جمعرات، 30 جنوری، 2020

ھوم لینڈ ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

" ھوم لینڈ "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان


کل دوپہر Homeland کے ساتویں سیزن کی آخری قسط دیکھی ۔ جو 2018 میں ٹیلی کاسٹ ہوا تھا ۔ رات میں کافی دیر تک سوچتا رہا کہ اب کیا شروع کرنا ہے ۔ کوئی کتاب یا کوئی اور سیزن ۔ پھر خیال آیا کہ گزشتہ دنوں Blacklist کا آخری سیزن ختم کرنے کے بعد بھی Frederick Forsyth کی 2014 میں شائع ہونے والی The Kill List پڑھی تھی ۔ تو کیوں نہ اب بھی کوئی کتاب نکالی جائے ۔
تنہائی ، فرصت اور ڈپریشن کے لمحات مزیدار سردیوں میں اور بھی سرد مہری برتنے لگتے ہیں ۔ اور سوچ کے پر جل جل کر پگھلنے لگتے ہیں ۔ ایسے سمے دل چاہتا ہے کہ کچھ دیر کو تخیل کی کھڑکیاں کھول کر خود کو کھلا چھوڑ دیا جائے ۔ ایسے سمے حقیقت اور حقیقی مسائل کی تلخیوں کو وقتی طور پر فراموش کرکے ہی اندر کی طاقت کو Restore کیا جاسکتا ہے ۔
ایسے سمے کتاب اور کہانی کی رفاقت ، تنہائی کے احساس کو Sideline کرکے نئے خوابوں کے سفر پر روانگی کو ممکن بناتی ہے ۔ اس بار کے سفر کا قرعہ فال ، ابن صفی کی جاسوسی دنیا کے نام نکلا ۔ بستر کے سرہانے بنی دیوار کی الماری کے ایک خانے میں رکھا گتے کا ایک بڑا ڈبہ ۔ جس میں جاسوسی دنیا کا پورا سیٹ رکھا ہوا ہے ۔ اس میں سے Random Pick میں دو کتابیں نکال لیں ۔ اور نمبر 70 اور 71 والی کتاب پڑھنی شروع کردی گئی ۔ آج سے 63 سال پہلے 1957 میں یہ دونوں حصے شائع ہونے تھے ۔
' جاپان کا فتنہ ' اور ' دشمنوں کا شہر ' ۔ گو پہلے بھی دو تین بار یہ کتابیں پڑھی جاچکی ہیں ۔ مگر اس بار پھر وہی لطف اور اسی دلچسپی کا رنگ تھا جو ماضی میں رہا تھا ۔ لطف ، تفریح اور دلچسپی کے ساتھ ساتھ ابن صفی کی عمران سیریز کے 122 اور جاسوسی دنیا کے 127 ناولوں کا مرکزی خیال ہمیشہ اپنے وطن کے خلاف سازش میں ملوث اور قانون اور اخلاق کی دھجیاں بکھیر دینے والے مجرموں کو کیفر کردار تک تک پہنچاتے ہوئے دکھانا ہوتا تھا ۔ اور ہر کہانی میں جیت قانون کے رکھوالوں کی ہوا کرتی تھی ۔ معمولی نوعیت کے جرائم سے لیکر بین الاقوامی لٹیروں کے کرتوت ، سبھی ، ان کی کہانیوں کا حصہ ہوتے تھے ۔ اور ہر کہانی کا اختتام ، حق اور سچ کی جیت پر ہوتا تھا ۔ تجسس اور تفریح کے امتزاج کے ساتھ شاندار اور جاندار ادب کی تخلیق اپنی جگہ ۔ ایسا ادب جس نے بلا مبالغہ اردو زبان سے شد بد رکھنے والی پانچ نسلوں کو کسی نہ کسی شکل میں Inspire اور متاثر کیا اور کررہا ہے ۔
تحیر ، تجسس ، جستجو ، اور نامعلوم اور مخفی رازوں اور باتوں کی تلاش اور تحقیق اور ان سب پر سے پردہ اٹھانے کی تگ و دو کی حس ، کچھ کم کچھ زیادہ ، دنیا کے ہر انسان کی جبلت اور نفسیات کا حصہ ہوتی ہے ۔
سسپنس ، ایڈونچر ، اور فوق الفطرت واقعات پر مبنی کہانیاں اور داستانیں اسی وجہ سے تاریخ کے ہر دور میں مشہور اور مقبول ہوئی ہیں ۔ خواہ وہ مکمل فرضی اور تخیلاتی ہوں یا حقیقت اور حقیقی زندگی پر مبنی ۔ ایسی کہانیوں کے تانے بانے ، جب جب ، دل میں اتر جانے والے انداز اور الفاظ میں باندھے گئے ، انہوں نے شہرت اور مقبولیت کے نئے جھنڈے گاڑ دئیے ۔ اور ان میں سے کچھ تو کئی سو سالوں تک زندہ اور متحرک بھی رہیں ۔
وہی کہانیاں عرصہ دراز تک اپنی شگفتگی اور تازگی برقرار رکھ پاتی ہیں ۔ جو انسان کی بنیادی نفسیات کے تضادات اور انسان کے خوابوں ، خیالوں ، جذبوں اور خواہشوں کی سچی نمائندگی کرنے کے ساتھ ، ہر عمر اور ہر دور کے انسان کو وقتی طور پر زندگی کے تلخ مسائل سے دور کرکے ، اسے ذہنی سکون اور دلی اطمینان کی ایسی کیفیت سے ہمکنار کرتی ہوں جو اسے ازسرنو ترو تازہ ، توانا اور شاداب کردے اور اس کی ذہنی و جسمانی تھکن دور کرکے ، اسے دوبارہ سے زندگی کے مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لئیے تیار کردے ۔
اور اس کے تخیل کی پرواز بڑھا کر ، اسے نئے اور بھرپور آئیڈیاز سے روشناس کرا سکیں ۔
جو کہانیاں ، اس معیار پر پورا نہیں اتر پاتیں ، وہ قلیل عرصے میں نام اور دام کما کر لوگوں کے ذہنوں اور دلوں سے محو ہوجاتی ہیں ۔ زیادہ مدت تک اپنی دلچسپی برقرار نہیں رکھ پاتیں ۔ اپنے اپنے وقتوں میں بڑے بڑے نامور لکھاری آئے ، انہوں نے بہت کچھ لکھا ، نام بھی کمایا ، پیسہ بھی کمایا ۔ مگر آج ان کی تحریروں کو پڑھنے والا یا ان کے شہہ پاروں کو دیکھنے والا کوئی بھی نہیں ۔ یہاں تک کہ ان کے نام اور ان کے کام سے بھی زیادہ لوگوں کو شناسائی نہیں ۔ ساٹھ ، پینسٹھ سال پہلے کے ادبی کاموں اور فلموں کو ہی دیکھ لیجئیے ۔ آج کی نسل کو ابن صفی کی کتابوں سے نہ سہی ، کم از کم ان کے نام سے آگاہی ضرور ہے ۔ جبکہ ان کے ہم عصر قلم کاروں میں سے شاید ہی کسی کسی کا نام کسی کو پتہ ہو ۔
آج کی نسل بہت ذوق و شوق سے " ھوم لینڈ " یا " بلیک لسٹ " یا " ہاوس آف کارڈز " جیسے انگریزی ڈرامے اور سیزن دیکھ رہی ہے ۔ لیکن قوی امکان اس بات کا ہے کہ " دی سینٹ " یا " دی پرسیوڈرز " یا " سکس ملین ڈالر مین " کے چالیس ، پینتالیس سال پرانے ڈراموں کی طرح ایک وقت ایسا آئے گا ، جب آج کے " سیزن " بھی پرانے ہو جائیں گے ۔ اور آنے والے وقتوں کے لوگ ان کے نام سے تو ہوسکتا ہے واقف رہیں مگر ان کو دیکھنے میں دلچسپی رکھنے والے لوگ نہیں ہوں گے ۔ یہ قدرت کا قانون بھی ہے ۔ اور یہ ہر زمانے ، ہر وقت کے اپنے اپنے معیار بھی ہیں ۔ کہ بہت ہی کم کم انسانی تخلیقات ایسی ہوتی ہیں یا ہوسکتی ہیں جو ہر زمانے کے انسانوں کی ذہنی تفریح اور دلچسپی کا باعث بن سکیں ۔ اور ہر موسم ، ہر سیزن میں اپنی کشش برقرار رکھ سکیں ۔
درحقیقت وہی تحریر یا آج کل کے زمانے کے طور طریقوں کے حوالے سے اسی ڈرامہ یا فلم کا لکھا گیا اسکرپٹ لمبی عمر پا سکتا ہے ، جو سماجیات ، عمرانیات ، معاشرت ، اخلاقیات ، نفسیات ، روحانیت اور انسانیت کے ہر اینگل ، ہر زاویے ، ہر نکتے پر ممکنہ حد تک Non Controversial ہو اور اسے پڑھنے ، دیکھنے اور سننے والے معاشرے کے ہر طبقے سے تعلق رکھتے ہوں ۔ اور ہر مکتبہ فکر کا فرد اس میں اپنی ڈوب کر اپنی روح کی تنہائی کو دور کرسکتا ہو اور اپنی توانائی کو ری چارج کرسکتا ہو ۔ خواہ وہ دس سال کا ہو یا اسی سال کا ۔ مرد ہو یا عورت ۔ انگوٹھا چھاپ جاہل مطلق ہو یا پانچ مضامین میں پی ایچ ڈی ۔
کسی بھی رنگ و نسل کا ہو ۔ اس کی مادری زبان کچھ بھی ہو ۔ جھونپڑی میں رہتا ہو یا کسی محل کا مکین ہو ۔ شریف ہو یا بدمعاش ۔ دھوکے باز ہو یا ایماندار ۔ کسی گاوں دیہات کا باسی ہو یا شہر کا رہائشی ۔ اسے وہ تحریر ، وہ ڈرامہ ، وہ فلم اپنی اپنی سے لگے ۔ اس میں اسے اپنی روح یا اپنے خوابوں کا عکس چھلکتا ہوا دکھائی دے ۔ اور کچھ دیر کو وہ اپنی زندگی کے تمام مسائل بھول سکے ۔ کسی ایک خاص مکتبہ فکر یا نظریہ یا خیال کے تحت لکھا جانے والا ادب ہو یا اسکرپٹ ہو یا ڈائیلاگ ، اپنے زمانے کے پڑھنے اور دیکھنے والوں میں اونچا مقام تو ضرور پاتا ہے مگر اسے خاص و عام میں یکساں پذیرائی نہیں حاصل ہو پاتی ۔ شیکسپیئر ہو یا ورڈزورتھ ، گورکی ہو یا ٹالسٹائی ، خلیل جبران ہو یا غالب ، سعدی ہو یا رومی ، سب کے نام اور کام آج بھی زندہ ہیں ، مگر مخصوص حلقوں میں ۔
آج کا قاری ، آج کا ناظر ، آج کا سامع ، آج کا انسان ہے ۔ آج کے انسان کی نفسیاتی شخصیت کا حامل ۔ آج کی ضرورتوں ، خواہشوں ، آج کے خوابوں ، جذبوں کا قیدی ۔ آج کے ماحول کا اسیر ۔ ہزار برس بعد پھر ایک بار داستان گوئی کے زیر حصار ۔ پڑھنے سے زیادہ ناٹک دیکھنے اور کہانی سننے کا اشتیاق ۔
مگر برسوں پرانی وہ کہانیاں آج بھی اپنا طلسم رکھتی ہیں ، جو اگر سنائی اور سنی جائیں تو دل میں اترتی چلی جائیں ۔ اور جن کو اگر ڈرامائی اور فلمی شکل دی جائے تو آج کے انسان کو لگے کہ یہ تو آج ہی کا قصہ ہے ۔ یہ تو آج ہی کی کہانی ہے ۔ ہیری پوٹر اور داستان الف لیلہ میں کوئی زیادہ فرق تو نہیں ۔ لارڈ آف رنگز ہو یا طلسم ہوش ربا ، ایک ہی رنگ اور انداز کا بیان ہے ۔ یہ تو وہ دو چار نام ہیں جو دنیا کے کونے کونے کے پڑھنے اور دیکھنے والوں کے علم میں ہیں ۔ اپنے اپنے علاقوں اور خطوں کی اپنی اپنی صدیوں پرانی داستانیں ہیں جو اپنے اپنے علاقوں میں زندہ اور تابندہ ہیں ۔ ہر ملک ، ہر ھوم لینڈ کی اپنی تاریخ ، اپنی تہذیب ، اپنی ثقافت کی طرح اپنا ادب ہے ۔
اسرائیل کی ایک ڈرامہ سیریز سے لئیے گئے مرکزی خیال کو امریکہ کے ایک ٹی وی چینل نے " ھوم لینڈ " کے نام سے ڈرامہ سیریز تشکیل دی ۔ جس کا آٹھواں سیزن غالبا اس سال ٹیلی کاسٹ ہونے جارہا ہے ۔ اپنے ملک اور اپنے ملک کی پالیسی کو صحیح دکھانے کے لئیے ایسی فرضی کہانیوں کا جال ، جو درحقیقت ، امریکہ کی حقیقی پالیسیوں کی نشاندہی کررہا ہے ۔
اور اس نوعیت کی ہزاروں فلمیں اور دیگر ڈرامے اور ناول ۔ جو تفریح کے ساتھ آج کے انسان کی صحیح غلط ذہن سازی کررہے ہیں ۔ آج کے ادب کی ایک انتہائی خطرناک اور بگڑی ہوئی صورت ہیں ۔ جو دنیا کے کونے کونے میں پڑھے اور دیکھے جارہے ہیں ۔ اور شہرت اور مقبولیت پارہے ہیں ۔ کیونکہ ان کی اکثریت متنازعہ خیالات کی بھی عکاسی کررہی ہے اور اپنے ٹارگٹیڈ قارئین اور ناظرین اور سامعین کو نفرت ، انتقام اور ظلم اور تشدد پر بھی اکسا رہی ہے ۔ اور جھوٹ اور فریب کے ایسے پروپیگنڈے کو بھی ہوا دے رہی ہے ، جو سچائی اور حقیقی معاملات کو توڑ مروڑ کر دنیا کے مختلف مذاہب اور مختلف قوموں اور مختلف تہذیبوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرکے کبھی نہ ختم ہونے والی جنگوں کے سلسلے کو دراز کررہا ہے ۔
المیہ یہ ہے کہ پروپیگنڈے پر مبنی اس تحریری اور بصری لٹریچر کے توڑ میں کچھ بھی تخلیق نہیں کیا جارہا ۔ ہمارے نوجوانوں کو اس خاموش سیلاب کے سپرد کردیا گیا ہے ۔ ہمارے یہاں ادب اور ادبی اصناف کے نام پر جو کچھ بھی لکھا یا فلمایا جارہا ہے ، اس کا زمینی حقائق سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ۔ یا تو فکشن برائے فکشن ہے ۔ اور یا موروضی حقائق کے نام پر محض سیاست اور سیاست دانوں کی ریشہ دوانیوں اور کرتوتوں کی کہانیوں پر گرما گرم بحث ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ خالص تفریحی ادب بھی ناپید ہوچکا ہے ۔
یو ٹیوب ، وی لاگ اور بلاگ کے چکر میں آکر بڑے بڑے نامور ادیب اور دانشور بھی چکرا چکے ہیں ۔ اور ہنس کی چال چلنے کی کوشش میں اپنی فطری صلاحیت کو اپنے ہاتھوں قتل کرچکے ہیں ۔ اپنی جگہ ان کا یہ قدم کچھ ایسا غلط بھی نہیں ۔ ہمارے یہاں لکھنے والوں کو Taken As Granted لیا جاتا ہے ۔ ماسوائے ان کے ، جو اپنے منہہ اپنی قیمت لگاتے ہیں اور چمک دمک کے عوض اپنے آپ کو پورے کا پورا بیچنے کی اہلیت رکھتے ہیں ۔ اور ایسے لکھاری کبھی بھی نان کمرشل ادب تخلیق نہیں کر پاتے ۔ کیونکہ ان کے لکھے ہوئے اور کہے ہوئے لفظ ، روح سے خالی ہوتے ہیں ۔ روح سے عاری کوئی بھی تحریر لمبی عمر نہیں پا سکتی ۔ اور جو اپنے خون سے خواب بنتے اور دکھاتے ہیں ، ان کی قدر یہ بے قدر اور بے حس معاشرہ نہیں کر پاتا ۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم سب ایسی تحریروں کو ترس رہے ہیں جو انسانیت اور اخلاقیات کے اعلی و ارفع مشن کو مدنظر رکھتے ہوئے لکھی گئی ہوں ۔ یا انسان کو تفریح اور سہولت فراہم کررہی ہوں ۔ اور یا کچھ اور نہیں تو ، ملک اور وطن کی سالمیت اور بقا کو ہائی لائٹ کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہوں ۔ اور یا یہ بھی نہ ہو تو کم از کم کسی نہ کسی شکل میں انگریزی زبان کے پروپیگنڈا ناولز اور فلموں اور ڈراموں کے اسکرپٹس کا مقابلہ کرتے ہوئے نظر آتی ہوں ۔
جب یہی تلخ سچائی ہو تو ہمارے نوجوان اپنے ہوم لینڈ کی محبت میں ملوث ہونے کی بجائے یہاں سے ہجرت ہی کے بہانے ڈھونڈتے رہیں گے ۔ اور بیرون ملک آباد ہوکر ہنسی خوشی ہر طرح کی گالیاں برداشت کرتے ہوئے اپنی معیشت بہتر بنانے میں لگے رہیں گے ۔ اور جب ان کے پاس اپنی زبان میں پڑھنے اور دیکھنے کو مضبوط اور متحرک لٹریچر نہیں ہوگا تو یہ خلا بھی ایسے منفی اور پروپیگنڈے سے لبریز جھوٹے ، غیر حقیقی ادب سے ہی بھرے گا ، جس میں بات بے بات اور ہر بات پر اسلام اور مسلمانوں کو مورود الزام ٹھہرایا جارہا ہے ۔ اور پاکستانیوں سمیت ہر محب وطن مسلمان کو Terrorist اور فسادی قرار دیا جارہا ہے ۔ یہ ذہنی زہر آہستہ آہستہ اتنی ہوشیاری اور چالاکی سے تفریح کے نام پر نوجوانوں کو پلایا جارہا ہے کہ نہ پینے والوں کو کچھ پتہ چل رہا ہے ، نہ پلانے والوں کی آخری صفوں میں کھڑے لوگوں کو کچھ اندازہ ہے کہ وہ پردے کے پیچھے کھڑے اصل کھلاڑیوں کے کس مقصد کو اپنی لالچ یا نادانی کے سبب پورا کررہے ہیں ۔ تفریح اور ادب کے نام پر دنیا کے چپے چپے میں ، دنیا کے ہر فرد کے ذہن کو پراگندہ کیا جارہا ہے اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کے بیج بوئے جارہے ہیں ۔ اور ہر مذہب ، ہر قوم ، ہر ملک ، ہر تہذیب کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کھڑا کیا جارہا ہے ۔
اور ہمارے سچے اور سگے مسلمان ادیب ، دانشور ، صحافی ، شاعر ، بلاگرز ، وی لاگرز ، ڈرامہ رائیٹرز ، اسکرپٹ رائیٹرز ، پروڈیوسرز ، ڈائریکٹرز ، اینکرز ، صرف اور صرف اپنے اپنے نام کے دام کھرے کرنے میں مصروف ہیں ۔ کوئی ایک بھی ایسا نہیں نظر آتا جو دل سے نوجوانوں کے معصوم اور شفاف دلوں کی ذہن سازی کررہا ہو یا کرتا ہوا دکھائی دے رہا ہو ۔ اپنا خون پلانا پڑتا ہے ۔ پھر کہیں جاکر نسلوں کی آبیاری ہوتی ہے ۔ پھر کہیں جاکر یہ تصور ، یقین کی صورت بچے بچے کے دل و دماغ میں جگہ پاتا ہے کہ " ھوم لینڈ " کہتے کسے ہیں ۔ مذہب اور وطن کی سالمیت اور حرمت ہوتی کیا ہے اور کیسے اس محبت کا شجر سینچا جاتا ہے ۔

" ھوم لینڈ "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ،
جسمانی ، روحانی ، جنسی و منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ شاعر ۔ بلاگر ۔ پامسٹ

www.drsabirkhan.blogspot.com
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
www.g.page/DUAAGO 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں