ہفتہ، 30 جون، 2018

"TODAY'S TRUTH " " آج کا سچ " #DUAAGO #DRSABIRKHAN

آج کا سچ . Today's Truth . ڈاکٹر صابر حسین خان . بہت بار دل نے اکسایا ہے کہ عوامی نفسیات اور روز مرہ زندگی کے حالات اور واقعات پر لکھا جائے اور , اور دیگر معاملات زندگی پر جس طرح مختلف زاویہ نظر سے اپنی بات کو اجاگر کیا جاتا ہے , اسی طرح اپنے ارد گرد رہنے والے معصوم انسانوں اور ان کے معصوم کاموں پر بھی اپنی رائے کا اظہار کیا جائے . مگر ایک الگ نظر , ایک مختلف ڈگر سے . یہ اور بات ہے کہ ہر بار دماغ نے دل کو یہ دلیل دے کر خاموش کرا دیا ہے کہ یہ تمھارا کام نہیں , نہ اس کام کا کوئی حاصل , کوئی فائدہ ہے . اور نہ ہی تمھاری باتوں اور تمھارے مشوروں سے کسی کی سوچ میں تبدیلی آئے گی . سب اپنے مقام پر عالم , فاضل اور علامہ ہیں . سب اپنی ذاتی پسند کے مطابق زندگی گزارنے کے عادی ہیں . جذباتی اور لمحاتی زندگی . سطحی اور سماجی زندگی . ایک عام , مطمئین اور لگی بندھی زندگی . ایسی جذباتی قوم کا کوئی کیا بگاڑ سکتا ہے جو دنیا کی دیگر اقوام سے ذہنی اور منطقی سطح پر لگ بھگ دو سو سال پیچھے ہے اور جسے اپنی ذہنی نشونما کی نہ کوئی پرواہ ہے اورنہ اسے اپنی اس کمی کا کوئی احساس ہے . من موجی , ملنگ صفت , ہمہ وقت مرنے مارنے کے لیئے تیار , نہ ماننے والی , نہ جھکنے والی , کھیل کود اور تماشوں کی شوقین , بحث مباحثے اور کھانے پینے اور باتوں کے لشکاروں کی رسیا, دو پیسوں کے وقتی فائدے کے لئیے اپنی بولی آپ لگانے والی , کبھی کچھ نہ سیکھنے والی , بنا مقصد شب وروز ایک ہی روٹین میں رہنے والی . ایسی قوم کو , کون کچھ سمجھا سکتا ہے , کون کچھ بتا سکتا ہے . جس کو کبھی کوئی نہ کچھ سمجھا سکا ہے , نہ اس کی جذباتیت کو ختم کر پایا ہے . ہر چار پانچ سال بعد کسی کھیل کا ورلڈ کپ ہو یا ملک میں سیاسی الیکشن اور لگ بھگ سو کے قریب سیاسی جماعتوں کے ڈرامے . قوم کا بچہ بچہ نعرے لگانے لگتا ہے . میری پارٹی , میری ٹیم آوے ای آوے . جیتے وی جیتے . کہیں کوئی میرٹ نہیں . محض جذباتی وابستگی . ایسے لوگوں کو لوگ ہزاروں بار لوٹتے رہے ہیں اور ایسے لوگ آج بھی لٹنے کے لیئے تیار بیٹھے ہیں . بولی لگانے والے , ہنر مند فنکار , سیاست دان سب اپنے جال بچھا کر اس جذباتی قوم کا شکار کرنے میں مصروف ہیں . یہ بازار پھر سجا ہے . اور پھر اس قوم کو مزید دو سو سال پیچھے دھکیلنے کی سازش تیار ہے . غور کیجئے , کیا آپ بھی اس جذباتی قوم کا حصہ ہیں , یا اپنے بھولپن میں آپ بھی اس قومی جذباتیت کے دھارے میں بہہ رہے ہیں . یاد رکھئیے, قوموں کی تقدیر کے فیصلے کبھی بھی جذباتی نعروں اور جذباتی وابستگی سے وابستہ نہیں ہوتے . بردباری , فہم و فراست , میرٹ اور دیانتداری ہی انفرادی اور قومی و اجتماعی ترقی کی بنیاد بنتی ہے . ہر قوم ہر طرح کے سیاسی و معاشرتی نظام کی متحمل نہیں ہو سکتی . ہر قوم کی نفسیات الگ ہوتی ہے . ہر قوم کا جینیٹک میک اپ الگ ہوتا ہے . ہر قوم کے مسائل اور وسائل الگ ہوتے ہیں . ہر قوم کی ترجیحات الگ ہوتی ہیں . ہر قوم کی تاریخ , ہر قوم کا جغرافیہ الگ ہوتا ہے . اور پھر سب سے بڑی اور واضح بات یہ کہ ہم نے قدرت کے قانون کا یہ بنیادی اصول کیوں بھلا دیا ہے کہ " ایک ہی لاٹھی سے گدھوں اور گھوڑوں کو نہیں ہانکا جا سکتا " ہمارے ملک کے سیاسی اور معاشرتی نظام کی بنیاد ہی غلط ہے تو پھر اس نظام میں کسی فلاح کسی اصلاح کی توقع رکھنا ہی بیکار ہے . معجزوں کے انتظار میں بیٹھی , یہ قوم دن بہ دن ذہنی اور روحانی تنزل کے مراحل طے کر رہی ہے اور چاہ رہی ہے کہ آسمان سے فرشتوں کی فوج اترے اور جادو کی چھڑی پھیر کے اس کے تمام مسائل حل کر دے . کوئی ایک فرد بھی منطقی اور عقلی طور پر اپنی جذباتیت کو جذبے میں بدلنے کی نہ جستجو کر رہا ہے اور نہ ایسا کرنے کے طور طریقے ڈھونڈ رہا ہے . سب نے اپنی سہولت کے لئے , اپنے ضمیر کو مطمئین کرنے کے لیئے اپنی اپنی کھونٹیاں ڈھونڈ رکھی ہیں اور سکون سے اپنے آپ کو ان کھونٹیوں سے لٹکا کر اپنے اپنے راگ الاپ رہے ہیں . آج کا سچ یہ ہے کہ ہم میں سے کچھ جو عقل سمجھ والے تھے , وہ بہت پہلے ہی اس قوم کو اس کے حال پر چھوڑ کر سات سمندر پار جا بسے ہیں. اور جو کچھ نہیں کر پائے وہ اپنے وسائل اور مسائل کی ڈوریاں سلجھانے میں اس طرح مصروف ہیں کہ اس قوم کی جذباتیت کے بیچ رہتے ہوئے خود بھی تحمل اور شعور کی لگام بار بار چھوڑ بیٹھتے ہیں . اور نتیجے میں ایک ہی دائرے میں گھومتے رہتے ہیں . علم کے بنا نہ شعور کا حصول ممکن ہے اور نہ جذباتیت پر قابو پایا جاسکتا ہے . اور علم , تعلیم اور تربیت کی سیڑھی پر چڑھ کر ہی حاصل ہوتا ہے . علم سے مراد وہ علم نہیں جو آج کل کے مروجہ تعلیمی اداروں میں ڈگریوں کی بندر بانٹ تک محدود ہے . علم کے فقدان نے ہی آج ہماری قوم کو اس حال پر پہنچا دیا ہے کہ ہم صحیح اور غلط کے درمیان فرق کو محسوس نہیں کر پاتے . سیاہ کو سفید سے الگ نہیں کر پاتے . اور وقتی , عارضی اور جذباتی فیصلوں سے اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیئے مستقل عذاب پال لیتے ہیں اور بار بار اپنے سروں پر ایسے لوگوں کو مسلط کر لیتے ہیں جو ہم سے تو درکنار خود اپنے آپ کے بھی وفادار نہیں ہوتے . اور ہمہ وقت خود کو ببیچنے کے لیئے تیار رہتے ہیں . بس بولی بڑی اور تگڑی لگنے کی دیر ہوتی ہے . ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ایسے لوگوں کو جانتے بھی ہیں اور پہچانتے بھی ہیں مگر وجدانی اور منطقی علم نہ رکھنے کی وجہ سے جذباتیت اور جذباتی وابستگی کا شکار ہو کر اندھے ہو جاتے ہیں اور خود کو ایسے فنکاروں اور منافقوں کے جذباتی نعروں کے جال میں الجھا بیٹھتے ہیں . اور اپنی بیوقوفی اور جاھلیت کے باعث اپنے ہاتھوں اپنا حال اور مستقبل تباہ کر لیتے ہیں . مشورہ اسے دیا جا سکتا ہے , نصیحت اسے کی جا سکتی ہے , رائے اسے فراہم کی جا سکتی ہے جو فہم رکھتا ہو اور سطحی باتوں اور نعروں سے متاثر نہ ہوتا ہو . جو جذبے کی دولت سے مالامال ہو مگر جذباتیت اور جذباتی فیصلوں سے خود کو دور رکھتا ہو . اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ازخود مشورے کا طلبگار ہو .

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں