جمعرات، 26 مارچ، 2020

۔ لاک ڈاون۔ دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

" لاک ڈاون "
نیا کالم/ بلاگ / مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

' موج بڑھی ، دل ڈوب گیا ، اس دل کو ڈوب ہی جانا تھا ۔ لوگ کہتے ہیں ، یہ قصہ بہت ہی پرانا تھا ' ۔ آج جب ، کچھ دنوں کے وقفے کے بعد کچھ لکھنے بیٹھا ، تو اپنے سینئیر دوست اور استاد ڈاکٹر باقر رضا کا ایک شعر یاد آگیا ۔ جو 35 برس پہلے زمانۂ طالب علمی میں ان کی زبانی سنا تھا اور یاد رہ گیا تھا ۔ کچھ باتیں کتنی بھی پرانی کیوں نہ ہوجائیں ، کسی نہ کسی شکل میں یادداشت کا حصہ بنی رہتی ہیں ۔ اور کبھی کبھی کسی اور حوالے سے خود بخود یاد آجاتی ہیں ۔
کراچی کے رہائشی ، ہماری نسل نے اپنی نوجوانی اور جوانی میں 1985 سے 1995 تک اور پھر 2007 تا 2014 تک ان گنت لاک ڈاون دیکھے اور Face کئیے ہیں ۔ مخصوص علاقوں سے لیکر پورے شہر کی بندش اور قتل و غارت اور دہشتگردی کے چھوٹے اور بڑے واقعات کو دیکھا ، سنا ، بھگتا اور برداشت کیا ہے ۔ کئی کئی دن گھروں میں بند ہوکر گزارے ہیں ۔ کرفیو سے لیکر ہڑتالوں اور آرمی کی گاڑیوں اور دہشت گردوں کی گولیوں سے آنکھ مچولی کھیلنے کا شاید ہی کسی اور پاکستانی کو اتنا تجربہ ہو ۔ جتنا کہ کراچی کے باسیوں کو ہوگا ۔
یہی وجہ ہے کہ وہ 2020 کے لاک ڈاون کو بھی بچوں کا کھیل تماشا سمجھ رہے ہیں ۔ البتہ پاکستان کے دیگر شہروں اور علاقوں کے رہنے والوں کے لئیے یہ شاید پہلا موقع ہوگا ۔ کہ انہیں فی الحال 15 دن تک ( اور نہ جانے کتنے اور دن تک ) Self Quarantine کے لاک ڈاون میں رہنا پڑے گا ۔ کھیل تماشوں ، سیر سپاٹوں ، بازاروں ، بازاری کھانوں اور دوستوں اور محفلوں کے دلدادہ لوگوں کے لئیے تنہائی اور گھر کی قید کا لاک ڈاون موت کی سزا سے کم نہیں ۔ ممکنہ موت سے بچنے کے لئیے اپنی تمام سماجی اور معاشی و معاشرتی سرگرمیوں کو وقتی طور پر معطل کرکے اپنے اپنے گھروں میں بند ہوکر بیٹھ جانا کسی صورت گھاٹے کا سودا نہیں ۔ مگر یہ Logic ، جذباتی پاکستانی عوام کی عقل و سمجھ میں نہیں آرہی ۔ اور شاید کبھی بھی نہ آسکے ۔
دنیا نے بڑی بڑی جنگیں دیکھی ہیں ۔ لاکھوں ، کروڑوں لوگ ان جنگوں میں مرے ہیں ۔ دنیا میں لاکھوں ، کروڑوں بار چھوٹے بڑے قدرت کے عذاب آئے ہیں ۔ اور ان عذابوں اور قدرت کے قہروں نے بھی لاکھوں ، کروڑوں لوگوں اور ہزاروں تہذیبوں اور قوموں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا ہے ۔
لیکن Novel COVD 19 نامی MEN MADE وائرس نے دنیا کی تاریخ میں پہلی بار دنیا کی آٹھ ارب آبادی کے ہر ملک ، ہر تہذیب ، ہر قوم ، ہر فرد کے ہوش اڑا دئیے ہیں ۔ حواس ٹھکانے لگا دئیے ہیں ۔ گو اس سے پہلے بھی مختلف بیماریوں نے بیک وقت دنیا کے لاکھوں ، کروڑوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے ۔ مگر وہ قدرت کی پیدا کردہ تھیں اور ہیں ۔
کرونا وائرس ، نزلہ اور نمونیا کی اس بگڑی ہوئی ناقابل علاج بیماری کو پیدا کرتا ہے ، جس کے پیدا کرنے میں قدرت کا عمل دخل نہ ہونے کے برابر ہے ۔ اس مہلک وائرس کی موجودہ شکل کے ذمہ دار میرے اور آپ جیسے انسان ہیں ۔
موجودہ All Around The World گلوبل لاک ڈاون کے ذمہ دار اور قصور وار چند ہزار ایسے لوگ ہیں ، جن کو میں اور آپ نہیں جانتے اور شاید کبھی جان بھی نہ پائیں ۔ ہماری معلومات بس اتنی ہیں کہ سو برس پہلے 1919 میں پہلی بار اٹلی میں Simple Flu کی ایک جان لیوا بیماری نے جنم لیا تھا جس کو پھیلانے والے وائرس کو ' کرونا ' کا نام دیا گیا تھا ، کیونکہ وہ اٹلی کے شہر Corona میں شدومد سے پھیلا تھا ۔
سو برس بعد Pandemic یعنی دنیا بھر میں پھیلنے اور پھیلاو کا حجم رکھنے والے اس Lethal Virus کو Novel Corona Virus کا ٹائٹل دیا گیا ہے ۔
سو برس پہلے قدرت نے اس وائرس کو انسانوں کے اندر بیماری پیدا کرنے کے لئیے پیدا کیا تھا ۔
مگر پھر پچھلے سو برسوں سے انسانوں کے مخصوص گروپ ، اور ہزاروں ، لاکھوں Viruses اور Bacterias کی طرح کرونا وائرس کی بھی Genetic Mutation میں مصروف رہے ۔ تاکہ اسے بنی نوع انسان کے لیئے اور زیادہ Fatal اور جان لیوا بنا سکیں ۔
دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ Atom Bombs کے استعمال نے کیا تھا ۔ تیسری جنگ عظیم کی شروعات ، کرونا وائرس کی شکل میں وبائے عظیم کے پھیلاؤ سے ہوا ہے ۔ اس بار کی جنگ ، دنیا کی گزشتہ چھوٹی بڑی جنگوں سے Entirely Different ہے ۔
انسانی ذہن اور ذہانت نے لاکھوں سالوں کی Genetic گروتھ کے بعد سائینس اور ٹیکنالوجی کے پردے میں وہ Achievement حاصل کرلی ہے ، جس کا ایک چھوٹا سا ٹریلر ، میں اور آپ ، اس وقت کرونا وائرس کی تباہ کاریوں کی صورت میں دیکھ رہے ہیں ۔
سائیکولوجیکل وار فئیر کے اس دور جدید میں پہلی بار کھلم کھلا Biological Weapon کا استعمال کیا گیا ہے ۔ جس کا Objective محض کسی خاص ملک ، قوم یا تہذیب کے خلاف طبل جنگ بجانا نہیں ہے ۔ بلکہ مکمل طور پر پوری دنیا کو New World Order کے ضابطوں کا پابند بنانا ہے ۔
نیو ورلڈ آرڈر کا قصہ آج کا نہیں ، بہت پرانا ہے ۔ اور گزشتہ 70 سال سے Step By Step مختلف تجرباتی مرحلوں سے گزر کر اور گزار کر آج کے گلوبل لاک ڈاون کے Stage تک پہنچا ہے ۔ یہ سب تجربے اور مراحل اتنی چالاکی اور خاموشی سے عملی شکل میں ڈھالے گئے ہیں کہ شاید ہی کسی ملک کے سوچنے اور سمجھنے والوں کو کچھ پتہ چل پایا ہو ۔ دل کا معاملہ ہو یا دنیا کا ، قصہ پرانا ہوجائے ، اور اس قصے میں سازش شامل ہوجائے تو دل اور دنیا دونوں کے ڈوبنے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے ۔
دنیا بھر کے لوگوں کا دل ان دیکھے دشمن کے مہلک وار سے ڈول رہا ہے ۔ اور دنیا ڈوب رہی ہے ۔

" لاک ڈاون " ۔ دوسری قسط ۔

نیو ورلڈ آرڈر کا ایجنڈا ہم سب کے علم میں ہونا چاہئیے ۔ دشمن سامنے ہو ، دیکھا بھالا ہو تو فرد ہو یا ملک ، اپنی طاقت اور استطاعت کے مطابق تیاری کرتا ہے اور اس کے حملے پر مقابلہ کرتا ہے ۔ لیکن ان دیکھے دشمن کا مقابلہ کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے ۔
نیو ورلڈ آرڈر ، ہم سب اور دنیا کے سب لوگوں کا وہ نادیدہ دشمن ہے ، جو On Screen ہمارے سامنے کچھ اور پیش کررہا ہے اور اسکرین کے پیچھے اس کا مذموم خفیہ طریقہ واردات Multi Layered ہے ۔ اور Multi Targeted ہے ۔ نیو ورلڈ آرڈر کی سازش کے جال کو سمجھنے کے لئیے Multi Faceted ہونا ضروری ہے ۔ کسی ایک میدان کے نام گرامی شہ سوار کے لئیے ممکن نہیں کہ وہ نیو ورلڈ آرڈر کی ہر چال کو جان پائے اور سمجھ پائے ۔ دنیا کے ہر حالیہ اور تاریخی ، عیاں اور نہاں ، انسانی اور الہامی ، منطقی اور غیر منطقی ، سائینسی اور غیر سائینسی ، اکتسابی اور جذباتی ، کتابی اور قلبی ، علم و فکر سے تھوڑی بہت آگاہی اور شناسائی ہو تو حالیہ حالات کا کچھ کچھ ادراک ممکن ہے ۔
اور یا پھر Common Goal رکھنے والے زندگی کے مختلف شعبوں اور علوم کے Masters کا مخصوص گروپ ہو ، جو اپنی اپنی Fields سے متعلق Expertise ایک Pool میں جمع کرکے Inferences نکالنے کی مہارت رکھتے ہوں ۔ اور اپنے تئیں اتنے خود مختار ہوں کہ پھر نیو ورلڈ آرڈر کے ہر ظاہری اور خفیہ Move کو اپنی صلاحیتوں اور اپنے وسائل کی مدد سے Counter کرسکیں ۔
جب تک اس طرح کے Multi Dimensional لوگ یا لوگوں کا گروپ نئی طرح کی جنگوں اور نئی طرح کے حملوں کی صورت میں اپنے لوگوں اور اپنے ملک کے دفاع کی Strategy نہیں بنائیں گے ، تب تک دل ڈوبتے رہیں گے ۔ دنیا یونہی تباہ ہوتی رہے گی ۔
طبل جنگ بج جانے کے بعد بھی جو لوگ ، جو ملک ، خواب خرگوش میں ڈوبے رہتے ہیں ، اپنے Fixed Patterns اور Rituals اور Routines کو ختم کرنے پر راضی نہیں ہوتے ، اپنے Comfort Zones سے باہر نہیں نکلتے ، نہ نکلنا چاہتے ہیں ۔ ان کا اللہ تعالی بھی حافظ نہیں رہتا ۔ قدرت انہی لوگوں کی مدد کرتی ہے جو اپنی مدد آپ کے تحت زندگی بسر کرتے ہیں اور اپنے علم اور وسائل سے ان لوگوں کی مدد میں مصروف رہتے ہیں ، جن کو قدرت نے اپنی مصلحت کے تحت کمزور اور مجبور رکھا ہوا ہوتا ہے ۔
آج کے دور کے تقاضوں اور ان کے حساب سے خود کو علمی اور فکری سطح پر مضبوط اور مربوط نہ رکھنے والے لوگ اور ملک ، سبھی بتدریج کاغذ کے ٹکڑوں کی طرح لیرہ لیرہ ہوکر ہوا میں اڑنے رہے ہیں اور اڑتے چلے جائیں گے ۔ پھر نہ مال و دولت نے بچنا ہے ، نہ حسب و نسب اور جاہ و جلال نے ، نہ بلند و بالا عہدے اور مرتبے کچھ کام آئیں گے اور نہ عالی شان محلات اور جائیدادیں ہماری حفاظت کرپائیں گے ۔
بنا لڑے ، مقابلے اور جنگ کی تمنا رکھے بنا ، ہتھیار اٹھائے بنا ہتھیار ڈال دینا اور ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر مرنے کا انتظار کرنا کیا کسی ایمان والے کا وطیرہ ہوسکتا ہے ؟ ۔ کیا ہمارا مذہب اس اجتماعی خودکشی کی اجازت دیتا ہے ؟ ۔
اگر ایسا ہے تو پھر سب ٹھیک ہے اور سب ٹھیک ہورہا ہے ۔ اور اگر اسلام اور دیگر مذاہب میں انفرادی اور اجتماعی خودکشی کی ممانعت ہے تو پھر کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے ، کچھ بھی ٹھیک نہیں ہورہا ہے ۔
آج ، ہمارا دشمن ہماری نظروں کے سامنے نہیں ہے ۔ آج کی جنگ روایتی نہیں ہے ۔ آج کی جنگ کے حریف اور حلیف ایک دوسرے کے سامنے نہیں ہیں ۔ بلکہ اپنے اپنے مفادات کی Policies کی Implementation کے لئیے Hidden اور خود غرضانہ قدم اٹھا رہے ہیں ۔
اس صورتحال میں ذرا سوچئیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ۔
سچی بات تو یہ ہے کہ موجودہ حالات میں ہم کھڑے تو کیا بیٹھنے اور لیٹنے کی حالت میں بھی نہیں ہیں ۔
جس قوم اور ملک کے نوے فیصد بالغ افراد کی سوچ ہی کشکول زدہ ہو ، کیا عام اور کیا خاص ، کیا غریب کیا امیر ، وہ تو جیتے جی ہی زندہ درگور ہوتی ہے ۔ اور باقی کے دس فیصد دل والے ، دل و جان سے ، جان ہتھیلی پر رکھ کر ، ہمہ وقت ، ہمہ تن ہوکر نوے فیصد لوگوں کی جان بچانے اور انہیں ہر ایمرجنسی میں پیٹ بھر کر کھانا کھلانے میں مصروف رہ کر آخرت کما رہے ہیں ۔ سچ ہے کہ دنیا میں نیکی کمانے کا یہ بہترین ، موثر ترین اور آسان ترین راستہ ہے ۔ Simple And Surest And Shortest Way To Jannat .
مگر فلاح انسانیت اور خدمت خلق میں جوش و خروش سے ملوث و مصروف ادارے اور افراد بھی مملکت پاکستان کی تاریخ کے 73 برسوں میں نوے فیصد عوام کے نو فیصد طبقے کو بھی جدید سائنسی دور اور اس کے مطابق اپنی اور اپنی ذات سے منسلک دیگر لوگوں کو اپنی اپنی زندگیاں بنا کسی مدد اور سہارے کے ، گزارنے کا سلیقہ اور طریقہ نہیں سکھا سکے ۔ اور نہ ہی کسی بھی سطح پر آج تک ایسا کوئی سرکاری یا نجی ادارے یا گروپ کی باضابطہ تشکیل ہو پائی جو آج نیو ورلڈ آرڈر اور اس کے Implementers اور اس کے حملوں اور حربوں کا ، اس کے Level پر آکر اس کا مقابلہ کرسکتا ۔
واضح رہے کہ So Called نیو ورلڈ آرڈر کی ھسٹری 70 سال پرانی ہے ، یہ کوئی دو چار سالہ پرانا منصوبہ نہیں ۔ لگ بھگ پانچ نسلوں نے اپنے اپنے وقت اور اپنے اپنے عہد میں اس ایک نکاتی منصوبے کو آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے ۔ اور کسی Reward یا نام و نمود کی خواہش کے بغیر اپنی پوری پوری زندگیاں اپنے مشن کو پروان چڑھانے میں خرچ کردی ہیں ۔ اور اب دنیا کے اس Elite Group کی لیڈر شب ایسے سرپھروں کے ہاتھ میں ہے جو پوری دنیا پر حکمرانی کے خواب دیکھ رہے ہیں ۔ اور ہماری طرح جذباتیت کے شیرے میں شرابور ہوکر نہیں ۔ بلکہ Logical اور سائینٹیفک گروانڈ پر ۔ Step By Step ۔ ٹھوس اور عملی اور کرخت ۔ Blind And Blunt ۔ ہر قدم باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ ۔ ہر نیا قدم ، پچھلے قدم سے Aligned اور اگلے دس یا بیس یا تیس سال کے بعد کی پراپر Virtual تصویر کشی کے ساتھ ۔
دنیا کے مکمل خاتمے اور آخرت کے قیام سے پہلے ، پوری دنیا پر Hold ۔ اور اس مقصد کے لئیے ہر ممکنہ اور نا ممکنہ طریقے سے دنیا کی آبادی کم سے کم کرکے ، باقی رہ جانے والوں کو Civilized Slaves کی صورت دے کر اپنے مقاصد کے لئیے استعمال کرنا ہے ۔
آج کی جنگ ، اب تک کی جنگوں سے بالکل مختلف اس لئیے ہے کہ اس کے سپریم کمانڈرز ، انسان نہیں بلکہ انسان کے تخلیق کردہ Computers اور کمپیوٹرائزڈ سوفٹ ویئرز ہیں ۔ جن کی مدد سے دنیا کے ذہین ترین انسانوں کی Collective Intelligence سے کئی سو گنا زیادہ ' مصنوعی ذہانت ' کے Softwares کو عملی شکل دی گئی ہے ۔ اور یہی مصنوعی ذہانت یا Artificial Intelligence ، نیو ورلڈ آرڈر کا سب سے خفیہ اور سب سے خطرناک ہتھیار ہے ۔ جس کا ایک ٹریلر ہم سب کرونا وائرس کے دنیا بھر میں پھیلاو کی صورت دیکھ رہے ہیں ۔


" لاک ڈاون " تیسری قسط

نیو ورلڈ آرڈر اور مصنوعی ذہانت کی اصطلاحات مختلف پیراوں میں استعمال کی جارہی ہیں ۔ یا یوں کہہ لیں کہ ' کروائی جارہی ہیں ' ۔ عام تو عام ، خاص الخاص لوگوں کو بھی اس بات کا علم نہیں کہ ایک ہی لفظ یا ایک ہی خیال کو کون کون سے نفسیاتی طریقوں سے انسانی ذہنوں میں پیوست کیا جاتا ہے اور پس پردہ کیا مقاصد چھپے ہوتے ہیں ۔ دراصل اس طرح لوگوں کو Immune کیا جاتا ہے ، مخصوص خیالات اور اصطلاحات کا عادی بنایا جاتا ہے ، Indirect Communication سے Brain Wash کیا جاتا ہے ۔
اور پھر کچھ عرصے بعد ان باتوں یا نظریوں کو اس خاموشی اور خوبصورتی سے زندگی کا حصہ بنا دیا جاتا ہے کہ کیا مخالف ، کیا ہمنوا ، سبھی ان چیزوں کو Part Of The Package جان کر Adopt کرلیتے ہیں یا ان کے استعمال پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔
اسی بات کو لے لیں اس بات کو سمجھنے کے لئیے کہ گزشتہ 3 ماہ میں ، یعنی 26 دسمبر 2019 تا 26 مارچ 2020 تک پوری دنیا میں کرونا وائرس کے Attack سے لگ بھگ 19 ہزار کچھ سو اموات ہوئی ہیں ۔ اور اس وقت یہ وائرس Pandemic کے Status کا حامل ہے ۔ میرے علم میں تو نہیں اور نہ مجھے یہ جاننے کی جستجو کرنی ہے کہ گزشتہ 3 ماہ میں پوری دنیا میں اندازنا کل کتنے لوگ مرے ہوں گے ۔ اور ان سب کی موت کے کیا Causes ہوں گے ۔ یا کون کون سی بیماریاں یا وجوہات ان کی موت کا سبب بنی ہوں گی ۔ آپ میں سے کوئی ضرورت سے زیادہ سرپھرا اگر ہو تو وہ انٹرنیٹ کے ذریعے ذرا یہ Data حاصل کرے اور پھر گزشتہ 3 ماہ میں پوری دنیا میں ہونے والی اموات اور ان کی وجوہات کی Figures کو اسٹڈی کرے تو اسے چند سیکنڈ میں اندازہ ہوجائے گا کہ فی الوقت ، اموات کی وجوہات میں کرونا وائرس کی کیا پرسنٹیج ہے یا کیا Percentile بنتا ہے ۔
حقیقت جان کر آپ کے چودہ طبق روشن ہوجائیں گے ۔ یہ نیو ورلڈ آرڈر کے ان گنت Tools کا سب سے کارگر وار ہے ۔ جسے Psychological Warfare کے خانے میں ڈال کر سمجھا جا سکتا ہے ۔
سائیکولوجیکل وار فئیر ، یعنی اپنے مطلب اور مقصد کے حصول کے لئیے مختلف نفسیات کے حامل افراد کو ان کی نفسیاتی ساخت کے مطابق اس طرح Mould کرنا کہ وہ یہ سمجھیں کہ جو وہ سوچ رہے ہیں ، وہ ان کی اپنی سوچ ہے ۔ اور وہ کسی بیرونی طاقت کے پابند یا غلام نہیں ہیں ، بلکہ ہر طرح سے آزاد ہیں ۔ جبکہ درحقیقت ان کے خیالات اور نظریات ، Computerised نفسیاتی مخصوص نظریے کے تابع ہوچکے ہوتے ہیں ۔ بڑی اور بیرونی قوتیں اس نفسیاتی جنگ کے حربے استعمال کرکے دنیا کی دیگر قوموں کے لوگوں کو اپنے مفادات کے لئیے Use اور Manipulate کر رہی ہیں ۔ اور نیو ورلڈ آرڈر کے ایجنڈے کو کسی جگہ براہ راست اور کسی جگہ Indirect Approach کے ذریعے نافذ کیا جارہا ہے ۔ اور ہر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ یہ سب اس کی بھلائی میں ہورہا ہے یا کیا جارہا ہے ۔
نیو ورلڈ آرڈر کے سائیکولوجیکل وار فئیر کا بنیادی مقصد دنیا بھر کے لوگوں کے ذہنوں کو ڈر ، خوف اور دہشت سے اتنا ماوف اور کمزور کردینا ہے کہ اس جنگ کے اگلے مرحلے میں زندہ بچ جانے والے لوگ ، چوں و چراں کئیے بنا ، نیو ورلڈ آرڈر کے ہر Order کو آنکھیں بند کرکے ماننے پر مجبور ہوجائیں ۔ اور دنیاوی خداوں کی اطاعت میں ہی اپنی عافیت سمجھیں ۔
کیا آپ میں سے کوئی بتا سکتا ہے کہ چین کے شہر ووہان میں پھیلنے والا کورونا وائرس ، ایک ماہ تک محض ووہان میں ہی کیوں رہا ۔ چین کے دیگر بڑی آبادی والے شہروں میں اس کا اثر نہ ہونے کے برابر کیوں رہا ۔ پھر ایک ماہ کے بعد ایک ساتھ اٹلی اور ایران میں کیسے اور کیوں پھیلنے لگا ۔ اور پھر مزید ایک ماہ کے بعد امریکہ ، یورپ ، اور دنیا کے دیگر ممالک میں کیسے نمودار ہوا ۔ کسی کے پاس ان سوالوں کا تسلی بخش جواب نہیں ہوگا ۔
اپنے اپنے قیاس کے گھوڑے دوڑاتے رہیئیے ۔ غور کیجئیے ۔ اس Sequence اور اس Sequel کو Analyse کیجئیے ۔ اگر آپ ایک فیصد بھی مصنوعی ذہانت کے ہم پلہ ہوئے تو کچھ وقت بعد بات کی تہہ تک پہنچ ہی جائیں گے ۔
تین اشارے آپ کے سوئے ہوئے ذہنوں کے لئیے مفت حاضر ہیں ۔ نمبر ایک ۔ ووہان ، چین کا سب سے بڑا انڈسٹریل حب ہے یا یوں کہہ لیں کہ کورونا کی وبا سے پہلے تھا ۔ نمبر دو ۔ اٹلی اور ایران ، مذہبی زیارتوں اور مقدس مقامات کے حوالے سے سال کے ہر موسم میں بیرون ملک سے آنے والے زائرین اور سیاحوں سے بھرے ہوتے ہیں ۔ سوری ۔ وبا سے پہلے بھرے رہتے تھے ۔ نمبر تین ۔ امریکہ اور یوروپی یونین کی معیشت اندرون خانہ ، وبا سے پہلے دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گئی تھی ۔

( جاری ہے )

" لاک ڈاون "
نیا کالم / بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ،
جسمانی ، روحانی ، جنسی اور منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ

www.drsabirkhan.blogspot.com
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
www.g.page/DUAAGO


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں