منگل، 20 اگست، 2019

" حقیقی فرضی " ڈاکٹر صابر حسین خان

" REAL FICTION "
" حقیقی فرضی "

نیا کالم/ بلاگ/ مضمون

دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان ۔

اگر میں آپ سے یہ کہوں کہ حالیہ طوفانی بارشیں تھیں تو قدرتی مگر Engineered تھیں تو آپ نے میری ذہنی صحت پر شک کرنا شروع کردینا ہے ۔ میرا یہ بھی کہنا ہو کہ گزشتہ بیس پچیس سالوں میں ہم سب کی سوچوں اور رویوں میں جو تبدیلیاں آئی ہیں ، وہ کچھ تو حالات و واقعات کے زیر اثر ہیں اور کچھ Induced ہیں تو آپ کا میرے بارے میں شک ، کچھ کچھ یقین میں ڈھلنے لگے گا ۔ اور پھر میں یہ بھی کہوں کہ دنیا کے ایک خطے میں جو کچھ ہورہا ہے ، اس کے اثرات جلد یا بدیر دوسرے خطے میں ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں ۔ جبکہ ان دو خطوں کا آپس میں نہ کوئی جوڑ ہوتا ہے نہ ہی کوئی میل ۔ تو آپ کا یقین پکا ہونے لگے گا ۔
اگر میرا Hypothesis یہ ہو کہ آج سے پچیس سال پہلے فیصلہ ہوچکا تھا کہ امریکہ ، انڈیا اور پاکستان میں آج کے خاص وقت میں ا
طنہی مخصوص لوگوں کی حکومت ہوگی ، جن کی اس وقت ہے ۔ تو آپ نے اسے دیوانے کی بڑ اور بکواس ہی سمجھنا ہے ۔
پھر میرا یہ خیال بھی ہو کہ جنگیں اب گولہ بارود سے کم اور ففتھ کالم اور سائکلوجیکل وار فئیر اور معاشی دباو اور دھمکیوں سے زیادہ لڑی اور جیتی جاتی ہیں تو ہوسکتا ہے کہ میرے بارے میں آپ کے یقین کی دیواروں میں دراڑیں پڑنے لگیں ۔ کیونکہ سوشل میڈیا کی فراوانی سے آپ بھی ان الفاظ اور ان کے معنوں سے واقف ہوگئے ہیں اور آپ میری اس بات کی مکمل تائید بھی نہ کرپائیں مگر اس کو مکمل رد بھی نہیں کرسکیں گے ۔
لیکن میرے اس خیال پر آپ نہ صرف چونکیں گے بلکہ ہوسکتا ہے کہ سیخ پا بھی ہوجائیں کہ مملکت خداداد پاکستان کی حکومت گزشتہ بیس برسوں سے غیر محسوس طریقے سے بین الا قوامی منصوبہ بندی کے بچھائے ہوئے جال میں گرفتار ہے اور انٹرنیشنل ایجنڈے کے آخری مراحل کی تکمیل کے لئیے حالیہ حکومت کے نمائندوں کو سامنے لایا گیا ہے ۔
کسی بھی فرد ، خاندان ، معاشرے ، قوم یا ملک کو نیست و نابود اور تباہ و برباد کرنے کے لئیے زیادہ نہیں ، صرف چند اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے ۔
اول ، نوجوان نسل کو مذہب اور اعلی معاشرتی اقدار سے متنفر کرکے غصیلا ، باغی اور ضدی بنا دیں ۔ دوئم ، لوگوں کے اندر سے صبر ، شکر ، قناعت ختم کرکے ان کے اندر مادی چیزوں کی محبت اور طلب پیدا کردیں ۔
سوئم ، محنت ، لگن اور امنگ کی جگہ لالچ اور خودغرضی اور حرام طریقوں سے مال و دولت کمانے کے نظریات عام کردئیے ۔
جائیں ۔
چہارم ، انفرادی اور اجتماعی سطح پر بے شرمی اور بے حیائی کے کلچر کو فروغ دے دیا جائے ۔
پنجم ، احترام ، عزت نفس اور قوت برداشت کا خاتمہ کرکے فرد کو فرد سے ، خاندان کے افراد کو ایک دوسرے سے اور ملک و قوم کے مختلف قبیلوں اور طبقوں کو آپس میں لڑنے جھگڑنے ، مرنے مارنے پر اکسا دیا جائے ۔ طب

ششم ، انفرادی اور قومی معیشت کو آہستہ آہستہ اس بری طرح کچل دیا جائے کہ اگلی سات نسلیں بھی اپنے پیروں پر کھڑی نہ ہوسکیں ۔
ہفتم ، ہر برائی اور خرابی کو وقت حاضر کی اہم ضرورت بنا کر پیش کیا جائے کہ لوگ آسان شادی کرنے کی بجائے زنا اور بد کاری اور آزادانہ مخلوط تعلقات کو اپنے لئیے زیادہ سہل سمجھنے لگیں اور حلال کاروبار کی بجائے سود اور رشوت اور کمیشن کو ہی اپنی آمدنی بنانے لگیں ۔
ہشتم ، مطالعے ، مشاہدے ، مراقبے اور تجربے کے ماحول کی جگہ مباحثوں ، تقریروں ، تنقیدوں ، مذاکروں سے لبریز ایسا نظام رائج کرنا جس میں ہر شخص خود کو ہیرو اور باقی سب کو ویلن سمجھ کر گھنٹوں بولتا جائے اور کسی کی کچھ نہ سنے ۔
نہم ، سوسائٹی کے چیدہ چیدہ مخصوص لوگوں کو بھاری قیمت یا لالچ دے کر خریدا جائے اور پھر ان کے ذریعے ملکی مفادات کا سودا کیا اور کروایا جائے اور ان کو رول ماڈل بنا کر اس طرح ان کو Portrait کیا جائے کہ ان کے پیچھے سادہ لوح اور بھولے بھالے ، کچھ نہ جانتے ہوئے لوگوں کا ہجوم جمع ہوجائے ۔
دہم ، ذرائع ابلاغ کے تمام پہلووں اور اداروں کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں کے تمام درجات میں مخصوص صحافیوں اور استادوں کے ذریعے ملک اور معاشرے کی بنیادی مذہبی ، اخلاقی ، ثقافتی سوچ اور آئیڈولوجی کو خاموشی سے ضربیں پہنچواتے رہنا ۔
مندرجہ بالا دس نکات کی روشنی میں ماضی کے بیس سالوں کا جائزہ لیجئیے ۔ اور دیکھئے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی سطح پر کہاں سے کہاں آگئے ہیں ۔
کیوں آگئے ہیں ۔ اس کی وجہ بھی آپ نے پڑھ لی ۔ کیسے آگئے ہیں ۔ اس کا آپ کو ابھی شاید اندازہ نہیں ۔
یہی اندازہ ، ایک مختلف انداز میں آپ تک پہنچانے کے لئیے مجھے اپنے خیالات آپ کے سامنے لانے پڑے ۔ مجھے اس بات سے دلچسپی نہیں کہ آپ میرے خیال سے متفق ہوں یا متنفر یا آپ سمجھیں یا نہ سمجھیں ۔ اتفاق ، اختلاف ، سمجھ ، نا سمجھ سے حقائق نہیں بدلتے ۔ ہم مانیں یا نہ مانیں ۔
میری بہت سی باتیں آپ کو بظاہر فکشن لگیں گی ۔ کسی ناول یا فلم یا ڈرامے کا پلاٹ محسوس ہوں گی ۔ آپ کو ان میں Conspiracy Theories ٹائپ کی کہانیاں نظر آئیں گی ۔ اور یا پھر آپ مجھے فائرالعقل قرار دے کر مطمئن ہوں جائیں گے ۔ مگر انیس بیس کے فرق سے Facts برقرار رہیں گے ۔ Reality آہستہ آہستہ سامنے آتی رہے گی ۔ یہ اور بات ہے کہ اس وقت تک اور دیر ہو چکی ہوگی ۔ اور جب دیر ہوجاتی ہے تو بچا کھچا بھی رخصت ہوجاتا ہے ۔
آج سے ہزار بارہ سو سال پہلے جب الف لیلہ کی کہانیاں کہی گئی تھیں ، افراسیاب جادوگر اور عمرو عیار اور امیر حمزہ کے قصے سنائے گئے تھے تو وہ مکمل فکشن تھا ۔ مگر آج ان قصوں کہانیوں کی بیشتر باتیں حقیقت کا روپ دھار چکی ہیں ۔
آج سے پینتالیس پچاس سال پہلے جیمز بانڈ کی جو فلمیں بنی تھیں اور ان میں جن سائنسی ایجادات کو دکھایا گیا تھا ، آج وہ ہماری زندگی کا حصہ ہیں ۔ اسی وقت اور دور میں محترم ابن صفی نے جو شہرہ آفاق جاسوسی ناول لکھے تھے اور ان میں جو منظر کشی کی تھی ، وہ آج بچے بچے کے نہ صرف علم میں ہے بلکہ ان ناولوں میں لکھی جانے والی ان گنت اشیاء آج ہم سب کے عام استعمال میں ہیں ۔ کمپیوٹر سے لے کر واچ ٹرانسمیٹر ۔ ڈارٹ گن سے لیکر وائس چینجر ۔
یہ مثالیں تو فکشن سے رئیلٹی تک کے ارتقاء کی ہیں ۔
الف لیلہ کی کہانیوں کو حقیقت کی شکل میں آنے تک ہزار سال لگے ۔ جیمز بانڈ اور عمران سیریز اور جاسوسی دنیا کے سائنس فکشن کو عملی زندگی میں قدم رکھنے کو پچاس برس لگے ۔
اور جو بات ، بظاہر تخیلاتی ، تصوراتی ، غیر حقیقی ، افسانوی ، فلمی ، ڈرامائی ، غیر ماورائی بات میں آپ کے سامنے لا رہا ہوں ، اس کے عملی مظاہر ہمارے سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں ۔
دنیا کے آبی و غذائی وسائل بہت تیزی کے ساتھ ختم ہو رہے ہیں ۔ جبکہ آبادی میں بہت تیزی کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے ۔ ہم جیسے جذباتی اور مطلق جاہل لوگ ، دنیا کی کیا ، اپنی ذاتی اور خاندانی زندگی کو کسی بھی نظام اور توازن اور پیش بینی کے بنا گزارنے کے عادی ہیں ۔ لیکن جو لوگ اس وقت دنیا پر حکمرانی کررہے ہیں ، وہ گزشتہ اسی نوے سالوں سے ، اگلے دو سو سالوں کی مضبوط اور مربوط پلاننگ میں مصروف ہیں ۔ اور اب وہ اس نہج پر آچکے ہیں ، کہ جب ان کے مذموم ارادوں میں محض کسی ایک ملک یا محدود خطے پر حکمرانی نہیں ، بلکہ پوری دنیا پر اپنی حاکمیت کا سکہ بٹھانا اور چمکانا شامل ہوچکا ہے ۔
نیو ورلڈ آرڈر کا پہلا پلان دنیا کی آبادی کو کم سے کم کرکے ، دنیا کے ان علاقوں کو اپنی کمانڈ میں لینا ہے ، جہاں قدرتی آبی و غذائی وسائل کثرت سے موجود ہیں ۔ نیز ان خطوں اور زمینوں پر قبضہ حاصل کرنا ہے ، جہاں اگلے کئی سو سالوں تک قدرتی قیمتی دھاتیں اور پتھر اور ایندھن کے ذخائر ملتے رہنے کے امکانات روشن ہیں ۔
نیو ورلڈ آرڈر کے ایجنڈے کا دوسرا اہم نکتہ اپنے تمام مخالفین اور ممکنہ دشمنوں کو ختم اور کمزور ترین کردینا ہے ۔ اس کے لئیے خواہ جنگ چھیڑنی پڑے یا جنگ چھڑوانی پڑے ۔ اور یا برین واش کرکے اپنے مخالفین کے نظریات اور خیالات کو بدل ڈالا جائے ۔
نیو ورلڈ آرڈر ڈاکٹرائن کا تیسرا اہم جز گلوبل ہارمونائزیشن ہے ، جس کے تحت Robotic اور Mechanized انسانوں کی تشکیل اور تدوین ہے ۔ جس کو کچھ لوگ Modern Scientific Slavery کا نام دیتے ہیں ۔
یہ موضوع بذات خود اتنا مشکل اور طویل ہے کہ اس پر موجودہ تحریر میں اتنی ہی بات بتانا مناسب ہے ۔ ورنہ بات کہیں سے کہیں اور نکل جائے گی ۔
اب ایک نظر آپ اپنے ملک کے موجودہ حالات پر ڈالئیے اور ذرا دیر کو سوچئیے کہ ہم ہر حوالے سے آج جس حال میں ہیں ، کیا ایک دن یا چند ماہ میں ہم اس حال میں پہنچے ہیں ۔ نہیں نہ ۔ پھر غور کیجئے کہ حالات کی بدتری کا آغاز کب سے اور کیسے شروع ہوا تھا ۔ آپ کی نظروں کے سامنے سے پرتیں ہٹنا شروع ہو جائیں گی ۔ اور پھر جب آپ ، ملک کے ساتھ ساتھ دنیا کے دیگر ممالک میں ہونے اور آنے والی تبدیلیوں پر ذرا سوچیں گے تو مزید کئی اور سچائیاں آپ کے سامنے آنا شروع ہو جائیں گی ۔
نیو ورلڈ آرڈر صرف اور صرف سیاہ اور سفید کو مانتا ہے ۔ کوئی اور رنگ ، کوئی اور نظریہ ، کوئی اور فلسفہ اس کے نصاب کا حصہ نہیں ۔
Either You Are In Or You Are Out , There Is No In Between , There Is No Middle Space.
کسی بھی امتحان میں جب سو فیصد پاسنگ مارکس رکھ دئیے جائیں گے تو لامحالہ پاسنگ ریشو کم سے کم ہوتا چلا جائے گا ۔ اور آخر میں صرف انتہائی ذہین ، انتہائی طاقتور ، انتہائی امیر ، اور انتہائی کام والے لوگ اس Criterion کو پا سکیں گے ۔
گزشتہ بیس سال سے ہم اور ہمارا ملک اس Criteria سے گزارے جارہے ہیں ، گزروائے جارہے ہیں ۔ ہم میں سے اہل ترین اور بین الاقوامی قوتوں کے نظریات سے قریب ترین کا سلیکشن ہورہا ہے اور باقی کے نوے فیصد لوگوں کو سائیڈ لائن کیا جارہا ہے ، مستقبل قریب میں کرش کرنے لے لئیے ، روبوٹک اور میکانائزڈ بنانے کے لئیے ۔
آپ اس بات سے بھی نا آشنا ہوں گے کہ 2005 کا تباہ کن زلزلہ بھی قدرتی کم اور انجینئیرڈ زیادہ تھا ۔ آپ کی سمجھ میں اب تک یہ بھی نہیں آیا ہوگا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو پر کس اسنائپر نے گولی چلائی تھی اور ان کی شہادت کے بعد اتنے بڑے پیمانے پر اچانک کیسے ملک گیر ہنگامے شروع ہوگئے تھے ۔ تیس برس پہلے سندھی مہاجر بھائی بھائی ، یہ تیسری قوم کہاں سے آئی کا نعرہ بلند کرکے جس لسانی پارٹی نے پٹھانوں کے خلاف طبل جنگ مچایا تھا ، آج اس کے بانی کیوں اور کیسے اور کس کی ایما پر مظلوم پٹھانوں کے حق میں آوازیں اٹھا رہے ہیں ، تقریروں پر تقریریں کررہے ہیں ۔ اور ان کے پیروکار اچانک ماضی حال مستقبل بھول کر پھر سے پچاس سالہ پرانا سندھی مہاجر کا گانا ، گانا شروع کررہے ہیں ۔
آپ کی معصوم سمجھ میں کچھ نہیں آئے گا کہ پنجابی ، پٹھان ، سندھی ، مہاجر اور بلوچ کو کیوں ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کیا جاتا رہا ہے ۔
آپ کی سمجھ میں یہ بھی نہیں آپائے گا کہ 72 سال پہلے آزادی کے وقت جس قوم نے سب سے زیادہ مسلمانوں پر ظلم ڈھائے تھے اور کھلے عام قتل عام کیا تھا ، آج وہی سکھ پوری دنیا میں کیوں کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کی آواز بلند کررہے ہیں ۔
آپ کچھ نہیں سمجھ پائیں گے ۔ کیونکہ آپ منطقی نہیں ، جذباتی سوچ رکھتے ہیں ۔ آپ کبھی بھی آزاد نہیں ہو پائیں گے ، کیونکہ آپ کبھی بھی آزاد نہیں رہے ہیں اور نہ رہ سکتے ہیں ۔ آپ کبھی بھی ترقی نہیں کرسکتے ، کیونکہ آپ ہمیشہ بکنے کے لئیے تیار رہتے ہیں اور کوئی بھی کبھی بھی محض جھوٹے وعدوں اور نعروں سے آپ کو خرید لیتا ہے ۔ آپ کبھی بھی سچ کو نہیں جان سکتے ، کیونکہ آپ کو سچ اور جھوٹ اور صحیح اور غلط میں تفریق کرنا نہیں آتا ۔ آپ کبھی بھی Fiction میں چھپی Reality کو نہیں پہچان سکتے ، کیونکہ آپ نے کبھی ما بعدالسطور پڑھنے کی کوشش ہی نہیں کی ۔
آپ کو کبھی بھی پتہ نہیں چل پائے گا کہ اس وقت آپ جو کچھ سوچ رہے ہیں ، اس سوچ میں آپ کی اپنی کتنی سوچ شامل ہے اور کتنی سوچ ایسی ہے جو آپ کے ذہن میں Implant کی گئی ہے ۔
آپ کو یہ بھی نہیں پتہ چلے گا کہ ایک مصنوعی حقیقت ، ایک مصنوعی طاقت اس لمحے ، اس وقت آپ کے ذہن کو کنٹرول کررہی ہے ۔ آپ کا ہر Response ، آپ کا ہر Reaction اس مصنوعی طاقت کے تابع ہے ۔ آپ کے جذبات ، آپ کا غصہ ، آپ کا غم ، آپ کی بے نام اداسی ، آپ کے اندر کا خالی پن ، آپ کی بوریت اور بیزاری ، آپ کی ہیجانی کیفیت ، یہ سب کچھ فطری ہیں اور کچھ آپ کے اندر وقتا فوقتا Induce کی جاتی رہی ہیں اور یہ عمل تھما نہیں ، جاری و ساری ہے ۔
یہ مصنوعی حقیقی قوت جہاں ایک طرف انسانوں کے موڈ ، مزاج ، جذبات اور خیالات کو Govern کررہی ہے ، وہاں دوسری طرف یہ ماحول اور موسم اور موسمیاتی تغیر کو بھی اپنی مرضی ، اپنی خواہش کے مطابق Control کررہی ہے ۔ زلزلہ ، سیلاب ، بارش ، ان سب قدرتی آفات کو کم زیادہ اور کسی خاص حصے کی جانب منتقل کرنے کی اہلیت کو بار بار چیک کیا جارہا ہے اور اپنے سسٹم کی خرابیوں کو Rectify کیا جارہا ہے ۔
لیکن آپ کو اس سے کیا ۔ آپ کو تو یہ بھی نہیں پتہ کہ آپ اس مصنوعی حقیقی قوت کی تجربہ گاہ کے Guine Pigs ہیں ۔
کیا آپ کو پتہ ہے کہ آپ کا ملک ، آپ کا خطہ زمین پوری دنیا میں ایک منفرد اور اعلی ترین مقام رکھتا ہے ۔ شاید ہی دنیا کا ایسا کوئی اور ملک ہو ، جہاں پہاڑوں کی بلند ترین چوٹیوں پر سارا سال برف جمی رہے ، جہاں قدرتی آبشاروں کے پانی کو کسی فلٹر کی مدد کے بغیر سارا سال پینے کے لئیے اور فصلوں کی پیداوار کے لئیے استعمال کیا جاسکے ۔ جہاں کے دریاؤں کے بہاو کا رخ ایسا ہو ، جو ملک کے چپے چپے تک پانی پہنچ سکتا ہو ، جہاں کے جنگلات ہر طرح کی لکڑی کے لئیے مشہور ہیں ، جہاں صحرا بھی ہیں اور نیلگوں سمندر بھی اور دنیا کا سب سے بڑا ساحل بھی ۔ جہاں قیمتی دھاتوں اور پتھروں کے نہ ختم ہونے والے ذخائر بھی ہیں اور کوئلہ ، قدرتی گیس اور تیل کے خزانے بھی ۔ ایسی سرزمین قسمت والوں کو ملتی ہے جو ہر طرح کی قدرتی نعمت میں خود کفیل ہو ۔
اب آپ خود سوچئیے ، کہ آپ کو کچھ بھی نہیں پتہ اور آپ دنیا کے عظیم ترین قدرتی خزانوں کے مالک بنے بیٹھے ہیں ۔ لیکن جن قوتوں کو یہ سب پتہ ہے ، وہ ان کو گولے بارود سے تباہ و برباد بھی نہیں کرسکتے اور نہ کرنا چاہتے ہیں ۔ وہ قوتیں ، ہم سب کو اور ہماری سات نسلوں کو اپنا غلام بنا کر ہمارے پہاڑوں ، ہمارے ساحلوں ، ہماری زمینوں ، ہمارے معدنی و دھاتی خزینوں ، ہمارے میدانوں ، ہمارے جنگلوں ، ہماری وادیوں پر قابض ہونا چاہتی ہیں ۔ کیونکہ یہ بقا کا معاملہ ہے اور ان کا علم ہماری معلومات سے کئی سو گنا زیادہ ہے اور ان کا عمل ہماری باتوں سے لاکھوں گنا زیادہ ہے ۔ اور جن قوموں ، جن قوتوں کا علم و عمل ، دونوں زیادہ ہوں ، وہ اسی طرح چھوٹے بڑے ہر طرح کے محاذ پر پیش رفت کرتی رہتی ہیں ۔
موسم کے تغیر سے لیکر لوگوں کی سوچ اور موڈ پر بھی ان کا کنٹرول ہوتا ہے ۔ آہستہ آہستہ وہ اس ہوشیاری اور چالاکی سے Mind Manipulation کی جدید سائنسی اور نفسیاتی Techniques کو استعمال کرتی چلی آئی ہیں کہ اب فصل پک کر تیار کھڑی ہے ۔ اور آپ اب بھی اس ساری کہانی کو فکشن سمجھ رہے ہیں ۔ کیونکہ آپ کو کچھ بھی نہیں پتہ ۔ کیونکہ آپ کنوئیں کے مینڈکوں کی طرح دو فٹ گہرے پانی میں رہتے ہوئے ، چھلانگیں لگاتے ہوئے ، ٹرٹرٹرٹر کرتے ہوئے اسی طرز زندگی کے عادی ہوچکے ہیں ۔ اب آپ کو کسی بات سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا ۔ کیا پتہ ہے ، کیا نہیں پتہ ، کیا پتہ ہونا چاہیے ، کچھ پتہ چل جائے تو کیا کرنا چاہیے ۔ کیونکہ اب آپ کا دل ، آپ کا ذہن آپ کا نہیں رہا ۔ اس پر کسی اور مصنوعی حقیقی قوت کا کنٹرول ہے ۔
اور یہ بات آپ کو کسی ناول کا پلاٹ لگے گی ۔ کسی فلم کی کہانی لگے گی ۔ کسی ڈرامے کا تھیم لگے گی ۔ یہ حقیقی فرضی Theory ہے ۔ بظاہر میں اور آپ اسے کسی لیبارٹری میں کنفرم نہیں کرسکتے ۔ مگر سچ یہی ہے ۔ الف لیلہ ، جیمز بانڈ اور عمران سیریز کی کہانیوں کی طرح ۔ جو اپنے اپنے وقتوں میں جھوٹی اور فرضی تھیں ۔ مگر آج کے بچوں اور جوانوں کے لئیے وہ Childish اور فضول ہیں ۔ کیونکہ آج ان کے پاس اور ان کے اردگرد ان دیومالائی اور سائنسی کہانیوں میں بیان کردہ چیزوں سے زیادہ ایڈوانس چیزیں موجود ہیں ۔
کیا Real ہے ، کیا Fiction ، کیا Real Fiction ہے اور کیا Fictional Reality ، ان سب کو جاننے اور سمجھنے کے لئیے دقیق مطالعے اور مشاہدے کی بھی ضرورت ہے اور ریسرچ اور Experiments کی بھی ۔
میں نے تو اب تک کی متھا ماری سے جو تھوڑا بہت اخذ کیا ، وہ اس Raw Theory کے ذریعے آپ کے سامنے پیش کر دیا ۔ مجھے بالکل بھی دلچسپی نہیں کہ آپ اسے سمجھیں یا نہ سمجھیں ۔ کہ یہ میرا کام نہیں ۔ کہ ہوتا وہی ہے جو اللہ کو منظور ہوتا ہے ۔
البتہ اگر آپ کچھ بھی پتہ کرنا نہیں چاہتے اور ایسی ہی زندگی گزارتے رہنا چاہتے ہیں اور خود کو علم اور عمل سے خالی رکھنا چاہتے ہیں تو کم از کم اپنے دل اور دماغ کو کسی بیرونی مصنوعی حقیقی قوت کا آلہ کار بننے سے تو روک لیجئیے ۔ اس کے لئیے آپ کو کسی پہاڑ کی چوٹی سر نہیں کرنی پڑے گی ۔ نہ ہی کسی ویرانے میں جاکر چلہ کاٹنا پڑے گا ۔
آپ جہاں ہیں اور جیسے ہیں اور جو بھی ہیں ، بس روزانہ سو بار درود ابراھیمی اور سو بار استغفار کا ورد شروع کردیں ۔ انشاءاللہ دو ماہ کے بعد آپ کو اپنے اندر اور باہر کی دنیا بدلی ہوئی ملے گی ۔ اور پھر اگر تمام عمر آپ یہ کام کرتے رہے تو آپ اپنے دل اور اپنے ذہن کو اپنے قابو میں رکھ سکیں گے ۔

" حقیقی فرضی " ( Real Fiction )
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان ۔

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی
جسمانی ، روحانی ، جنسی و منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ شاعر ۔ بلاگر ۔ پامسٹ

www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.drsabirkhan.blogspot.com
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
https://g.page/DUAAGO

Instagram @drduaago

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں