منگل، 20 اگست، 2019

" ہولناک تباہی " ڈاکٹر صابر حسین خان

" ہولناک تباہی "
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان ۔

آج اسکول میں ارجنٹ پیرنٹس میٹنگ تھی ۔ دو دن پہلے جو سرکلر آیا تھا ، اس میں وضاحت سے ماں باپ ، دونوں کو آنے کی ہدایت کی گئی تھی ۔ جس پر میں چونکا بھی تھا اور تشویش کا شکار بھی ہوا تھا ۔ کیونکہ گرمیوں کی چھٹیوں سے پہلے کی میٹنگ میں صرف والدہ کو کال کیا گیا تھا ۔
میڈم گزشتہ 42 سال سے نرسری اور کے جی اور پھر پرائمری اور اب 12 سال سے سیکنڈری یعنی دسویں تک کی تعلیم دے رہی ہیں اور بہت عمدگی اور خوش اسلوبی سے اپنے اسکول چلا رہی ہیں ۔ آج کی میٹنگ میں ہم پندرہ منٹ لیٹ پہنچے ۔ صرف آٹھویں کلاس کے بچوں اور بچیوں کے والدین کی میٹنگ میں صرف اگلی دو قطاروں میں لوگ بیٹھے ہوئے تھے ۔ اور باقی کی بیس بائیس قطاریں کی نشستیں خالی پڑی ہوئی تھیں ۔ ہمارے بعد بھی محض دو اور بچوں کے والدین آئے ۔ باقی Seats اگلے ایک ڈیڑھ گھنٹہ تک خالی ہی رہیں ۔ ناظم آباد 4 نمبر کے ایک اوسط درجے کے انگلش میڈیم سکول کی آٹھویں کلاس کے 2 سیکشن میں لگ بھگ 70 بچوں اور بچیوں کے والدین میں سے بمشکل پندرہ سولہ ہی اپنے اپنے بچوں کی بابت معلومات لینے کے لئیے آئے تھے ۔
ہفتہ کا دن ۔ بہت سے مرد حضرات تو شاید ورکنگ ڈے کی وجہ سے نہیں آپائے ہوں گے ۔ لیکن کم از کم والداوں کو تو آنا چاہئے تھا ۔ چونکہ میرا بیٹا بھی آٹھویں کلاس میں پڑھتا ہے تو سرکلر پڑھ کر پہلا خیال یہی آیا کہ اس نے کلاس میں کوئی حرکت یا شرارت کی ہوگی تو میڈم نے طلب کیا ہے ۔ مگر اسکول پہنچ کر پتہ چلا کہ سبھی والدین کو بلایا گیا ہے ۔
میڈم ، اسکول کی بلڈنگ کے آنگن میں ، کلاس رومز کی چھوٹی کرسیوں پر بیٹھے بڑی عمر کے والدین کی کلاس لے رہی تھیں ۔
میں تیسری قطار میں بیٹھنے لگا تو انہوں نے خاص طور پر مخاطب کرکے پہلی قطار میں بیٹھنے کو کہا ۔ اور پھر مجھے دیکھتے ہوئے اپنی بات کو آگے بڑھایا ۔
ٹی وی ، اخبارات اور فیس بک کے ذریعے مجھ تک اس ہولناک مسئلے کی خبریں پہنچتی رہی تھیں ۔ پتہ چلا کہ یہ مسئلہ ملک اور شہر کے Elite علاقوں کے اسکولز ، کالجز اور یونیورسٹیز سے پھیلتا ہوا ناظم آباد جیسے اوسط اور متوسط علاقے تک بھی آپہنچا ہے ۔ اور جس کلاس اور اسکول میں میرا بیٹا پڑھ رہا ہے اور کے جی ، نرسری سے میڈم کے زیر سایہ ہے ، وہاں کے پانچ لڑکوں کا گروپ رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہے ۔
پیسے جمع کرتے ہوئے ۔ ٹیچرز کی تفتیش اور تحقیق کے بعد پتہ چلا کہ پیسے اس لئیے جوڑے جارہے تھے تاکہ ناظم آباد گول مارکیٹ ، نزد کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی آفس ، میں واقع ایک پان سگریٹ شاپ سے شیشہ خرید کر پیا جائے ۔
عام طور پر میں اپنے کالمز میں لوگوں اور اداروں کے اصلی ناموں کے استعمال سے گریز کرتا ہوں لیکن میڈم اور ان کے اساتذہ کی ٹیم نے ملوث بچوں کے بتانے پر ان کے ساتھ جا کر جب متعلقہ دوکان پر پہنچ کر استفسار کیا تو دوکان والوں نے اعتراف کیا کہ ان بچوں نے پانچ سو روپے ایڈوانس جمع کرائے تھے اور باقی کے چار سو روپے لانے پر ان کو شیشہ یا مطلوب نشہ دیا جانا تھا ۔
آٹھویں کلاس کے تیرہ چودہ سالہ بچوں کو ، کوئی نشہ تو درکنار ، سگریٹ تک کی فروخت نہ صرف قانونی جرم ہے بلکہ معاشرتی اور سماجی اور اخلاقی سطح پر ناقابل معافی سنگین گناہ ہے ۔ مگر مشروم کی طرح پھیلتے ہوئے زہر کے بیوپاری اور پیسے کے پجاری ہمارے چاروں طرف پنجے گاڑ کے ہماری نئی نسلوں کی زندگی اور مستقبل سے کھیل رہے ہیں ۔ اور ہم والدین ، مذکورہ اسکول میں بلائی جانے والی ارجنٹ میٹنگ میں عدم شمولیت کی طرح آنکھیں بند کرکے بیٹھے ہیں ۔
" آپ لوگوں کے بچوں اور بچیوں کو اتنے سال ہوگئے اس اسکول میں پڑھتے ہوئے ۔ کیا کبھی اسکول انتظامیہ نے کمیٹی ڈالنے یا کسی اور مد میں آپ لوگوں سے پیسے منگوائے ۔ نہیں نہ ۔ فیس کو واوچر بھی براہ راست بینک میں جمع کروانے کے لئیے دئیے جاتے ہیں ۔ "
میڈم کہہ رہی تھیں ۔
" پھر آپ نظر کیوں نہیں رکھتے اپنے بچوں پر ۔ ان کے پاس سو اور پانچ سو کے نوٹ کہاں سے آتے ہیں ۔ لنچ بنا کر کیوں نہیں دیتے ۔ میں اسکول کا کینٹین بند کردوں تو بچے اسکول سے باہر کی دوکانوں سے چیزیں خریدنا شروع کر دیں گے ۔ تیس چالیس روپے سے زیادہ نہ دیا کریں بچوں کو ۔ ان کے ہاتھ میں پیسے رکھنے کی بجائے ان کو خود کھانے پینے کی چیزیں خرید کر دیں ۔ "
میڈم کی باتوں میں وزن تھا مگر وہاں بیٹھے ہوئے والدین اور وہاں نہ آنے والے خواتین و حضرات کے پاس اپنی سگی اولاد کے لئیے وقت نہیں تھا کہ مائیں صبح جلدی اٹھ کر بچوں کو لنچ تیار کرکے دے سکیں اور باپ ، شام گھر آنے کے بعد بچوں کو ان کی پسند کی چیزیں دلا سکیں ۔ یہ المیہ صرف ایک اسکول کے بچوں کا نہیں ہے ۔
موبائل فون اور کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے آزادانہ استعمال نے نئی نسل کے بچوں کو سپر فاسٹ بنادیا ہے ۔ اور چونکہ ہمارے پاس اپنے بچوں کے لئیے وقت نہیں ہے تو ہم نہ ان کے شانہ بشانہ چل پاتے ہیں اور نہ ان پر چیک اینڈ بیلنس رکھ پاتے ہیں ۔ ہم اپنی دنیا میں مگن ہیں اور ہمارے بچے صحیح اور غلط کے فرق کو سمجھے بنا ہر طرح اچھی بری بات اور چیز کو اپنا رہے ہیں ۔
کولڈ ڈرنکس ، پیزا ، برگر ، بروسٹ ، فرنچ فرائز ، نہاری ، بریانی ، چاکلیٹ ، نوڈلز ، چپس ، ڈبے کے جوس اور اس نوعیت کی دیگر جنک فوڈ کی تو ہم خود بچوں کو عادت ڈالتے ہیں ۔ تین تین سال کے بچوں کے ہاتھوں میں خود اپنے ہاتھوں سے موبائل فون اور ٹیبلیٹ پکڑاتے ہیں ۔ ان کو ٹی وی اسکرین کے سامنے بٹھا کر گھنٹوں ان کو کارٹون اور دیگر اوٹ پٹانگ پروگرام دکھواتے ہیں ۔ پھر جب وہ ذرا بڑے ہوتے ہیں تو وقت سے پہلے ان کی معصومیت کو اپنے ہاتھوں ختم کردیتے ہیں ۔ مستقل یہ کہہ کہہ کر کہ آخر تم بڑے کب ہوگے ۔ کب عقل سمجھ آئے گی ۔ کب خود سے اپنے کام کرو گے ۔
اور پھر جب وہ معصوم بچے خود کو بڑا کرنے کے لئیے بڑوں والے کام ، بڑوں والی حرکتیں شروع کرتے ہیں تو ہم سب بوکھلا جاتے ہیں اور اپنی اصلاح کرنے کی بجائے معصوم بچوں کو ہی سزا کا مستحق قرار دیتے ہیں ۔ ہمارے بچے جب بھی کوئی نا قابل قبول کام کرتے ہیں تو درحقیقت ہم خطا وار اور ذمہ دار ہوتے ہیں ۔
ہماری تربیت اور رہنمائی میں کوتاہی اور کمی ، ہمارے بچوں کو منفی باتیں سیکھنے اور اپنانے کی طرف لے جاتی ہے ۔
اگر ایک باپ ،فخر سے اپنے دس بارہ سالہ بیٹے کے ہاتھ میں اپنی موٹرسائیکل کی چابی دیتا ہے اور اسے بائیک چلانے کو کہہ کر ، خود اس کے پیچھے بیٹھ جاتا ہے اور اسے شہہ دیتا ہے اور باضابطہ بائیک چلانا سکھاتا ہے تو قصور دس سالہ بچے کا ہوگا یا باپ کا ؟
اگر ایک باپ اپنے آٹھ دس سالہ بچے یا بچی کو محلے کی دوکان پر بھیج کر پان ، سگریٹ ، گٹکا ، ماوا ، یا اسی نوعیت کا اور گند بلا منگواتا ہے اور سال دو سال میں وہی بچہ ان چیزوں کو بہت اعلی سمجھتے ہوئے خود بھی چکھنے لگتا ہے تو مورد الزام کون ٹھہرے گا ، بچہ یا باپ ؟
اگر ایک ماں اپنی آٹھ دس سالہ بیٹی کے ساتھ بیٹھ کر ٹی وی پر ناچ گانے اور گالی گلوچ اور نازیبا سین اور ڈائیلاگ والی فلمیں اور ڈرامے دیکھے گی یا اونچی آواز میں موسیقی سنے گی یا بیٹی کو سامنے بٹھا کر گھنٹے بھر تک میک اپ میں لگی رہے گی یا اس کے ساتھ مل کر سیلفیاں لیتی رہے گی تو دو چار سالوں بعد قد کاٹھ نکالنے کے بعد وہی بچی جب اسکول یا پڑوس میں لڑکوں سے دوستیاں کرنے لگے گی تو اصل قصور وار ماں ہوگی یا وہ بچی ؟
اگر گھر میں ناچاتی ہو اور ماں باپ روز ، صبح شام ، بحث و تکرار اور لڑائی جھگڑوں میں لگے رہیں اور ایک دوسرے کو القابات سے نوازتے رہیں تو بچوں نے وہی رویہ ، وہی اعمال ، وہی افعال ، وہی انداز ، وہی گفتگو ، وہی کلمات سیکھنے ہیں اور پھر گھر سے باہر اسی طرح ہر ایک سے الجھنا ، لڑنا اور بدتمیزی کرنا ہوتا ہے ۔ ایسے بچوں کے ایسے رویوں کی سزا کس کو ملنی چاہئیے ۔ بچوں کو یا ماں باپ کو ؟
اس طرح کے چبھتے ہوئے سوالات کی فہرست اس تحریر میں لاتعداد صفحات کا اضافہ کردے گی ۔ اور حاصل پھر بھی کچھ نہیں ہونا ۔ شرم وحیا ہو یا غیرت یا عزت یا سمجھ یا فہم ، ان سب کے لئیے ایک لفظ ، ایک جملہ ، ایک سادہ سا سچ کافی ہوتا ہے ۔ ماننے والے ، اپنی اصلاح کرنے والے اشارہ ہی سمجھ لیتے ہیں ۔ اور اپنی چلانے والے ، اپنے آپ کو افلاطون سمجھنے والے اور خود کو عقل کل جاننے والے ، تمام عمر بھی لاکھوں لیکچر سننے اور ہزاروں کتابیں پڑھنے کے باوجود بھی کورے کے کورے رہتے ہیں ۔
میڈم کے لیکچر کے دوران ، میں سوال جواب بھی کر رہا تھا اور کن اکھیوں سے پچھلی دو قطاروں میں بیٹھے لوگوں کو بھی Observe کررہا تھا ۔ پھر جب میڈم نے مجھے کہا کہ میں حاضرین کو نفسیاتی پہلو سے بچوں کی تربیت کے حوالے سے کچھ بتاوں تو سب کے سامنے کھڑے ہوکر سب کی باڈی لینگویج کو اور اچھی طرح پڑھنے کا موقع مل گیا ۔
میٹنگ کی سب سے خاص بات تو یہ تھی کہ جن پانچ بچوں کی حرکت یا نا قابل قبول رویہ کی وجہ سے اسکول انتظامیہ اور میڈم کو یہ ارجنٹ اور اہم میٹنگ بلانی پڑی تھی ، ان میں سے کسی ایک کے والدین بھی میٹنگ میں شامل نہیں تھے ۔ حالانکہ میٹنگ سے پہلے اور نہ میٹنگ کے دوران ، میڈم یا کسی اور ٹیچر نے کسی بھی بچے کا نام نہیں بتایا ۔ ان کی یہ بات نفسیاتی ضوابط کے عین مطابق تھی ۔ اور بہت احسن تھی ۔ لیکن مجھے یہ دیکھ کر بہت دکھ بھی ہوا کہ بیچارے حاضر والدین بھی میری طرح اپنی اولاد کی تربیت اس طرح کرنے سے قاصر ہیں جس طرح آج کے تیز رفتار دور کا تقاضا ہے ۔
اور شاید یہی بنیادی وجہ ہے ہماری نئی نسل کی کج روی کی ۔ حاضرین میں سے ایک بچی کی والدہ ، جو ماشااللہ حجاب میں تھیں ، نے جب یہ کہا اور ذرا فخر سے کہا کہ ان کے گھر نہ کیبل ہے اور نہ انٹرنیٹ ۔ تو مجھے لمحے بھر کی خوشی کے فورا بعد ڈھیر سی مایوسی اور افسردی محسوس ہونے لگی ۔
" یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ آپ نے ان بلاوں سے اپنے گھر کو بچا کر رکھا ہوا ہے ۔ لیکن کیا آپ نے تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے کی کوشش کی ہے؟ ۔ "
میں نے ان کی بات کو سمجھتے ہوئے اور دیگر شرکاء کی کیفیت کو محسوس کرتے ہوئے بات کی ۔
" آج سے لگ بھگ دس سال پہلے جب ٹچ اسکرین والے موبائل فون نئے نئے آئے تھے تو مجھے بڑی وحشت ہوئی تھی اور میرے سارے فیوز اس وقت اڑنےلگے تھے جب میں نیا فون لینے مارکیٹ گیا تھا اور دوکاندار نے کہا تھا کہ سر جی نوکیا کا زمانہ گیا ۔ آپ کو جو ماڈل اور ڈیزائن چاہئیے ، وہ بننا بند ہوگیا ۔ اب تو یہ ٹچ اسکرین والے فون آرہے ہیں ۔ میری ضد ، وحشت ، اور کوفت کوئی سال بھر رہی ۔ اس دوران میں ارد گرد اور دوستوں کے ہاتھوں میں نئے رنگ برنگے نارمل سے بڑے موبائل فون دیکھتا رہا اور لوگوں کی عقل پر ماتم بھی کرتا رہا کہ انہوں نے اپنے آپ کو کس جھنجھٹ میں ڈال لیا ہے ۔ فون کا کام تو فون کرنا ہے ۔ اتنے لشکاروں کی کیا ضرورت ہے ۔
مگر پھر جب بڑی بیٹی کا میڈیکل کالج میں داخلہ ہوا اور اس نے گفٹ میں ٹچ اسکرین موبائل لیا اور اس پر دونوں ہاتھوں کی انگلیوں اور انگوٹھوں سے گٹ پٹ شروع کی تو مجھے اندر ہی اندر کچھ ہونے لگا کہ بچے جب اس طرح کے موبائل فون استعمال کرسکتےہیں تو میں کیوں نہیں کرسکتا ۔
وہ دن تھا اور آج کا دن ہے ۔ مجھے دونوں انگوٹھے تو ابھی تک چلانے نہیں آئے مگر الحمداللہ اب کئی ایسی ایپس پر بآسانی کام کر لیتا ہوں جو بہت سے بچوں کے علم میں بھی نہیں ہوں گی ۔
بتانے کا مقصد یہ ہے کہ سائنس کی نئی ایجادات ، بنی نوع انسان کی سہولیات اور فائدوں کے لئیے ہیں ۔ لیکن دنیا کی ہر شے کی طرح ، اگر ہم ان کو Negative استعمال کریں تو اس میں ہمارا قصور ہے ۔ ان چیزوں کا نہیں ۔ "
میری بات کی تائید میں میڈم نے بھی بات کی کہ جب آپ کی بچیاں ، اسکول آ کر ان بچوں اور بچیوں کے ساتھ بیٹھیں گی جن کے روز کے کئی گھنٹے موبائل فون اور انٹرنیٹ پر گزرتے ہیں تو ان کی باتیں سن سن کر ، ان کو جو تجسس ہوگا ، وہ ان کو منفی راہ پر لے جا سکتا ہے ۔
بچوں کو بتانا اور سمجھانا ہوتا ہے کہ کسی بھی چیز کا استعمال اور کسی بھی بات کو زندگی کا حصہ محض اس صورت میں صحیح ہوتا ہے جب اس سے آپ کی اور دوسروں کی ذات ، عزت ، مال ، صحت ، خاندان کو کوئی نقصان نہ پہنچے ۔ نہ اس بات یا چیز سے وقت اور پیسہ برباد ہو ۔ نہ اس سے سوچ میں انتشار پیدا ہو ۔ نہ اس سے معاشرتی اور سماجی نظام میں کوئی بگاڑ پیدا ہو ۔ اور تعلیم کے ساتھ تربیت کا یہ عمل بچپن سے ہی شروع کرنا ہوتا ہے ۔ اور تعلیم وتربیت کا یہ سلسلہ محض والدین اور گھر والوں تک ہی محدود نہیں ہونا چاہئیے ۔
دوست ، رشتہ دار ، محلے دار اور خصوصی طور پر اسکول اور دیگر تعلیمی درس گاہوں کے اساتذہ ، سبھی جب تک بچوں کی تربیت اور ان کی منفی عادات کی کانٹ چھانٹ میں اپنا اپنا حصہ نہیں ڈالیں گے ، اس وقت تک ہمارے بچے آج کے Fast and Furious سیماب صفت دور میں سکھ چین نہیں پا سکیں گے ۔
ہم سب کو اپنا اپنا کردار نبھانا ہوگا ۔ قربانی دینی ہوگی ۔ بچوں کے ساتھ بچہ بن کے ، ان کی انگلی پکڑ کے ، ان کو زندگی کے راستے پر چلنا سکھانا ہوگا ۔ بالکل اس طرح ، جس طرح ، ہم نے اپنے بچوں کو سال کی عمر میں زمین پر کھڑا ہونا سکھایا تھا اور پیدل چلنا سکھایا تھا ۔
ہم سب کو اس حقیقت کا بھی علم ہونا چاہئیے کہ بچوں کی نفسیاتی نشوونما کے حوالے سے بارہ تا اٹھارہ سال کی عمر انتہائی اہم ہوتی ہے ۔ اس عمر میں بچہ کے قلب اور ذہن پر جو ثبت ہوتا ہے وہ باقی تمام عمر کے لئیے یا تو اس کی شخصیت اور نفسیات کو مضبوط اور مستحکم کردیتا ہے ، اور یا کمزور اور مجروح بنا دیتا ہے ۔ اور عمر کے انہی چھہ سالوں میں بچے یا تو سعادت مند اور فرمانبردار بنتے ہیں اور یا باغی اور ضدی ۔
بچوں کی ان ہر دو صورتوں کی تشکیل کے ذمہ دار ہم ہوتے ہیں ۔ آئیے آج اپنے آپ سے وعدہ کرتے ہیں کہ آج اور ابھی سے ہم اپنے بچوں میں ، اپنے بچوں کے مسئلوں میں ، اپنے بچوں کی دلچسپیوں میں ، ان کے کھیلوں اور خوشیوں میں اور ان کی سوچوں اور دکھوں میں دل سے حصہ لینا شروع کردیں گے ۔ کھلاو سونے کا نوالا اور دیکھو شیر کی نگاہ سے ۔ زمانہ قدیم کے اس معروف جملے کو اپنے بچوں کی تربیت کا لازمی جز بنا لیں گے ۔ اور ان کو راہ راست پر رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے ۔
خواہ اس کے لئیے ہمیں اپنا Pattern ہی کیوں نہ توڑنا پڑے ۔ بچے سب کے سانجھے ہوتے ہیں ۔ ہماری محبت اور توجہ کے بھوکے ہوتے ہیں ۔ ہم ہی اپنی نئی نسل کے بچوں کو ہولناک تباہی سے بچا سکتے ہیں ۔
نوٹ : آپ میں سے جو اصحاب ، شیشہ فروخت کرنے والی مذکورہ دوکان کے مالکان سے پیار محبت سے اپنا یہ کاروبار بند کرنے کی درخواست کی استطاعت رکھتے ہیں ، وہ بذریعہ " امت " مجھ سے رابطہ کرکے نام اور مکمل پتہ حاصل کرسکتے ہیں ۔ میری استطاعت یہ تحریر لکھنے اور آپ تک پہنچانے کی حد تک تھی ، سو میں نے پوری کردی ۔ دیکھنا یہ ہے کہ اور دیگر والدین سانجھے بچوں کے لئیے کیا عملی قدم اٹھانے ہیں ۔ واضح رہے ، جذباتی اور ہنگامی قدم نہیں ۔ فکری ، اصلاحی اور تعمیری قدم ۔ ہولناک تباہی سے بچنے اوربچانے والا Solid قدم ۔

" ہولناک تباہی "
نیا کالم / مضمون/ بلاگ

دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان ۔
ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ،
جسمانی ، روحانی ، جنسی و منشیات ۔

مصنف ۔ کالم نگار ۔ شاعر ۔ بلاگر ۔ پامسٹ ۔

DUAAGO
DR. SABIR HUSSAIN KHAN
CONSULTANT PSYCHIATRIST
PSYCHOTHERAPIST

AUTHOR . WRITER . COLUMNIST .
BLOGGER . POET . PALMIST .

www.drsabirkhan.blogspot.com
www.facebook.com/Dr.SabirKhan
www.facebook.com/duaago.drsabirkhan
www.youtube.com/Dr.SabirKhan
@DUAAGO
https://g.page/DUAAGO

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں