جمعہ، 6 مارچ، 2020

PROVOCATION. ڈاکٹر صابر حسین خان

" Provocation "
نیا کالم / بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

آج کی تحریر کا عنوان سوچ سمجھ کر ، جان بوجھ کر انگریزی زبان میں لکھا ہے ۔ گو اردو میں بھی اس لفظ کے معنوں کے اعتبار سے کئی متبادل الفاظ سامنے رکھے جاسکتے تھے ۔ اس بات کی کئی وجوہات ہیں ۔ ایک وجہ تو آپ سے شئیر کرلیتا ہوں ۔ دیگر خاص وجوہات کو سوچنا آپ کا کام ہے ۔
ان چند جملوں میں اردو دانوں کے ساتھ آپ سب کو بھی ، جان بوجھ کر ، میں نے کم از کم دو بار Provoke کیا ہے ۔ یا یوں کہہ لیجئیے کہ اشتعال دلایا ہے ۔ یا یوں کہہ لیجئیے کہ میں جان بوجھ کر اشتعال انگیزی کا مرتکب ہوا ہوں ۔ اور اس کی کیا وجہ یا وجوہات ہوسکتی ہیں ۔ یہ بھی آپ سوچئیے گا ۔ میری خوش گمانی تو یہ ہے کہ تحریر کے اختتام تک آپ سب کو نہ سہی ، کچھ کو ضرور میری دانستہ اشتعال انگیزی کے کچھ نہ کچھ اسباب سمجھ آجائیں گے ۔ اور اگر آپ پھر بھی کچھ نہ سمجھ پائے تو سمجھ لیجئیے گا کہ اشتعال انگیزی کا مقصد پورا ہوگیا ہے یا یہ کہ اسی کا نام اشتعال انگیزی یا اکسانا یا طیش دلانا ہوتا ہے ۔
دراصل یہ مارچ کا مہینہ ہے ۔ گزشتہ دوچار سالوں سے ، دس بارہ سالوں سے لائم لائیٹ میں رہنے والا فروری کا ویلنٹائن ڈے ذرا پھیکا اور پھسپھسا جارہا ہے ۔ اور اس نوعیت کے دنوں اور راتوں کو ہمارے مذہب ، ہماری معاشرت ، ہماری تہذیب اور ہماری ثقافت میں زبردستی گھسیٹنے اور گھسیڑنے والوں کے دلوں پر چھریاں چل رہی ہیں ۔ لہذا فروری کا پیچھا چھوڑ کر اب وہ سب مارچ کے پیچھے پڑگئے ہیں ۔
پچھلے زمانوں میں لانگ مارچ اور شارٹ مارچ ہوا کرتے تھے ۔ جو کسی نہ کسی صورت کوئی نظریہ ، کوئی فکر ، کوئی ایجنڈا رکھا کرتے تھے ۔ مگر اب گزشتہ دو چار سالوں سے صنف نازک کے کاندھوں پر مارچ کا بوجھ لادنے کی کوشش جاری ہے ۔ یوں کہہ لیجئیے کہ اپنا الو سیدھا کرنے کے لئیے معصوم فطرت عورت کو الو بنایا جارہا ہے ۔ اور عورت چونکہ فطری طور پر مرد کی بہ نسبت کم عقل و فہم رکھتی ہے ، تو وہ آسانی سے مردوں کے ہاتھوں بیوقوف بن جاتی ہے ۔
فروری کی چودہ تاریخ ہو یا مارچ کی آٹھ ۔ چھری خربوزے پر گرے یا خربوزہ چھری پر ، ہر دو میں نقصان عورت کا ہوتا ہے ۔ اور صدیوں سے ہوتا چلا آرہا ہے ۔ کیا مغرب ہو ، کیا مشرق ، ہر دو خطوں میں Eventually آخری ضرب عورت پر ہی پڑتی ہے ۔ اور اپنی کم فہمی اور کم عقلی کی بنا ہر ضرب کے بعد عام طور پر ہر عورت اور زیادہ جذباتی پن اور حماقتوں میں مبتلا ہوجاتی ہے ۔ اور اس کے استحصال کے سلسلے دراز ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ اور چونکہ عام طور پر عورت نہ تو دور اندیش ہوتی اور نہ ہی معاملہ فہم ، تو ہر استحصالی حملے کے بعد وہ اور زیادہ منتقم مزاج اور متکبر ہوجاتی ہے ۔
اور یہیں سے Provocation کا نہ ختم ہونے والا تباہی کا سفر شروع ہوجاتا ہے ۔
مرد و زن کے جس مقدس رشتے میں وفا ، حیا ، محبت اور قربانی کا جو دو طرفہ Bond ہوتا ہے ، وہ ٹوٹ جاتا ہے ۔ دونوں کا ایک دوسرے پر سے اعتبار اٹھ جاتا ہے ۔ خاندانوں کا شیرازہ بکھر جاتا ہے ۔ سو برس پہلے مغرب سے شروع ہونے والی عورتوں کی تحریک تباہی نے اب مشرق میں بھی قدم گاڑنے کی تیاری پکڑ لی ہے ۔ فرنٹ پر معصوم عورتوں کو رکھ کر ، ان کے ہوائی حقوق کی باتیں کرکے ، ان کی نسوانیت کو ٹھیس پہنچا کر ان کی نام نہاد آزادی کے نعرے بلند کرکے ، پس پردہ قوتوں کی لگام ان مردوں کے ہاتھوں میں ہے ، جو مرد کہلانے کے بھی لائق نہیں ۔
عورتوں کو اکسا کر مردوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کی بجائے ، ان کو مردوں کے خلاف کیا جارہا ہے ۔ بھولی بھالی خواتین کو اس کھوکھلی تہذیب کے گڑھے میں دھکیلنے کی کوشش کی جارہی ہے ، جو اب خود اتنی تعفن زدہ ہوچکی ہے کہ اسے دفنانے کے لئیے بھی کوئی آگے نہیں بڑھ پا رہا ۔ صرف یہی نہیں کہ آزادی نسواں کے نام پر ، بے حیائی ، بدتمیزی اور بیہودہ گوئی کی ترغیب دی جارہی ہے ۔ بلکہ ناسمجھ اور نادان بچیوں اور لڑکیوں کے کچے ذہنوں کو گھر ، خاندان ، رشتوں ، ناطوں اور مذہب و مشرقی تہذیب کے خلاف ڈھالنے کی کوشش جاری ہے ۔
دس فیصد ایسے مردوں کے ناقابل قبول اور مکروہ اعمال اور افعال اور رویوں کو بنیاد بنا کر تمام مردوں کے Image کو مسخ کیا جارہا ہے ، جو یا تو نفسیاتی مریض ہوتے ہیں اور یا پرسنالٹی ڈس آرڈر کا شکار ہوتے ہیں ۔ صحتمند اور نارمل سوچ و خیالات کے مالک لوگ کبھی بھی شریعت ، اخلاقیات اور انسانیت کے دائرے سے باہر نہیں نکل سکتے ۔ ایک صحیح الدماغ اور با کردار مرد کبھی بھی Sexual Harassment کا نہیں سوچ سکتا ۔ نہ اپنے گھر کی عورتوں پر کسی بھی قسم کا ظلم اور تشدد کرسکتا ہے ۔ نہ اپنے فرائض اور اپنی ذمہ داریوں سے رو گردانی کرتا ہے ۔ نہ بنا کسی واضح اور بہت بڑی وجہ کے اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے ۔ وہ کبھی بھی جوش میں ہوش نہیں کھوتا ۔ گھر اور خاندان کو تحفظ فراہم کرتا ہے ۔ مگر یہ سب کچھ اسی وقت تک خوش اسلوبی سے چلتا ہے ، جب تک اس کی بیوی یا اس کے گھر کی دیگر عورتیں یا باہر کی خواتین اسے Provoke نہیں کرتیں ۔ اسے اشتعال نہیں دلاتیں ۔ اسے مقابلے پر نہیں اکساتیں ۔ اس سے زبان درازی اور بدتمیزی نہیں کرتیں ۔ اس کی اطاعت نہیں کرتیں ۔
باعزت ، با غیرت ، باشعور ، اور بڑے سے بڑا بااخلاق مرد بھی اس صورت طیش میں آجاتا ہے ۔ اور پھر معاملات بگڑنے لگتے ہیں ۔
اکسانے اور اشتعال دلانے کی ایک اور بھی خطرناک قسم ہوتی ہے ۔ جس کے نتیجے میں بسا اوقات برسوں کی ریاضت اور عبادت کا بھٹہ بیٹھ جاتا ہے ۔ بازاروں اور دفتروں میں بناو سنگھار کرکے جب خواتین ایسے ملبوسات میں گھومتی ہیں ، جو ان کے جسم کو ڈھانپنے کی بجائے اور نمایاں کرتے ہیں تو Indirect Provocation جنم لیتی ہے ۔ اور بہت سے شریف مرد بھی شرافت کا دامن چھوڑ بیٹھتے ہیں ۔
فطرت نے مرد کو عورت کی بہ نسبت کئی گنا زیادہ Sexuality دی ہے جو بڑی عمر تک برقرار رہتی ہے ۔ اور اپنی اسی Sexual Energy کو چارج اور ری چارج کرکے وہ ذہنی اور جسمانی سطحوں پر بڑی عمر تک Productive رہتا ہے اور مختلف محاذوں پر لڑتا رہتا ہے ۔ اسی وجہ سے دین فطرت نے مرد کو Multiple Marriages کی نہ صرف اجازت دی ہے بلکہ معاشرتی برائیوں سے بچنے اور بچانے کے لئیے ایک وقت میں دو تا چار عورتوں کو اپنے نکاح میں رکھنے کو Encourage بھی کیا ہے ۔ تاکہ زیادہ عورتوں کو گھر اور تحفظ حاصل ہو اور مردوں کی Latent جنسی توانائی کی فائرنگ کے ساتھ ان کی فطری خواہشات بھی پوری ہوتی رہیں ۔
اتنا Logical اور Scientific Solution کسی اور مذہب یا تہذیب میں نہیں دکھائی دیتا ۔ جو گناہوں سے پاک حلال راستے آسان بنا کر مرد و زن کو پیش کرتا ہو ۔
المیہ یہ ہے کہ ہم سب فطرت اور دین فطرت کی حکمت اور فراست کو سمجھنے اور عملی زندگی میں Apply کرنے کی بجائے بے جا تاویلات ، تشریحات اور مباحثات میں بنیادی انسانی مسائل کے آسان حل سامنے لانے کی بجائے ہر مسئلے کو پہاڑ بنا لیتے ہیں ۔اور پھر جب مسائل بڑھتے ہیں اور ایک مسئلے کی کوکھ سے سو مسئلے جنم لیتے ہیں تو یا تو سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں اور یا پھر ایک دوسرے کا سر پھاڑنے لگتے ہیں ۔
اگر آئین اور قومی قانون میں یہ شق شامل کردی جائے کہ بلوغت کے بعد ، پانچ سال کے اندر اندر ہر لڑکے اور ہر لڑکی کی شادی لازمی ہے تو کم از کم ہمارے معاشرے میں سے بہت سی خرابیاں خود ختم ہوجائیں گی ۔ اور اس طرح نام نہاد ڈگریوں کی بندر بانٹ کا چکر بھی کم ہوجائے گا ۔ اور گھر اور خاندان کے معاشی استحکام کے لئیے مرد زیادہ دل سے محنت کرسکیں گے اور خواتین اپنے بچوں کی پرورش میں زیادہ جذبے سے حصہ ڈال سکیں گی ۔
یہ اور اس نوعیت کے دیگر عملی اقدامات اٹھائے بنا ہم یونہی آپس میں الجھتے رہیں گے اور ایک دوسرے کو Provoke کرتے رہیں گے ۔ اور باہمی محبت اور اتفاق کی دھجیاں اڑاتے رہیں گے ۔
یہ بات مت فراموش کیجئیے گا کہ جب جب جس نے ، خواہ وہ مرد ہو یا عورت ، ملک ہو یا مذہب ، تہذیب ہو یا ثقافت ، فطرت اور دین فطرت کو Provoke کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اور دانستہ یا نادانستہ ، قدرتی قوانین اور اصول توڑنے پر قدم بڑھایا ہے اور معاشرے میں بگاڑ اور انتشار پھیلانا چاہا ہے ، تو ، اسے کبھی بھی معافی نہیں ملی ہے ۔
یہی Law Of Nature ہے ۔ شرانگیزی پھیلانے والوں ، اشتعال دلانے والوں ، اکسانے والوں ، فساد کرنے اور کرانے والوں ، اور فطرت سے لڑنے اور لڑوانے والوں کو کبھی بھی نہ پناہ ملی ہے اور نہ امان ملی ہے ۔ انہوں نے اسی زندگی ، اسی دنیا میں اپنے کرتوتوں کی سزا بھگتی ہے ۔

" PROVOCATION "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، اعصابی ، دماغی ، جسمانی ، روحانی ، جنسی اور منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ ۔

www.drsabirkhan.blogspot.com www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.g.page/DUAAGO 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں