جمعرات، 2 جنوری، 2020

اندھیرے کا سفر ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

" اندھیرے کا سفر "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

آج پھر وہ آئی تھی ۔ کئی ماہ کے بعد ۔ اپنے دل کا غبار ہلکا کرنے کے لئیے ۔ ڈھائی گھنٹوں میں Dun Hill کا آدھا پیکٹ دھوئیں کی نذر کرکے ، گزشتہ کئی ماہ کی روداد سنا کر چلی گئی ۔ میں کبھی کرسی کی پشت سے ٹیک لگاتا رہا ۔ کبھی دونوں ہاتھ میز پر رکھ کر اس کی آنکھوں میں جھانکتا رہا ۔ کبھی یوگا اور جم وزن کم کرکے باڈی کو شیپ میں لانے کی باتیں ۔ کبھی اس کے خاندان میں ہونے والی شادی کا ذکر ۔ کچھ شوہر کی معاشی تنگ دستی کا حال ۔ کچھ بڑھتی ہوئی مہنگائی سے گھر کا بجٹ آوٹ ہونے کا احوال ۔ کچھ اپنی جاب کی پریشانی ۔ کچھ اپنی اعلی تعلیم کے حصول میں درپیش مشکلات کی فکر ۔ کچھ اپنے بچوں کی تعلیم کی راہ میں حائل پیسوں کی کمی کا خیال ۔ کچھ بیرون ملک منتقل ہونے کے پلان ۔ اور کچھ دوسری شادی کا ارادہ ۔ مگر ہر بات ، ہر ارادہ آدھا اور ادھورا ۔ کچھ Grandiosity , کچھ Paranoia , کچھ Narcissum اور باقی کی پوری شخصیت پر
جنون و یاسیت Bipolar Disorder کے چمکتے اور بجھتے رنگ ۔ شوہر ان پڑھ ۔ خود سوشل اور اس حد تک دوستیاں کہ مرد اس کی خاطر ایک دوسرے کو مارنے اور مرنے پر تیار ۔
یہ ایک ایسی پڑھی لکھی ورکنگ وومن کی آدھی ادھوری کہانی ہے جسے جاننے اور چاہنے کے باوجود پوری بیان کرنا کردار اور اختیار سے باہر ہے ۔ اور یہ کسی ایک عورت کی کہانی نہیں ۔ ہمارے معاشرے کی ان گنت عورتیں ، آزادی نسواں کے نام پر اس حد تک آزاد ہوچکی ہیں کہ ان کی آزاد روی کی ہر کہانی ناقابل بیان ہوجاتی ہے ۔ کہ ان گنت خاندانوں کے شیرازے بکھرنے کا ڈر ان کہانیوں کو کہنے اور لکھنے سے روک دیتا ہے ۔ یہاں تک کہ فرضی نام اور دیگر حوالے بھی اسی احتیاط اور احترام کی نذر کردینے پڑتے ہیں کہ کہیں کوئی ذرا سا اشارہ بھی پردہ نہ اٹھا دے ۔ اور بھرے مجمع میں کسی کی عزت پر انگلیاں نہ اٹھنے لگیں ۔
جب اللہ تعالی پردے میں رکھنا پسند کرتا ہے تو ہم کون ہوتے ہیں پردہ ہٹانے والے ۔ ایسے میں مرکزی کردار کی چند چیدہ چیدہ ایسی مخصوص باتیں ہی ہائی لائٹ کرنی ہوتی ہیں ۔ جن سے اور کچھ لوگ استفادہ حاصل کر سکیں اور بروقت اپنی زندگی میں بہتر تبدیلیاں لا سکیں ۔
آج کی کہانی کی مرکزی کردار ہماری پیپ پڑی سوسائٹی کی عکاسی کرتی ہے ۔ اس طرح کی کئی عورتیں اپنی اپنی کہانیاں اپنے اپنے وقتوں میں بیان کرتی رہی ہیں ۔ ان کی خوبصورتی ، ان کا انداز ، ان کی دل لبھاتی باتیں ، ان کا Superficial Charm , ان کی ذاتی ازدواجی زندگی کی خود ساختہ مظلومیت اور محرومیوں کے قصے ، ان کی ذہانت ، ان کی تقاریر ، موٹی موٹی کتابوں پر ان کے تبصرے ، سیاست اور معاشرت پر مباحثے ، کسی بھی عالم فاضل ، دانشور ، لکھاری ، مقرر ، سیاست دان ، ادیب ، شاعر ، صحافی ، اینکر پرسن ، پروفیسر ، پروفیشنل کو چنملاقاتوں میں کلین بولڈ کرسکتے ہیں ۔ اور کسی بھی مرد کو اپنی زلفوں کا اسیر بنا سکتے ہیں ۔
دروازہ کھلا ہو تو کوئی بھی اندر داخل ہو سکتا ہے ۔ بند دروازے پر دستک ہو تو گھر کے مکین کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ دروازہ کھولے یا نہ کھولے ۔ مقفل دروازوں پر شاذ و نادر ہی کوئی دیوانہ دستک دیتا ہے ۔
عورت کی جب ہر شے ، ہر بات کھلی ڈھلی ہو ، کیا چہرہ ، کیا زیبائش ، کیا دل ، کیا زبان ، کیا ناز ، کیا انداز تو اس سے ملنے والا ہر مرد ہی اس کے سحر میں گرفتار ہوجاتا ہے ۔ ڈرپوک اور کم ہمت دل ہی دل میں اس عورت کی مورت کو مورتی بنا کر پوجنا شروع کردیتے ہیں ۔ اور کردار و تربیت سے عاری حضرات ببانگ دہل محبت کے دعوے اور نعرے بلند کر اٹھتے ہیں ۔ اور جو بہت ہی ٹیڑھے اور پٹڑی سے اترے ہوئے ہوتے ہیں ، ہاتھ پاوں دھو کر کھلی ڈھلی عورت کے جسم کو فتح کرنے کی تگ و دو میں لگ جاتے ہیں اور اپنی ہوس کو عشق و محبت کے ذرا مہذبانہ الفاظ کا پیراہن پہنا دیتے ہیں ۔ اور جو کسی بھی طرح کے معاشرتی اور اخلاقی دباؤ کے زیر اثر نہیں ہوتے ، وہ زور زبردستی پر اتر آتے ہیں ۔
یوں کھلی ڈھلی عورت ، ڈھکی چھپی دعوت عام دے کر ، اپنی خود ساختہ مظلومیت کا رونا گانا گا کر اپنے گرد مردوں کا ہجوم جمع کرلیتی ہے ۔ اور جب ان مردوں میں سے کوئی ایک یا دو چار کسی بھی طرح کی پیش رفت کرتے ہیں تو ایسی عورت کو اپنے اوپر ہونے والی نادیدہ زیادتیوں کا ڈھول اور زور و شور سے پیٹنے کا موقع مل جاتا ہے ۔ اور وہ ایک کے بعد ایک اور مرد کا شکار کرکے آگے بڑھتی جاتی ہے ۔ اور لوگوں کی نظروں میں معصوم اور مظلوم ہی رہتی ہے ۔
ایسی عورتیں معاشرتی نفسیات کا بھرپور فائدہ اٹھاتی ہیں ۔ ایک طرف تو ان کو آزادی نسواں کے نام نہاد نعروں کا تحفظ مل جاتا ہے ۔ اور دوسری طرف ، بحیثیت عورت ہونے کے ناطے Certified اور دائمی مظلوم ہونے کا سچ جھوٹ ۔
حقیقت اس کے برعکس بھی ہوسکتی ہے ۔ دنیا میں محض مرد ہی ہمیشہ ظالم اور سنگ دل نہیں ہوتے ۔ عورتوں کی زیادتیاں منظر عام پر نہیں آتیں ۔ اور نہ ان کی ریشہ دوانیاں کسی کے علم میں آپاتی ہیں ۔
درحقیقت کسی بھی معاشرے میں جب جب بگاڑ پیدا ہوا ہے ، اس کے پیچھے مردوں کا کم ، عورتوں کا زیادہ عمل دخل ہوتا ہے ۔ خواہ گھر کے اندر بچوں کی تربیت میں کوتاہی اور غفلت کی صورت یا بے جا لاڈ پیار اور کھلی چھوٹ کی بابت ۔ اور یا پھر شوہروں اور خاندان کے دیگر بڑوں کے ساتھ زبان درازی اور بدتمیزی ۔ شکر اور سلیقہ مندی سے خالی ہوکر بھی بڑبولا پن اور اپنی غلطی نہ ماننے کی عادت سے لیکر فضول خرچی اور بات بات پر غصہ اور رونا دھونا ۔ یہ سب باتیں معاشرتی پراگندگی کا باعث بنتی ہیں ۔ گھر ، گھر داری اور گھر والی کے پریشر سے پریشان مرد کبھی بھی معاشرے کا کارآمد رکن نہیں بن سکتا ۔ نتیجہ میں جہاں جہاں وہ مرد جائے گا ، اپنی ذہنی اور جذباتی کثافتوں سے ماحول اور آس پاس کے دیگر لوگوں کو متاثر کرے گا ۔
اور گھر سے باہر رہنے والی عورتیں اگر اپنی معاشی مجبوریوں کو ڈھال بنا کر ، اپنی خود ساختہ مظلومیت اور خوبصورتی و ذہانت کی تلواروں سے ادھر ادھر وار کرتی رہیں گی تو گھروں اور خاندانوں کے ٹوٹنے اور بکھرنے کا عمل تیز ہوتا چلا جائے گا ۔
یہ عمل تیز سے تیز تر ہوتا چلا جارہا ہے ۔ طلاق اور خلع کی تعداد میں دن دوگنی رات چوگنی اضافہ تو ہو ہی رہا ہے ۔ اس سے بڑھ کر بھیانک حالات تو یہ ہوچکے ہیں کہ گھروں سے باہر پھرنے اور پھیلنے والی عورتوں کی بہتات نے حلال اور شرم و حیا اور شریعت اور اخلاقی اقدار کا بھی جنازہ نکال دیا ہے ۔
مردوں کی عیاشی کے واقعات تو سب کی زبان پر ہیں ۔ کھلی ڈھلی اور آزاد خیال عورتوں نے جس دھڑلے اور بیباکی سے اپنے شوہروں کے نکاح میں رہتے ہوئے بھی دوسرے مردوں سے ہر طرح کے پوشیدہ ذہنی ، دلی اور جسمانی تعلقات قائم کر رکھے ہوئے ہیں اور ان پر کسی قسم کی ندامت بھی نہیں ۔ اس کا کھلے عام بیان ممکن نہیں ۔ کسی بھی مذہب ، کسی بھی تہذیب ، کسی بھی ثقافت میں Infidelity کی نہ تو گنجائش ہے ، نہ اجازت اور نہ ہی اس عمل کو کہیں بھی قانونی تحفظ حاصل ہے ۔
اس کے باوجود ایسی شادی شدہ خواتین کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے جن کو نہ اپنی عزت کا پاس ہے اور نہ اپنے شوہروں اور بچوں کے نام اور ناموس کی کوئی قدر ہے ۔ محبت یا ضد یا مجبوری کے نام پر انہوں نے رشتہ ازدواج میں رہتے ہوئے بھی غیر مردوں سے تعلقات استوار کررکھے ہیں ۔ اور بدنامی محض مردوں کے کھاتے میں لکھی اور پڑھی جارہی ہے ۔ عورت ہو یا مرد ، ہر دو کے لئیے خالق کائنات نے زندگی کا واضح اور باضابطہ نظام نافذ کیا ہوا ہے ۔ جو روشن اور باعث رحمت و برکت ہے ۔ مگر دور حاضر میں لوگوں کی اکثریت ' اندھیرے کا سفر ' طے کررہی ہے ۔ اور وہ بھی کسی مجبوری میں نہیں ۔ بلکہ اپنی مرضی اور پسند سے ۔ اندھیرے کا یہ سفر ایک تاریک منزل کی جانب لے جا رہا ہے ۔ اور کوئی بھی اپنا راستہ بدلنے پر راضی نہیں ۔

" اندھیرے کا سفر "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی
جسمانی ، روحانی ، جنسی و منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ

www.drsabirkhan.blogspot.com
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
www.g.page/DUAAGO 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں