پیر، 19 اگست، 2019

" نام کا کام " ڈاکٹر صابر حسین خان

" نام کا کام "

نیا کالم/ بلاگ/ مضمون

دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

اگر آپ یہ کالم پڑھ رہے ہیں تو آپ میرے نام سے واقف ہوں گے ۔ اور آپ میں سے کئی پرانے لوگ میرے کام سے بھی واقف ہوں گے ۔ میں آپ میں سے بہت سے لوگوں کو نہیں جانتا ۔ سو مجھے نہ آپ کے نام کا علم ہے اور نہ آپ کے کام کا ۔ گزشتہ سینتیس سال سے میں جو کچھ لکھ رہا ہوں ، یا لکھنے کی کوشش کررہا ہوں ، یہ میرا کام نہیں ۔ یہ نام کا کام ہے ، جو شوق میں شروع ہوا اور اب لگتا ہے زندگی کا ایک حصہ بن گیا ہے ۔ آپ کی زندگی میں بھی ایسے کچھ کام ہوں گے ، جو شوق ہی شوق میں آپ کے شانہ بشانہ چل رہے ہوں گے ۔ آپ کے بچپن یا لڑکپن کی کوئی دلچسپی ، کوئی مشغلہ ، کوئی Hobby ، جو آج بھی آپ کو Inspire کرتی ہو اور آپ آج بھی اس میں اسی جنون اور جذبے سے دلچسپی لیتے ہوں جو بچپن یا لڑکپن میں موجود تھا تو وہ شوق ، وہ دلچسپی آپ کے لئیے نہ صرف باعث مسرت بنتی ہے بلکہ کبھی کبھی آپ کے بنیادی کام کے ساتھ ساتھ آپ کے نام کا ایک لازمی جز بن کر نام کا کام بن جاتی ہے ۔ آپ کے نام کا کام کہلانے لگتی ہے ۔
گزشتہ سال مارچ میں بھائی عبدالرحمن نے میری ملاقات ایسے ہی ایک اٹھاون سالہ نوجوان سے کروائی تھی ، جو آہستہ آہستہ قریبی اور دلی دوستوں کی فہرست میں شامل ہوتے گئے ۔ جن کے نام کا کام ، آج ، ان کے بنیادی کاموں سے زیادہ بڑھ چڑھ کر بول رہا ہے ۔
محمد نواز خان ۔ پاک گرین فاونڈیشن کے چئیرمین اور روح رواں ۔ میرے آبائی شہر میرپورخاص کی معروف سماجی شخصیت ۔
نواز بھائی کا ذریعہ معاش تو اللہ تعالی نے کچھ اور رکھا ہے مگر ان کی وجہ شہرت ، پودوں اور درختوں سے ان کی بے پناہ محبت ہے ۔ پاکستان کے چپے چپے کو ازسرنو ہرا بھرا بنانا ان کا مشن ہے ۔ اس سال یوم آزادی پر نواز بھائی کا پلان چودہ اگست تک چودہ ہزار شجر کا تھا ۔ جو انہوں نے بڑی محنت اور دلجمعی سے پورا کیا ۔ ان کے ہاتھ کے لگائے ہوئے پودے اب الحمداللہ درخت بن چکے ہیں ۔ میرپورخاص سے کراچی تک ، صوبہ سندھ کے لگ بھگ تمام شہروں میں نواز بھائی کی پاک گرین فاونڈیشن کے تحت لاکھوں پودے تقسیم ہوئے اور لگائے گئے ہیں ۔
بنا کسی غرض ، بنا کسی لالچ کے اللہ کی مخلوق کی خدمت دنیا کا وہ عظیم ترین کام ہوتا ہے جو ہر کسی کے نصیب میں نہیں آتا ۔ نواز بھائی کا نام کا کام افضلیت کے دوگنے درجے پر آتا ہے ۔ پودے اور درخت ، اللہ تعالی کی جان دار مخلوق ہیں ۔ ان کی پرورش ، ان کی دیکھ بھال ، ان کی نشونما کا انتظام ، بذات خود اپنی جگہ باعث سعادت ہے ۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ یہ سب کرنےکی نیت اس سے بھی زیادہ افضل ہو ۔ اشرف المخلوقات کی بھلائی ، آسانی اور خدمت ۔ لوگوں کو تازہ ہوا اور صحت کی فراہمی کے لئیے زیادہ سے زیادہ شجر کاری اور شجر کاری کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ لوگوں میں شعور اور واقفیت اور آگاہی پیدا کرنے کی ان مٹ خواہش اور ان تھک جدوجہد ۔
اپنے کام کے کام پس پشت ڈال کر ، اپنے نام کے کام کے لئیے چوبیس گھنٹے وقف کردینا آسان نہیں ہوتا ۔ بڑے بڑے نامور اور نامدار کچھ ہی عرصے میں سب کچھ بھول بھال کر ، سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر دو دونی چار اور چار دونی آٹھ کی گنتی پڑھنے لگ جاتے ہیں ۔ دو چار سال میں ان کے سارے شوق ہوا ہوجاتے ہیں ۔ اور معاش اور معاشرت کی دلدل ان کو اپنے اندر اتار لیتی ہے ۔ نواز بھائی نے اپنے جذبے اور امنگ کی تسکین کے سالوں پر محیط سفر کے دوران لاکھوں کا نقصان برداشت کیا ، بڑے دھوکے کھائے مگر کوئی بھی نقصان ، کوئی بھی دھوکہ ان کے شوق و یقین کی دیوار میں دراڑ نہیں ڈال پایا ۔ ابھی دو تین ماہ پہلے ہی ان کے ساتھ وہی سلوک ہوا جو عام طور پر دل و جذبے کے مسافروں کے ساتھ ہوتا ہے ۔
نواز بھائی نے بہت سالوں سے میرپورخاص کا عید گاہ گراونڈ گود لیا ہوا تھا ۔ اور اپنی محنت ، اپنے وسائل اور اپنے خرچے سے اسے نہ صرف مکمل ہرا بھرا کردیا تھا ، بلکہ انواع و اقسام کے پودوں کی نرسری لگا کر پورے شہر اور پورے صوبے میں ان کی مفت تقسیم اور باقاعدہ جگہ جگہ جاکر اپنے ہاتھوں سے ان پودوں کو زمین میں لگانے کا مستقل سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا ۔ گزشتہ سال دسمبر کی ایک سہ پہر اور شام ، میں نے بھی اس سبزے کی بہار کے بیچ مراقبہ اور قیلولہ کرتے گزاری تھی ۔
سرسبز عید گاہ گراونڈ میں روزانہ سو دو سو خواتین اور بچے فجر کے بعد چہل قدمی کرنے آیا کرتے اور تازہ ہوا میں تازہ دم ہوکر گھروں کو لوٹتے ۔ شام میں مرد حضرات کی باری ہوتی ۔ بیس سال میں ہزاروں لوگوں نے نواز بھائی کی محبت اور محنت سے استفادہ حاصل کیا ۔ مگر پھر وہی ہوا ، جو ہوتا ہے ۔ کہا جانے لگا کہ عید گاہ میں ہر سال دو نمازیں ہوتی ہیں ۔ اور نواز بھائی کا مالی غیر مسلم ہے ۔ تو اس سے عید گاہ کا تقدس متاثر ہوتا ہے ۔ اور دوئم روزانہ اتنی بڑی تعداد میں جو لوگ یہاں آکر واک کرتے ہیں اور بچے کھیلتے ہیں تو اس سے بھی مذہبی تاثر مجروح ہوتا ہے ۔ اس سے پہلے کہ بات بڑھتی ، نواز بھائی نے عید گاہ کی انتظامیہ سے استعفی دے دیا اور اپنی نرسری وہاں سے منتقل کرلی ۔
یہ ابھی حال ہی کی بات ہے ۔ اب عید گاہ پر تالہ لگ چکا ہے ۔ اور سبزہ ، خشک ہورہا ہے ۔ جبکہ نواز بھائی پہلے جیسی لگن اور خلوص سے پورے شہر میں پودے لگاتے پھر رہے ہیں ۔
نام کا کام جب کام کے کام سے زیادہ قلبی اور روحانی بنیادوں پر پرورش پاکر پروان چڑھتا ہے تو لوگوں کی حمایت یا مخالفت کا محتاج نہیں ہوتا ۔ اور جب اس کام میں خلوص نیت بھی شامل ہو تو فرزانوں کے بیچ ، دیوانے کے رنگ کچھ اور ہی آن بان اور شان دکھا رہے ہوتے ہیں ۔
نواز بھائی اور نواز بھائی جیسے لوگ اس مردہ اور بے حس معاشرے کی تاریکی دور کرنے کے آخری چراغ ہیں ۔ جو چاہیں تو اپنے تمام وسائل اپنے کاروبار کو پھیلانے میں خرچ کردیں ۔ مگر نام کے کام کے نام لیوا اپنے کام کے کام سے جو کماتے ہیں ، اس کا بیشتر حصہ اپنے نام کے کام پر خرچ کر ڈالتے ہیں ۔ اور اگر نام کا کام ، خلق خدا کی خدمت کی کوئی صورت ہو تو نواز بھائی اور ان جیسے دیگر لوگ اپنی تمام تر مالی کمزوریوں کے باوجود ذہنی سکون اور دلی اطمینان اور روحانی سرشاری سے ہمہ وقت بھیگے رہتے ہیں ۔
آپ بھی ذرا دیر کو اپنی ذات کے پوشیدہ گوشوں کو کھنگالئیے ۔ اپنے کام اور اپنے کام کے کاموں میں سے وقت نکالئیے ۔ اور اس وقت کو اپنی پسند کے کسی ایسے نام کے کام میں استعمال کیجئیے ۔ جس سے کسی بھی شکل میں دوسروں کا کچھ بھلا ہو ۔
کام ہو یا نام کا کام ، وہی کام بھلا ہوتا ہے جو فلاح ، بہبود اور بھلائی کا باعث بنے ۔ باقی کے سارے کام ، یونہی دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور کہانی ختم ہوجاتی ہے ۔

" نام کا کام "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان ۔

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ،
جسمانی ، روحانی ، جنسی و منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ شاعر ۔ بلاگر ۔ پامسٹ

www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.drsabirkhan.blogspot.com
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan

Instagram @drduaago

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں