منگل، 1 اکتوبر، 2019

مقدر کا سکندر . ڈاکٹر صابر حسین خان

" مقدر کا سکندر "

" مقدر کا سکندر "

نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ایک بار کا ذکر ہے ۔ کوئی ڈھائی ہزار سال پہلے کی بات ہے ۔ ملک یونان کی کہانی ہے ۔ دنیا کے ہر تھوڑے بہت پڑھے لکھے انسان کو اس کہانی کا تھوڑا بہت ضرور پتہ ہے ۔ سکندر یا Alexander نامی یونان کا شہزادہ جب بادشاہ بنا اور اس کے لشکر نے اس زمانے کے ملک ملک فتح کر ڈالے اور آدھی سے زیادہ دنیا پر اپنے جھنڈے گاڑ دئیے تو بادشاہ کو دنیا والوں نے آنے والی صدیوں تک کے لئیے سکندر اعظم کا ٹائٹل دے دیا ۔ Alexander The Great ۔ فاتح دنیا ۔
مزے کی بات یہ ہے کہ یہ وہ بادشاہ تھا ۔ جس کے ہاتھ میں ، ابتدائی عمر میں ، بادشاہت کی کوئی لکیر نہ تھی ۔ مگر قدرت نے اسے دنیا کی بادشاہت دینی تھی ۔ سکندر اعظم کے بارے میں تو بہت سے لوگوں کو پتہ ہے ، مگر اکثر لوگوں کو یہ نہیں پتہ کہ دنیا کا ایک عظیم فلاسفر اور عالم ، سکندر اعظم کا استاد اور اتالیق تھا ۔ ارسطو ۔ Aristotle ۔ آج کی عمرانیات اور منطق اور فلسفے کا بانی ۔ عہد حاضر کے تمام سماجی علوم کی بنیاد فراہم کرنے والا ۔ افلاطون Plato کا شاگرد ۔ مشہور زمانہ سقراط Socrates کے شاگرد کا شاگرد ۔
لوگوں کو زیادہ تر افلاطون ، سقراط اور سکندر اعظم کا نام یاد ہے ۔ سقراط بھی اس لئیے کہ اس نے اپنے سچ پر سمجھوتہ نہیں کیا تھا اور حاکمین وقت کی دی ہوئی سزا قبول کر کے زہر کا پیالہ پی لیا تھا ۔ سقراط نے کوئی کتاب نہیں لکھی مگر اس کی تعلیمات ، اس کے فلسفے ، اس کے نظریات نے جدید دور کے علم کی وہ بنیاد فراہم کی ، جسے اس کے بعد افلاطون اور پھر ارسطو نے واضح عملی شکل دی اور ایسے Manuals مرتب کئیے ، جن کی روشنی میں آج کا تمام تر سماجی اور عمرانی اور اخلاقی فلسفہ حیات مختلف تہذیبوں میں مختلف شکلوں میں رائج ہے ۔
ارسطو کے نام کے ساتھ البتہ ایک سیاہ دھبہ اس شکل میں ضرور لگا کہ وہ ایک بادشاہ کا استاد تھا اور وہ بھی اس وقت ، جب بادشاہ ، بادشاہ نہیں بنا تھا ، محض ایک شہزادہ تھا ۔ اور ارسطو کے زہر سایہ اس نے اپنی ابتدائی زندگی گزاری تھی ۔ اور بادشاہ بھی کیسا کہ محض ملک یونان کا نہیں ۔ بلکہ آدھی سے زیادہ دنیا میں اس نے اپنی فتح کے جھنڈے گاڑ دئیے تھے ۔ فاتح عالم بننے کے لئیے لا محالہ ہزاروں لاکھوں انسانوں کا خون بہانا پڑتا ہے ۔ سکندر اعظم بھی قدرت کے اس قانون سے مبرا نہیں تھا ۔
اور اس کے اس جرم میں کسی حد تک ارسطو کا بھی ہاتھ رہا تھا ۔ وہ کیسے ؟ ۔ وہ ایسے ۔ کہ ایک بار اپنی ابتدائی زندگی میں سکندر بھاگا بھاگا اپنے استاد کے پاس پہنچا اور ہڑبڑاتی آواز میں اس سے کہا کہ بادشاہ وقت نے اسے ولی عہد نامزد کیا ہے ۔ مگر وہ روایتی بادشاہ نہیں بننا چاہتا ۔ محض اپنے ملک کا ۔ بلکہ وہ پوری دنیا کا بادشاہ بننا چاہتا ہے ۔
ارسطو کچھ دیر تک خاموشی سے سکندر کو دیکھتا رہا ۔ پھر اس نے سکندر کے دونوں ہاتھ ، اپنے ہاتھوں میں لئیے اور کئی گھنٹوں تک اس کے ہاتھوں کی لکیروں کا معائینہ کرتا رہا ۔ سکندر بےچینی اور اضطرابی حالت میں اپنے استاد کی لب گوئی کا انتظار کرتا رہا ۔
" کیا میرے ہاتھوں میں بادشاہت کی لکیر ہے ؟ " سکندر سے رہا نہ گیا ۔ جب ارسطو نے اس کے ہاتھ دیکھنا چھوڑ دئیے تھے اور آنکھیں بند کرکے کسی گہری سوچ میں غرق ہو گیا تھا ۔
" ہاں بھی اور نہیں بھی " ۔ ارسطو نے بند آنکھوں سے جواب دیا ۔
" کیا مطلب؟ " ۔ سکندر کی ساری خوشی ہوا ہوگئی تھی ۔ وہ تو اپنے استاد کو خوشخبری سنانے آیا تھا اور متوقع تھا کہ ارسطو اسے گلے لگا لے گا ۔ اور اسے کہے گا کہ ہاں اس کی دنیا پر بادشاہت کی خواہش پوری ہوگی ۔ مگر ارسطو تو اس کے ہاتھوں کی لکیریں دیکھ کر چپ ہوگیا تھا ۔
کچھ دیر کی گہری خاموشی کے بعد ارسطو گویا ہوا ۔
" تمھارے ہاتھ میں بادشاہت کی لکیر تو ہے مگر وہ اس جگہ آکر ختم ہو رہی ہے ۔ تم زیادہ سے زیادہ ملک یونان کے بادشاہ بن سکتے ہو ۔ ہاں البتہ اگر تمھاری یہ لکیر یہاں سے یہاں تک ہوتی اور گہری ہوتی تو تمھارے سر پر دنیا کی بادشاہت کا تاج سج سکتا تھا " ۔
ارسطو یہ کہہ کر خاموش ہوگیا ۔ سکندر اس کا ایک عزیز اور فرمانبردار شاگرد تھا ۔ اور اس کا دل ٹوٹتے ہوئے اسے بھی دکھ ہورہا تھا ۔ مگر وہ اپنے استاد کے استاد سقراط کی تعلیمات سے بے پناہ متاثر تھا اور سچ کے سوا اس کے پاس کچھ اور بتانے اور پڑھانے کو نہیں ہوتا تھا ۔ اسے اپنے استاد افلاطون کی بہت سی باتوں سے بھی اختلاف رہتا تھا ۔ کیونکہ افلاطون نے کئی جگہوں پر سچ میں جھوٹ اور جھوٹ میں سچ کی آمیزش کرکے اپنے دور کے حاکمین اور اعلی مرتبے کے حاملین سے اپنے لئیے خصوصی رعایات حاصل کی تھیں ۔ اپنے استاد سقراط کا انجام دیکھ کر ۔ افلاطون کو اپنے منفرد فلسفوں اور بادشاہت و حکومت کے انوکھے طور طریقوں کو عوامی سطح پر مقبولیت دلوانے کا شوق تھا اور اپنی زندگی میں ہی شہرت پانے کا جنون تھا ۔ اس کو یہ بات سمجھ آگئی تھی کہ جب تک حاکم وقت کا ہاتھ دانشور کے سر پر نہیں ہوگا ، اس وقت تک وہ مشہور نہیں ہوسکتا ۔ خواہ اس کی دانش سچی اور کھری کیوں نہ ہو اور خاص و عام کے لئیے ہر طرح مفید کیوں نہ ہو ۔
افلاطون کو اس بات کی بھی سمجھ آگئی تھی کہ محض سچ اور صحیح کی بنیاد پر نہ کوئی حکومت زیادہ عرصے تک چل سکتی ہے اور نہ ہی خواص و عوام نے اسے خوش اسلوبی سے چلنے دینا ہوتا ہے ۔ اور عالم و دانشور کو عزت ، شہرت اور دولت اسی وقت مل سکتی ہے ، جب وہ خواص و عوام ، دونوں طبقات کا رانجھا راضی رکھ سکتا ہو ۔
ارسطو نے افلاطون سے بہت کچھ سیکھا مگر اس کی فطرت اور شخصیت نے اسے کلی طور پر افلاطون کی سچی جھوٹی تمام تعلیمات کو دل سے قبول نہ کرنے دیا ۔ یہی وجہ تھی کہ وہ مروجہ رواج کے مطابق شہزادوں کا استاد اور اتالیق تو مقرر ہوا مگر وہ جھوٹ و سچ کے ملفوظات گھڑنے کی بجائے انفرادی زندگی کو اعلی و ارفع اخلاقی اقدار کے مطابق ڈھالنے کی کوشش میں لگا رہا اور اخلاقیات کو اپنی تعلیم کی بنیاد بنا کر ، اپنے شاگردوں کی تربیت کرتا رہا ۔
اس کا کام اپنے پیروکاروں سے زیادہ مشکل تھا ۔ سقراط کا کڑوا سچ اور افلاطون کا مصالحتی سچ و جھوٹ ، دونوں کی تقلید اور تلقین اس کے لئیے ناممکن تھا ۔ انسان دوستی نے اس کی مدد کی ۔ اور وہ فلسفے ، عمرانیات اور اخلاقیات کے میدان میں ایک معتدل اور متوازن شکل پیش کرنے میں کامیاب ہوگیا ۔ خواص اور عوام کی ناراضی اور خفگی اور ناپسندیدگی کے بنا ۔
جب سکندر نے اس سے اپنے مستقبل کی بابت سوال کیا تو اپنی فلاسفی کے مطابق اسے سچ بھی کہنا تھا اور اپنے شاگرد کا دل بھی نہیں توڑنا تھا اور اسے مایوس بھی نہیں کرنا تھا ۔
" تم ایک دن بادشاہ تو ضرور بنو گے مگر دنیا پر بادشاہت کے لئیے اس لکیر کو یہاں سے یہاں تک ہونا ضروری ہوتا ہے ۔ اور تمہارے ہاتھ میں یہ لکیر آدھے مقام پر آکر ختم ہورہی ہے ۔ " ارسطو نے اپنے تئیں سکندر کو سچ بھی بتا دیا اور اسے مایوس ہونے سے بھی بچا لیا ۔
لیکن سکندر کے مقدر میں قدرت نے رہتی دنیا تک کے لئیے کچھ اور لکھا تھا ۔ اور جن کے مقدر میں ، مقدر کا سکندر بننا ، لکھا ہوتا ہے ، وہ اپنے ہاتھوں پر اپنے ہاتھوں سے آدھی ادھوری لکیریں ، پوری کر چھوڑتے ہیں ۔
سکندر کی قسمت میں محض یونان کی سلطنت نہیں تھی ۔ اس نے سکندر اعظم کا خطاب پانا تھا ۔ ارسطو کے جواب پر وہ سر جھکا کر واپس نہیں پلٹا ۔
" استاد محترم ! میری رہنمائی کیجئیے ۔ آپ نے کیا بتایا ۔ یہ لکیر کہاں سے کہاں ہونی چاہئیے تھی ۔ جو پوری دنیا کی بادشاہت کی نمائندگی کرے ۔ " سکندر نے ذرا توقف کے بعد ارسطو سے پوچھا ۔
ارسطو نے اپنے علم کی روشنی میں اپنی انگلی سے سکندر کی ہتھیلی پر ایک فرضی لکیر کھینچ کر دکھایا کہ اگر یہ لکیر یہاں سے یہاں تک ہو تو وہ آدمی بہت سی فتوحات حاصل کرسکتا ہے ۔
سکندر نے سکندر اعظم کا روپ دھارنا تھا ۔ گو اس وقت تک اسے بھی اس بات کا علم نہیں تھا ۔ مگر اس کی خواہش کی شدت نے اس سے وہ قدم اٹھوادیا ، جو آنے والے دنوں میں تاریخ کا حصہ بن گیا ۔
سکندر نے اسی لمحے اپنے لباس کی ڈوری سے لٹکا خنجر نکالا اور اپنی ہتھیلی میں عین اسی مقام پر ایک گہری لکیر بنا ڈالی ، جس جگہ ارسطو نے اسے پادشاہت کی فرضی لکیر بنا کر دکھایا تھا ۔
کہا جاتا ہے کہ سکندر نے اپنی ہتھیلی پر اپنے خنجر سے جو لکیر بنائی تھی ، اس کا زخم ، اس کی آخری سانس تک ہرا رہا تھا ۔ کہ وہ لکیر اتنی گہری تھی کہ گوشت کٹ کر ہاتھ کی ہڈی تک پر ضرب آئی ہوئی تھی ۔
یہ اور بات ہے کہ سکندر بہت کم عمری میں یونان کی سلطنت سنبھال کر اپنی فوجوں کو ہندوستان اور ایران تک کی سرحدوں کے اندر لے آیا تھا اور ملتان کے کسی مقام پر کسی زہریلے تیر یا تلوار کے زخم نے اس کی جان لے لی تھی ۔ اس وقت کی آدھی سے زیادہ دنیا پر اس کا جھنڈا لہرا رہا تھا ۔ جب وہ محض تینتیس سال کی عمر میں دنیا چھوڑ گیا ۔
یہ بھی اور بات ہے کہ آج تک دنیا بھر کے ملکوں کی افواج کے جرنیل اور لیڈر ، سکندر اعظم کی جنگی تیکنک اور مختلف ثقافتوں اور تہذیبوں پر فتوحات حاصل کرنے کے طریقوں کو اپنا آئیڈیل مانتے ہیں اور اپنے اپنے جنگی نصاب میں اس کے جنگی نقشوں کو بھی شامل رکھتے ہیں ۔
سکندر ، سکندر اعظم ، بظاہر اپنی ہتھیلی پر اپنے استاد کی بتائی ہوئی فرضی لکیر پر اپنے خنجر سے حقیقی لکیر کھینچنے سے بنا ۔ لیکن درحقیقت یہ اس کا اپنے استاد کی تعلیمات پر اندھا اور پختہ یقین اور ایمان تھا ۔ جس نے اسے ہزاروں سال تک کے لئیے دنیا کے ہر خطے ، ہر ملک کے لئیے مثالی بنا دیا ۔
اور یہ بھی ایک بات ہے کہ سکندر اعظم اور ارسطو کا زمانہ ، نہ صرف اسلام بلکہ عیسائیت سے بھی پہلے کا تھا ۔ کسی مذہب کا نہیں بلکہ علم فلسفہ کے مذہب کا زمانہ تھا ۔
زمانہ کوئی سا بھی ہو ، مذہب کچھ بھی ہو ، تہذیب اور ثقافت کسی بھی طرح کی ہو یا رہی ہو ۔ اپنے اپنے وقت کے مقدر کا سکندر وہی قرار پاتا ہے ، جو بنا کسی خوف ، تردد ، سوال اور تمہید کے اپنے استاد کی تعلیمات اور فلسفہ حیات پر آنکھیں بند کرکے یقین رکھتا ہو اور اس کے ایمان کی سطح اتنی بلند ہو کہ خود تقدیر ، اس کے جذبے کی قدر کرکے اسے اتنی ہمت اور صلاحیت عطا کردے کہ وہ اپنے ہاتھوں اپنے وجود اور بدن پر شگاف ڈال کر ، اپنا لہو بہا کر ، اپنے مقصد کے حصول کے لئیے شب و روز ایک کردے ۔
اس کے لئیے مسلمان یا عیسائی یا یہودی یا ہندو یا بدھ ہونا ضروری نہیں ۔ اپنے اپنے ایمان اور یقین کی پختگی اور منافقت اور دورنگے پن سے دوری کا ہونا ، لازمی جز ہوتا ہے ۔ مقدر کا سکندر بننے کے لئیے ۔
اور مقدر کا سکندر بننے کے لئیے دنیا ، فتح کرنے کی بھی ضرورت نہیں ۔ دلوں کی سلطنت کا بادشاہ بننا اور دلوں کو فتح کرتے چلے جانا ، وہ فتح عظیم ہوتی ہے ۔ جو ملکوں اور قوموں کو اپنا مفتوح بنانے سے بڑا رتبہ رکھتی ہے ۔
آج ارسطو کا نام بھی زندہ ہے اور سکندر اعظم کا بھی ۔ مگر الگ الگ حلقوں میں ۔ الگ الگ حوالوں سے ۔ اپنے اپنے ایمان کی تجدید کیجئیے ۔ اپنے اپنے یقین کے کے خنجر سے اپنے وجود اور اپنی سوچ میں چیرا لگائیے ۔ ذرا خود کو تکلیف میں ڈالئیے ۔ دو رنگی زندگی سے پیچھا چھڑائیے ۔ منافقت کو خیرباد کہئیے ۔ اور کھیل جائیے زندگی کی بازی ۔ کہ موت سے نہیں بچ سکتے ۔ ہاں! موت سے پہلے کسی نہ کسی حوالے سے مقدر کا سکندر ضرور بن سکتے ہیں ۔ بس خود کو ڈر ، خوف اور مصلحت کی منطق سے دور کرلیجئیے ۔ اور جو کرنا چاہتے ہیں ، وہ کر گزرئیے ۔ کہ وقت ، برف کی مانند پگھل رہا ہے ۔ اور حتمی حساب کتاب کا وقت آیا ہی چاہتا ہے ۔
سقراط کی طرح زہر کا پیالہ پینا ہے ۔ یا افلاطون کی طرح پر اطمینان زندگی گزارنا ہے ۔ یا ارسطو کی طرح اعتدال اور توازن کے ساتھ چل کر انسان اور اخلاقیات سے محبت کرنا ہے ۔ یا پھر سکندر اعظم کی طرح جینا اور مرنا ہے ۔
کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑے گا ۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ کر ہاتھوں کی لکیروں کو نہیں بدلا جاسکتا ۔ اپنی تقدیر کے لکھے کو نہیں مٹایا جاسکتا ۔ اپنے اپنے وقت کو بہتر اور موثر نہیں کیا جاسکتا ۔ کچھ کرلیجئیے ۔ نہیں تو کہیں بھی نہیں رہیں گے ۔ نہ تاریخ میں ۔ نہ جغرافیہ میں ۔ نہ ذہنوں میں ۔ نہ دلوں میں ۔ نہ وقت کی تحریروں میں ۔ اور کھربوں لوگوں کی قبروں کی طرح نہ نام بچے گا ۔ نہ نشان بچے گا ۔
ذرا رکئیے ۔ کہانی ابھی ادھوری ہے ۔ منظر آپ نے پڑھا ۔ پس منظر اور پیش منظر بھی پڑھ لیجئیے ۔
سکندر جب ارسطو کے پاس بھاگم بھاگ اپنی خواہش کے سوال کا بوجھ لے کر پہنچا تھا تو اس کی سانس پھولی ہوئی تھی ۔ وہ اپنے استاد کو درسگاہ اور دیگر جگہوں پر ڈھونڈتا پھر رہا تھا مگر ارسطو اپنی مخصوص جگہوں پر حاضر نہیں تھا ۔ پھر کسی طالب علم نے بتایا کہ استاد ، ساحل سمندر پر پائے جاتے ہیں ۔
سکندر جب بتائی ہوئی جگہ پر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ ارسطو آنکھیں بند کرکے ساحل پر دراز ہے ۔ اس طرح کہ اس کے بدن پر سورج اپنی بھرپور آب و تاب سے روشنی ڈال رہا ہے ۔ اور سمندر کی لہریں اس کے جسم کو بھگو کر واپس سمندر میں پلٹ رہی ہیں ۔
سکندر ، ارسطو کے سر کی پشت کی جانب کھڑا ہوگیا اور اپنے استاد کی آنکھیں کھلنے کا انتظار کرنے لگا ۔ اس نے اپنی دانست میں اپنے استاد اور سورج کے درمیان اپنے بدن کا پردہ ٹانگ دیا تھا ۔ تاکہ سورج کی تپش ، ارسطو کے بدن تک براہ راست نہ پہنچ سکے ۔
کچھ دیر میں جب ارسطو کو سورج کی حدت اور گرمی محسوس نہ ہوئی ، تو اس نے آنکھیں کھولیں ۔ سکندر ہاتھ باندھے ، اس کے اور سورج کے بیچ کھڑا تھا ۔
" تم یہاں کہاں ؟ ۔ ابھی تو درس کا وقت نہیں ہوا ہے ۔"
ارسطو نے نیم چندھیائی آنکھوں کو جھپکتے ہوئے پوچھا ۔
" مجھے پدر محترم نے ولی عہد نافذ کردیا ہے ۔ اور میں آپ کے پاس ایک بہت ہی اہم سوال لے کر آیا ہوں ۔ سوال اتنا اہم ہے کہ تدریس کے مخصوص وقت کا انتظار نہیں کر پایا ۔ تو آپ کے آرام میں خلل ڈال رہا ہوں ۔ " سکندر نے نظریں جھکا کر بات کی ۔
" کیا وہ سوال اتنا اہم ہے کہ میرے دھوپ اور پانی ، گرمی اور خنکی کے مراقبے کے بیچ کیا جائے ۔ اور اگر واقعی وہ سوال اتنا اہم اور ضروری ہے تمہارے لئیے تو برائے مہربانی میرے اور سورج کے درمیان سے ہٹ کر کھڑے ہو ۔ تاکہ میں بھرپور شعائی توانائی لے سکوں ۔"
ارسطو نے ریت پر لیٹے لیٹے بات کی ۔
سکندر ، فورا سورج کے سامنے سے ہٹ گیا اور مودبانہ بولا " میں یونان کا بادشاہ نہیں بننا چاہتا ۔ میرے خواب بلند ہیں ۔ میں دنیا فتح کرنا چاہتا ہوں ۔ "
ارسطو کا خمار اتر چکا تھا ۔ وہ کہنیوں کو ریت میں گھسا کر ترچھا ہوا اور پوچھا " بہت خوب ۔ تمہارا خواب واقعی بڑا ہے ۔ لیکن پہلے میرے ایک سوال کا جواب دو ۔ تو پھر میں تمہارا ہاتھ دیکھتا ہوں کہ اس میں دنیا کی بادشاہت کی لکیر ہے یا نہیں "
جی پوچھئیے " سکندر اب مطمئن تھا کہ اس نے استاد کی پوری توجہ حاصل کرلی ہے ۔
" یہ بتاو کہ دنیا فتح کرلینے کے بعد کیا کرو گے ۔ پھر تو کچھ بھی کرنے کے لئیے باقی نہیں بچے گا " ارسطو نے زیر لب مسکراتے ہوئے سکندر سے سوال کیا ۔
ارسطو کا سوال سن کر سکندر کی رہی سہی پریشانی بھی ختم ہوگئی ۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ ارسطو اس سے فلسفے یا منطق کا کوئی مشکل ترین سوال پوچھے گا ۔
" اس کا تو بہت آسان جواب ہے ۔ دنیا فتح کرلینے کے بعد پھر میں بھی آپ کے ساتھ ، اسی طرح ساحل سمندر پر ریت ، دھوپ اور پانی میں لیٹوں گا ۔ غوطے لگائوں گا ۔ آپ کی طرح سوچ و بچار کروں گا ۔ "
سکندر نے سکون کی سانس لیتے ہوئے جواب دیا ۔ اسے اطمینان تھا کہ اب اسے اس کے سوال کا جواب بھی مل جائے گا ۔
مگر ارسطو کے اگلے جملوں نے سکندر کو چپ کرادیا ۔
" بیوقوف ! ساحل سمندر پر لیٹ کر دھوپ سینکنے اور ریت کی تپش اور سمندر کے پانی کی ٹھنڈی لہروں میں گرم و سرد کا بیک وقت مزہ لینے کے لئیے ، دنیا فتح کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔ آو ! اور ابھی میرے ساتھ لیٹ جاو ۔ میرے برابر میں ۔
آرام و سکون تمہیں یونہی مل رہا ہے ۔ تو دنیا فتح کرنے کی تگ و دو اور جدوجہد کے بعد کا انتظار کیوں ۔
اپنے آج کو مطمئن بنا لو ۔ ہر طرح کے جھنجھٹ سے آزاد ہو جاو گے "
مگر سکندر کے مقدر میں مقدر کا سکندر بننا لکھا تھا ۔ اس نے اپنے استاد کی یہ بات نہ مانی ۔
اپنی خواہش ، اپنے خواب کو مقدم رکھا اور پھر اگلی عمر کے تیرہ برس ، بیس تا تینتیس سال ، دنیا فتح کرتے رہنے کی جدوجہد میں گزار دئیے ۔ اپنے ہاتھ سے اپنی ہتھیلی پر بادشاہت کی لکیر کھینچنے اور پھر اس کے مطابق اپنی مختصر سی زندگی گزارنے کے باوجود سکندر اس دنیا سے خالی ہاتھ واپس گیا ۔

" مقدر کا سکندر "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون

دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی
جسمانی ، روحانی ، جنسی و منشیات ۔

مصنف ۔ کالم نگار ۔ شاعر ۔ بلاگر ۔ پامسٹ ۔

www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.drsabirkhan.blogspot.com
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
www.g.page/DUAAGO

Instagram @drduaago

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں