جمعرات، 17 اکتوبر، 2019

" جال " ڈاکٹر صابر حسین خان

" جال " 
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون 
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان 


" یار ؛ تم اس بار بھی پیسے لینے آگئے ۔ سوچا بھی نہیں کہ پورے مہینے کتنے دن نیٹ آن رہا ہے ۔ اتنے پیسے تو تمہیں کالز اور میسج کرنے میں خرچ ہوگئے ہوں گے ۔ ہاں ، پچھلے پانچ دن سے صحیح چل رہا ہے ۔
جب سے تم نے سیٹنگ تبدیل کی ہے "
پہلی تاریخ کو دروازے پر ساجد کی شکل دیکھتے ہی میری شکایت شروع ہوگئی ۔ 
گزشتہ سال ، اپریل مئی میں کیبل نیٹ کا تجربہ شروع کیا تھا ۔ کئی سال تک Qubee کے ساتھ رہنے کے بعد ، جب اس کے سگنلز کمزور ہونا شروع ہوئے اور پھر اس کا قریبی آفس بھی بند ہوگیا تو کئی ماہ ڈونگل پر کام چلانے پر جب زیادہ گھچ پچ ہونے لگی تو نئے تجربے کا سوچا گیا ۔ قرعہ فال ، فاریہ نیٹ ورک کے زیر سایہ چلنے والے ایک قریبی کیبل پروائیڈر کے نام نکلا ، جس کا انٹر نیٹ گلی کے کئی گھروں میں چل رہا تھا ۔ 
انٹرنیٹ کے بہانے ساجد سے پہلی ملاقات ہوئی ۔ جو پی ایم ایس نیٹ ورک کے نام سے کیبل نیٹ کا کام کررہا تھا ۔ 
بہت سالوں سے یہ بات میرے مشاہدے میں آئی ہے کہ بہت سے لوگ مجھ سے ملنے سے پہلے کچھ اور ہوتے ہیں اور مجھ سے جدا ہونے کے بعد ان کی زندگی اور طور طریقوں میں پلس یا مائینس ، اچھی یا بری ، کوئی نہ کوئی واضح تبدیلی ضرور آجاتی ہے ۔ 
ساجد کے لڑھکتے پڑھکتے انٹرنیٹ کے ساتھ ڈیڑھ سال گزارنے کے بعد اب کی بار میں نے یہ بھی کہا کہ بھائی اب تم کوئی اور کام کرنے کا سوچو ۔ یہ کام تمھارے بس کا نہیں رہا ۔ ان اٹھارہ مہینوں میں کوئی ماہ ایسا نہیں رہا کہ ساجد کی انٹرنیٹ سروس نے تنگ نہ کیا ہو ۔ کبھی صبح ، کبھی دوپہر ، کبھی شام تو کبھی رات کے آخری پہر ۔ ساجد کا نیٹ کبھی بھی اچانک جواب دے دیتا ہے ۔ کبھی تو کئی کئی دن مستقل پہیہ گھومتا رہتا ہے یا Internet may not be available 
کا میسج آتا رہتا ہے ۔ بیچ میں ایک ماہ کے لئیے تنگ ہو کر میں نے PMS Network کی سروس بند بھی کروادی ۔ لیکن کبھی کبھی ، جب کبھی کسی محنتی اور باہمت نوجوان سے محبت ہوجاتی ہے ۔ تو اس کی سروس پس پشت چلی جاتی ہے اور انسان کا دل اور جذبہ ہماری لاجک سے چپک جاتا ہے ۔
ساجد بھی ایک ایسا ہی دل والا ، جذبے والا ، محبت کرنے والا ، خیال رکھنے والا ، محنتی اور باہمت نوجوان ہے ۔ اور مجھے بھی اس کی محنت اور لگن کی وجہ سے اس سے دلی انسیت ہوگئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پورے ماہ نیٹ بند ہے کا میسج کرتا رہتا ہوں اور جب وہ پیسے لینے آتا ہے تو اس کو جھاڑتا بھی ہوں ، کہتا سنتا بھی ہوں اور ' اگلے ماہ ایسا نہیں ہونا چاہئیے ' کہہ کر بات ختم بھی کردیتا ہوں ۔
محلے میں اور بھی دو چار انٹر نیٹ سروس پروائیڈر موجود ہیں ۔ مگر ساجد سے محبت کی بنا اب تک کسی اور سے کوئی بات نہیں کی ہے ۔ 
ہوسکتا ہے ، ان کی سروس ، ساجد کی سروس سے بہتر ہو ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کا معیار اور زیادہ خراب ہو ۔ سروس نہ بدلنے کی ایک وجہ تو ساجد ہے ۔ ہر بات مان لیتا ہے ۔ اپنی غلطی تسلیم کرلیتا ہے ۔ دن ہو یا رات ، کمپلین دور کرنے خود آجاتا ہے ۔ رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئیے ہر طرح کی جگاڑ کرلیتا ہے ۔ سب سے بڑی بات یہ کہ انتہائی ادب ، احترام اور بہت دھیمے لہجے میں بات کرتا ہے ۔ کبھی الجھتا نہیں ۔ کبھی تیز آواز سے نہیں بولتا ۔ زیادہ تعلیم یافتہ نہیں مگر تہذیب اور شائستگی میں بڑے بڑے اعلی ڈگری یافتہ اور مجھ جیسے بڑی عمر کے لوگوں سے بھی زیادہ آگے ہے ۔ بہت چھوٹی عمر سے کام کررہا ہے اور واقعی خون پسینہ ایک کرکے رزق کما رہا ہے ۔ اور نہ صرف اپنی بلکہ مرحوم بھائی کی فیملی کو بھی سنبھال رہا ہے ۔ ہر وقت ہر نئی بات سیکھنے کے لئیے تیار رہتا ہے ۔ اسے چھبیس ستائیس سال کی عمر میں ہی اس بات کا ادراک ہوچکا ہے کہ کاروبار میں بھی جب تک ، ایک خاص وقت کے بعد ، نئی اور موثر تبدیلی نہ لائی جائے تو وہ پہلے Stagnant ہوجاتا ہے اور پھر تنزلی کا شکار ہونے لگتا ہے ۔ وہ کئی بار مجھے بھی انٹرنیٹ کو فائبر ٹیکنالوجی پر Convert کرنے کو کہہ چکا ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ فی الحال میرا بجٹ اس اضافی خرچہ کو برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔
اور اس ماہ بھی جب میں نے اس سے کہا کہ انٹرنیٹ سروس چلانا تمہارے بس کا روگ نہیں ، کچھ اور کرنے کا سوچو ۔ تو اس کا جواب بہت خوبصورت تھا ۔
" جی انکل : آپ صحیح کہہ رہے ہیں ۔ انٹرنیٹ وائرنگ کا زمانہ پرانا ہوگیا ۔ دو چار ماہ میں بند ہوجانا ہے اس نے ۔ اپنے محلے میں بھی فائبر آگیا ہے ۔ انڈر گراؤنڈ ۔ جگہ جگہ گڑھے کھد چکے ہیں ۔ آپ نے بھی دیکھے ہوں گے ۔ میں بینک سے گاڑی نکلوا چکا ہوں ۔ 2007 کی کورے ۔ Careem میں چلانے کے لئیے ۔ ساڑھے سات لاکھ میں ۔ بس اب وہ شروع کردینا ہے ۔ دسمبر ، جنوری تک یہ سب ختم ہوجانا ہے "
میں نے تو اپنی دانست میں ساجد کو باؤنسر مارا تھا ۔ مگر اس نے ہک کرکے گیند باؤنڈری کے باہر پھینک دی ۔
ایسے سمجھدار اور حوصلے و جذبے والے نوجوان آج کل کہاں ملتے اور دکھتے ہیں ۔ 
ساجد کی یہ بات سن کر مجھے اعظم یاد آگیا ۔ ہمارے محلے کی Mono Video کا پروپرائیٹر ۔ آج سے کوئی 24 سال پہلے اس کی دکان سے روزانہ پلس گلوبل کی اردو ترجمے کے ساتھ انگریزی فلموں کے وڈیو کیسٹ 20 روپے کرائے پر لیا کرتا اور VCR پر دیکھا کرتا ۔ اس وقت اعظم کی عمر یہی کوئی بیس بائیس سال ہوگی ۔ اور وہ اپنے ماموں اور بھائی اور بھانجوں کی مدد سے ایک فل فلیج رننگ کاروبار کررہا تھا ۔ پھر پانچ سال بعد کمپیوٹر عام ہونا شروع ہو گیا ۔ اور VCR قصہ پارینہ بن گیا ۔ 
ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھنا اعظم کی سرشت میں شامل نہیں تھا ۔ اس نے لاکھوں روپے کے وڈیو کیسٹ ، کوڑیوں کے بھاو ، ردی والے کو فروخت کیں اور پہلے CD اور پھر DVD کرائے پر دینا اور فروخت کرنا شروع کردیں ۔ 
مزید پانچ سال بعد جب انٹرنیٹ اور کیبل ٹی وی نیٹ شروع ہوا تو اعظم کو پھر ردی والے کی مدد لینی پڑی ۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے مونو وڈیو شاپ ، مونو گفٹ شاپ میں تبدیل ہوگئی ۔ چین سے کنٹینر بھر کر خوبصورت کھلونوں اور دیگر گفٹ آئیٹمز کے ڈھیر آنا شروع ہوگئے ۔ اور اس کی دوکان پر رش کا وہی عالم دوبارہ شروع ہو گیا جو دس بارہ سال پہلے تھا ۔ 
مگر قدرت نے اعظم کو اگلے پانچ سال بعد کسی اور تبدیلی کا موقع نہیں دینا تھا ۔ 
مجھے نہیں پتہ کہ وہ کب ، کیوں اور کس طرح کولڈ ڈرنکس کی ایڈیکشن کا عادی ہوا ۔ مجھے اس کی اس لت کا اس وقت پتہ چلا جب وہ اچانک عباسی ہسپتال میں ایڈمٹ ہوا ۔ اور چار چھ گھنٹوں میں اللہ کو پیارا ہوگیا ۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ ایک عرصے سے روزانہ ڈیڑھ لیٹر کی دو کولڈ ڈرنکس کی بوتلیں پیا کرتا تھا اور کبھی تو اس سے بھی زیادہ ۔ آخری دن اس کی شوگر چھ سو سے زیادہ تھی اور اس کے گردے مکمل فیل ہوچکے تھے ۔ اس وقت کوئی علاج کارگر ثابت نہیں ہوا ۔ اور وہ بھرے پرے کاروبار زندگی کو چھوڑ کر عدم کے سفر پر روانہ ہو گیا ۔
پھر ایک آدھ سال میں اس کی مونو گفٹ شاپ بھی بند ہوگئی ۔ اور آج اس کے گھر والوں کے سوا ، مجھ جیسے کچھ لوگ ہی اس کے کام اور اس کے نام سے واقف ہوں گے ۔
کام کوئی سا بھی ہو ، کچھ عرصے کے بعد تجدید کا متقاضی ہوتا ہے ۔ بہت کم نوجوان ، بہت کم لوگ بدلتے موسموں کے مزاج کو سمجھ پاتے ہیں ۔ وقت کے ساتھ اپنے آپ کو ، اپنے کام کو بدل پاتے ہیں ۔ ہجرت کر پاتے ہیں ۔ ہر کوئی اعظم اور ساجد کی طرح دل گردہ نہیں رکھتا اور نہ ہی ہر کسی کا Vision اتنا واضح ہوتا ہے اور نہ ہی قدرت ہر کسی کو Wisdom عطا کرتی ہے ۔
وژن اور وزڈم کی نعمت ہمت والوں ، جذبے والوں کو ملتی ہے ۔ کہیں نہ ٹہرنے والوں کو ملتی ہے ۔
وقت کی ضرورت سمجھنے والوں کو ملتی ہے ۔ تمام عمر ایک ہی Cycle میں ایک ہی طریقہ سے ایک ہی طرح کے کام کرتے رہنے سے ہم کبھی بھی اپنے اندر کے خزانے سے واقف نہیں ہوسکتے ۔ ہمارے Hidden Treasure کبھی بھی Routine اور Rituals کو Follow کرنے سے باہر نہیں آ پاتے ۔ ہر نیا کام ، ہر نیا Venture ہمارے Latent Potential کو Activate کرتا ہے ، بیدار کرتا ہے ۔ اور ہمارے وژن اور وزڈم میں اضافہ کرتا ہے ۔ ہر نیا تجربہ ، ہر نیا مشاہدہ ، ایک نئی راہ دکھاتا ہے ۔ ہر نیا قدم ، ایک نئی منزل کی راہیں استوار کرتا ہے ۔ 
مگر ہم میں سے اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو کوئی بھی نیا قدم اٹھانے سے گھبراتے ہیں ، ڈرتے ہیں ۔ حالات بد سے بدتر کیوں نہ ہوجائیں ، ہم اپنے آپ کو ، اپنے کام کو ، اپنی اپروچ کو بدلنے پر راضی نہیں ہوتے ۔ ہم میں سے کوئی بھی اپنا اپنا Comfort Zone چھوڑنے پر تیار نہیں ۔ ہمارے پاس ایسا نہ کرنے کے ہزاروں جواز ہوتے ہیں ۔ کچھ نیا نہ کرنے کی ان گنت تاویلیں ہوتی ہیں ۔ اور سب سے بڑی دلیل یہ ہوتی ہے کہ نئے کام کا ہمارے پاس کوئی تجربہ نہیں ۔ ہم نہیں کرسکتے ۔ اور اگر بنا تجربے کے کریں گے تو ناکام ہوجائیں گے ۔ ہمارا وقت ضائع ہوگا ۔ ہمارے پیسے ڈوب جائیں گے ۔
اس سوچ کے باوجود ہمارا وقت ضائع ہوتا رہتا ہے ۔ ہمارے وسائل کم پڑنے لگتے ہیں ۔ ہمارے مسائل بڑھنے لگتے ہیں ۔ اور ہم اچھے وقتوں کے انتظار میں ، خالی ہاتھ بیٹھے دعائیں مانگتے رہتے ہیں ۔ اس کائناتی حقیقت سے نظریں چرا کر ، کہ ، پہلے عمل ہوتا ہے ، پھر دعا مانگنے کا جواز پیدا ہوتا ہے ۔ ہم نماز پڑھنے کی بجائے مصلی بچھا کر آلتی پالتی مار کر ، بیٹھ کر گھنٹوں دعائیں مانگتے رہنے کے عادی ہو چکے ہیں ۔ Professional Beggars بن چکے ہیں ۔ نئی راہیں تلاشنے ، فکر اور عمل کے نئے زاوئیے تراشنے اور نئی منزلیں ڈھونڈنے کی بجائے ہم اسی جانور کے تھنوں کو نچوڑنے میں لگے رہتے ہیں ، جس کے دودھ کو خشک ہوئے زمانہ گزر گیا ہوتا ہے ۔ 
انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر آج ہماری بدحالی اور بے مائیگی کی یہی ایک بنیادی وجہ ہے ۔ پانی سروں سے اوپر ہورہا ہے ۔ ہمارا ڈوبنا ، لوح تقدیر پر لکھا واضح نظر آرہا ہے ۔ ہر نیا دن ہماری مشکلات میں اضافہ کررہا ہے ۔ مگر ہم میں سے شاید ہی کوئی اختیاری تبدیلی کو دلی اور ذہنی Level پر Accept کرنے کے لئیے رضا مند ہوگا ۔ ہر کسی کی دلی خواہش ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہوجائے اور کچھ بھی نہ کرنا پڑے ۔ باتوں اور نعروں کے قلزم بہا دئیے جائیں اور کشمیر فتح ہوجائے ۔ ملک کی لاکھوں مسجدوں میں کروڑوں لوگ گزشتہ ستر سالوں سے دعائیں مانگتے مانگتے ابدی نیند سوچکے ہیں مگر ' دشمنان اسلام ' اور ' کفار ' ہیں کہ دن دونی رات چوگنی ترقی کررہے ہیں ۔ 
وجہ بہت سادہ ہے ۔ ہمیں ہمہ وقت باتوں کے جال بننے کی عادت ہے ۔ باتیں ، اور باتیں ، اور پھر باتیں ۔ جھوٹی باتیں ۔ سچی باتیں ۔ اور زندگی عمل اور ترتیب اور ترکیب سے عاری ہے ۔ کھوکھلی باتوں کے جال بھی کھوکھلے ہوتے ہیں ۔ مخالف کے ایک ہلکے سے عملی جھٹکے سے ٹوٹ جاتے ہیں ۔ انٹرنیٹ کے کیبل کی تاروں کے جال کی طرح ۔ بارش کا ایک ہلکا سا Spell پورے نیٹ ، پورے نیٹ ورک کے بخیئے ادھیڑ دیتا ہے ۔ اور پہیہ گھومتا رہتا ہے ۔ گھومتا جا رہا ہے ۔ تاروں کا جال چاروں طرف بچھے ہونے کے باوجود کبھی یہاں کبھی وہاں ، کبھی میں اور کبھی آپ یہی شور و غوغا مچا رہے ہوتے ہیں کہ ہم پیسے تو بھر رہے ہیں مگر نیٹ پھر بھی نہیں چل رہا ۔ 
نیٹ ہو ، نیٹ ورک ہو یا کسی اور طرح کا جال ہو ، جب تک کڑی ، کڑی سے منسلک اور مربوط نہیں ہوگا ، نہ انٹر چل پائے گا ، نہ نیٹ ورک بن پائے گا ، نہ کوئی کام ہو پائے گا ۔ باتوں کے بڑے بڑے جال بننا اور بنانا چھوڑ کر ، نئے کام تلاش کیجئیے ۔ پرانے کاموں میں جدت اور ندرت کے سامان پیدا کیجئیے ۔ سو باتوں میں سے ایک بات پر بھی عمل شروع کردیں گے تو یقین کیجئیے کہ آپ کے نیٹ کا پہیہ گھومتے گھومتے رک جائے گا اور آپ کا نیٹ ورک چلنے لگے گا ۔ اپنے باتوں کے جال میں عمل کی آہنی کڑیاں لگانا شروع کر دیجیئے ۔ آپ کے رکے کام ، بننے سنورنے لگیں گے ۔ یاد رکھئیے ۔ There Is Always A First Time For Everything . 


" جال " 
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون 
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان 

ماہر نفسیات و امراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی 
جسمانی ، روحانی ،جنسی اور منشیات 

مصنف ۔ کالم نگار ۔ شاعر ۔ بلاگر ۔ پامسٹ 

www.drsabirkhan.blogspot.com 
www.fb.com/Dr.SabirKhan 
www.fb.com/duaago.drsabirkhan 
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan 
www.g.page/DUAAGO 

Instagram @ drduaago

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں