جمعہ، 1 جون، 2018

میرپورخاص سے میرپورخاص تک . دوسری قسط . ڈاکٹر صابر حسین خان

" زندگی کا سفر " . 2 " . ڈاکٹر صابر حسین خان وحشت جب دل , دماغ کے ساتھ روح کی گہرائیوں میں بھی گھر کرلے تو آدمی کسی ویرانے میں پیپل کے درخت کے نیچے جا بیٹھتا ہے اور گوتم بدھ کی طرح دنیا کو ہمیشہ کے لیئے خیر باد کہہ دیتا ہے . اور اگر یہ وحشت انسان کے اندر کہیں پھنس جائے تو اسے تمام عمر کسی جگہ چین نہیں پڑتا . وہ اپنی وحشتوں کی پھانس کے ساتھ ایسے سفر پر روانہ ہو جاتا ہے جس کی کوئی منزل نہیں ہوتی . پڑاو در پڑاو , در بہ در , چہرہ بہ چہرہ , رنگ بہ رنگ , کا تھکا دینے والا تمام عمر کا سفر اس کے اندر کی پیاس ختم کرنے کی بجائے اور بڑھا دیتا ہے . یہ وحشتیں آدمی کو کبھی فلسفی بنا دیتی ہیں اور کبھی فنکار . کبھی شاعر اور کبھی مصور , کبھی یوگی اور کبھی درویش , کبھی مجرم اور کبھی ناصح , کبھی مولوی اور کبھی گناہ گار , اور اگر کبھی کوئی وحشت روح کی سانس گھونٹ دے تو دیوانگی اور پاگل پن مقدر بن جاتا ہے . دنیا کی تاریخ میں انسان نے جب سے علم کا علم اٹھایا ہے , تب سے ہی اس کی روح میں بےچینی اور اضطراب کے بیج پیدا ہوئے . اور جوں جوں اس کا اکتسابی علم بڑھتا گیا , توں توں اس کی وحشتوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا . اکتسابی علم انسان کو کھوج پر اکساتا ہے اور اسے لامتناہی تجسس کے ایسے دائرے میں لا چھوڑتا ہے , جہاں سے باہر نکلنا آسان نہیں ہوتا . ہر نئے انکشاف کا دھواں روح کے آئینے کو اور دھندلا دیتا ہے . روح کے دھندلے آئینوں کی صفائی کا ایک بہترین ذریعہ فطرت اور قدرت کے حقیقی مناظر کے بیچ خاموشی سے اپنے آپ سے مکالمہ کرنا ہوتا ہے . اور ایک لمبا سفر اس کام کے لیئے بہت موثر ثابت ہوتا ہے . پندرہ دن کے مختصر عرصہ میں میرپورخاص کے دو سفر اس حوالے سے میرے لئیے بھی مفید ثابت ہوئے . عملی طور پر علم کے سفر کے لیئے تو میرپورخاص سے اٹھارہ سال کی عمر میں ہجرت کرنی پڑی تھی لیکن گھر اور دل اگلے دس سال تک میرپورخاص میں ہی تھے . اور پھر اگلے پندرہ سال تک میرپورخاص کی شکل تک نہیں دیکھی . اس دوران زندگی کا سفر کئی اور راستوں پر گامزن رہا . دل , دماغ اور روح کی کئی منازل طے ہوتی رہیں . ہر نئی منزل ایک نئی لکیر روح کے آئینے پر ڈالتی رہی . اور وحشتوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا . ایک وہ زمانہ تھا جب ہر دوسرے تیسرے ماہ کندھے پر بیگ ڈال کے 18 روپے کرائے کے دے کے بذریعہ بس میرپورخاص کا سفر ہوا کرتا تھا . اور پھر قدرت نے سفر کی لکیریں مٹا دیں . اور ایک جگہ اس طرح بٹھا دیا کہ جسمانی سفر نہ ہونے کے برابر رہ گیا اور اندر کے سفر کے دائرہ بڑھتا چلا گیا . سفر تو سفر ہوتا ہے . ہمارے اندر کا ہویا ہمارےباہر .مگر بہترین سفر وہ ہوتےہیں جو بیرونی اور اندرونی دونوں دریائوں میں فطرت کا پانی بھرتے ہیں. اور ایسی خوش قسمتی سے قدرت نے شروع سے محروم رکھا ہے الحمداللہ . اور اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس کے بدلے قناعت اور صبر کی وافر دولت سے مالا مال کیا ہے . بات شروع ہوئی تھی میرپورخاص کے سفر سے اور ہوتے ہوتے کہاں سے کہاں پہنچ گئی . اندر اور باہر دونوں طرف کا سفر اگر ایک ساتھ ہو رہا ہو تو ایسا ہی ہوتا ہے . قدم کہیں رک نہیں پاتے . بات کسی ایک نکتے سے شروع ہو کر کسی دوسرے زاویے میں گھوم جاتی ہے . بات ہو رہی تھی میرپورخاص کی . نوجوانی میں شہر کو جس حال میں چھوڑا تھا , تیس سال بعد اسے بڑے برے حال میں پایا . رات میں ایک چکر اپنے پرانے اسکول کا لگایا . گورنمنٹ کمپری ھینسو ھائی اسکول . اور اس کی حالت دیکھ کر قرتہ العین حیدر کے ناول یاد آتے چلے گئے . وقت کیا سے کیا کر ڈالتا ہے . سنا ہے کہ کمپری ھینسو ھائی اسکول اب کالج ہو چکا ہے . لیکن کالج کے کوریڈور میں بکریاں ٹہل رہی تھیں اور درختوں کی کٹی ہوئی لکڑیوں کے گٹھر جگہ جگہ رکھے ہوئے تھے. کلاس رومز کے فرنیچر سے خالی کمرے گھپ اندھیرے میں سائیں سائیں کر رہے تھے. کھیل کے دونوں میدانوں میں کچرے کے ڈھیر ایسے جمع تھے جیسے برسوں سے بچوں کو کھیل کی ضرورت نہ پڑی ہو. پاکستان اسٹڈیز کے پروفیسر غلام رسول مھر کا کونے والا گھر , جہاں ہم اسکول ٹائمنگ میں جا کر ٹی وی پر پاکستان کے کرکٹ میچ دیکھا کرتے تھے , ویران وبیابان , لائین میں بنے دوسرے گھروں کی ویرانی کو اور زیادہ اجاگر کر رہا تھا . میں گاڑی دائیں بائیں گھماتا جا رہا تھا . اور میرے بیٹے کی آنکھیں بھی حیرت سے چاروں طرف گھوم رہی تھیں . " آپ کا اسکول اتنا بڑا ہے ? " وہ بار بار پوچھ رہا تھا . " مگر یہاں اندھیرا کیوں ہے . یہاں لکڑیاں کیوں پڑی ہیں . یہاں اسکول میں بکریاں کون پالتا ہے . " اس کے سوال ختم نہیں ہو رہے تھے اور میرے پاس ایک ہی جواب تھا کہ ابھی ہم رات میں آئے ہیں تو اس لئیے یہ سب کچھ دیکھنےکومل رہا ہے . پھر کبھی انشاءاللہ دن میں آئیں گے تو اسکول لگا ہوا ہو گا اور بچے اپنے اپنے کلاس رومز میں پڑھ رہے ہوں گے . یہ اور بات ہے کہ مجھے خود اپنے جواب کی سچائی پر یقین نہیں تھا . دل میں تو یہی تھا کہ یہ کونسا وقت ہے

1 تبصرہ: