بدھ، 23 اکتوبر، 2019

" دیتے ہیں دھوکا " ڈاکٹر صابر حسین خان

" دیتے ہیں دھوکا "

نیا کالم / بلاگ/ مضمون

دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ہم دھوکے کے زمانے میں زندہ ہیں ۔ ڈھول ، ڈھکوسلے اور دھوکے ۔ ہر شخص ایک دوسرے کو چونا لگانے میں مصروف ہے ۔ کیا چھوٹا ، کیا بڑا ۔ کیا اچھا ، کیا برا ۔ اپنی اپنی بساط اور استطاعت کے مطابق ہم سب ہر وقت اپنا الو سیدھا کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ جب جس کو جیسے ہی کوئی موقع ملتا ہے ، وہ دیر نہیں کرتا ۔ پلک جھپکتے ہی ہاتھ صاف کرڈالتا ہے ۔ اور اپنے آپ کو صحیح اور درست بھی ثابت کرتا ہے ۔ تاکہ ضمیر پر کوئی بوجھ نہ پڑے ۔ ہر کسی نے اپنے ہر عمل کے حق میں چار چھ دلائل تیار کر چھوڑے ہوتے ہیں ۔ مگر سب سے زیادہ خطرناک ، پیچیدہ اور شریفانہ دھوکے ہوتے ہیں ، جن کی تہہ تک پہنچنے میں کافی وقت لگ جاتا ہے اور اس وقت تک کافی نقصان ہوچکا ہوتا ہے ۔ پھر ان کا ازالہ بھی ممکن نہیں ہوتا ۔ اور دھوکہ دینے والوں کے معصوم چہرے دیکھ کر اور ان کے دائیں بائیں کے دلائل سن کر ، ان کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کو بھی جی نہیں چاہتا ۔ اور کبھی دھوکے بازوں کا بھرم اور رکھ رکھاو اور طاقت و اختیار دیکھ کر ہمت نہیں پڑتی کہ ایک دھوکہ تو کھا لیا ، اب اگر کچھ کرنے کا سوچا تو اپنا ہی وقت اور مزید پیسہ برباد ہوگا ۔ ڈرپوک اور شریف اور کم ترین دھوکے باز اسی لئیے بار بار دھوکے اور دھکے کھاتے رہتے ہیں ۔ اور اپنے اپنے حلقوں میں بوں باں کرکے چپ ہولیتے ہیں ۔
دھوکہ اور فراڈ محض فرد اور افراد کے درمیان نہیں چل رہا ہوتا ۔ بلکہ ہر چھوٹی بڑی کمپنی ، ادارہ ، گروپ ، خواہ نجی ہو یا سرکاری ، اپنی اپنی سطح پر اپنے کسٹمرز کو حیلوں بہانوں سے لوٹ رہا ہوتا ہے ۔ کبھی اعلانیہ تو کبھی مخفی ۔ سوسائٹی کے کسی بھی شعبے کو دیکھ لیں ۔ ہمیں ڈرامے بازیاں نظر آئیں گی ۔ زیادہ سے زیادہ منافع کی لالچ میں بھائی ، بھائی کا گلا کاٹتا ہوا ملے گا ۔ کئی جگہوں پر تو دکھائی دینے والے دھوکوں سے تو ہم اپنا دامن بچانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ۔ مگر ان گنت موقعوں پر ان سے بچنا ممکن نہیں ہوتا ۔
دھوکے کھا کر نقصان اٹھانے والے افراد کی نفسیات شکست و ریخت کا شکار ہونے لگتی ہے ۔ اور ہر جگہ ، ہر محکمے کے ہاتھوں لٹنے کے بعد اس بری حالت میں ہوجاتی ہے کہ پھر وہ کسی بھی فرد ، کسی بھی ادارے پر تمام عمر کسی بھی طرح کا اعتبار نہیں کر پاتے ۔ اور خود بھی اپنے لیول پر اوروں کو دھوکہ دینے لگ جاتے ہیں ۔ یوں ایک فرد ، ایک ادارے کی دھوکہ بازی پورے معاشرے میں فساد اور شر پھیلا دیتی ہے ۔ اور در در ، گھر گھر ، فراڈ اور دھوکہ دہی کی وارداتوں کا سلسلہ رواں دواں ہوجاتا ہے ۔
کوئی بھی انسان نہ فرشتہ ہوتا ہے ، نہ فرشتہ بن سکتا ہے ۔ ہر انسان ، دیگر انسانوں اور پورے معاشرے کے عمومی رویوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے رویوں کا حامل ہوتا ہے ۔ معاشرے کا Mirror Image ہوتا ہے ۔
شریف سے شریف انسان کے ساتھ بھی اگر دس بار Cheating ہو ، تو موقع ملتے ہی ایک بار اس نے بھی اپنے سے کم تر کو Cheat کر ڈالنا ہوتا ہے ۔ عام طور پر عام اور معصوم لوگ ہی بار بار کے دھوکوں کا شکار ہوتے ہیں ۔ لیکن ایک وقت ایسا آتا ہے جب زیادتیوں کے مارے لوگوں کے پاس مزید لٹانے کے لئیے کچھ نہیں بچتا تو وہ بھی بحالت مجبوری ، اپنے آس پاس کے لوگوں کو لوٹنے لگتے ہیں ۔
میرے ایک دوست عبدالروف آرائیں کا کہنا ہے کہ Trust But Verified اور ایک دوسرے دوست افتخار احمد نے اپنی حالیہ گفتگو میں کہا کہ Never Trust A Person Until And Unless Proven Otherwise . دونوں نے اپنے اپنے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں فریب ، فراڈ اور دھوکہ دہی کی موجودہ عمومی فضا اور ماحول کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی اپنی بات کی ۔ اور اپنی اپنی جگہ بالکل درست بات کی ۔ دونوں دوست انتہائی ایماندار اور سچے اور کھرے انسان ہیں ۔ کبھی کسی کو دھوکہ نہ دینے والے ۔ اپنے کام سے کام رکھنے والے ۔ اپنے اپنے مقام پر معاشرے میں عزت و اعلی مقام رکھنے والے ۔ مگر چونکہ انہوں نے معاشرے سے جو کچھ سیکھا ، اس کی سمری اپنے الفاظ میں بیان کردی ۔ یعنی زندگی کے اس مقام پر آکر ان کے نزدیک خواہ دوست ہو یا سگا بھائی ، کوئی بھی Blind Trust کے قابل نہیں ۔
اس حوالے سے میرے یہ دونوں دوست مجھ سے ہزار گنا بہتر ہیں اور بہت سے ایسے گہرے اور کاری نقصانات سے بچتے رہے ہیں ، جن کا سامنا مجھے اکثر کرنا پڑتا ہے ، اپنی حماقتوں کے باعث ۔ سوچے سمجھے ، جانے بوجھے ، آنکھیں بند کرکے ، جانچے پرکھے بنا کسی پر بھی اعتماد کرکے ۔ الحمداللہ آج تک سو میں سے ننانوے لوگوں نے اعتماد کو ٹھیس ہی پہنچائی ہے ۔ اب تک کا تجربہ اور مشاہدہ یہی رہا ہے کہ بنا کسی مطلب ، غرض اور فائدے کے شاید ہی کوئی قریب آیا ہو ۔ کچھ دینا تو درکنار ، لین دین یا کسی ظاہری یا مخفی لالچ و طلب کے بنا شاید ہی کسی نے محبت یا دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہو ۔
یہاں تک تو بات پھر بھی سمجھ میں آتی ہے کہ آج کے زمانے کا دستور یہی ہے ۔ مگر ، اگر اپنی زندگی کا طائرانہ جائزہ لیتا ہوں تو کئی مقامات ایسے پاتا ہوں ، جب مطلب اور غرض سے بڑھ کر بات باقاعدہ فریب اور دھوکے تک گئی اور مادی حوالوں سے مجھے نقصان بھی اٹھانا پڑا ۔ مطلبی اور خود غرض دوستوں اور لوگوں کا کیا ذکر کہ مجھ سمیت ہم سب ہی اپنی زندگی میں ان کی محبتوں میں مبتلا ہو کر اپنا نقصان کرتے ہیں ۔ مگر سرکاری ، نیم سرکاری اور نجی اداروں کا فریب اور فراڈ ایسا ہوتا ہے ، جو بنا کسی تفریق کے اور بنا ہماری محبت کے ، ہم سب کو لوٹ رہا ہوتا ہے اور ہم چوں بھی نہیں کرسکتے ۔
پانی آتا نہیں ۔ اور ہمیں ہر ماہ پانی کے بل بھرنے پڑتے ہیں ۔ گٹر ابل رہے ہیں ، کچرے کے ڈھیر ہزاروں بیماریاں پیدا کررہے ہیں ۔ اور ہمیں KMC کے بل موصول ہورہے ہیں ۔ KE کے سپر فاسٹ میٹر ، بجلی استعمال ہو یا نہ ہو ، مستقل چل رہے ہیں اور Unit بڑھ رہے ہیں ۔ سال بھر سے فلیٹ بند ہے ، نہ کوئی بندہ ہے ، نہ کوئی بندے کی ذات ہے ۔ مگر سال بھر پہلے کی ایوریج پر بنا میٹر چیک کئیے سوئی گیس کے بل آرہے ہیں ۔ مہینے میں 20 دن PTCL فون اور براڈبینڈ انٹرنیٹ بند رہتا ہے ۔ مگر بل پورے مہینے کا بھرنا پڑتا ہے ۔ اور سونے پر سہاگہ یہ کہ تنگ آکر جب فون اور انٹرنیٹ کنکشن بند کروایا جائے تو REUTERS اور وائی فائی ڈیوائس ، جو ہم نے PTCL سے باقاعدہ خریدی ہوئی ہوتی ہے ، اس کو واپس کئیے بنا کنکشن بند نہیں کیا جاتا ۔ اور اس کے پیسے بھی ہمیں واپس نہیں کئیے جاتے ۔ موبائل فون کمپنیز کا کیا کہنا کہ دس طرح کے ٹیکس کے بعد کمپنی کے نمائندے سے بات کرنے کے چارجز الگ اور کال سیٹ اپ چارج الگ ۔ اور اگر کسی موبائل کمپنی کی ڈیٹا انٹرنیٹ ڈیوائس لے لی اور چار چھ ماہ استعمال نہ کی تو ڈیٹا نمبر آپ کے نام سے غائب اور ڈیوائس بیکار اور کباڑ ۔ نئی ڈیوائس خریدیں اور پھر پیسے بھریں ۔
متعلقہ افراد سے بات کی جائے تو ایک ہی جواب ۔ کمپنی کی پالیسی ہے ۔ پاکستان ریلوے ہو یا PIA یا کوئی بینک یا پوسٹ آفس ۔ اور یا پھر سروسز کا کوئی نجی ادارہ ۔ After Sale Services ہمیں کہیں بھی نظر نہیں آتیں ۔ کیا ہسپتال ، کیا کالج ، کیا یونیورسٹی ۔
کیا Peon کیا Director . اوپر سے نیچے تک آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے ۔ رشوت اور کرپشن تو بہت بعد کی باتیں ہیں ۔ ہر محکمے کے ہر نظام میں Underhand فریب اور دھوکہ دہی عام ہے ۔
اور ہمارے کیا ، ہر دین ہر مذہب میں یہ سب حرام ہے ۔ مگر کیا خاص کیا عوام ، ہم سب اس معاشرتی عارضے کا شکار ہیں ۔ آپ کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں ۔ خود سوچیں ۔ آپ کے اپنے پروفیشن ، اپنے کام میں کتنی طرح کی دو نمبری چل رہی ہے ۔ ذرا دیر کو تنہائی میں خود سے سچ بول کر دیکھئیے ۔ آپ کی گردن شرم و ندامت سے جھکتی چلی جائے گی ۔ آپ کے سامنے آپ کے اپنے فراڈ نمایاں ہوتے چلے جائیں گے ۔
کوئی کم ، کوئی زیادہ اور کوئی بہت زیادہ ، اپنے اپنے مقام پر دوسروں کو دھوکہ دینے میں مصروف ہے ۔
اپنے اپنے فریبوں کو Justify کرنے کے لئیے ہم سب نے ان گنت Reasons کاڑھ لئیے ہیں ۔ جو ہم خود کو بھی دے رہے ہوتے ہیں اور کوئی پوچھے تو اس کو بھی بتا رہے ہوتے ہیں ۔
میرے ساتھ تو جب بھی کبھی اس طرح کی ہوتی ہے اور کوئی شخص یا کوئی ادارہ کوئی چکر چلا کر ، میرے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتا ہے تو مجھے بہت خوشی ہوتی ہے ۔ میں دل ہی دل میں اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں ۔ شکرانے کے نفل پڑھتا ہوں ۔ اپنا دامن جھاڑتا ہوں ۔ اور سکون سے سو جاتا ہوں ۔ ہر مادی نقصان مجھے بتاتا ہے ، خبردار کرتا ہے ۔ کہ تمھیں ذرا دیر کو رک کر اپنا محاسبہ کرنا ہے ۔ اپنے آپ کو کٹہڑے میں کھڑا کرنا ہے ۔ اور ایمانداری سے اپنا اور اپنے اعمال اور افعال کا جائزہ لینا ہے ۔
کہیں نہ کہیں ، کسی نہ کسی شکل میں یا تو مجھ سے کوئی گڑبڑ ہوئی ہے ، یا نا دانستگی میں کسی کے ساتھ کوئی زیادتی ، یا زکوات و صدقات میں کمی ، یا کوئی ناجائز آمدنی ، یا انجانے میں کسی کا دل دکھایا ہوگا ، یا اپنی مصروفیت کی وجہ سے کسی سائل کا مسئلہ حل نہیں کر پایا ۔ یا کوئی اور لغزش یا کوتاہی ۔ اور یا پھر کسی بڑے انعام سے پہلے کی آزمائش اور امتحان ۔
ہر دو صورتوں میں دل کو اطمینان ہوجاتا ہے کہ شکر ہے اسی دنیا میں اور ابھی جیتے جاگتے جو غلطیاں ہوئی ہیں ، اللہ تعالی کی رحمت نے اس بظاہر بنا کسی وجہ کے نقصان کی صورت ، توبہ تلافی کا ایک اور موقع عطا کردیا ہے ۔ اپنی اصلاح کے لئیے کچھ اور مہلت دے دی ہے ۔
کئی بار دل نے اور دوستوں نے بدلے اور انتقام کے لئیے اکسایا ۔ مگر ہر بار آخری فیصلہ ، ہجرت کا ہوا ۔ اس کام ، اس شخص ، اس جگہ ، اس سروس سے خاموشی سے رخصت لے لی ۔ کسی شکایت ، کسی شکوے کے بنا ۔ کہ سب سے بہترین منصف اللہ تعالی کی ذات ہے ۔
اللہ کا فیصلہ سب سے اعلی ہوتا ہے ۔
بس ذرا صبر کرنا پڑتا ہے ۔ اپنے دل پر جبر کرنا پڑتا ہے ۔
بڑے سے بڑے نقصان کا ازالہ ممکن ہے ۔ ایمان کے زوال کا کوئی ازالہ نہیں ۔ شرط صرف ایک ہے ۔
اور وہ یہ کہ ہم ٹھان لیں کہ کوئی ہمیں کتنا بھی دھوکہ کیوں نہ دے ۔ ہمارا کتنا بھی نقصان کیوں نہ ہو جائے ۔ ہم نے کسی کو دھوکہ نہیں دینا ۔ ہم نے کسی کے ساتھ فراڈ نہیں کرنا ۔ ہم نے اپنے کام ، اپنے کاروبار کی بنیاد سچ پر رکھنی ہے ۔ اپنے کام کے پھیلاؤ کی نہیں بلکہ اپنے رزق میں حلال اور برکت کی دعا مانگنی ہے ۔
When We Don't Cheat , We Wouldn't Be Cheated
کیونکہ پھر اللہ تعالی کی رحمت ہمیں اپنے سائے میں رکھتی ہے اور ہمیں دھوکے اور فریب سے بچا کر رکھتی ہے ۔

" دیتے ہیں دھوکا "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ،
جسمانی ، روحانی ، جنسی و منشیات ۔

www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.drsabirkhan.blogspot.com
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
www.g.page/DUAAGO

Instagram @drduaago 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں