی زندگی پر ختم ہوتا ہے ۔ اپنے اندر سچائی ، ایمانداری اور انصاف کے عوامل کی پرورش کے بنا کوئی بھی فرد ، ادارہ یا ملک کسی اور کے لئیے کچھ بھی نہیں کرسکتا ۔ قدرت کا قانون ہو یا جنگل کا قانون ۔ یا پھر بدمعاشوں کے ٹولوں کا قانون ۔ جہاں جہاں قانون اور انصاف کی بلا تفریق پابندی رہتی ہے ، وہی جگہ ، وہی گروپ ، صحیح ہو یا غلط ، باقی ماندہ لوگوں سے آگے رہتا ہے اور سب کچھ نہیں تو بہت کچھ ٹھیک رکھتا ہے ۔ اور جب اور جہاں یہ سب نہیں ہوتا اور ہر شخص اپنے اپنے اصول ، اپنی اپنی پسند کے مطابق مرتب کرکے دندنداتے ہوئے زندگی گزارنے کو ترجیح دیتا ہے ۔ وہاں پھر کوئی نظام برقرار نہیں رہ سکتا ۔ وہاں پھر صرف ' سب ٹھیک ہے ' کے کاغذی جھنڈے ٹنگے رہ جاتے ہیں ۔ اور کچھ عرصے بعد وہ بھی چیتھڑے ہوکر قدموں تلے روندے جاتے ہیں ۔ اور کبھی بھی ، کچھ بھی ٹھیک نہیں ہو پاتا ۔


" سب ٹھیک ہے "
نیا کالم / بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ،
جسمانی ، روحانی ، جنسی و منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ

www.drsabirkhan.blogspot.com
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
www.g.page/DUAAGO 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں