اتوار، 25 جون، 2023

کتابی چہرہ ۔ نیا کالم / بلاگ ۔ 25/06/23

 " کتابی چہرہ " 

نیا کالم ۔ دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان ۔


ایک زمانہ تھا لوگ ، جوق در جوق ، کتابی چہروں پر دل و جان نچھاور کیا کرتے تھے ۔ ریشمی زلفیں ، غزالی آنکھیں ، صراحی دار گردن ، گلابی ہونٹ ، اور جانے کیا کیا کچھ ۔ شاعروں کے چوبیس گھنٹے حسن و شباب کی مدح و ستائش میں صرف ہوا کرتے ۔ اور باقی ماندہ لوگ شعروں اور غزلوں کو سن سن کر ، پڑھ پڑھ کر اپنے اپنے محبوبوں کو تصور میں لا کر واہ واہ کے نعرے لگایا کرتے ۔ اس وقت بھی لوگوں کے پاس کرنے کو کوئی ڈھنگ کا تو کیا ، بے ڈھنگا کام بھی نہیں ہوا کرتا تھا ۔ جس کو الفاظ کے استعمال پر جتنا زیادہ عبور ہوتا تھا ، وہ استاد کے درجے پر فائز ہوتا تھا ۔ اور جو لفظوں کو نگینوں کی طرح پرونے میں کمال رکھتا تھا وہ استادوں کا استاد کہلاتا تھا ۔ شاعری کا نشہ جس جس کو ڈس لیتا تھا ، اس کی زندگی انتہائی شاعرانہ ہو جاتی تھی اور ایسا شخص پھر کسی بھی کام کا نہیں رہتا تھا ۔ یہاں تک کہ اس کے اپنے کام بھی دوسروں کے مرہون منت ہو جاتے تھے ۔ مرتے دم تک اس کے لرزتے لبوں پر تازہ غزل کے اشعار مچل رہے ہوتے تھے ۔

کسی بھی نشے کی رنگینی یا سنگینی کی شدت کا اندازہ ساعت مرگ پر ہی ہوتا ہے ۔ بوقت مرگ خوبصورت سے خوبصورت ترین کتابی چہرہ مرجھائے ہوئے پھول کی صورت اختیار کر چکا ہوتا ہے ۔ مگر نشے میں غرق شخص کو تب بھی وہ پر کشش لگ رہا ہوتا ہے ۔ 

نشہ کسی بھی شے کا ہو ، کسی بھی شکل میں ہو ، سب سے پہلے ہمارے حواس پر حملہ آور ہوتا ہے ۔ پھر ہماری عقل پر پردہ ڈالتا ہے ۔ پھر ہمارے فہم کو ماؤف کرتا ہے ۔ ہمارے وجود کو کھوکھلا کرنے کے ساتھ ساتھ صحیح اور غلط ، حلال اور حرام کے فرق کو ختم کر ڈالتا ہے ۔ سو دو سو سال پہلے ہمارے معاشرے کے انٹیلیکچوئیلز ، کتابی چہرے اور شعر و شاعری کے دلدادہ تھے ۔ اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے چکر میں اپنی اپنی شاعری میں ایسی ایسی انوکھی ترکیبیں ڈال گئے کہ اردو نصاب کے کروڑوں طالب علموں کو آج بھی ان کی تشریح کے لئیے الفاظ اور زبان کے چناؤ میں ناکوں تلے پسینہ آ جاتا ہے ۔ 

نازکی اس کے لب کی کیا کہئیے 

پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے ۔

اتنے معصومانہ سادہ سے شعر کی تشریح کسی او لیول کے طالب علم سے کروائیے ۔ بلکہ او لیول کو بھی گولی مارئیے ۔ فرسٹ ائیر یا انٹر کے اسٹوڈنٹ سے درخواست کیجئیے ۔ دو گھنٹے بعد آپ اپنا سر کھجا رہے ہوں گے ۔ جو تحریر ، جو تحقیق ، جو تخلیق ، لبوں اور گلابوں کی مماثلت اور تشریح میں الجھی رہے ، الجھاتی رہے ، وہ معاشرے کو کبھی بھی کسی بھی طرح کی ترقی کی راہ پر نہیں لے جا سکتی ۔ واہ واہ اور تالیوں کا شور ، ذہن کے بند خانے نہیں کھولتا ۔ جو تحریر ، جو تحقیق ، جو تخلیق ، کائنات یا نفسیات کے اسرار جاننے ، جانچنے ، کھنگالنے کی ترغیب نہیں دیتی ، وہ کسی نشے سے کم نہیں ہوتی ۔ 

ہم لوگ صدیوں سے نشئی ہیں ۔ ہزارہا سالوں سے ہمارے خون میں حقائق سے فرار کا نشہ بھرا ہوا ہے ۔ کبھی افیم کی شکل میں کبھی شاعری کی شکل میں ۔ ہمارے لئیے ہر مسئلے کا حل راہ فرار ہے ۔ دل کے بہلانے کو کسی بھی مشغلے یا نشے کو پلے باندھ لیتے ہیں ۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ۔ ہم ابھی تک غم یاران اور غم دوراں سے باہر نہیں نکل پائے ۔ 

دنیا نے کتابی چہرہ کو نئی جدید فیس بک کی شکل دے دی ۔ مگر ہم اسے بھی اپنے فرسودہ اور دقیانوسی خیالات اور خواہشات میں رنگنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں ۔ آج دنیا کا ہر انسانی ہر کتابی ہر شہابی ہر ماہتابی چہرہ ہماری نظروں کے سامنے ہے ۔ بلکہ پوری دنیا ہماری ہتھیلی میں سما چکی ہے ۔ مگر ہمارے جینیٹک میک اپ ہمیں نہ دنیا کو سمجھنے دے رہے ہیں نہ انسان کے ذہن کو پڑھنے دے رہے ہیں ۔ ہم ابھی تک شاعری کر رہے ہیں ۔ شاعروں کو رو رہے ہیں ۔ اس سے وقت بچتا ہے تو اپنی اپنی پسند کے سیاست دانوں کی کرپشن کے کارناموں کو جسٹیفائی کرتے رہتے ہیں ۔ اور یا پھر فیس بک کے چہرے کو اپنی جنسیات زدہ ذہنیت سے پراگندہ کرنے میں مصروف رہتے ہیں ۔ 

ہمارے پاس کرنے کو تو درکنار سوچنے کو بھی کچھ نہیں ہے ۔ نہ ایمیجینیشن ، نہ انوویشن ، نہ خواب نہ خیال ۔ لے دیکر ایک پوائنٹ پر سب دل و جاں سے متفق ہیں ۔ ہم فیس بک یا سوشل میڈیا کے کسی بھی چینل سے کیسے کمائیں ۔ دو دن میں دو لاکھ کیسے بنائیں ۔ اپنی صدیوں پرانی فطرت کے ہاتھوں مجبور ہوکر ہر ایک سے بھیک مانگتے رہتے ہیں ۔ ہماری پوسٹ ، ہماری وڈیو کو لائیک کیجئے ۔ شیئر کیجئیے ۔ کومنٹس دیجئیے ۔ ہمارے چینل کو سبسکرائیب کیجئیے ۔ 

لوگوں کو کچھ دینے کی بجائے ہمیشہ ان سے لینے کی خواہش نے اچھے اچھے معقول ، بظاھر اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کے اپنے چہروں کو لالچ سے لال پیلا کر دیا ہے ۔ شہرت کی لالچ ، عزت کی لالچ ، دولت کی لالچ نے ہماری روح کے کتابی چہروں کو داغدار کر دیا ہے ۔ ہم نے علم اور تعلیم کو کمرشلائز کر دیا ہے ۔ گھسی پٹی باتوں یا لطیفوں یا قصوں کہانیوں کو لوگوں کے سامنے لا کر اپنی صلاحیتوں کو بیچنے کا عمل زور و شور سے جاری ہے ۔ بہتے دریا میں ہاتھ دھو لیں ۔ ہر شخص کا فلسفہ حیات بن چکا ہے ۔ ایسے میں زندگی کا کون سا پہلو روشن ہو گا ، کیسے ہوگا ۔ کوئی نہیں سوچ رہا ۔ کوئی نئی سوچ نہیں دے رہا ۔ سب بک رہا ہے ۔ سب بیچ رہے ہیں ۔ فیس بک پر کتابی چہرے نیلام ہو رہے ہیں ۔ طلبگار کوئی نہیں ۔ خریداروں کے انبار سے بازار بھرے ہوئے ہیں ۔ کتابیں اور دل ، دماغ اور روح کے کتابی چہرے خاک میں رل رہے ہیں ۔ اپنے آپ کو ٹٹولئیے ۔ کیا آپ بھی بیوپاری ہیں ۔ کیا آپ بھی شاعری اور سیاست کے رسیا ہیں ۔ کیا آپ بھی فیس بُک پر اسکرولنگ کرتے رہتے ہیں ۔ کیا آپ بھی اپنی وڈیوز کے ویورز اور ویوز بڑھانے کی تگ ودو میں لگے ہوئے ہیں ۔ اگر آپ کا جواب اثبات میں ہے تو یقین کیجئے کوئی تحریر ، کوئی تحقیق ، کوئی تخلیق ، کوئی تحریک آپ کی آنے والی سات نسلوں کا بھی بال بیلا بھی نہیں کر سکے گی ۔ اور آپ اپنے آباء و اجداد کی طرح کتابی چہروں کو اپنی نگاہوں سے میلا کر کے سکون سے اپنے آخری سفر کو نکل لیں گے ۔ نئی نسلوں کو سوچنے اور کرنے کے لئیے کچھ نیا دئیے بنا ۔

منگل، 14 اپریل، 2020

Collateral Damage. ڈاکٹر صابر حسین خان

" COLLATERAL DAMAGE "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

انگریزی فلموں اور ڈراموں کو دیکھنے والے اس اصطلاح سے بخوبی واقف ہوں گے ۔ اردو میں اس کے کئی معنی بیان کئیے گئے ہیں ۔ گو کوئی بھی اس انگریزی دو لفظی لفظ کے حقیقی معنی نہیں بیان کر پاتا ۔ Damage کا مطلب تو واضح ہے ۔ " نقصان " یا " ٹوٹ پھوٹ " ۔ Collateral کو سمجھنے کے لئیے لغوی معنوں کی مدد لیتے ہیں ۔ ' کے برابر ' ۔ ' کی جگہ '۔
' بدلے میں ' ۔ ' کی بجائے ' ۔ ' امر اضافی ' ۔ اور اس طرح کے کئی اور لفظ آپ کو ڈکشنری میں مل جائیں گے ۔ مگر جب ان دونوں لفظوں کو ملا کر ایک دو لفظی لفظ کی شکل دی جاتی ہے ۔ Collateral Damage تو اس کے معنی بڑے عجیب سامنے آتے ہیں ۔ مثلا ڈکشنری میں ایک جگہ اس کی معنی ' خود کش حملہ ' بھی درج ہیں ۔ اور یا پھر معنوں کی بجائے اصطلاح کی تشریح کی گئی ہے ۔ ' نہ چاہنے والا نقصان ' ۔ اور
' فوجی حملے یا فوجی کارروائی کی صورت میں سویلین جان یا مال کا نقصان یا تباہی ' ۔ اور ' کسی بھی ملٹری ایکشن میں غیر ارادی یا غیر اختیاری عام آبادی کی اموات یا مال و دولت کا نقصان ' ۔ اور ' ہدف یا ٹارگٹ کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کی جان کا ضیاع جو نہ نشانہ ہوں اور نہ برہائے راست مخالف یا دشمن ہوں ' ۔ اور اسی طرح کے کئی اور معنی اور تشریحات ۔ اب بھی مفہوم واضح نہ ہو رہا ہو تو آپ خود ڈکشنری کھول کر اپنے لئیے آسان معنی ڈھونڈلیجیئے گا ۔
نوول کورونا COVID 19 وائرس سے اب تک ( نو اپریل 2020 بوقت رات نو بجے ) لگ بھگ ایک لاکھ کے قریب انسان کولیٹرل ڈیمیج کا شکار ہوچکے ہیں ۔ دنیا بھر کے ہر طرح کے ماہرین اپنی اپنی ماہرانہ رائے میں یہی Forecast کررہے ہیں کہ دنیا کو کم از کم اگلے چار ماہ ( جولائی 2020 ) تک مکمل لاک ڈاون میں رہنا ہوگا ۔ اور 2021 تک بھی دنیا میں کہیں بھی آزادانہ آمد و رفت کا کوئی امکان نہیں ۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کرونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد سوا تین کروڑ تک پہنچ سکتی ہے ۔ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ گلوبل اکنامی کی تباہی کے نتیجے میں غربت اور غربت سے نیچے کی لکیر میں رہنے والے کرونا سے نہیں بلکہ بھوک اور قحط سے موت کے گھاٹ اترنے لگیں گے ۔ اور اس طرح مرنے والوں کی تعداد کا اندازہ چھ تا سات کروڑ لگایا جارہا ہے ۔
خدانخواستہ اتنی بڑی تعداد میں اگر انسان مرتے ہیں ۔ خواہ کرونا سے یا بھوک سے ۔ تو دنیا کی قدیم اور جدید تاریخ کا یہ سب سے بڑا Collateral Damage ہوگا ۔ Massive Genocide ۔ اور وہ بھی ایسی جنگ ، ایسے ملٹری ایکشن کے نتیجے میں ، جس میں بظاہر کسی کو نہیں پتہ کہ یہ جنگ کس نے شروع کی ہے ، یہ جنگ کیوں شروع کی گئی ہے ۔ ہر شخص اپنے علم ، اپنے فہم کے مطابق مفروضوں کے غبارے پھلا کر ادھر ادھر پھیلا رہا ہے ۔
یہاں اگر یہ مفروضہ سامنے رکھا جائے کہ درحقیقت اس جنگ کے پہلے خیالی مرحلے کا آغاز تو ستر سال پہلے ہوگیا تھا اور سن 1990 میں مملکت روس کے حصے بخرے ہونے کے فورا بعد دوسرے عملی مرحلے کو شروع کردیا گیا تھا ۔ پہلی گلف وار ۔ پہلا جارج بش سینئیر ۔ کویت اور عراق کو آمنے سامنے کھڑا کرکے ۔ پھر نائن الیون آگیا ۔ سن 2000 ۔ جنگ کے تیسرے مرحلے کی شروعات ۔ جب بہت سے لوگوں نے شاید پہلی بار کولیٹرل ڈیمیج کی اصطلاح سنی ۔ اور اب سن 2020 ۔ کرونا وائرس کی شکل میں انتہائی خفیہ اور خطرناک جنگ کا چوتھا مرحلہ ۔
اور یہ جنگ ہے کیا ۔ یہ جنگ درحقیقت Specific سے Generalised کی طرف کا سفر ہے ۔ اس کا بنیادی ٹارگٹ یا ہدف شروع کے مرحلوں میں Specified ملک ، قومیں اور آبادیاں تھیں ۔ جن کو تباہ و برباد کرنے کے لئیے جو کچھ کیا گیا ، اس کے نتیجے میں کولیٹرل ڈیمیج کی اصطلاح کو زبان زد کروا کر اپنے Actions کو Justify کیا گیا ۔ مگر اب اس چوتھے مرحلے میں کوئی خاص قوم ، آبادی یا ملک دشمن یا ہدف نہیں ہے ۔ بلکہ اس بار Collateral Damage کو ہی نشانہ بنایا گیا ہے ۔ زیادہ سے زیادہ تعداد میں اپنے اپنے لوگوں کو شکار کرکے ، کرونا کے ذریعے ہلاک کرواکے ، اپنی ڈوبتی ہوئی معیشت کو زیرو پر پہنچا کر ، اس خفیہ جنگ کے پانچویں اور چھٹے مرحلوں کی بنیاد رکھی جارہی ہے ۔
خوف اور دہشت پھیلا کر ذہنوں کو ماوف کیا جارہا ہے ۔ جذبوں کو بند دیواروں کے پیچھے دھکیلا جارہا ہے ۔ روحوں کو دائمی اضطراب اور بے سکونی کی نذر کیا جارہا ہے ۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دنیا بھر کے انسانوں کو مذہب اور انسانیت اور روحانیت سے دور کیا جارہا ہے ۔ Indirectly یہ دکھا کر ، یہ بتا کر اور یہ کرکے کہ نعوذ بااللہ کسی بھی مذہب کا خدا یہ قدرت نہیں رکھتا کہ اپنے پیروکاروں کو ایک وائرس سے بچا سکے ۔
یہی نہیں بلکہ اجتماعی مذہبی عبادات اور دعاؤں پر پابندی لگا کر Collective Spiritual And Mind Powers کا راستہ روک دیا گیا ہے ۔ انفرادی دعا اور اجتماعی دعا میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے ۔ دنیا بھر کے ماہرین نفسیات اور ماہرین روحانیت اس نکتے پر متفق ہیں کہ جتنے زیادہ انسانوں کی ذہنی اور روحانی توجہ اور توانائی ایک خاص وقت پر ایک خاص نکتے ہر ایک خاص دعا ایک خاص خیال کے حوالے سے مرتکز ہوگی ، اتنا زیادہ اس خیال ، اس دعا کے پورے ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ۔
اور صرف یہی نہیں بلکہ مائینڈ پاور بڑھانے کے لئیے بھی مختلف مذاہب اور مختلف ثقافتوں میں گروپ موومنٹ کا Concept ہے ۔ یہ ذہنی قوت ، درحقیقت ہماری چھپی ہوئی Spiritual Energy ہوتی ہے ۔ جو گروہ یا گروپ کی شکل میں زیادہ اور زیادہ بہتر طریقے سے چارج ہوتی ہے ۔ اگر گروپ کے سب اراکین ایک مشترکہ مقصد کے حصول کی طلب کا جذبہ رکھتے ہوں اور مل کر مخصوص اوقات میں مخصوص کلمات یا دعاوں کا ورد کرتے ہوں ۔ اور اپنے اللہ سے ایک ہی فریکوینسی میں ایک ہی دعا مانگتے ہوں ۔ تو اس عمل سے جو Magnetic Field پیدا ہوتی ہے ۔ وہ بہت طاقتور Vibrations کا منبع ہوتی ہے ۔ یہ ارتعاش گروہ کے تمام اراکین کے قلب اور روح کی صفائی Cleansing کا بھی باعث بنتا ہے اور اندرونی قوتوں میں اضافہ بھی کرتا ہے ۔ اور جسمانی ، ذہنی اور روحانی Immunity بھی بڑھاتا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ہر مذہب میں اجتماعی عبادات اور دعاؤں Mass Prayers کو خاص طور پر انسان کی فلاح کے لئیے کسی نہ کسی شکل میں لازمی قرار دیا ہے ۔
نیو ورلڈ آرڈر کے حواریوں نے آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ذریعے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو اسی لئیے پروموٹ کیا ہے کہ کمزور اور بیمار انسانوں کو جلد از جلد دنیا سے رخصت کروانے کے ساتھ ساتھ مضبوط اور صحتمند لوگوں کی جسمانی قوت مدافعت کے ساتھ ان کی ذہنی اور قوت مدافعت اور طاقت کو بھی کمزور کردیا جائے ۔ ایک پنتھ ، کئی کاج ۔ تاکہ تاریخ انسانی کی اس بھیانک ترین سازش اور خفیہ ترین جنگ کے چھٹے اور ساتویں Steps اور Stages کی راہ ہموار ہو سکے ۔
اس مرحلے کو اتنا طول دیا جاسکتا ہے ۔ کہ وائرس سے بچ جانے والے لوگ بھوک اور اپنی دیگر ضروریات سے بلبلا اٹھیں ۔ اور ان پر دنیا اتنی تنگ کردی جائے کہ وہ کھڑکی اور روشن دان کھولنے کے لئیے بھی نیو ورلڈ آرڈر کے Implementers کے محتاج ہوجائیں ۔ اور ان کے احکامات اور اشاروں کے بنا سانس بھی نہ لے سکیں ۔
دنیا کی تاریخ میں پہلی بار Collateral Damage کو باقاعدہ اور باضابطہ نشانہ بنایا گیا ہے ۔ اور یہ کام اس خوبصورتی اور مہارت سے کیا گیا ہے کہ دنیا کے 99.9999 فیصد لوگوں کو کانوں کان خبر نہیں ہوسکی کہ کسی جنگ کا کسی بھی قسم کا کوئی حصہ بنے بنا ان کے لئیے Termination Orders جاری کردئیے گئے ہیں ۔ بڑے بڑے ھائی فائی پڑھے لکھے اور حد سے زیادہ علم اور معلومات رکھنے والے بھی ہزار پردوں کے پیچھے کی اس مذموم حرکت کے اصل Motives کو نہ Read کرپائے ہیں اور نہ Evaluate ۔ اور نہ ہی اس مفروضے کو ماننے پر راضی ہیں ۔
کوئی بھی یہ کیوں نہیں سوچ رہا کہ آخر کیوں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ سائنس اور میڈیسن آج اپنے عروج کی آخری منزل پر ہیں ۔ اور جن لوگوں کے ہاتھوں میں قدرت نے اس عروج کے تاج کو تھمایا ہوا ہے ، وہ بھی کیوں اس شدت سے اس بائیوکیمیکل ویپن کے ہاتھوں بظاہر شکست کھاتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں ۔
And This Is New Meaning Of Collateral Damage In The New Dictionary Of New World Order That This Time , Of All Times , The History Of The World Is To Be Rewritten


" COLLATERAL DAMAGE "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ،
جسمانی ، روحانی ، جنسی اور منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ

www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.drsabirkhan.blogspot.com
www.fb.com/drsabirkhan
www.YouTube.com/DrSabirKhan
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
www.drsabirkhan.wordpress.com

بدھ، 8 اپریل، 2020

آئیے کچھ کرتے ہیں ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

" آئیے کچھ کرتے ہیں "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

آئیے ! کچھ ہٹ کر کرتے ہیں ۔ مل بانٹ کر کرتے ہیں ۔ نیا تو نہیں مگر نئی طرح سے کرتے ہیں ۔ کچھ نیا پڑھتے ہیں ۔ کچھ نیا دیکھتے ہیں ۔ کچھ نیا سوچتے ہیں ۔ جو کام ادھورے تھے ، انہیں پورا کرتے ہیں ۔ کچھ ایسا کرتے ہیں جو اب تک کرنے کا سوچتے رہے ہیں ۔
کچھ نئے خواب بنتے ہیں ۔ کچھ عذاب کم کرتے ہیں ۔ نئی امیدوں کا سودا لاتے ہیں ۔ ایک دوجے کی وحشتوں کو ٹھنڈا کرتے ہیں ۔ آنے والے دنوں کی نئی تصویریں بناتے ہیں ۔ پھر ان میں رنگ بھرتے ہیں ۔ دکھوں کو دور کرنے کا سامان ڈھونڈتے ہیں ۔ ہر دل کے درد کا درماں کھوجتے ہیں ۔
آئیے ! کچھ اس طرح سے کرتے ہیں ۔ کچھ اس طرح سے جیتے ہیں ۔ آج اور کل کے جھگڑوں کو چھوڑ کے ، اپنے حال میں جیتے ہیں ۔ نیلے پیلے ، میرے تمہارے مسئلوں سے جان چھڑا کے انسان بن کے رہتے ہیں ۔ صبر کی چادر اوڑھ کر ، شکر کی تسبیح پڑھتے ہیں ۔ سر جھکا کر عاجزی کو اپناتے ہیں ۔ اپنے مرنے سے پہلے اپنی انا کو مار دیتے ہیں ۔ کیا نسب و نام ، کیا جاہ و جلال ، ہر پگڑی اتار پھینکتے ہیں ۔ اپنے ہاتھوں اپنے قلب سے نفرت و عداوت کو مٹا دیتے ہیں ۔ اسی زندگی میں نیا جنم لے لیتے ہیں ۔ مرنے سے پہلے ذرا دیر کو زندہ ہو لیتے ہیں ۔
آئیے کچھ اس طرح کرتے ہیں ۔ روٹھے ہووں کو منا لیتے ہیں ۔ خود پہل کرلیتے ہیں ۔ دشمن کو دوست بنا لیتے ہیں ۔ جو دور ہیں ، ان کو قریب کرلیتے ہیں ۔ جو پاس ہیں ، ان کو عزیز کرلیتے ہیں ۔ جو تنہا ہیں ، ان کی دوریاں دور کردیتے ہیں ۔ تنہائیوں میں روشنیاں گھول دیتے ہیں ۔ اپنی میٹھی میٹھی باتوں کی خوشبو سے اپنے ماحول کو معطر کرلیتے ہیں ۔ کچھ ذرا زیادہ سن لیتے ہیں ۔ کچھ ذرا زیادہ برداشت کرلیتے ہیں ۔ اپنے غم ، اپنے غصے کو ہنستے کھیلتے ختم کرلیتے ہیں ۔
آئیے ! آج کچھ اس طرح کرلیتے ہیں ۔ اپنا دل بڑا کرلیتے ہیں ۔ اوروں کے کام آکے ، اوروں کا بوجھ ہلکا کرلیتے ہیں ۔ آج کے دن خود سے نیا وعدہ کرتے ہیں ۔ قدرت سے جو مہلت جائے ، آج کے بعد اسے اوروں کی خدمت میں خرچ کرتے ہیں ۔ اپنے وقت کا کچھ حصہ ، بنا کسی توقع کے ، اوروں کے لئیے وقف کرلیتے ہیں ۔ اپنے علم میں اوروں کو بھی شامل کرلیتے ہیں ۔ اپنی محنت ، اپنی عبادت میں سے وقت نکال کر ، کچھ نیا سیکھ کر اوروں کو بھی سکھا دیتے ہیں ۔ اپنی توجہ ، اپنی محبت سے اندھیری رات کے مسافروں کو راستہ دکھا دیتے ہیں ۔
کچھ اس طرح کرتے ہیں ۔ مرنے سے پہلے اپنی زندگی کا حساب کتاب کرلیتے ہیں ۔ آخرت سے پہلے ہی خود کو کٹہرے میں کھڑا کردیتے ہیں ۔ دل اور دماغ کو الگ الگ کرکے اپنا محاسبہ کرتے ہیں ۔ اپنے گناہوں کو یاد کرتے ہیں ۔ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا شمار کرتے ہیں ۔ خود کو کمرے میں بند کرکے روتے ہیں ، گڑگڑاتے ہیں ۔ خالق کل کائنات سے معافیاں مانگتے ہیں ۔ آقائے دو جہاں ، حضور پاک ، حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے اپنی عافیت کی دعا مانگتے ہیں ۔ اپنی بخشش پر اصرار کرتے ہیں ۔ درود ابراھیمی پڑھ پڑھ کر زبان خشک کرلیتے ہیں ۔ استغفار کی تسبیح پڑھتے پڑھتے انگلیوں کو تھکا لیتے ہیں ۔ اپنے رب کے سامنے اپنی ذات کے ساتھ ساتھ پوری امت پر رحم و کرم کی درخواست کرتے ہیں ۔
آئیے ! اپنی روح کو صاف کرتے ہیں ۔ اپنی روحانی قوت بڑھاتے ہیں ۔ اپنی سوچ کو انتشار سے بچاتے ہیں ۔ اپنی فکر کو ایک نکتے پر مرتکز کرتے ہیں ۔ اپنے خیال کو اپنے اللہ کے نور سے شرابور کرتے ہیں ۔ اللہ کی رحمت اور برکت کا انتظار کرتے ہیں ۔ آئیے ! اپنے اللہ سے معافی مانگتے ہیں ۔ مرنے سے پہلے ، آج کے بعد ، اللہ کی رضا پر راضی زندگی گزارنے کا ارادہ کرتے ہیں ۔
آئیے ! آزمائش اور امتحان کے ان لمحوں میں اپنے اللہ کو راضی کرتے ہیں ۔

" آئیے کچھ کرتے ہیں "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ،
جسمانی ، روحانی ، جنسی اور منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ

www.drsabirkhan.blogspot.com
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.fb.com/drsabirkhan
www.YouTube.com/DrSabirKhan
www.g.page/DUAAGO

نمائش ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

" نمائش "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

لمبی چوڑی کہانیوں کا سلسلہ اختتام پر ہے ۔ بہت پھیلاو آگیا تھا زندگی میں ، سکڑنے اور سکوڑنے کی مختصر سی کہانی شروع ہوگئی ہے ۔ زمینی خداوں نے دنیا بھر میں تہلکہ مچا رکھا تھا ۔ آسمانی طاقت نے رسی کھینچ لی ہے ۔ سب کو جس جنگ عظیم ترین کا انتظار تھا ، اس کی شروعات ہوچکی ہے ۔ اب کچھ بھی نہیں بچنے والا ۔ اب کچھ بھی پہلے جیسا نہیں ہونے والا ۔ جن لوگوں نے جو کچھ کرنا تھا ، آج سے بہت پہلے کرلیا ۔ اور اپنے اپنے ہوم ورک کے بعد اب پریکٹیکل شروع کردیا ہے ۔
اور ہم ابھی تک سو رہے ہیں ۔ ایک دوسرے سے امداد مانگ رہے ہیں ۔ ایک دوسرے سے امداد لیکر ایک دوسرے کو بانٹ رہے ہیں ۔ اور نیکیاں کما رہے ہیں ۔ یہ جانے بنا ، یہ سوچے بنا ، یہ سمجھے بنا ، کہ اور کہانیوں کی طرح بہت جلد یہ کہانی بھی ختم ہو جانی ہے ۔ جن کے دلوں پر مھر لگ گئی ہو ، وہ تو قارون کی طرح اپنے خزانوں سمیت زمین میں دفن ہوجائیں گے ۔ آزمائش کے ان دنوں میں چار آنے بھی دینے سے قاصر رہیں گے ۔ اور جو دل پر جبر کرکے نمائشی خیرات میں دو چار سکے بھی دیں گے تو دینے سے پہلے فوٹوگرافی سیشنز کا باضابطہ اہتمام ہوگا ۔ پھر ذاتی میڈیا سیل کے نمائندے امداد بانٹنے کی وڈیوز اور تصاویر کو وائرل کریں گے ۔
ایک طرف کے اسکور بورڈ پر ہر لمحے مرنے والوں کی تعداد کی گنتی جاری ہے ۔ تو دوسری طرف امداد تقسیم کرنے والے اپنے اپنے اسکور کو ھائی لائیٹ کر کر کے ابھی تک زندہ بچ جانے والوں کے سامنے لا رہے ہیں ۔
حد سے بھی زیادہ حد ہوچکی ہے ۔
اللہ کا عذاب نازل ہوچکا ہے ۔ مگر ہم ہیں کہ اب بھی خود کو بدلنے کو تیار نہیں ۔ اللہ تعالی نے وضاحت کے ساتھ ہر شے کی نمائش کی ممانعت کی ہے ۔ اور خاص طور پر امداد ، خیرات ، صدقات ، ذکوات کے حوالے سے تو حکم ہے کہ دایاں ہاتھ دے تو بائیں ہاتھ کو علم نہ ہو ۔ اور ہمارا وطیرہ یہ ہے کہ آزمائش کی اس گھڑی میں بانٹ بعد میں رہے ہیں اور تشہیر پہلے کی جارہی ہے ۔ ہر فرد ، ہر جماعت ، ہر فلاحی ادارہ لوگوں سے امداد مانگ کر لوگوں میں تقسیم کررہا ہے ۔ اور بہت فخر سے ہر لمحے اپنا اسکور کارڈ ، اپ ڈیٹ کرکے لوگوں کے سامنے پہنچا رہا ہے کہ اب تک اتنے لاکھ ، اتنے کروڑ کا راشن بانٹا جا چکا ہے ۔ اور دلیل یہ رکھی جارہی ہے کہ نیکی کے ان کاموں کی تشہیر سے اور لوگوں کو بھی ترغیب ہوتی ہے کہ وہ بھی اس کار خیر میں اپنا حصہ ڈالیں ۔
لیکن کیا سب لوگ عبدالستار ایدھی کو بھول گئے ہیں ۔ ابھی سے ۔ جنہوں نے زندگی بھر نہ ذاتی تشہیر کی اور کروائی اور نہ ہی اپنے فلاحی کاموں کی ۔ وہ تمام عمر پاکستان کی عوام کی ہر طرح خدمت کرتے رہے اور عزت سے اس دنیا سے چلے گئے ۔
اور اب ۔ اب نعوذباللہ یہ عالم ہے کہ گنتی کے چار تھیلے بھی گاڑی میں رکھے ہوں تو بھی چار گھنٹے کی لائیو وڈیو ، سوشل میڈیا پر چل رہی ہوتی ہے ۔
یہ نادان کی دوستی ہے ۔ ہم جانے انجانے میں ، اس طرح کی تشہیر اور نمائش کے ذریعے اور زیادہ اللہ تعالی کے قہر کو آواز دے رہے ہیں ۔ اس کڑے وقت میں جو رہی سہی مہلت ملی ہے ، اسے بھی ضائع کررہے ہیں ۔ کیا کسی نے یہ سوچا ہے کہ جو معصوم ، جو مسکین ، جو نادار یہ نمائشی امداد لینے پر مجبور ہے ، اس کے دل ، اس کی عزت نفس پر کیا گزر رہی ہوگی ۔ اور مستحقین کی مدد کے اس عمل میں جو چور اچکے ہڈ حرام اور فراڈئیے اپنی فنکاری دکھا دکھا کر سال سال بھر کا راشن جمع کرکے دوکانوں پر جا جا کر فروخت کررہے ہیں ، ان کو یہ موقع کس نے فراہم کیا ہے ۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ ہم سب اور ہماری پوری قوم اپنی فطرت میں بھکاری ہے ، بھک منگی ہے ، لالچی ہے ، جاہل ہے ، خود غرض ہے ، مطلبی ہے ، تو بھائی لوگوں اگر لوگوں کی اکثریت کی نفسیات اور شخصیت ایسی ہے تو ایسے لوگوں کی مدد کے طور طریقے بھی نارمل سے ہٹ کر ہونے چاہئیں ۔ بصورت دیگر جن لوگوں کو واقعی اور حقیقی مدد کی ضرورت ہوتی ہے ، وہ اس بھیڑ چال میں ہماری مدد سے محروم رہ جاتے ہیں ۔ یاد رکھئیے حقیقی ضرورت مند ، بہت کم کیمروں کے سامنے اپنا ہاتھ پھیلائیں گے ۔ ایسے لوگوں کو ڈھونڈ کر خاموشی سے ان کی مدد کرنا ہی حقیقی نیکی ہوگی ۔
نوٹ : کوشش ہوگی کہ اب ذرا مختصر اور مختلف تحریر لکھی جائے ۔ کہ کہانیوں کی کہانی ختم ہوگئی ہے ۔ وبا اور آزمائش کے ایسے وقت اگر اب بھی چیزوں کو سمیٹا نہ گیا تو آنے والے وقت اور زیادہ مشکل ہونے والے ہیں ۔ اللہ تعالی ہم سب پر اپنا رحم اور کرم کرے اور ہم سب کا ایمان سلامت رکھے ۔ آمین ۔

" نمائش "
نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ،
جسمانی ، روحانی ، جنسی اور منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ

www.drsabirkhan.blogspot.com
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.fb.com/drsabirkhan
www.YouTube.com/DrSabirKhan
www.g.page/DUAAGO

جمعرات، 26 مارچ، 2020

لاک ڈاون ۔ چوتھی قسط ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

" لاک ڈاون " چوتھی قسط
" Economical Pandemic "

نیا کالم/ بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

جی ہاں ! دنیا بھر کے لوگوں کو اپنا غلام بنانے کے لئیے ضروری تھا کہ ان کی آزادی سلب کرلی جائے ۔ نیو ورلڈ آرڈر کے ایجنڈے کا دوسرا خطرناک حربہ اور اس مقصد کے حصول کے لئیے کرونا وائرس کی شکل میں ہولناک حملہ ۔ فرد ہو ، خاندان ہو ، قوم ہو یا ملک ، ہر ایک کی آزادی اس کی معاشی طاقت اور اس کے معاشرتی وسائل پر Dependent ہوتی ہے ۔
سائیکولوجیکل وار فئیر کے ساتھ ساتھ اگر انفرادی اور اجتماعی معیشت پر ضرب لگائی جائے اور مستقل لگائی جاتی رہے تو جلد یا بدیر ہر فرد ، ہر ملک نے گھٹنے ٹیک دینے ہیں ۔ اور چاہنے نہ چاہنے کے باوجود حملہ آور طاقتوں کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا پڑتا ہے ۔
کرونا وائرس کے ذریعے جہاں ایک طرف زمین کا بوجھ ہلکا کرنے کی سازش ہے کہ دنیا بھر میں کمزور قوت مدافعت والے اور بوڑھے ، ضعیف اور بیمار لوگ جو کسی نہ کسی شکل میں Economy پر Burden ہیں ، انہیں آخرت کا پروانہ تھما کر دوسری دنیا کے سفر پر روانہ کردیا جائے ۔ وہاں دوسری طرف دنیا کے ہر ملک کا معاشی طور پر بھٹہ بٹھا دیا جائے ۔ مکمل لاک ڈاون کرکے ۔ معیشت اور معاشرت کے پہیے کو روک کر ۔ ہر کمزور فرد ، ہر کمزور قوم ، ہر کمزور ملک کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود کر کے ۔
اور باقی بچ جانے والوں کو باضابطہ یا بلا ضابطہ اپنے شکنجے میں جکڑ کر اپنا پابند کرکے ۔ اپنا Official یا Unofficial غلام بنا کر ۔ پوری دنیا کے ملکوں کو اپنا اسیر بنا کر ایک نئی Global State یا کالونی کی تشکیل کرکے ۔ کمپیوٹرائزڈ اور ڈیجیٹل ۔ آرٹیفیشل انٹلیجنس کی زیر نگرانی ۔ اور غلاموں کی طرح کی زندگی ۔ باقاعدہ راشن سسٹم کے تحت محض دو وقت کا محدود کھانا کہ اگلے دن نیو ورلڈ آرڈر کے کام کئیے جاسکیں ۔ کوئی آواز بلند کئیے بنا ۔
کورونا وائرس کی وجہ سے حالیہ گلوبل لاک ڈاون ، درحقیقت آئیندہ سالوں میں سامنے آنے والی زندگی کی پریکٹس ہے ۔ لوگوں سے کٹ کر ۔ لوگوں سے دور رہ کر ۔ جانوروں اور غلاموں کی طرح اپنے اپنے کھوکھوں اور پنجروں میں بند ۔ آرٹیفیشل انٹلیجنس کی الف بے جان کر اپنے اپنے گھروں سے اپنے کمپیوٹر یا موبائل فون پر کچھ دو پیسے کما سکتے ہو تو کمالو ۔ ورنہ دنیا سے منہہ موڑ لو ۔
نیو ورلڈ آرڈر میں کمزور ، غریب ، بیمار ، معذور ، کم عقل ، ضعیف اور بیوقوف کی کوئی جگہ نہیں ہے ۔ صرف اور صرف Fittest , Strongest , Intelligent , Powerful , Richest ۔ مارو گے تو خود کو بچاو گے ۔ مار دو یا مر جاو ۔
یہ ایجنڈا ہے نیو ورلڈ آرڈر کا ۔ اور ہم سب سو رہے ہیں ۔ دور جدید کی اس خطرناک جنگ کا مقابلہ کئیے بنا ، سائیکولوجیکل وار فئیر اور بائیوکیمیکل ہتھیاروں کے خفیہ ہاتھوں کو جانے بنا ، ہر چیز ہر بات کو تقدیر کے کھاتے میں ڈال کر ، کسی دوا ، کسی علاج کا سوچے بنا ہر مسئلے ، ہر بیماری ، ہر وبا ، ہر نئے حملے کا حل دعاوں میں ڈھونڈتے ڈھونڈتے خاک میں دفن ہو رہے ہیں ، ہوتے چلے جارہے ہیں ۔
بیشک رزق اور موت اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے ۔ لیکن خودکشی کو حرام قرار دیا گیا ہے ۔ اور حلال رزق کے لئیے گھر بیٹھنے کی بجائے باہر نکل کر محنت اور جستجو کا حکم ہے ۔
اور سب سے بڑھ کر اپنی خودی ، خود داری ، اور آزادی کو زندگی کی آخری سانس تک برقرار رکھنے کی ہدایت ہے ۔
ایمانداری سے سوچئیے ۔ کم از کم اپنے قلب ، اپنے ذہن اور اپنی روح کو لاک ڈاون ہونے سے بچائیے ۔ ہم میں سے کتنے لوگ نیو ورلڈ آرڈر کے ایجنڈے سے واقف ہیں ۔ ہم میں سے کتنے لوگ سائیکولوجیکل وار فئیر کے طور طریقوں کو جانتے ہیں ۔ ہم میں سے کتنے لوگ آج کی جنگ لڑنے اور لڑ کر جیتنے کی اہلیت رکھتے ہیں ۔ ہم میں سے کتنے لوگ آرٹیفیشل انٹلیجنس اور آرٹیفیشل سپر انٹیلیجنس کی ریشہ دوانیوں اور سازشوں سے نپٹنے کے لئیے Equipped اور تیار ہیں ۔
ایک دوسرے کی مدد بہت ضروری ہے ۔ مگر اس نئے محاذ پر لڑنے کی تیاری بھی اتنی ہی ضروری ہے ۔ اپنے پیروں پر کھڑا رہ کر دوسروں کو بھی ان کے پیروں پر کھڑا کرنے کی بھی ذمہ داری ، ضروری ہے ۔
ایک ایسا سرکل ، ایک ایسا گروپ بنانا بھی ضروری ہے جو تن من دھن سے نیو ورلڈ آرڈر اور سائیکولوجیکل وار فئیر اور آرٹیفیشل انٹلیجنس کے Attacks کو Counter کرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہو ۔ اور اپنے مذہب ، اپنی قوم ، اپنے ملک کا دفاع کرنے کی Expertise رکھتا ہو ۔
واضح رہے کہ ہر فرد ہر کام نہیں کرسکتا ۔ ہر فرد ہر کام کی اہلیت نہیں رکھتا ۔ آپ کچھ بھی کرتے ہوں ۔ آپ کچھ بھی کرسکتے ہوں ۔ آپ بہت کچھ کرسکتے ہیں ۔ بس آپ کی نیت میں اخلاص ہونا ضروری ہے اور خود آگہی اور حال اور حالات حاضرہ سے آگاہی ہونا ضروری ہے ۔
گلوبل لاک ڈاون تو اب ہوا ہے ۔ مگر نیو ورلڈ آرڈر کے حوالے سے میں گزشتہ ڈیڑھ دو سال سے گاہے بگاہے انہی صفحات میں آپ سب کو آگاہ کرنے کی کوشش کرتا رہا ہوں ۔ اپنی تمام ذمہ داریوں کو کسی Aid یا کمک کے بنا ، محض اللہ تعالی کی رحمت کے سہارے اپنی پروفیشنل فیلڈ سے ہٹ کر نبھانے کی کوششوں کے بعد جو وقت بچ جاتا ہے ، وہ اسی طرح دیکھنے ، سوچنے اور لکھنے میں گزرتا ہے کہ جو کام میں اکیلے نہیں کرسکتا یا جن کاموں کی مجھ میں اہلیت نہیں ، وہ آپ میں سے کوئی اپنے ذمے لے کر اس کام کو آگے بڑھا سکے ۔
اس موضوع پر انشاء اللہ ، بشرط زندگی ، اور بھی لکھتا اور کہتا رہوں گا ۔ اس موضوع پر پرانی تحریریں پڑھنے کے لئیے یا تو امت کے Archive کی مدد لیں یا میرے سوشل میڈیا کے ان صفحات پر ڈال لیں ۔ وہ بھی اسی وقت ، اگر آپ نئے دور کے نئے تقاضوں کے مطابق اپنے مذہب ، اپنے وطن اور اپنے لوگوں کی بقا کی نیت رکھتے ہوں ۔
آپ ان Links پر گزشتہ Articles پڑھ سکتے ہیں ۔
www.drsabirkhan.blogspot.com
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
اور پھر اس حوالے سے میرے علم میں اضافے کے لئیے ، آپ کے ذہن میں جو کچھ ہو ۔ کوئی بات ، کوئی خیال ، کوئی سوچ ، کوئی آئیڈیا ، کوئی سوال یا جو خواب میں نے آپ کے سامنے رکھا ہے ، اس کے حوالے سے کوئی مشورہ یا پلان ۔ تو مجھ سے ضرور Share کیجئیے گا ۔ اس بہانے مجھے یہ پتہ چل جائے گا کہ جذباتیت اور جذباتی پن کی فضا میں Logical لوگ کتنے فیصد ہیں اور Logician کتنے ۔
وقت ختم ہورہا ہے ۔ آخرت سر پر کھڑی ہے ۔ اللہ تعالی نے ہماری نیت اور ہمارے اعمال کی سچائی کو دیکھنا ہے ۔ ہمارا کام کوشش کرنا ہے ۔ رزلٹ کا فیصلہ ، اللہ کے پاس ہے ۔

" لاک ڈاون " ۔ چوتھی قسط
" ECONOMICAL PANDEMIC "
نیا کالم / بلاگ / مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ،
جسمانی ، روحانی ، جنسی اور منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ

www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.drsabirkhan.blogspot.com
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.g.page/DUAAGO 

۔ لاک ڈاون۔ دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

" لاک ڈاون "
نیا کالم/ بلاگ / مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

' موج بڑھی ، دل ڈوب گیا ، اس دل کو ڈوب ہی جانا تھا ۔ لوگ کہتے ہیں ، یہ قصہ بہت ہی پرانا تھا ' ۔ آج جب ، کچھ دنوں کے وقفے کے بعد کچھ لکھنے بیٹھا ، تو اپنے سینئیر دوست اور استاد ڈاکٹر باقر رضا کا ایک شعر یاد آگیا ۔ جو 35 برس پہلے زمانۂ طالب علمی میں ان کی زبانی سنا تھا اور یاد رہ گیا تھا ۔ کچھ باتیں کتنی بھی پرانی کیوں نہ ہوجائیں ، کسی نہ کسی شکل میں یادداشت کا حصہ بنی رہتی ہیں ۔ اور کبھی کبھی کسی اور حوالے سے خود بخود یاد آجاتی ہیں ۔
کراچی کے رہائشی ، ہماری نسل نے اپنی نوجوانی اور جوانی میں 1985 سے 1995 تک اور پھر 2007 تا 2014 تک ان گنت لاک ڈاون دیکھے اور Face کئیے ہیں ۔ مخصوص علاقوں سے لیکر پورے شہر کی بندش اور قتل و غارت اور دہشتگردی کے چھوٹے اور بڑے واقعات کو دیکھا ، سنا ، بھگتا اور برداشت کیا ہے ۔ کئی کئی دن گھروں میں بند ہوکر گزارے ہیں ۔ کرفیو سے لیکر ہڑتالوں اور آرمی کی گاڑیوں اور دہشت گردوں کی گولیوں سے آنکھ مچولی کھیلنے کا شاید ہی کسی اور پاکستانی کو اتنا تجربہ ہو ۔ جتنا کہ کراچی کے باسیوں کو ہوگا ۔
یہی وجہ ہے کہ وہ 2020 کے لاک ڈاون کو بھی بچوں کا کھیل تماشا سمجھ رہے ہیں ۔ البتہ پاکستان کے دیگر شہروں اور علاقوں کے رہنے والوں کے لئیے یہ شاید پہلا موقع ہوگا ۔ کہ انہیں فی الحال 15 دن تک ( اور نہ جانے کتنے اور دن تک ) Self Quarantine کے لاک ڈاون میں رہنا پڑے گا ۔ کھیل تماشوں ، سیر سپاٹوں ، بازاروں ، بازاری کھانوں اور دوستوں اور محفلوں کے دلدادہ لوگوں کے لئیے تنہائی اور گھر کی قید کا لاک ڈاون موت کی سزا سے کم نہیں ۔ ممکنہ موت سے بچنے کے لئیے اپنی تمام سماجی اور معاشی و معاشرتی سرگرمیوں کو وقتی طور پر معطل کرکے اپنے اپنے گھروں میں بند ہوکر بیٹھ جانا کسی صورت گھاٹے کا سودا نہیں ۔ مگر یہ Logic ، جذباتی پاکستانی عوام کی عقل و سمجھ میں نہیں آرہی ۔ اور شاید کبھی بھی نہ آسکے ۔
دنیا نے بڑی بڑی جنگیں دیکھی ہیں ۔ لاکھوں ، کروڑوں لوگ ان جنگوں میں مرے ہیں ۔ دنیا میں لاکھوں ، کروڑوں بار چھوٹے بڑے قدرت کے عذاب آئے ہیں ۔ اور ان عذابوں اور قدرت کے قہروں نے بھی لاکھوں ، کروڑوں لوگوں اور ہزاروں تہذیبوں اور قوموں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا ہے ۔
لیکن Novel COVD 19 نامی MEN MADE وائرس نے دنیا کی تاریخ میں پہلی بار دنیا کی آٹھ ارب آبادی کے ہر ملک ، ہر تہذیب ، ہر قوم ، ہر فرد کے ہوش اڑا دئیے ہیں ۔ حواس ٹھکانے لگا دئیے ہیں ۔ گو اس سے پہلے بھی مختلف بیماریوں نے بیک وقت دنیا کے لاکھوں ، کروڑوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے ۔ مگر وہ قدرت کی پیدا کردہ تھیں اور ہیں ۔
کرونا وائرس ، نزلہ اور نمونیا کی اس بگڑی ہوئی ناقابل علاج بیماری کو پیدا کرتا ہے ، جس کے پیدا کرنے میں قدرت کا عمل دخل نہ ہونے کے برابر ہے ۔ اس مہلک وائرس کی موجودہ شکل کے ذمہ دار میرے اور آپ جیسے انسان ہیں ۔
موجودہ All Around The World گلوبل لاک ڈاون کے ذمہ دار اور قصور وار چند ہزار ایسے لوگ ہیں ، جن کو میں اور آپ نہیں جانتے اور شاید کبھی جان بھی نہ پائیں ۔ ہماری معلومات بس اتنی ہیں کہ سو برس پہلے 1919 میں پہلی بار اٹلی میں Simple Flu کی ایک جان لیوا بیماری نے جنم لیا تھا جس کو پھیلانے والے وائرس کو ' کرونا ' کا نام دیا گیا تھا ، کیونکہ وہ اٹلی کے شہر Corona میں شدومد سے پھیلا تھا ۔
سو برس بعد Pandemic یعنی دنیا بھر میں پھیلنے اور پھیلاو کا حجم رکھنے والے اس Lethal Virus کو Novel Corona Virus کا ٹائٹل دیا گیا ہے ۔
سو برس پہلے قدرت نے اس وائرس کو انسانوں کے اندر بیماری پیدا کرنے کے لئیے پیدا کیا تھا ۔
مگر پھر پچھلے سو برسوں سے انسانوں کے مخصوص گروپ ، اور ہزاروں ، لاکھوں Viruses اور Bacterias کی طرح کرونا وائرس کی بھی Genetic Mutation میں مصروف رہے ۔ تاکہ اسے بنی نوع انسان کے لیئے اور زیادہ Fatal اور جان لیوا بنا سکیں ۔
دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ Atom Bombs کے استعمال نے کیا تھا ۔ تیسری جنگ عظیم کی شروعات ، کرونا وائرس کی شکل میں وبائے عظیم کے پھیلاؤ سے ہوا ہے ۔ اس بار کی جنگ ، دنیا کی گزشتہ چھوٹی بڑی جنگوں سے Entirely Different ہے ۔
انسانی ذہن اور ذہانت نے لاکھوں سالوں کی Genetic گروتھ کے بعد سائینس اور ٹیکنالوجی کے پردے میں وہ Achievement حاصل کرلی ہے ، جس کا ایک چھوٹا سا ٹریلر ، میں اور آپ ، اس وقت کرونا وائرس کی تباہ کاریوں کی صورت میں دیکھ رہے ہیں ۔
سائیکولوجیکل وار فئیر کے اس دور جدید میں پہلی بار کھلم کھلا Biological Weapon کا استعمال کیا گیا ہے ۔ جس کا Objective محض کسی خاص ملک ، قوم یا تہذیب کے خلاف طبل جنگ بجانا نہیں ہے ۔ بلکہ مکمل طور پر پوری دنیا کو New World Order کے ضابطوں کا پابند بنانا ہے ۔
نیو ورلڈ آرڈر کا قصہ آج کا نہیں ، بہت پرانا ہے ۔ اور گزشتہ 70 سال سے Step By Step مختلف تجرباتی مرحلوں سے گزر کر اور گزار کر آج کے گلوبل لاک ڈاون کے Stage تک پہنچا ہے ۔ یہ سب تجربے اور مراحل اتنی چالاکی اور خاموشی سے عملی شکل میں ڈھالے گئے ہیں کہ شاید ہی کسی ملک کے سوچنے اور سمجھنے والوں کو کچھ پتہ چل پایا ہو ۔ دل کا معاملہ ہو یا دنیا کا ، قصہ پرانا ہوجائے ، اور اس قصے میں سازش شامل ہوجائے تو دل اور دنیا دونوں کے ڈوبنے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے ۔
دنیا بھر کے لوگوں کا دل ان دیکھے دشمن کے مہلک وار سے ڈول رہا ہے ۔ اور دنیا ڈوب رہی ہے ۔

" لاک ڈاون " ۔ دوسری قسط ۔

نیو ورلڈ آرڈر کا ایجنڈا ہم سب کے علم میں ہونا چاہئیے ۔ دشمن سامنے ہو ، دیکھا بھالا ہو تو فرد ہو یا ملک ، اپنی طاقت اور استطاعت کے مطابق تیاری کرتا ہے اور اس کے حملے پر مقابلہ کرتا ہے ۔ لیکن ان دیکھے دشمن کا مقابلہ کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے ۔
نیو ورلڈ آرڈر ، ہم سب اور دنیا کے سب لوگوں کا وہ نادیدہ دشمن ہے ، جو On Screen ہمارے سامنے کچھ اور پیش کررہا ہے اور اسکرین کے پیچھے اس کا مذموم خفیہ طریقہ واردات Multi Layered ہے ۔ اور Multi Targeted ہے ۔ نیو ورلڈ آرڈر کی سازش کے جال کو سمجھنے کے لئیے Multi Faceted ہونا ضروری ہے ۔ کسی ایک میدان کے نام گرامی شہ سوار کے لئیے ممکن نہیں کہ وہ نیو ورلڈ آرڈر کی ہر چال کو جان پائے اور سمجھ پائے ۔ دنیا کے ہر حالیہ اور تاریخی ، عیاں اور نہاں ، انسانی اور الہامی ، منطقی اور غیر منطقی ، سائینسی اور غیر سائینسی ، اکتسابی اور جذباتی ، کتابی اور قلبی ، علم و فکر سے تھوڑی بہت آگاہی اور شناسائی ہو تو حالیہ حالات کا کچھ کچھ ادراک ممکن ہے ۔
اور یا پھر Common Goal رکھنے والے زندگی کے مختلف شعبوں اور علوم کے Masters کا مخصوص گروپ ہو ، جو اپنی اپنی Fields سے متعلق Expertise ایک Pool میں جمع کرکے Inferences نکالنے کی مہارت رکھتے ہوں ۔ اور اپنے تئیں اتنے خود مختار ہوں کہ پھر نیو ورلڈ آرڈر کے ہر ظاہری اور خفیہ Move کو اپنی صلاحیتوں اور اپنے وسائل کی مدد سے Counter کرسکیں ۔
جب تک اس طرح کے Multi Dimensional لوگ یا لوگوں کا گروپ نئی طرح کی جنگوں اور نئی طرح کے حملوں کی صورت میں اپنے لوگوں اور اپنے ملک کے دفاع کی Strategy نہیں بنائیں گے ، تب تک دل ڈوبتے رہیں گے ۔ دنیا یونہی تباہ ہوتی رہے گی ۔
طبل جنگ بج جانے کے بعد بھی جو لوگ ، جو ملک ، خواب خرگوش میں ڈوبے رہتے ہیں ، اپنے Fixed Patterns اور Rituals اور Routines کو ختم کرنے پر راضی نہیں ہوتے ، اپنے Comfort Zones سے باہر نہیں نکلتے ، نہ نکلنا چاہتے ہیں ۔ ان کا اللہ تعالی بھی حافظ نہیں رہتا ۔ قدرت انہی لوگوں کی مدد کرتی ہے جو اپنی مدد آپ کے تحت زندگی بسر کرتے ہیں اور اپنے علم اور وسائل سے ان لوگوں کی مدد میں مصروف رہتے ہیں ، جن کو قدرت نے اپنی مصلحت کے تحت کمزور اور مجبور رکھا ہوا ہوتا ہے ۔
آج کے دور کے تقاضوں اور ان کے حساب سے خود کو علمی اور فکری سطح پر مضبوط اور مربوط نہ رکھنے والے لوگ اور ملک ، سبھی بتدریج کاغذ کے ٹکڑوں کی طرح لیرہ لیرہ ہوکر ہوا میں اڑنے رہے ہیں اور اڑتے چلے جائیں گے ۔ پھر نہ مال و دولت نے بچنا ہے ، نہ حسب و نسب اور جاہ و جلال نے ، نہ بلند و بالا عہدے اور مرتبے کچھ کام آئیں گے اور نہ عالی شان محلات اور جائیدادیں ہماری حفاظت کرپائیں گے ۔
بنا لڑے ، مقابلے اور جنگ کی تمنا رکھے بنا ، ہتھیار اٹھائے بنا ہتھیار ڈال دینا اور ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر مرنے کا انتظار کرنا کیا کسی ایمان والے کا وطیرہ ہوسکتا ہے ؟ ۔ کیا ہمارا مذہب اس اجتماعی خودکشی کی اجازت دیتا ہے ؟ ۔
اگر ایسا ہے تو پھر سب ٹھیک ہے اور سب ٹھیک ہورہا ہے ۔ اور اگر اسلام اور دیگر مذاہب میں انفرادی اور اجتماعی خودکشی کی ممانعت ہے تو پھر کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے ، کچھ بھی ٹھیک نہیں ہورہا ہے ۔
آج ، ہمارا دشمن ہماری نظروں کے سامنے نہیں ہے ۔ آج کی جنگ روایتی نہیں ہے ۔ آج کی جنگ کے حریف اور حلیف ایک دوسرے کے سامنے نہیں ہیں ۔ بلکہ اپنے اپنے مفادات کی Policies کی Implementation کے لئیے Hidden اور خود غرضانہ قدم اٹھا رہے ہیں ۔
اس صورتحال میں ذرا سوچئیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ۔
سچی بات تو یہ ہے کہ موجودہ حالات میں ہم کھڑے تو کیا بیٹھنے اور لیٹنے کی حالت میں بھی نہیں ہیں ۔
جس قوم اور ملک کے نوے فیصد بالغ افراد کی سوچ ہی کشکول زدہ ہو ، کیا عام اور کیا خاص ، کیا غریب کیا امیر ، وہ تو جیتے جی ہی زندہ درگور ہوتی ہے ۔ اور باقی کے دس فیصد دل والے ، دل و جان سے ، جان ہتھیلی پر رکھ کر ، ہمہ وقت ، ہمہ تن ہوکر نوے فیصد لوگوں کی جان بچانے اور انہیں ہر ایمرجنسی میں پیٹ بھر کر کھانا کھلانے میں مصروف رہ کر آخرت کما رہے ہیں ۔ سچ ہے کہ دنیا میں نیکی کمانے کا یہ بہترین ، موثر ترین اور آسان ترین راستہ ہے ۔ Simple And Surest And Shortest Way To Jannat .
مگر فلاح انسانیت اور خدمت خلق میں جوش و خروش سے ملوث و مصروف ادارے اور افراد بھی مملکت پاکستان کی تاریخ کے 73 برسوں میں نوے فیصد عوام کے نو فیصد طبقے کو بھی جدید سائنسی دور اور اس کے مطابق اپنی اور اپنی ذات سے منسلک دیگر لوگوں کو اپنی اپنی زندگیاں بنا کسی مدد اور سہارے کے ، گزارنے کا سلیقہ اور طریقہ نہیں سکھا سکے ۔ اور نہ ہی کسی بھی سطح پر آج تک ایسا کوئی سرکاری یا نجی ادارے یا گروپ کی باضابطہ تشکیل ہو پائی جو آج نیو ورلڈ آرڈر اور اس کے Implementers اور اس کے حملوں اور حربوں کا ، اس کے Level پر آکر اس کا مقابلہ کرسکتا ۔
واضح رہے کہ So Called نیو ورلڈ آرڈر کی ھسٹری 70 سال پرانی ہے ، یہ کوئی دو چار سالہ پرانا منصوبہ نہیں ۔ لگ بھگ پانچ نسلوں نے اپنے اپنے وقت اور اپنے اپنے عہد میں اس ایک نکاتی منصوبے کو آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے ۔ اور کسی Reward یا نام و نمود کی خواہش کے بغیر اپنی پوری پوری زندگیاں اپنے مشن کو پروان چڑھانے میں خرچ کردی ہیں ۔ اور اب دنیا کے اس Elite Group کی لیڈر شب ایسے سرپھروں کے ہاتھ میں ہے جو پوری دنیا پر حکمرانی کے خواب دیکھ رہے ہیں ۔ اور ہماری طرح جذباتیت کے شیرے میں شرابور ہوکر نہیں ۔ بلکہ Logical اور سائینٹیفک گروانڈ پر ۔ Step By Step ۔ ٹھوس اور عملی اور کرخت ۔ Blind And Blunt ۔ ہر قدم باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ ۔ ہر نیا قدم ، پچھلے قدم سے Aligned اور اگلے دس یا بیس یا تیس سال کے بعد کی پراپر Virtual تصویر کشی کے ساتھ ۔
دنیا کے مکمل خاتمے اور آخرت کے قیام سے پہلے ، پوری دنیا پر Hold ۔ اور اس مقصد کے لئیے ہر ممکنہ اور نا ممکنہ طریقے سے دنیا کی آبادی کم سے کم کرکے ، باقی رہ جانے والوں کو Civilized Slaves کی صورت دے کر اپنے مقاصد کے لئیے استعمال کرنا ہے ۔
آج کی جنگ ، اب تک کی جنگوں سے بالکل مختلف اس لئیے ہے کہ اس کے سپریم کمانڈرز ، انسان نہیں بلکہ انسان کے تخلیق کردہ Computers اور کمپیوٹرائزڈ سوفٹ ویئرز ہیں ۔ جن کی مدد سے دنیا کے ذہین ترین انسانوں کی Collective Intelligence سے کئی سو گنا زیادہ ' مصنوعی ذہانت ' کے Softwares کو عملی شکل دی گئی ہے ۔ اور یہی مصنوعی ذہانت یا Artificial Intelligence ، نیو ورلڈ آرڈر کا سب سے خفیہ اور سب سے خطرناک ہتھیار ہے ۔ جس کا ایک ٹریلر ہم سب کرونا وائرس کے دنیا بھر میں پھیلاو کی صورت دیکھ رہے ہیں ۔


" لاک ڈاون " تیسری قسط

نیو ورلڈ آرڈر اور مصنوعی ذہانت کی اصطلاحات مختلف پیراوں میں استعمال کی جارہی ہیں ۔ یا یوں کہہ لیں کہ ' کروائی جارہی ہیں ' ۔ عام تو عام ، خاص الخاص لوگوں کو بھی اس بات کا علم نہیں کہ ایک ہی لفظ یا ایک ہی خیال کو کون کون سے نفسیاتی طریقوں سے انسانی ذہنوں میں پیوست کیا جاتا ہے اور پس پردہ کیا مقاصد چھپے ہوتے ہیں ۔ دراصل اس طرح لوگوں کو Immune کیا جاتا ہے ، مخصوص خیالات اور اصطلاحات کا عادی بنایا جاتا ہے ، Indirect Communication سے Brain Wash کیا جاتا ہے ۔
اور پھر کچھ عرصے بعد ان باتوں یا نظریوں کو اس خاموشی اور خوبصورتی سے زندگی کا حصہ بنا دیا جاتا ہے کہ کیا مخالف ، کیا ہمنوا ، سبھی ان چیزوں کو Part Of The Package جان کر Adopt کرلیتے ہیں یا ان کے استعمال پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔
اسی بات کو لے لیں اس بات کو سمجھنے کے لئیے کہ گزشتہ 3 ماہ میں ، یعنی 26 دسمبر 2019 تا 26 مارچ 2020 تک پوری دنیا میں کرونا وائرس کے Attack سے لگ بھگ 19 ہزار کچھ سو اموات ہوئی ہیں ۔ اور اس وقت یہ وائرس Pandemic کے Status کا حامل ہے ۔ میرے علم میں تو نہیں اور نہ مجھے یہ جاننے کی جستجو کرنی ہے کہ گزشتہ 3 ماہ میں پوری دنیا میں اندازنا کل کتنے لوگ مرے ہوں گے ۔ اور ان سب کی موت کے کیا Causes ہوں گے ۔ یا کون کون سی بیماریاں یا وجوہات ان کی موت کا سبب بنی ہوں گی ۔ آپ میں سے کوئی ضرورت سے زیادہ سرپھرا اگر ہو تو وہ انٹرنیٹ کے ذریعے ذرا یہ Data حاصل کرے اور پھر گزشتہ 3 ماہ میں پوری دنیا میں ہونے والی اموات اور ان کی وجوہات کی Figures کو اسٹڈی کرے تو اسے چند سیکنڈ میں اندازہ ہوجائے گا کہ فی الوقت ، اموات کی وجوہات میں کرونا وائرس کی کیا پرسنٹیج ہے یا کیا Percentile بنتا ہے ۔
حقیقت جان کر آپ کے چودہ طبق روشن ہوجائیں گے ۔ یہ نیو ورلڈ آرڈر کے ان گنت Tools کا سب سے کارگر وار ہے ۔ جسے Psychological Warfare کے خانے میں ڈال کر سمجھا جا سکتا ہے ۔
سائیکولوجیکل وار فئیر ، یعنی اپنے مطلب اور مقصد کے حصول کے لئیے مختلف نفسیات کے حامل افراد کو ان کی نفسیاتی ساخت کے مطابق اس طرح Mould کرنا کہ وہ یہ سمجھیں کہ جو وہ سوچ رہے ہیں ، وہ ان کی اپنی سوچ ہے ۔ اور وہ کسی بیرونی طاقت کے پابند یا غلام نہیں ہیں ، بلکہ ہر طرح سے آزاد ہیں ۔ جبکہ درحقیقت ان کے خیالات اور نظریات ، Computerised نفسیاتی مخصوص نظریے کے تابع ہوچکے ہوتے ہیں ۔ بڑی اور بیرونی قوتیں اس نفسیاتی جنگ کے حربے استعمال کرکے دنیا کی دیگر قوموں کے لوگوں کو اپنے مفادات کے لئیے Use اور Manipulate کر رہی ہیں ۔ اور نیو ورلڈ آرڈر کے ایجنڈے کو کسی جگہ براہ راست اور کسی جگہ Indirect Approach کے ذریعے نافذ کیا جارہا ہے ۔ اور ہر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ یہ سب اس کی بھلائی میں ہورہا ہے یا کیا جارہا ہے ۔
نیو ورلڈ آرڈر کے سائیکولوجیکل وار فئیر کا بنیادی مقصد دنیا بھر کے لوگوں کے ذہنوں کو ڈر ، خوف اور دہشت سے اتنا ماوف اور کمزور کردینا ہے کہ اس جنگ کے اگلے مرحلے میں زندہ بچ جانے والے لوگ ، چوں و چراں کئیے بنا ، نیو ورلڈ آرڈر کے ہر Order کو آنکھیں بند کرکے ماننے پر مجبور ہوجائیں ۔ اور دنیاوی خداوں کی اطاعت میں ہی اپنی عافیت سمجھیں ۔
کیا آپ میں سے کوئی بتا سکتا ہے کہ چین کے شہر ووہان میں پھیلنے والا کورونا وائرس ، ایک ماہ تک محض ووہان میں ہی کیوں رہا ۔ چین کے دیگر بڑی آبادی والے شہروں میں اس کا اثر نہ ہونے کے برابر کیوں رہا ۔ پھر ایک ماہ کے بعد ایک ساتھ اٹلی اور ایران میں کیسے اور کیوں پھیلنے لگا ۔ اور پھر مزید ایک ماہ کے بعد امریکہ ، یورپ ، اور دنیا کے دیگر ممالک میں کیسے نمودار ہوا ۔ کسی کے پاس ان سوالوں کا تسلی بخش جواب نہیں ہوگا ۔
اپنے اپنے قیاس کے گھوڑے دوڑاتے رہیئیے ۔ غور کیجئیے ۔ اس Sequence اور اس Sequel کو Analyse کیجئیے ۔ اگر آپ ایک فیصد بھی مصنوعی ذہانت کے ہم پلہ ہوئے تو کچھ وقت بعد بات کی تہہ تک پہنچ ہی جائیں گے ۔
تین اشارے آپ کے سوئے ہوئے ذہنوں کے لئیے مفت حاضر ہیں ۔ نمبر ایک ۔ ووہان ، چین کا سب سے بڑا انڈسٹریل حب ہے یا یوں کہہ لیں کہ کورونا کی وبا سے پہلے تھا ۔ نمبر دو ۔ اٹلی اور ایران ، مذہبی زیارتوں اور مقدس مقامات کے حوالے سے سال کے ہر موسم میں بیرون ملک سے آنے والے زائرین اور سیاحوں سے بھرے ہوتے ہیں ۔ سوری ۔ وبا سے پہلے بھرے رہتے تھے ۔ نمبر تین ۔ امریکہ اور یوروپی یونین کی معیشت اندرون خانہ ، وبا سے پہلے دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گئی تھی ۔

( جاری ہے )

" لاک ڈاون "
نیا کالم / بلاگ/ مضمون
دعاگو ۔ ڈاکٹر صابر حسین خان

ماہر نفسیات وامراض ذہنی ، دماغی ، اعصابی ،
جسمانی ، روحانی ، جنسی اور منشیات

مصنف ۔ کالم نگار ۔ بلاگر ۔ شاعر ۔ پامسٹ

www.drsabirkhan.blogspot.com
www.fb.com/duaago.drsabirkhan
www.fb.com/Dr.SabirKhan
www.YouTube.com/Dr.SabirKhan
www.g.page/DUAAGO