جمعرات، 29 اگست، 2019

" شادی خانہ بربادی " ڈاکٹر صابر حسین خان

" شادی خانہ بربادی "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون

دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان ۔

آج آپ سے چند سوال کرنے ہیں ۔ ضروری نہیں کہ آپ ان سوالوں کے جواب مجھ تک پہنچائیں ۔ البتہ اتنا ضروری ہے کہ آپ کے جواب ، خود آپ تک پہنچ جائیں اور نہ صرف پہنچیں بلکہ پوری ایمانداری سے پہنچیں ۔
پہلا سوال تو یہی ہے کہ اس کالم کا عنوان پڑھ کر آپ کے ذہن میں کیا تاثر پیدا ہوا ؟ ۔ موجودہ تحریر کا موضوع کیا ہوگا ؟ ۔ طنزیہ ؟ مزاحیہ ؟ فکاہیہ ؟ سنجیدہ ؟ بیانیہ ؟ یا کچھ اور ۔ کیا کچھ اور ؟
دوسرا سوال ہے کہ آپ نے یہ دونوں باتیں سنی ہوں گی ، شادی خانہ آبادی اور شادی خانہ بربادی ۔ آپ کیا سمجھتے ہیں ، کون سی بات زیادہ وزنی اور منطقی ہے ؟
تیسرا سوال ، اگر آپ شادی شدہ ہیں تو کیا مطمئن اور بھرپور ازدواجی و خاندانی زندگی گزار رہے ہیں ؟
چوتھا سوال ، اگر آپ غیر شادی شدہ ہیں تو کیا آپ شادی کرنا چاہتے ہیں ؟ اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو کیوں ؟ اور اگر نہیں میں ہے تو کیوں نہیں ؟
پانچواں سوال ، اپنی شادی شدہ زندگی میں ، اگر آپ شادی شدہ ہیں ، اب تک کتنی بار آپ کے دل میں دوسری شادی کا خیال پیدا ہوا ہے ؟ اگر ایسا ہوا ہے تو کیوں ؟ اور اگر نہیں تو کیوں ؟
چھٹا سوال ، ہمیں شادی کی ضرورت کیوں پڑتی ہے ؟
ساتواں سوال ، شادی بڑوں کی پسند سے کرنا چاہئیے یا اپنی ذاتی پسند اور محبت سے ؟
آٹھواں سوال ، ان بن ، لڑائی جھگڑے اور عدم مطابقت کی صورت میں کیا دونوں فریقین کو سمجھوتے والی لاچار زندگی گزارتے رہنا چاہئیے یا علیحدگی اختیار کر لینا چاہئیے ؟
نواں سوال ، ناکام شادیاں ، خواہ طلاق یا خلع کی شکل اختیار کریں یا مجبوری و سمجھوتے کی ، ہر دو صورتوں میں بچوں کی نفسیات اور شخصیت پر کیا کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ؟ اور ان اثرات کا سدباب کیسے ممکن ہے ؟
دسواں سوال ، شادی خواہ ذاتی پسند اور محبت کی ہو یا گھر والوں کی مرضی کے مطابق ، اسے کیسے اور کیونکر تمام عمر کامیاب اور متوازن اور پرسکون رکھا جا سکتا ہے ؟
یہ دس سوال آپ نے پڑھے ۔ ان کے ایماندارانہ جوابات آپ کی اپنی شخصیت اور نفسیات کی نمائندگی کریں گے ۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ ضروری نہیں کہ آپ ان سوالوں کے جوابات مجھ تک ارسال کریں ۔ لیکن آپ کم از کم اپنی اور اپنے اردگرد رہنے والوں کی زندگی میں بڑی آسانیاں پیدا کرسکتے ہیں ، اگر آپ سنجیدگی سے ان سوالوں کے جوابات سوچیں اور ان جوابوں کی روشنی میں اپنی ذاتی ازدواجی زندگی میں تبدیلی لانے کی کوشش کریں ۔ اور ساتھ ساتھ اپنے ساتھ کے لوگوں کی گھریلو زندگی کی ناچاتیوں اور کمیوں کو بھی کم کرنے کی بھی تگ و دو کریں ۔ آپ کے گھنٹے دو گھنٹے کی یہ سوال جواب کی مشق اور مشقت یقینی طور پر کم از کم ایک اور زیادہ سے زیادہ بہت سے لوگوں کی زندگی کو بہتر بنادے گی ۔ اور اس کا سب سے بڑا فائدہ ہمارے خاندانی نظام کو پہنچے گا ، میرے اور آپ کے بچوں کو پہنچے گا ۔ اور اس فائدے در فائدے کے Chain Reaction سے پورا معاشرہ ، پورا ملک استفادہ حاصل کرسکے گا ۔
یہ سوال اور ان سے منسلک کئی اور سوال ، ذرا زیادہ وضاحت کے ساتھ گزشتہ کچھ دنوں میں سوچ کے پردے پر ابھرے ۔ سوچا آپ سب سے بھی کیوں نہ ان سوالوں کے جواب لئیے جائیں ۔ درحقیقت ان سوالوں کے بیدار ہونے کی بڑی وجہ مکرم ہے ۔ ایک ستائیس سالہ خوبصورت اور توانا نوجوان ۔
مکرم سے پہلی ملاقات آج سے سولہ برس پہلے ہوئی تھی ۔ واضح رہے کہ مکرم فرضی نام ہے اور آگے چل کر آنے والے تمام کرداروں کے نام بھی فرضی ہیں ۔ اس وقت وہ تیرہ چودہ سال کا بچہ تھا ۔ پھر بیچ میں تین چار بار اس سے یونہی سرسری ملاقات رہی ۔ ابھی کوئی ایک ماہ پہلے اس کا بڑا بھائی عمران ، اسے خاص طور پر کاونسلنگ کے لئیے میرے پاس لایا ۔ اور کاونسلنگ کی بنیادی وجہ یہ بتائی کہ دو ماہ بعد مکرم کی شادی کی تاریخ طے ہے اور وہ بھی اس کی پسند اور محبت کی ۔ دونوں گھروں میں شادی کی تیاریاں زوروں پر ہیں ۔ مگر اب اچانک مکرم کا خیال ہے کہ اسے شمسہ سے شادی نہیں کرنی چاہیئے ۔ اس کے ساتھ بن نہیں پائے گی ۔ کچھ دونوں خاندانوں کے رہن سہن کے طور طریقے الگ ہیں اور کچھ شمسہ کا مزاج غصیلا ہے ۔ اور وہ فیصلہ نہیں کر پارہا ہے ۔
اب تک مکرم سے چار ملاقاتیں ہو چکی ہیں ۔ دو ملاقاتوں میں شمسہ بھی شامل تھی ۔ شمسہ ، مکرم سے عمر میں دو سال بڑی ہے ۔ مگر عمر چور ہے ۔ بظاہر سولہ اٹھارہ سال سے زیادہ کی نہیں لگتی لیکن ذہنی عمر ، جسمانی عمر سے کچھ زیادہ ہی ہے ۔ شمسہ معصوم بھی ہے اور خوبصورت بھی ۔ اور اللہ تعالی نے اسے ذہانت بھی دی ہے ۔ والد کی بیماری اور مشکل معاشی حالات کی وجہ سے تعلیم کا سلسلہ گریجویشن کے بعد جاری نہیں رہ سکا ۔ اور نوجوانی سے ہی کچھ کچھ معاشی ذمہ داری کا بوجھ بھی اٹھانا پڑا ۔ بچپن سے حساسیت ، جذباتیت ، ضد اور خودسری کے عوامل بھی شامل شخصیت ہوتے رہے ۔ اور پھر کچھ خاندانی اور موروثی جینز ، کچھ ذہنی و نفسیاتی عارضوں کی بھی ٹرانسفر ہوئیں ۔ ان سب عناصر کی موجودی اور پرورش نے شمسہ کی طبیعت ، شخصیت ، نفسیات اور مزاج کو چار دھاری تلوار بنا دیا ہے ۔ جو ہوا کے جھونکوں کے مقابلے میں بھی ہمہ وقت نیام سے باہر رہتی ہے ۔ ہر وہ شے ، ہر وہ بات ، ہر وہ شخص جو شمسہ کی پسند اور مزاج کے مطابق نہیں ہوتا یا نہیں رہ پاتا ، شمسہ کی نظر نہ آنے والی تلوار کی زد میں آجاتا ہے ۔ اور پھر دے مار ساڑھے چار ۔ ہواوں میں چار دھاری ننگی تلوار لہراتے رہنے کا سب سے زیادہ نقصان ، کسی اور کا نہیں ہوتا ۔ تلوار لہرانے والے کا ہوتا ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ اسے جوش جنوں میں اپنے لہو لہان ہونے تک کا علم نہیں ہو پاتا ۔ ایسا فرد ، خواہ مرد ہو یا عورت ، نادانی اور نادانستگی میں اپنے لئیے تو راستے بند کرتا ہی کرتا ہے ، اپنے چاہنے والوں اور اپنے ساتھ رہنے والوں کی زندگی بھی اجیرن کرتا رہتا ہے ۔ مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ خود وہ ان سب باتوں سے لاعلم رہتا ہے اور اسے آخر وقت تک ادراک نہیں ہوتا کہ اس سے کیا کیا گڑبڑ ہورہی ہے ۔ کیونکہ اسے ہمشیہ یہ یقین ہوتا اور رہتا ہے کہ وہ ہر معاملے میں صحیح ہے ۔ اور اسی مغالطے میں اس سے ایک کے بعد ایک اور حماقت ہوتی چلی جاتی ہے ۔ اور سب سے بڑی حماقت عام طور پر زیادہ بولنا اور سوچے سمجھے بنا بولنا ہوتا ہے ۔
پانچ سالہ دوستی اور ڈھائی سالہ محبت کے بعد گزشتہ سال مکرم اور شمسہ کے گھر والوں نے منگنی کی رسم ادا کرکے شادی کی تاریخ طے کردی ۔ مگر اب کچھ ماہ سے مکرم کو محسوس ہونے لگا کہ شمسہ کی عمر بھی زیادہ ہے ، اس کے گھر والوں کا کلچر بھی مختلف ہے کہ ان کا تعلق دوسری کمیونٹی سے ہے ۔ تو اسے یہ شادی نہیں کرنی چاہیئے ۔ اس کی اس بات پر اس کے گھر والے بھی پریشان ہو گئے اور شمسہ اور شمسہ کے گھر والے بھی حیران ہوگئے ۔
مکرم خود بہت پریشان ہوا کہ یہ اسے کیسے خیالات آرہے ہیں ۔ وہ تو شمسہ سے شدید محبت کرتا ہے ، پھر کیوں اس کے حوالے سے منفی سوچ اس کے دل میں آگئی ۔ مکرم کا تعلق بھی ایک ایسے متوسط گھرانے سے ہے ۔ جس کے کئی افراد زندگی کے کسی نہ کسی حصے میں نفسیاتی طور پر ڈسٹرب رہے مگر شعور اور علم رکھنے کی وجہ سے بروقت نفسیاتی پروفیشنل مدد اور مشاورت سے اللہ تعالی ان کے مسائل دور کرتا رہا ۔ اور اب گھرانے کے سب سے چھوٹے فرد مکرم کو شادی کرنے ، نہ کرنے کے دو رخی خیال نے سائیکوتھراپی لینے پر ماہرانہ مشاورت کے لئیے آنا پڑا ۔
قدرت ہر فرد ، ہر خاندان ، ہر معاشرے کے لئیے الگ الگ طرح کی آزمائش رکھتی ہے ۔ وہ فرد ، وہ خاندان ، وہ معاشرہ اپنی اپنی آزمائش سے سرخرو ہوکر نکلتا ہے جو صبر و شکر سے اپنی حالت اور اپنے حالات کو دلی طور پر نہ صرف قبول کرتا ہے ، بلکہ اپنی حالت اور اپنے حالات کو دلی طور پر بدلنے کی بھرپور کوشش بھی کرتا ہے ۔ جو لوگ ، جو معاشرے ، اپنے حال کو قبول نہیں کر پاتے اور آنکھیں بند کرکے ، خود کو اور اپنے حالات کو ازخود بدلنے کی تگ و دو نہیں کرتے ، وہ زوم آوٹ ہوتے ہوتے اسکرین سے غائب ہو جاتے ہیں اور کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا ۔ حد تو یہ ہے کہ غائب ہونے والوں کو بھی یہ علم نہیں ہو پاتا کہ وہ اب نہ کسی کی نظر میں ہیں اور نہ ہی کسی منظر میں ۔
مکرم اور اس کا خاندان اپنی آزمائش سے واقف بھی ہے اور اپنے حالات کو دلی طور پر بدلنے کے لئیے تیار بھی ۔ شاید یہی وجہ رہی ہو کہ مکرم کو شادی سے دو ماہ پہلے شادی نہ کرنے کا خیال آیا ہو ۔ کہ اس کے خیال میں اس کی پسند اور محبت اپنی جگہ ، لیکن شمسہ اور اس کا مزاج اور اس کے گھر والوں کے رہن سہن کے مختلف طور طریقے ، مکرم کے خاندان کے مزاج سے میچ نہیں کرتے ۔
دو چار دن بھی شمسہ سے رابطہ نہ ہو تو مکرم اداس ہوجاتا ہے ۔ اور اپنے کام سمیت زندگی کے ہر رنگ میں اپنی دلچسپی کھو بیٹھتا ہے ۔ شمسہ کی محبت تو اور شدید ہے اور اس میں نارمل سے زیادہ حدت اور شدت پائی جاتی ہے ۔ وہ تو چار گھنٹے بھی مکرم سے جدائی برداشت نہیں کر سکتی ۔ مکرم کسی بات پر خفا ہوتا ہے تو بلیڈ سے اپنے بازو پر کٹ لگانا شروع کر دیتی ہے ۔
مگر اس میں اور مکرم کی شخصیت کا واضح فرق یہ ہے کہ مکرم یہ جانتا بھی ہے اور مانتا بھی ہے کہ اس کے کچھ مسائل کی بنیاد ذہنی و نفسیاتی بھی ہے ، جس کا علاج ضروری ہے ۔ جبکہ شمسہ سمجھتی ضرور ہے کہ اس کے مزاج کا اتار چڑھاؤ اور تغیر اور شدت کی وجہ نفسیاتی بیماری ہے مگر وہ اپنے آپ کو اس حوالے سے بیمار نہیں سمجھتی اور نہ ہی کسی پراپر علاج کے لئیے راضی ہے ۔
اب آپ سب سے آخری سوال ، مجھے مکرم اور اس کے بھائی کو کیا مشورہ دینا چاہئیے ، یا دینا چاہئیے تھا ۔ اپنے وقت پر شادی کرنے کا یا شادی سے انکار کردینے کا ۔ اس سوال کا جواب آپ میں سے وہی لوگ بہتر دے سکیں گے جو اس تحریر کی ابتدا میں درج دس سوالوں کی اہمیت اور معنویت کو اچھی طرح سمجھے ہوں گے اور اپنے تئیں ان کے ایماندارانہ جوابات دئیے ہوں گے ۔
شادی ، خانہ آبادی اور خوشی کا نام ہے ۔ ازدواجی رفاقت اور ذہنی ہم آہنگی کا نام ہے ۔ دو خاندانوں کے گھلنے ملنے کا نام ہے ۔ تمام عمر محبت اور برداشت کا نام ہے ۔ بچوں کی بھرپور تربیت اور نگہداشت کا نام ہے ۔ ان میں سے کوئی بھی فیکٹر ، مسنگ ہوگا تو شادی ، خانہ بربادی میں بدل جاتی ہے ۔ اور ہم میں سے کوئی بھی نہیں چاہتا کہ ایسا ہو ۔ ماسوائے اس وقت جب ہماری عقل پر پردے پڑ جائیں اور ہم اپنی تمام تر محبت اور گھر والوں کی عزت کے احترام میں اپنی ازدواجی زندگی داو پر لگا دیں ۔ شومئی قسمت سے ہماری سوسائٹی میں ایسے بزرجمہروں کی کمی نہیں ۔ جو جذباتی محبت اور خاندان کی شان و شوکت برقرار رکھنے کے چکر میں نہ صرف اپنی اور اپنے شریک زندگی کی پوری زندگی اجیرن کر بیٹھتے ہیں ۔ بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کی بھی نفسیات اور شخصیت ، مسخ و تباہ کر ڈالتے ہیں ۔
ہماری معاشرتی زندگی کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ شادی کے وقت ہم باقی ہر طرح کی اونچ نیچ دیکھ لیتے ہیں مگر Compatibility اور ذہنی ہم آہنگی کو کسی گنتی میں نہیں لاتے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج ، طلاق اور خلع کے Cases سے بہت سے وکیلوں کی آمدنی میں دن دونی رات چوگنی اضافہ ہورہا ہے ۔ اور اب ہمارے معاشرے میں بھی Broken Families اور نفسیاتی مسئلوں اور عارضوں میں گرفتار بچوں اور بچیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے ۔
شادی سے پہلے اگر دونوں فریقین اور ان کے گھر والے دل سے اپنی اپنی ذہنی و نفسیاتی ساخت و شخصیت کا ایماندارانہ تجزیہ کروا لیں اور پرسنالٹی اسیسمنٹ کے ساتھ ساتھ آپس کی ہم آہنگی کو بھی Objectively اور Professionally Evaluate کروالیا کریں تو بہت ممکن ہے کہ بہت سے خاندان ممکنہ بربادی سے بچ جایا کریں ۔

" شادی خانہ بربادی "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات و امراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی
جسمانی ، روحانی ، جنسی اور منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ

www.drsabirkhan.blogspot.com
www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
https://g.page/DUAAGO

Instagram @drduaago

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں