اتوار، 20 اکتوبر، 2019

" کبھی کبھی " ڈاکٹر صابر حسین خان

" کبھی کبھی "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

کبھی کبھی کچھ موسم ، کچھ مخصوص ماہ یا دن یا کوئی خاص وقت ہمیں کسی خاص کیفیت میں لے جاتے ہیں ۔ کوئی پرانی یاد ، کوئی پرانا واقعہ ، کوئی پرانی بات ، کوئی دوست ، کوئی چہرہ ، بیٹھے بیٹھے ہمیں ماضی اور اداسی کے سفر کی جانب کھینچ لیتا ہے ۔ ہم نہ چاہتے ہوئے بھی بیتے ہوئے دنوں کو یاد کرنے لگتے ہیں ۔ بیٹھے بیٹھے کھو جاتے ہیں ۔ یہ خاص کیفیت کبھی تو کچھ لمحوں کی ہوتی ہے ۔ اور کبھی اس کا دورانیہ کچھ گھنٹوں اور بہت ہی کبھی کبھی کچھ دنوں یا ہفتوں تک پھیل جاتا ہے ۔ عام طور پر تنہائی کے انمول لمحات میں ہمارا دل اور ہمارا ذہن اس طرح کی فضا میں اچانک جا نکلتا ہے ۔ سکون اور سناٹا ہو تو کبھی کبھی کی یہ خاص کیفیت اور مزہ دیتی ہے ۔ دل چاہتا ہے کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر خود کو ماضی کے خوبصورت دنوں کے سپرد کردیا جائے ۔ ہر مسئلہ ، ہر غم بھلا کر یادوں کی سنہری دھوپ میں پاوں پسار کر آنکھیں بند کر لی جائیں ۔ جو ہو رہا ہے ، اسے ہونے دیا جائے ۔ جیسا چل رہا ہے ، چلنے دیا جائے ۔
کوئی آواز ہمارے آرام میں خلل نہ ڈالے ۔ کوئی کام ہمارے اس اہم کام میں رکاوٹ نہ ڈالے ۔
مگر افسوس کہ یہ کیفیت مستقل نہیں رہتی ۔ ہمیں ہر حال ، اپنے حال میں لوٹنا پڑتا ہے ۔ حال کے حاشیوں اور حوالوں کو نپٹنا پڑتا ہے ۔ اور جیسے تیسے زندگی کی گاڑی کو آگے کھینچنا پڑتا ہے ۔ ہمارا حال ، ماضی میں بدلتا جاتا ہے ۔ کوئی طریقہ ، کوئی کوشش گزرتے ہوئے لمحوں کو روک نہیں سکتی ۔
انسان کی نفسیات میں قدرت نے بڑی عجیب صلاحیت رکھی ہے ۔ ماضی کی تلخ اور نا خوشگوار باتیں ہماری یادداشت کے عقبی خانوں میں جمع ہوتی ہیں ۔ جبکہ پسندیدہ اور خوشگوار یادیں عام طور پر ذہن اور سوچ کے حاضر حصوں میں رہتی ہیں ۔ کبھی بھی ، ذرا سی ہلچل سے ہم ان یادوں کا میلہ سجا لیتے ہیں ۔ سجا سکتے ہیں ۔ البتہ وہ لوگ جو ذہنی ، نفسیاتی اور شخصی عارضوں کا شکار ہوتے ہیں ، ان کی سوچوں کا نظام برعکس ہوتا ہے ۔ عام طور پر منفی یا تخریبی ہوتا ہے ۔ ایسے متاثرہ افراد ، ماضی کی تلخ اور ناپسندیدہ اور ناخوشگوار باتوں کو بھلا نہیں پاتے ۔ اور کبھی کبھی کسی خاص موڈ ، مزاج ، ماحول یا موسم کی بجائے ہر وقت یا زیادہ تر وقت اپنے ماضی میں کھوئے رہتے ہیں اور تکلیف دہ یادوں کی جگالی کرتے رہتے ہیں ۔ حال کی ہر بات ان کو کسی نہ کسی حوالے سے ماضی میں لے جاتی ہے ۔ اپنے ہر موجودہ ایشو کو کسی نہ کسی بہانے ماضی سے منسلک کرنے میں یہ لوگ دیر نہیں لگاتے ۔ چاچھ ہو یا لسی ، دودھ ہو یا یخنی ، ہر شے کو اتنا پھونک پھونک کر پیتے ہیں کہ ٹھنڈا ، گرم ہوجاتا ہے اور گرم ، ٹھنڈا ۔
ہماری سوچ اور ہمارا سوچنے کا انداز ہمیں معاشرے میں ایک خاص مقام عطا کرتا ہے ۔ نہ صرف معاشرے میں ، بلکہ ہمارے ہر عمل ، ہر رد عمل اور ہر رویے پر ہماری سوچ کا اثر پڑ رہا ہوتا ہے ۔ اگر ہماری سوچ ، ماضی کے واقعات اور حادثات اور خیالات کے تابع ہوگی تو ہمارے حال پر اس کے اثرات مناسب اور متوازن اور متناسب نہیں ہوں گے ۔ اور ہمارے آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے مواقع کم سے کم ہوتے چلے جائیں گے ۔
ماضی کے تجربات سے سیکھنا ، دانشمندی ہے ۔ ماضی میں کھوئے ہوئے رہنا بیوقوفی ہے ۔ آپ کا واسطہ اکثر ایسے لوگوں سے پڑتا ہوگا جو بات بات پر اپنے یا اپنے آباواجداد یا نسل و قوم کے شاندار و سنہری ماضی کی مثالیں دیتے دکھائی دیں گے ۔ اور جب آپ ان کی حالیہ ذاتی زندگی کو دیکھیں گے تو وہ ہر حوالے سے زوال پذیر دکھائی دے گی ۔
اسی طرح جب آپ ماہرین نفسیات کے کلینکس جا کر وہاں آنے والے مریضوں کی ہسٹری سنیں گے تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ نوے فیصد نفسیاتی مریض کسی نہ کسی اچھے یا برے حوالے سے ہنوز اپنے ماضی اور ماضی کی تلخ اور ناپسندیدہ یادوں سے جڑے ہوئے ہیں ۔ اور ان سے پیچھا چھڑانے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے ہیں ۔ اور ان کے نفسیاتی خلفشار اور جذباتی الجھنوں کو برقرار رکھنے میں گہرا ہاتھ ، ماضی سے چپکے رہنا ہے ۔ جس کی وجہ سے اپنے حال اور موجودہ حالات سے ان کی مطابقت نہیں ہو پاتی ۔ اور اس تضاد اور ٹکراؤ کے نتیجے میں ان کے اعصاب جواب دے جاتے ہیں ۔
اپنے گزرے ہوئے کل کو اپنے آج سے ہمہ وقت Compare کرتے رہنے اور دس ، بیس ، پچاس ، سو سال پہلے کے رواجوں اور طریقوں کو آج کے لائف اسٹائل میں ایک حد تک تو بلینڈ کیا جاسکتا ہے ، اور وہ بھی بہت ہی معمولی حد تک ۔ ایک مخصوص حد کے بعد ماضی کی کوئی بھی بات آج کے فریم میں کسی صورت سیٹ نہیں ہوسکتی ۔
ہزاروں مثالیں موجود ہیں مگر کروڑوں لوگوں کے دلوں اور دماغوں میں ہنوز ماضی کے مزار دفن بھی ہیں اور شب و روز ان پر چراغ جلاتے رہنا اور لکیروں کو پیٹتے رہنے کا سلسلہ زور و شور سے جاری و ساری بھی ہے ۔ اس صورت ہر طرح کی پروگریس رک جاتی ہے ۔
کبھی کبھی کا Nostalgia یا ماضی کی یادوں کا جھونکا تو آدمی کو ترو تازہ اور ریفریش کرتا ہے ۔ لیکن یادوں کا جنگل اور پرانی باتوں کا چنگل آدمی کو کسی کام کا نہیں چھوڑتا ۔
آج کی تاریخ میں اگر کوئی آپ سے کہے کہ وہ پیدل یا اونٹ پر حج کے سفر کو نکل رہا ہے تو دل ہی دل میں تو آپ اس کے ایمان کے درجات کو سراہیں گے مگر آپ کی سوچ میں یک لخت اس آدمی کی دماغی صحت کی بابت سوالیہ نشان پیدا ہوجائے گا ۔ آج کے دور میں کروڑوں میں کوئی ایک ہی ایسا صاحب ایمان و علم ملے گا ، جس نے اپنی تقاریر میں مائیک اور لاوڈ اسپیکر کی مدد نہ لی ہو یا اپنی تحاریر کو لوگوں تک پہنچانے کے لئیے اخباروں اور کتابوں کا سہارا استعمال نہ کیا ہو ۔
یا کوئی آپ سے کہے کہ وہ دشمنان دین سے جہاد کے لئیے سامان حرب جمع کررہا ہے اور اسے اس ضمن میں گھوڑے ، تیر کمان ، تلواریں ، ڈھالیں ، وغیرہ درکار ہیں اور اتنے لاکھ پہلوان اور شہہ سوار تو آپ اسے کسی ماہر نفسیات کا پتہ بتائیں گے یا اس کے لشکر کا سپہ سالار بننا پسند کریں گے ۔ پہلی صورت میں آپ اسے قائل کرنے کی کوشش کریں گے کہ آج کی جنگیں اس طرح نہیں لڑی جاتیں ، نہیں لڑی جا سکتیں ۔ اور دوسری صورت میں آپ کی اپنی ذہنی حالت مشکوک ٹہرے گی ۔
یہاں تک تو آپ سب ہی متفق ہوں گے ۔ مگر اس کا کیا حل ہو کہ جب جگہ جگہ یہ سننے کو ملتا رہے کہ ' ہمارے یہاں تو ایسا نہیں ہوتا ، ہمارے یہاں تو ویسا ہوتا ہے ، ہمارے باپ دادا نے تو کبھی ایسا نہیں کیا ، ہمارے خاندان میں اس کا رواج نہیں ، ہماری سات نسلوں نے کبھی یوں نہیں سوچا تھا ، '
اور یا پھر یہ کہ ' اتنے سو سال پہلے تو یہ کام ایسے ہوتا تھا ، فلاں فلاں کے زمانے میں تو شیر اور بکری ایک گھاٹ سے پانی پیتے تھے ، فلاں بزرگ تو اتنی صدیاں پہلے ایسی زندگی گزارتے تھے ، گزرے وقتوں میں تو یہ بات ایسے ہوتی تھی ، '
سوچ کی سوئی اگر شمال جنوب کی جانب ہو اور عملی زندگی کے معاملات اور تقاضے مشرق مغرب کی سمت میں جھکاؤ دے رہے ہوں تو کیا فرد ، کیا قوم ، کیا ملک ، سب نے ہی ٹوٹ کر بکھر جانا ہوتا ہے ۔ خاص طور پر اس وقت ، جب تصادم ، ماضی اور حال کے مابین ہو ۔
اپنے آپ کو حال میں رکھنے کی عادت ڈالئیے ۔ کبھی کبھی ماضی کے جھرونکوں میں جھانک کر دل خوش کر لیا کیجئیے ۔ مگر کبھی بھی اپنے ماضی کو اپنے حال پر حاوی نہ ہونے دیجئیے ۔
ہمارے معاشرتی انتشار اور بگاڑ کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے ۔ اپنی ذاتی زندگی کو خوشگوار اور کامیاب بنانے کے لئیے اپنی سوچ میں سے ماضی کی تلخ اور نا خوشگوار یادوں کی صفائی کی مہم چلائیے ۔ اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو آپ اپنے مستقبل کو بھی اپنے ہاتھوں قتل کرتے رہیں گے ۔ اور تمام عمر گئی باتوں اور گزری راتوں کا رونا روتے رہیں گے ۔


" کبھی کبھی "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ،
جسمانی ، روحانی ، جنسی و منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ شاعر ۔ بلاگر ۔ پامسٹ

www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.drsabirkhan.blogspot.com
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
www.g.page/DUAAGO

Instagram @drduaago 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں