بدھ، 15 جنوری، 2020

مجھے غصہ کیوں آتا ہے ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

" مجھے غصہ کیوں آتا ہے ؟ "
نیا کالم / بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان


" البرٹ پنٹو کو غصہ کیوں آتا ہے " یہ جاننے کے لئیے آپ کو انیس سو اسی کی دھائی کے ابتدائی سالوں میں ریلیز ہونے والی انڈین آرٹ فلم دیکھنی ہوگی ۔ سچ یہ ہے کہ دنیا کے ہر انسان کو غصہ آتا ہے اور وہ اسے نکالنے پر مجبور ہوتا ہے ۔ اور دنیا کا ہر ذی ہوش انسان اپنے غصے کی ہزاروں تاویلات دیتا ہے ۔ ہر انسان اپنے اپنے غصے کو Justify کرتا ہے اور اپنے اپنے غصے کی ان گنت وجوہات بتاتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کے غصے کو صحیح سمجھا جائے اور غصے کی حالت میں اس کے رویوں اور غصے کی کیفیت میں اس سے سرزد ہونے والی حرکتوں اور باتوں کو درگزر کردیا جائے ۔ خواہ اس سے دوران غصہ ، سنگین سے سنگین جرم ہی کیوں نہ ہوگیا ہو ۔
درحقیقت غصے کی کیفیت انسان کے دماغ کو ماوف کردیتی ہے اور اس کے سوچنے سمجھنے کی اہلیت کو سلب کردیتی ہے ۔ اس کی وجہ دماغ کے اندر رونما پذیر کیمیائی تبدیلیاں ہوتی ہیں ۔ چند خاص ھارمونز ، چند خاص نیورو ٹرانسمیٹرز معمول کی مقدار سے کہیں زیادہ بننے لگتے ہیں ۔ جو پورے بدن اور دماغ کی کیمسٹری اور فزیالوجی کو یکسر تبدیل کر ڈالتے ہیں ۔ اور ہم غصے کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ کوئی فرد واحد یہ نہیں کہہ سکتا کہ اسے غصہ نہیں آتا یا اسے کبھی غصہ نہیں آیا ۔ جب بھی خلاف مرضی یا خلاف خواہش کوئی بات ہوتی ہے یا ایسی کوئی بات جو ہمارے جذبات کو مجروح کرے یا ہمارے کسی بھی طرح کے نقصان کا باعث بنے ، ہمیں غصہ دلا دیتی ہے ۔
انسانی نفسیات کی ان گنت اشکال کی طرح غصے کی بھی کئی قسمیں ہوتی ہیں ۔ کسی کو بہت زیادہ غصہ آتا ہے ۔ کسی کو کم کم ۔ کسی کا غصہ بہت دیر تک رہتا ہے ۔ اور کسی کا غصہ بہت جلد ٹھنڈا پڑ جاتا ہے ۔ کسی کو بہت دیر میں غصہ آتا ہے ۔ اور کسی کو بات بات پر غصہ آجاتا ہے ۔ کسی کا غصہ ذرا نرم اور ملائم ہوتا ہے ۔ اور کسی کا غصہ بے حد گرم اور آگ لگا دینے والا ہوتا ہے ۔
مومن خان مومن کا مشہور شعر شاید آپ کی نگاہ سے گزرا ہو ۔ ' ان کو آتا ہے پیار پر غصہ ۔ ہم کو غصے پر پیار آتا ہے ' ۔ اس نوعیت کی کیفیت عام طور پر اردو کے رومانی ناولوں اور فلموں میں دیکھنے میں آتی ہے ۔ عام زندگی میں غصے پر غصہ ہی آتا ہے ۔ اور جب سے توزن اور احترام اور برداشت ہمارے اندر سے رخصت ہوا ہے ۔ تب سے تو اینٹ کا جواب پتھر سے نہیں ، بلکہ پہاڑ سے دینے اور دلانے اور مزہ چکھانے کا مزہ ہر ایک کو لگ چکا ہے ۔ بدلے اور انتقام کو ہم نے چھوٹے سے چھوٹے معاملے سے لےکر بڑے بڑے معاملات کا بنیادی جز بنا دیا ہے ۔ اور غصے کا برملا اور کھلم کھلا اظہار ہمارے کردار کا امتیازی نشان بن چکا ہے ۔
کسی کی باضابطہ بدتمیزی اور زیادتی پر تو غصے کا آنا اور غصے کا اظہار ایک حد تک منصفانہ کہا جاسکتا ہے ۔ مگر چونکہ غصہ ایک ایسا منفی جذبہ ہے جو پل بھر میں جنون کی شکل اختیار کر جاتا ہے اور پھر جنون کے بے قابو جن کو ہم سمیت کوئی بھی اپنے اپنے نفس کی بوتل میں دوبارہ بند نہیں کرسکتا ۔ تو مظلوم کو ظالم بنتے دیر نہیں لگتی ۔ اور نہ ختم ہونے والی ایک ایسی داستان شروع ہو جاتی ہے ۔ جو فرد سے فرد کے جھگڑے کو معاشرتی فساد اور انارکی میں بدل دیتی ہے ۔ گھر کے گھر ، خاندان کے خاندان تو کیا ، کبھی کبھی تو پوری کی پوری قوم اور سارے کا سارے ملک ایک ایسی گھٹن زدہ ، دھوئیں آلود فضا میں رہنے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔ جو معصوم اور مظلوم کی شناخت کئیے بنا ہر ایک کی نفسیات اور شخصیت میں اتنی زیادہ توڑ پھوڑ مچا دیتی ہے کہ کئی کئی نسلیں اپنا قصور جانے بنا کسی ایک فرد کی ضد ، انا ، تکبر ، غصے اور نفسیاتی بیماری کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں ۔
اسی وجہ سے نہ صرف ہمارے مذہب اسلام میں بلکہ ہر مذہب میں غصے کو حرام اور ممنوعہ قرار دیا گیا ہے ۔
مگر چونکہ دنیا کے ہر فرد نے اپنے اپنے مذہب کی روح کو اپنے اندر اتارے بنا مذہبی عبادات اور معاملات کو رسومات کی شکل میں ڈھال دیا ہے ۔ تو کوئی بھی اس نکتے کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا کہ مذہب سے لیکر نفسیاتی امراض کے ماہرین تک ، ہر ذی ہوش اور دانش مند فرد کسی کی بھی شخصیت اور نفسیات کا جائزہ لیتے وقت کیوں غصے کے جذبے اور غصے کے اظہار کی علامات کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے ۔ اور کیوں غصے کی موجودی یا غیر موجودی کی بنیاد پر ہر حساس سرکاری ادارے یا کسی بھی بڑی آرگنائزیشن میں Selection یا Rejection کے فیصلے کئیے جاتے ہیں ۔ بہت سی جگہوں پر تو ابتدائی انٹرویوز میں آنے والے امیدواروں کو جان بوجھ کر غصہ دلایا جاتا ہے ۔ اور ان کے Threshold کا اندازہ لگا کر ان کو اگلے مرحلے کے لیے پاس یا فیل کیا جاتا ہے ۔
اسی طرح ان گنت دیگر اداروں کی Key Posts کے لئیے انہی افراد کا انتخاب کیا جاتا ہے جو اپنے غصے کو کنٹرول کرنے کا فن جانتے ہیں ۔
آپ کو جب غصہ آتا ہے تو آپ کیا کرتے ہیں ۔ اپنا غصہ کس طرح اتارتے ہیں یا کیسے اسے ٹھنڈا کرتے ہیں ۔ غصہ پی لیتے ہیں یا چنگھاڑنا شروع کر دیتے ہیں ۔ اپنا خون جلا کر اپنے آپ کو نقصان پہنچاتے ہیں یا دوسروں کے رونگٹے کھڑے کر دیتے ہیں ۔ خاموش اور خفا ہوجاتے ہیں ۔ یا دل میں کدورت اور کینہ پالنا شروع کر دیتے ہیں ۔ بدلے کی سوچتے ہیں یا غصہ دلانے والے کو معاف کردیتے ہیں ۔
غصے کی بات پر غصہ آنا نارمل ہے ۔ بلاوجہ بار بار کا غصہ ابنارمل اور دیوانے پن کی نشانی ہے ۔ ہر چھوٹی چھوٹی بات پر غصے میں آجانا ، کمزور اعصابی نظام کی موجودگی کا پتہ دیتا ہے ۔
مضبوط اور توانا اعصابی نظام کے حامل افراد ہی غصے ، بلکہ شدید ترین غصے کی حالت میں بھی فوری طور پر React کرنے سے گریز کرتے ہیں ۔ اور اپنے غصے پر قابو پانے اور اسے قابو میں رکھنے کی قدرت رکھتے ہیں ۔ کچھ لوگ قدرتی طور پر مضبوط اعصاب کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں ۔ کچھ لوگوں کے اعصاب ، وقت اور عمر کے ساتھ کمزور پڑتے چلے جاتے ہیں ۔ کچھ لوگوں کے حالات زندگی اور ان کو درپیش مسائل اور ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور رہنے والوں کے سلوک اور رویے ان کے اعصاب کو توڑ پھوڑ کر ان کے اندر کے غصے کو ہوا دیتے رہتے ہیں ۔ کچھ لوگ پیدائشی طور پر کمزور اعصاب کے مالک ہوتے ہیں ۔ بہت ہی کم لوگ اپنی زندگی کے آخر تک اپنے اعصاب کو یکجا اور یکسو رکھ پاتے ہیں ۔
غصے کی کوئی سی بھی صورت ہو ۔ اعصاب کی کیسی بھی حالت ہو ۔ ہم چاہیں تو کافی حد تک اپنے اعصاب کو مضبوط کرنے اور اپنے غصے کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں ۔ یہ اسی وقت ممکن ہے ، جب ہم نہ صرف اپنے اندر کے غصے سے اچھی طرح واقف ہوں بلکہ اس بات کی شعوری خواہش بھی رکھتے ہوں کہ ہمیں اپنے غصے کو اپنے اوپر کبھی حاوی نہیں ہونے دینا ۔
ایک زمانہ تھا جب مجھے بہت کم غصہ آتا تھا ۔ اور اگر آتا بھی تھا تو زیادہ تر خاموش رہ کر اور اپنے غم و غصے کو اپنے اندر ہی اتار کر کام چلا لیا کرتا تھا ۔ پھر مجھے بھی غصہ آنے لگا ۔ اور اب گزشتہ دس پندرہ سالوں سے تو بہت زیادہ غصہ آنے لگا ہے ۔ مجھے تو میرے غصے کو پیدا کرنے والی وجوہات کا بڑی حد تک علم ہے ۔ اور بڑی حد تک میری کوشش بھی رہتی ہے کہ میں ان وجوہات کو ، جو میرے اختیار میں ہیں ، کم کرنے کی مستقل کوشش میں لگا رہوں ۔ لیکن بہت سی وجوہات ایسی بھی ہیں جو قدرت کی پیدا کردہ ہیں اور ان پر میرا کوئی اختیار نہیں ۔ ان وجوہات پر مجھے صبر کرنا پڑتا ہے ۔ شکر کرنا پڑتا ہے ۔ تنہائی کے خول میں خود کو بند کرکے مراقبہ کرنا پڑتا ہے ۔ تب کہیں جا کر 24 گھنٹوں میں لوٹ پوٹ کر غصہ ٹھنڈا پڑتا ہے ۔ آپ بھی سوچیں کہ آپ کن باتوں پر سیخ پا ہوتے ہیں اور آپ کا غصے کا لائف اسپین کتنا ہے ۔ جس غصے کی معیاد ہفتے سے زیادہ ہونے لگے ، وہ کمزور اعصاب کی نشانی ظاہر کرتا ہے ۔ اور اگر کسی بھی معمولی یا شدید بات پر آنے والا غصہ مہینے سے زیادہ برقرار رہے تو انتہائی کمزور اعصابی نظام اور کمزور شخصیت کی عکاسی کرتا ہے ۔ اور جن لوگوں کا غصہ سالوں رہتا ہے ، اور وہ بدلے اور انتقام کے درپے رہتے ہیں یا اس حوالے سے پلان بناتے رہتے ہیں ، وہ کمزور اعصابی نظام اور کمزور شخصیت کے ساتھ ساتھ کھوکھلی روح اور کینہ پرور اور سیاہ قلب کے مالک ہوتے ہیں ۔ ماہرین نفسیات بھی ایسے لوگوں کا کچھ خاص نہیں بگاڑ پاتے ۔
ہم اور آپ اگر دل سے چاہیں تو اپنے غصے کو ذرا ملائم ، ذرا دھیما ، ذرا ٹھنڈا کر بھی سکتے ہیں اور رکھ بھی سکتے ہیں ۔ آئیے کچھ آسان اور آزمودہ طریقوں کو Revise کرکے Revive کرتے ہیں ۔ جن کی مدد سے ہم غصے کو فہم کی لگام دے سکتے ہیں ۔ آپ بھی ان طریقوں سے ضرور واقف ہوں گے ۔ کسی بھی بات کی تکرار اور خصوصا اچھی بات کی بار بار تکرار اسے ہمارے لاشعور کا حصہ بنا دیتی ہے ۔ تو آج اپنے اپنے غصے کے روک تھام کے چند طریقوں کو دہرا کر دیکھتے ہیں ۔
1۔ درود ابراھیمی کا کثرت سے ورد ۔ جب جب وقت ملے اور وقت تو ملتا ہی رہتا ہے ۔ ہمیں درود ابراھیمی پڑھتے رہنا چاہیئے ۔ اس عمل کے ہزاروں فوائد میں سے ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ ہمارے اعصاب مستقل تقویت اور توانائی پاتے رہتے ہیں ۔ اور ہمارا غصہ اس حد تک کم ہوجاتا ہے کہ جہاں جہاں غصے کے اظہار کی واقعی ضرورت ہوتی ہے ، وہاں بھی ہم چاہنے کے باوجود غصہ نہیں کر پاتے ۔
2 ۔ زیادہ سے زیادہ پیدل چلنا ۔ ننگے پاؤں یا فلیٹ سول شوز میں ۔ ھیل کے بغیر ۔ سادہ جوگرز کے جوتوں کے ساتھ ۔ پیدل چلنے کا عمل ، بدن اور دماغ کے اندر خون کے بہاو کو بڑھاتا ہے ۔ تازہ اور آکسیجن سے بھرپور خون جب دماغی خلیات کو سیراب کرتا ہے تو مقوی نیورو ٹرانسمیٹرز بنتے ہیں اور پرانے اور خراب اور ٹوٹے پھوٹے کیمیائی اجزاء ، پیشاب اور پسینے کی شکل میں خارج ہوتے رہتے ہیں ۔ خون اور دماغ میں جب طاقتور نیورو ٹرانسمیٹرز کی مقدار بڑھتی ہے تو اعصاب کو تقویت ملنا شروع ہوجاتی ہے ۔ اور غصہ ٹھنڈا پڑنے لگتا ہے ۔
3 ۔ گوشت اور کھانے پینے کی دیگر گرم اور مضر صحت اشیاء سے گریز ۔ مثلا چاول ، ڈبل روٹی ، بسکٹ ، لال مرچ ، کولڈ ڈرنکس ، چکنائی ، مٹھائی وغیرہ ۔ یہ سب چیزیں خون میں فاسد مادے پیدا کرکے ، دماغ تک پہنچنے والے خون کو کثیف اور آلودہ کرتی ہیں ۔ اور اعصاب کو کمزور کرتی ہیں ۔ ان چیزوں کو ضرورت سے زیادہ استعمال کرنے والے لوگ عام طور پر غصے سے بھرے رہتے ہیں ۔ ان کے برعکس پھل ، سبزیاں اور دالیں استعمال کرنے والے افراد کے اعصاب زیادہ مستحکم ہوتے ہیں ۔ اور ان کو غصہ بھی کم آتا ہے ۔
4 ۔ بھرپور اور پرسکون 6 سے 8 گھنٹے کی نیند ۔ مخصوص اور صحتمند نیورو ٹرانسمیٹرز کو پیدا کرنے اور خون اور دماغ میں ان کے تناسب کو برقرار رکھنے کے لئیے ضروری ہوتی ہے ۔ اور اعصابی نظام کو شکست و ریخت سے بچاتی ہے ۔
5 ۔ دھوپ اور تازہ ہوا ۔ دھوپ میں بیٹھنے سے وٹامن ڈی کی مقدار میں اضافہ ہوتا ہے ۔ جو بدن کے دیگر حصوں کے ساتھ ساتھ خون ، دل اور دماغ کو بھی فریش اور متحرک رکھتا ہے ۔ اسی طرح تازہ ہوا اعصابی نظام کے لئیے ٹانک کا کام دیتی ہے ۔
6 ۔ ہنسنا ۔ مسکرانا ۔ قہقہے لگانا ۔ اعصابی دباؤ کو کم کرکے ہلکا پھلکا کرتا ہے ۔ اینڈورفنز پیدا کرتا ہے ۔ اور غصے کی کیفیت کو ختم کرتا ہے ۔ کامیڈی فلم ہو یا طنز و مزاح پر مبنی کتابوں کا مطالعہ ۔ اور مختلف اوقات میں ان میں محو ہونے کی عادت ۔ قوت برداشت اور تحمل میں اضافے کا باعث بنتی ہے ۔
7 ۔ ڈائری لکھنا ۔ یا اپنے جذبات ، خیالات اور احساسات کو کاغذ و قلم کے سپرد کرنا ۔ یا مصوری اور رنگوں کا استعمال ۔ اندرونی اعصابی دباؤ میں کمی لاتا ہے ۔ اور غصے کے اظہار کو Mould اور Modify کرکے تخلیقی شکل دیتا ہے ۔
8 ۔ غصے کی حالت میں پانی پینا ۔ یا کسی کو غصے میں شرابور دیکھ کر اسے پانی پلانا ۔ خون کو پتلا کرنے میں مدد دے کر دماغ تک پہنچانے کے عمل کو بڑھاتا ہے ۔
9 ۔ تفریح اور مصروفیت میں تناسب ۔ فطرت کے مظاہر میں وقت گزاری ۔ وہ عوامل ہیں جو اعصاب کو دباؤ اور کھنچاؤ سے دور کرتے ہیں ۔ اور غصے کی حالت میں جانے سے روکتے ہیں ۔ مصروفیات کی زیادتی ہو یا بالکل فراغت ۔ دونوں چیزیں آہستہ آہستہ اعصاب کو کمزور کرتی رہتی ہیں ۔ اور انسان کے اندر غصہ جمع ہوتا رہتا ہے ۔
10 ۔ بوریت اور یکسانیت سے اجتناب ۔ روٹین لائف ہو یا روزمرہ کے مخصوص کاموں کی ایک ہی نہج پر ادائیگی ۔ نیورونز اور نیورو ٹرانسمیٹرز پر اچھا اثر نہیں ڈالتی ۔ نتیجے میں اعصابی کمزوری اور پھر اس کے بعد غصہ کے بڑھ جانے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ۔
تنوع اور رنگا رنگی اور Multitasking اعصاب کو انرجی فراہم کرتے ہیں ۔
ان دس باتوں کے علاوہ اور ہزار باتیں بھی ایسی ہیں جو اعصابی نظام کو مضبوط بنا کر غصے کے امکانات کو کم کرتی ہیں ۔ ان ہزار باتوں کو جاننے کے لئیے آپ کو اپنا مطالعہ اور مشاہدہ بڑھانا ہوگا ۔ جوں جوں آپ کی عقل اور سمجھ کا دائرہ وسیع ہوتا جائے گا ۔ آپ کی گفتگو کم ہوتی چلی جائے گی ۔ جوں جوں آپ کی باتوں کی لت میں کمی آئے گی ۔ آپ کا غصہ ، آپ سے ڈر کر دور بھاگتا جائے گا ۔ آزما کر دیکھئیے گا ۔ ان سب باتوں کے استعمال کے باوجود بھی اگر آپ کے غصے میں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ تو پھر کسی ماہر نفسیات کی مدد لینے میں ہی آپ کا ، آپ کے اردگرد کے لوگوں کا ، آپ کے ماحول اور محلے کا ، آپ کی قوم اور آپ کے ملک کا فائدہ ہے ۔ غصے کی فراوانی نے ، جذباتیت کے ہیجان نے ، انفرادی اور اجتماعی عقل اور فہم کو سولی پر لٹکا دیا ہے ۔ غصے اور جذباتیت میں اٹھایا جانے والا ہر قدم نئی تباہی ، نئی بربادی کی جانب لے جارہا ہے ۔ اور ہماری باتوں کے دریا بہے جارہے ہیں ۔ بڑھتے جارہے ہیں ۔

" مجھے غصہ کیوں آتا ہے؟ "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ،
جسمانی ، روحانی ، جنسی و منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ ۔

www.drsabirkhan.blogspot.com
www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
www.g.page/DUAAGO

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں